بَرَآئَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ{۱} فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ{۲} وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ فَاِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌلَّکُمْ وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ{۳} اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا وَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ اِلٰی مُدَّتِھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ{۴} فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواالْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُاالزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۵} وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ{۶}
کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّاالَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ{۷}کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ وَتَاْبٰی قُلُوْبُھُمْ وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ{۸} اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ اِنَّھُمْ سَآئَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۹} لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً وَاُولٰئِٓکَ ھُمُ الْمُعْتَدُوْنَ{۱۰} فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ{۱۱} وَاِنْ نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ اِنَّھُمْ لَا ٓ اَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَ{۱۲}
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَھُمْ وَھَمُّوْابِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَھُمْ بَدَئُ وْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ اَتَخْشَوْنَھُمْ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۱۳} قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ{۱۴} وَیُذْھِبْ غَیْظَ قُلُوْبِھِمْ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۱۵}
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَارَسُوْلِہٖ وَلَاالْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ{۱۶} مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ بِالْکُفْرِ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ وَفِی النَّارِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ{۱۷} اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّااللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ{۱۸} اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ{۱۹} اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَاللّٰہِ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ{۲۰} یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ{۲۱} خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٓٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ{۲۲}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ{۲۳} قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ{۲۴} لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ{۲۵} ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ{۲۶} ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۲۷}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُواالْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآئَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۲۸}
اللہ۱۲۵؎ اور اُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۱۲۶؎۔سو ۱۲۷؎(اے مشرکین عرب)، اب ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ بھی کہ اللہ (اپنے پیغمبر کا) انکار کرنے والوں کو رسوا کرکے رہے گا۔۱۲۸؎ (پھر حج کا موقع آئے تو اِس سرزمین کے) سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑے حج کے دن۱۲۹؎ اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان عام کر دیاجائے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۱۳۰؎۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔ (اے پیغمبر)، اِن منکروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ وہ مشرکین، البتہ (اِس اعلان براء ت سے) مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر اُس کو پورا کرنے میں اُنھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن کی مدت تک پورا کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں۱۳۱؎۔ (بڑے حج کے دن) اِس (اعلان)کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں۱۳۲؎ تو اِن مشرکوں کو جہاں پائو، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔۱۳۳؎پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۱۳۴؎۔یقینا اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔اور اگر (اِس داروگیر کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص تم سے امان چاہے (کہ وہ تمھاری دعوت سننا چاہتا ہے) تو اُس کو امان دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اُس کو اُس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (خدا کی باتوں کو) نہیں جانتے۱۳۵؎۔۱-۶
اللہ اور اُس کے رسول کے ہاں اِن مشرکوں سے کوئی عہد کس طرح باقی رہ سکتا ہے۱۳۶؎؟ ہاں جن لوگوں سے تم نے مسجد حرام کے پاس (حدیبیہ میں) عہد کیا تھا،۱۳۷؎ سو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں، تم بھی اُن کے ساتھ سیدھے رہو،۱۳۸؎ اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں۱۳۹؎ ـ کس طرح باقی رہ سکتا ہے، جبکہ حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر کہیں غلبہ پا لیں تو نہ تمھارے بارے میں کسی قرابت کا لحاظ کریں، نہ کسی عہد کا۱۴۰؎؟ اپنے منہ کی باتوں سے وہ تمھیں راضی کرنا چاہتے ہیں، مگر اُن کے دل انکار کر رہے ہیں اور اُن میں سے اکثر بد عہد ہیں۔ اللہ کی آیتوں کے عوض میں اُنھوں نے تھوڑی قیمت قبول کر لی،۱۴۱؎ پھر اُس کی راہ سے رک گئے ہیں۔ یقینا بہت برا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔کسی مسلمان کے معاملے میں نہ اُنھیں کسی قرابت کا لحاظ ہے، نہ عہد کا اور وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔ سو اگر توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۱۴۲؎۔ہم اُن لوگوں کے لیے اپنی آیتوں کی تفصیل کیے دے رہے ہیں جو جاننا چاہتے ہوں۱۴۳؎۔ اوراُس عہد کے بعد۱۴۴؎بھی جو اُنھوں نے کر رکھا ہے، اگر وہ اپنے قول و قرار توڑ ڈالیں اور تمھارے دین میں عیب لگائیں تو کفر کے اِن سرخیلوں سے بھی لڑو۱۴۵؎۔ اِن کے قول و قرار کچھ نہیں، (اِس لیے آج نہیں تو کل اپنا عہد توڑ دیں گے، لہٰذا لڑو) تاکہ یہ (اِس کفر و شرک سے) باز آجائیں۔۷-۱۲
ـــــــــــــــــــــــــ
(ایمان ۱۴۶؎والو)،کیا اب بھی اُن لوگوں سے نہیں لڑو گے جنھوں نے اپنے قول و قرار توڑ دیے ہیں اورجنھوں نے (اِس سے پہلے) رسول کو (اُس کے وطن سے) نکالنے کی جسارت کی تھی ۱۴۷؎اور وہی ہیں جنھوں نے تم سے جنگ چھیڑنے میں پہل کی۔۱۴۸؎کیا تم اُن سے ڈرتے ہو؟ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تم اُس سے ڈرو، اگر تم فی الواقع مومن ہو۔ اُن سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا ۱۴۹؎اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا۱۵۰؎ اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۱۵۱؎ اور اُن کے دلوں کا غم و غصہ دور فرمائے گا اور (اِن منکروں میں سے) جن کو چاہے گا، اللہ توبہ کی توفیق بھی دے گا۔ اللہ علیم و حکیم ہے۱۵۲؎۔۱۳-۱۵
کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیے جائو گے، دراں حالیکہ اللہ نے اُن لوگوں کو ابھی جانا ہی نہیں جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا اور اللہ اور اُس کے رسول اور اُن کے ماننے والوں کے سوا کسی کو دوست نہیں بنایا۔ ۱۵۳؎(یاد رکھو)،جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔ (تم اِنھیں بیت اللہ کے متولی سمجھتے ہو اور اِسی بنا پر اُن سے ہم دردی رکھتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ)اِن مشرکوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجد وں۱۵۴؎ کا انتظام کریں، دراں حالیکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کے گواہ ہیں۱۵۵؎۔اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ۱۵۶؎اور وہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کا انتظام کرنے والے تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانتے ہوں، نماز کا اہتمام کرتے ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں۱۵۷؎۔یہ لوگ، توقع ہے کہ راہ یاب ہوں گے۔۱۵۸؎ کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کا انتظام کر دینے کو اُن لوگوں کے برابر کر دیا ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ (حقیقت یہ ہے کہ مسجد حرام کے اِن مجاوروں نے اپنے اوپر ظلم ڈھایا ہے) اور (اب) اللہ اِن ظالموں کو راہ یاب نہیں کرے گا۔۱۵۹؎اللہ کے ہاں اُن لوگوں کا درجہ بڑا ہے۱۶۰؎ جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہوں گے۔ اُن کا پروردگار اُنھیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسے باغوں کی بشارت دیتا ہے جن میں اُن کے لیے دائمی نعمت ہے۔ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اجر عظیم اللہ ہی کے پاس ہے۔۱۶-۲۲
ـــــــــــــــــــــــــ
ایمان ۱۶۱؎والو،اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا دوست نہ بنائو، اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو لوگ اُنھیں دوست بنائیں گے، وہی (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے ہوں گے۔ اِن سے کہہ دو ، (اے پیغمبر) کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے؛تمھارے بھائی، تمھاری بیویاں، تمھارا خاندان اور تمھارا وہ مال جو تم نے کمایا ہے اور وہ تجارت جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے وہ گھر جنھیں تم پسند کرتے ہو،۱۶۲؎ یہ سب تمھیں اللہ سے ، اُس کے رسول سے اور اُس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں۱۶۳؎ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۱۶۴؎ اور (جان لو کہ) اِس طرح کے بد عہدوں کو اللہ راہ یاب نہیں کرے گا۱۶۵؎۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمھاری مدد کی ہے۔ ابھی حنین کے دن بھی، جب تم اپنی کثرت پر اترا رہے تھے۔ پھر وہ کثرت تمھارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ پھر تم پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ بالآخر اللہ نے اپنے رسول پر اور اُس کے ماننے والوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی ا۱۶۶؎ور (اُن کی مدد کے لیے) ایسی فوجیں اتاردیں جنھیں تم نے نہیں دیکھا ۱۶۷؎اور اُن لوگوں کو سزا دی جو (پیغمبر کے) منکر ہیں، اور اِس طرح کے منکروں کی یہی سزا ہے۱۶۸؎۔ پھر (دیکھ چکے ہو کہ) اللہ اِس کے بعد جس کو چاہتا ہے، توبہ کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۱۶۹؎۔۲۳-۲۷
ایمان والو، یہ مشرکین بالکل ناپاک ہیں، لہٰذا اپنے اِس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے پاس نہ پھٹکنے پائیں ۱۷۰؎اور(اِس کے نتیجے میں) اگر تمھیں تنگ دستی کا اندیشہ ہے تو (مطمئن رہو)، اللہ چاہے گا تو عنقریب اپنے فضل سے تمھیں غنی کر دے گا ۔۱۷۱؎ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ علیم و حکیم ہے۱۷۲؎۔۲۸
۱۲۵؎ اِس سورہ کی ابتدا میں ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ نہیں لکھی جاتی۔ اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ سورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین پر اُس عذاب کا اعلان کیا گیا ہے جو پیغمبروں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کے منکرین پر لازماً آتا ہے۔ خدا کی زمین پر یہ اُس کی آخری دینونت کی سرگذشت ہے جس میں مشرکین کے قتل عام اور اہل کتاب کو محکوم بنا لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ کی ابتدا جن الفاظ سے ہوئی ہے، اُن کے ساتھ کسی طرح موزوں نہیں تھا کہ خدا کی رحمت و شفقت کا حوالہ دیا جائے۔ یہ خدا کے جلال اور قہر و غضب کے ظہور کا موقع ہے، اِس لیے ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ سے ابتدا نہیں کی گئی۔
۱۲۶؎ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیا گیا ہے، وہ کسی حق کی بنیاد پر نہیں ہے،بلکہ محض امتحان کے لیے ہے۔ پیغمبروں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہ امتحان پورا ہو جاتا ہے تو یہ ضرورت بھی اِس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے کہ اُنھیں باقی رکھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین اب اِسی مقام پر پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ آگے جس قتل عام کا حکم دیا گیا ہے، وہ خدا کی اِس سنت کا ظہور ہے کہ رسولوں کے مخاطبین اُن کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اِسی دنیا میں عذاب سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اِس عذاب کا فیصلہ بھی خدا کرتا ہے اور جن پر یہ نازل کیا جاتا ہے، وہ بھی خدا کی طرف سے متعین کرکے بتا دیے جاتے ہیں۔ کوئی شخص ، یہاں تک کہ خدا کا پیغمبر بھی اپنی طرف سے اِس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ سورئہ توبہ اِسی فیصلے کا اعلان ہے۔ تاہم اخلاقی لحاظ سے ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے ساتھ تبلیغ و دعوت اور اتمام حجت کی مصلحت سے معاہدے کر رکھے ہیں ، کسی اقدام سے پہلے اُنھیں ختم کر دیا جائے۔ یہ اُنھی معاہدات سے براء ت کی گئی ہے۔ آیت میں لفظ ’بَرَآئَ ۃ‘ کے بعد ’اِلٰی‘ ہے۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ’ابلاغ‘کا مفہوم بھی مضمر ہے ۔ یعنی اِس دست برداری کی اطلاع اُن تک پہنچا دی جائے۔
۱۲۷؎ یہاں سے خطاب میں تبدیلی ہوئی ہے اور اُس کا رخ براہ راست مشرکین کی طرف ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلی بتا رہی ہے کہ اِس دھمکی کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک فیصلہ کن دھمکی ہے جس کے نتائج اب پوری قطعیت کے ساتھ سامنے آنے والے ہیں۔
۱۲۸؎ عذاب سے پہلے چار ماہ کی یہ مہلت کب دی گئی؟ اِس کی کوئی حتمی تاریخ تو متعین نہیں کی جا سکتی۔ تاہم آگے کی آیتوں سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اُس وقت دی گئی، جب قریش کی طرف سے معاہدۂ حدیبیہ کی کوئی خلاف ورزی ابھی نہیں ہوئی تھی۔
۱۲۹؎ اِس سے مراد حج ہی ہے۔ اہل عرب عمرے کو حج اصغر اور اِس کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہتے تھے۔
۱۳۰؎ مطلب یہ ہے کہ چارماہ کی جو مہلت اوپر دی گئی ہے، اُس کے گزر جانے کے بعد اُن لوگوں کی داروگیر شروع کر دی جائے جن تک اعلان براء ت کی اطلاع پہنچانا ممکن ہو۔ اِس کے بعد حج کے دن کا انتظار کیا جائے۔ اِس میں ملک کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوں گے جن کی وساطت سے یہ اطلاع سرزمین عرب کے باقی سب لوگوں تک بھی پہنچا دی جائے کہ اللہ و رسول نے مشرکین سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے۔ خدا کی طرف سے جو مہلت اُنھیں ملی ہوئی تھی، اُس کی مدت پوری ہو گئی ہے۔وہ اب عذاب کی زد میں ہیں۔ چنانچہ تمام معاہدات ختم کر دیے گئے ہیں اور آیندہ بھی اُن کے ساتھ کسی معاہدے کا امکان باقی نہیں رہا۔ اِس میں ضمناً یہ بشارت بھی ہے کہ عنقریب وہ موقع آنے والا ہے، جب مسلمان حج بھی کریں گے اور منکرین پر ایسا غلبہ بھی حاصل کر لیں گے کہ حج کے موقع پر اِس طرح کا اعلان کر سکیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ۹؍ہجری میں اِس حج سے سعادت اندوز ہوئے۔ یہ حج سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائیں جس سے پورے عرب کے مشرکین تک اطلاع پہنچانے کا اہتمام کر دیا گیا*۔
۱۳۱؎ یہ اُن معاہدوں کا بیان ہے جو مذکورہ اعلان سے مستثنیٰ تھے۔ مدعا یہ ہے کہ غیر موقت معاہدے تو مہلت کی مدت گزر جانے کے فوراً بعد ختم ہو جائیں گے۔ اِسی طرح وہ معاہدے بھی ختم ہو جائیں گے جو اگرچہ موقت تھے، مگر فریق ثانی کی طرف سے اُن کی خلاف ورزی ہو چکی ہے۔ لیکن ایسے موقت معاہدے جن کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اُنھیں ختم نہیں کیا جائے گا، بلکہ قراردادہ مدت تک برقرار رکھا جائے گا۔ مدت گزر جانے کے بعد، البتہ وہ بھی کالعدم ہوں گے اور جن مشرکین سے کیے گئے تھے، اُن کی داروگیر بھی اُسی طرح شروع ہو جائے گی، جس طرح حکم دیا گیا ہے۔
۱۳۲؎ اِس سے وہ چار مہینے مراد نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، بلکہ وہی مہینے مراد ہیں جنھیں اصطلاح میں اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ یہ تعبیر اِن مہینوں کے لیے بطور اسم و علم استعمال ہوتی ہے، اِس لیے عربیت کی رو سے کوئی اور مہینے مراد نہیں لیے جا سکتے۔ حج اکبر کے موقع پر جس اعلان کے لیے کہا گیا ہے، اُس کے بعد ۲۰ دن ذوالحجہ اور ۳۰ محرم کے باقی ہوں گے۔ یہ اُنھی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اِن دنوں میں چونکہ جنگ و جدال ممنوع ہے، اِس لیے یہ جب گزر جائیں تو اِس اعلان کے نتیجے میں جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہو، اُن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے، اِس سے پہلے کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ ذوالحجہ اور محرم کے پچاس دنوں کے لیے یہ تعبیر بالکل اُسی طرح اختیار کی گئی ہے، جس طرح ہم اپنی زبان میں بعض اوقات نومبر یا دسمبر کے مہینے میں کہتے ہیں کہ یہ سال گزر جائے تو فلاں کام کیا جائے گا۔
۱۳۳؎ یہ قتل عام کا حکم ہے جو مشرکین عرب کے لیے اُسی طرح کا عذاب تھا جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کے مخاطبین پر ہمیشہ نازل کیا جاتا رہا ہے۔
۱۳۴؎ یعنی خدا کے اِس عذاب سے بچنے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ کفر و شرک سے توبہ کرکے اسلام قبول کر لیں، اِس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے ایمان و اسلام کی شہادت کے طور پر وہ نماز کا اہتمام کریں اور ریاست کا نظم چلانے کے لیے اُس کے بیت المال کو زکوٰۃ ادا کریں۔ اِس کے بعد فرمایا ہے کہ ’فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ‘، یعنی اُن کی راہ چھوڑ دو۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست اور قانون کی سطح پر ایمان و اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اِس سے زائدکوئی مطالبہ کسی مسلمان سے نہیں کیا جا سکتا، اِس لیے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبر کو خود اپنی حکومت میں اِس کی اجازت نہیں دی تو دوسروں کو کس طرح دی جا سکتی ہے۔
۱۳۵؎ یعنی دین و شریعت اور نبوت و رسالت سے زیادہ واقف نہیں ہیں، اِس وجہ سے رعایت کے مستحق ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لمبے عرصے تک تبلیغ و دعوت کے بعد بھی اتمام حجت میں کوئی کسر رہ گئی ہو، لہٰذا اِن میں سے کوئی شخص اگر بات سننے اور سمجھنے کے لیے امان چاہتا ہو تو امان دے دو اور اللہ کا کلام اچھی طرح سنا اور سمجھا کر اُس کے مامن تک پہنچا دو تاکہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرکے فیصلہ کر سکے کہ اُسے اسلام قبول کرنا ہے یا تلوار۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ اُس کے لیے بھی وہی حکم ہو گا جو اوپر بیان ہوا ہے۔
۱۳۶؎ یہاں سے روے سخن اُن لوگوں کی طرف ہو گیا ہے جو اِن مشرکوں کے لیے مزید مہلت کے خواہاں تھے۔ اُنھیں صاف نظر آ رہا تھا کہ اِس اعلان کے نتیجے میں اب اُنھیں اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور زمانۂ جاہلیت کے دوست احباب کے خلاف تلوار سونتنی پڑے گی۔ یہ لوگ چونکہ ضعیف الایمان تھے، اِس لیے قدرتی طور پر سخت آزمایش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ آگے جو کچھ فرمایا ہے، اِنھی کمزور مسلمانوں کی ذہنی کیفیت کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے۔
۱۳۷؎ اصل الفاظ ہیں:’الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘۔ زبان کے اسالیب سے واقف ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ الفاظ اگر کسی معاہدے کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں تو صرف معاہدۂ حدیبیہ ہی کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی معاہدے مشرکین کے ساتھ کیے، اُن میں سے کوئی بھی مسجد حرام کے ساتھ اِس طرح کی نسبت سے تعارف کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس نسبت کے اظہار سے ایک طرف تو معاہدے کا تعارف ہو گیا۔ دوسری طرف اِس سے اُس کی غیر معمولی حرمت بھی واضح ہوئی کہ کوئی ایسا ویسا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ اِس کی تکمیل جوار حرم میں ہوئی ہے جس سے زیادہ کوئی دوسری جگہ مقدس و محترم نہیں ہو سکتی۔‘‘(تدبرقرآن ۳/ ۵۴۳)
۱۳۸؎ یہ بات اگرچہ اوپر بیان ہو چکی ہے کہ ایسے موقت معاہدے جن کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، وہ باقی رہیں گے، لیکن معاہدۂ حدیبیہ کی اہمیت چونکہ غیر معمولی تھی اور یہ دس سال کے لیے کیا گیا تھا، اِس لیے سلسلۂ کلام کو روک کر متنبہ کر دیا ہے کہ یہ معاہدہ بھی اُس وقت تک باقی رہے گا، جب تک قریش اِس پر قائم رہتے ہیں۔
۱۳۹؎ اصل میں لفظ ’تَقْوٰی‘ آیا ہے۔ اِس کے لغوی معنی بچنے کے ہیں۔ جس چیز سے بچنے کی طرف اشارہ مقصود ہے، وہ سیاق سے مفہوم ہو رہی ہے، اِس لیے لفظوں میں بیان نہیں ہوئی۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ لفظ اِس طریقے سے استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’فِسْق‘ کے معاملے میں بھی آگے یہی اسلوب اختیار فرمایا ہے۔
۱۴۰؎ اصل میں ’اِلًّا‘ اور ’ذِمَّۃً‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تعلقات کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد رشتۂ رحم و قرابت کے پاس و لحاظ پر اور سیاسی روابط کی بنیاد باہمی معاہدات کی عائد کردہ ذمہ داریوں کے احترام پر۔ پہلی کو ’ال‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو اُن حقوق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک اصل و نسل، ایک جوہر و معدن سے ہونے یا قرابت اور پڑوس کی بنا پر ایک دوسرے پر آپ سے آپ قائم ہو جاتے ہیں۔ دوسری کو ’ذِمَّہ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو اُن ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کسی معاہدہ میں شریک ہونے والی پارٹیوں پر ازروے معاہدہ عائد ہوتی ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۴۲)
۱۴۱؎ یعنی دنیا کی متاع حقیر کو ترجیح دی اور خدا کی آیتوں کو چھوڑ کر اُسے اختیار کر لیا۔ آیت میں اِسے ’اِشْتِرَآئ‘ سے تعبیر کیا ہے۔زمانۂ قدیم میں خرید و فروخت مبادلۂ اشیا کے طریقے پر ہوتی تھی۔ لفظ ’اِشْتِرَآئ‘ میں یہ مفہوم اِسی سے پیدا ہوا ہے۔
۱۴۲؎ پیچھے اِنھی شرائط کے بعد فرمایا ہے کہ ’فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ‘۔ یہاں اُس کی جگہ ’فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ دونوں تعبیرات مل کر حکم کا منشا ہر لحاظ سے واضح کر دیتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اِن شرائط کے پورا ہو جانے کے بعد اُن سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا، قانون اور ریاست کے نقطۂ نظر سے وہ مسلمان سمجھے جائیں گے اور وہ تمام حقوق اُنھیں حاصل ہوجائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلمانوں کے نظم اجتماعی میں اُن کو حاصل ہونے چاہییں۔ اُن میں اور پہلے ایمان لانے والوں کے حقوق و فرائض میں کوئی فرق نہیں ہو گا اور اخوت کا یہ رشتہ قائم ہو جانے کے بعد وہ تمام ذمہ داریاں بھی اُن میں سے ہر ایک پر عائد ہو جائیں گی جو عقل و فطرت کی رو سے ایک بھائی پر اُس کے بھائی کے بارے میں عائد ہونی چاہییں۔
۱۴۳؎ یہ مسلمانوں اور کفار ، دونوں کے لیے تنبیہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جاننا اور سمجھنا چاہیں، اُن کے لیے اِس باب میں اللہ کے احکام کی پوری وضاحت کر دی گئی ہے۔ کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ اب اگر مسلمانوں میں سے کسی نے اِن مشرکین کے ساتھ اِس سے الگ ہو کر کوئی معاملہ کرنا چاہا تو اُس کی ذمہ داری خود اُسی پر ہے ، اِسی طرح مشرکین میں سے اگر کسی نے اِس سے کچھ الگ امید باندھی تو اُس کی ذمہ داری بھی خود اُسی پر ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۴۴)
۱۴۴؎ یعنی معاہدۂ حدیبیہ جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ اُس کے لیے یہ الفاظ عہد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے آئے ہیں، اِن سے کوئی نیا معاہدہ مراد نہیں ہے۔
۱۴۵؎ اصل میں ’اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ‘ کے الفاظ ہیں۔ اِن کا اطلاق قریش کے سوا کسی اور پر نہیں ہو سکتاتھا۔ وہی پورے عرب کے سرداراور پیشوا تھے اور دین کے معاملے میں تمام اہل عرب اُنھی کے تابع تھے۔ مدعا یہ ہے کہ اگر قریش بھی اپنا معاہدہ توڑ دیں تو اُن سے بھی لڑو اور ایمان و اسلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو جہاں پائو، قتل کر دو۔ سرزمین عرب کے تمام مشرکین کے لیے یہی اللہ کا حکم ہے۔ اِس میں اب کسی کے لیے مزید رعایت کی گنجایش باقی نہیں رہی۔
۱۴۶؎ یہ سورہ چند شذرات کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پر عذاب کے مراحل میں ہر مرحلے کی مناسبت سے نازل ہوئے اوراِنھی مراحل کی ترتیب کے ساتھ سورہ میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ اِن میں سے پہلا شذرہ آیت ۱۲ پر ختم ہو گیا ہے۔ یہاں سے دوسرا شروع ہوتا ہے جس کی پہلی آیت ہی واضح کر دیتی ہے کہ یہ کچھ فصل سے نازل ہوا ہے، اِس لیے کہ اوپر جس معاہدے کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر توڑ دیں ، یہ آیت بتا رہی ہے کہ وہ معاہدہ قریش نے توڑ دیا ہے۔
۱۴۷؎ مطلب یہ ہے کہ اِن کا یہ پہلا جرم نہیں ہے، اِس سے پہلے یہ خدا کے رسول کو اُس کے وطن سے نکالنے کی جسارت کر چکے ہیں۔ قرآن کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی تکذیب کے بعد جب کوئی قوم اُسے وطن سے نکالنے یا قتل کر دینے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو اُس کی مہلت عمر بھی ختم ہو جاتی ہے۔ رسولوں کے باب میں یہی سنت الٰہی ہے۔ قرآن نے یہ اُسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اِس سے مزید وضاحت ہو گئی کہ یہ آیتیں قریش ہی سے متعلق ہیں، اِن کا کسی دوسرے قبیلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
۱۴۸؎ یعنی جب ہجرت کے موقع پر قتل کر دینے میں کامیاب نہیں ہوئے تو قافلے کی حفاظت کا بہانہ کرکے حملہ آور ہو گئے اور اِس طرح خدا کے رسول اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف صریح جارحیت کا ارتکاب کیا۔ یہ جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس سے اُس بات کی تائید ہوتی ہے جو پیچھے بیان ہو چکی ہے کہ اِس جنگ کے لیے پیش قدمی تمام تر قریش کی طرف سے ہوئی تھی۔
۱۴۹؎ یہ قرآن نے خود صراحت فرما دی ہے کہ پیچھے جس قتل عام کا حکم دیا ہے، وہ درحقیقت خدا کا عذاب ہے جو آخری پیغمبر کے منکرین پر اُس کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے نازل کیا جا رہا ہے۔
۱۵۰؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ رسولوں کی تکذیب کا اصلی محرک استکبار ہوتا ہے اور استکبار کی سزا دنیا اور آخرت میں ذلت اور خواری ہی ہے۔
۱۵۱؎ اُس گروہ کی طرف اشارہ ہے جسے اسلام لانے کے جرم میں برسوں ستایا گیا تھا۔ اُن کی دل داری کے لیے فرمایا ہے کہ جن سنگ دلوں کے ہاتھوں تم مظالم کا ہدف بنے رہے ہو، اب اُن کی سزا کا وقت آگیا ہے۔ مطمئن رہو، یہ سزا ایسی عبرت ناک ہو گی کہ تمھارے سینے اِس سے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔
۱۵۲؎ مسلمانوں کا ایک گروہ آرزومند تھا کہ اُن کے اعزہ و اقربا عذاب الہٰی سے دوچار ہونے کے بجاے ایمان لے آئیں۔ یہ اُن کو خوش خبری دی ہے کہ تمھاری یہ آرزو بھی کسی حد تک پوری ہو جائے گی اور اللہ اپنے علم و حکمت کے مطابق جس کو چاہے گا، توبہ اور اصلاح کی توفیق بھی عطا فرمائے گا۔
۱۵۳؎ مطلب یہ ہے کہ ابھی جماعت کی تطہیر نہیں ہوئی اور وہ لوگ پوری طرح الگ نہیں ہوئے جو سچے مجاہدین ہوں اور اللہ و رسول اور اُن کے ماننے والوں کے سوا کسی کی دوستی اور قرابت کی پروا نہ کریں۔ اِس وقت جو دینونت برپا ہے، اُس کے لیے اُنھیں الگ کرنا ضروری ہے۔ یہ امتحان اِسی مقصد سے برپا کیا جا رہا ہے، ورنہ خدا کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ آسمان سے عذاب نازل کرتا اور جن لوگوں سے تمھیں لڑنے کے لیے کہا جا رہا ہے، اُنھیں اُسی طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا، جس طرح عاد و ثمود صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے تھے۔
۱۵۴؎ یہ قرآن کی بلاغت ہے ۔ اِس سے مراد اگرچہ مسجد حرام ہی ہے، لیکن اللہ کی مسجدوں کے الفاظ سے حکم بھی عام ہو گیا ہے اور اُس کی علت بھی پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔
۱۵۵؎ قریش اپنے شرک کا خود اعتراف کرتے تھے۔ اُسی کو یہاں کفر سے تعبیر کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ شرک کے ساتھ خدا کو ماننا اُس کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔
۱۵۶؎ اللہ شرک کے ساتھ کسی نیکی کو بھی قبول نہیں کرتا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ جو اعمال وہ حرم کی خدمت کے لیے کر رہے ہیں، آخرت میں اُن کا کوئی اجر اُن کے لیے باقی نہ رہے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔خدا کے ہاں صرف وہی نیکی باقی رہتی ہے جو توحید کے ساتھ ہو۔ مذہبی صحیفوں میں مشرک کو زانیہ عورت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح ایک عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ سارا چائو پیار بے کار ہے، اگر وہ بدکار ہے، اُسی طرح بندے کا سارا کیا دھرا برباد ہے ،اگر وہ اپنے رب کا کسی کو شریک ٹھیراتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۵۰)
۱۵۷؎ یعنی اُن کے اندر کسی غیر اللہ کا خوف نہ ہو۔ یہ شرک کے اصلی محرک سے اُس کی نفی کی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ حرم کی تولیت، بے شک اولاد ابراہیم کے سپرد کی گئی ہے، مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُن صفات کے حامل بن کر رہیں جو اِس منصب کے لیے بنیادی شرائط کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِن میں اہم ترین شرط یہ ہے کہ وہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں۔
۱۵۸؎ اصل میں لفظ ’اِھْتِدَآئ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ہدایت منزل کے مفہوم میں ہے۔ یعنی کامیابی کے ساتھ اُس منزل تک پہنچیں گے جو آخرت میں اُن کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ آیت میں ’عَسٰی‘کا لفظ بھی قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس بات کو ’عَسٰی‘کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ یہ راہ کوئی آسان راہ نہیں ہے۔ اِس میں قدم قدم پر مشکلات اور آزمایشیں ہیں۔ صرف وہی لوگ جادئہ مستقیم پر استوار رہ سکتے ہیں جن کے پاس توفیق الٰہی کا زادراہ ہو اور جن کو خدا سے استعانت کا سہارا حاصل ہو۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۵۵۰)
۱۵۹؎ یعنی اُس منزل تک پہنچائے گا جو آخرت میں اہل ایمان کی منزل ہے۔
۱۶۰؎ یہ تقابل کے لیے نہیں ، بلکہ تفخیم شان کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کا درجہ اللہ کے ہاں بہت اونچا ہے۔
۱۶۱؎ یہاں سے تیسرا شذرہ شروع ہوتا ہے۔ اِس کے مضامین سے واضح ہے کہ یہ ۹؍ ہجری میں کسی وقت اُس حج سے پہلے نازل ہوا ہے جس میں تمام اہل عرب سے اعلان براء ت کیا گیا تھا۔
۱۶۲؎ یہ جن مرغوبات کی فہرست ہے، اُن میں ، اگر غور کیجیے تو نہایت لطیف نفسیاتی ترتیب ملحوظ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔پہلے باپ، بیٹے، بھائی، بیوی اور خاندان کو لیا ہے جن کی محبت یا عصبیت آدمی کے لیے حق کی راہ میں حجاب اور آزمایش بنتی ہے۔ پھر اموال، کاروبار اور مکانات کا ذکر کیا ہے جو اصلاً مذکورہ متعلقین ہی کے تعلق سے مطلوب و مرغوب ہوتے ہیں اور آدمی صاحب توفیق نہ ہو تو اُس کے لیے یہ فتنہ بن جاتے ہیں۔ اموال کے ساتھ ’اِقْتَرَفْتُمُوْھَا‘ کی قید ہے۔ ’اِقْتِرَاف‘ کے معنی اکتساب کے ہیں۔ یہ قید اُس مال کے محبوب ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ قاعدہ ہے کہ جس مال کو آدمی نے خود کمایا اور بڑھایا ہو ،وہ اُس کو زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اِسی طرح ’تجارت‘ کے ساتھ ’تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا‘ کی قید اِس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ وہ تجارت کامیاب اور چلتی ہوئی تجارت ہے، اِس لیے کہ کامیاب اور چلتی ہوئی تجارت ہی وہ چیز ہے جس کے متعلق تاجر کو ہر وقت یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اُس پر کساد بازاری کا جھونکا نہ آجائے اور اِس خطرے سے اُس کو بچائے رکھنے کے لیے وہ سارے جتن کرتا ہے، یہاں تک کہ وہی اُس کی معبود بن جاتی ہے۔ پھر نہ تو اُسے حلال و حرام کی تمیز باقی رہ جاتی ہے اور نہ ہجرت، جہاد اور اللہ کی راہ میں قطع علائق کی آزمایشیں اُسے گوارا ہوتیں۔ فرمایا کہ اِن میں سے ہر چیز ایک بت ہے اور جب تک بندہ اللہ کی خاطر اِن میں سے ہر بت کو توڑنے کے لیے تیار نہ ہو جائے،وہ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۵۳)
۱۶۳؎ یہ چیز اُس وقت واضح ہوجاتی ہے، جب ایک طرف اللہ و رسول کا مطالبہ ہو اور دوسری طرف اِن چیزوں کی محبت کا کوئی مطالبہ سامنے آجائے۔ آدمی اگر اُس وقت اللہ و رسول کے مطالبے کو مقدم نہ رکھے تو اِس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ اُس کو اللہ و رسول سے زیادہ یہ چیزیں محبوب ہیں۔ ایمان و اسلام کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ یہ چیزیں محبوب نہ ہوں، بلکہ صرف یہ ہے کہ اللہ و رسول اور اُس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔
۱۶۴؎ یعنی اُسی انجام بد تک پہنچا دے جو اوپر مکذبین کے لیے بیان ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اوپر جس ترجیح کا ذکر ہوا ہے، وہ ایمان کا ایسا تقاضا ہے کہ جسے پورا نہ کیا جائے تو مومن و کافر اپنے انجام کے لحاظ سے یکساں ہو سکتے ہیں۔
۱۶۵؎ اوپر مشرکین کے بارے میں ارشاد ہوا تھا کہ اللہ اُنھیں راہ یاب نہیں کرے گا۔ یہاں وہی بات اُن لوگوں کے متعلق فرمائی ہے جو ایمان و اسلام کا عہد باندھ لینے کے بعد منافقت کا رویہ اختیار کریں اور اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیں۔
۱۶۶؎ یعنی دلوں میں عزم، حوصلہ اور قرار پیدا کر دیا۔
۱۶۷؎ فرشتوں کی غیبی فوجوں کی طرف اشارہ ہے جو زمانۂ رسالت کی مہمات میں ہمیشہ مسلمانوں کے ہم رکاب رہتی تھیں۔
۱۶۸؎ جن مذبذبین کو اوپر قتال کے لیے ابھارا ہے، یہ اُن کی ہمت افزائی فرمائی ہے کہ جس کام کے لیے تمھیں کہا جا رہا ہے، وہ خدا کا کام ہے۔ تمھاری کثرت و قلت اُس میں کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔ اِس سے پہلے بھی وہ خدا کی مدد سے ہوا ہے اور اب بھی اُسی کی مدد سے ہو گا۔ اُس پر بھروسا رکھو۔ تم نے تقویٰ اختیار کیا اور ثابت قدم رہے تو وہ کسی حال میں تمھیں اپنی مدد سے محروم نہیں کرے گا۔ اِس میں خاص طور پر غزوئہ حنین کا حوالہ دیا ہے۔ یہ غزوہ فتح مکہ کے بعد شوال ۸/ہجری میں مکے اور طائف کے درمیان وادی حنین میں پیش آیا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے اِس میں ۱۲ ہزار فوج تھی جسے اُس وقت کے حالات میں ایک لشکر جرار کہا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف منکرین اُن کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ لیکن اِس کے باوجودقبیلۂ ہوازن کے تیر اندازوں نے اُن کا منہ پھیر دیا اور مسلمان شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اِس کی وجہ یہ ہوئی کہ اُس دن وہ اپنی کثرت تعداد کے غرے میں مبتلا ہو گئے۔ چنانچہ بہتوں کے اندر نہ خدا کی یاد کی طرف توجہ باقی رہی ، نہ نظم و اطاعت اور اخلاص و انابت کا وہ اہتمام رہا جس کی تاکید پیچھے سورۂ انفال میں کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چند مٹھی بھر صحابہ، البتہ پوری استقامت کے ساتھ جمے رہے۔ چنانچہ اُنھی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کچھ تذکیر و تنبیہ کے بعد مدد فرمائی اور بالآخر فتح حاصل ہو ہو گئی۔**
۹؎ یہ وہی مضمون ہے جو اوپر آیت ۱۵ میں گزر چکا ہے۔
۱۷۰؎ جس اعلان براء ت سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے ، یہ اُسی کی تکمیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین عقیدے کی جس نجاست میں مبتلا ہیں، اُس کے ساتھ یہ حج و عمرہ کے لیے بھی حدود حرم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بیت اللہ توحید کا مرکز ہے، اِس میں اب اِن میں سے کسی مشرک کا داخل ہونا گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ خدا کے پیغمبر کی تکذیب کے بعد اِن کے لیے اسلام ہے یا تلوار۔ تاہم معاہدات کی مدت پوری کرنے کے لیے کسی کو مہلت بھی دی گئی ہو تو اِس سال کے بعد اُسے حرم میں آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔یہ حکم ، ظاہر ہے کہ اُنھی مشرکین کے لیے تھا جن کے شرک کی نجاست اُن پر اتمام حجت کے درجے میں واضح کر دی گئی تھی۔ اِس کا اُن لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اُن کے بعد اب توحید کے اِس مرکز کو دیکھنے اور اِس کی دعوت کو سمجھنے کے لیے وہاں جانا چاہتے ہوں۔
۱۷۱؎ حج کو اُس زمانے میں تجارت اور کاروبار کے پہلو سے بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ یہ اُسی کے پیش نظر فرمایا ہے کہ اِس حکم سے کسی کو تشویش نہ ہو کہ مشرکین نہیں آئیں گے تو اِس سے کاروبار اور تجارت پر برا اثر پڑے گا جس سے مسلمانوں کی معاشی حالت جو پہلے ہی خراب ہے، خراب تر ہو جائے گی۔ لوگ مطمئن رہیں۔ خدا کی مدد اُن کے شامل حال ہے۔ وہ عنقریب اِس پہلو سے بھی اُن کو مستغنی کر دے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوا اور اِس طرح پورا ہوا کہ ایک دن کے لیے بھی مکہ کی تجارت اِس بندش سے متاثر نہ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد تو یہ حال ہوا کہ مصر و شام اور روم و ایران کے خزانے بھی اونٹوں پر لد لد کر اسلام کے بیت المال میں پہنچنے لگے اور اللہ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو اِس طرح غنی کر دیا کہ لوگ اپنی زکوٰۃ کا مال مدینہ کی گلیوں میں لیے پھرتے تھے، لیکن اُس کا کوئی لینے والا نہیں ملتا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۵۶)
اِس میں مسلمانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ اگر ایمانی اقدار کی حفاظت کے لیے کسی وقت اپنے معاشی مصالح قربان کریں گے تو اُنھیں خدا پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ وہ اُن کے نقصان کی تلافی کے لیے ایسی راہیں کھول سکتا ہے جن کا وہ گمان بھی نہ رکھتے ہوں۔
۱۷۲؎ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے لحاظ سے سوچتے ہو، لیکن اللہ علیم و حکیم ہے، اُس نے یہ حکم دیا ہے تو اِس کے نتائج و عواقب بھی اُس سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اُس پر بھروسا رکھو، اُس کے تمام کام علم و حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــ
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۲/ ۴۳۶۔
** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۴/ ۶۹۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ