[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
امام ابو حنیفہ کا اصل نام نعمان بن ثابت تھا۔ ۵ رجب ۸۰ ھ (۵ ستمبر ۶۹۹ء)میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا زُوطابن ماہ (یا مرزبان) کابل کے رہنے والے تھے، قبیلۂ بنو تیم اﷲ بن ثعلبہ کے لوگوں نے انھیں غلام بنایاپھر آزاد کر دیااسی لیے تیمی کہلاتے ہیں۔ جب انھوں نے اسلام قبول کر لیا تو نعمان کے نام سے موسوم ہوئے۔امام ابوحنیفہ کے والد ثابت نے ایران کے شہر انبار یا تِرمِذ کو اپنا مسکن بنایا۔ بچپن میں ان کے والد انھیں حضرت علی کی خدمت میں لے گئے ۔اس روز عید نوروز(یا مہرجان) تھی،نعمان نے حضرت علی کو فالودے کا تحفہ دیا تو انھوں نے فرمایا، ہمارا ہر دن نوروز (یا مہرجان) ہی ہوتا ہے پھر ثابت اور ان کی ذریت کے لیے خاص دعا فرمائی ۔امام ابو حنیفہ پیدا ہوئے تو ان کا نام دادا کے نام پر نعمان رکھا گیا۔ ان کی کنیت حقیقی نہیں کیونکہ ان کے کسی بچے کا نام حنیفہ نہ تھا۔اس کنیت کا مطلب ابوملت حنیفہ یعنی سیدھی اور سچی قوم والا شخص ہے۔
تعلیم و تربیت
امام ابو حنیفہ نے بچپن میں عام دینی تعلیم حاصل کی پھر اپنے والد کے کاروبار کی طرف متوجہ ہو گئے جو ایک مال دار تاجرتھے۔جامع مسجد کے قریب واقع دار عمرو بن حریث میں ان کی اپنی دکان اور کارخانہ تھاجس میں خز(ریشمی کپڑا) بناتے اور فروخت کرتے تھے۔اس وقت ولید بن عبدالملک کی خلافت اور حجاج بن یوسف کی گورنری کا زمانہ تھا۔ حجاج کے مظالم کی وجہ سے افراتفری پائی جاتی تھی لیکن جب ولید کے بھائی سلیمان بن عبد الملک کی حکومت آئی،امن و امان ہوا تو تعلیم کا چرچا ہوا ۔ اپنے معمول کے مطابق ایک دن ابوحنیفہ مشہور عالم شَعبی کے پاس سے گزرے۔انھوں نے بلاکر پوچھا ،روز کہاں جاتے ہو؟بتایا،بازار جانے کے لیے یہاں سے گزرتا ہوں۔انھوں نے کہا، میں تو چاہتا ہوں کہ تم علما کے پاس آیا جایاکرو۔نوجوان ابوحنیفہ نے کہا، میں کم ہی ان کے پاس جاتا ہوں۔شعبی نے نصیحت کی، غفلت نہ کرو ،علم کو مطمح نظر بنا لو اور علما سے چپک جاؤ،تم مجھے بیدار مغز اور محنتی لگتے ہو۔شعبی کی بات ان کے دل میں گھر کر گئی، انھوں نے اعلیٰ دینی علوم سیکھنے شروع کیے تاہم، تجارت بھی جاری رکھی۔
امام ابو حنیفہ خود بتاتے ہیں، میں نے بچپن میں قرآن مجید ، حدیث رسول اور عربی زبان سیکھی اور بالآخر فقہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ قرآن مجیدکا معلم بچوں کو قرآن یاد کرا دیتا ہے۔اس کے شاگرد اس سے بڑھ کر یا اس جتنا ہی قرآن کو یاد رکھ لیں، اس کا نام نہیں ہوتا۔حدیث کا استاد احادیث خوب حفظ کر لیتا ہے اور پڑھا دیتا ہے، جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس سے نچنت نہیں ہو سکتا کہ حافظہ خراب ہوجانے کی وجہ سے غلط سلط روایات سنانا شروع کر دے اور کذب کا ملزم ٹھہرے ۔ نحو کا استاد چند ٹکے کمانے سے آگے نہیں بڑھتا۔شاعری کا حال یہ ہے کہ مدح کی جائے یا ہجو ،رسوائی ہی ہاتھ آتی ہے۔ علم کلام ،بحث و مناظرے میں بے دینی کے الزام لگتے ہیں یا مار دیا جاتا ہے۔ان سب کے برعکس فقہ ہی وہ علم ہے کہ اس کا حامل کم عمر ہو تو بھی لوگ استفسار کرتے ہیں اور فتویٰ مانگتے ہیں۔اس لیے میں نے فقہ ہی میں خصوصیت حاصل کرنا بہتر سمجھا۔
اساتذہ
امام ابو حنیفہ تابعی تھے، انھوں نے چار صحابہ کرام کا زمانہ پایا ۔انس بن مالک بصرہ میں،عبداللہ بن ابو اوفٰی کوفہ میں، سہل بن سعد ساعدی مدینہ میں اور عامر بن واثلہ مکہ میں مقیم تھے، حضرت انس کئی بار کوفہ آئے او رابوحنیفہ ان سے ملے تاہم، ان ا صحاب رسول میں سے کسی سے بھی تعلیم پانے کا انھیں موقع نہ ملا۔ شعبی ،سَلَمہ بن کُہیل، ابو اسحاق ،سماک بن حرب ، اعمش، عطا بن سائب اور علقمہ بن مرثد کوفہ میں مقیم محدثین تھے ،امام ابو حنیفہ نے ان سب سے علم حدیث حاصل کیا ۔مکہ میں عطا بن ابو رباح حدیث پڑھانے میں شہرت رکھتے تھے، ان کے درس میں شامل رہے۔ انھوں نے عِکرِمہ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ پھر مدینہ گئے اور حضرت عبداﷲ بن عمر کے صاحب زادگان سلیمان اور سالم سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا سماع کیا۔وہ امام باقر اور ان کے بیٹے امام جعفر صادق کی خدمت میں بھی حاضرہوئے اوران سے فیض حاصل کیا، اوزاعی اور مکحول جیسے بزرگوں سے بھی علم حاصل کیا، قرآن مجید کی قرآت امام عاصم سے سیکھی ۔اپنے اساتذہ کے علاوہ امام ابو حنیفہ نے جن روایوں سے حدیث روایت کی ، ان کے نام یہ ہیں،جبلہ بن سحیم،حسن بن عبیداﷲ،عاصم بن ابو النجود،نافع،عبدالرحمان بن ہرمز،خالد بن علقمہ، حکم بن عتیبہ،محمد بن علی، علی بن اقمر،زیاد بن علاقہ، سعید بن مسروق، عدی بن ثابت،عطیہ بن سعید،ابوسفیان سعدی،یحیےٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، شیبان بن عبدالرحمان،طاؤس بن کیسان،عاصم بن کلیب،عبداﷲ بن دینار،عطا بن سائب،عمرو بن دینار،قتادہ بن دعامہ،محارب بن دثار،محمد بن علی بن حسین،شہاب زہری،محمد بن منکدر، مقسم،ولید بن سریع،یونس بن عبداﷲاور قابوس بن ابوظبیان ۔یحیےٰ بن معین کہتے ہیں،ابوحنیفہ ثقہ ہیں ، وہی حدیث روایت کرتے ہیں جو انھیں یاد ہوتی ہے۔جامع ترمذی کتاب العلل اورنسائی کی السنن الکبریٰ میں امام ابو حنیفہ سے مروی ایک ایک حدیث موجود ہے۔ابن حجر نے ان سے مروی دو اور روایتوں کا ذکر کیا ہے۔
امام ابوحنیفہ بیان کرتے ہیں، ایک بار میں بصرہ گیا، میرا خیال تھا کہ میں ہر فقہی سوال کا جواب دے سکتاہوں لیکن وہاں کے لوگوں نے ایسے ایسے سوال پوچھے کہ مجھے جواب نہ بن آیا۔ ایک عورت نے مجھ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا،مجھے کوئی جواب نہ آیا تو مشہور عالم حماد کے پاس بھیج دیا لیکن خود بڑی شرمندگی محسوس کی کہ میں فقہ کے مسائل سمجھنے میں پیچھے ہوں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں حماد کی راہنمائی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ۔چالیس سال کی عمر میں ان کی شاگردی اختیار کی اور ان کے فتاویٰ یاد کئے۔ دس سال سے زیادہ ان کے ساتھ وابستہ رہے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے تمام طالب علموں سے آگے نکل گئے۔ حماد انھیں سب سے آگے اپنے پاس بٹھاتے،ایک بارکسی عزیز کی وفات پر انھیں بصرہ جانا پڑاتو اپنی نشست پر ان کو بٹھا گئے ۔دوماہ تک استاد کی غیرموجودگی میں ابو حنیفہ نے ساٹھ مسائل میں فتویٰ دیا۔حماد واپس آئے تو چالیس فتاویٰ میں ان سے اتفاق کیا، باقی نہ مانے۔ابو حنیفہ کہتے ہیں ، اب میں نے فیصلہ کر لیا کہ آخر دم تک ان کے ساتھ رہوں گا۔ ۱۲۰ ھ میں حماد کی وفات کے بعد امام ابو حنیفہ نے ان کی مسند سنبھالی ، وہ کوفی مکتب فقہ کے بڑے نمایندہ ہوگئے۔فقہ میں ان کے دوسرے اساتذہ زید بن علی زین العابدین اورامام جعفر صادق ہیں۔ ان کا اپنا قول ہے ، میں نے چار فقیہ صحابیوں سیدنا عمر،علی،ابن مسعود اور ابن عباس کی فقہ الگ الگ ان کے شاگردوں سے سیکھی۔
تدوین فقہ
کوفہ امام ابو حنیفہ کا مسکن تھا ،اس شہر میں جو اشاعت اسلام ہوئی اس میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگردوں کااہم حصہ تھا ۔لا محالہ ان کی آرا کا مسلک حنفی پر بھی گہرا اثر ہوا۔ جب حضرت علی کوفہ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ کوفہ کی جامع مسجد میں چار سو دواتیں رکھی ہیں اور طالب علم دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔ان کی خلافت کے آخری چار سال کوفہ میں گزرے لہٰذاان کے فیصلوں کا بھی وہاں چرچا رہا۔مجموعی طور پر کوفہ میں پندرہ سو صحابہ آئے چنانچہ یہ فقہ اور حدیث کی تعلیم کا اہم مرکز بن گیا۔ مکہ میں یہی مقام حضرت عبداللہ بن عباس اور مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر اورحضرت زیدبن ثابت کے شاگردوں کو حاصل تھا اس لیے ان کی فقہی آرا ان شہروں میں رواج پا گئیں۔
امام ابو حنیفہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ کے سمجھنے کے لیے ایک پیمانہ (مقیاس )مقرر کیا ،بعض محدثین نے اسے راے کا نام دیا ہے۔ امام صاحب نے چالیس شاگردوں کی مجلس شوریٰ بنائی جن میں امام ابویو سف اور امام زفر کے علاوہ داؤو طائی ،اسد بن عمرو، عافیہ ،قاسم بن معن ، علی بن مہیر،مسھر،مندل اور حبان جیسے علماء شامل تھے۔خود انھوں نے اپنے اصول تحقیق اس طرح بیان کیے ہیں ،کوئی مسئلہ ہو ،سب سے پہلے قرآن مجید سے اخذ کرتا ہوں،وہاں سے راہ نمائی نہ ملے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتا ہوں،اس سے بھی معلوم نہ ہو سکے توصحابہ میں سے جس کا بھی قول مل جائے مان لیتا ہوں،اور جب معاملہ ابراہیم نخعی،شعبی ،ابن سیرین اورعطا پر آجائے تو یہ لوگ مجتہد تھے،اس وقت میں بھی انھی کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔امام صاجب اجتہاد کرکے بات کی تہہ تک پہنچتے اور پھر شاگردوں سے بحث وتمحیص کرکے جس نتیجے تک پہنچتے ، اسے لکھوا دیتے۔ یہ ان کی ذاتی راے نہ ہوتی بلکہ مجموعی فیصلہ ہوتا۔ اگر صرف ان کا خیال ہوتا تو اسے تحریر کرنے سے منع کرتے۔ اس طریقے سے انھوں نے بارہ لاکھ نوے ہزار مسائل طے کیے جن میں سے اڑتیس ہزار عبادات سے متعلق تھے۔ تیس برس تک اس مجلس نے کام کیا اور اس کے فیصلے (فتوے) عوام میں مقبول ہوگئے۔امام ابو حنیفہ کی فقہی مہارت اور پختگی کوسب نے مانا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے محتاج ہیں یعنی ان سے راہ نمائی لیے بغیر تفقہ حاصل نہیں کر سکتے۔فقہ کو ترتیب سے ابواب میں بیان کرنے کی ابتدا ان سے ہوئی۔ بعد میں امام مالک نے اسی طرز پرمُوطّا لکھی۔
امام ابو حنیفہ محض ایک حد یث (خبر واحد)کی وجہ سے روایتی اور مسلّم عقیدہ ترک نہ کرتے تھے۔ دو پشتوں کے بعد امام شافعی کا رسوخ بڑھا تو اخبار آحاد کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا گیا۔اس طرح ان دونوں مسالک میں نزاع پیدا ہو گیا۔ امام ابوحنیفہ نے ان لوگوں پر کڑی تنقید کی جو عام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیںیا بے عمل کہہ کر ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ (وفات:۱۴۸ھ)امام ابوحنیفہ کے ہم عصر تھے۔کوفہ کے قاضی ہونے کی وجہ سے ان کی کئی فقہی آرا نقل ہوئی ہیں لیکن انھیں فقہی مسلک کا درجہ نہ مل سکا۔
شاگرد
امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر بہت مشہور ہوئے۔امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کو شیخین ، امام ابو یوسف اور امام محمد کو صاحبین اور امام ابو حنیفہ اور امام محمدکو طرفین کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔داؤد طائی ،ابومطیع بلخی،اسد بن عمرو اور حسن بن زیاد بھی ان کے اہم شاگرد ہیں۔ان شاگردوں کے علاوہ حسب ذیل راویوں نے امام ابو حنیفہ سے حدیث روایت کی ہے،ان کے بیٹے حماد،ابراہیم بن طہمان،اسحاق بن یوسف، ایوب بن ہانی،جارود بن یزید،حسن بن فرات،حفص بن عبدالرحمان،زید بن حباب،سعید بن ابو جہم،سعید بن سلام،سلیمان بن عمرو،صلت بن حجاج ،ضحاک بن مخلد،عائذ بن جبیب،عباد بن عوام،عبداﷲ بن مبارک،حمزہ بن حبیب، ابو یحیےٰ حمانی،عیسیٰ بن یونس، وکیع،یزید بن زریع،یزید بن ہارون،اسد بن عمرو، سعد بن سلت،حکام بن یعلی،خارجہ بن مصعب،علی بن مسہر،ابو عبدالرحمان مقری،محمد بن بشر،عبدالرزاق بن ہمام،عبیداﷲ بن زبیر، علی بن ظبیان ،فضل بن دکین،قیس بن ربیع،محمد بن حسن صنعانی،محمد بن قاسم ،محمد بن فضل،مروان بن سالم،معافی بن عمران،مکی بن ابراہیم،یونس بن بکیر، مصعب بن مقدام،یحیےٰ بن یمان ،نوح بن ابومریم اور ابو عاصم ۔
حنفی فقہ کی ترویج
امام ابوحنیفہ کے بیٹے حماد بصرہ کے قاضی مقرر ہوئے جب کہ ان کے پوتے اسماعیل کو رقہ کا قاضی بنایا گیا۔ ہارون رشید کے زمانے میں ان کے فتاویٰ قانون کی شکل میں نافذ ہوئے ۔ محمود غزنوی ،نور الدین زنگی، سلجوقی،آل تیمور اور چرکسی مسلک حنفی پر عمل پیرا ہوئے۔اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں حنفی فقہ پر مشتمل فتاویٰ عالمگیری کو نافذ کیا گیا۔ترکی کی خلافت عثمانیہ سوا چھ سو برس حنفی مسلک کے مطابق چلتی رہی۔
تصانیف
(۱) ’’الفقہ الاکبر‘‘، عقائد کی کتاب ہے ،اس کا پہلا حصہ امام ابوحنیفہ سے منسوب ہے۔ (۲)عثمان بُستی(یا بتی) کے نام خط، امام صاحب کی واحد مستند تحریر ہے ۔ (۳) ’’العالم والمتعلم‘‘،اصل میں ان کے کسی شاگرد کی تصنیف ہے جس میں اسلام کے نظم اجتماعی کے متعلق امام ابو حنیفہ کے تصورات بیان کیے گئے ہیں۔ (۴)تدوین حدیث کا دور آیاتو امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے ان احادیث کو جمع کرنے کا کام کیاجن سے انھوں نے فقہ مرتب کرنے میں استدلال کیا تھا ۔ مسند مرتب کرنے کی ابتدا امام ابویوسف کے بیٹے یوسف نے کی،پھر حسن بن زیاد نے ’’المجرد لابی‘‘حنیفہ ترتیب دی،آخرکار محمد بن محمود خوارزمی نے ایسی پندرہ تحریروں کو جمع کر کے جامع مسانید ابی حنیفہ کا نام دیا۔ (۵) ’’القصیدۃ النعمانیہ‘‘، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نعت ہے جو امام صاحب سے منسوب کی جاتی ہے۔
امام ابو حنیفہ کی دیانت
ایک بار امام ابوحنیفہ کے پاس ایسا کپڑا بکنے کو آیا جس میں کوئی عیب تھا۔وہ جب بھی فروخت کرتے ،گاہک کو اس عیب سے باخبر کردیتے ۔ان کے ساجھی حفص بن عبدالرحمان نے ان کی غیرموجودگی میں اسے بیچا تو عیب بتانا بھول گئے۔انھیں معلوم ہوا تو حاصل ہونے والی تمام رقم فوراً صدقہ کردی۔ ایک عورت کپڑا بیچنے کے لیے امام ابو حنیفہ کے پاس آئی اورسو درہم قیمت مانگی۔انھوں نے فرمایا،یہ کپڑا قیمتی ہے، اس کے دام زیادہ مل سکتے ہیں۔ اس نے دوسو درہم کہے۔ انھوں نے کہا، یہ اس سے بھی زیادہ قیمت والا ہے ۔بڑھاتے بڑھاتے پانسو درہم تک بات پہنچی اور امام صاحب نے کپڑا لے کر پانسودرہم اسے دے دیے ۔انھوں نے عورت کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر کم دام نہ دیے۔ ایک دفعہ ان کے ملازم نے ان کی غیر موجودگی میں چار سو درہم والا کپڑاایک ہزار درہم میں فروخت کر دیا۔ابوحنیفہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور خودگاہک کی تلاش میں چل پڑے ۔پوچھتے پچھاتے کوفہ سے مدینہ جا پہنچے اوربڑے اصرار سے چھ سو درہم واپس کردیے۔ایک بڑھیا کپڑا لینے آئی تو کہا ،میں غریب ہوں ،مجھے سے محض اپنی قیمت خرید لے لیں۔امام صاحب نے چار درہم مانگے تو وہ حیرت میں پڑ گئی اور کہا ،اتنا کم مانگ کر مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟انھوں نے کہا ، میں نے اس طرح کے دو کپڑے لیے تھے ۔ پہلا کپڑا بیچ کر راس المال قریباً وصول کر لیا ہے۔ چار درہم ہی کم پڑتے تھے ،وہ تم دے دو۔اسی طرح اپنے ایک دوست کو دس درہم کا کپڑا ایک درہم ہی میں بیچ ڈالا اور کہا،میں اس کی قیمت اسی طرح کا دوسرا کپڑا منافع میں فروخت کر کے حاصل کر چکا ہوں۔ لوگ امام ابو حنیفہ کی دیانت پر بھروسا کرتے ۔اپنی امانتیں ان کے پاس رکھواتے تھے، وفات کے وقت ان کے پاس پانچ کروڑ دینار بطور امانت پڑے تھے۔
تقوی اور سخاوت
امام ابو حنیفہ انتہائی عبادت گزار اور زاہد تھے ، عام طور پر وضو سے رہتے ۔ رات بھر نوافل پڑھتے اور تلاوت کرتے کرتے رونا شروع ہو جاتے۔ان کا گریہ سن کر ہمسایوں کو شبہ ہوتا کہ شاید انھیں کوئی جسمانی تکلیف ہے۔خارجہ بن مصعب کہتے ہیں ،چار ائمہ نے ایک ہی رکعت میں پورا قرآن تلاوت کیا ہے، عثمان بن عفان، تمیم داری،سعید بن جبیر اور ابوحنیفہ۔ امام ابو حنیفہ کی فقہی رائے پرکوئی اعتراض کرتا تو جواب دیتے، میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عاجز ہوں ۔بہت فیاض تھے،سال بھر کی تجارت کے بعدجو نفع ملتا،علما و محدثین کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات پر صرف کر ڈالتے،جو بچتا وہ بھی د ے ڈالتے۔ایک ساتھی کو دیکھا کہ پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ مجلس منتشر ہونے کے بعد اسے کہا،جائے نماز اٹھا کر اس کے نیچے پڑی رقم اٹھا لو ۔ایک ہزار درہم دیکھ کر اس نے کہا ، میں تو مال دار ہوں،اس کی چنداں حاجت نہیں۔فرمایا، تم نے یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سن رکھا، اﷲ پسند کرتا ہے کہ اس نے اپنے بندے کو جو نعمت دی ہے اس کا اثر بھی اس پر نظر آئے۔
عادات
امام ابو حنیفہ خاموش طبع تھے ۔کوئی ان سے مسئلہ پوچھتا تبھی جواب دیتے۔اپنے اوپر کنٹرول رکھنے کا ملکہ حاصل تھا۔ایک دفعہ حسن بصری کے کسی فتوے پر تنقید کی جس پر ایک شخص نے ان کو گالی دے ڈالی لیکن پر سکون رہے اور اپنے موقف کی ٹھنڈے دل سے وضاحت کی۔امام صاحب ایک مرتبہ فقہ کی تعلیم دے رہے تھے کہ چھت سے سانپ ان کی گود میں آ گرا۔ تمام طالب علم بھاگ گئے لیکن انھوں نے اپنی تقریر جاری رکھی ۔
امام ابوحنیفہ بہت ذہین اور حاضردماغ تھے ۔قرآن و حدیث کے معانی کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔ ہمیشہ احکام کی حکمتوں پر ان کی نظرہوتی ۔اپنی گفتگو سے دوسروں کو خاموش کر ا دیتے۔ان تمام خصلتوں کے باوجود ان کے اخلاص کایہ عالم تھا کہ جہاں اپنی راے میں غلطی نظر آتی فوراًترک کردیتے۔
سیاسی مسلک
۱۲۱ھ میں زید بن علی زین العابدین نے اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے خلاف خروج کیا تو امام ابوحنیفہ نے اس کی حمایت کی۔کسی نے پوچھا ، آپ خود کیوں پیچھے رہے ہیں۔ بتایا، میرے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں، میں نے ابن ابی لیلیٰ کے سپرد کرنا ٰچاہیں تو وہ نہیں مانے۔پھر کہا، اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ لوگ زید کے دادا حسین کے برعکس ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے تو میں ضرور نکلتا۔میں نے دس ہزار درہم بھیج کر ان کے ساتھ مالی تعاون کیا ہے۔
دور ابتلا
امام ابو حنیفہ نے باون برس اموی خلافت اوراٹھارہ برس عباسی دور دیکھا ۔ بنو امیہ کے مظالم کی وجہ سے ان سے نا خوش تھے۔ابن ہبیر ہ کوفہ کا گورنر تھا اس نے کئی علما و فقہا کو عہدے دیے اور امام ابو حنیفہ کو بھی بڑے عہدے کی پیشکش کی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ابن ابی لیلیٰ،ابن شبرمہ اور داؤد بن ابوہند نے درخواست کی ، ہلاکت میں پڑنے کے بجاے قضا کا عہدہ قبول کر لیں۔انھوں نے جواب دیا ،خلیفہ کسی کو ناحق قتل کرنے کا حکم جاری کرنے کو کہے گا تو میں کیسے مان لوں گا۔ابن ہبیرہ نے قید کرکے کوڑے برسائے، امام صاحب نے کوئی لچک نہ دکھائی تو ۱۳۰ھ میں چھوڑ دیا۔ وہ مکہ چلے گئے اور چھ سال تک وہیں میقم رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے عبداﷲ بن عباس کی فقہ پر عبور حاصل کیا۔
خلافت بنوامیہ کے آخری دور میں عرا ق کے گورنر یزید بن عمرو نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے امام ابو حنیفہ کو کوفہ کا چیف جسٹس اور بیت المال کا مہتمم بننے کی پیش کی لیکن وہ نہ مانے۔اس نے ایک سو بیس کوڑوں کی سزا دی، روزانہ ان کو باہر نکالا جاتا لوگوں کا مجمع لگاکردس کوڑے مارے جاتے ۔یہ عمل بارہ دن جاری رہا،ابو حنیفہ پھر بھی نہ مانے۔ ان کی والدہ نے مشورہ دیا کہ یہ عہدہ قبول کر لو تو انھوں نے کہا ،آپ کو اس عہدے کی خرابیوں کا صحیح علم نہیں ہے۔بنو امیہ کے بعد اقتدار بنو عباس کے پاس آیا تو امام ابو حنیفہ نے انھیں خوش آمدید کیا اور ان کے پہلے خلیفہ سفاح کی بیعت کر لی۔ان کو توقع تھی کہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گزشتہ مظالم کا ازالہ کریں گے لیکن کچھ عرصہ کے بعد عباسیوں نے بھی ویسے طور طریقے اپنالیے، چنانچہ امام ابو حنیفہ اور عباسی حکمرانوں کے مابین پھر سے چپقلش شروع ہوگئی۔ عباسی اہل بیت ،نفس زکیہ اور ابراہیم کے متعلق ان کے خیالات سے خائف تھے۔ ابوجعفر منصور نے امام ابو حنیفہ پر اثرانداز ہونے او ر ان کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کوقاضی القضاۃ( چیف جسٹس) بنانا چاہا ۔انھوں نے انکار کیا تو جیل میں ڈال دیا۔یہ ۱۴۶ ھ کا واقعہ ہے۔اس نے ان کے ننگے جسم پرتیس کوڑے لگوائے ۔خون بہہ کر ایڑیوں پر جم گیا۔ چار سال قید میں رکھنے کے بعد بھی ابو جعفر منصور کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اس نے امام صاحب کو جبراً زہر کھلا دیا۔ جسم میں زہر جانے کا احساس ہوا تو وہ فوراً سجدے میں گر گئے اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوئی،تاریخ ۱۲ جمادی الاولیٰ۱۵۰ھ (۱۴ جون ۷۶۷ء) تھی ۔کچھ مورخین کا خیال ہے کہ منصور نے آخر میں امام ابوحنیفہ کو جیل سے آزاد کرکے گھر میں پابند کر دیا تھا، تدریس کرنے اور فتویٰ دینے پر پابندی لگا دی تھی۔اس طرح ان کی وفات گھر میں ہوئی ۔ وفات پرپورا شہر امڈ آیا،حسن بن عمارہ نے ایک اور شخص سے مل کر غسل دیا۔ پچاس ہزار لوگوں نے پہلی دفعہ جنازہ پڑھا۔دفن کر نے کے بعد بھی بیس دن تک غائبانہ جنازہ پڑھا جاتارہا۔امام ابو حنیفہ کا مزار بغداد میں مقبرۂ خیزران کے مشرقی جانب ان کے اپنے نام سے موسوم محلۂ اعظمیہ میں ہے۔
تائید و مخالفت
امام ابوحنیفہ کی مدح اور مخالفت دونوں میں بہت غلو کیا گیا ہے۔ان کے مقلدین نے یہاں تک کہاکہ ان کی آمد کی بشارت تورات میں دی گئی ہے ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوحنیفہ کا نام لے کر فرمایا ،وہ سراج امت ہیں۔ان کے مخالفین نے ان پر ترک سنت ، بلا دلیل فتویٰ دینے کا الزام لگانے کے ساتھ گمراہ اور زندیق تک کہہ ڈالا۔صحیح راے وہی ہے جو ذہبی ،ابن حجر اور سیوطی جیسے شوافع نے بیان کی ہے۔ذیل میں درج کردہ ایک واقعے سے راہ انصاف واضح ہو جاتی ہے۔ مشہور فقیہ اوزاعی نے عبداﷲبن مبارک سے پوچھا،یہ کوفہ میں رہنے والا بدعتی ابوحنیفہ کون ہے؟ابن مبارک نے براہ راست جواب دینے کے بجاے پیچیدہ فقہی مسائل اور ان کے بارے میں فتاویٰ بیان کرنا شروع کر دیے۔اوزاعی نے پوچھا، یہ فتوے کس نے دیے ؟ابن مبارک نے اب بھی واضح جواب نہ دیا اور کہا، ایک شیخ ہیں جو مجھے عراق میں ملے۔ اوزاعی نے کہا ، بڑے صاحب علم معلوم ہوتے ہیں ،دوبارہ جا کر ان سے مزید مسائل دریافت کریں۔اب انھوں نے بتایا، یہ ابوحنیفہ تھے ۔بعد میں اوزاعی کی مکہ میں ابوحنیفہ سے ملاقات ہوئی توان کے علم پران کا اعتماد اور بڑھ گیا۔
مطالعۂ مزید:تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،تذکرۃ الحفاظ (ذہبی)،تہذیب التہذیب (ابن حجر)، ابوحنیفہ (ابوزہرہ)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ: J.Schacht)
_____________