HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانفال ۸: ۴۱- ۴۹ (۵)

وَاعْلَمُوْٓااَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰٰنِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۴۱}
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَوْتَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلاً لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۴۲} اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا وَلَوْ اَرٰکَھُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ{۴۳} وَاِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِالْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّیُقَلِّلُکُمْ فِیْٓٓٓ اَعْیُنِھِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلاً وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ{۴۴}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۴۵} وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ{۴۶} وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وَّرِئَآئَ النَّاسِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ{۴۷} وَاِذ ْزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآئَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۴۸} اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ غَرَّھٰٓؤُلَآئِ دِیْنُھُمْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۴۹}
(تم نے پوچھا تھا تو) جان لو۷۲؎ کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا تھا، اُس کا پانچواں حصہ اللہ، اُس کے پیغمبر،(پیغمبر کے) اقربا اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا۷۳؎۔اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اُس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن اتاری تھی۷۴؎، جس دن دونوں گروہوں میں مڈبھیڑ ہوئی تھی (تو بے چون و چرا اِس حکم کی تعمیل کرو اور جان رکھو کہ) اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۷۵؎۔۴۱
یاد کرو، جب تم وادی کے قریبی کنارے۷۶؎ پر تھے اور وہ دور کے کنارے پر، اور قافلہ تم سے نیچے تھا۔ اگر تم باہم وقت ٹھیرا کر نکلتے تو جو وقت ٹھیراتے، اُس میں لازماً آگے پیچھے ہو جاتے۷۷؎۔ لیکن (اللہ نے کوئی فرق نہیں ہونے دیا)، اِس لیے کہ اللہ اُس معاملے کا فیصلہ کر دے جس کو ہوکر رہنا تھا تاکہ جس کو ہلاک ہونا ہے، وہ حجت دیکھ کر ہلاک ہو اور جسے زندگی حاصل کرنی ہے ، وہ حجت دیکھ کر زندگی حاصل کرے۷۸؎۔ بے شک ، اللہ سمیع و علیم ہے۷۹؎۔ یاد کرو، (اے پیغمبر) جب اللہ تمھارے خواب میں اُن کو تھوڑا دکھا رہا تھا۸۰؎۔ اگر کہیں زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور جو معاملہ درپیش تھا، اُس کے بارے میں جھگڑنے لگتے۸۱؎، مگر اللہ نے بچا لیا۸۲؎۔ یقینا، وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ اور یاد کرو، جب تمھاری مڈبھیڑ کے وقت وہ تم لوگوں کی نگاہوں میں اُنھیں کم کرکے دکھا رہا تھا اور تمھیں اُن کی نگاہوں میں کم کرکے دکھا رہا تھا تاکہ اللہ اُس معاملے کا فیصلہ کر دے جس کو ہو کر رہنا تھا۸۳؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔۴۲-۴۴
ایمان والو، جب (آیندہ بھی)کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو۸۴؎ تاکہ تم کامیاب ہو۸۵؎۔اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۸۶؎اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ (اِس کے نتیجے میں) ہمت ہار جائو گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ثابت قدم رہو، اِس لیے کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں۸۷؎۔ تم اُن لوگوں کی طرح نہ بنو جو اپنے گھروں سے اتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے ۸۸؎اور جن کا رویہ یہ ہے کہ خدا کی راہ سے روکتے ہیں، دراں حالیکہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ اُس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یاد کرو، جب شیطان نے اُن کے اعمال اُنھیں خوش نما بنا کر دکھائے اور کہا کہ آج لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غلبہ پا سکے اور (مطمئن رہو)، میں تمھارے ساتھ ہوں۔ مگر جب دونوںگروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے پائوں بھاگا اور کہنے لگا کہ میں تم سے بری ہوں، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو۔ میں خدا سے ڈرتا ہوں، (حقیقت یہ ہے کہ) خدا سخت سزا دینے والا ہے۸۹؎۔ یاد کرو، جب منافقین اور وہ بھی جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، (خود تمھارے متعلق) کہہ رہے تھے کہ اِن کے دین نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا ہے،۹۰؎ دراں حالیکہ جو اللہ پر بھروسا رکھتے ہیں، (اللہ ضرور اُن کی مدد کرتا ہے)، اِس لیے کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۴۵-۴۹

۷۲؎ اموال غنیمت سے متعلق چونکہ ناروا قسم کے سوالات اٹھا دیے گئے تھے، اِس لیے لوگوں کی کمزوریوں پر تبصرے کے بعد اب فیصلہ سنایا ہے تو آغاز اِس تنبیہی کلمے سے کیا ہے۔

۷۳؎ پیچھے بیان ہو چکا ہے کہ زمانۂ رسالت کی جنگوں پر اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یہ سب اللہ و رسول کا ہے۔ یہاں یہ بتایا ہے کہ اِس کے باوجود یہ سارا مال نہیں، بلکہ اِس کا پانچواں حصہ ہی اجتماعی مقاصد کے لیے خاص رہے گا اور باقی ازراہ عنایت مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ تقسیم بھی صاف واضح ہے کہ صرف اِس وجہ سے کی گئی ہے کہ لوگوں نے جنگ بہرحال لڑی تھی۔ اُس کے لیے زادراہ کا بندوبست بھی کیا تھا اور اُس کی ضرورتوں کے لیے اسلحہ، گھوڑے اور اونٹ وغیرہ بھی خود ہی مہیا کیے تھے۔ لہٰذا جب اِس طرح کے اموال مسلمانوں کو حاصل ہوئے جن کے لیے اُنھیں یہ اہتمام نہیں کرنا پڑا تو سورۂ حشر (۵۹) کی آیات ۶-۸میں قرآن نے واضح کر دیا کہ یہ سب دین و ملت کی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کے لیے خاص کر دیا گیا ہے، اِس کا کوئی حصہ بھی مجاہدین میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ آیۂ زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے اِن اجتماعی مقاصد کی تفصیل کر دی ہے۔

سب سے پہلے اللہ کا حق بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ، ظاہر ہے کہ ہر چیز سے غنی اور بے نیاز ہے۔ اُس کے نام کا حصہ اُس کے دین ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ لہٰذا اِس کا اصلی مصرف وہ کام ہوں گے جو دین کی نصرت اور حفاظت و مدافعت کے لیے مسلمانوں کا نظم اجتماعی اپنی دینی ذمہ داری کی حیثیت سے انجام دیتا ہے۔

دوسرا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا گیا ہے۔ آپ کی شخصیت میں اُس وقت نبوت و رسالت کے ساتھ مسلمانوں کی حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری بھی جمع ہو گئی تھی اور آپ کے اوقات کا لمحہ لمحہ اپنے یہ منصبی فرائض انجام دینے میں صرف ہو رہا تھا۔ اِس ذمہ داری کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ تھا۔ اِس صورت حال میں ضروری تھا کہ اِس مال میں آپ کا حق بھی رکھا جائے۔ اِس کی نوعیت کسی ذاتی ملکیت کی نہیں تھی کہ اِسے آپ کے وارثوں میں تقسیم کیا جاتا۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ آپ سے آپ اُن کاموں کی طرف منتقل ہو گیا جو آپ کی نیابت میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے لیے انجام دینا ضروری تھے۔

تیسرا حق ’ذی القربیٰ‘ کا بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے، ظاہر ہے کہ آپ کے وہ قرابت دار مراد ہیں جن کی کفالت آپ کے ذمے تھی اور جن کی ضرورتیں پوری کرنا اخلاقی لحاظ سے آپ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ آپ کی حیثیت تمام مسلمانوں کے باپ کی تھی۔ چنانچہ آپ کے بعد یہ ذمہ داری عرفاً و شرعاًمسلمانوں کے نظم اجتماعی کو منتقل ہوئی اور ذی القربیٰ کا حق بھی ، جب تک وہ دنیا میں رہے، اِسی طرح قائم رہا۔

چوتھاحق یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ اُن کا حق بیان کرتے ہوئے اُس ’ل‘کا اعادہ نہیں فرمایا جو اوپر اللہ ، رسول اور ذی القربیٰ ، تینوں کے ساتھ آیا ہے، بلکہ اُن کا ذکر ذی القربیٰ کے ذیل ہی میں کر دیا ہے۔ اِس سے مقصود اِس طبقے کی عزت افزائی ہے کہ گویا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقربا ہی کے تحت ہیں۔ یہ حق کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو اِن طبقات کی ضرورتوں کے لیے حساس نہیں ہے، جس میں یتیم دھکے کھاتے، مسکین بھوکے سوتے اور مسافر اپنے لیے کوئی پرسان حال نہیں پاتے، اُسے اسلامی معاشرے کا پاکیزہ نام نہیں دیا جا سکتا۔

۷۴؎ یعنی وہ تائید و نصرت جو بدر کے مواقع پر نازل کی گئی ۔ فیصلے کے دن سے مراد غزوۂ بدر کا دن ہے۔ اُس کو فیصلے کے دن سے تعبیر کرنے کی وجہ پیچھے بیان ہو چکی ہے۔

۷۵؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ روے سخن اُنھی نکتہ چینوں کی طرف ہے جنھوں نے اموال غنیمت سے متعلق سوالات اٹھائے تھے۔ اِس جملے میں ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یوں نہیں فرمایا کہ اگر تم اُس نصرت الہٰی پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے تم پر اتاری، بلکہ یوں فرمایا کہ ’اپنے بندے پر اتاری‘، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ کسی گروہ کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ کامیابی جو حاصل ہوئی ہے، یہ اُس کا کارنامہ ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہے، اللہ کی کارسازی اور اُس رسول کی برکت سے ہوا ہے جس کی مدد کے لیے اللہ نے اپنی غیبی فوج بھیجی۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ نہ اللہ کسی کا محتاج ہے اور نہ اُس کا رسول کسی کا دست نگر ہے۔ اللہ جب چاہے گا، اپنے رسول کی مدد کے لیے اپنی افواج قاہرہ بھیج دے گا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۸۳)

۷۶؎ یعنی اُس کنارے پر جو مدینے سے قریب تھا۔

۷۷؎ مطلب یہ ہے کہ اگر تم دونوں فریق اپنے طور پر یہ طے کرکے نکلتے کہ ایک کو قافلے کی حفاظت کا بہانہ بنا کر حملہ کرنا ہے اور دوسرے کو اِس موقع سے فائدہ اٹھا کر حملہ آور کو سبق سکھانا اور اُس پر اپنی دھاک بٹھا دینی ہے تو کبھی اِس طرح نہ پہنچ سکتے کہ قافلہ ابھی مسلمانوں کی زد میں ہوتا اور دونوں لشکر آمنے سامنے آکھڑے ہوتے۔ زیادہ امکان یہی تھا کہ قریش کے دل بادل لشکر کے پہنچنے سے پہلے ہی قافلہ بہ حفاظت نکل چکا ہوتا اور اُن کے لیے حملے کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔ چنانچہ اُن کے اندر کے لوگ ہی اصرار کرتے کہ ہم جس اندیشے سے نکلے تھے، وہ غلط ثابت ہوا، اب حملہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور وہ مجبورہو جاتے کہ سب تیاریوں کے باوجود جنگ کیے بغیر ہی مکہ لوٹ جائیں۔

۷۸؎ آیت میں ’ھَلَکَ‘ اور ’حَیَّ‘ کے ساتھ ’عَنْ‘ آیا ہے۔ یہ منبع و مصدر کے مفہوم پر دلالت کے لیے ہے۔ عربی زبان میں یہ اِس مفہوم کے لیے بھی آتا ہے۔ ہلاکت اور زندگی سے مراد روحانی و معنوی ہلاکت اور زندگی ہے اور حجت یا ’بَیِّنَۃ‘ سے اُس فرقان کی طرف اشارہ مقصود ہے جو غزوۂ بدر کے موقع پر ظاہر ہوا اور جس نے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ہر سلیم الطبع انسان پر واضح کر دیا۔

۷۹؎ صفات الہٰی کا یہ حوالہ اُس پوری اسکیم کے تعلق سے آیا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ کہاں تم، کہاں قریش اور کہاں قافلہ، لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کے بھید معلوم کر لیے، سب کی سرگوشیاں سن لیں اور سب کے ارادے تاڑ لیے اور پھر سب کو اِس طرح جمع کر کے وہ بات پوری کر کے دکھا دی جو اُس نے طے کر لی تھی، اِس لیے کہ وہ سمیع و علیم ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۸۴)

۸۰؎ رویا میں چیزیں بعض اوقات اُن کی معنوی حقیقت کے اعتبار سے دکھائی جاتی ہیں۔ اِس موقع پر بھی یہی ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کا لشکر انتہائی کم تعداد میں نظر آیا۔ یہ اُن کی معنوی قلت تھی جو قلت تعداد کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

۸۱؎ یہ اُسی گروہ سے کہا ہے جس کا ذکر سورہ کی ابتدا سے چلا آ رہا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اگر قریش کے لوگ کثیر تعداد میں دکھا دیے جاتے، جتنے کہ وہ فی الواقع تھے تو حضور بھی اُن کا ذکر اُسی صورت میں کرتے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جو کمزور مسلمان اتنی قلیل تعداد کا سن کر بھی آمادۂ جنگ نہیںہو رہے تھے، وہ بالکل ہی ہمت ہار بیٹھتے اور ایسا اختلاف پیدا ہو جاتا کہ جنگ کے لیے نکلنا ہی ممکن نہ رہتا۔

۸۲؎ یعنی کمزوری کے اظہار سے بچا لیا اور کمزور مسلمان بھی کچھ بحث و تمحیص کے بعد مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

۸۳؎ یعنی اِس لیے کم کرکے دکھارہا تھا کہ ایک دوسرے کو اِس طرح دیکھ کر کوئی فریق بھی خوف نہ کھائے اور وہ فرقان ظاہر ہو جائے جس کا ظہور خدا کی اسکیم میں طے ہو چکا تھا۔

۸۴؎ اللہ کا ذکر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے اور ثابت قدمی اِس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی نصرت اِس کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ یہاں بہت ذکر کرنے کے لیے کہا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ حالات زیادہ صبر آزما ہوں تو ذکر بھی زیادہ مقدار میں مطلوب ہو گا۔ 

۸۵؎ اصل الفاظ ہیں:’لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘۔ قرآن کی تعبیرات میں ’فَلاَح‘ ایک جامع لفظ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ دنیا اور آخرت ،دونوں کی کامیابی پر مشتمل ہے۔ مجرد غلبہ توہو سکتا ہے کہ بغیر ذکرالہٰی کے بھی حاصل ہو جائے، لیکن وہ فلاح کا ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ فلاح اُسی غلبے سے حاصل ہو گی جس کا دروازہ ذکر الٰہی کی مدد سے کھلے اور جس میں غلبہ حاصل کرنے والوں کو خدا کی معیت حاصل ہو۔ ‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۸۷)

۸۶؎ اللہ و رسول کی اطاعت کا یہ خاص مفہوم بھی یہاں پیش نظر ہے کہ دشمن کے مقابلے میں پورے نظم اور ڈسپلن کے ساتھ اللہ و رسول کے احکام کی پیروی کی جائے، اِس لیے کہ ذکر الٰہی سے محرومی جس طرح دل و دماغ کو منتشر کر دیتی ہے، ڈسپلن کی کمزوری اِسی طرح جماعت کے نظم کو درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔

۸۷؎ یہی بات اوپر افراد کو پیش نظر رکھ کر ارشاد ہوئی تھی۔ یہاں یہ جماعت کو پیش نظر رکھ کر کہی گئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ خدا کی مدد و نصرت اور اُس کی معیت کے طالب ہو تو اپنے جماعتی کردار سے اُس کا استحقاق پیدا کرو۔ خدا منتشر بھیڑ کا ساتھ نہیں دیتا، بلکہ اُن لوگوں کا ساتھ دیتاہے جو اُس کی راہ میں جہاد کے لیے بنیان مرصوص بن کر کھڑے ہوں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۸۸)

۸۸؎ یہ اُس طمطراق اور جذبۂ نمایش کا ذکر ہے جس کا مظاہرہ قریش کے لیڈروں نے جنگ بدر کے لیے نکلتے ہوئے کیا تھا۔ مسلمانوں کو اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ طنطنہ، طمطراق اور ریا کسی بندئہ مومن کے شایان شان نہیں ہے۔ رزم ہو یا بزم، خدا کے بندوں پر عبدیت کی تواضع اور فروتنی ہر حال میں نمایاں رہنی چاہیے، اِس لیے کہ اُن کی جنگ محض جنگ نہیں، بلکہ اللہ کی عبادت ہے اور ضروری ہے کہ اُس کی یہ شان ہر جگہ قائم رہے۔ اُنھیں جو کچھ کرنا ہے، ہمیشہ اللہ کے لیے کرنا ہے اور اُس کی داد بھی آخرت میں اُسی سے لینی ہے۔ یہ اخلاص اُن سے جس طرح عبادت میں مطلوب ہے، اُسی طرح جنگ میں بھی مطلوب ہے۔

۸۹؎ شیطان نے یہ باتیں، ظاہر ہے کہ خود سامنے آ کر نہیں کہیں، بلکہ اپنے طریقے کے مطابق انسانوں میں سے اپنے پیرووں سے کہلائیں۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات سے واضح ہوتا ہے کہ اِس طرح کے موقعوں پر اُس کی یہ خدمت مدینہ کے یہود انجام دیتے رہے۔ قرین قیاس ہے کہ اِس موقع پر بھی شیطان کی انگیخت سے اُنھی نے پہلے قریش کو بڑھاوے دیے ہوں گے کہ شاباش، آگے بڑھو، آج کس میں دم ہے کہ تمھارا مقابلہ کرسکے، مگر وقت آنے پر پیچھے ہٹ گئے ہوں گے کہ مبادا وہ بھی خدا کے عذاب کی گرفت میں آجائیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی پیغمبر ہیں جن کے آنے کی پیشین گوئی اُن کے صحیفوں میں کی گئی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں وہ آپ کو اِس طرح پہچانتے تھے، جس طرح کوئی مہجور باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی قوم سے باہر کسی نبوت و رسالت کو وہ کسی قیمت پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لہٰذا چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا یہ خطرہ مول لے اور اُنھیں اُس آزمایش سے نجات دلا دے جس میں وہ آپ کی بعثت کے بعد مبتلا ہو گئے تھے۔ دونوں لشکروں کو آمنے سامنے دیکھ کر شیطان نے جو کچھ کہا ہے، اُس کا ظہور بھی یہود کے رویے میں ہوا، جبکہ قریش کی پیٹھ ٹھونکنے کے باوجود وہ اُن کا ساتھ دینے کے لیے کھلم کھلا میدان میں نہیں اترے۔ قرآن نے یہاں اشارے کنایے میں اُن کو بھی متنبہ کر دیا ہے اور مسلمانوں کو بھی بتا دیا ہے کہ جو کچھ سامنے دیکھتے ہو، اُس کے پیچھے کون کون چھپا ہوا ہے۔

۹۰؎ یعنی ہوش و خرد سے عاری کرکے اِس خبط میں مبتلا کر دیا ہے کہ ممولے ہو کر بھی شہبازوں سے لڑ سکتے اور چیونٹی ہو کر بھی پہاڑوں سے ٹکرا سکتے ہو۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B