HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ

[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


زید مناۃ بن تمیم تمیمی حضرت خباب کے جد امجد تھے۔ان کے دادا کا نام جندلہ بن سعد تھا۔زمانۂ جاہلیت میں ان کے والدارتّ بغداد کے نواحی شہر کسکر میں تھے کہ بنو ربیعہ کے لوگوں نے کسی غارت گری میں انھیں گرفتار کیا اور مکہ لے آئے۔ کسکرایرانی بادشاہ کسکر بن طہمورث کے نام سے موسوم ہے ۔یہ علاقہ سواد کوفہ کے نام سے مشہور ہے اس لیے انھیں سوادی بھی کہا جاتا ہے۔ارتّ کو سباع بن عبدالعزی خزاعی اور حضرت خباب کو اس کی بہن ام انمار خزاعیہ نے غلاموں کے بازار سے خریدا۔ یہ سباع وہی ہے جس نے جنگ احد میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو دعوت مبارزت دی تھی اور مارا گیا تھا۔ عتبہ بن غزوان کے آزادکردہ خباب دوسری شخصیت ہیں جو بنو نوفل بن عبد مناف کے حلیف تھے، انھوں نے بھی جنگ بدر میں حصہ لیا اوعہد فاروقی( ۱۷ھ) میں پچپن سال کی عمرمیں وفات پائی۔

ابو عبداﷲ (یا ابو یحیےٰ) حضرت خباب کی کنیت تھی۔انھیں بنوزہرہ سے بھی منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ سباع بن عبدالعزی نے بنو زہرہ کے عوف بن عبد عوف (عبدالرحمان بن عوف کے والد) کے حلیف ہونے کاپیمان باندھ رکھا تھا۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں، نسب کے اعتبار سے خباب تمیمی ،موالات(آقا و غلام کا رشتہ) کی نسبت سے خزاعی اور حلف کا تعلق رکھنے کی بنا پر زہری تھے۔ حضرت خباب زمانۂ جاہلیت میں تلوار سازی کیا کرتے تھے،انھیں ام انمار نے مکہ کے ایک لوہار کی شاگردی میں دیا پھراس کام کے لیے ایک دکان لے دی۔ حضرت خباب’ السابقون الاولون‘ میں سے تھے، اپنے لڑکپن ہی میں وہ عربوں کی جہالت و ضلالت سے بیزار تھے یہی وجہ ہے کہ ا نھوں نے بعثت محمدی کے بالکل ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کیا۔ دعوت حق قبول کرنے میں ان کا نمبر چھٹا تھا ۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں منتقل نہ ہوئے تھے۔ابن اسحاق اس سے اختلاف کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے، حضرت خباب نے انیس سابقون کے بعد نعمت ایمان پائی اور بیس کا عدد مکمل کیا۔ حضرت ابو سلمہ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت ارقم بن ابوارقم، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت سعید بن زید، حضرت عُبیدہ بن حارث، حضرت نُعیم بن عبد اﷲ، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن جحش، حضرت جعفر بن ابو طالب اور حضرت صُہیب بن سنان نے بھی قریباً اسی زمانے میں اسلام قبول کیا جب حضرت خباب ایمان لائے ۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جن اصحاب نے اپنے اسلام کا اعلان کیا ،ان کے نام یہ ہیں، سیدنا ابوبکر، حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب، حضرت عمار اور سمیہ( ام عمار)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ابوطالب نے، حضرت ابوبکر کا ان کی قوم نے دفاع کیا جب کہ حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب، سمیہ(ام عمار) اور عمار مسضعفین میں سے ہونے کی وجہ سے مشرکوں کی تعذیب کا خصوصی نشانہ بنے ۔انھیں لوہے کی زرہیں پہنا کر تپتی دھوپ میں بٹھا دیا جاتا۔ اسلام لانے کی پاداش میں مشرکین مکہ نے حضرت خباب پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔وہ ان کا بدن ننگا کر کے تپتی زمین اور آگ کی طرح دہکتے ہوئے پتھروں پر لٹا دیتے۔ ان کا سر مروڑ دیتے اور منہ کے بل گھسیٹتے ، وہ ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ بچاتے لیکن مشرکوں کی ایک نہ مانتے،یہی کہتے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔دین حق لے کر آئے ہیں، تاکہ ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جائیں۔ حضرت خباب کہتے ہیں ،ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بیت اﷲ کی دیوار کے سائے میں چادر اوڑھے تشریف فرما تھے ، ہم نے حاضر ہو کر کہا،آپ ہمارے لیے نصرت کی دعا کیوں نہیں مانگتے ؟ آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا ،بیٹھے بیٹھے ارشاد فرمایا،تم سے پہلی امتوں کے اہل ایمان کو گڑھا کھود کر زمین میں گاڑ دیا گیا پھر آرالے کر سر پر چلا دیا گیا لیکن وہ دین متین سے نہ ہٹے۔لوہے کی کنگھیوں سے ہڈیوں تک ان کے گوشت اور اعصاب کو چھیل دیا گیا ،یہ ظلم بھی انھیں راہ حق سے ہٹا نہ سکا۔اﷲ اس کار نبوت کا اتمام ضرور کرے گا حتیٰ کہ ایک سوار یمن کے مرکزی شہر صنعا سے ساحلی علاقے حضرموت تک جائے گا اور اسے اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا۔ہاں اسے بھیڑیوں سے اپنی بکریوں کی حفاظت کرنا ہو گی۔تم ذرا جلد بازی کر رہے ہو۔ مکہ کے عہد ابتلا میں ایک دفعہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت خبب سے ملنے آئے ۔ان کی مالکن ام انمار کو خبر ہوئی تو اس نے تپتا لوہا لے کر ان کے سر پررکھ دیا۔ حضرت خباب نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو شکایت کی توتب آپ نے دعا فرمائی ، اﷲ!خباب کی مدد کر۔ تبھی ام انمار کو شدیدسردرد کی شکایت ہوئی، وہ درد کے مارے تڑپتی۔ اسے گرم لوہے سے سر داغنے کا علاج تجویز کیا گیا تو حضرت خباب ہی گرم لوہے سے اس کا سر داغتے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرم میں تشریف لاتے تو حضرت خباب،عمار، ابوفکیہہ(صفوان بن امیہ کے غلام) اور صہیب جیسے مسکین مسلمان آپ کے پاس آ کر بیٹھ جاتے۔قریش کے متمردین ٹھٹھا کرتے اور کہتے،دیکھو !یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی،یہی ہیں وہ لوگ جنھیں اﷲ نے ہدایت و حق کے لیے ہمارے بیچ میں سے چن لیا ہے۔ اگر اس دعوت میں کوئی بھلائی ہوتی تو ہماری بجائے یہ لوگ اس کی طرف سبقت نہ کرتے۔

قدر احرار عرب نشناختہ

باکلفتان حبش در ساختہ

۳ نبوی میں اﷲ تعالیٰ نے نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جو کار نبوت آپ کو سونپا گیا ہے اسے پکارے لوگوں کے سامنے کہہ دیں۔اس سے قبل جو تین سال گزرے ،آپ صرف بھروسے کے آدمی کو دین کی دعوت دیتے تھے اور صحابہ مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ایک بارحضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عمار بن یاسر، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت خباب بن ا رت اور حضرت سعید بن زید ایک گھاٹی میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ایک گروہ مشرکین آ دھمکا، ابوسفیان اور اخنس بن شریق بھی اس میں شامل تھے۔مشرکوں نے مسلمانوں کو گالیاں دیں، برا بھلا کہا حتیٰ کہ جھگڑنے لگ گئے۔قریب ہی اونٹ کی ران کی ہڈی پڑی تھی، سعد نے پکڑ کر ایک مشرک کے دے ماری۔اس کا سر پھٹ گیا ، کہا جاتا ہے ،یہ تاریخ اسلام میں بہائے جانے والا پہلا خون تھا۔

حضرت خباب کہتے ہیں ،میں نے مشرکوں کے سردارعاص بن وائل کو تلوار بنا کر دی ،اس کی اجرت لینے گیاتو اس نے کہا، میں تلوار کی قیمت تب تک ادا نہ کروں گا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار نہ کرے گا۔میں نے کہا، میں ان کاانکار اس وقت تک نہ کروں گا جب تک تو مر نہ جائے اور تمہارا حشر نہ ہو جائے۔ کہنے لگا،کیا میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے کھڑا کر دیا جاؤں گا؟تمھارے صاحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے دین کے تم پیرو ہو، دعویٰ کرتے ہیں کہ جنت جانے والے سونا ، چاندی، لباس ،خدم و حشم جو چاہیں گے ،ملے گا؟ حضرت خباب نے کہا، ہاں!عاص نے کہا، تب تومجھے روز قیامت تک مہلت دو ،میں جنت میں جا کر تمہارا حق دے دوں گا۔ خباب!بخدا،تم اور تمھارے صاحب وہاں بھی اﷲ کے نزدیک مجھ سے زیادہ بااثر اور صاحب قسمت نہ ہوں گے۔ اس موقع پر سورۂ مریم کی یہ آ یات نازل ہوئیں۔

اَفَرَءَ ےْتَ الّذِیْ کَفَرَ بِآےَاتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَےَنَّ مَالاً وَ وَلَداً. اَطَّلَعَ الْغَےْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْداً . کَلَّا سَنَکْتُبُ مَا ےَقُوْلُ وَنَمُدُّ لَہ‘مِنَ الْعَذَابِ مَدّاً. وَّ نّرِثُہ‘ مَا یّقُوْلُ وَےَاْتِےْنَا فَرْداً. (بخاری:۲۲۷۵) ’’بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا،(اگر میں دوبارہ زندہ ہوا تو بھی) یہی مال و اولاد مجھے (وہاں) ملے گا؟کیا اس نے غیب کی خبر پا لی ہے یا خدائے رحمان کے یہاں سے عہد لے لیا ہے ؟ ہر گز نہیں ،یہ جو کچھ کہہ رہا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور اس کا عذاب بڑھاتے جائیں گے۔ (اپنے مال و اولاد کے بارے میں )جو یہ حق جتلا رہا ہے ہم ہی ان کے وارث ہوں گے اور یہ اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔‘‘

حضرت خباب بن ارت نے قرآن مجیدکا، تب تک نازل ہونے والا حصہ خوب حفظ کر لیا تھا ،وہ اس کے معانی و معارف سے بھی خوب آگاہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ نئے دین حق میں شامل ہونے والوں کو اس کی تعلیم دیا کرتے۔ حضرت عمر بن خطاب اس وقت تک دشمنان اسلام کی صفوں میں تھے۔ ان کی بہن فاطمہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت خباب انھیں قرآن پڑھانے جاتے۔ فاطمہ، سعید بن زید سے بیاہی ہوئی تھیں ۔ایک روز جب رسول اکرم اور صحابہ دارارقم میں جمع تھے، سیدنا عمر ان سب کو ختم کرنے کے ارادہ سے گلے میں تلوار لٹکا کر نکلے ۔راستے میں حضرت نُعیم بن عبداﷲ سے ملاقات ہوئی ۔انھوں نے کہا،کہاں جاتے ہو؟اپنے گھر والوں کی خبر تو لو ،تمھاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید مسلمان ہو چکے ہیں۔ سیدنا عمر پلٹے ،اپنی بہن کے گھر پہنچے جہاں حضرت خباب بن ارت میاں بیوی کو قرآن پاک کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر کے قدموں کی آہٹ سن کر حضرت خباب چھپ گئے۔فاطمہ نے قرآن کے اوراق چھپا لیے لیکن سیدنا عمر نے جو حضرت خباب کی آواز سن چکے تھے پوچھا ، یہ کیا سرگوشیاں ہو رہی تھیں؟ انھوں نے پوچھا ،کیا آپ نے ہمیں کچھ پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہو چکے ہیں اور قرآن پڑھ رہے تھے۔ سیدنا عمر نے پہلے تو اپنے بہنوئی کا گریبان پکڑا اور بہن کا سر پھاڑا پھر نادم ہو کر کہا، مجھے وہ صحیفہ تو دو ،میں بھی دیکھوں ، محمد سلی اللہ علیہ وسلم کس بات کی تعلیم دیتے ہیں؟بہن کے کہنے پرانھوں نے غسل کیا اور اوراق وحی پر درج سورۂ طٰہٰ پڑھنی شروع کر دی۔ جوں جوں پڑھتے گئے توں توں ان کی دنیا بدلتی گئی اور وہ آمادہ بہ ایمان ہو گئے۔ حضرت خباب جو چھپے ہوئے تھے ،باہر نکل آئے اور کہا، عمر!مجھے پوری امید ہے کہ اﷲ نے تمھیں اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا قبول کرتے ہوئے دین اسلام کے لیے چن لیا ہے۔کل جمعرات کی شب ہی آپ دعا فرما رہے تھے ، اﷲ! عمر بن خطاب یا ابو الحکم بن ہشام(ابوجہل)کے ذریعے اسلام کو مضبوط کر۔ سیدنا عمر نے کہا، خباب مجھے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ تب حضرت خباب انھیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس دارارقم لے گئے اور وہ نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کوہجرت کا اذن دیا تو حضرت خباب بھی مہاجرین کی صف میں شامل ہو گئے۔وہ مسطح بن اثاثہ اور بنو مطلب بن عبد مناف کے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے اور بنومسجلان کے ہاں قبا میں قیام کیا۔پھر وہ کلثوم بن ہدم کے مہمان ہوئے اور جنگ بدر سے کچھ پہلے ان کی وفات تک وہیں مقیم رہے ۔کلثوم ہجرت نبوی سے قبل ایمان لا چکے تھے ،انھیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ،ابوعبیدہ بن جراح ،مقداد بن اسود اور کچھ دوسرے صحابہ کی مہمانی کا شرف بھی حاصل ہوا۔کلثوم کے بعد خباب اور مقداد، سعد بن عبادہ کے ہاں منتقل ہو گئے اور بنوقریظہ کی فتح تک انھی کے ہاں رہے۔ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبربن عتیک یا خراش بن صمہ کے آزادکردہ تمیم کے ساتھ حضرت خباب کی مواخات قائم فرمائی۔

حضرت خباب نے جنگ بدر اور تمام معرکوں میں حصہ لیا۔جنگ احد میں ان کی آنکھوں کے سامنے سباع بن عبدالعزی جہنم واصل ہواجو ان کی مالکن ام انمار کا بھائی تھا۔اسے سید الشہدا حمزہ نے انجام تک پہنچایا۔ حضرت خباب کی بیٹی روایت کرتی ہیں،حضرت خباب ایک سریہ میں گئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے گھر آتے اور ہماری ضروریات کا خیال رکھتے حتیٰ کہ بکری کا دودھ بھی دوہ دیتے۔ ہمارا برتن لبا لب بھر جاتا اور دودھ بہنے کو ہوتا۔حضرت خباب لوٹے اوردودھ دوہا تو وہ کم ہو کر پہلے جتنا ہو گیا۔

حضرت خباب کہتے ہیں ،ہم رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور شکایت کی ،ہمیں سخت گرمی میں ظہر کی نماز پڑھنا پڑتی ہے(لہذا ظہر کا وقت کچھ مؤخر کر دیا جائے)۔آپنے نمازکو تاخیر سے پڑھنا منظور نہ فرمایا۔ شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں،شاید حضرت خباب ظہر کو(پہلے سے حاصل تاخیر کی سہولت سے ) مزید مؤخر کرواناچاہتے تھے اس لیے آپنے اجازت عطا نہ فرمائی۔مزید کہتے ہیں،یہ بات نہ ہو تو بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد ’’اذا اشتد الحر فابردوا بالصلاۃ فان شدۃ الحر من فیح جہنم۔ جب گرمی کی شدت زیادہ ہو جائے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں ادا کرو کیونکہ گرمی کی سختی دوزخ کے سانس کی مانند ہے نے آپ کے ظہر اول وقت ہی میں ادا کرنے اورتاخیر کی اجازت نہ دینے کے اس فرمان کو منسوخ کر دیا۔ حضرت خباب کا واقعہ پہلے وقوع پذیر ہوا اور ’ابراد بالظہر‘ (ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھنا) کا حکم بعد میں صادر ہوا۔

حضرت خباب بن ارت بیان کرتے ہیں،آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے (ایک بار) عشاء کی نماز خوب طویل پڑھائی،لگتا تھا رات اسی میں بیت جائے گی ۔صحابہ نے کہا،یا رسول اﷲ! آپنے (پہلے) ایسی نماز نہ پڑھائی تھی؟ جواب فرمایا،ہاں!یہ انابت و خشیت کی نماز تھی۔میں نے اس میں اﷲ سے تین التجائیں کیں۔ اس نے دو مان لیں اور ایک سے منع کر دیا۔میں نے دعا مانگی کہ میری امت قحط سے ہلاک نہ ہو،اﷲ نے قبول کر لی۔میں نے سوال کیا، مسلمانوں پر کوئی دوسرا دشمن مسلط نہ ہو جائے،اﷲ نے مان لیا۔میں نے التجا کی کہ اہل اسلام فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر جبر و تشدد نہ کرنے لگیں ،اﷲ نے اس سے منع کر دیا۔

ایک باربنو تمیم کے سردار اقرع بن حابس اوربنو فزارہ کے لیڈرعیینہ بن حصن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئے ۔حضرت صہیب،حضرت بلال،حضرت عمار،حضرت خباب اور کچھ دوسرے غریب و مسکین اہل ایمان آپ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔انھوں نے ان غرباء کو نظر حقارت سے دیکھا اور آپکو الگ لے جا کر کہا،ہم چاہتے ہیں، آپ ہمارے لیے ایسی نشست ترتیب دیں جس سے عربوں کوہماری فضیلت کا احساس ہو۔ آپکے پاس عربوں کے وفد آ رہے ہیں، ہم نہیں چاہتے ، وہ لوگ ہمیں ان غلاموں کی معیت میں دیکھیں۔ہم آئیں تو آپ ان کے پاس سے اٹھ جائیں اور جب ہم فارغ ہوجائیں تو آپ چاہیں تو ان کے پاس بیٹھ جائیں۔آپ نے اس وقت ہامی بھر لی تو ان لوگوں نے تحریر کرنے کوکہا۔آپ نے کاغذ منگوا کر علی کو لکھنے کا کہا۔اسی دوران میں جبریل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہو گئے،

وَلَاتَطْرُدِ الَّذِےْنَ ےَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدّوٰۃِ وَ الْعّشِیِّ ےُرِیدُوْنَ وَجْہَہُ،مَا عَلےْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَےْہِمْ مِنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِےْنَ.(سورۂ انعام:۵۲)’’(اے نبی!)ان لوگوں کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کی خوشنودی چاہنے کے لیے صبح و شام اسے پکارتے ہیں۔ان کے اعمال کے حساب میں سے آپپر کچھ عائد نہیں ہوتا اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے حساب کی ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ایسا نہ ہو کہ ان کو دھتکار کر آپ ظالموں میں سے ہو جائیں۔ ‘‘

حضرت خباب کہتے ہیں ، اس کے بعد ہم آپ کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر بیٹھتے ۔آپ خود تشریف لے جاتے تو ہم آتے۔

علقمہ روایت کرتے ہیں،ہم عبداﷲ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خباب بن ارت آئے اور کہا، اے ابو عبدالرحمان(ابن مسعود کی کنیت)! کیایہ نوجوان بھی ویسی تلاوت کر سکتے ہیں جیسی آپ کرتے ہیں۔انھوں نے کہا، آپ چاہیں تو ان میں سے کسی کو تلاوت کرنے کو کہہ سکتے ہیں ۔تب حضرت خباب نے کہا، علقمہ !تم تلاوت کرو۔علقمہ کہتے ہیں، میں نے سورۂ مریم کی پچاس آیتیں تلاوت کیں۔عبداﷲ بن مسعود نے حضرت خباب سے پوچھا، کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا،خوب تلاوت کی ہے۔حضرت خباب کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی،عبداﷲ نے کہا، کیا اس انگوٹھی کے پھینکنے کا وقت نہیں آیا؟حضرت خباب نے کہا،آج کے بعد آپ میرے ہاتھ پر اسے نہ دیکھیں گے۔

ایک دفعہ حضرت خباب بن ارت عبداﷲ بن عمر کے پاس گئے اور پوچھا ،کیا آپ نے ابوہریرہ کی روایت سنی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ،جو مسلمان اپنے گھر سے کسی جنازے کے ساتھ نکلا ،نماز جنازہ پڑھنے کے بعدمیت کے ساتھ گیا اور تدفین تک اس کے ساتھ رہا،اسے دو قیراط سونے جتنا اجر ملے گا،ہر قیراط احد پہاڑ جتنا ہو گا۔جو شخص نمازجنازہ پڑھنے کے بعد لوٹ آیا،اسے احد پہاڑ سونے جتنا اجر (یعنی ایک قیراط)ملے گا۔عبداﷲ بن عمر نے حضرت خباب کو سیدہ عائشہ کی طرف بھیج دیا کہ ان سے حدیث کی بابت پوچھ کر مجھے بھی بتائیں۔وہ گئے تو مسجد کے اندر سے کنکریوں کی مٹھی بھر لی اور (بے کلی سے) اسے الٹنے پلٹنے لگے۔ حضرت خباب لوٹے اور بتایا، سیدہ عائشہ نے بتایا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ کا کہنا سچ ہے۔عبداﷲ نے ہاتھ سے کنکریاں پھینک دیں ااور(حسرت سے ) کہا،ہم نے بے شمار قیراطوں کی کوتاہی کر ڈالی ۔(یعنی کئی جنازوں میں شرکت نہ کرکے اس ثواب سے محروم رہ گئے)

عہد فاروقی میں جب کوفہ کی بنا پڑی،دوسرے صحابہ کی طرح حضرت خباب کو بھی ایک قطعۂ زمین ملا اور وہ وہاں مقیم ہو گئے۔ کہا جاتا ہے ،کوفہ کی پہلی اینٹ حضرت خباب بن ارت اور حضرت عبداﷲ بن مسعود نے لگائی۔شعبی بیان کرتے ہیں،ایک بار حضرت خباب سیدنا عمر سے ملنے آئے ،عمر نے ان کو اپنا تکیہ دے کر بٹھایا اور کہا،روئے زمین پر ایک ہی شخص اس نشست کا حق دار ہے۔حضرت خباب نے پوچھا ،امیر المومنین! کون؟ جواب دیا، بلال۔حضرت خباب نے کہا، یا امیر المومنین!وہ مجھ سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔ کچھ لوگ تھے جنھوں نے اﷲ کی توفیق سے حضرت بلال کو مشرکین مکہ سے بچا لیا۔میرا تودفاع کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ایک روز مشرکوں نے مجھے پکڑا اور آگ لگا کر اس میں جھلسانے اور گھسیٹنے لگے۔ ایک کافر نے اپنا پاؤں میرے سینے پر رکھ دیا ،جلتی زمین پر کمر ٹکانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔میری کمر کی چربی نے پگھل کر اس آگ کو ٹھنڈا کیا۔ حضرت خباب نے کپڑا ہٹا کر اپنی کمر دکھائی جو جلنے سے رنگت کھو بیٹھی تھی اور نمایاں سفید داغ اس میں نظرآ رہے تھے۔ ابو لیلیٰ کندی کی روایت میں بعینہٖ یہی واقعہ بلال کی بجائے عمار بن یاسر کے ذکر سے بیان ہوا ہے۔

ابو خالد کہتے ہیں ،ہم لوگ مسجد میں تھے کہ حضرت خباب آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔لوگوں نے کہا،ہم آپ سے ملنے آئے ہیں۔ہمیں کچھ بتائیں یا نصیحت کریں۔انھوں نے کہا، میں تمھیں کیا مشورہ دوں اور کیسے وہ کچھ کرنے کو کہوں جو میں خود نہیں کرتا؟

حضرت خباب بن ارتّ کی وفات ۳۷ھ میں ۶۳(یا۷۳) برس کی عمر میں ہوئی۔ایک روایت کے مطابق انھوں نے جنگ صِفِین اور جنگ نہروان میں حضرت علی کا ساتھ دیا اور ۳۹ھ میں جنگ صِفِین میں شہید ہوئے ۔ ان کا جنازہ حضرت علی نے پڑھایا۔لیکن مشہور یہی ہے کہ وہ شدید بیمارپڑے اور حضرت علی کے کوفہ آنے سے پہلے ہی وفات پاگئے۔حارثہ بن مضرب،قیس بن ابو حازم اور کچھ اور علما حضرت خباب کی عیادت کرنے آئے اور کہا، ابوعبداﷲ! بشارت ہو ،آپ کے بھائی ہیں جن سے کل آپ حوض کوثرپر ملاقات کریں گے۔

غداًتلقی الاحبۃمحمداً و حزبہ
(کل تم دوستوں سے ملو گے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے)

حضرت خباب رونے لگے اور کہا،مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں لیکن جن لوگوں کا تم نے ذکر کر کے انھیں میرے بھائی قرار دیا ہے وہ چلے گئے اوردنیا سے کچھ حاصل نہ کیا۔ ہمارے لیے تو اس دنیا کے ثمرات خوب پکے اور ہم نے ان سے حظ اٹھایا۔ ان کے پیٹ پر(اس زمانے کے طریقۂ علاج کے مطابق آگ سے) سات داغ لگائے جا چکے تھے۔ کہا، ہمارے وہ ساتھی جو گزر چکے ہیں ، اس حال میں گئے کہ دنیا انھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکی(یعنی ان کا اجر آخرت کم نہ کر سکی)۔ ہمیں جو مال ملا،اسے انفاق کرنے کے لیے کوئی انسان نہیں ملتا ،مٹی ہی رہ گئی ہے جس پر یہ خرچ کیا جا سکتا ہے(یعنی تعمیرات کی جاسکتی ہیں)۔ (حضرت خباب نے جو بیماری سے سخت تنگ آئے ہوئے تھے،مزید کہا) اگر ہمیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرورمرنے کی دعا مانگتا۔راوئ حدیث قیس کہتے ہیں،ایک بار پھرہم ان سے ملنے گئے ،وہ اپنے گھر کی دیوار تعمیر کر رہے تھے ۔فرمایا،مسلمان کوہر مال میں اجر ملتا ہے جو وہ خرچ کرتا ہے مگر اس میں نہیں جو وہ (بلاوجہ) مٹی پر لگا دیتا ہے۔

حضرت خباب کو ان کا مصر کا بنا ہواقباطی کفن دکھایا گیاتو وہ رو پڑے اور کہنے لگے ، ’’ہم نے اﷲ کی رضا جوئی کے لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تو ہمارا اجر اﷲ کے ذمے ہو گیا ۔ہمارے ساتھیوں میں سے کچھ تھے جو فوت ہوئے اور اپنے اجر میں سے کچھ نہ کھا سکے (یعنی زمانۂ فتوحات پایا نہ مال غنیمت حاصل کر سکے) ۔ ان میں سے ایک مصعب بن عمیرتھے جو جنگ احد میں شہید ہوئے ،انھیں کفنانے کے لیے ہمیں ایک ہی دھاری دار چادر ملی۔ سرڈھانکتے تو پاؤں باہر نکل آتے ،جب پاؤں ڈھانپتے ،سر کفن سے باہر ہو جاتا۔آخر کار نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر کفن کے اندر کردیں اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دیں۔کچھ ساتھی تھے جن کے پھل پک گئے ، انھوں نے توڑے (اور کھائے یعنی غنائم حاصل کیں)۔‘‘

ابن حجرکہتے ہیں،ابوذرغفاری ان صحابہ کی مثال ہیں جو غنائم حاصل کرنے کے باوجود پہلی حالت فقر پر قائم رہے۔دوسری قسم ان جاں نثاران رسول کی ہے جنہوں نے مال غتیمت کو اپنا لباس اور رہن سہن بہتر کرنے میں صرف کیا،عبداﷲبن عمراس زمرہ میں آتے ہیں۔ عبدالرحمان بن عوف ان اصحاب کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے اموال غنیمت کاروبار میں لگا کر مزید دولت کمائی اور پھر دل کھول کر انفاق کیا۔ حضرت خباب کا اشارہ دوسری اور تیسری قسم کے صحابہ کی طرف ہے۔

ترمذی کی روایت اس طرح ہے،حضرت حارثہ بن مضرب حضرت خباب بن ارت کی عیادت کے لیے آئے، ان کے پیٹ پر آگ سے داغ لگے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا،مجھے علم نہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی پر (دولت کی) وہ آزمائش آئی ہے جس کا مجھے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عہد نبوی میں میرے پاس ایک درہم نہ ہوتا تھا اور اب میرے اس گھر کے کونے میں ایک صندوق (تابوت) پڑا ہے جس میں چالیس ہزارکھرے دینار پڑے ہیں۔ حضرت خباب نے اس صندوق پر کوئی تالا لگایا نہ کسی سوالی کو جواب دیا پھر بھی اس قدرخشیت طاری تھی کہ کہا، مجھے خوف ہے کہ ہماری نعمتیں (طیبات) ہمیں دنیا کی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں۔ ان کا اشارہ اس فرمان خداوندی کی طرف تھا کہ روز قیامت کفار کو جہنم میں ڈالنے سے پہلے کہا جائے گا،

اَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِی حَےَاتِکُمُ الدُّنْےَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا،فَالْےَومَ تُجْزَوْنَ عَذَابّ الْہُونِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ بِغَےْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ. (سورۂ احقاف: ۲۰)’’تم اپنی دنیاوی زندگی میں لذتیں حاصل کر چکے اور ان سے لطف اندوز ہو چکے ہو۔آج تمھیں عذاب ذلت کابدلہ دیا جائے گا کیونکہ تم زمین میں ناحق اکڑا کرتے اور فسق و فجور کیا کرتے تھے۔‘‘

حضرت علی کوفہ پہنچے توشہر سے باہر سات (یاآٹھ)قبریں دیکھیں ، پوچھا ،یہ کس کی ہیں؟انھیں بتایاگیا ،آپ کے جانے کے بعد حضرت خباب نے وفات پائی اور وصیت کی کہ انھیں کوفہ کے باہر دفنایا جائے۔ پہلی قبر ان کی ہے ،باقی لوگوں کی تدفین بعد میں ہوئی۔ سیدنا علی نے ان کے لیے دعا کی،اﷲ خباب پر رحم کرے،انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، خوش دلی سے ہجرت کی ، جہاد کرتے ہوئے زندگی بسر کی اور کئی جسمانی تکلیفیں اٹھائیں۔اﷲ نیک عمل کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہ کرے گا۔پھر فرمایا، اے دیار خموشاں کے رہنے والو اور ویران جگہ بسنے والے اہل ایمان اور مسلمان مرد عورتو! السلام علیکم، تم ہم سے پہلے آگے جا چکے ہو ۔ہم تمھارے پیچھے پیچھے ،جلد تم سے آملنے والے ہیں۔ اے اﷲ! ہماری اور ان کی مغفرت کر ، اپنا عفو کر کے ہم سے اور ان سے درگزر کر۔ خوش ہو وہ شخص جس نے آخرت کو یاد رکھا،روز حساب کے لیے عمل کیا اور تھوڑی روزی پر قناعت کر لی۔

حضرت خباب نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی۔مکررات کو شامل کر کے بتیس احادیث ان سے مروی ہیں،ان میں سے دو بخاری میں اور ایک مسلم میں ہے۔ ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں،ان کے بیٹے عبداﷲ بن خباب، ابو امامہ،شقیق بن سلمہ(ابو وائل)،عبداﷲ بن ابوہذیل،عبداﷲ بن سخبرہ (ابومعمر)، ابومیسرہ،قیس بن ابو حازم ،مسروق،حارثہ بن مضرب،علقمہ بن قیس ،شعبی اورعمرو بن شرحبیل۔ ابو معمر (عبداﷲبن سخبرہ)کہتے ہیں، ہم نے خباب سے پوچھا،کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ظہر و عصر کی نمازوں میں تلاوت کیا کرتے تھے؟انھوں نے کہا، ہاں۔ پوچھا ، آپ کو کیسے پتا چلتا تھا؟ بتایا،آپ کی ریش مبارک کے ہلنے سے۔

حضرت خباب کے بیٹے عبداﷲ کوحضرت علی کے عہد خلافت میں خوارج نے قتل کر دیا۔خوارج ان کے قصبے میں آئے تووہ خوف زدہ ہوکر باہرنکلے۔ خوارج نے کہا، اپنے باپ کی روایت کردہ کوئی حدیث سناؤ۔عبداﷲ نے یہ ارشاد نبوی سنایا،’’ ایک فتنہ ایسا آئے جس میں بیٹھا ہو ا کھڑے ہوئے سے بہتر ہو گا،کھڑا ہوا چلنے والے سے بہتر ہو گااور چلنے والا دوڑنے والے کے بہ نسبت بہتر ہوگا۔ ‘‘ خوارج نے کہا، تم نے یہ زمانہ پا لیا ہے ،اب عبداﷲ مقتول بن جاؤ۔یہ کہہ کر انھیں دریا کنارے لے گئے اور گردن اڑا دی۔

مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم )،المسند الصحیح المختصر من السنن (مسلم،شرکۃ دار الارقم)، السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک (طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ(ابن اثیر )،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،سیراعلام النبلاء (ذہبی)، کتاب العبر ودیوان المبتدا والخبر(ابن خلدون)، البدایہ و النہایہ (ابن کثیر)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)، فتح الباری(ابن حجر)،صور من حیاۃ الصحابہ(عبدالرحمان رافت پاشا)

_____________

B