الطاف احمد اعظمی
[یہ مصنف کی طبع شدہ کتاب ’’اسلامی عبادات:تحقیقی مطالعہ‘‘ کا ایک جز ہے۔ قارئین
’’اشراق‘‘ کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث بالاقساط شائع کیے جا رہے ہیں۔]
مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ سے دوسرے اقوام کی طرح عبادت کو پرستش کا ہم معنی سمجھ لیا ہے جو ایک بڑی غلطی ہے اوراس کے نتائج مہلک ہیں، اس لیے ہم نے ضروری خیال کیا کہ عبادات ثلاثہ پر گفتگو سے پہلے چند بڑے مذاہب کے تصور عبادت کے ساتھ اسلام کے وسیع اور جامع تصور عبادت کا ذکر کیا جائے، تاکہ اسلامی عبادت کے امتیازات واضح ہوں اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہو کہ ان کی موجودہ عبادتیں اسلام کے تصور عبادت سے کس حد تک موافقت رکھتی ہیں اور عجمی تصور عبادت کے اثرات کہاں کہاں اور کن صورتوں میں موجود ہیں۔
ہندو مذہب میں عبادت کا مروجہ تصور بہت محدود اور بڑی حد تک مشرکانہ ہے یعنی مورتی پوجا اور بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی۔ ایسا نہیں کہ ان کی مذہبی کتابوں میں توحید کا تصور ہی موجود نہیں ہے۔ بعض کتابوں میں آج بھی توحید کی تعلیم ملتی ہے اور ان میں واضح لفظوں میں مورتی پوجا کی ممانعت کی گئی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اس ہستی کی کوئی مورتی یا تصویر نہیں، اس کا نام ہی سراپا تعریف ہے۔‘‘ (یجروید: ۳:۳۲)’’وہ ایک ہی ہے، اسی کی عبادت کرو۔‘‘ (رگ وید ۱۶:۴۵۶)
’’ایشور ہی اول ہے اور تمام مخلوقات کا اکیلا مالک ہے، وہ زمین اور آسمانوں کا مالک ہے۔ اسے چھوڑ کر تم کون سے خدا کو پوج رہے ہو۔‘‘ (رگ وید ۱: ۱۰،۱۲)
توحید کی یہ تعلیم ان کی فلسفیانہ مذہبی کتاب اپینشد میں ان لفظوں میں موجود ہے: ایکم برہم دوستیہ ناستے۔ نیہ۔ نا۔ ناستے کنچن ’’ایک ہی خدا ہے، دوسرا نہیں ہے، نہیں ہے، ذرا سا بھی نہیں ہے۔‘‘ اس معاملے میں ہندو فلاسفہ اس حد کو پہنچ گئے کہ انھوں نے صفات سے انکار کر دیا (نیٹی نیٹی) کہ اس سے خدا کی وحدت متاثر ہوتی ہے۔
ان تنزیہی تصور خدا کے باوجود ان کا یہ خیال ہے کہ خدائے واحد اس کائنات مادی سے ماورا نہیں بلکہ اس میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس تصور کے مطابق کائنات کی تمام چھوٹی بڑی چیزیں اس کے مظاہر کی حیثیت رکھتی ہیں اس لیے ان کی پرستش دراصل خدا ہی کی بالواسطہ عبادت ہے۔ پوچھا گیا کہ فی الحقیقت کتنے خدا ہیں؟ یجنا والکیہ نے کہا ’’ایک‘‘ اچھا تو بتاؤ کہ اگنی، وایو، آدیتیا، کال (وقت) پر ان (سانس) اَنّ (غذا)، برہما، رودرا اور وشنو میں سے ہر ایک کی کچھ لوگ اُپاسنا کرتے ہیں، ان میں سب سے اچھا معبود کون ہے؟ اس نے جواب دیا ’’یہ سب جن کا ذکر ہوا دراصل اعلیٰ، غیر فانی اور غیر مادی حقیقت (برہمن) کے مظہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے حقیقت اعلیٰ ہی کا دھیان رکھنا چاہیے البتہ اس کے جو مظاہر ہیں ان کی بھی آدمی عبادت کر سکتا ہے اور ان کو چھوڑ بھی سکتا ہے۔ ۱
اس خیال یعنی ہمہ اوست۲ کے نظریے نے ان کو پہلے مظاہر پرستی اور پھر اصنام پرستی کی منزل تک پہنچایا اور آج ہندو قوم کی اکثریت شرک کی مختلف انواع میں گرفتار ہے۔ مرئی اور غیر مرئی ہر قوت ان کی نظر میں معبود کا درجہ رکھتی ہے اور اس طرح ان کے معبودوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ ہندوؤں (آریہ سماجیوں۳ کی ایک مختصر جماعت کو چھوڑ کر) کے نظام عبادت میں مورتیوں ۴ کے سامنے سر جھکانا، نذر و نیاز چڑھانا، تالی پیٹنا اور مندر کی گھنٹی بجانا وغیرہ جیسے رسوم داخل ہیں۔ ہندوؤں کی عبادت کے بعض طریقے عہد نبوی کے مشرکین کے عبادتی طریقوں سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
وَمَا کَانَ صَلاَتُہُمْ عِندَ الْبَیْْتِ إِلاَّ مُکَاء وَتَصْدِیَۃً. (سورۂ انفال ۳۵)’’اور بیت اللہ کے سامنے ان کی نماز سیٹی بجانے اور تالی پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
شرک سے ہندو ذہن کی غیرمعمولی دلچسپی کی وجہ سے تیرتھ استھانوں کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اور ان کی زیارت کو ذریعۂ نجات خیال کیا جاتا ہے۔ ایک ہندو مؤرخ لکھتا ہے:
’’اجودھیا سے زیادہ کوئی مقام متبرک نہیں ہے۔ اس شہر کے باشندے تمام گناہوں سے پاک ہیں۔ جو شخص یہاں آ کر درشن کرتا ہے یا یہاں آنے کا ارادہ اپنے دل میں کر لیتا ہے تو اس کو اور اس کے بزرگوں کو نجات کی دولت مل جاتی ہے۔ اور جو کوئی اس سفر کے لیے کسی کو زرنقدی یا سواری دیتا ہے تو اس کو جگ اسمید کا ثواب ملتا ہے اور وہ اور اس کی اولاد بیوان پر چڑھ کر بہشت کو جاتی ہے۔‘‘ (تاریخ اجودھیا، مصنفہ کنور درگا پرشاد (تعلقہ دار ریاست سروین، بڑا گاؤں) ص۹)
اسی مؤرخ نے مزید لکھا ہے کہ:
’’سرگدوار دریائے سرجو پر ۳۱۸ گز تک محدود ہے۔ یہ مقام دنیا بھر سے متبرک ہے۔ جو شخص یہاں مرتا ہے ہزار جنم کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں اور اس کو کواواگون سے نجات مل جاتی ہے۔‘‘ (تاریخ اجودھیا، مصنفہ کنور درگا پرشاد (تعلقہ دار ریاست سروین، بڑا گاؤں) ص۱۵)
اہل ہنود یہی عقیدہ دریائے گنگا کے بارے میں رکھتے ہیں کہ اس میں نہانے سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ ۵
ہندوؤں کے تصور عبادت کی دوسری نمایاں خصوصیت ترک دنیا اور نفس کشی ہے۔ ان کا سب سے بڑا عابد وہ شخص ہے جو دنیا چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں جا بسے اور وہاں اپنی تمام خواہشات کو فنا کر کے ایشور کی تپسیّا کرے۔۶ ایسے لوگ جوگی کہلاتے ہیں یعنی خدا رسیدہ۔ ڈاکٹر برنیر۷ لکھتا ہے:
’’یہ لوگ ایسے عجیب طور پر زندگی بسر کرتے ہیں کہ اگر میں اس کو بیان کروں تو مجھے شک ہے کہ آیا اس پر کوئی اعتبار کرے گا۔ خصوصاً میرا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو جوگی کہلاتے ہیں اور جس کے معنی ہیں خدا سے ملا ہوا۔ بہت سے جوگی بالکل ننگے رات دن تالابوں کے پاس بڑے بڑے درختوں کے نیچے یا مندروں کے ارد گرد کے مکانوں میں راکھ کا بستر کیے بیٹھے یا پڑے رہتے ہیں۔ بعض کی جٹیں پنڈلیوں تک لٹکتی ہیں۔ بہت سے جوگی ایک یا دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے رکھتے ہیں۔ ناخنوں کو اس قدر بڑھاتے ہیں کہ بڑھ کر مڑ جاتے ہیں۔ ان کے بازو سخت اور غیر طبعی ریاضت کی حالت میں کافی غذا نہ پہنچنے کی وجہ سے مزمن بیماریوں میں مبتلا اشخاص کی طرح سوکھ کر نہایت دبلے پتلے ہو جاتے ہیں اور رگوں اور پٹھوں کے خشک اور سخت ہو جانے کے باعث اس قابل نہیں رہتے کہ جھکا کر ان سے کچھ منہ میں ڈال سکیں۔ ان فقیروں کے پاس ان کے چیلے حاضر رہتے ہیں جوا ن کو نہایت ہی مہاتما سمجھ کر ان کا بڑا ادب کرتے ہیں۔‘‘ (وقائع سیر و سیاحت (سفرنامۂ برنیر) ج۲، ص ۱۹۰)
وہ مزید لکھتا ہے:
’’بعض فقیروں کی نسبت مشہور ہے کہ وہ بڑے روشن ضمیر اور کامل جوگی ہیں اور حقیقت میں خدا رسیدہ ہیں۔ ان کی نسبت بالکل تارک الدنیا ہونے کا گمان ہے۔ یہ فقیر راہبوں کی طرح آبادی سے دور کسی باغ میں تنہا زندگی بسر کرتے ہیں اور شہر میں کبھی نہیں آتے۔ اگر کوئی شخص ان کو بھوجن لا کر دے دے تو لے لیتے ہیں اور اگر کوئی نہ لائے تو عوام کے خیال کے مطابق یہ مہاتما لوگ بھوجن کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ مقدس لوگ اکثر مراقبہ کی حالت میں رہتے ہیں۔ ان کا ادّعا ہے، اور ایک فقیر نے خود مجھ سے کہا، کہ ہماری روحیں گھنٹوں بے خودی اور استغراق کی حالت میں رہتی ہیں، ہمارے ظاہری حواس معطل ہو جاتے ہیں اور ہم کو خدا کا دیدار حاصل ہوتا ہے جو ایک ناقابل بیان سفید اور چمکدار نور کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور ہم کو دنیا کے بکھیڑوں سے بالکل نفرت ہو جاتی ہے اور سرور خالص کی حالت میں ہم ایسے محو ہو جاتے ہیں جو ناقابل بیان ہے۔‘‘ (وقائع سیر و سیاحت (سفرنامۂ برنیر) ج۲، ص ۱۹۷)
یہ ٹھیک اسی قسم کی رہبانیت ہے جو عہد تاریک میں عیسائی رہبان کی خصوصیت رہی ہے۔ ہندو عبادت کی تیسری نمایاں خصوصیت مشرکانہ اعمال و رسوم کی کثرت ہے اور آج بھی یہ صورت برقرار ہے۔ ۲۰۰۲ میں گجرات میں خشک سالی کی وجہ سے لوگ کافی پریشان تھے۔ چنانچہ بارش دیوتا کو خوش کرنے کے لیے صوبے کے مختلف مقامات پر مختلف قسم کی مشرکانہ رسوم انجام دی گئیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
“The government may not have given any directive this time round. but various organizations all over the state are praying for a revival of the monsoon. people are resorting to all sorts of methods to solicit divine intervention to avoid a drought. In Vadodra, plans are underway to bathe an elephant, in Rajkot a round-the-clock Yagna is going on, in Ahmedabad farmer leaders have forsaken food to bring in the elusive showeres. People in Saurashtra and kutch are offering prayers, performing Yagna and chanting Ram Dhun to appease the Rain God. The Maharashi Dayanand Sarswati Smarak Trust at Tankara has launched vrusthi Yagna. About 150 students have been chanting vedic mantras continuously for a week from Monday. And from Friday on wards, the chanting has gone round-the-clock. The mahant of the jagannath temple said: “In a way, it is saying sorry for any misdeed that could have upset God.” The Shiv Sena has also organized a varun Yagna at Kutyana on Sunday. Rituals will be performed at Junagadh, Morbi, Bhayavadar, Veraval and porbunder. Even the Vadodara Municipal Corporation;s water supply committee and the Satyam Shivam Sundaram Samiti conducted parjanya Yagna - a ceremony where an elephant well be bathed with pomp and fanfare while a group of Brahmins will invoke Lord Indira.”(Sunday, The Times of India, New Delhi, August 4, 2002, p.6)
ہندوؤں کے تصور عبادت میں خدا (بھگوان، برہما) کے احکام و ہدایات کی تعمیل کا کوئی تصور نہیں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں گیان (معرفت) کو کرم (عمل) پر فوقیت حاصل ہے۔ خدمت خلق کا تصور بھی غیر واضح ہے گو کہ دوسرے مذاہب کی طرح خیرات (دان پنّ) کو اس مذہب میں بھی اہمیت دی گئی ہے۔
یہودی مذہب میں عبادت کا مفہوم بہت واضح ہے، یعنی خدائے واحد کی پرستش ۸ تورات میں فرمایا گیا ہے:
’’تم اپنے لیے بتوں کو یا کسی ترشی ہوئی مورت کو نہ بنائیو اور نہ پوجنے کی لاٹ کو کھڑا کرو اور نہ اپنے لیے کوئی صورت دار پتھر اپنے ملک میں قائم کرو کہ اس کے آگے سجدہ کرو اس لیے کہ میں خداوند تمھارا خدا ہوں۔‘‘ (کتاب احبار، باب ۱/۲۶)
تورات کے اس صریح حکم کے باوجود یہود اپنی تاریخ کے ہر دور میں شرک جلی یعنی اصنام پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
وَجَاوَزْنَا بِبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْاْ عَلَی قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلَی أَصْنَامٍ لَّہُمْ قَالُواْ یَا مُوسَی اجْعَل لَّنَا إِلَہاً کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُونَ.(سورۂ اعراف ۱۳۸) ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا پس ان لوگوں کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے بتوں سے لگے بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا، اے موسیٰ، ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی معبود (مجسم) مقرر کر دیجیے جیسے ان کے یہ معبود ہیں۔ موسیٰ نے کہا، بلاشبہ تم سخت نادان لوگ ہو۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام کی حیات ہی میں یہودیوں نے گوسالہ پرستی کی جس کا ذکرقرآن نے ان لفظوں میں کیا ہے:
وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَی مِن بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلاً جَسَداً لَّہُ خُوَارٌ أَلَمْ یَرَوْاْ أَنَّہُ لاَ یُکَلِّمُہُمْ وَلاَ یَہْدِیْہِمْ سَبِیْلاً اتَّخَذُوہُ وَکَانُواْ ظَالِمِیْنَ.(سورۂ اعراف ۱۴۸)’’اور موسیٰ کی قوم نے اس کے (کوہ طور پر چلے جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک مجسم بچھڑا بنا لیا، اور اس سے ایک قسم کی آواز نکلتی تھی۔ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرتا تھا اور نہ ان کی رہنمائی کرتا تھا (لیکن اس کے باوجود) انھوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ (یقینا) ظالم (مشرک) تھے۔‘‘
قوم یہود کی اس بت پرستانہ ذہنیت کاثبوت تورات میں بھی موجود ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعد کے ادوار میں بھی اصنام پرستی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ کتاب یسعیاہ میں ایک جگہ بیان ہوا ہے:
’’وہ اہل مشرق کے رسوم سے پر ہیں اور فلیتوں کی مانند شگون لیتے ہیں ... ان کی سرزمین بتوں سے پر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت یعنی اپنی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ (کتاب یسعیاہ، باب ۲/۶۔۸)
یہودیوں کا مذہبی طبقہ گو کہ بت پرستی سے کنارہ کش رہا لیکن عبادت میں ریا اور نمود کے مرض سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو نظام عبادت وضع کیا اس میں عبادت کے خارجی اعمال و رسوم اور بزرگان سلف کی روایات کی پاس داری پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور اسی چیز نے رفتہ رفتہ عبادت کے مقصود یعنی تزکیۂ نفس کو ان کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں یہودیوں کے مذہبی طبقہ کا جو حال زبوں تھا وہ انجیل کے لفظوں میں ملاحظہ ہو:
’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو (یہودی علماء و فقہاء) تم پر افسوس کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تمھیں زیادہ سزا ہو گی۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پودینہ، سونف اور زیرہ پرتودہ یکی دیتے ہو لیکن شریعت کی زیادہ اہم باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو! مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ تم پیالے اور رکابی کو اوپر سے خوب صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیز گاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کرو تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو اوپر سے خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردہ کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو لیکن باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔‘‘ (متی باب ۲۳: ۲۰۔۲۸)
یہودیوں میں ظواہر عبادت پر اصرار کا ایک بڑا سبب مذہبی احکام و شرائع کی کثرت ہے جس کی وجہ سے مقصود عبادت سے ان کی نظر ہٹ گئی۔ مثلاً ان کے ہاں جانوروں کی قربانی ایک بڑی عبادت ہے۔ کتاب احبار کے بالکل شروع میں سوختنی قربانی کے متعلق فرمایا گیا ہے:
’’اگر اس کی قربانی، سوختنی قربانی، گائے بیل سے ہو تو بے عیب نر لائے۔ جماعت کے خیمے کے دروازے پر اپنے مقبول ہونے کے لیے خداوند کے آگے لائے اور وہ سوختنی قربانی کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے کہ اس کے لیے قبول کی جائے اور اس کے لیے کفارہ ہو۔ اور وہ اس بیل کو خداوند کے حضور ذبح کرے اور کاہن، جو بنی ہارون ہیں، لہو کو لائیں اور اس کو مذبح پر ہر طرف جو جماعت کے خیمے کے دروازے پر ہے، چھڑکیں۔ تب وہ اس سوختنی قربانی کی کھال کھینچے اور اس کو عضو عضو جدا کرے۔ پھر ہارون کاہن کے بیٹے مذبح پر آگ رکھیں اور اس پر لکڑیاں ترتیب سے چنیں اور بنی ہارون جو کاہن ہیں، اس کے عضوؤں کو اور سر اور چربی کو ان لکڑیوں پر جو مذبح کی آگ پر ہیں، ترتیب سے رکھ دیں، اور وہ اس کے اوجھ اور پاؤں کو پانی سے دھوئیں اور کاہن سب کو مذبح پر جلائے کہ سوختنی قربانی یعنی خوشبو آگ سے، خداوند کے لیے۔‘‘ (احبار، باب ۱: ۱۔۹ (کتاب احبار میں زیادہ تر قربانی کے احکام مذکور ہیں۔))
یہودی سمجھتے تھے کہ قربانی کا گوشت جلانے سے جو خوشبو نکلتی ہے اس سے خدا خوش ہوتا ہے جیسا کہ کتاب احبار کی مذکورہ بالا عبارت کے آخری جملہ سے بالکل ظاہر ہے۔ یہ ایک بالکل سطحی اور طفلانہ تصور عبادت تھا۔ بعض احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں میں ظواہر عبادت پر زور زیادہ تھا۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم نماز پڑھو تو تہ بند باندھ لیا کرو یا چادر اوڑھ لیا کرو، یہودیوں کی طرح (ننگے) نماز نہ پڑھو۔ ’’نماز میں یہودیوں کی طرح نہ جھومو۔‘‘۹ ’’تم یہودیوں کے برخلاف نماز میں موزے اور جوتے پہنے رہو۔‘‘ ۱۰ ’’میری امت میں اس وقت تک دین کا کچھ نہ کچھ اثر رہے گا جب تک لوگ یہودیوں کی تقلید میں مغرب کی نماز میں ستاروں کے نکلنے کا اور عیسائیوں کی تقلید میں صبح کی نماز میں ستاروں کے ڈوبنے کا انتظار نہ کریں گے۔‘‘ ۱۱
ظواہر عبادت پر زیادہ زور دینے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی عبادت میں اخلاص و للّٰہیت کے بجاے ریا و نمود داخل ہو گیا۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ یہودی علماء عوام کو دکھانے کے لیے لمبی لمبی نمازیں پڑھتے تھے۔ ان کے روزے بھی اس خرابی سے محفوظ نہ تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا:
’’پھر جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی مانند اپنا چہرہ اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ (یہود) اپنا منہ بگاڑتے ہیں کہ لوگوں کے نزدیک روزہ دار ٹھہریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلہ پا چکے۔ پر جب تم روزہ رکھو تو اپنے سر میں تیل لگاؤ اور منہ دھوؤ تاکہ تم آدمیوں پر نہیں بلکہ اپنے باپ پر جو پوشیدہ ہے، روزہ دار ظاہر ہو، اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے، تجھ کو آشکار بدلہ دے۔‘‘ (متی، باب ۶: ۱۶۔۱۸)
یہودیوں کے تصور عبادت میں ترک دنیا اور نفس کشی کا کوئی عنصر نہیں ملتا اور یہ بظاہر ایک خوبی معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل اس کی وجہ زرپرستی اور دنیا کی زندگی سے ان کا غیر معمولی لگاؤ ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ان کا ہر آدمی ہزار سال تک زندہ رہنا چاہتا ہے (سورۂ بقرہ: ۹۶) انجیل میں ہے کہ ایک بار ایک یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور ابدی زندگی کے حصول کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے اس کو بعض دینی احکام پر عمل کی ہدایت کی۔ اس نے کہا، میں تو ایک مدت سے ان حکموں پر عمل پیرا ہوں۔ آپ نے فرمایا، اچھا تو کامل بننا چاہتا ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا، جاؤ اوار اپنی کل دولت اور سب مال و متاع بیچ کر میرے پیچھے آ لگو۔ یہ سن کر وہ غمگین ہوا کہ دولت مند تھا۔ ۱۲
عیسائیوں کے تصور عبادت میں شرک پوری طرح دخیل ہے۔ اور یہ شرک نظری اور عملی دونوں طرح کا ہے۔ عیسائیوں کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور لارڈ (رب) قرار دیتی ہے۔ شاہ قسططین (۳۰۶۔ ۳۳۷ء) کے عہد میں نیقا کے مقام پر ۳۲۵ء میں تمام چرچوں کی جنرل کونسل میں عیسائیوں کا جو متفق علیہ عقیدہ قرار پایا وہ یہ تھا:
’’ہم خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں یعنی باپ پر جو مقتدر اعلیٰ ہے، جو تمام مرئی اور غیر مرئی اشیاء کا خالق ہے، اور آقا (لارڈ) عیسیٰ مسیح پر ایمان رکھتے ہیں جو خدا کا بیٹا ہے، جو باپ سے پیدا ہوا، اور ایک ہی ہے جو باپ سے پیدا ہوا، جس کا جوہر باپ کے جوہر کی طرح ہے۔ خدا سے خدا، روشنی سے روشنی، خدا سے سچا خدا، ساختہ نہیں آفریدہ۔ خدا کے جوہر سے متحد، جس کے ذریعہ تمام اشیاء خلق ہوئیں خواہ وہ اشیاء آسمان میں ہوں یا زمین میں، جو ہماری نجات کے لیے آسمان سے نیچے آیا، جسدی ظہور ہوا، آدمی بنا، دکھ سہے اور تیسرے دن اٹھ کھڑا ہوا اور آسمان کی طرف صعود کر گیا۔‘‘ (اے شارٹ ہسٹری آف آور ریلیجن (ڈی، سی، سمرویل) ص ۸۹
اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں نے خدا کے ساتھ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی شریک عبادت کر لیا۔ یہ شرک صرف دعا اور طلب حاجات تک محدود نہ تھا بلکہ کھلی بت پرستی (Image Worship) تک پہنچ گیا۔ مسیحی روما کے کلیساؤں میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کے مجسمے نصب تھے اور دیواریں ان کی تصاویر سے آراستہ تھیں اور ان کی پرستش کی جاتی تھی۔ اس بت پرستی کے خلاف جب بھی حکومت کی طرف سے آواز بلند ہوئی تو اس کی مخالفت سب سے زیادہ پادریوں اور راہبوں نے کی۔ ۱۳ ایک عیسائی مورخ ان کی بت پرستی کے متعلق لکھتا ہے:
’’مشرق میں رومن بادشاہ (Leo the Isavian) کو یقین تھا کہ اللہ نے مذہب اسلام کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ بت پرست عیسائیوں کو سزا دے جو تماثیل اور مقدس آثار کی پرستش کرتے تھے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ تمام چرچوں میں تصاویر اور مجسموں کو توڑ دیا جائے۔‘‘ (اے شارٹ ہسٹری آف آور ریلیجن، ص ۱۵۷)
اس شرک میں عیسائیوں نے اپنے اولیاء (عیسائی رہبان) کو بھی شریک کر لیا تھا۔ راہبوں میں سے جو راہب اپنے روحانی کمالات میں زیادہ شہرت حاصل کر لیتا اس کے متعلق عیسائی یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ صاحب کشف و کمال ہے، جو چاہے کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے اور وہ ان سے نذریں لے کر یقین دلاتا تھا کہ ان کی حاجتیں پوری ہو جائیں گی۔ ۱۴ بعد کے ادوار میں ایسے راہبوں کے مقابر پر عیسائی جوق در جوق جمع ہوتے اور ان کو صاحب اختیار سمجھ کر ان سے اپنی حاجتیں طلب کرتے۔ ان کے مقابر سجدہ گاہ بن گئے تھے۔ قرآن مجید میں عیسائیوں کی اولیاء پرستی کاذکر ان لفظوں میں آیا ہے:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِیَعْبُدُواْ إِلَہاً وَاحِداً لاَّ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ. (سورۂ توبہ ۳۱)’’انھوں نے اللہ کے سوا اپنے فقیہوں اور راہبوں کو رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ انھیں صرف ایک ہی معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
عیسائیوں کے تصور عبادت کی دوسری نمایاں خصوصیت رہبانیت یعنی ترک دنیا اور نفس کشی ہے۔ اس معاملے میں عیسائی راہب اور ہندو جوگی یکساں ہیں۔ یورپ کے عہد تاریک (400-1000) میں اس تصور نے ناقابل بیان حد تک فروغ پایا۔ عیسائی مورخ ڈی سمرویل لکھتا ہے:
’’عیسائیت نے زہد و تقویٰ کے لیے ترک دنیا کو لازمی قرار دیا۔ عیسائی راہبوں کے نزدیک ازدواجی زندگی اور والدین جیسے دنیوی علائق سے زیادہ اہم چیز خود اپنی زندگی اور نفس کا تزکیہ تھا۔ چنانچہ اس تصور کے تحت وہ انسانی آبادیوں سے نکل کر جنگلوں، پہاڑوں اور دوسرے مقامات پر جانے لگے، ایک دو کی تعداد میں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں۔ ان مقامات پر وہ نہایت فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرتے، گندی حالت میں رہتے اور بیماریوں کو دیدہ و دانستہ دعوت دیتے تھے سینٹ ایسو بیس (St. Eusebius) تین سال تک ایک خشک کنویں میں محو عبادت رہے۔ سینٹ سبینوس (St. Sabinus) صرف موٹے اناج پر جو مہینوں پانی میں بھیگ کر سڑ جاتے تھے، زندگی گزارتے تھے۔ سینٹ بساریان (St. Basarion) نے چار دن اور چار راتیں کانٹوں کی جھاڑی کے درمیان گزاریں۔اس نفس کشی کی سب سے بھیانک مثال سینٹ سمیان (St. Simeon) کی ہے۔ انھوں نے اپنے جسم کو رسیوں سے اتنا کس کر باندھ لیا تھا کہ یہ رسیاں ان کے گوشت میں پیوست ہر کر سڑ گئیں۔ ان کے جسم سے اتنی سخت بدبو آتی تھی کہ کوئی شخص ان کے پاس کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب وہ حرکت کرتے تو ان کے جسم سے کیڑے گرتے تھے۔ انھوں نے ۶۰ فیٹ اونچا ایک مینار بنوایا تھا جس کا محیط ایک گزر تھا۔ اس مینار پر وہ تیس سال تک ہر قسم کے موسم میں محو عبادت رہے۔ یہی عیسائی ولی ایک سال تک ایک پیر پر کھڑے رہے اور دوسرے پیر کو جس میں قرحہ تھا ڈھانک رکھا تھا۔ جب کوئی کیڑا اس زخم سے گر جاتا تو ان کا سوانح نگار جو ان کے پاس ہی رہتا تھا اس کو اٹھا کر دوبارہ زخموں میں رکھ دیتا تھا اور یہ فقیر ان کیڑوں سے کہتا: کھاؤ جو خدا نے تم کو دیا ہے۔ اس عیسائی ولی کا جب انتقال ہوا تو دین عیسوی کے ماننے والوں اور ان کے علماء مجتہدین کا ایک ہجوم ان کے جنازے میں شریک ہوا اور ہر شخص کی زبان پر یہی صدا تھی ’’وہ سب سے عظیم عیسائی درویش کا نمونہ تھے‘‘۔‘‘ (اے شارٹ ہسٹری آف آور ریلیجن، ص۱۴۵، ۱۴۶)
چھٹی صدی عیسوی میں اس ترک دنیا بلکہ نفرت دنیا میں کمی ہوئی اور عیسائی رہبان جنگلوں اور پہاڑوں کے بجائے ایک جگہ خانقاء بنا کر رہنے لگے لیکن دنیا سے بے التفاتی ہنوز قائم رہی، اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے آغاز تک کسی نہ کسی صورت میں اس کا سلسلہ جاری رہا۔
عیسائیوں کے تصور عبادت کی مذکورہ خرابیوں میں اب کافی کمی آ گئی ہے، رہبانیت کے اعمال و مظاہر تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ لیکن شرک آج بھی باقی ہے۔ عیسائی قوم اپنی تمام سائنسی فتوحات اور روشن دماغی کے باوجود مذہبی معاملے بالخصوص عقیدۂ توحید کے باب میں کل کی طرح آج بھی اپنی سابقہ طفلانہ روش پر قائم ہے، یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے اور اس دنیا کے لارڈ (رب) ہیں۔
دیگر مذاہب کی طرح عیسائی مذہب میں بھی غرباء مساکین کی امداد و اعانت کو ایک بڑی نیکی خیال کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں رہبانیت کے فروغ کی وجہ سے اس طرف توجہ نہ ہو سکی لیکن رہبانیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی اس تصور نے کافی ترقی کی اور آج اس پہلو سے عیسائی قوم جملہ اقوام عالم سے آگے ہے۔ آج دنیا کے جس ملک میں بھی طوفان، زلزلہ، قحط، وبائی امراض اور خانہ جنگی جیسے واقعات پیش آتے ہیں وہاں عیسائیوں کی مختلف تنظیمیں آفت رسیدوں کی مدد کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ملکوں میں عیسائی مشنریوں نے شفاخانے قائم کیے ہیں جہاں پوری لگن کے ساتھ غریبوں اورمحتاجوں کو طبی امداد مہیا کی جاتی ہے۔ مدرٹریسا کی خدمات سے کون انسانیت نواز واقف نہ ہو گا۔
عیسائیوں کے اس طرزعمل کی تفہیم انجیل میں بیان کردہ ایک روایت سے ہوتی ہے۔ ایک بار یہودی علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بغرض امتحان آئے اورپوچھا کہ اے استاد! تورات کی اولین اور اہم تعلیم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے پورے دل اور پوری جان سے خدا سے محبت رکھ اوراسی طرح پورے دل اور پوری جان سے اپنے پڑوسی سے محبت رکھ۔۱۵ عیسائیوں نے اپنے پیغمبر کی اس سادہ تعلیم کو حرزجان بنا لیا بالخصوص اس کے دوسرے جز یعنی خدمت خلق کو۔ آج یہی ایک چیز ان کے مذہب کا طغرائے (طرۂ) امیتاز ہے۔
دنیا کے تین اہم مذاہب کے تصور عبادت کی توضیح کے بعد اب ہم اسلام کے تصور عبادت کی شرح و تفصیل کریں گے۔
اسلام کے تصور عبادت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظ عبادت کے معنی و مفہوم کو، جو عربی زبان ہی کا ایک لفظ ہے، ذہن نشین کر لیں۔ عبادت کے لغوی معنی انتہائی عجز و تذلل کے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں:
’’عبودیت کے معنی اظہار فروتنی کے ہیں اور عبادت کے معنی اس سے بھی ایک درجہ آگے یعنی غایت درجہ فروتنی کے ہیں۔ اس کی مستحق صرف وہ ذات ہے جس کی مہربانیاں بے پایاں ہیں۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے: ’ان لا تعبدوا الا ایاہ‘ ’’صرف اسی کی عبادت کرو۔‘‘ (مفردات راغب، بذیل مادہ ’’عبد‘‘)
معروف عربی لغت لسان العرب میں ہے:
’’عبادت کے معنی اطاعت کے ہیں۔ عبدالطاغوت یعنی اس نے طاغوت کی اطاعت کی اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’ایاک نعبد‘ یعنی ہم تیری ہی عاجزانہ اطاعت کرتے ہیں۔ اور لغت میں عبادت کے معنی اطاعت مع الخضوع ہیں چنانچہ وہ راستہ جو آمدورفت کی کثرت سے پامال ہو گیا ہو طریق معبد کہلاتا ہے۔‘‘ (لسان العرب، ج ۳، ص، ۲۷۲)
تاج العروس میں ہے:
’’لغت میں عبادت کے معنی اطاعت مع الخضوع کے ہیں۔‘‘ (تاج العروس، ج ۲، ص ۴۱)
مفسرین نے بھی عبادت کے یہی معنی لکھے ہیں۔ امام طبری فرماتے ہیں:
تباری عتاقاً ناجیات، واتبعتوظیفاً وظیفاً فوق مور معبد
(وہ تیز رفتار گھوڑیوں کا مقابلہ کرتی ہے اور ایک پیر پر کے پیچھے اور دوسرا پیر پامال راستے پر رکھتی چلی جاتی ہے۔)
اس شعر میں مورمعبد سے مراد طریق معبد یعنی پامال راہ ہے۔اور اسی طرح وہ اونٹ جسے سواری کے لیے رام کیا جا چکا ہو بعیر معبد کہلاتا ہے۔ عبد کو بھی اسی وجہ سے عبد یعنی غلام کہتے ہیں کہ وہ اپنے آقا کا مطیع و منقاد ہوتا ہے۔ اشعار عرب میں اس کے شواہد اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔‘‘ (تفسیر طبری، ج۱، ص ۱۶۱)
صاحب کشاف لکھتے ہیں:
’’عبادت نام ہے غایت درجہ خضوع و تذلل کا اور اسی لیے اس لفظ کا استعمال صرف اللہ کے سامنے خضوع کے لیے خاص ہے کیونکہ وہی آقا اور منعم حقیقی ہے اس لیے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کے آگے خضوع و تذلل کا اظہار کیا جائے۔‘‘ (الکشاف، ج۱ ، ص ۹)
علامہ علاء الدین رقم طراز ہیں:
’’عبادت انتہائی جھکاؤ اور پستی کا نام ہے (اعبادۃ اقصٰی غایۃ الخضوع والتذلل) غلام کو اسی لیے عبد کہتے ہیں کہ وہ بالکل جھکا ہوا اور مطیع ہوتا ہے۔‘‘ (تفسیر خازن مع البغوی، ج۱، ص۱۵)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’لغت میں عبادت کے معنی ذلت کے ہیں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۲۵)
مفسرین اور اہل لغت کی اس تشریح سے واضح ہو گیا کہ عبادت میں ذلت اور خضوع کا مفہوم نمایاں ہے۔ لیکن ان کے معنی میں تھوڑا فرق ہے۔ صاحب لسان نے ذلت کے مفہوم کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’ذلت، قوت و شوکت اور غلبہ کی ضد ہے۔ اس کے معنی کمزوری، درماندگی اور مغلوبیت کے ہیں۔ الذلّ بالکسر کے معنی نرمی اور سہولت کے ہیں۔ یہ صعوبت کی ضد ہے ’الذُّلُّ بالضم‘ (ضمہ کے ساتھ ذل) بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ ذلیل اور ذلول صفت کے طور پر آتا ہے۔ ذلول کا استعمال غیر ذوی العقول کے ساتھ مخصوص ہے اور ذلت انسان کے لیے۔ ’ذلت الدابۃ‘ کا مطلب ہے کہ جانور سواری کے لیے رام ہو گیا۔ ’فرسّ ذلولّ‘ اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو سرکشی چھوڑ کر مطیع ہو گیا ہو، جس پر سواری آسان ہو گئی ہو۔ طریق ذلیل اور طریق مذلل اس راستے کو کہتے ہیں جو پامال ہو کر ہموار ہو گیا ہو۔ ’ذلت القوافی للشاعر‘ کا مطلب ہے کہ شاعر کو قوافی پر پوری قدرت اور غلبہ حاصل ہو گیا ہے۔ تذلل کے معنی کمزور ہونا، مغلوب ہونا اور مطیع ہونا ہے۔‘‘ (لسان العرب، بذیل مادہ ’’ذل‘‘۔ مزید دیکھیں، المصباح المنیر لاحمد بن محمد)
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ذلت اور تذلل کا مفہوم ہے سرکشی اور مزاحمت چھوڑ کر مغلوب اور تابع ہو جانا اس طرح کہ جو مغلوب ہو اس کے ظاہر و باطن سے پستی اور کمزوری ظاہر ہو۔ اسی لیے طریق ذلیل یا مذلل اس راستے کو کہتے ہیں جو اس طرح پست و پامال ہو چکا ہو کہ اس پر چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور چلنے والا نہایت آسانی سے کسی ادنیٰ رکاوٹ کے بغیر اس سے گزر جائے۔ اس قسم کے راستوں کی ظاہری صورت ان کی پستی اور مغلوبیت کی تصویر ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’فرس ذلول‘‘ کے معنی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، اس گھوڑے کے ہیں جس پر سواری آسان ہو، دوسرے لفظوں میں سوار کسی مزاحمت کے بغیر اس پر سواری کر سکے او راس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہو کہ وہ سواری کے لیے بالکل پست و مغلوب ہو چکا ہے، اس کے اندر سرکشی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔
خضوع کے معنی جھکنے کے ہیں۔ ’خضعہ الکبر واخضعہ‘ یعنی بڑھاپے نے اس کی کمر جھکا دی۔ ’’انعام اخضع‘‘ وہ شتر مرغ ہے جس کی گردن چرنے میں زمین تک جھک جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضوع کا لفظ جوارح یعنی سر، گردن اور جسم کے جھکنے کے لیے آتا ہے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ کسی کو سر جھکا کر نماز پڑھتے دیکھتے تو گردن اٹھا دیتے اور فرماتے ’’لیس الخضوع فی الرکاب‘‘ (خضوع گردن میں نہیں ہے) اور پھر دل کی طرف اشارہ کرتے کہ ’ھھٰنا‘ (یہاں ہے)۔ اسی لیے خاضع کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اپنا سر اور گردن مغلوب اور کمزور ہونے کی وجہ سے جھکا لے (الخاضع، المطاطی رأسہ وعنقہ للذل والاستکانۃ)
معلوم ہوا کہ خضوع کا لفظ اپنے اندر مغلوبیت کا جو پہلو رکھتا ہے اس میں ظاہر بدن کی مغلوبیت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ اطاعت و انقیاد کے معنی میں زیادہ مستعمل ہے۔ لسان العرب میں ہے: ’الخضوع الانقیاد والمطاوعۃ‘۔ لیکن اسی اطاعت و انقیاد پر خضوع کا اطلاق ہو گا جو رضا و رغبت کے ساتھ ہو۔ اسی لیے صاحب لسان نے خضوع کی تشریح میں انقیاد کے ساتھ مطاوعت (برضا اطاعت) کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن کبھی یہ جبری اطاعت کے لیے بھی آتا ہے۔ ۱۶
یہاں یہ بات فراموش نہ ہو کہ عبادت کے لغوی معنی میں پرستش کا مفہوم بھی شامل ہے۔ تعبّد کے معنی تنّسک کے ہیں یعنی گوشہ گیر ہو کر کسی برتر ہستی کی یاد اور اس کی تعظیم میں مشغول ہونا۔ متعبّد وہ شخص ہے جو عبادت کے لیے گوشہ گیر ہو جائے۔ ’’عبد بہ‘‘ کا مطلب ہے: ’للزمہ فلم یفارقہ‘ یعنی اس سے وابستہ ہو گیا اور جدا نہ ہوا۔ مُعبّد کے معنی جہاں منقاد کے ہیں وہاں اس کے معنی معبود کے بھی ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے:
تقول لا تبقی علیک فاننیاری المال عند المسکین معبدا
’’میری بیوی ملامت کرتی ہے کہ نمود و دہش میں تو اپنا بھی خیال نہیں رکھتا۔ میں تو دیکھتی ہوں کہ مال بخیلوں کے یہاں پوجا جاتا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی بکثرت آیات میں عبادات اور اس کے مشتقات کا استعمال ہوا ہے اور اس سے اس کا واقعی مفہوم بالکل متعین ہو جاتا ہے، یعنی اطاعت مع الخضوع۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ لَمَّا جَاء نِیَ الْبَیِّنَاتُ مِن رَّبِّیْ وَأُمِرْتُ أَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ. (سورۂ مومن ۶۶) ’’اے نبی، ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں) جب کہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس روشن دلائل آ چکے ہیں۔ اور مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں رب کائنات کے آگے اپنا سر جھکا دوں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:
قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَاءِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ. (سورۂ بقرہ ۱۳۳)’’انھوں (اولاد یقوب) نے کہا کہ ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو تنہا معبود ہے اور ہم اسی کے مطیع و فرماں بردار ہوں گے۔‘‘
مذکورہ دونوں آیتوں میں ’اُسْلِمَ‘ اور ’مُسْلِمُوْنَ‘ کے الفاظ دراصل ’اَعْبُد‘ اور ’نَعْبُدُ‘ کی معنوی وضاحت کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور یہ معلوم ہے کہ لغت میں اسلام ۱۷ کے معنی اطاعت و فرماں برداری کے ہیں۔ بعض مقامات پر عبادت کے اس مفہوم کو کھول دیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے:
فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَابِدُونَ. (سورۂ مومنون ۴۷)’’انھوں نے کہا، کیا ہم لوگ اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں گے حالانکہ ان کی قوم (یعنی بنی اسرائیل) ہماری مطیع ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:
یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْْطَانَ إِنَّ الشَّیْْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِیّاً. (سورۂ مریم ۴۴)’’ابا جان، شیطان کی بندگی نہ کیجیے، بے شک شیطان نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے۔‘‘
آخری آیت میں شیطان کی عبادت کے معنی اس کی اطاعت و پیروی کے ہیں۔ اس لیے کہ معروف معنی میں شیطان کی پرستش کوئی آدمی بھی نہیں کرتا ہے۔ آیت میں ’’عَصِیّاً‘‘ کا لفظ بھی اس معنی کی طرف رہبری کرتا ہے جس کے معنی نافرمان کے ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں عبادت کے معنی اطاعت ہی کے لکھے ہیں۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
لا تعبد الشیطان ای لا تطعہ فی عبادۃ ہذہ الاصنام. (تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص۲۲۳)’’شیطان کی عبادت نہ کرو یعنی ان بتوں کی پوجا کرنے میں اس کی اطاعت نہ کرو۔‘‘
علامہ نسفی لکھتے ہیں:
ای لاتطعہ فیما سول من عبادۃ الصنم. (مدارک التنزیل، ج۳، ص۳۶، ۳۷)’’یعنی ان بتوں کی پوجا کرنے کی گمراہی میں اس کی اطاعت نہ کرو۔‘‘
علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
ای لاتطعہ فیما یامرک من الکفر ومن اطاع شیئا فی معصیۃ فقد عبدہ.(تفسیر قرطبی، ج۱۱، ص۱۱۱، مزید دیکھیں، فتح القدیر (شوکانی)، ج۳، ص ۳۲۴)’’جس کفر کا یہ تجھے حکم دیتا ہے اس میں اس کی بات نہ مان، اور جس نے نافرمانی میں کسی کی ادنیٰ اطاعت بھی کی تو گویا اس نے اس کی عبادت کی۔‘‘
اس سلسلے میں قرآن مجید کی ایک اور آیت ملاحظہ ہو:
بَلْ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ. (سورۂ سبا ۴۱)’’بلکہ وہ جنوں کی عبادت کرتے تھے۔‘‘
اس آیت میں بھی عبادات کے معنی جنوں کی اطاعت کے ہیں۔ علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں:
بل کانوا یعبدون الجن ای یطیعون الشیاطین فی عبادتھم.(زادالمسیر ج۶، ص۳۶۴، مزید دیکھیں، معالم التنزیل، بغوی، علی ھامشہ وفی النسفتی، ج۳، ص۳۲۸)’’بلکہ وہ جنوں کی عبادت کرتے تھے یعنی ان کی عبادت کرنے میں شیاطین کی اطاعت کرتے تھے۔‘‘
یہ آیت بھی قابل ملاحظہ ہے:
أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْْطَانَ. (سورۂ یٰسٓ ۶۰)’’اے بنی آدم، کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہیں کرو گے۔‘‘
اس آیت میں بھی شیطان کی عبادت کے معنی اس کی اطاعت کے ہیں۔ ابن جوزی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
الم اعھد الیکم ای الم امرکم، الم اوصکم، ولا تعبددوا بمعنی لا تطیعوا، الشیطان ہو ابلیس زین لھم الشرک فاطاعوہ.(زادالمسیر ج۷، ص۳۰)’’کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا یعنی میں نے تمھیں حکم نہیں دیا، کیا تمھیں وصیت نہیں کی۔ اور ’لا تعبدوا‘ بمعنی ’لا تطیعوا‘ ہے یعنی اطاعت نہ کرو۔ شیطان سے مراد ابلیس ہے جس نے ان کے لیے شرک کو مزین کیا پس انھوں نے اس کی اطاعت کی۔‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں عبادت کا لفظ واضح طور پر اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن ہر اطاعت کو عبادت نہیں کہیں گے۔ عبادت کا اطلاق صرف اس حالت پر ہو گا جس میں سر کے ساتھ دل بھی پوری طرح جھکا ہوا ہو، یعنی برضا و رغبت تابع داری اور سرافگندگی ۔ اس کے برخلاف صورت کو قرآن مجید نے استکبار سے تعبیر کیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے:
وَمَن یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیْعاً.(سورۂ نساء ۱۷۲)’’اور جو شخص اس کی عبادت (یعنی اطاعت و بندگی) کو اپنے لیے عار سمجھے گا اور استکبار کرے گا تو وہ (ایک دن) سب کو اپنے پاس جمع کرے گا (اور اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ کبریائی کے لائق کون ہے)۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَلِلّہِ یَسْجُدُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مِن دَآبَّۃٍ وَالْمَلآءِکَۃُ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ.(سورۂ نحل ۴۹)’’آسمانوں اور زمین کی تمام ذی حیات مخلوقات اور فرشتے سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں اور وہ استکبار نہیں کرتے۔‘‘
اس آخری آیت میں سجدہ کے لفظ نے استکبار کے معنی کو بالکل متعین کر دیا ہے یعنی خدا کے بالمقابل اپنی ہستی کو بڑا سمجھنا اور اس کے سامنے سراطاعت جھکانے سے اعراض کرنا، اس لیے لازماً عبادت کے معنی ہوئے، خدا کے بالمقابل اپنی ہستی کو حقیر ترین سمجھنا اور اس کے آگے سر اطاعت خم کرنا۔ لیکن عبادت میں جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوا، اطاعت مع الخضوع یعنی برضا و رغبت تابعداری کا مفہوم غالب ہے۔
عبادت کے مذکورہ بالا لغوی اور قرآنی مفہوم کی روشنی میں دیکھیں تو اسلام میں عبادت کی حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز خواہ چھوٹی ہو یا بڑی خدا کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کر رہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعاً وَکَرْہاً.(آل عمران ۸۳)’’آسمانوں اور زمین میں جو بھی زندہ وجود ہے وہ اس کے آگے، خواہ خوشی سے اور خواہ جبر سے، سرفگندہ ہے۔‘‘
جبری اطاعت کا قانون پوری کائنات میں نافذ ہے۔ اس قانون سے انسان کی تکوینی زندگی بھی مستثنیٰ نہیں ہے لیکن اس کی تمدنی اور اخلاقی زندگی اس جبری اطاعت سے آزاد ہے۔ زندگی کے اسی حصے کو اپنی خوشی سے خدا کی مرضی کے تابع کر دینا حقیقی معنی میں عبادت ہے، اور یہی اسلام کی حقیقت بھی ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَاءِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ.(سورۂ بقرہ ۱۳۳)’’انھوں نے کہا، ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی، جو تنہا معبود ہے، عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہوں گے۔‘‘
اور یہی انسان کی غایت تخلیق بھی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ.(سورۂ ذاریات ۵۶)’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
اس آیت میں جس عبادت کو انسان کی غایت تخلیق کہا گیا ہے وہ دل کی کامل رضا و رغبت کے ساتھ خدا کی فرماں برداری ہے۔ اسلام میں ایک عبادت گزار سے جہاں یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اعضاء و جوارح سے خدا کے سامنے عجز و تذلل کا اظہار کرے، جسے عرف عام میں پرستش سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہاں اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ معاملات زندگی میں دل کی مکمل رضا کے ساتھ حتّی المقدور خدا کی فرماں برداری کرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔ بندے کے اس عابدانہ رویے کا نام قرآن مجید کی زبان میں تقویٰ ہے۔ عبادت اور تقویٰ میں گہرا رشتہ ہے۔
[باقی]
__________________
۱ انڈین فلاسفی، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ج ۱ ص ۱۴۴۔
۲ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اسی خیال کی بدلی ہوئی شکل وحدت الوجود کا نظریہ ہے جو ماضی میں طبقۂ صوفیاء میں کافی مقبول رہ چکا ہے اور آج بھی اس کے کچھ اثرات بعض مذہبی حلقوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں راقم کی کتاب ’’وحدت الوجود، ایک غیر اسلامی نظریہ‘‘۔
۳ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی (۱۸۲۴۔۱۸۸۳) تھے۔ انھوں نے ۱۸۷۵ء میں اس اصلاحی تحریک کا آغاز کیا تاکہ ہندو سماج کی اصلاح ہو۔ وہ مورتی پوجا کے سخت خلاف تھے اور صرف ویدوں کو الہامی کتاب مانتے تھے۔
۴ مورتیاں دراصل دیوتاؤں کی شبیہیں ہوتی ہیں۔ دیوتا کے معنی زائیدۂ نور کے ہیں اور اس سے مراد نوری مخلوق یعنی فرشتے ہیں۔
۵ الٰہ آباد (یوپی) میں دریائے گنگا کے کنارے مہا کمبھ کا جو میلہ ہوتا ہے اس میں ہندو اسی خیال کے تحت کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
۶ تپسیّا، مراقبہ کی صورت میں ہوتی ہے، اور اس میں مظاہر کی پرستش بھی شامل ہے۔
۷ Francois Bernier ایک فرانسیسی سیاح تھا جو سترہویں صدی میں ہندوستان آیا۔ اس کا سفرنامہ Travels in the Mughal Empire, Archibald Constable London, 1891 A.D کے نام سے چھپ چکا ہے اور ’’وقائع سیر و سیاحت‘‘ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
۸ زبور مکمل طور پر خدائے واحد کی حمد و ستائش پر مشتمل ہے۔
۹ کنز العمال، ج ۴، ص ۷۲۔
۱۰ کنز العمال، ج ۴، ص ۱۱۲۔
۱۱ کنز العمال، ج ۴، ص ۱۱۴۔
۱۲ متی باب ۶: ۶،۷۔
۱۳ تفصیل کے لیے دیکھیں: ہسٹری آف انٹلکچول ڈویلپمنٹ آف یورپ، جان ولیم ڈریپر، ج ۱، ص، ۴۰۵ تا ۴۱۲۔
۱۴ اے شارٹ ہسٹری آف آور ریلیجن، ص ۱۵۷۔
۱۵ متی، باب ۲۲: ۳۶ تا ۴۰)
۱۶ تفصیل کے لیے دیکھیں، لسان العرب، ج۹، ص ۴۲۵۔۴۲۷۔
۱۷ اس لفظ کے مادہ میں خود کو حوالہ کر دینے کا مفہوم غالب ہے اور یہیں سے اس میں اطاعت و فرماں برداری کے معنی پیدا ہوئے۔
______________