HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

نظام سرمایہ داری اور اسلام (1)

الطاف احمد اعظمی*

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


انسانی زندگی میں معیشت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، نہ صرف انسان کی ذاتی ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں بلکہ تمدن کی ساری ہنگامہ آرائی اسی کے فیض سے ہے۔ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ دولت کی پیدایش اور اس کی تقسیم کا کوئی ایسا طریقہ ہو جس سے نہ صرف انسان کی جائز معاشی ضرورتیں پوری ہوں بلکہ اس کی اجتماعی سرگرمیوں کے لیے بھی مناسب مواقع اور اسباب و وسائل حاصل ہوں، لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دوسرے امور کی طرح اس معاملے میں بھی ابھی تک انسا ن کو وہ راہ عمل نہیں مل سکی ہے جس پر چل کر اپنی معاشی زندگی کے پیچیدہ مسائل کو اطمینان بخش طور پر حل کر سکے۔ سرمایہ اور محنت کے درمیان کشمکش کی ایک طویل تاریخ ہے، دوسرے لفظوں میں سماج میں ایک طبقہ ہمیشہ سے ایسا رہا ہے جس نے محنت کا استیصال کر کے اس کے ایک بڑے طبقے کو معاشی محرومی کے عذاب میں مبتلا کیا ہے۔

موجودہ دور میں اس استیصال کا اطلاق نظام سرمایہ داری (Capitalism) پر بخوبی ہوتا ہے، جیسا کہ آگے اس کے تاریخی پس منظر سے واضح ہو جائے گا۔ استیصال کے عیب سے پاک اگر کوئی نظام ہے تو وہ صرف اسلام کا معاشی نظام ہے جس کا تعارف اس کے بعد کرایا جائے گا۔

تاریخی پس منظر

نظام سرمایہ داری کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے انگلستان کے سماج کا مطالعہ ضروری ہے۔ یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح انگلستان کا سماج بھی چار طرح کے طبقات پر مشتمل تھا، شاہی طبقہ، امرا (Lords) کا طبقہ، مذہبی طبقہ جس کا نمایندہ کلیسا تھا، اور بورثوا یعنی تاجروں کا طبقہ۔ ملک کی سیاسی اور اقتصادی قوت اول الذکر تین طبقات کے ہاتھ میں تھی، سب سے کم زور بورثوا طبقہ تھا۔ اور یہ صورت حال چودھویں صدی کے آغاز تک قائم رہی، لیکن اس کے بعد تاجر طبقہ کی قوت میں بتدریج اضافہ ہوا، یہاں تک کہ وہ بھی ایک بڑی طاقت بن گیا۔ اس طاقت کی وجہ اون کی تجارت تھی جس نے ان کی دولت کو دوچند کر دیا۔

جب اس تجارت کو موافق ماحول کی وجہ سے مزید فروغ حاصل ہوا اور تاجر طبقہ کے سیاسی اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہونے لگا تو اس سے گھبرا کر شاہی حکومت کی طرف سے اس تجارت پر کئی طرح کی قانونی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ تاجروں نے اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کی اور حکومت کے خلاف ہر نوع کی محاذ آرائی شروع کر دی۔ آخر الامر ۱۶۴۴ء میں تاجروں کو فتح حاصل ہوئی اور جاگیرداری اور شاہی اقتدار دونوں کا خاتمہ ہو گیا، لیکن براے نام شاہی نظام کو باقی رکھا گیا۔

جاگیرداری اور شاہی اقتدار سے آزادی ملتے ہی تاجروں نے اپنی تجارتی سرگرمیاں تیز کر دیں اور قوانین کی مدد سے اپنی صنعت و تجارت کو فروغ دینے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ ابھی تک کارخانوں میں ہاتھ سے کام ہوتا تھا، جس کی وجہ سے ان کی آمدنی محدود تھی، لیکن اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب نے پورے معاشی منظر نامے کو بدل دیا۔ اب کارخانوں میں ہاتھوں کی جگہ مشینوں سے کام ہونے لگا اور پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہونے کی وجہ سے تاجروں اور صنعت کاروں کی آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہوا، لیکن دوسری طرف اس ایجاد نے دست کاروں کے ساتھ کسانوں کو بھی بے روزگار کر دیا، کیونکہ اب زمین داروں نے مشینوں کے ذریعے سے کاشت شروع کر دی تھی۔ اس طرح لاکھوں لوگ روزگار کی تلاش میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف آنے لگے۔

اس صورت حال سے تاجروں اور صنعت کاروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ چونکہ اس وقت تک مزدوروں کے اوقات کار اور ان کی اجرتوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں بنا تھا اور مزدوروں کی یونینوں کا بھی کوئی وجود نہیں تھا، اس لیے تاجروں نے پوری آزادی کے ساتھ ان پر ہر طرح کا ظلم و ستم کیا۔ ان سے معمولی اجرت پر سولہ سولہ اور سترہ سترہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ اس طرح مزدوروں کا استیصال کر کے تاجروں نے بے پناہ دولت کمائی اور ان کی صنعت و تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔

اسی دور میں بہت سے مغربی ملکوں میں جمہوری نظام حکومت قائم ہوا تو اس کے اصول آزادی کا اطلاق نظام معیشت پر بھی کیا گیا اور اس طرح ایک ایسا اقتصادی نظام وجود میں آیا جس میں سرمایہ داروں کو کسی رکاوٹ کے بغیر دولت پیدا کرنے کی آزادی اور قانونی تحفظ حاصل ہو گیا۔

انفرادی ملکیت

نظام سرمایہ داری کی بنیاد انفرادی ملکیت کے تصور پر قائم ہے۔ انفرادی ملکیت کے مفہوم کو اس طرح سمجھیں کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم میں وہ سامان آتے ہیں جن کو صارفین (Consumers) اپنی ذاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں، جیسے گھر، سواری اور کپڑے وغیرہ۔ دوسری قسم وہ ہے جو اصل سرمایہ (Capital goods) کہلاتا ہے، جیسے صنعتی پلانٹ، خام مال اور قابل زراعت زمین جس سے پیداوار حاصل ہوتی ہے یا اس سے ایسی چیزیں بنائی جاتی ہیں جو صارفین کے استعمال میں آتی ہیں۔ انفرادی ملکیت کی یہی شکل ذرائع پیداوار (Means of production) کہلاتی ہے۔ ان ہی ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت نظام سرمایہ داری کا سنگ بنیاد ہے۔ اس قسم کی جائداد کی ملکیت کے معنی یہ ہیں کہ صاحب جائداد کو اس پر ہر طرح کے تصرف کا اختیار ہے۔ وہ قانونی طریقے سے اس کو جس طرح استعمال کرنا چاہے استعمال کرے۔ اگر وہ اپنی جائداد کسی دوسرے کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے یا بذریعۂ وراثت دوسروں کو منتقل کر سکتا ہے۔

انفرادی ملکیت کا یہ نظام درج ذیل اصولوں پر مشتمل ہے:

۱۔ آزاد تجارت: نظام سرمایہ داری میں ذرائع پیداوار کی ملکیت کا مالک کوئی فرد بھی ہو سکتا ہے اور جماعت بھی۔ تاجروں کو اس بات کی پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ جس میدان تجارت کو پسند کریں اس میں اپنا سرمایہ لگائیں اور اس سے آزادانہ فائدہ اٹھائیں۔ اس میں خسارہ اور غیر محدود نفع دونوں کے وہ تنہا ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کی بھی آزادی حاصل ہے کہ وہ مارکیٹ میں اپنے مال کی فروخت کا اندازہ لگا کر زیادہ سے زیادہ یا کم سے کم مال تیار کریں۔ فیکٹری میں کام کرنے کے لیے ضرورت کے مطابق جتنے افراد کو رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے کاروبار کی کامیابی کے لیے بائع (Seller) اور مشتری (Purchaser) اور مالک اور نوکر کے درمیان وہ جس قسم کا معاہدہ کرنا چاہیں باہمی رضامندی سے کر سکتے ہیں اور ان معاہدات کو عوامی قانون (Public Laws) کے ذریعے سے وہ نافذ بھی کر سکتے ہیں۔

۲۔ نفع کا محرک (Profit motive) : نظام سرمایہ داری میں تجارتی سرگرمیوں کی خاص وجہ ذاتی نفع کی توقع ہے۔ آدمی کے اندر حصول (Acquisition) کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اس کے اس فطری جذبے کو پیداوار کے ایک زبردست محرک کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر نفع کا امکان غیر محدود ہے تو تاجر پیش قدمی اور خوش تدبیری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرتا ہے، مال کی کوالٹی کو بہتر سے بہتر بناتا ہے، قیمتوں کو کم کرتا ہے اور مارکیٹ کو وسعت دیتا ہے۔ اسی طرح جہاں تجارت کی کامیابی اور نفع یقینی ہوتا ہے وہاں تاجر اپنا سرمایہ لگانے سے نہیں چوکتا، لیکن جہاں کامیابی کے امکانات تاریک ہوتے ہیں یا جس تجارت میں اس کو خسارہ اٹھانا پڑتا ہے اس سے وہ دست بردار ہو جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ نفع کا محرک ہی کامیاب تجارت کا ضامن ہے۔

۳۔ مقابلہ (Competition) : تجارت میں مقابلہ ایک ایسا ذریعہ یا ترکیب ہے جو نظام سرمایہ داری میں ایک خود کار ناظم (Automatic regulator) کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزاد مارکیٹ میں مقابلہ کرنے والی قوتوں (Competitive forces) کے باہمی عمل سے قیمتوں کے ساتھ نفع کی مقدار اور محنت کی اجرتوں میں خود بخود استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔ کسی مخصوص تجارت کے میدان میں تاجروں کے درمیان مقابلے سے ایک طرف مارکیٹ میں قیمتوں میں گراوٹ کا رجحان پیدا ہو گا اور دوسری طرف اشیاء کی خریداری میں صارفین کے درمیان مقابلے سے قیمتوں میں چڑھاؤ واقع ہو گا۔ اس دو طرفہ عمل سے قیمتیں ایک ایسے مقام تک پہنچ کر ٹھہر جائیں گی جہاں صانع (Manufacturer) کا نفع یقینی ہو جائے۔ اسی طرح موجود روزگار (Available jobs) کے لیے مزدوروں کے درمیان مقابلہ سے اجرتوں میں کمی واقع ہو گی اور مزدوروں کی کمی سے اجرتوں میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح محنت اور سرمایہ کی مناسب گردش عمل میں آتی ہے اور دونوں طبقوں یعنی مالک اور مزدور کو سودے بازی کی یکساں طاقت حاصل ہوتی ہے۔

۴۔ نظام اجرت (Wage system) : سرمایہ داری نظام میں تاجر نفع اور نقصان دونوں کا ذمہ دار ہوتا ہے، خواہ نفع اور نقصان کی شرح کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس نظام میں محنت کا شمار مشین اور خام مال کی طرح لاگت (Cost) کے زمرے میں کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کو ایک متعین اجرت پر رکھا جاتا ہے اور یہ اجرت ہر حال میں اپنی جگہ قائم رہتی ہے، خواہ تاجر کو اپنے کام میں کتنا ہی زیادہ نفع حاصل ہو رہا ہو۔ شرح اجرت کا تعین خود مالک کرتا ہے۔ اس کا انحصار تمام تر مزدوروں کی حصول یابی (Availability) اور مالکوں کی مشترکہ سودے بازی کی اہلیت پر ہے۔

صنعت و تجارت میں جیسے جیسے ترقی ہوتی ہے، مزدور اور مالک کے درمیان تعلقات میں دوری پیدا ہونے لگتی ہے، مالک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اجرتوں کی شرح کم سے کم ہو اور مزدور چاہتا ہے کہ اجرتوں کی شرح بڑھے تاکہ وہ اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مزدور کی وفاداری مالک سے کہیں زیادہ اپنی یونین سے ہوتی ہے، لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے مالک کی تجارت کو فروغ حاصل ہو، کیوں کہ وہی اس کا ذریعۂ معاش ہوتا ہے۔

نظام سرمایہ داری کی خوبیاں اور خامیاں

نظام سرمایہ داری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر فرد کو کسب معاش کے لیے سعی و عمل کی مکمل آزادی دیتا ہے، لیکن اس آزادی عمل کے ساتھ مطلق آزادی (Absolute freedom) کا جو تصور وابستہ ہے وہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ اس تصور آزادی کے حامی کہتے ہیں کہ معاشرہ کی ترقی اور اس کی فلاح و بہبود کا کام اسی صورت میں صحیح ڈھنگ سے انجام پا سکتا ہے جب افراد کو کسی خارجی مداخلت کے بغیر آزادانہ سعی و عمل کا موقع دیا جائے۔ یہ مداخلت نہ کسی فرد کی جانب سے ہو اور نہ ہی حکومت کی طرف سے۔ حکومت کا کام یہ نہیں کہ وہ سعی وعمل کی انفرادی آزادی میں خواہ مخواہ مداخلت کر کے پیدایش دولت کے فطری عمل میں رکاوٹ پیدا کرے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ انفرادی آزادی کی حفاظت کرے، امن و امان قائم رکھے، حقوق ملکیت کی حفاظت کے لیے قوانین وضع کرے اور جو شخص ان قوانین کی خلاف ورزی کرے اس کو سزا دے۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کا کام صرف صناعوں اور تاجروں کی آزادی عمل کی حفاظت کرنا ہے۔

انفرادی آزادی کے اس تصور کو کسی طرح صحیح نہیں کہا جا سکتا ہے۔ چند افراد یا گروہوں کو اس بات کی آزادی کیوں کر دی جا سکتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں سرمایہ پیدا کریں اور جس طرح چاہیں اس کو تصرف میں لائیں یا موجود سرمائے سے کسی رکاوٹ کے بغیر مزید سرمایہ پیدا کریں۔ دوسرے لفظوں میں محنت کشوں کا استیصال کر کے اپنی تجوریاں بھرتے رہیں اور سازشوں کے ذریعے سے مصنوعی طور پر اشیاے صرف کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر صارفین کو لوٹتے رہیں۔ یہ طرز عمل انسانیت کی گردن پر کند چھری پھیرنے کے مترادف ہے۔

نظام سرمایہ داری میں مطلق آزادی عمل کے نتیجے میں اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ کی تمام دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں جمع ہو جائے اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد افلاس اور خستہ حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے۔ ارتکاز زر کے اسی عمل کے نتیجے میں سرمایہ داری نظام میں وقفے وقفے سے کساد بازاری (Recession) کے دورے پڑتے رہتے ہیں اور مزدوروں کی پہلے سے خستہ حال زندگی اور زیادہ خستہ ہو جاتی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ نظام سرمایہ داری میں اب بہت کچھ اصلاح ہو چکی ہے اور مزدوروں کی حالت صنعتی انقلاب (Industrial revolution) کے دور کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، لیکن اصلاح اور بہتری کا یہ عمل صرف صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں ہی تک محدود ہے، غیر ترقی یافتہ یا نیم ترقی یافتہ (Under-developed) ملکوں میں نظام سرمایہ داری کی مذکورہ خرابیاں اب بھی موجود ہیں اور وہاں مزدوروں کی حالت ہنوز خراب و خستہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک انفرادی آزادی عمل کو اجتماعی فلاح و بہبود کا پابند نہیں بنایا جائے گا، نظام سرمایہ داری کی خرابیوں کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ ہر انسان کو یہ فطری حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنی سعی و عمل سے جتنی دولت پیدا کر سکتا ہے پیدا کرے، لیکن اس کو اس بات کا حق نہیں ملنا چاہیے کہ وہ پیدایش دولت کے عمل میں بالکل آزاد ہو اور اس میں اضافہ کے لیے جو طریقہ مناسب خیال کرے عمل میں لائے، خواہ اس سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جائیں۔ اسی طرح اس کو اس بات کا بھی حق نہیں ملنا چاہیے کہ وہ اپنی کمائی ہوئی دولت کو جس طرح چاہے تصرف میں لائے۔ اس کو دولت کمانے، جمع کرنے اور خرچ کرنے میں ان حدود و ضوابط کا بہرحال پابند ہونا چاہیے جو اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہیں۔

نظام سرمایہ داری کی ان ہی خرابیوں کی اصلاح کے لیے مارکس نے انفرادی ملکیت کے بجاے جو اس کی نظر میں تمام سماجی مفاسد کا سرچشمہ ہے، اجتماعی ملکیت کا نظام پیش کیا تھا، لیکن جس طرح انفرادی ملکیت کے نظام میں فرد کے حقوق کا تحفظ اس طرح کیا گیا کہ جماعت کے حقوق اور مفادات یکسر نظر انداز کر دیے گئے، اسی طرح اجتماعی ملکیت کے نظام میں فرد کے حقوق اور مفادات کو جماعت کے حقوق اور مفادات پر قربان کر دیا گیا۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام نے روس میں جو الم ناک نتائج پیدا کیے ان کا اجمالی ذکر کیا جائے تاکہ انفرادی ملکیت کے رد عمل میں قائم ہونے والے نظام معیشت کی ناکامی کی وجوہات بھی معلوم ہو جائیں۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کے روس میں اجتماعی ملکیت کے نظام نے نظام سرمایہ داری کی بے قید معیشت سے پیدا ہونے والی بہت سی خرابیوں کو دور کر دیا تھا۔ جب ذرائع پیداوار پر انفرادی ملکیت ختم ہو گئی تو تجارت و صنعت کی آزادیاں خود بخود ختم ہو گئیں اور معاشی استیصال اور غیر محدود نفع اندوزی کے سارے خفیہ اور علانیہ دروازے بھی بند ہو گئے۔ ذرائع پیداوار کے اجتماعی ملکیت میں آجانے کی وجہ سے حکومت کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اجتماعی منصوبہ بندی کے ذریعے سے وسائل دولت کو صحیح طور پر بروے کار لائے، قابل کار آدمیوں کو کام مہیا کر کے بے روزگاری کا خاتمہ کر سکے اور ناقابل کار آدمیوں (Handicaped) کو سوشل انشورنس اسکیم کے تحت زندگی کا سہارا فراہم کرے۔

لیکن انفرادی ملکیت کے نظام کو ختم کر کے اجتماعی ملکیت کا نظام نافذ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس کے لیے روس کو بڑے ہی خوں چکاں مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف اجتماعی کاشت کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے کروڑوں کسانوں کو ناقابل بیان ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنا کر ہلاک کر دیا گیا اور لاکھوں لوگ ان مظالم سے تنگ آکر ملک چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے۔ روس کے متوسط درجہ کے کسانوں پر جن کو کلک کہا جاتا تھا، اسٹالن کے دور حکومت میں جو لرزہ خیز مظالم ڈھائے گئے ان سے روسی تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہو گا۔

روسی ماہر عمرانیات اور فلسفی پروفیسر سوروکن پٹی رم انقلاب روس میں انسانی جانوں کے اتلاف کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’انقلاب ۲۲۔۱۹۱۸ میں براہ راست تصادم میں ۶ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ گویا فی سال ایک لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ خانہ جنگی کے ہلاک شدگان اور بالواسطہ زد میں آکر مرنے والوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ایک کروڑ ۵۰ لاکھ سے ایک کروڑ ۷۰ لاکھ تک پہنچتی ہے۔‘‘

(Sorokin pitirim A., The Crisis of Our Age, E.P. Duttan & New York (1931), P.229) بحوالہ بنیادی حقوق، محمد صلاح الدین، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۷۹، ص ۵۰

اس جانی قربانی کے علاوہ اجتماعی ملکیت کی اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اخلاق اور انسانیت کے مسلمہ اصولوں کو جس طرح پامال کیا گیا وہ کم افسوس ناک نہیں ہے، لیکن جس نظام کی بنیاد نفی اخلاق پر قائم ہو اور اس کے ارباب اقتدار علانیہ کہتے ہوں کہ سیاست میں اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں (There is no morality in politics) ، ان کے نزدیک اخلاق اور انسانیت کی بربادی چنداں اہمیت نہیں رکھتی۔ جان و مال اور اخلاق و انسانیت کے قتل عام سے اگر روسی عوام کو عزت، آزادی اور امن و راحت کی دولت مل جاتی تو بھی اشک شوئی ہو جاتی، لیکن مذہب، اخلاق اور آزادی کی نعمتوں سے دست بردار ہو کر انھیں جو کچھ حاصل ہوا وہ دو وقت کی روٹی، تن ڈھانکنے کو کپڑا اور رہایش کے لیے ایک درمیانی درجے کے مکان کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔

اس بات سے انکار نہیں کہ کمیونسٹ روس میں مزدوروں کی معاشی حالت زارا کے دور حکومت کے مقابلہ میں کہیں بہتر تھی، لیکن زیادہ ترقی یافتہ ملکوں کے مزدوروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت بہت پست تھی۔ اس وقت امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور جاپان میں مزدوروں کو جو اجرتیں دی جاتی تھیں وہ روس کے مزدوروں کی اجرتوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ مزید برآں، ان ممالک کے مزدور بہتر اجرتوں کے ساتھ آزادی کی نعمت سے بھی بہرہ اندوز تھے، جبکہ روس کے مزدور اس سے محروم تھے۔

[باقی]

————


* آر زیڈ ۹۰۱ بی، فلیٹ نمبر ۴۰۲، تغلق آباد ایکسٹنشن، نئی دہلی۔۱۹۔

 ——————————

B