قرآن مجید پروردگارعالم کی وہ کتاب ہے جو آخری آسمانی ہدایت کی حیثیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی اورپھر سب کے سامنے بے کم وکاست پیش کردی گئی۔حق کے متلاشی گویا اسی کے منتظرتھے۔جب اس کی آوازان کے کانوں میں پڑی توانھوں نے اسے اجنبی خیال نہ کیا، بلکہ اپنے ہی باطن کی بازگشت جانا، منادی ہوجانے پردیوانہ واراس کی طرف گئے اوردوسروں سے بڑھ کراسے قبول کر لیا۔اورجب اسے خداکی کتاب مان لیاتو یہ ماننامحض عقیدت کاماننانہیں ہوا، بلکہ پورے دل سے اورپوری جان سے اسے مانا۔جوکچھ بھی اس نے کہا تہ دل سے سنا،جن رموز کی طرف اشارہ کر دیا سمجھنے کی خوب خوب کوششیں کیں اورجدھربھی لے جانا چاہا اسی کواپنی راہ اورپھر اسے ہی اپنی منزل جانا۔کتاب اللہ کوماننے والوں کی یہ اس درجہ وفاداری ،زمانوں میں بھی قیدنہیں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین ساتھیوں ہی تک محدودہوکررہ جاتی،بلکہ بعد کے زمانوں میں بھی ایسے نفوس تسلسل سے پیدا ہوتے رہے، جنھوں نے اس کتاب کے ساتھ ایفاے عہدکی بے نظیر مثالیں رقم کیں۔ خود اس کافہم حاصل کیااورپھر اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے جو بن پڑا،وہ سب کیا۔ رخصت میں پناہ ڈھونڈناتودورکی بات، رخصت کورخصت ہی پرسمجھااور ہمیشہ عزیمت بھری راہوں کاانتخاب کیا۔ آنکھوں کوخیرہ کر دینے والی چکا چوند سے اپنی آنکھیں بند رکھیں اوراپنی جانوں پربھی وہ وہ مصائب جھیلے کہ بس جانوں ہی پرکھیل گئے۔
فہم قرآن کے اس عمل میں فکرونظرکااختلاف ہوجانا قدرتی امرتھا،اس لیے یہ اختلاف ہو بھی گیااوراس کی بنیاد پر آرابھی مختلف ہوگئیں، مگرمثبت بات یہ ہوئی کہ دوسروں کی آراکوبڑے ہی تحمل سے سنا گیا ،دلائل پرسچے دل سے غورہوا،اوراس کے بعد اگراستدلال کی کمزوری واضح ہوگئی توبنا جھجک کے دوسرے کے موقف کومان بھی لیاگیا۔ اس فطری اختلاف کو اگرچہ کچھ کے ہاں افتراق بھی خیال کرلیاگیااورپھرجنگ وجدل کی نوبت بھی آگئی،تاہم یہ بھی ایک سچائی ہے کہ امت کے مجموعی شعورنے انانیت اورعصبیت کے کسی بھی آسیب سے اپنادامن بچائے رکھااور اس طرح علم وتحقیق کی صحت مند روایت کوہمیشہ برقراررکھا۔
آج کا ہمارا فکری جمودجوحددرجہ متعفّن بھی ہوچکا ہے ،اس میں ارتعاش پیداکرنے کی واحد صورت بھی یہی ہے کہ علم وتحقیق کی اس شان دارروایت کوپھرسے اپنالیاجائے۔ایک عالم اگرتحقیق کرے تودوسراتنقیدکرے، اورجو بات بھی کھل جائے اسے دونوں ہی تسلیم کرلیں۔اس سارے عمل میں ماحول اتناخوشگوارہوکہ ماتھے پرکوئی شکن آئے نہ ہی ناتے ٹوٹیں اورایک دوسرے سے محبتیں بھی قائم رہ جائیں۔ زندہ خداکی کتاب کو محض کتاب ہی نہیں ،ایک زندہ کتاب سمجھاجائے اوراس کاحق حکومت اسے لوٹادیاجائے ۔اس کی ہر آیت اوراس کاہرہرلفظ بحث کاموضوع بنے ، ان پر کھل کر داد تحقیق دی جائے ،اسی کتاب کی روشنی میں سب کے دلائل کاتجزیہ ہواوراس طرح آزادانہ تقابل کی بندراہ پھرسے کھول دی جائے۔
ہماری یہ تحریر بھی اصل میں اسی سلسلے کی ایک کڑی اور احیاے فکرکے مساعی میں سے اپنی سی ایک کوشش ہے ۔ہم بھی چاہتے ہیں کہ امت کافکرپھرسے عروج آشناہو،اس کی علمی قدریں علما کے نزدیک دوبارہ سے بارپائیں،ضد اورانانیت کے بت پاش پاش ہوں،اور سب سے اہم بات یہ کہ قرآن مجیدپھرسے ہمارے مذہبی فکرمیں مرکز اورمحور کی حیثیت اختیارکرجائے۔
اس آزادتحقیقی عمل کاحصہ بننے کے لیے ،سردست،ہم دوآیتوں کوموضوع بنارہے ہیں۔اس میں ہم یہ جاننے کی کوشش کر یں گے کہ قدیم اورجدید علماے تفسیرنے ان سے کیاسمجھاہے ، جوکچھ سمجھاہے اس کے دلائل کیا ہیں اورقرآن مجید کے تناظر میں ان کی حقیقت اور پھر آخر کار ان آیات کا اصل مفہوم کیاہے ۔وہ دوآیتیں یہ ہیں:
وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً. وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا.(النساء۴: ۱۵-۱۶)
ان آیتوں کااصل مفہوم اوراس میں بیان ہوئے احکام کوسمجھنے کے لیے ہم ذیل میں ان آراکا ذکرکریں گے جو قرآن مجیدکے قدیم اورجدیدماہرین علماسے منقول ہیں:
قدیم دورمیں عطاء، حسن بصری،عکرمہ، ابن کثیراورزمخشری سمیت بہت سے علماے تفسیرکی راے یہ ہے کہ پہلی آیت میں زناکے بارے میں کچھ ہدایات دی گئی ہیں اوردوسری آیت میں بھی انھی کا بیان ہواہے۔فرق ہے توصرف یہ کہ اول الذکر میں محض عورتوں کااورثانی الذکرمیں مرد اور عورت، دونوں کاذکرہوگیاہے۔آج کے دورمیں بھی بہت سے علما اسی راے کے مویدہیں۔مولانا مودو دی تفہیم القرآن میں اس کابیان ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ان دونوں آیتوں میں زناکی سزابیان کی گئی ہے ۔پہلی آیت صرف زانیہ عورتوں کے متعلق ہے اور ان کی سزایہ ارشادہوئی ہے کہ انہیں تاحکم ثانی قیدرکھاجائے ۔ دوسری آیت زانی مرداور زانیہ عورت دونوں کے بارے میں ہے کہ دونوں کواذیت دی جائے۔‘‘ (۱ / ۳۳۱)
اس میں شک نہیں کہ یہ راے ان جید علماکی ہے جن کاتفسیرمیں ایک خاص مقام ہے اوروہ ان علوم میں مراجع کی حیثیت رکھتے ہیں،مگران کے اس تبحرعلمی کے باوجود،چند سوالات ان کی بیان کردہ تاویل پرپیداہوجاتے ہیں ۔ پھر وہ سوالات بھی اتنے سنجیدہ ہیں کہ قرآن مجید کاکوئی بھی طالب علم نہ توان سے صرف نظرکرسکتا اورنہ ہی ان کے جوابات ملے بغیرمطمئن ہوسکتا ہے ۔
پہلایہ کہ اس راے کے مطابق دونوں آیتیں ایک ہی جرم،یعنی زنا کے بارے میں حکم کا بیان ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ پہلی آیت میں جب اس کے بارے میں ہدایات دے دی گئیں اور پوری تفصیل سے دے دی گئیں توآخرکیاوجہ ہوئی اورپہلی ہدایات میں کون سی کمی رہ گئی کہ اس حکم کو پھرسے بیان کرنا ضروری ہوگیا۔اورپھراس حکم کودہرانے کی صورت یہ بھی نہیں ہے کہ اسے قرآن کے کسی اور مقام پر یاپہلی آیت سے کچھ دوری پر دہرایا گیا ہو، کیونکہ ایساکرنے کی توپھربھی کوئی نہ کوئی توجیہ ہو سکتی تھی؛ یہاں تو پہلے حکم کے متصل بعدہی اس کااعادہ مان لیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنا کیامحض تکرارنہیں؟اورالہامی کلام کی شان کیااس سے بہت بلندنہیں کہ ہم یہ ماننے پر مجبورہوجائیں کہ اس کے مخمل میں تکرار محض کے ٹاٹ نماپیوند بھی ہواکرتے ہیں؟
دوسرایہ کہ ان دونوں آیات میں اگرایک ہی جرم کی سزابیان ہوئی ہے توپھرجرم کے ثبوت میں اوراس کی سزامیں اس قدراختلاف کیوں ہے ؟پہلی آیت بیان کرتی ہے کہ اس جرم پرخود سے گواہ طلب کیے جائیں اوریہ جرم اس وقت تک ثابت ہی نہ ماناجائے جب تک چارگواہ اس کی شہادت نہ دے دیں۔دوسری آیت کامعاملہ یہ نہیں ہے ۔اس میں بدکاری کے ارتکاب پرنہ توخود سے گواہ طلب کرنے کاحکم ہے اورنہ ہی سزا دینے کے لیے چارشہادتوں کی کوئی شرط ہے ۔نیزپہلی آیت جو سزاتجویزکرتی ہے وہ اتنی سخت ہے کہ اس میں کسی عذربیانی کاموقع ہے اورنہ ہی معافی اور تلافی کی کوئی گنجایش ۔یہ وہ سزا ہے جسے مجرم کوبہرصورت ،موت کے وقت تک بھگتنا ہے، الّا یہ کہ خداہی کی طرف سے کوئی دوسرا حکم جاری کردیاجائے۔اس کے مقابل میں دوسری آیت میں مذکور سزا صرف اذیت دینے ،یعنی مار پیٹ کرنے ،سخت سست کہنے اوران کی تذلیل کردینے ہی تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔سوال پیداہوتاہے کہ اگردونوں آیتیں ایک ہی جرم کی سزاکابیان ہیں تو جرم کے ثبوت اوراس کی سزا میں ،اس قدراختلاف آجانے کی وجہ کیاہے؟
تیسرا یہ کہ موخرالذکرآیت میں ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ کہہ کرمرداورعورت دونوں کا ذکر کیاگیا ہے ،اوریہ صحیح بھی ہے کہ بدکاری کے فعل کاارتکاب یہ دونوں مل کرہی کرتے ہیں ؛ مگر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ میں مرداورعورت کانہیں، صرف عورتوں کا ذکرہوا ہے کہ جن کاخودسے بدکاری کرلیناممکن ہی نہیں ہے ۔ظاہرہے ،اسلوب میںیہ تبدیلی بغیرکسی وجہ کے نہیں ہوئی،ضرور اس میں کوئی نہ کوئی معنی پوشیدہ ہے۔ مذکورہ راے پریہ سوال پیداہوتاہے کہ اسلوب میں اس قدرواضح تبدیلی کے ہوتے ہوئے آخرکس طرح ماناجاسکتاہے کہ ان دونوں آیتوں کا مدعااورمفہوم بالکل ایک ہے؟
ابومسلم اصفہانی کے نزدیک ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ کی آیت میں صرف عورتوں کابیان ہواہے اور ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ میں صرف مردوں کا۔قرن اول میں مجاہد سے بھی یہی بات نقل ہوئی ہے۔ جدیدعلمامیں سے رشیدرضامصری سمیت، کہ جنھوں نے اپنے استاذ کی بھی یہی راے نقل کی ہے ،بہت سے علمانے اسے قبول کیاہے۔ ان حضرات کے مطابق پہلی آیت یہ بیان کررہی ہے کہ اگر عورتیں باہمی طور پر برائی کریں توانھیں چارگواہیوں کے بعد انھی کے گھروں میں نظربندکر دیا جائے، یہاں تک کہ انھیں موت آجائے، یاپھراللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے۔ ابومسلم کے خیال میں چونکہ ’اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً‘ کے الفاظ آئے ہیں نہ کہ ’علیھن سبیلا‘ کے ،اس لیے اس سے مرادکوئی حداورتعزیرتو ہو نہیں سکتی،بلکہ کوئی ایسی ہی صورت ہوسکتی ہے جوان پرنہیں، بلکہ ان کے لیے ہو۔یعنی اللہ ان کے لیے قضاے شہوت کی کوئی سبیل پیدا کردے کہ جس کی ایک صورت عقد نکاح بھی ہوسکتی ہے ۔ان کے مطابق دوسری آیت کامفہوم یہ ہے کہ اگر مرد حضرات ایک دوسرے سے بدفعلی کریں تو انھیں اذیت دی جائے ۔ہاں ،اگروہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں توانھیں معاف کردیاجائے۔
ابومسلم کی یہ راے بادی النظرمیں انتہائی معقول اوردل لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔یہ راے مان لی جائے توکم سے کم ان تمام سوالات کاایک حدتک جواب ہو جاتاہے جوپہلی راے کے ضمن میں پیدا ہو جاتے ہیں۔یہاں تکرارمحض کاالزام آجانے کامسئلہ رہتاہے اورنہ ہی ایک ہی جرم میں دو مختلف سزاؤں کاغیرمعقول فیصلہ ماننے کی حاجت رہتی ہے ،اورپھرسب سے بڑھ کریہ کہ پہلی آیت میں صرف عورتوں کاذکرکیوں ہوا،اس بات کابھی ایک طرح سے جواب ہوجاتاہے۔لیکن ذرا دقت نظرسے دیکھیں تومعلوم ہوتاہے کہ اس تاویل کے نتیجے میں سب سوالوں کاجواب مل جانا تو درکنار، الٹاکچھ مزیدسوالات بھی پیداہوجاتے ہیں۔
پہلی راے پریہ اعتراض ہواتھاکہ اگر دونوں ہی آیتیں ایک ہی جرم کی سزاکابیان ہیں توپھر ایک ہی آیت کافی ہوتی، دوسری کی تکرار کیوں گواراکی گئی ۔ابومسلم کی راے پربھی یہ سوال ایک اور زاویے سے قائم رہتا ہے کہ اگران آیات میں عورتوں اورمردوں کی باہمی بدفعلی پرسزابیان ہوئی ہے جوہم جنسیت کاجرم ہونے کی وجہ سے اصل میں ایک ہی جرم ہے،تواسے ایک ہی باربیان کر دیناکافی کیوں نہ ہوا؟
اگراس کے جواب میں یہ کہاجائے کہ چونکہ مرداورعورت کی سزاؤ ں میں فرق کی وضاحت کرنا مدنظر تھا، اس لیے ان کوالگ الگ بیان کیاگیاتوپوچھاجائے گا کہ ایک ہی جرم میں دوطرح کی سزائیں بیان ہی کیوں ہوئیں، اوریہ وہی دوسرا سوال ہوگاجوپہلی راے پربھی واردہوگیاتھا۔
تیسراسوال یہ تھاکہ مقدم آیت میں صرف عورتوں ہی کاذکرکیوں ہواہے ۔ابومسلم کی تاویل اس کا حل یہ پیش کرتی ہے کہ اس میں چونکہ عورت اورعورت کی بدفعلی کامعاملہ زیربحث ہے، اس لیے مردوں کا اس میں ذکرکرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ان کی یہ بات بہرحال،کسی حدتک معقول ہے اوراس کی بنیادپران کی اصل راے بھی مانی جاسکتی ہے، مگرکچھ دوسرے وجوہ ہیں جواسے مان لینے میں مانع ہوگئے ہیں:
پہلا یہ کہ قرآن مجید عربی مبین میں ہونے کی وجہ سے اپنے مدعاکے ابلاغ کے لیے ہمیشہ معروف الفاظ اور کچھ مخصوص اسالیب ہی استعمال کرتاہے۔ ’الْفَاحِشَۃَ‘ عربی زبان میں جس طرح کھلی بے حیائی کے لیے مستعمل اور زنا کے لیے ایک معروف لفظ ہے ،اسی طرح ’اتی الفاحشۃ ‘بھی زناکے فعل کوبیان کرنے کاایک عمومی اسلوب ہے۔ لہٰذا، کس طرح ممکن ہے کہ آیت میں آنے والے الفاظ کواس کے معروف معنی سے ہٹادیاجائے اور ’الْفَاحِشَۃَ‘ اور ’یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ‘ سے زنا اور فعل زناکے بجائے عورتوں کی ہم جنسیت کومرادلیا جاسکے، جیساکہ ابومسلم کی راے ہے۔
دوسرایہ کہ اگربات وہی ہے جوابومسلم کہتے ہیں تو پھر ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ کی آیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس میں تثنیہ کافعل آیاہے جومرد اورمردکی بدفعلی بیان کرنے کے لیے بالکل موزوں ہے، مگر جب ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ پر غور کریں توپتاچلتاہے کہ یہاں تثنیہ نہیں ،بلکہ جمع کاصیغہ آیاہے ۔اب ظاہر ہے، فعل کے ان صیغوں میں تثنیہ اورجمع کا فرق جورکھا گیاہے اس کی وجہ جوبھی ہو،بہرحال ،مذکورہ تاویل میں اس کاکوئی جواب نہیں ہے ۔
تیسرایہ کہ ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ میں’ھَا ‘کی ضمیرکامرجع چونکہ اگلی آیت کالفظ ’الْفَاحِشَۃَ‘ ہے ، اس لیے یہ طے ہے کہ جومعنی ’الْفَاحِشَۃَ‘ کا ہے، وہی اِس کابھی ہے۔اُس سے مرادزناہے تواِس سے بھی یہی مراد ہے، اُس کامعنی عورتوں کی باہمی بدفعلی ہے تواِس کامعنی بھی یہی ہے۔ اوراگر یہ کہا جائے کہ ’الْفَاحِشَۃَ‘ کامطلب تو بے حیائی ہے ، مگرعورتوں کے ساتھ ذکرسے وہاں وہ عورتوں کی ہم جنسیت ہوگئی اور مردوں کے ساتھ ذکرسے مردوں کی ہم جنسیت ہوگئی توسوال کیاجائے گاکہ لفظ ’الْفَاحِشَۃَ‘ کے اس استعمال کی زبان میں کیا دلیل ہے ؟مزیدیہ کہ ’الْفَاحِشَۃَ‘ کالفظ مردوزن کے ساتھ آکر ہم جنسیت کے بجاے اپنے معروف معنی کے مطابق آخر زناہی کیوں نہ ہوگیا؟
چوتھا یہ کہ اگرابومسلم کی راے صحیح ہوتی توجس طرح پہلی آیت میں ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں جوواضح کردیتے ہیں کہ اس میں صرف عورتوں کابیان ہے،بعد والی آیت میں بھی ’مِنْکُمْ‘ کے بجاے ’من رجالکم‘ کے الفاظ ہی زیادہ موزوں ہوتے ،جواس مدعاپربالکل واضح ہوجاتے کہ اس میں صرف مردوں کابیان ہے ۔
پانچواں یہ کہ سابقہ راے پرجویہ اعتراض ہواتھاکہ وہ ایک ہی جرم میں دومختلف سزاؤں کا ذکر کرتی ہے ،وہی اعتراض اپنی مزید سنگینی کے ساتھ اس راے پربھی واردہوجاتاہے ۔یعنی اس راے میں قباحت محض یہی نہیں کہ ایک ہی جرم میں سزامختلف ہوجاتی ہے ،بلکہ دوسری قباحت یہ ہے کہ مرد اورعورت ہونے کی بنیادپرمختلف ہوجاتی ہے۔ مردجرم کرے توکچھ اذیت دے دی جائے اور خلاص، مگروہی جرم اگر عورت کر بیٹھے تو موت تک گھرمیں قیدکردی جائے ۔حالانکہ مردوزن کے مابین سزاؤں میں اس بے انصافی کی کوئی دلیل عقل میں ہے اورنہ ہی نقل میں،حتیٰ کہ خود قرآن مجید نے بھی کسی جرم کی سزامیں اس فرق کوروانہیں رکھاہے ۔بلکہ چوری اورزنامیں تو اس نے بات ہی اس انداز سے شروع کی ہے کہ زانی مردہویاعورت،چورمرد ہویاعورت؛اورپھرایک ہی جرم میں دونوں کو ایک جیسی سزا سنادی ہے ۔۱
چھٹایہ کہ ابومسلم جب یہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنس عورتوں کو اس وقت تک قیدرکھاجائے جب تک انھیں موت نہ آلے یاپھراللہ تعالیٰ ان کے نکاح کی کوئی سبیل نہ پیداکردے،تواس کی بنیادان کایہ خیال ہے کہ آیت میں ’اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً‘ کے الفاظ آئے ہیں نہ کہ ’علیھن سبیلا‘ کے ۔ اس لیے اس کامعنی لازمی طورپریہی ہے کہ ’’یا پھر اللہ ان عورتوں کے ’لیے ‘کوئی راستہ نکال دے۔‘‘ یہ بات صحیح ہے کہ قرآن مجیدمیں کم وبیش ہرجگہ ’جعل لہ سبیلا‘ کی تعبیراسی مفہوم کو بیان کرتی ہے، مگراس سے یہ نتیجہ اخذکرناکہ یہ صرف اسی معنی کے لیے آیاکرتی ہے ،یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کسی ممکنہ صورت کوبیان کرنے کے لیے بھی عربی زبان میں یہی تعبیراستعمال ہوتی ہے ،چاہے وہ نئی صورت سابقہ صورت سے اپنی شدت میں کم رہ جائے یاپھراوربڑھ جائے ۔لیکن اس استعمال سے قطع نظر،مذکورہ آیت میں بھی یہ تعبیراپنے معروف معنی ہی کے لیے آئی ہے۔ کیونکہ دوسراحکم نہ آجانے تک ان عورتوں کو موت تک گھروں میں بند کر دینے کاحکم ،جس طرح ان کی سزا کا بیان ہے اسی طرح ان کامعاملہ معلق ہوجانے کابھی بیان ہے۔چنانچہ اس شدید تر سزا اور تعلیق کے عذاب سے بچانے کے لیے جوراہ بھی بیان کی جائے گی ،وہ ظاہرہے، ان ہی کے لیے ہوگی۔
ساتواں یہ کہ اس راے میں یہ سمجھ لیاگیاہے کہ عورتیں محض کنواری ہونے کی وجہ سے ہم جنسی کے گناہ میں ملوث ہوگئی ہیں،اس لیے اگران کانکاح کردیاجائے گاتوان کی بری عادتیں ان سے چھوٹ جائیں گی۔یہ دونوں ہی باتیں صحیح نہیں ہیں۔ہم جنسیت نہ تو کنوار پن کے ساتھ مخصوص ہے اورنہ ہی شادی شدہ ہوجانا،اس کاکوئی حل ہے۔ یہ توایک خاص قسم کی ذہنیت ہے جو محرومی ہویا نہ ہو،جنس زدوں کے ساتھ چمٹ کررہ جاتی ہے۔اوربفرض محال، اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ برائی تجرّدسے درآتی اورتاہّل سے چلی جاتی ہے توپھرسوال پیداہوگاکہ مردوں کی ہم جنسی کی وجہ بھی لازماً یہی رہی ہوگی، اس لیے اس کاحل بھی یہ کیوں نہ ہواکہ انھیں اُس وقت تک مار پیٹ سے درست کیا جاتارہتا جب تک ان کے نکاح کی بھی کوئی نہ کوئی سبیل پیدانہ ہوجاتی۔
ان آیتوں کے بارے میں ایک اورراے جس کااشارہ رازی نے اپنی تفسیرمیں کیاہے ،یہ ہے کہ پہلی آیت میں ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ سے مراد ’من زوجاتکم‘ ہے ۔یعنی اگرتمھاری بیویاں بدکاری کریں تو انھیں گواہیوں کے بعد گھروں میں بندکردو،یہاں تک کہ انھیں موت آجائے یاپھراللہ ان کے لیے کوئی دوسراحکم نازل کردے ۔اوردوسری آیت میں ’وَالَّذٰنِ‘ سے مرادعام مردوعورت ہیں جوبدکاری کریں توانھیں اذیت دی جائے ،یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں اوراپنی اصلاح کرلیں۔
یہ راے اگرچہ ایسی تونہیں کہ جسے معتبر علمانے قبول کیاہواورنہ ہی ایسی وقیع کہ اسے قبول کرلیا جاسکتا ہو،تاہم اسے آج کے دورمیں بھی چونکہ پیش کیاگیاہے ،اس لیے ضروری ہے کہ اس پربھی کچھ غور و خوض کرلیاجائے۔
اس راے میں اصل استشہاد ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ کے لفظ سے ہے ،اس لیے اسی کے تناظرمیں دوچیزوں کودیکھ لیناضروری ہے۔یعنی ’نساء‘ کے لفظ کامعنی اور ’کم‘ کی ضمیرخطاب سے مخاطب کا تعین۔عربی زبان میں ’نساء‘ کا معنی عورت ہے ۔اس کے بعد اس لفظ کاموقع استعمال ہوتاہے کہ جس سے اس کی مراد بدل بدل جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بیٹی کاذکر کرناہویابیوی کا،یاپھر محض عورت کا؛ ان سب کے لیے یہ لفظ آجاتاہے۔اس کی مرادطے کرنے میں فیصلہ کن چیز اس کے ساتھ مذکور الفاظ اوررشتے ہوتے ہیں۔جیسے قرآن مجیدمیں یہی لفظ مثال کے طور پر، جب مردوں کے ساتھ آیاتوعورتوں کے مفہوم میں،جب بیٹوں کے ساتھ آیاتوبیٹیوں اورجب شوہروں کے ساتھ آیا تو بیویوں کے مفہوم میں چلاگیاہے ۔غرض یہ کہ تمھاری عورتیں ،یہ الفاظ اگر شوہرکے رشتے کے ساتھ آئیں یااُسے خطاب کرکے کہے جائیں ،تب ہی اس سے بیویاں مراد لیا جاناممکن ہوگا، وگرنہ یہ الفاظ اپنی ذات میں واضح نہیں ہیں کہ ان سے بیویاں مرادلی جاسکیں۔ اس وضاحت کے بعد جب آیت کوسیاق میں رکھ کردیکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس میں شوہروں کا ذکر ہونا یا انھیں مخاطب کرناتو کجا، دور دور تک ان کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ہے۔
بہرحال، اگرسیاق میں زوج کالفظ نہ بھی ہو تو پھر بھی ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ سے بیویاں مرادلینے کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ وہ یہ کہ کلام میں کوئی ایساقرینہ ہوجومتعین کردے کہ یہاں ’کم ‘کی ضمیر سے شوہروں ہی کوخطاب کیا گیا ہے۔ جیساکہ ’نسائکم حرث لکم‘ اور ’وامھات نسائکم‘ کی آیات میں چاہے شوہروں کانام لے کربات شروع نہیں ہوئی،مگراول الذکر میں حیض سے پرہیز اور طہرمیں ملاقات کرنے کاحکم اورثانی الذکر میں حرمت نکاح کاذکر،یہ اس بات کاواضح قرینہ ہے کہ ان مقامات پر ’نسائکم‘ سے مراد بیویاں ہی ہیں۔زیربحث آیت کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ان عورتوں پرجوبدکاری کریں گواہیاں طلب کرنے ،اس کی بنیادپرفیصلہ سنانے اورپھران پر سزا نافذکردینے کاحکم ہے ۔یہ ساری تفصیل اس بات کاقرینہ توہوسکتی ہے کہ اس میں اجتماعیت کو خطاب کیاگیاہے اور ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ سے مراداسی اجتماعیت میں شامل کچھ عورتیں ہیں ،مگریہ اس بات کاقرینہ ہرگز نہیں ہوسکتی کہ یہاں شوہروں کوخطاب کیاگیاہے اور ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ سے مراد ان کی بیویاں ہیں۔۲
یہ راے سدی کی ہے ،اورسابقہ راے سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں ہدایات کی تقسیم یہ کی گئی تھی کہ پہلی آیت بیویوں اوردوسری عام مردوزن کے لیے ہے ،اوراس میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ ہونے کے اعتبارسے یہ تقسیم کی گئی ہے۔اس کے مطابق آیات کامفہوم یہ ہے کہ اگر شادی شدہ عورتیں زناکریں توانھیں ان کی موت تک گھروں میں بندکردیاجائے یاپھراللہ ان کے لیے کوئی نیاحکم نازل کردے ۔ اوراگرکنوارے مرداورعورتیں زناکریں توانھیں اذیت دی جائے جو ان کی توبہ اوراصلاح کے بعدختم کردی جائے ۔
یہ راے ایسی مدلل اورعقلی ہے کہ اس سے بہت سے سوالوں کاجواب مل جاتاہے، لیکن اس کے باوجود،یہ اپنے اندرکچھ ایسے نقائص رکھتی ہے کہ قرآن مجید کے کسی طالب علم کادل اس پر جم جائے ،یہ ممکن نہیں رہتا۔
اولاً،یہ آیتیں قانون کابیان ہیں،اس لیے ان کواپنے مدعامیں بالکل واضح ہوناچاہیے ۔ان میں کسی ایسے اسلوب اوراختصار کی جوابہام پیدا کر دے،کوئی گنجایش نہیں ہے۔اگر قرآن کویہی بیان کرنا ہوتاکہ شادی شدہ اورکنوارے بدکاری کریں توانھیں سزادو،تواس کے لیے عربی زبان میں جو معروف الفاظ مثال کے طورپر، ’محصن‘ اور ’غیر محصن‘ وغیرہ موجودہیں،ان کواختیارکیا جاتا۔اور اگران اسماکو لاناموزوں نہ بھی ہوتاتوپھرافعال کواس طرح استعمال کیاجاتاکہ ان سے ان اسماکی طرف اشارہ ہوجاتا۔لیکن یہاں نہ توشادی شدہ اورکنواروں کے لیے کوئی اسم آیااورنہ ہی کوئی ایساپیرایہ استعمال ہواکہ بادی النظرمیں ذہن ان کی طرف منتقل ہوسکے۔
ثانیاً، اگرسدی کی را ے ہی صحیح ہے توپھرکیاوجہ ہے کہ ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ میں ’وَالّٰتِیْ‘ کا اسم موصول جمع کی صورت میں آیاہے اور ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ میں ’وَالَّذٰنِ‘ تثنیہ کی صورت میں۔ حالانکہ عربی زبان کاقاعدہ ہے اورقرآن مجیدکابھی عام طریقہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پر،جبکہ دومتقابل گروہوں کا ذکرہورہاہو تودونوں جگہ اسماے موصول جمع کی صورت ہی میں آیاکرتا ہے۔ مثلاً،’والذین اٰمنوا‘ کے بعد جب دوسرے گروہ کاذکرہوگا تو ’والذین کفروا‘ہی کہاجائے گانہ کہ ’والذان کفروا‘۔ یہاں بھی سدی کی راے کے مطابق چونکہ دوگروہوں کاذکر ہے: شادی شدہ عورتیں اورکنوارے مردوزن،اس لیے ہوناتویہ چاہیے تھا کہ جیسے ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ میں اسم موصول جمع کی شکل میں آیاہے ،اسی طرح ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ میں بھی وہ جمع ہی کی شکل میں آتا؛لیکن وہ ’وَالَّذٰنِ‘ کے تثنیہ کے صیغے میں آگیاہے۔اس پراگر یہ کہا جائے کہ ’والٰتی‘ بیاہی عورتوں کے زمرے کابیان ہے، اس لیے جمع آیاہے اور ’وَالَّذٰنِ‘ بدکاری کے دو فریقوں کابیان ہے، اس لیے تثنیہ آگیاہے؛ توسوال ہوگاکہ ’وَالَّذٰنِ‘ بھی توکنوارے مردوزن کے زمرے ہی کابیان ہے وہ جمع کیوں نہیں آیا؟اوراسی طرح ’وَالّٰتِیْ‘ بدکاری کرنے والیوں کابیان ہے ، اس لیے دوسرے فریق کی مناسبت سے وہ بھی تثنیہ کیوں نہیں آ گیا؟
ثالثاً،اگرپہلی آیت شادی شدہ عورتوں کابیان کررہی ہے اوردوسری آیت کنوارے مردوزن کا توسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوںآیتوں میں کنوارے مردوعورت بھی آگئے اورشادی شدہ عورتیں بھی، مگر شادی شدہ مردوں کا کیا ہوا کہ ان کی طرف اشارہ تک نہ ہوا؟اب سدی کی راے کوجو مانیں گے ظاہرہے ، انھیںیہ بھی مانناہوگاکہ بیاہی عورت ہی اس گناہ پرمائل ہوسکتی یااس وقت کے معاشرے میں اس کا ارتکاب کرتی تھی اوربیاہے مرداس سے مکمل اجتناب کیاکرتے تھے۔یا پھر انھیں یہ ماننا ہو گا کہ خداکی کتاب میں بدکاری کاجوقانون ہے وہ اتناکامل ہے کہ اس کی لپیٹ میں سبھی آجاتے ہیں، مگروہ اتناناقص بھی ضرورہے کہ بیاہے مرداس کی زد سے صاف بچ نکلتے ہیں۔
مولاناامین احسن اصلاحی ان آیات کوایک اورزاویے سے دیکھتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ یہاں اصل زور ’نِسَآءِکُمْ‘ اور ’مِنْکُمْ‘ کی ضمیرمخاطب پرہے ۔اس لحاظ سے یہ دونوں آیتیں بدکاری کی دو مختلف صورتوں کابیان ہوگئی ہیں۔ ’’تدبرقرآن‘‘ میں وہ اپنی راے یوں ذکرکرتے ہیں:
’’ایک صورت یہ ہے کہ بدکاری کاارتکاب کرنے والی عورت تومسلمانوں کے معاشرے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اس کاشریک مرداسلامی معاشر ے کے دباؤمیں نہیں ہے ... دوسری صورت یہ ہے کہ بدکاری کے دونوں فریق مسلمانوں ہی سے تعلق رکھتے ]ہیں[۔‘‘ (۲/ ۲۶۵)
زناکے ایک ہی جرم کی دومختلف صورتوں کے بارے میں جودومختلف سزائیں مذکورہوئی ہیں ، ان پر چونکہ بہت سے سوالات پیداہوجاتے ہیں ،اس لیے مولانا ان کی حکمت کسی قدر تفصیل سے واضح فرماتے ہیں:
’’...دوسری صورت میں تودونوں فریق اسلامی معاشرہ کے دباؤ میں ہیں ،ان کے رویے میں جو تبدیلی ہوگی وہ سب کے سامنے ہوگی،نیز ان کے اثرات اوروسائل معلوم ومعین ہیں۔ان کے لیے بہرحال، اپنے خاندان اور قبیلے سے بے نیازہوکرکوئی اقدام ناممکن نہیں تونہایت دشوار ہوگا۔ لیکن پہلی صورت میں مرد،جواصل جرم میں شریک غالب کی حیثیت رکھتاہے ،مسلمانوں کے معاشرہ کے دباؤسے بالکل آزادہے ۔نہ اس کے رویے کاکچھ پتہ نہ اس کے عزائم کاکچھ اندازہ،نہ اس کے اثرات ووسائل کے حدود معلوم ومعین۔ایسی حالت میں اگرعورت کویہ موقع دے دیاجاتاکہ توبہ کے بعداس سے درگزرکی جائے تو یہ بات نہایت خطرناک نتائج پیداکر سکتی تھی۔اول تومرد کے رویہ کونظراندازکرکے عورت کی توبہ واصلاح کا صحیح اندازہ ہی ممکن نہیں ہے اورہوبھی توجب مردبالکل قابوسے باہر اور مطلق العنان ہے تواغوا،فرار،اورقتل وخون کے امکانات کسی حال میں بھی نظراندازنہیں کیے جاسکتے۔اس پہلو سے اس میں احتیاط کی شدت ملحوظ ہے ۔‘‘ (۲/ ۲۶۵)
مولاناکے ہاں چونکہ قرآن مجید کی زبان کاخصوصی لحاظ رکھا جاتااوراس سے سرموتجاوزکر لینا بھی ناجائز سمجھا جاتا ہے، اس لیے کسی کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ ان کی راے پر اس اعتبارسے انگلی رکھ سکے، لیکن اس کے باوجود،ان کی راے میں چندباتیں ایسی ہیں جن پر کچھ نہ کچھ کہنے کا جواز بہرحال،اب بھی موجودہے ۔مثال کے طورپر:
اول یہ کہ اگریہی بات کہنامدنظرہوتی کہ بدکاری کرنے والے مرداورعورت اگرمسلم معاشرے کے افرادہیں تو اُن کی سزایہ اوریہ ہے، اوروہ عورتیں جوخودتومسلم معاشرے کاحصہ ہیں مگر ان کے شریک گناہ مردباہرکے ہیں، اُن کی سزایہ اوریہ ہے ؛توزبان کی موزونیت یہی کہتی ہے کہ پھران ہدایات کی ترتیب اُلٹ دی جاتی۔پہلے مسلم معاشرے کے مردوزن کے بارے میں عمومی حکم بیان ہوتااوراس کے بعداسی میں سے استدراک کرتے ہوئے اُن عورتوں کاحکم بیان کردیاجاتاجن کے شریک گناہ مردمسلم معاشرے کے شہری نہیں ہیں۔قرآن مجیدمیں اس اسلوب کی ایک سے زیادہ مثالیں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔مثال کے طورپر،سورۂ نساء میں جب قتل خطاکے معاملے میں دیت اور کفارے کی ہدایات دی گئیں تو ’وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ اِلاّآاَنْ یَّصَّدَّقُوْا‘ کہہ کرپہلے تو اُن قاتل اورمقتول کاذکرکیاگیاجودونوں ہی مسلم معاشرے کا حصہ ہیں اور پھر ’فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ‘ کہہ کراُس مقتول کا استدراک کر دیاگیاجومسلمان تو ہے، مگر مسلمان معاشرے کاحصہ نہیں ہے۔
دوم یہ کہ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید میں ریاستی معاملات میں اس بنیاد پر واضح فرق کیا گیا ہے کہ کوئی شخص مسلم ریاست کاشہری ہے ،یانہیں ہے ۔مثال کے طورپر، اگر مسلم ریاست کا شہری ہے تو اسے حق ولایت دیا گیااوراس پرسزاؤں کانفاذ بھی کیاگیاہے،اوراگر نہیں ہے تواسے حق ولایت دیا گیا اور نہ ہی اس پرسزاؤں کا نفاذکیاگیاہے۔لیکن قرآن مجیدمیں ایسی مثال شاید کوئی بھی نہ مل سکے جس میں کسی فردکے ساتھ معاملہ محض اس لیے مختلف کیا گیا ہوکہ اس کے جرم کا ساتھی مسلم ریاست کانہیں ،کسی دوسری ریاست کافردہے۔سزاؤں میں اس طرح کی تفریق کرنے کی مذہب میں کوئی دلیل ہے اور نہ ہی عقل اورفطرت میں اس کی کوئی بنیادہے ۔آخر کیا فرق واقع ہو جاتاہے اس میں کہ زنا کا فعل اپنے دو شہریوں نے کیا ،یا پھراپنے ہی ایک فردنے باہر کے کسی فرد کے ساتھ مل کر کر لیا؟ اور اگرایسا ہوگیاتوکیا جرم کی حقیقت بدل گئی یامجرم کے حالات۳ بدل گئے کہ پھراس کے لحاظ سے ان کی سزاؤں میں بھی فرق کردیاجانالازم ہوگیا؟
سوم یہ کہ مولانااصلاحی نے ان سزاؤں میں موجودفرق کی توجیہ کرتے ہوئے جن تحفظات اور اندیشوں کا ذکر کیاہے ، انھیں حقیقی مان لینا نہایت مشکل ہے ۔کسی جرم میں دو افرادکی شراکت کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہوتا کہ اب وہ توبہ اوراصلاح کے عمل میں بھی ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں افراد ایک ہی وقت میں تائب ہوجائیں اوروہ اپنی اصلاح بھی چاہتے ہوں ،اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے صرف ایک اس کا خواہاں ہو،مگردوسراابھی تک گناہ پرآمادہ اوراسی غلاظت میں پھرسے آلودہ ہوجانے کی کوشش کر رہا ہو۔مولانا کی راے پرسوال یہ ہے کہ اگرعورت بدکاری کے بعدتوبہ کرلیتی اور اصلاح احوال چاہتی ہے تواس کے اس مستحسن عمل کو ٹھکرادینے کے لیے کیایہ وجہ کافی ہوسکتی ہے کہ مرداس کے جرم میں توشریک تھا، مگراب اس کی توبہ میں شریک نہیں ہے ؟یاوہ دیارغیرمیں ہے اس لیے اس کی توبہ کا اندازہ کر لیناممکن نہیں ہے؟یایہ کہاجائے کہ جب بھی موقع ملایہ بھاگ کھڑی ہوگی اوراس سوء ظن کی دلیل ہوتوبس یہ ہوکہ مرداس ریاست کانہیں ،کسی دوسری ریاست کاشہری ہے؟نیز مولانا کا یہ فرمانابھی کچھ قابل فہم نہیں ہے کہ عورت کواس لیے قیدکیاجائے گاکہ مرد مسلم ریاست کے دباؤمیں نہیں اوراس کے عزائم بھی کچھ ٹھیک نہیں ہیں،اورہوسکتاہے وہ اسے اغوا یا پھرقتل تک کر گزرے۔ واضح سی بات ہے کہ عورت کوگھرمیں بندکردینے کایہ حکم، اُس کے لیے ایک سزا ہے نہ کہ اس کی حفاظت کے لیے اٹھایاہواکوئی قدم،جیساکہ آیت میں گواہوں کو طلب کرنے کی ہدایت خود بتا رہی ہے۔لیکن فرض کرلیجیے کہ قیدکردینے کی یہ ہدایت اسی لیے ہوئی ہے کہ عورت کو مردکے پر خطر عزائم سے بچا لیا جائے، توپھریہ ضرورمان لیاجائے کہ یہ ایسی ہی حکمت عملی ہے جیسے جنگل کے بے قابو درندے کی خون آشامی سن کرتمام بستی والوں کواٹھاکرپنجروں میں ڈال دیاجائے۔
چہارم یہ کہ اگر برسبیل تنزل ،ایک ہی جرم کی سزاؤں میں فرق کرناناگزیربھی سمجھ لیاجائے توپھر بھی ان کااطلاق کم سے کم یہ نہیں ہوناچاہیے جومولاناکی تاویل میں ہے،بلکہ حالات کی رعایت رکھتے ہوئے یہ سزائیں موجودہ ترتیب کے برعکس ہونی چاہییں۔یعنی قیدکی سزااس عورت کونہ دی جائے جس نے دوسری ریاست کے مردکے ساتھ بدکاری کی ہے ،بلکہ یہ سزااسے دی جائے جس نے اپنی ہی ریاست کے مردسے یہ فعل بدکیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس مردنے ہزارحیلے کیے اور دیار غیر سے آیا،یہاں اجنبی کی حیثیت اوربے کسی کی حالت میں گناہ کیااورپھرایسا چلتا بناکہ معلوم نہیں کہ لوٹ کرآنے کاموقع اسے پھرسے میسرہوتاہے یانہیں،اس کے ساتھ ملوث عورت کا معاملہ اتنا حساس نہیں کہ اسے قیدکردیاجائے؛بلکہ کچھ اذیت دی جائے اوربعدازتوبہ فارغ کردیا جائے۔ لیکن اس کے مقابل میں وہ مردجواپنے ہی دیارکاباسی،گھردرسے واقف اوریہاں کی ہر پرفتن راہ سے آشناہے ،اس کے پاس ملاقات کے سو بہانے اوردوبارہ سے گناہ کرگزرنے کے ہزار راستے ہیں،اس کے ساتھ ملو ث عورت کامعاملہ اتناحساس ضرورہے کہ اسے اذیت دے کرچھوڑ نہ دیاجائے کہ وہ کھل کھیلتی پھرے؛بلکہ گناہ کے مواقع ختم کیے جائیں اوراسے وقت موت تک گھر میں قیدکردیاجائے۔
پنجم یہ کہ اگرایک ہی جرم میں مختلف سزاؤں کاہونا کسی حقیقی حکمت ہی پرمبنی تھاتوکیاوجہ ہوئی کہ مولاناکی راے کے مطابق جب ان ہدایات کی جگہ دوسری ہدایات نازل ہوگئیں توا س فرق کو ملحوظ نہیں رکھاگیااورہردوصورت میں سو کوڑوں کی ایک ہی سزانافذکردی گئی؟پھرتوہونایہ چاہیے تھا کہ ناسخ ہدایات میں بھی منسوخ ہدایا ت ہی کی طرح سزاؤں میں واضح فرق ہوتا،اورعورت کی قید کی سزا توبہرصورت، بحال ہی رکھی جاتی کہ ابھی تک اس کاشریک گناہ مردنہ تومسلم ریاست کے دباؤ میں آیاہے اورنہ ہی اس کے عزائم شریفانہ ہوچکے ہیں۔
ان آیات کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کی راے یہ ہے کہ ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ کی آیت میں دراصل ان عورتوں کابیان ہواہے جوقحبہ گری کرتی ہیں ، اور ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ میں زناکے ان عام مجرموں کاذکرہے جوبالعموم یاری آشنائی کے نتیجے میں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک اب تک جو آرابھی بیان ہوئی ہیں ،ان میں سے یہ راے زبان وبیان کے اصولوں سے موافق،قرآن مجید کے الفاظ سے قریب تر،اس کے ربط میں گتھی ہوئی ،عقل کی میزان پرپوری ، فطرت کے داعیات سے ہم آہنگ اورانسانی تجربے کی عکاس راے ہے ۔اس راے کی تائیدمیں جودلائل غامدی صاحب نے ’’البیان‘‘ میں تحریرکیے ہیں اورجن کا انھوں نے ذکرنہیں کیامگر وہ اس راے کی تائید میں پیش کیے جاسکتے ہیں،ان کی تفصیل کچھ یوں ہوسکتی ہے :
زناکاوہ فعل جس کا ارتکاب مردوزن باہمی رضامندی سے کرتے ہیں ،اپنی حقیقت میں ایک گناہ عظیم ہے، اوراس کاگناہ ہوناہرمذہب میں مسلم رہاہے۔فطرت انسانی میں اس کے بارے میں ایک طرح کاانقباض پایاجاتا اورہر معاشرے میں اسے ننگ کی علامت اورباعث عارسمجھاجاتا رہاہے ۔انسان کی عمومی تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ اس فعل کے وقوع کی ہمیشہ سے دوہی صورتیں پائی گئی ہیں:یاتوکسی مرداورعورت، دونوں ہی نے جذبات سے مغلوب ہوکراس کاارتکاب کر لیا ہے ، یا پھرعورت نے مرد کی ہوس پوری کرنے کے لیے کچھ فائدوں کے عوض اس کاخصوصی اہتمام کیا ہے۔نزول قرآن کے وقت بھی زناکی یہ دونوں صورتیں عرب معاشرے میں رائج تھیں ۔یہی وجہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجیدمیں ان دونوں ہی کا ذکرکیاہے۔مردوں کے لیے فرمایا ’محصنین غیر مسافحین ولا متخذی اخدان‘ ’’اس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہونہ بدکاری کرنے والے اورنہ چوری چھپے آشنائی کرنے والے۔‘‘اسی طرح عورتوں کے بارے میں فرمایاہے ’محصنات غیر مسافحات ولا متخذات اخدان‘ اس شرط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن رہی ہوں ،بدکاری کرنے والی اورچوری چھپے آشنائی کرنے والی نہ ہوں۔
زیربحث آیات میں بھی قرآن مجیدنے زناکی انھی دوصورتوں کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔ ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ میں ان مردوزن۴ کاذکرہے جوزناکے عام مجرم ہیں اوربالعموم چوری چھپے اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ میں ان عورتوں کابیان ہے جوبدکاری کواس کی سادہ صورت میںیاچھپ چھپاکرنہیں،بلکہ ایک فن کے طورپراور گھروں پرجھنڈے لگاکرکرتی ہیں۔پہلی صورت میں مرداورعورت چونکہ متعین ہوتے ہیں ،اس لیے آیت میں ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا‘ کے الفاظ میں ان دونوں کا ذکر ہوا؛ مگر قحبہ گری میں چونکہ اصلاً عورت ہی زیربحث آتی ہے ،اس لیے ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ ‘میں صرف عورتوں ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔
زناکی یہ دونوں قسمیں ظاہرہے ،اپنے اندرایک ہی درجے کی قباحت نہیں رکھتیں۔ایک میں یہ گناہ محض جذبات کی مغلوبیت کانتیجہ ہوتاہے۔دوسری میں یہ جذبات سے ماوراہوکرباقاعدہ ایک پیشے کی صورت اختیارکرلیتااوراس طرح معاشرے کے اخلاق باختہ ہی نہیں ،پاکیزہ نفوس کے لیے بھی گناہ کاچلتاپھرتااشتہارہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست میں جب اس گناہ کوجرم کا درجہ دے دیاگیاتواس کی سزاؤں میں اس کی نوعیت اورسنگینی کے لحاظ سے واضح فرق رکھا گیا۔زنا لذت کے حصول کے لیے تھا،اس لیے اس کی سزا، اذیت دینامقررکی گئی اورقحبہ گری محض لذت کے لیے نہیں دھندے کے لیے کی جاتی تھی،اس لیے ان عورتوں کو بندکرکے ان کے دھندوں کو بندکر دیاگیا؛ہاں،اس کاضمنی مقصدیہ بھی ہواکہ گناہ کی دعوت کودبادیا جائے اور معاشرے میں اس کے متعدی ہوجانے پرروک لگادی جائے۔
یہ بات بھی قابل غورہے کہ ان آیات میں سزاؤں کے فرق کی بنیادمرداورعورت کی جنس نہیں، بلکہ جرم کی نوعیت ہے ۔جرم اگر اپنی ابتدائی اورسادہ صورت میں ہواہے تواس کی سزاکچھ اورہے اوراگر وہی جرم اپنی انتہائی اورپختہ صورت میں ہوگیاہے تواس کی سزاکچھ اورہے ۔اسی لیے جب مرد اورعورت نے ایک ہی جرم ایک ہی درجے میں کیاتوان کی سزامیں کوئی فرق نہیں ہوااوران دونوں کوایک ہی سزاسنائی گئی ، جیسا کہ ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ‘ کی آیت اس پرشاہدہے۔۵
اس راے کی تائیدمیں جوباتیں قرآن مجیدکے الفاظ ،اس کے سیاق اوراس کے نظائرکی روشنی میں کہی جاسکتی ہیں، وہ یہ ہیں:
اول، کسی اجتماعیت کوخطاب کرتے ہوئے کہ جس کے سامنے انسانی عادات کاتجربہ اور قرآن مجیدکاعرف ہو،جب یہ کہاجائے گاکہ تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں انھیں گھروں میں قیدکردواوراس کے بعدالگ سے زناکرنے والے مرد اورعورتوں کاذکربھی کردیا جائے گا؛تو اس سے لامحالہ ،وہ عورتیں ہی مراد ہوں گی جوبدکاری کاپیشہ کرتی ہیں۔
دوم، قرآن مجیدنے اپنے مدعاکوواضح کرنے کے لیے ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ’الْفَاحِشَۃَ‘ عربی زبان میں زناکے لیے ایک معروف لفظ ہے اور ’اتی الفاحشۃ‘ زنا کے فعل کو بیان کرنے کی ایک عام تعبیرہے۔ ’یَاْتِیْنَ‘ کا فعل بیان مداومت کے لیے آیا ہے ۔فعل کامداومت کے لیے آنا، عربی زبان میں بھی شائع وذائع ہے اور قرآن مجیدنے بھی کئی جگہ اسے استعمال کیاہے ۔مثلاً،اسی سورہ کی آیت ۵۶ میں ارشاد ہوا ہے ’کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ‘۔’’ان کی کھالیں جب پک جائیں گی ،ہم اُن کی جگہ دوسری کھال پیداکردیں گے تاکہ وہ یہ سزاچکھتے ہی رہیں۔‘‘غرض یہ کہ اسم کامعروف معنی اورفعل کایہ مخصوص استعمال ،اگر سامنے رہے تو ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ‘ کا مطلب یہاں یہ نہیں ہو سکتا کہ’’ وہ عورتیں جوبدکاری کریں‘‘ یاپھر’’وہ عورتیں جوایک دوسرے سے بدفعلی کریں‘‘،بلکہ اس کا صحیح معنی یہی ہوگا:’’ وہ عورتیں جو بدکاری کرتی رہتی ہیں۔‘‘
سوم، آیت میں ’فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ‘ کے الفاظ بھی قابل غورہیں، بالخصوص ’فَاسْتَشْہِدُوْا‘ میں باب استفعال کاآنا اور پھر ’علیھا‘ کے بجاے ’عَلَیْْہِنَّ‘ کا آ جانا۔ ان دونوں کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کیا جائے تو اس سے دوباتیں سامنے آتی ہیں:ایک یہ کہ ان الفاظ میں گواہ طلب کرنے کاحکم ہے ۔دوسری یہ کہ گواہی فعل زنا پر نہیں، زناکافعل کرنے والیوں پرہے۔یعنی معاملہ یہ نہیں ہے کہ جرم ہونے اوراس کی اطلاع ہوجانے کا انتظار ہو گا، بلکہ خودآگے بڑھ کرگواہوں کوبلایا جائے گا۔اسی طرح یہ بات بھی نہیں ہے کہ گواہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ انھوں نے خود جرم ہوتے ہوئے دیکھاہے،بلکہ وہ صرف ان عورتوں کی شخصیت عرفی کے داغ دارہونے کی گواہی دیں گے ۔یہ دونوں باتیں اس چیز کی واضح دلیل ہیں کہ ’وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ‘ میں زناکرنے والی عام عورتیں نہیں، بلکہ قحبہ عورتیں ہی مرادہیں کہ جواپنی اسی حیثیت سے معاشرے میں معروف ہوتی ہیں اور ان کاجرم بھی ایسا نہیں ہوتاکہ عام زنا کی طرح اسے چھپایاجاسکے ۔
چہارم،مذکورہ آیات کواس کے سیاق میں رکھ کردیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ جہاں دوسری آیت کااختتام ’اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘ کے الفاظ سے ہواہے، وہیں سے توبہ کی قبولیت اورعدم قبولیت کابیان شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں پہلے ان کاذکرہے جوجذبات کی رومیں بہہ کرگناہ کربیٹھتے مگر فوراًہی اس پرمتنبہ ہوکرخداکی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اس کے بعدان کاذکرہے کہ گناہ کرناجن کی عادت ہے ،اور وہ گناہ پرگناہ کیے جانے کایہ عمل موت تک جاری رکھتے ہیں۔ان دونوں گروہوں کا ذکر ،غور کیاجائے توزناکرنے والے انھی دوگروہوں کی مناسبت سے آیاہے جواوپرکی آیات میں مذکورہیں۔یعنی،زناکے عام مجرم جوجذبات میں بہک کرگناہ کرگزرتے ہیں ،اوروہ مجرم جواس گناہ کے اس قدرعادی ہوگئے ہیں کہ لگاتاراس کا ارتکاب کرتے رہتے ،حتی کہ اسے ہی کمائی کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔
پنجم، ان آیتوں میں بیان ہوئی ہدایات عارضی نوعیت ۶ کی تھیں جوبعدازاں نازل ہونی والی ہدایات سے کالعدم قرار پاچکی ہیں ۔ان کے عارضی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ’اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً‘ کے الفاظ سزاکے بیان کے بعد آئے ہیں جولامحالہ ،اس بات کااشارہ دیتے ہیں کہ اس حکم کی جگہ ایک نیاحکم متوقع ہے۔اوراس کے بعدقرآن مجید میں اسی جرم کے بارے میں کچھ دوسرے احکام کاآجانا،بذات خودموجودہ احکام کے عارضی ہونے کی دلیل ہوگیاہے۔بہرکیف،جب نئے احکام دیے گئے توان میں بھی وہی فرق مدنظررکھاگیاجوزیربحث آیات میں بھی پایاجاتاتھا۔یعنی زناکے عام مجرموں کی سزاانھیں ایذادیناتھی،اس لیے انھیں تو سوکوڑوں کی سزاہی سنائی گئی، مگرقحبہ عورتوں کی سزاچونکہ ان سے مختلف بھی تھی اورسخت تربھی تھی ،اس لیے انھیں صرف زناہی کی سزا نہیں سنائی گئی، بلکہ معاشرے میں ان کے اخلاقی فساد کی وجہ سے فساد فی الارض کی سزائیں بھی انھیں سنا دی گئیں۔
————
۱ لیکن اس وضاحت پربھی اگریہ کہہ دیاجائے کہ اس سزا میں فرق کی وجہ یہ تھی کہ عورت کوتوگھر میں بند کیا جاسکتا تھامگرمعاشی مجبوریوں کی وجہ سے مردکو بندکردیناچونکہ ممکن نہ تھا،اس لیے اسے کچھ اذیت دے کر آزاد کردیاگیا؛توسوال پیداہوگاکہ اگرایساہی تھا توپھرچوری میں بھی عورت ہی کے ہاتھ کاٹ دینے کاحکم ہوناچاہیے تھااورمردکوکچھ دھول دھپے کے بعد چھوڑ دیا جاتا کہ اسے آخرانھی ہاتھوں سے معاشی جدوجہد کرناتھی۔مزیدیہ کہ اگرابومسلم کی بات مان بھی لیں توپھر ان سزاؤں میں جو غیر معقولیت آجاتی ہے ، اس کا جواب دیناممکن نہیں رہتا ۔اس کے مطابق عورت کو گھرمیں قید کیاجائے گا اورمرد کو باہر جانے کے لیے آزادچھوڑدیاجائے گا ،حالانکہ عورتوں کوہم جنسی کے زیادہ مواقع تو میّسرہی گھرکی چار دیواری میں ہوتے ہیں اور مردوں کواس کے برعکس، اپنے گھردر سے باہر جاکر۔ اب وہ سزاہی کیا ہوئی جو جرم کے مواقع ختم کردینے یاپھرکم کردینے کے بجاے، انھیں اور بڑھا دینے کاباعث ہوجاتی ہو۔اور پھر ایک بات اورکہ اگرسزامیں فرق کی وجہ دنیوی مصالح ہی کوتسلیم کرلیاجائے توکیاوجہ ہے کہ معافی اور اصلاح کے بعد مردتو سزاسے خلاصی پاجائیں ،مگرعورت سے عذربیانی اورذاتی اصلاح کے فوائد چھین کراس کی سزاکو موت تک کے لیے طویل کردیاجائے؟
۲ اور اگر آیت کوسیاق سے کاٹ کر ’مِنْ نِّسَآءِکُمْ‘ کے الفاظ سے بیویوں پراستدلال کرلینا روا ہو سکتا ہے تو پھر ’واستشھدوا شھیدین من رجالکم ‘کی آیت میں ’من رجالکم‘ کے الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنابھی رواہوناچاہیے کہ جب ادھارکامعاملہ کروتواپنے شوہروں کوگواہ بنالیا کرو ۔
۳ مجرم کے حالات کی تبدیلی کادعویٰ ایک صورت میں کیاجاسکتاتھاجب یہ مان لیاجاتا کہ زناکا یہ جرم مسلم ریاست کے حدودسے باہرہواہے ۔لیکن یہاں اس بات کومان لینا،اس لیے ممکن نہیں ہے کہ آیت میں زناکے جرم پرباقاعدہ سزادینے کاذکرہے جوظاہرہے اسی جرم پردی جاسکتی ہے جومسلم ریاست کے حدود میں ہواہو۔
۴ ’وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا‘ کے مذکرکے صیغوں سے مرد اورعورت، اسی طرح مرادہیں جیسے والدین کے مذکر کے صیغے سے والد اوروالدہ دونوں ہی مراد لیے جاتے ہیں۔
۵؎ آج کل تومردبھی قحبہ گری میں ملوث ہوچکے ہیں۔ اگراُس دورمیں بھی ایسے حیاباختہ مرد ہواکرتے تو لازمی سی بات ہے کہ ان کے لیے بھی قحبہ عورتوں کے برابرہی سزاتجویزکی جاتی۔
۶؎ ان میں سے پہلی آیت توواقعی منسوخ ہے۔دوسری آیت کوبھی جمہورعلمامنسوخ کے دائرے ہی کی چیز سمجھتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہاں نسخ اس معروف معنی میں نہیں ہواکہ جس میں سابق حکم کوختم کرکے ایک نیاحکم دے دیاجاتاہے؛بلکہ یہاں سابق حکم ہی میں ایک طرح کا ارتقا ہوگیا ہے۔ یعنی ایذا کی ابتدائی اورمطلق صورت کوبالکل ختم کردینے کے بجاے اسے ہی سوکوڑوں میں مقیدکرکے اس کو آخری صورت میں متعین کردیاگیاہے۔
———————————