HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

بعض منکرین کو مہلت نہ دینے کے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم

ترجمہ: شاہد رضا

روی أنہ لما کان یوم فتح مکۃ أمن رسول اللّٰہ الناس إلا أربعۃ نفر وامرأتین، وقال: اقتلوہم وإن وجدتموہم متعلقین بأستار الکعبۃ: عکرمۃ بن أبی جہل وعبد اللّٰہ بن خطل ومقیس بن صبابۃ و عبد اللّٰہ بن سعد بن أبی السرح وقینتان کانتا لمقیس تغنیان بہجاء رسول اللّٰہ.
فأما عبد اللّٰہ بن خطل فأدرک وہو متعلق بأستار الکعبۃ فاستبق إلیہ سعید بن حریث وعمار بن یاسر فسبق سعید عمارًا وکان أشب الرجلین فقتلہ.
وأما مقیس بن صبابۃ فأدرکہ الناس فی السوق فقتلوہ.
وأما عکرمۃ فرکب البحر فأصابتہم عاصف فقال أصحاب السفینۃ : أخلصوا فإن آلہتکم لا تغنی عنکم شیءًا ہاہنا، فقال عکرمۃ: واللّٰہ لئن لم ینجنی من البحر إلا الإخلاص لا ینجینی فی البر غیرہ، أللہم إن لک علی عہدًا إن أنت عافیتنی مما أنا فیہ أن آتی محمدًا حتی أضع یدی فی یدہ فلأجدنہ عفوًا کریمًا فجاء فأسلم.
وأما عبد اللّٰہ بن سعد بن أبی السرح فإنہ اختبأ عند عثمان بن عفان. فلما دعا رسول اللّٰہ الناس إلی البیعۃ جاء بہ حتی أوقفہ علی النبی. قال: یا رسول اللّٰہ، بایع عبد اللّٰہ، قال: فرفع رأسہ فنظر إلیہ ثلاثًا کل ذلک یأبی، فبایعہ بعد ثلاث. ثم أقبل علی أصحابہ فقال: أما کان فیکم رجل رشید یقوم إلی ہذا حیث رآنی کففت یدی عن بیعتہ فیقتلہ؟ فقالوا: وما یدرینا یا رسول اللّٰہ ما فی نفسک، ہلا أومأت إلینا بعینک؟ قال: إنہ لا ینبغی لنبی أن یکون لہ خائنۃ أعین.
وأما قینتان قتلت إحداہما وأفلتت الأخری وأسلمت.
بیان کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ کے دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے عام معافی دے دی۱۔ آپ نے فرمایا: انھیں قتل کر دو ، اگرچہ تم انھیں کعبہ کے پردوں کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے پاؤ۔ (جن لوگوں کو معافی نہیں دی گئی تھی، وہ یہ تھے:) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح اور مقیس کی دو لونڈیاں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف ہجویہ گیت (لکھتی اور) گاتی تھیں۔
جہاں تک عبداللہ بن خطل کا تعلق ہے، اسے کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹے ہوئے پایا گیا۔ حضرت سعید بن حریث اور حضرت عمار بن یاسر نے اس کی طرف ایک دوسرے سے مسابقت کی اور اس تک پہنچنے کے لیے حضرت سعید نوجوان ہونے کی وجہ سے حضرت یاسر سے آگے بڑھ گئے اور آپ نے عبداللہ بن خطل کو قتل کر دیا۔
جہاں تک مقیس بن صبابہ کا تعلق ہے، اسے بازار میں موجود ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور اسے قتل کر دیا۔
جہاں تک عکرمہ کا تعلق ہے، وہ سمندر میں سوار ہو کر فرار ہو گیا۔ (جب وہ جہاز پر تھا) انھیں ایک سخت طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاز کے لوگوں نے کہا: صرف ایک خدا سے دعا کرو، کیونکہ تمھارے باطل خدا تمھیں یہاں کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ (اس بات کو سن کر) عکرمہ نے کہا: اگر یہاں میرے سچے ایک خدا سے دعا کرنے کے علاوہ مجھے کوئی چیز نہیں بچا سکتی تو پھر زمین میں اس کے علاوہ یقیناًکوئی چیز مجھے نہیں بچا سکتی۔ میرے پروردگار، میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو نے آج مجھے اس سے بچا لیا جس میں میں ہوں تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤں گاتاکہ میں (ان کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے) اپنے ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں ان کی طرف سے نہایت کریمانہ معافی پاؤں گا۔
جہاں تک عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کا تعلق ہے، اس نے اپنے آپ کو حضرت عثمان بن عفان کے گھر میں چھپا لیا۔ بعد ازاں ، جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لوگوں کو بیعت اطاعت کے لیے دعوت دی تو حضرت عثمان اس کو لے کر آئے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کھڑا کرکے کہا: یا رسول اللہ، عبداللہ کی بیعت قبول فرمائیے۔ راوی کہتے ہیں: پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے سر کو اٹھایا اور عبداللہ کی طرف تین مرتبہ دیکھا اور ہر دفعہ (خاموشی سے) اس کی بیعت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ نے اس کی بیعت قبول فرمالی۔ پھر (عبداللہ کے جانے کے بعد) پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا عقل مند آدمی نہیں تھا جو کھڑا ہوتا اور اس آدمی کو قتل کر دیتا، جبکہ اس نے مجھے بیعت قبول کرنے سے احتراز کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ، ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کیا سوچ رہے تھے، آپ نے ہمیں اپنی آنکھ کے ساتھ اشارہ کیوں نہیں کیا؟ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: کسی پیغمبر کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ خفیہ طور پر اشارے کرے۔
جہاں تک لونڈیوں کا تعلق ہے، تو ان میں سے ایک کو قتل کر دیا گیا ، جبکہ دوسری کو آزاد کر دیا گیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔

ترجمے کے حواشی:

۱۔ بعض تاریخی روایات میں جن لوگوں کو معافی نہیں دی گئی تھی، ان کی کل تعداد نو تھی، چھ مرد اور تین عورتیں۱؂ ۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں چھ کے بجاے، جیسا کہ مذکورہ متن میں بیان کیا گیا ہے، ان کی تعداد دس تھی، چھ آدمی اور چار عورتیں۲؂ ۔ ان لوگوں کے نام اس طرح روایت کیے گئے ہیں: عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، الحارث بن نفیل یا الحویرث بن نفیذ، مقیس بن صبابہ، ہبار بن الاسود، ہند بنت عتبہ، ابن خطل کی دو لونڈیاں اور ایک دوسری لونڈی جس کا نام سارہ تھا۔ ان میں سے عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، الحارث بن نفیل اور دو لونڈیوں میں سے ایک کو قتل کر دیا گیا تھا، جبکہ دوسرے لوگوں کو معاف کر دیا گیا۔

باوجوداس کے کہ حق ان پر مکمل طور پر واضح ہو چکا تھا، یہ لوگ نہ صرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کا انکار کرنے کے مجرم تھے، بلکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف مسموم اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو حق قبول کرنے سے روکنے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسانے کے بھی مجرم تھے۔ ان کی اشتعال انگیزیاں اس طرح جنگوں اور زندگیوں کے ضیاع کا باعث بنیں کہ مسلسل جنگیں شروع ہو گئیں۔ ان لوگوں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جس سے ان پر اپنے پیغمبروں کے منکرین کے سرداروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ایک خاص قانون جاری ہو گیا۳؂۔

مزید براں، بعض تاریخی واقعات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ مسلمانوں کے خلاف بعض دیگر جرائم کے بھی مرتکب تھے۔ مثلاً:

مقیس بن صبابہ کو ایک مسلمان کو دھوکے سے قتل کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ وہ مدینہ گیا اور ظاہر کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اپنے بھائی کے قتل کے عوض خوں بہا کی درخواست کی۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے خوں بہا ادا کر دیا۔ خوں بہا لینے کے بعد مقیس بن صبابہ پہلی ہی فرصت میں اس آدمی کو قتل کرنے کے لیے لپکا جو اسے پہلے ہی خوں بہا ادا کر چکا تھا۔ اس کے بعد وہ مکہ کی طرف لوٹ آیا۴؂۔

الحارث بن نفیل یا الحویرث بن نفیذ ایک بین الاقوامی معاہدے کو توڑنے کا مجرم تھا۔ اس نے اس قافلہ پر حملہ کیا جو حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو مدینہ لے کر جا رہا تھا۵؂۔

عبداللہ بن خطل ایک مسلمان غلام کو دوران سفر قتل کرنے کا مجرم تھا۔اس نے اسے صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ اس نے وقت پر اس کے لیے کھانا تیار نہیں کیا تھا ۶؂۔

الحارث کی طرح ہبار بن الاسود بھی ایک بین الاقوامی معاہدے کو توڑنے کا مجرم تھا۔ اس نے اس قافلے پر حملہ کر دیا جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) کو مدینہ لے کر جا رہا تھا۔ حملے کے نتیجے میں حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) کجاوے سے گر پڑیں اور ایک پتھر سے جا ٹکرائیں اور نتیجۃً اپنے ہونے والے بچے کو کھو بیٹھیں۔

متون:

یہ حدیث بعض اختلافات کے ساتھ درج ذیل مقامات میں روایت کی گئی ہے:

بخاری، رقم ۱۷۴۹، ۲۸۷۹، ۴۰۳۵۔ مسلم، رقم ۱۳۵۷۔ موطا، رقم ۹۴۶۔ ابوداؤد، رقم ۲۶۸۴، ۲۶۸۵، ۴۳۵۸۔ ترمذی، رقم ۱۶۹۳۔ نسائی، رقم ۲۸۶۷، ۴۰۶۷، ۴۰۶۹۔ احمد، رقم ۱۲۸۷، ۱۲۷۰۴، ۱۲۹۵۵، ۱۳۴۳۷، ۱۳۴۶۱ ، ۱۳۵۴۲۔ دارمی، رقم ۱۹۳۸، ۲۴۵۶۔ ابن خزیمہ ، رقم ۳۰۶۳۔ ابن حبان، رقم ۳۷۱۹، ۳۷۲۱۔ نسائی،السنن الکبریٰ، رقم ۳۵۳۰، ۳۵۳۲، ۳۸۵۰، ۸۵۸۴۔ بیہقی، رقم ۹۶۲۱، ۱۲۶۳۳، ۱۳۰۵۶، ۱۳۱۵۱، ۱۶۶۰۶، ۱۶۶۳۹، ۱۶۶۵۵۔۱۶۶۵۷، ۱۸۰۵۹۔۱۸۰۶۰،۱۸۵۶۰۔۲ ۱۸۵۶۔ ابو یعلیٰ، رقم ۷۵۷، ۳۵۳۹۔۳۵۴۲۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۹۱۳۔ ۳۶۹۱۴۔

علاوہ ازیں، اوپر متن میں دیے گئے الفاظ نسائی، رقم ۴۰۷۶ میں روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲ میں ’أقتلوھم وإن وجدتموھم بأستار الکعبۃ‘ (انھیں قتل کر دو، اگرچہ تم انھیں کعبہ کے پردوں کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے پاؤ) کے الفاظ مختلف روایت کیے گئے ہیں۔ مثلاً ’أربعۃ لا أومنھم فی حل ولا فی حرم‘ (چار آدمی ایسے ہیں جن کو میں نہ حرم میں امان دوں گا نہ حرم کے باہر)۔

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲ میں عکرمہ بن ابی جہل کا نام محذوف ہے اور اس کی جگہ ’الحویرث بن معبد‘ مذکور ہے، جبکہ بیہقی ، رقم ۱۸۰۵۹ میں عکرمہ کے بجاے نَفِیذ یا ابن نُفَیذ آیا ہے۔ بیہقی، رقم ۱۸۰۶۰ میں اس کا نام الحارث بن نَفِیذ یا الحارث بن نُفَیذآیا ہے، جبکہ ’’زاد المعاد ‘‘۳/ ۴۱۱ میں اس کا نام الحارث بن نفیل بیان کیا گیا ہے۔ بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲میں عبداللہ بن خطل کا نام ہلال بن خطل بھی بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ’’ الطبقات الکبریٰ‘‘ ۲/ ۱۳۶ میں عبداللہ بن ہلال بن خطل اور’’ اخبار مکہ‘‘ ۵/ ۲۲۰ میں عبدالعزیز بن خطل اور ’’زاد المعاد‘‘ ۳/ ۴۱۱ میں عبدالعزیٰ بن خطل بیان کیا گیا ہے۔ بعض مقامات، مثلاً ’’السیرۃ النبویہ‘‘ ۵/ ۶۹۔۷۲ میں مقیس بن صبابہ کا نام مقیس بن حبابہ روایت کیا گیا ہے۔

وقینتان کانتا لمقیس تغنیان بھجاء رسول اللّٰہ‘(اورمقیس کی دو لونڈیاں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف ہجویہ گیت گاتی (اور لکھتی) تھیں) کے الفاظ بیہقی ، رقم۱۸۵۶۲ میں روایت کیے گئے ہیں۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’الصارم المسلول‘‘۲/ ۲۵۱ میں ان لونڈیوں کے نام فرتنی اور قریبہ یا ارنب بیان کیے ہیں۔ بعض تاریخی روایات، مثلاً ’’زاد المعاد‘‘۳/ ۴۱۱میں بیان کیا گیا ہے کہ ان لونڈیوں کا تعلق عبداللہ بن خطل کے ساتھ ہے۔

بعض روایات ، مثلاً بیہقی ، رقم ۱۸۰۶۰ میں مذکور ہے کہ دو لونڈیاں مقیس کی نہیں تھیں، بلکہ ابن خطل کی تھیں۔

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲ میں مذکور ہے کہ الحویرث بن معبد ،جو کہ اوپر دیے گئے متن میں بھی مذکور نہیں، کو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے قتل کیا تھا، جبکہ بیہقی، رقم ۱۸۰۵۹میں ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے ابن نَفِیذ یا ابن نُفَیذ کو قتل کیا تھا۔

ابوداؤد، رقم ۲۶۸۵ کے مطابق، یہ حضرت ابوبرزہ اسلمی تھے جنھوں نے ابن خطل کو قتل کیا تھا، جبکہ بیہقی ، رقم ۱۸۵۶۲ کے مطابق ابن خطل، جس کا نام ہلال بن خطل بھی ہے، کو حضرت زبیر بن عوام (رضی اللہ عنہ) نے قتل کیا تھا۔

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲ میں مذکور ہے کہ مقیس کو اس کے چچا زاد بھائی لحا نے قتل کیا تھا۔

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲ کے مطابق عبداللہ بن ابی سرح حضرت عثمان کا رضاعی بھائی تھا۔

دو لونڈیوں کے حکم کے متعلق معلومات بیہقی، رقم ۱۸۵۶۲ میں بیان کی گئی ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۴۰۳۵ میں اسی طرح کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ وہ درج ذیل ہے:

أن النبی دخل مکۃ یوم الفتح و علی رأسہ المغفر فلما نزعہ جاء ہ رجل فقال: بن خطل متعلق بأستار الکعبۃ فقال: اقتلہ.
’’بیان کیا جاتا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) فتح کے دن مکہ میں داخل ہوئے، جبکہ آپ خود پہنے ہوئے تھے۔ جب آپ نے اسے اتارا تو ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہا: ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔‘‘

بعض روایات، مثلاً ابوداؤد ، رقم ۴۳۵۸ میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کا مقدمہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

کان عبداللّٰہ بن سعد بن أبی سرح یکتب لرسول اللّٰہ فأزلہ الشیطن فلحق بالکفار فأمر بہ رسول اللّٰہ أن یقتل یوم الفتح فاستجارلہ عثمان بن عفان فأجارہ رسول اللّٰہ.
’’عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کاتبین میں سے تھا۔ پھر شیطان نے اس کو دھوکے میں ڈال دیا اور وہ (دوبارہ شرک میں مبتلا ہو گیا اور) منکرین کے ساتھ مل گیا۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا، تاہم حضرت عثمان بن عفان(رضی اللہ عنہ) نے اس کے لیے پناہ طلب کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس کو پناہ مرحمت فرمائی۔‘‘

[دسمبر۲۰۱۱ء]

————

۱؂ زاد المعاد ، ابن قیم ۳/ ۴۱۱۔

۲؂ الطبقات الکبریٰ،ابن سعد ۲/ ۱۳۶۔

۳؂ حق کا اس درجہ میں ابلاغ کہ انکار کی گنجایش باقی نہ رہے۔ اس طرح کے منکرین کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اورانھیں حق قبول کرنے کا مزید کوئی موقع نہیں دیا گیاتھا۔

۴؂ البدایۃ والنہایہ،ابن کثیر ۴/ ۲۹۹۔

۵؂ السیرۃ النبویہ،ابن ہشام۵/ ۶۹۔۷۲۔

۶؂ بیہقی، رقم ۱۶۶۵۷۔

———————————

B