[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(۳)
حضرت تمیم بن حرام کہتے ہیں،میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب کی صحبت میں بیٹھا ہوں۔ میں نے کسی کو حضرت عبداﷲبن مسعود سے زیادہ دنیا سے بے رغبت اور ان سے بڑھ کر آخرت کی خواہش کرنے والا نہیں دیکھا۔مجھے ہر گز پسند نہیں کہ ابن مسعود کے علاوہ کسی شخص کی تربیت میں رہوں۔ رات کو جب لوگ آنکھیں بند کر کے سو جاتے، حضرت عبداﷲ بن مسعود نوافل ادا کرنے کھڑے ہو جاتے۔پست آواز میں تلاوت کرتے تویوں محسوس ہوتا، ان کے گھرمیں شہد کی مکھیاں بھنبنھا رہی ہیں ۔(مستدرک حاکم، رقم ۵۳۷۷) یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا۔ زیادہ رونے کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ موت کو یاد کرتے اور کہتے، آج میری تیاری نہیں، میرا دل چاہتا ہے،مروں تو دوبارہ نہ اٹھوں۔ فرمایا، جو آخرت کو مقصود بناتا ہے، دنیا خراب کر لیتا ہے اور جو دنیا کو مطمح نظر بنا لیتا ہے، اس کی آخرت برباد ہو جاتی ہے۔ لوگو! ہمیشہ رہنے والی آخرت کی خاطر دنیاے فانی کا نقصان برداشت کر لو۔جو دنیامیں ریا کاری اور دکھاوا کرتا ہے، روز قیامت اﷲ بھی اس سے ٹال مٹول کرے گا۔ جو دنیا کی شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے، اﷲ اس کی آخرت میں دنیا ہی کی رسوائیاں لکھ دیتا ہے۔جو بلندیاں پانے کے لیے دوڑتا ہے، اﷲ اسے پست کر دیتا ہے اور جو اﷲ کی خشیت اختیار کرتا ہے، اﷲ اسے بلند کر دیتا ہے ۔ ایک بار یوں نصیحت کی، اﷲ کی قسمت پر راضی ہو جاؤ تو مال دار ترین بن جاؤ گے، حرام کاموں سے بچو تو تقویٰ کی بلند ترین منزلیں پا لو گے، اپنے فرائض ادا کر لو تو سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے۔ کہتے ہیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ، دولت مندی ہویا غربت۔ غربت میں صبر اور تونگری میں تواضع، دونوں اﷲ کے حق ہیں جن کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔میں سمجھتا ہوں، ایک صاحب علم آدمی اپنی کی ہوئی کسی غلطی کی وجہ سے سیکھا ہوا علم بھی بھول جاتا ہے۔علم حاصل کرو،جب یہ حاصل ہو جائے تو عمل پر جت جاؤ۔ علم زیادہ روایات جان لینے کا نام نہیں ، یہ تو خشیت الٰہی ہے۔وہ گھر(دل) جس میں کتاب اﷲ کا کوئی علم نہیں،اصلاًاجاڑ اور بے آبادگھر ہے ۔حامل قرآن کی پہچان یہ ہے کہ جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ، وہ بیدار ہوتا ہے۔سب کھا پی رہے ہوتے ہیں، وہ روزے سے ہوتا ہے،لوگ خوش باش ہوں ،وہ غمگین ہوتا ہے۔سب ٹھٹھا کر رہے ہوں ،وہ گریہ کرتا ہے۔ لوگ مل جل کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں، وہ خاموش ہوتا ہے۔لوگ ڈینگیں مار رہے ہوتے ہیں ، وہ عاجزی سے بیٹھا ہوتا ہے۔ شیطان سورۂ بقرہ کی تلاوت سنتے ہی گھر سے بھاگ نکلتا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ہر جمعرات کے دن لوگوں کوپند و نصیحت کرتے تھے۔ایک شخص نے کہا، ابو عبد الرحمان !میرا دل چاہتا ہے،آپ ہمیں ہرروز وعظ و نصیحت کیا کریں۔انھوں نے جواب دیا ، ایسا کرنے سے مجھے ایک ہی شے روکتی ہے کہ میں تمھیں اکتانا نہیں چاہتا۔میں موقع و محل دیکھ کر تمھیں نصیحت کرتا ہوں جیسا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم اکتا نہ جائیں، نصیحت کرنے میں وقت اور موقع کا لحاظ فرماتے تھے ۔(بخاری، رقم ۷۰) ایک دفعہ وعظ کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا،اپنا دین کسی شخص کے ہاتھ میں نہ دے دینا۔وہ ایمان لائے تو تم لے آؤ،وہ کفر کرے تو تم اس کے پیچھے کفر کا ارتکاب کرو۔اگر پیروی ہی کرنی ہے تو دنیا سے چلے جانے والے کی کرو، کیونکہ زندہ آدمی کا کچھ پتا نہیں ہوتا ،کب فتنے میں مبتلا ہو جائے ۔ ایک موقع پرارشادکیا،اﷲ سے ملاقات ہی مومن کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے ۔جو اس راحت کو پانے کی واقعی آرزو کرتا ہے ، اسے یہ مل جاتی ہے۔ دلوں کی چبھن سے بچ کر رہو، جو شے دل کو کھٹکے چھوڑ دو۔ روے زمین پر زبان ہی ایسی شے ہے جسے لمبی قید ہونی چاہیے۔ ایک خطبے میں کہا، لوگو! تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہو، روزے رکھتے ہو اور ان سے بڑھ کر اجتہاد کرتے ہوپھر بھی وہ تم سے بہتر تھے۔پوچھا، کیوں؟بتایا، وہ دنیا سے بے پروااور آخرت کی رغبت رکھنے والے تھے۔ ایک شخص نے وصیت کرنے کو کہاتو فرمایا،تم اپنے گھر ہی میں کشادگی پاؤ ،اپنی زبان پر قابو رکھو اوراپنی غلطیوں پر گڑگڑاؤ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود نے ایک شخص کو تہ بند لٹکائے ہوئے دیکھا تو کہا ، اپنا تہ بند اونچا کرو۔اس نے کہا، ابن مسعود! اپنا تہ بند تو سنبھال لیں۔کہا،میں تمھاری طرح نہیں،میری پنڈلیاں پتلی ہیں اور میرا رنگ گندمی ہے۔ حضرت عمر تک یہ بات پہنچی تو اس شخص کو ایک ضرب لگائی اور کہا، کیا تو نے ابن مسعود کو جواب دیا؟
حضرت حذیفہ کہتے ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے اہل علم کو معلوم ہے، حضرت عبداﷲبن مسعود اﷲ کے بہت قریب اور کتاب اﷲ کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ایک بار حضرت عمرایک مجلس میں تشریف فرما تھے، حضرت عبداﷲ بن مسعودآئے اور بیٹھنے لگے۔ اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے وہ لوگوں میں چھپ گئے تھے۔ سیدنا عمر ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، واپس ہوئے ،نظروں سے اوجھل ہوئے تھے کہ سیدنا عمر نے کہا، ابن مسعود علم کی زنبیل(کُنیف) ہیں جو علوم و معارف سے لبریز ہے ۔یہ فقرہ انھوں نے تین بار کہا۔ سیدنا عمر کے کہنے کے بعد عبداﷲبن مسعود لفظ کُنیف سے ملقب ہو گئے، یہ لقب محدثین کے ہاں ان کے لیے خاص ہو گیا۔ فتاویٰ ظہیریہ (مرتبہ: ظہیر الدین بخاری، متوفی ۶۱۹ھ) میں ہے کہ یہ لقب خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں عطا کیا تھا۔حضرت علی نے کہا، حضرت عبداﷲ بن مسعودنے قرآن پڑھا ، سنت کا علم حاصل کیا،علم ہی پر اکتفا کر لیااور یہی بہت ہے۔ (مستدرک حاکم، رقم ۵۲۹۲) حضرت عبداﷲ خود بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی زبان مبارکہ سے ستر سورتیں سیکھیں۔ (بخاری، رقم ۵۰۰۰) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا،توپڑھا ہوا بالک ہے۔(مسند احمد، رقم ۳۵۹۹)ابن مسعودبیان کرتے ہیں، ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے سورۂ نساء (۴) سنانے کا حکم دیا۔ میں نے عرض کیا،کیا میں پڑھ کر سناؤں، حالانکہ قرآن توآپ پر نازل ہوا ہے؟فرمایا، میں دوسرے کے منہ سے سنناچاہتا ہوں۔میں نے تلاوت شروع کی۔ جب آیت ’فکیف اذاجئنا من کل امۃ بشہید و جئنا بک علی ہؤلاء شہیدا‘، (۴۱) پرپہنچا تو آپ نے روک دیا،تب آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (بخاری، رقم ۴۵۸۲، مسلم، رقم ۱۸۱۹) حضرت علقمہ شام گئے تو ابوالدردا سے ان کی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا، کیا تمھارے ساتھ وہ صاحب (حضرت عبداﷲبن مسعود) نہیں رہتے جن پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جوتوں ، بستر اور وضو کے پانی کی ذمہ داری تھی، جو راز دان رسالت تھے ؟(بخاری، رقم ۳۷۶۱)
مسروق کہتے ہیں،میں محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ رہا ہوں۔انھیں میں نے ایک ذخیرۂ آب کی مانند پایا ہے جو ایک شخص کو ،دو افراد کو،دس آدمیوں کو، سوانسانوں کوحتیٰ کہ تمام اہل زمین کو سیراب کر سکتا ہے ۔ عبداﷲ بن مسعود ایسا چشمہ ہی تھے۔ابوموسیٰ اشعری سے کسی نے وراثت کا مسئلہ دریافت کیا۔انھوں نے بتا کر تصدیق کے لیے حضرت عبد اﷲ بن مسعود کے پاس بھیج دیا۔ان کے فتویٰ میں غلطی نکل آئی تو کہا، جب تک علامہ ابن مسعود موجود ہیں، مجھ سے استفتانہ کریں۔ (بخاری، رقم ۶۷۳۶)
شام کے لوگ مقداد بن اسود اور ابوالدردا کی سکھائی ہوئی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھتے، اہل عراق اس معاملہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے پیرو تھے ۔ یہ لوگ آپس میں ملتے تواپنی اپنی قراء ت کی فضیلت جتاتے،ان کے اختلافات سن کرنئے ایمان لانے والے تذبذب میں مبتلا ہو جاتے کہ کس قراء ت کو اختیار کریں۔ان حالات میں اندیشہ تھا کہ کوئی نیا فتنہ نہ جنم لے لے۔ اس لیے خلیفۂ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے قرآن مجید کا وہ نسخہ حاصل کیا جو پہلے حضرت ابوبکر پھر حضرت عمرکے پاس رہا اور زید بن ثابت انصاری کو اس کی کتابت کرنے کا حکم دیا ۔انھوں نے اس کی نقلیں کروا کر شام، مصر،کوفہ،بصرہ ، مکہ ا ور یمن بھجوا دیں، ملت اسلامیہ کو اس مصحف پرجمع ہونے اور دیگر قراء توں والے مصاحف کو جلانے کا حکم دیا۔ عبداﷲ بن مسعود سے بھی ان کا مصحف لے کر خاکستر کر دیا گیا۔اس موقع پر انھوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا، مجھے زید بن ثابت کی قراء ت کو اختیار کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اﷲ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سترسے زیادہ سورتیں حاصل کی ہیں۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ جانتے ہیں،میں ان سب سے زیادہ کتاب اﷲ کوجاننے والا ہوں، حالانکہ میں ان میں سے بہترین نہیں۔ (بخاری، رقم ۵۰۰۰، مسلم، رقم ۶۴۱۴)، کسی نے اس بات میں مجھ سے اختلاف نہیں کیا۔ زید بن ثابت صاحب عزو شرف ہیں، تب ان کے سر پر دو چوٹیاں(یاایک چوٹی )ہوتی تھیں اوروہ بچوں سے کھیلا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں کوئی سورت ، کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی اور کب اتری۔اگر مجھے علم ہو جاتا کہ کوئی مجھ سے بھی زیادہ قرآن جاننے والا ہے اور اونٹوں کی سواری مجھے اس تک پہنچا دے گی تو میں ضرور اس کے پاس جاتا۔ (بخاری، رقم ۵۰۰۲، مسلم، رقم ۶۴۱۵) راوی ابووائل کہتے ہیں، میں خلق کثیر میں اٹھا بیٹھا ہوں ،ان میں اصحاب رسول بھی تھے، کسی کو بھی ابن مسعود کے اس دعوے کی تردید کرتے نہیں سنا۔ ایک روایت میں ہے ، حضرت عبداﷲ بن مسعود نے کہا، مجھے مصاحف کی کتابت سے دور رکھا گیا ہے اور یہ کام زید بن ثابت کو سونپ دیا گیا ہے۔میں جب اسلام لایا تھا ،وہ اپنے کافر باپ کے صلب میں تھے، یعنی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔پھر یہ آیت پڑھ کر اہل کوفہ کو اپنے مصاحف چھپانے کا مشورہ دیا، ’ومن یغلل یات بما غل یوم القیٰمۃ‘، اور جو چھپائے گا ،اپنا چھپایا ہواروز قیامت پیش کرے گا (سورۂ آل عمران۳: ۱۶۱) اور کہا، اپنے مصاحف کے ساتھ اﷲ کے سامنے پیش ہو جانا۔ان کے اس عمل کو کئی صحابہ نے پسند نہیں کیا۔ایک روایت میں سیدنا عثمان پر ان کی تنقید کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن محدثین نے اسے انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔ سیدنا عثمان نے زید کو کیوں ترجیح دی؟اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مدینہ میں اور ابن مسعودکوفہ میں مقیم تھے۔ حضرت عبداﷲ ادا (قراء ت) کے امام تھے اور زیدکو رسم قرآن کی مہارت حاصل تھی۔ زید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی وحی کی کتابت کرتے رہے تھے۔سیدنا ابوبکر نے مصحف قرآنی کو یک جا کرنے اور ایک تحریر میں لانے کا ارادہ کیا تو اس کی ذمہ داری انھی کو سونپی۔ذہبی کہتے ہیں،ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود کے مصحف میں کچھ منسوخ آیات شامل تھیں، جبکہ زید کے پاس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا تجویز کردہ آخری نسخہ تھا۔ رجب ۳۹۸ھ میں کچھ شیعہ علما نے قرآن مجید کے ایک نسخے کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ حضرت عبداﷲ بن مسعود کا ہے۔وہ نسخہ تمام مصاحف سے مختلف تھا اس لیے ابوحامد اسفراینی اور دوسرے فقہا نے اسے جلا ڈالنے کا فتویٰ دیا۔جب اسے جلایا گیا تو شیعہ سخت غضب ناک ہوئے ، کچھ نوجوانوں نے اسفراینی پر حملہ کرنا چاہا،بغداد میں لڑائی اور ہنگامہ ہو ا۔آخرکار خلیفہ منصور کی مداخلت سے یہ فتنہ ٹلا۔
ایک رات نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی اہم مسئلے پرسیدنا ابوبکر سے گفتگو فرمائی۔مسجد میں آئے تو سیدنا علی اور سیدنا عمر بھی ساتھ مل گئے۔آپ نے دیکھا کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود نماز میں کھڑے ہیں اور تواتر سے سورۂ نساء پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے ان کی قراء ت سنی اور ارشاد فرمایا ،جسے بھلا لگتا ہے کہ قرآن ویسے ہی (سنے یا) پڑھے جیسے ابھی اترا تو ابن ام عبد (ابن مسعود) کی قراء ت (سنے یا اس)کے مطابق پڑھے۔ نماز کے بعد وہ استغفار کرنے اور دعا مانگنے لگے تو آپ نے فرمایا، مانگو ،دیا جائے گا۔انھوں نے دعا کی، اے اﷲ!میں تم سے وہ ایمان مانگتا ہوں جو لا زوال ہو، ایسی نعمتیں جوبرباد نہ ہوں، آنکھوں کی ٹھنڈک جو ختم نہ ہو اور جنت خلد کے اعلیٰ درجوں میں تیرے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت چاہتا ہوں۔اس بات پر سیدنا عمر حضرت عبداﷲ کو بشارت دینے آئے تو دیکھا کہ سیدنا ابوبکر ان سے پہلے ان کی طرف جارہے ہیں توان سے کہا، آپ نیکی کی طرف خوب لپکتے ہیں۔ (مستدرک حاکم، رقم ۵۳۸۶) بخاری کی روایت ہے، آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، قرآن کریم چار صحابیوں حضرت عبداﷲ بن مسعود، ابوحذیفہ کے آزادکردہ سالم ،ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے سیکھو ۔ (بخاری، رقم ۳۷۵۸،مسلم، رقم ۶۴۱۶) حضرت حذیفہ کی روایت ہے، آپ نے فرمایا، میرے بعد سیدنا ابوبکر و عمر کی پیروی کرنا، عمار بن یاسر کے طریقے پر چلنا اور ابن ام عبد کے عہد کو تھامے رکھنا۔ (ترمذی، رقم ۳۶۶۲) حضرت عبداﷲ بن عباس نے ابوظبیان سے سوال کیا ، دو قراء توں میں ہم کس کواختیار کریں؟ انھوں نے جواب دیا، پہلی قراء ت ابن ام عبد کی ہے۔ابن عباس نے تائید کی ، ہاں!دوسری قراء ت بھی یہی ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر سال ایک بار جبرئیل علیہ السلام کو قرآن پڑھ کر سناتے ،جس سال آپ کی وفات ہوئی ،آپ نے دو مرتبہ قر آن سنایا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود اس موقع پر موجود تھے،انھیں علم تھا،کیا منسوخ ہوا ،کیا تبدیل ہوا۔حج کے موقع پر سیدنا عمرعرفات میں تھے کہ ایک آدمی نے بتایا، میں کوفہ سے آیا ہوں ۔وہاں ایک شخص قرآن پاک زبانی املا کراتا ہے۔ سیدنا عمر کوسخت غصہ آیا، بے قابو ہونے لگے۔ پھر پوچھا ،وہ کون ہے؟ جواب ملا، حضرت عبداﷲ بن مسعود۔ دفعۃًان کا غصہ جاتا رہا۔ پرسکون ہو کر بولے، میرے علم میں ان کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں جسے یہ حق حاصل ہو ۔ابو عبدالرحمن سلمیٰ، عبید بن نضلہ اور چنددوسرے قراء نے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے قرا ء ت روایت کی ہے۔
عہد فاروقی میں ابن مسعود کا وظیفہ چھ ہزار درہم سالانہ مقرر تھا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود نے ۳۲ء یا ۳۳ء میں مدینہ میں وفات پائی۔حارث بن سوید ان کی تیماردار ی کرنے آئے تو ان کو یہ فرمان رسول سنایا، اﷲ اپنے بندۂ مومن کی توبہ سے اس مسافر کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے آخری وقت میں اپنی کھوئی ہوئی سواری اور زادراہ واپس مل جائے۔ (مسلم، رقم ۷۰۵۵) بستر مرگ پر تھے کہ سیدنا عثمان عیادت کے لیے آئے اور پوچھا ،کیا تکلیف محسوس کر رہے ہیں؟ کہا،اپنے گناہوں کا درد ہو رہا ہے۔ سیدنا عثمان نے سوال کیا، کیا آرزو ہے؟ اپنے رب کی رحمت کی تمنا ہے۔انھوں نے کہا، میں آپ کے لیے طبیب کا بندوبست کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ جواب ملا ، طبیب ہی نے مجھے بیمار کیا ہے۔پھر انھوں نے کچھ مال و دولت عطیہ کرنے کی پیش کش کی تو ابن مسعود نے کہا،مجھے اس کی حاجت نہیں۔ سیدنا عثمان نے کہا، یہ آپ کی بیٹیوں کے کام آئے گا۔ جواب دیا،کیا آپ میری بیٹیوں پر غربت آنے کا اندیشہ رکھتے ہیں؟ میں نے انھیں نصیحت کر رکھی ہے کہ ہر رات کو سورۂ واقعہ کی تلاوت کریں۔ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے،’’جو ہر شب سورۂ واقعہ کی تلاوت کرے گا اس پر کبھی فاقہ نہ آئے گا۔‘‘ حضرت عثمان نے یہ بات اس لیے کی، کیونکہ انھوں نے دوسال سے ان کا وظیفہ بند کر رکھا تھا۔ان کی وفات کے بعد حضرت زبیر بن عوام سیدنا عثمان کے پاس آئے اور کہا، عبداﷲ کے وارث وظیفے کی رقم پر زیادہ حق رکھتے ہیں۔ تب سیدنا عثمان نے پندرہ ہزار درہم دیے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خلیفۂ دوم سیدنا عمر کی شہادت کے بعد حضرت عبداﷲبن مسعود اور کوفہ کے کئی مال داروں نے سرکاری وظیفہ لینا ازخودبند کر دیا تھا۔ابن مسعود بغداد کے نواح میں واقع راذان کی جائیداد پر گزارا کرتے رہے۔وفات کے وقت ان کے پاس نوے ہزار مثقال سونا تھا،گھریلوسامان، غلام اور مویشی ان کے علاوہ تھے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود کی نماز جنازہ سیدنا عثمان نے پڑھائی۔ آخری آرام گاہ جنت البقیع میں ہے۔ عمر چھیاسٹھ برس ہوئی۔ ایک شاذ روایت کے مطابق انتقال کوفہ میں ہوا۔ایک دوسری روایت کے مطابق نماز جنازہ زبیر بن عوام نے پڑھائی اور تدفین ان کی وصیت کے مطابق رات کے وقت جنت البقیع میں کی گئی۔ سیدنا عثمان کوتدفین کاعلم نہ ہو سکا تو وہ زبیر پر ناراض ہوئے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود نے بسملہ سے ابتدا کر کے وصیت لکھنا شروع کی۔ حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبداﷲ بن زبیر کواپنا وصی بنایااور کہا،یہ دونوں میرے ترکہ کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے روا ہو گا۔میری بیٹیاں ان کی مرضی ہی سے نکاح کر سکیں گی ،میری بیوہ زینب کو نہ روکا جائے۔ (مستدرک حاکم، رقم ۵۳۷۳) فلاں غلام پانسو درہم ادا کرنے کے بعد آزاد ہو جائے گا۔دوسو درہم کا کفن پہنایا جائے اور عثمان بن مظعون کی قبر کے پاس دفنایا جائے ۔
فقیہ امت حضرت عبداﷲ بن مسعود نحیف و لاغر،پستہ قامت اور سیاہی مائل گندم گوں تھے۔پیٹ بڑا اور ٹانگیں دبلی تھیں۔ بال سرخ اورلمبے تھے جو کانوں تک آتے۔ ان کی لٹیں کانوں پر یا ان کے پیچھے پڑی رہتیں۔خضاب نہ لگاتے تھے۔سفید لباس پہنتے ،عطر لگاتے،ان کے پاس سے ایک مہک سی آتی۔رات کے اندھیرے میں اسی مہک سے ان کو پہچانا جا سکتا تھا۔لوہے کی انگوٹھی پہنتے۔کہتے تھے ، جب سے مسلمان ہوا ہوں،دن چڑھے نہیں سویا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ذہین اور باریک بین تھے۔ ظاہری وضع قطع میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقلید کیا کرتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود انتہائی احتیاط سے اس خوف کے ساتھ فرمان نبوی سناتے کہ کہیں غلط بات منہ سے نہ نکل جائے۔ حدیث روایت کرتے ہوئے ان پر لرزہ طاری ہو جاتااور پیشانی پسینے سے تر ہوجاتی۔(مستدرک حاکم، رقم ۵۳۷۴) کہتے ،شیطان انسانی صورت دھار لیتا ہے اور لوگوں کو جھوٹی باتیں بتاتا ہے۔ پھر سننے والا کہتا ہے، میں نے ایک شخص سے سنا ہے جس کا چہرہ تو یاد ہے لیکن نام نہیں آتا۔ (مسلم، رقم ۱۸) حضرت عمرو بن میمون کہتے ہیں، میں حضرت عبداﷲ بن مسعود کے پاس ایک سال تک جاتا رہا،اس پورے عرصہ میں انھوں نے محض ایک بار ’قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘ کہا۔ تب کرب کی وجہ سے ان کے ماتھے سے پسینہ بہہ رہا تھا۔ان کے شاگرد علقمہ بتاتے ہیں، ابن مسعود ہر جمعرات کی شام کھڑے ہو کر وعظ کرتے۔میں نے انھیں صرف ایک دفعہ ’قال رسول اﷲ‘ کہتے سنا، دیکھا کہ جس عصا سے وہ ٹیک لگائے کھڑے تھے ، لڑکھڑا رہا تھا۔اس کے باوجود تاریخ اسلامی کے کئی اہم واقعات مثلاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا سفرمعراج ان کے روایت کردہ ہیں۔
حضرت عبداﷲبن مسودسے چار سو اڑتالیس احادیث مروی ہیں۔ان میں ایک سو بیس صرف بخاری میں اور پینتیس صرف مسلم میں ہیں جب کہ چونسٹھ احادیث متفق علیہ ہیں، یعنی بخاری و مسلم دونوں میں بیان ہوئی ہیں۔ مکررات شامل کر کے باقی کتب حدیث میں شامل مرویات کی کل تعداد آٹھ سو چالیس ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم، عمر، سعد بن معاذ اور صفوان بن عسال سے حدیث روایت کی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں، ان کے بیٹے، عبدالرحمان اور ابوعبیدہ،ان کے بھتیجے عبداﷲ بن عتبہ، ان کی اہلیہ زینب ثقفیہ،صحابہ میں سے عبداﷲ بن عمر،عبداﷲبن عباس،ابوموسیٰ اشعری، عبداﷲ بن زبیر،ابورافع، ابوشریح خزاعی ، ابوسعیدخدری، جابربن عبداﷲ،انس، ابو جحیفہ،ابوامامہ،ابو طفیل،عمران بن حصین ، عمرو بن حارث، حجاج بن مالک، عبداﷲ بن حارث ، ابوہریرہ،کلثوم بن مصطلق اور طارق بن شہاب ۔ تابعین میں سے علقمہ،اسود، مسروق، ربیع بن خثیم، قاضی شریح، ابووائل شقیق، زید بن وہب،احنف بن قیس، زر بن حبیش، ابوعمرو شیبانی،عبیدہ بن عمرو، عبداﷲ بن شداد،عمرو بن میمون، عمرو بن شرحبیل،مالک بن ابوعامر،مستورد بن احنف، ابواسود دؤلی، عبدالرحمان بن ابو لیلیٰ، قیس بن ابوحازم،ابوعثمان نہدی، حارث بن سوید،عوف بن مالک ،کمیل بن زیاد اور بعی بن خراش۔
حضرت عبداﷲ بن مسعوداچھے خطیب تھے۔ان کے خطبات عمدہ ادب کا نمونہ ہوتے، امثال کا خوب استعمال کرتے۔ خطبا کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا،لوگوں سے اس طرح مخاطب ہو کہ وہ تم پر نظریں گاڑدیں اورکان تمھاری طرف لگا دیں۔ حاضرین کی طرف سے عدم توجہی محسوس کرو تو بات ختم کر دو۔ان کا ایک خطبہ نقل کیا جاتا ہے ۔ ’’سب سے سچا کلام اﷲ کی کتاب،قرآن مجید ہے۔بہترین زاد راہ اور قابل اعتماد ترین شے تقویٰ ہے۔بہترین ملت، ملت ابراہیمی ہے۔ بہترین طریقہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بہترین ہدایت انبیا کی سجھائی ہوئی ہدایت ہے۔ بہترین گفتگو اﷲ کا ذکر ہے ۔سب سے اعلیٰ بیان قرآن مجید ہے۔بدترین کام ہیں جوکتاب وسنت کے بعد گھڑے جائیں ۔ بہترین کام ہیں جو پختہ اورمعتدل ہوں۔جو کلام مختصر ہو اور وضاحت کا محتاج نہ ہو اس گفتگو سے کہیں بہتر ہے جو لمبی ہو اور ذہن کومنتشر کر دے۔ اپنے نفس پر کنٹرول کر کے کج روی سے بچ جاؤتو یہ اس حکمرانی سے بہت بہتر ہے جس میں عدل و انصاف کرنا تمھارے بس سے باہر ہو۔بہترین دولت دل کی بے نیازی ہے۔دل میں جاگزیں ہونے کے لیے یقین ہی بہترین اثاثہ ہے ۔شراب گناہوں کا گٹھا ہے۔عورتیں شیطان کے دام (پھندے) کا کام دیتی ہیں۔ جوانی ایک طرح کا جنون ہے۔تھوڑے(نیک کام) پر اکتفا کرلیناعاجزی اور (نیکی سے) محرومی کی کلید بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ (منافقین) بھی ہیں جو آخری وقت میں آ کر نماز(باجماعت یا نماز جمعہ) میں شامل ہوتے ہیں اور اﷲ کو تھوڑا ہی (مثلاًقسمیں کھانے کے لیے) یاد کر تے ہیں۔ بد ترین جرم جھوٹ کی عادی زبان رکھنا ہے۔بین عمل جاہلیت ہے۔مومن کو گالی دینافسق و کج رائی، اس سے جنگ کرنا کفر اور غیبت کر کے اس کا گوشت کھانا معصیت ہے۔ جو لوگ اﷲ کے بارے میں جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ یوں یا اس طرح کرے گایا فلاں کو دوزخ میں ڈالے گا، اﷲ اس کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیتا ہے۔جو عفو و درگزر سے کام لیتا ہے ،اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ نیکو کاروں کے دیوان میں لکھا ہے،جو معاف کرتا ہے ،اس سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔بد بخت ہے جو ماں کے پیٹ ہی سے بدبختی لے کرآتا ہے۔خوش قسمت ہے جو دوسروں کے انجام سے نصیحت پکڑتا ہے۔معاملات اپنے حتمی نتائج سے یاد رکھے جاتے ہیں۔کسی کام کاخلاصہ یا نچوڑ اس کے انجام میں مضمر ہوتا ہے۔بدترین ملامت ہے جو موت آنے پر کی جائے۔بدترین ندامت ہے جو قیامت کے روز ہو۔ بدترین گمراہی ہدایت پا لینے کے بعد گمراہ ہونا ہے۔بہترین مال داری دل کی تونگری ہے۔بدترین کمائی سود سے حاصل ہونے والی کمائی ہے۔بدترین خوراک یتیم کا مال ہڑپ کرلینا ہے۔ سب سے اعلیٰ موت شہادت پانا ہے۔جو مصیبت کا ادراک کر لیتا ہے ، اسے صبر حاصل ہو جاتا ہے۔ جو صعوبت کو سمجھ نہیں پاتا ،کڑھتا رہتا ہے۔جو شیطان کا کہا مانتا ہے ،اﷲ کی نافرمانی کرتا ہے اور جو اﷲ کی نافرمانی کرتا ہے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔‘‘ جو حضرات خطبے کے اصل عربی متن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں البیان والتبیین ملاحظہ فرمائیں۔
کوفہ میں پندرہ سو صحابہ کی آمد ہوئی اس لیے یہ حدیث اور فقہ کی تعلیم کا اہم مرکز بن گیا۔ خلیفۂ چہارم سیدنا علی کی خلافت کے آخری چار سال کوفہ میں گزرے، ان کے فتووں کا اس شہر میں چرچا ہوا۔یہاں کے دوسرے بڑے فقیہ حضرت عبداﷲ بن مسعود ہوئے ۔ان کے شاگرد حضرت علقمہ بن قیس کو فقہ کے کوفی مکتب فکر کا بانی سمجھا جاتا ہے، علقمہ کے شاگرد ابراہیم نخعی فقہ ابن مسعود سے مالا مال ہوئے پھرحماد بن ابوسلیمان نے ان سے یہ علم پایا۔اسی شہر میں امام ابوحنیفہ نے جنم لیا، وہ اٹھارہ سال حماد کی تربیت میں رہے ۔ انھیں زین العابدین اور جعفر صادق سے بھی تلمذ رہا ۔خود فرماتے ہیں، میں نے چار فقیہ صحابیوں حضرت عمر، علی، ابن مسعود اور ابن عباس کی فقہ الگ الگ ان کے شاگردوں سے سیکھی۔فقہ حنفی کس طرح وجود میں آیا، فقہاے حنفیہ کی وضع کردہ یہ تمثیل خوب وضاحت کرتی ہے۔ حضرت عبداﷲبن مسعود کی تخم ریزی سے یہ مکتب فقہ کاشت ہوا، علقمہ نے آب پاشی کر کے اسے سینچا،ابراہیم نخعی نے اس کی فصل کاٹی، حماد نے چھان پھٹک کر صاف کیا،امام ابوحنیفہ نے چکی میں پیس کر اسے غلہ کی شکل دی،امام ابویوسف نے اس کا آٹا گوندھا اورآخرکار امام محمد نے اس کی روٹی پکائی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی کاشت کردہ فصل سے پکی ہوئی یہی روٹی ہے جو فقہ حنفی کے پیروکار اب تک کھا رہے ہیں۔
’’السنن الکبریٰ‘‘ میں بیہقی نے اور ’’تنقیح‘‘ میں ابن عبد الہادی نے حضرت ابن مسعود کے کمزور حافظے کا ذکر کیا ہے۔ اہل حدیث علما نے اس نکتہ کو خوب اٹھایا ہے، ان کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سوء حفظ کی وجہ سے اپنی روایات میں رفع یدین کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں۔ ’’فقیہ امت‘‘ پر اس الزام کا غلط ہونا اس قدر واضح ہے کہ کسی تردید کی ضرورت نہیں۔
مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،البیان والتبیین (جاحظ)،الجامع المسند الصحیح(بخاری بشرح محمدداؤد راز )،المسند الصحیح المختصر من السنن (مسلم،شرکۃ دار الارقم)، حلےۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء (ابونعیم اصفہانی)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)، البدایہ و النہایہ(ابن کثیر)، الاصابہ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب(ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: A.J.Wensinck)، Wikipedia۔
____________