یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ{۲۹} وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْیَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ{۳۰}
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ{۳۱} وَاِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ{۳۲} وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ{۳۳} وَمَالَھُمْ اَلَّا یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ وَھُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَاکَانُوْٓا اَوْلِیَآئَ ہٗ اِنْ اَوْلِیَآؤُہٓٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ ھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ{۳۴} وَمَاکَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّتَصْدِیَۃً فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَاکُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ{۳۵}
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَسَیُنْفِقُوْنَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْھِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ{۳۶} لِیَمِیْزَاللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْکُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَھَنَّمَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ{۳۷}
قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْلَھُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ وَاِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ{۳۸} وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْافَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ{۳۹} وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَوْلٰکُمْ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ{۴۰}
ایمان والو، اگر تم خدا سے ڈرتے رہے۵۳؎ تو وہ تمھارے لیے فرقان نمایاں کرے گا ۵۴؎اور تمھارے گناہ تم سے جھاڑ دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا۵۵؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ بڑے فضل والا ہے۔ اُس وقت کو یاد رکھو، (اے پیغمبر)، جب منکرین تمھارے معاملے میں سازش کر رہے تھے کہ تمھیں قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا (ملک سے) نکال دیں۵۶؎۔ وہ یہ سازش کر رہے تھے اور اللہ بھی اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے۵۷؎۔۲۹-۳۰
(یہ وہی لوگ ہیں کہ) جب اِن کو ہماری آیتیں سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا ہی کلام پیش کردیں۔ یہ تو وہی اگلوں کی کہانیاں ہیں۔ اور یاد کرو، جب اِنھوں نے کہا تھا کہ خدایا،اگر تیرے پاس سے یہی حق (نازل ہوا) ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔ اللہ (اُس وقت تو) اِن کو عذاب دینے والا نہیں تھا، جبکہ تم اِن کے درمیان موجود تھے اور نہ (اُس وقت) عذاب دینے والا ہو سکتا ہے، جبکہ یہ مغفرت چاہ رہے ہوں۵۸؎۔ لیکن اب اِن میں کیا ہے کہ اللہ اِنھیں عذاب نہ دے، جبکہ یہ مسجد حرام سے روک رہے ہیں۵۹؎، دراں حالیکہ یہ اُس کے جائز متولی نہیں ہیں۔ اُس کے جائز متولی تو صرف خدا سے ڈرنے والے ہو سکتے ہیں۶۰؎۔ ہاں، مگر اِن میں سے اکثر اِس بات کو نہیں جانتے۶۱؎۔ (یہ اپنی نمازوں کے زعم میں نہ رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) بیت اللہ کے سامنے اِن کی نماز سیٹی بجانے اور تالی پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہے۶۲؎۔لو اب چکھو (میرے) عذاب کا مزہ اُس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۶۳؎۔ ۳۱-۳۵
جن لوگوں نے کفر کا یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ اپنے مال خدا کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں۶۴؎۔ وہ آگے بھی خرچ کرتے رہیں گے، پھر یہ اُن کے لیے حسرت بن جائے گا، پھر مغلوب ہوں گے اور سب منکروں کو جمع کرکے جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا۔۶۵؎ اِس لیے کہ (اپنی جنت کے لیے) اللہ پاک سے ناپاک کو الگ کرے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر ڈھیر کرے،پھر اِس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے۶۶؎۔(حقیقت یہ ہے کہ) یہی لوگ نامراد ہونے والے ہیں۔۳۶-۳۷
اِن منکروں سے کہہ دو ، (اے پیغمبر) کہ اگر یہ باز آجائیں ۶۷؎توجو کچھ ہو چکا ہے، وہ اِنھیں معاف کر دیا جائے گا۔ اور اگر یہ پھر وہی کریں گے تو خدا کی سنت اگلوں کے معاملے میں گزر چکی ہے۶۸؎۔(ایمان والو)، تم اِن سے برابر جنگ کیے جائو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۶۹؎ اوردین سب اللہ کے لیے ہو جائے۷۰؎۔ سو اگر یہ باز آجائیں تو جو کچھ کریں گے، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۷۱؎۔ اور اگر منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ تمھارا مولیٰ ہے ۔ کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار۔۳۸-۴۰
۵۳؎ یعنی اللہ و رسول سے بد عہدی کے مرتکب نہ ہوئے اور پیچھے جو ہدایات دی گئی ہیں، اُن پر خدا سے ڈرتے ہوئے عمل کرتے رہے۔
۵۴؎ فرقان اُس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل کے درمیان امتیاز کردے۔ آگے آیت ۴۱ میں غزوۂ بدر کو اِسی بنا پر فرقان سے تعبیر فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ عنقریب ایسے حالات پیدا کر دے گا جنھیں دیکھ کر اندھے بھی یقین کر لیں گے کہ آفتاب حق اپنی تمام تابانیوں کے ساتھ طلوع ہو چکا ہے اور کسی تذبذب کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہی۔
۵۵؎ یعنی آگے تقویٰ پر مضبوطی سے جمے رہو گے تو اِس وقت اگر کوتاہیاں ہوئی بھی ہیں تو اللہ معاف کر دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا۔
۵۶؎ یہ دارالندوہ کی اُس مشاورت کی طرف اشارہ ہے جس میں قریش کے لیڈروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں آخری فیصلہ کرنے کے لیے مختلف تجویزیں پیش کی تھیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر قتل کی تجویز پر اتفاق ہو گیا تھا اور اِس کی تدبیر یہ سوچی گئی تھی کہ قریش کے تمام خاندان اِس میں شریک ہوں گے۔ یہاں یہ واقعہ اُس وعدۂ فرقان کو موکد کرنے کے لیے یاددلایا گیا ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اِس کی تفصیلات حدیث و سیرت کی کتابوں میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ اِس میں سازش کا پہلو یہ تھا کہ جب سب خاندانوں کے لوگ مل کر قتل کا اقدام کریں گے تو آپ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے اِس کے نتیجے میں ممکن نہیں رہے گا کہ سب سے لڑ سکیں، اِس لیے مجبوراً خون بہا قبول کرلینے کے لیے راضی ہو جائیں گے۔*
۵۷؎ مدعا یہ ہے کہ اُس پروردگار پر بھروسا رکھو جس نے قریش کے لیڈروں کی طرف سے اِس فیصلے کے بعد ایسی تدبیر فرمائی کہ پیغمبر اپنے خونی دشمنوں کی آنکھوں میں خاک جھونک کر صاف نکل گئے، راستے میں تعاقب کرنے والوں کو بھی منہ کی کھانی پڑی اور مسلمانوں کو وہ دارالہجرت بھی میسرہو گیا جس نے جزیرہ نماے عرب میں اسلام کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اسلام کے پودے کی نشوونما کے لیے سب سے زیادہ زرخیز اور مہرپرور سرزمین یثرب ہی کی سرزمین تھی جس کی طرف کفار نے خود اسلام کو دھکیل کر بھیجا۔ خدا اپنی اسکیمیں اِسی طرح بروے کار لاتا ہے۔ دشمن سمجھتاہے کہ بازی اُس نے جیتی، لیکن حقیقت میں دائوں خدا کا کامیاب ہوتا ہے۔ وہ حق کے دشمنوں ہی کے ہاتھوں جب چاہتا ہے، وہ کام کرا دیتا ہے جس میں حق کی فتح مندی اور خود دشمن کی موت مضمر ہوتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۶۷)
۵۸؎ قریش کے لیڈروں کی طرف سے پیہم مطالبۂ عذاب کے باوجود اللہ نے اُنھیں ڈھیل کیوں دی؟ یہ اِس سوال کا جواب دیا ہے۔ فرمایا کہ عذاب کے معاملے میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب تک اصلاح کی دعوت قبول کرکے خدا سے مغفرت چاہنے والے قوم کے اندر سے نکلتے رہتے ہیں اور جب تک پیغمبر اُن کے درمیان موجود ہوتا ہے، اُنھیں چھوڑ کر نکل نہیں جاتا، اللہ اتمام حجت کے باوجود اُن پر وہ فیصلہ کن عذاب نازل نہیں کرتا جو رسولوں کی قوموں پر نازل کیا جاتا ہے اور جس کا مطالبہ قریش کر رہے تھے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو یہ دعوت بھی ہے کہ یہ لوگ اگر اب بھی اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہو جائیں اور خدا سے معافی مانگ لیں تو اِس عذاب سے بچ سکتے ہیں۔
۵۹؎ مطلب یہ ہے کہ عذاب میں تاخیر سے یہ اِس غلط فہمی میںمبتلا نہ ہوں کہ یہ عذاب کے مستحق نہیں ہیں۔ اِن کے جرائم پہلے بھی کم نہیں تھے، لیکن اب تو یہ اِس سرکشی پر اتر آئے ہیں کہ اُن لوگوں کو جو خالص خدا کی عبادت کرنے والے اور اصل دین ابراہیمی کے علم بردار ہیں، اُس عبادت گاہ میں آنے سے روک رہے ہیں جو خالص خدا ہی کی عبادت کے لیے اور ابراہیم علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے تعمیر کی گئی تھی۔
۶۰؎ بیت اللہ توحید کے مرکز کی حیثیت سے بنایا گیا تھا۔ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام اِس کے پہلے متولی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی منصب کی رعایت سے سیدنا ابراہیم کو لوگوں کا امام قرار دیا تھا۔ سورۂ بقرہ میں بیان ہوا ہے کہ یہ امامت اُنھیں عطا کی گئی تو اُنھوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ کیا یہ منصب میری ذریت کو بھی حاصل رہے گا؟ جواب میں ارشاد ہوا کہ ’
لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ‘، میرا یہ عہد تمھاری ذریت کے صالحین کے لیے ہے، اِس کا ظالموں سے کوئی تعلق نہیں ہے**۔یہ اُسی کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اِس گھر کی تولیت کا دعویٰ اِن مشرکوں کو زیب نہیں دیتا۔ اِس کے متولی تو وہی ہو سکتے ہیں جو اللہ کی توحید پر قائم رہنے والے اور اُس کے عہد و میثاق کی پابندی کرنے والے ہوں۔ ملت ابراہیم سے انحراف اور بیت اللہ الحرام کو بتوں کی نجاست سے آلودہ کر دینے کے بعد اب یہ کسی لحاظ سے بھی اُس کے جائز متولی نہیں رہے۔
۶۱؎ یہ اُس عام جہالت اور بے خبری کی طرف اشارہ ہے جس میں بنی اسمٰعیل کی اکثریت اُس زمانے میں مبتلا تھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ ایک طویل مدت تک جاہلیت کی تاریکی میں زندگی گزارنے کی وجہ سے وہ اپنی اصل تاریخ بالکل بھلا بیٹھے تھے۔ اُنھیں قومی تفاخر کے طور پر اتنی بات تو یاد رہی کہ وہ حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی اولاد ہیں، لیکن اِس سے آگے اُنھیں کچھ خبر نہیں تھی کہ حضرت ابراہیم اِس سرزمین پر کیوں تشریف لائے، اُن کی دعوت کیا تھی، وہ جس ملت کے داعی ہوئے، اُس کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں، حضرت اسمٰعیل کو اُنھوں نے یہاں کیوں بسایا، خانہ کعبہ کی تعمیر کس مقصد کے لیے ہوئی اور اِس گھر کے تعلق سے ذریت اسمٰعیل کو اللہ کے دین کی کیا کیا امانتیں اور کیا ذمہ داریاں سپرد ہوئیں۔ چند معاشرتی رسوم اور حج کے کچھ مناسک جو حضرت ابراہیم کے وقت سے چلے آرہے تھے، اُن میں بھی اتنی تبدیلیاں ہو گئی تھیں کہ اصلی اور ملاوٹ میں امتیاز مشکل ہو گیا تھا۔ خانہ کعبہ کو اُنھوں نے اپنا قومی معبد بنا لیا تھا جس کی کلید برداری اور اُس کے مختلف شعبوں کی سربراہی وراثت کے طور پر مختلف خاندانوں میں منتقل ہوتی رہتی۔ جن پر آبائی جاگیر کی طرح اُن کو فخر بھی ہوتا اور اِسی حیثیت سے وہ اُن پر متصرف بھی ہوتے۔ قرآن نے اُن کی اِسی جہالت کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے کہ یہ خانہ کعبہ کی تولیت کے مدعی تو ہیں، لیکن اِنھیں کچھ خبر نہیں کہ یہ خانہ کعبہ ہے کیا چیز اور اِس کی تولیت کے شرائط کیا ہیں؟‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۷۱)
۶۲؎ نماز میں یہ خرافات غالباً اُن بتوں کی پرستش کرنے والوں سے آئے ہوں گے جو قریش نے سارے عرب پر اپنی مذہبی سیادت قائم کرنے کے لیے کعبے میں لا کر رکھ دیے تھے۔ قرآن نے نہایت بلاغت کے ساتھ اُن کی عبادت کی ظاہری ہیئت ہی سے نمایاں کر دیا ہے کہ اِس چیز کو انبیا علیہم السلام کے سکھائے ہوئے طریقۂ عبادت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔دین کی ہر بات میں وقار، متانت، فروتنی، خشیت اور پاکیزگی کی جھلک اور معرفت، حکمت، دانش اور روحانیت کی مہک ہوتی ہے۔ جس کی آنکھوں میں کچھ بصیرت اور جس کی روحانی قوت شامہ میں ذرا بھی زندگی ہو تو وہ صرف دیکھ اور سونگھ ہی کر جان جاتا ہے کہ فلاں چیز دین کی نہیں ہے۔ علمی تحقیق و کاوش کا مرحلہ اِس کے بعد آتا ہے اور اِس کے وسائل و ذرائع الگ ہیں۔ یہاں قرآن نے یہی دکھایا ہے کہ یہ ان مدعیان تولیت کعبہ کی نماز ہے جس کی صورت ہی گواہی دیتی ہے کہ یہ شیطان کی ایجاد ہے۔ اِس میں اُس نماز کی ادنیٰ جھلک بھی نہیں ہے جس کے اہتمام و قیام کے لیے یہ یہاں بسائے گئے تھے اور جس کی خاطر خدا کا یہ گھر اِن کی تحویل میں دیا گیا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۷۲)
۶۳؎ یہ آخر میں قریش کو براہ راست خطاب کرکے واضح کر دیا ہے کہ جس عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے، اُس کی ابتدا ہو گئی ہے۔ پہلی قسط بدر میں وصول کر چکے ہو۔ استاذ امام کے الفاظ میں اب یکے بعد دیگرے چکھتے جاؤ اور گنتے جاؤ۔
۶۴؎ اشارہ ہے قریش کے لیڈروں کی اُس فیاضی کی طرف جس کے ساتھ وہ اسلام کو مٹانے کے لیے اپنا مال خرچ کر رہے تھے۔ بدرکے موقع پر اُنھوں نے فی الواقع بڑی دریا دلی کے ساتھ فوج کی رسد اور سامان جنگ فراہم کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی***۔ فرمایا کہ اُن کی یہ دریا دلی بھی خدا کے اُس فیصلے کو صادر ہونے سے نہیں روک سکے گی جو اُن کے جرائم کی وجہ سے اُن کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔
۶۵؎ یعنی دنیا میں مغلوب ہوں گے اور آخرت میں ہانک کر جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ آیت میں ’یُحْشَرُوْنَ‘کے ساتھ ’اِلٰی‘کا صلہ ہے۔ ہانک کر لے جائے جانے کا مفہوم اُسی نے پیدا کر دیا ہے۔
۶۶؎ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ یہ اُس فرقان کا بیان ہے جو آخرت میں ظاہر ہو گا۔ وہاں اللہ تعالیٰ سارے خبیث کو طیب سے بالکل الگ کر دے گا، پھر خبیث کو ایک دوسرے پر تہ بہ تہ ڈھیر کر دے گا، پھر اِس پورے ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے گا۔ ’رکم‘ کے معنی کسی شے کو ایک دوسرے پر تہ بہ تہ ڈھیر کرنے کے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کو جلانا ہو تو اُس کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ سب کو جمع کر کے تہ بہ تہ ڈھیر کیا جاتا ہے، پھر اُس کو آگ دکھا دی جاتی ہے۔ تہ بہ تہ جمع کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آگ زیادہ مقدار میں ایندھن پاکر پورے زور سے بھڑکتی ہے اور جمع شدہ انبار کا ہر حصہ دوسرے حصے کو جلانے میں مددگار بن جاتا ہے۔ اِس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل کفر جس طرح اِس دنیا میں تائید کفر میں ایک دوسرے کے پشت پناہ ہیں، اِسی طرح جہنم میں ایک دوسرے کو جلانے کے لیے باہم دگر ایندھن کا کام دیں گے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۷۴)
۶۷؎ یعنی کفر و شرک سے باز آجائیں اور رسول جو دعوت دے رہا ہے، اُس پر لبیک کہیں۔
۶۸؎ یہ اُس سنت کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت رسولوں کے مخاطبین اگر اُن کی تکذیب پر جمے رہیں تو لازماً ہلاک کر دیے جاتے ہیں، خواہ وہ قہر الٰہی سے ہلاک ہوں یا اہل ایمان کی تلواروں سے۔
۶۹؎ یہ لفظ یہاں کسی کو ظلم و جبر کے ساتھ اُس کے مذہب سے برگشتہ کرنے یا مذہب پر عمل سے روکنے کی کوشش کے لیے آیا ہے۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں ’persecution‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۷۰؎ یہ اُس جنگ کی غایت ہے جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیا گیا تھا۔ آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد خدا کا فیصلہ یہی تھا کہ سرزمین حرم میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں پر قریش کے ظلم و جبر کا خاتمہ کر دیا جائے، بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر اِس سرزمین کو منکرین سے اِس طرح پاک کر دیا جائے کہ یہاں اللہ کے دین، یعنی اسلام کے سوا کوئی اور دین باقی نہ رہ جائے**** ۔ظلم و جبر کے خلاف قتال کا حکم تو اب بھی موجود ہے، لیکن کسی سرزمین کو منکرین حق سے پاک کرنے یا اُنھیں زیردست بنا کر رکھنے کے لیے قتال اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہ راست حکم اور اُنھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ اِس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب اِن رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اِن کے منکرین پر اِسی دنیا میں عذاب آجاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اِس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ اور آپ کے صحابہ کو جس طرح فتنے کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اِسی طرح اِس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسانوں کے ہاتھ سے انجام پایا۔ اِسے ایک سنت الہٰی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۱۴ کے الفاظ ’یُعَذِّبُھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُم‘(اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا) میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔
۷۱؎ لہٰذا اُس کے لحاظ سے اِن کا اجر بھی اِنھیں عطا فرمائے گا۔
___________
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۲/ ۱۰۷۔
** ۲: ۱۲۴۔
*** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام۲/ ۱۸۹۔
**** مسلمان اِس کے پابند ہیں کہ سرزمین حرم کی یہ حیثیت قیامت تک اِسی طرح برقرار رکھیں تاکہ توحید کا یہ مرکز باطل کی ہر آلودگی سے پاک رہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے سے یہ سرزمین اِسی مقصد کے لیے خاص کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اِس میں نہ غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معبد تعمیر کیا جائے اور نہ کسی کافر و مشرک کو مستقل طور پر رہنے کی اجازت دی جائے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ