HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

خروج —— کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ

فکر اقبال کے تناظر میں


[اقبال اکادمی لاہور اور یونیورسٹی آف گجرات کے زیر انتظام ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۱ء کو  ’’ریاست و
حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا۔]


ریاست وحکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں ’’خروج‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لانا بظاہر عجیب دکھائی دیتا ہے، اس لیے کہ ’’خروج‘‘ کی بحث بنیادی طور پر ایک فروعی اور اطلاقی فقہی بحث ہے جبکہ اس نوعیت کی بحثیں عام طور پر اقبال کے غور وفکر کے موضوعات میں داخل نہیں، تاہم ذرا گہرائی سے موضوع کا جائزہ لیا جائے تو اس بحث کے ضمن میں فکر اقبال کی relevance اور اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔

فقہ اسلامی میں ’خروج‘ کی اصطلاح اس مفہوم کے لیے بولی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں بسنے والا کوئی گروہ اپنے کسی مذہبی تصور کی بنیاد پر، جس میں وہ اپنے آپ کو برحق اور اپنے مخالفین کو باطل پر سمجھتا ہو، یا حکمرانوں کے واقعی ظلم وجبر یا فسق وفجور کے تناظر میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف ہتھیار اٹھا لے اور طاقت کے زور پر نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ اس بنیادی نکتے کے لحاظ سے ’خروج‘ کے مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا اور دور جدید میں ریاستی نظم کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں پر یہ اصطلاح اسی طرح قابل انطباق ہے جس طرح دور قدیم میں تھی، تاہم فکری پس منظر اور عملی محرکات اور اسباب کے اعتبار سے دور قدیم کے ’خروج‘ اور دور جدید کے ’خروج‘ میں بعض بنیادی نوعیت کے فرق پائے جاتے ہیں جن کا درست فہم حاصل کیے بغیر اس بحث کی تنقیح نہیں کی جا سکتی۔

کلاسیکی دور میں ’خروج‘ کی بحث اسلامی ریاست کے داخلی دائرے میں علم سیاسیات کے اس سوال کا جواب دینے تک محدود تھی کہ اگر حکمران اپنی ان ذمہ داریوں سے گریز کی روش اختیار کر لیں جن کی ادائیگی کے لیے انھیں اس منصب پر فائز کیا گیا ہے تو کیا ان کا حق حاکمیت برقرار رہتا ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو پھر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس اصول کا ذکر تو بہت وضاحت سے ملتا ہے کہ عوام پر حکمرانی کا حق اسی طبقے اور انھی لوگوں کو حاصل ہے جنھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو اور وہ انھیں اپنے اوپر حکمران دیکھنا چاہتے ہوں، چنانچہ آپ نے اپنے بعد جزیرۂ عرب میں قائم ہونے والی ریاست میں حکمرانی کے حق کو اسی بنیاد پر قریش کے لیے مخصوص قرار دیا کہ اہل عرب اس وقت کے مخصوص تمدنی اور تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اس منصب پر انھی کو فائز دیکھنا چاہتے تھے اور ان کے علاوہ کسی اور گروہ کی قیادت وسیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تاہم، اسلامی سیاست کے اس بنیادی اصول کی وضاحت سے آگے بڑھ کر، شرعی نصوص میں حکمرانوں کے طریق انتخاب اور خاص طور پر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کے ضمن میں کوئی متعین راہ نمائی نہیں ملتی۔

منصب اقتدار پر فائز ہونے کے بعد کسی صاحب منصب کو اس کی زندگی میں معزول کرنے کی ظاہری صورتیں تین ہی ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکمران کے عزل ونصب کے لیے اس سے بالاتر کوئی اتھارٹی ہو جس کا فیصلہ اس پر قانوناً نافذ العمل ہو۔ مسیحیت میں یہ اختیار خدا کی براہ راست نمائندگی کے تصور کے تحت پوپ کو حاصل تھا، لیکن اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایسا کوئی ادارہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ اس تصور کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ حکمران ازخود اقتدار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو جائے جو ظاہر ہے کہ ایک نادر الوقوع صورت ہے۔ تیسرے یہ کہ خود رعایا کو اپنے حکمرانوں کو معزول کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اسلام کے مزاج اور اس کے تعلیم کردہ سیاسی تصورات سے ہم آہنگی رکھنے والی صورت یہی تھی، تاہم، عوام کے اپنے اس اختیار کو پرامن انداز میں موثر طور پر بروے کار لانے کے لیے ریاستی قوت کے بالمقابل جن اجتماعی اداروں کی ضرورت تھی، وہ اس وقت کے حالات میں دستیاب نہیں تھے اور چونکہ تمدنی اور تہذیبی احوال میں کوئی جوہری تبدیلی چند دنوں یا سالوں میں پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے مستقبل قریب میں بھی اس کی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس تناظر میں راہ راست سے ہٹ جانے والے حکمرانوں کی معزولی کا طریقہ جو عملی طور پر موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہو، یہی بچتا تھا کہ لوگ ہاتھ میں تلوار لے کر حکمرانوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور بزور قوت انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کی کوشش کریں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کے معاشرے میں خون خرابے اور فساد کی جس صورت حال کا رونما ہونا یقینی تھا، اس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی اور ’کم تر برائی‘ (lesser evil) کے اصول پر اس کی جگہ حکمرانوں کے بگاڑ کو گوارا کرنے کو قابل ترجیح قرار دیا۔ آپ نے اپنے متعدد ارشادات میں اس صورت حال کو موضوع بحث بنایا اور یہ واضح فرمایا کہ اگر مسلمانوں کے حکمران اصولی طور پر اسلام کے ساتھ وابستگی کا اظہار کریں لیکن اپنے طرز عمل، فیصلوں اور پالیسیوں میں دین کی تعلیمات سے انحراف کا طریقہ اختیار کریں تو ان کی اطاعت سے دست کش ہونا جائز نہیں، البتہ حق بات کسی خوف کے بغیر ہر حال میں کہی جائے اور اگر کسی شخص کو کوئی غیر شرعی امر بجا لانے کا حکم دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف معروف میں حکمرانوں کی اطاعت کرے جبکہ معصیت میں ان کی اطاعت سے انکار کر دے۔ اس سے آگے حکمرانوں کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کرنے یا ان کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی آپ نے سخت حوصلہ شکنی کی اور فرمایا کہ تم پر ایسے بدترین حکمران مسلط ہو جائیں جن سے تم شدید نفرت کرتے ہو اور ان پر لعنت بھیجتے ہو، تب بھی ان کی بدعملی سے نفرت کرنا، لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔

اس کے باوجود اسلامی تاریخ کے صدر اول میں بعض نہایت نمایاں مذہبی شخصیات کی طرف سے نظم اجتماعی کی اطاعت قبول نہ کرنے یا اس کے خلاف خروج کرنے یا ایسا کرنے والوں کی تائید کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سیدنا حسین، عبد اللہ بن زبیر، زید بن علی اور نفس زکیہ کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا زاویہ نظر یہ تھا کہ امام کی اطاعت کا حکم اور اس کے خلاف خروج کی حرمت اس صورت میں ہے جب اس کی حکومت حقیقتاً مسلمان عوام کی تائید اور مشورے سے قائم ہوئی ہو اور اسے راے عامہ کا اعتماد حاصل ہو۔ مذکورہ واقعات میں ان حضرات کے فہم کے مطابق یہ صورت نہیں پائی جاتی تھی، چنانچہ وہ اس بات کی گنجایش سمجھتے تھے کہ منصب اقتدار پر فائز افراد کی اطاعت سے نکل جایا جائے۔ مثلاً سیدنا علی کی خلافت کے انعقاد پر مسلمانوں کا اتفاق تام نہیں ہوا تھا اور جن حالات میں ان کی بیعت کی گئی، اس میں قاتلین عثمان کے ان کے کیمپ میں شامل ہو جانے سے ابتدا ہی سے شبہے کی ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ سیدنا معاویہ اور ان کی قیادت میں اہل شام ان کی بیعت کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور باہمی قتل وقتال کے بعد یہ سلسلہ بالآخر مسلمانوں کی دو متوازی حکومتوں کے قیام پر منتج ہوا۔ پھر جب سیدنا معاویہ نے اپنی عمر کے آخری حصے میں سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تو بظاہر اس پر عمومی اتفاق رائے دکھائی دینے کے باوجود یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ موروثی جانشینی کا یہ طریقہ عوام الناس کے حقیقی اعتماد اور تائید کی شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے۔ خاندان نبوت کی جن شخصیات نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج کیا، وہ اسی اساس پر تھا کہ ارباب حل وعقد کو عوام کی حقیقی تائید اور حمایت حاصل نہیں اور ان کا اقتدار محض طاقت اور جبر کے زور پر قائم ہے، چنانچہ ان شخصیات نے یہ دیکھتے ہوئے کہ راے عامہ حکمرانی کے منصب پر انھیں فائز دیکھنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں جدوجہد کی کامیابی کے امکانات بھی بظاہر موجود ہیں، خروج کا فیصلہ کر لیا۔ ان میں سے سیدنا حسین، زید بن علی، نفس زکیہ اور محمد بن الاشعث وغیرہ اپنی کوشش میں ناکام ہوئے جبکہ عبد اللہ بن زبیر کو حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ گویا راے عامہ کی حقیقی تائید اور اعتماد کا نکتہ ان حضرات کے نزدیک بنیادی تھا اور وہ خروج کی ممانعت کو اس صورت میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے تھے جب حکمران عوام کے حقیقی اعتماد سے محروم ہوں۔

مذکورہ نکتے کی روشنی میں ان حضرات کے اقدامات کے لیے ایک اجتہادی گنجایش پیدا ہو جاتی ہے اور انھیں شریعت کے کسی صریح حکم کی دیدہ ودانستہ خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ممکن نہیں رہتا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ جمہور صحابہ واہل علم نے ان اقدامات میں نہ صرف یہ کہ ان حضرات کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں باہمی خوں ریزی اور فتنے کی جو صورت حال پیدا ہوئی، اس پر سخت اور تیز وتند تبصرے کیے۔ پھر تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ارباب حل وعقد کے خلاف خروج اور بغاوت کے نتیجے میں مسلم معاشرے کو جس قتل وغارت اور انتشار وافتراق کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیش نظر ائمہ اہل سنت کا اس بات پر ایک عمومی اتفاق ہو گیا کہ غیر عادل حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے۔ چنانچہ فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’الانصاف‘ میں ہے:

ونصوص الامام احمد رحمہ اللّٰہ ان ذالک لا یحل وانہ بدعۃ مخالف للسنۃ وآمرہ بالصبر وان السیف اذا وقع عمت الفتنۃ وانقطعت السبل فتسفک الدماء وتستباح الاموال وتنتہک المحارم.(ج ۱۰، ص ۳۱۱)
’’امام احمد کی تصریحات یہ ہیں کہ خروج حلال نہیں اور یہ کہ یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں ایسی صورت حال میں صبر کی تلقین کرتا ہوں۔ تلوار جب ایک دفعہ نکل آتی ہے تو فتنہ عام ہو جاتا ہے، راستے بے امن ہو جاتے ہیں، خون بہائے جاتے ہیں، اموال مباح کر لیے جاتے ہیں اور اللہ کی قائم کردہ حرمتیں پامال کی جاتی ہیں۔‘‘

دور جدید میں ’خروج‘ کے فکری اسباب میں ایک خاص dimension کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے مسلم معاشروں پر مغربی فکر وتہذیب اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے نظام سیاست ومعیشت کا غلبہ اور استیلا۔ مغربی فلسفہ وتہذیب کے غلبے نے مسلم معاشروں کے فکر واعتقاد، داخلی معاشرتی ساخت اور بین الاقوامی سطح پر ان کے سیاسی کردار کو اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی تیزی سے تبدیل کر دیا ہے کہ مذہبی ذہن اگر اس سے اجنبیت اور وحشت محسوس نہ کرتا تو یہ بات خود غیر فطری اور تعجب خیز ہوتی۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر مسلم اقوام کی معاشرت، قانون اور سیاست میں در آنے والے تغیرات کا منظرنامہ کچھ یوں بنتا ہے:

o اسلامی تاریخ میں دنیا کے تمام مسلمانوں کے ’خلافت‘ کے عنوان سے ایک مرکزی سیاسی ادارے کے تحت منظم ہونے کے تصور کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں جنگ صفین کے بعد مسلمانوں کی دو الگ الگ اور متوازی حکومتیں وجود میں آ گئی تھیں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ حکومتوں کے قیام کا تسلسل مختلف علاقوں میں بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا اور خاص طور پر ہندوستان میں ایک ایسی مسلم سلطنت بھی قائم رہی جو کسی بھی اعتبار سے ’خلافت‘ کے ادارے کے تحت یا اس سے وابستہ نہیں تھی، تاہم، مسلم سیاسی مفکرین اس سیاسی مرکزیت کو اسلام کے سیاسی نظام کی ایک مثالی شکل کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں اور کم از کم اسلام کے زیر نگیں مرکزی علاقے (جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کے خطے) کسی نہ کسی رنگ میں پہلے عرب اور پھر بعد میں ترکی خلافت کے زیر سایہ ایک مرکزی سیاسی نظام سے مربوط رہے ہیں۔ خلافت کا یہ ادارہ بہت سی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ غیر موثر اور غیر مفید ہوتا چلا گیا اور آخری دور میں اس کی حیثیت بالکل علامتی رہ گئی، تاہم، سیاسی سطح پر اس علامتی وحدت کی بھی اپنی ایک اہمیت تھی، چنانچہ ۱۹۲۴ء میں ’خلافت‘ کے ادارے کے بالکلیہ خاتمے کے بعد نیشنل ازم کے سیاسی تصور کے تحت مسلمان ممالک کی سیاسی پالیسیوں نے جو الگ الگ اور بسا اوقات باہم متصادم رخ اختیار کر لیا، وہ فطری طور پر روایتی مذہبی ذہن کے لیے بے چینی اور اضطراب کا موجب ہے۔

o کلاسیکی دور میں دنیا کی غیر مسلم طاقتوں اور مسلم ریاستوں کے مابین تعلقات اور معاہدات اصلاً سیاسی مصلحت پر مبنی ہوتے تھے، جبکہ پوری دنیا کے لیے مشترک اور آفاقی اخلاقی یا قانونی ضابطوں کو معیار ماننے کا پہلو ان میں موجود نہیں تھا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کی اساس یہ تھی کہ دنیا دار الاسلام اور دار الحرب کے دو حصوں میں تقسیم ہے اور مسلم وغیر مسلم ممالک کے مابین اصل اور مستقل تعلق ’جنگ‘ کا ہے، تا آنکہ غیر مسلم قومیں مسلم ریاست کا حصہ نہ بن جائیں یا ان کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے انھیں خراج ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو جائیں۔ یہ مقصد حاصل ہونے تک درمیانی عرصے میں وقتی اور عارضی نوعیت کے صلح کے معاہدے کیے جا سکتے ہیں، لیکن جیسے ہی حالات و امکانات اور عملی مصالح اجازت دیں، ان معاہدات کو ختم کر کے کفار کے ساتھ جنگ کرنا اور انھیں محکوم بنا لینا اسلامی ریاست کا استحقاق بلکہ اس کی ذمہ داری ہے۔ دور جدید کا عالمی نظام ، جس کے تحت اور جس کی پابندی کو قبول کرتے ہوئے جدید مسلم ریاستیں قائم ہوئی ہیں، اس کے بالکل برعکس ممالک اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے ضمن میں اصل ’امن‘ کو قرار دیتا اور باہمی تنازعات کو نمٹانے کے لیے جنگ کے طریقے کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس صورت حال سے مذہبی ذہن دو پہلووں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے۔ ایک یہ کہ کلاسیکی تصور کے مطابق دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم کو ’جہاد‘ کے مذہبی حکم کی تائید بھی حاصل ہے جس کی رو سے اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے لیے قوت وطاقت کا استعمال ایک مطلوب اور معیاری طریقہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جدید عالمی نظام میں ’امن‘ کے جس تصور کو بین الاقوامی تعلقات کی اساس قرار دیا گیا ہے، دنیا کی غالب طاقتیں خود دیانت داری سے اس کی پابندی نہیں کرتیں اور ان کی طرف سے اپنے سیاسی ومعاشی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی پالیسیاں بکثرت اپنائی گئی ہیں جن کا نتیجہ دنیا کے مختلف حصوں میں کمزور اور مغلوب مسلمانوں پر ظلم وستم اور ان کے حقوق غصب کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔ اس بنا پر مذہبی ذہن میں اس احساس کا بیدار ہونا ایک فطری بات ہے کہ موجودہ عالمی نظام کوئی غیر جانب دار نظام نہیں، بلکہ اس کا مقصد فی الحقیقت غالب مغربی اقوام کے حاکمیت کے ایجنڈے کو تحفظ دینا اور قانون و نظام کی پابندی کے عنوان سے کمزور قوموں کے ہاتھ پاؤں باندھ دینا ہے۔

o موجودہ بین الاقوامی سیاسی نظام بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مغربی فلسفے پر مبنی ہے جو کئی اہم حوالوں سے اسلام کے تصور حقوق وفرائض سے متصادم ہے۔ مسلم ریاستیں بین الاقوامی معاہدوں، اداروں اور قوانین کے ایک مضبوط جال میں جکڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کے ضمن میں مغربی تصورات اور اقدار کا تحفظ ہے اور یہ چیز بہت سے شرعی احکام پر عمل میں رکاوٹ بھی بنتی ہے ۔ مثال کے طو رپر پاکستان کے دستور میں ایک طرف شریعت کی بالادستی کی بات کی گئی ہے اور دوسری طرف مروجہ تصورات کے مطابق ’انسانی حقوق‘ کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک مقدمے میں مجرم کو کھلے عام پھانسی دینے کے فیصلے کو انسانی حقوق کے منافی ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دے چکی ہے، حالانکہ اسلام میں سزا کا فلسفہ یہ ہے کہ مجرم کو نشان عبرت بنانے کے لیے اسے کھلے بندوں سزا دی جائے۔ انسانی حقوق کے اسی فلسفے کی بنیاد پر عالمی قانونی اداروں کا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جو بہت سے شرعی قوانین نافذ ہیں، وہ انسانی حقوق سے متصادم ہیں، اس لیے انھیں منسوخ کیا جائے۔

o یہی معاملہ عام معاشرتی سطح پر مذہب، مذہبی اقدار اور اہل مذہب کو حاصل اثر ورسوخ کا ہے۔ مذہبی ذہن صدیوں سے جس صورت حال کا خوگر اور جس طرز معاشرت سے مانوس رہا ہے، وہ یہ تھی کہ مذہب ایک اعلیٰ روحانی و اعتقادی سرچشمے کی حیثیت سے معاشرے میں ایک مسلمہ معیار کی حیثیت رکھتا تھا، معاشرتی واخلاقی قدروں پر عمومی طور پر اس کی گرفت قائم تھی اور مذہبی علم واخلاق کی نمائندگی کرنے والے طبقات یعنی علما اور صوفیا کو نہ صرف عزت واحترام کا مقام حاصل تھا، بلکہ تھیاکریسی کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہ ہونے کے باوجود، دین وشریعت کی تعبیر میں علمی سطح پر انھی کو مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا نہیں کہ فرد اور سماج کی سطح پر منکرات کا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ معاشرتی خرابیاں ہر دور میں رہی ہیں، تاہم دین وشریعت کو ایک مسلمہ معیار کی حیثیت حاصل ہونے اور مذہبی طبقے کے لیے مختلف حیثیتوں میں ایک باعزت اور باوقار کردار ادا کرنے کے مواقع نے اسے معاشرے سے اجنبیت کے احساس میں مبتلا نہیں ہونے دیا، جبکہ نئے ماحول میں صورت حال بدیہی طور پر مختلف ہے۔

o مسلم ریاست کے سیاسی ڈھانچے میں رونما ہونے والی بہت سی اہم تبدیلیاں بھی مذہبی ذہن کے لیے غیر مانوس ہیں۔ مثال کے طور پر حکمران کے انتخاب کو براہ راست عام لوگوں یا ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ووٹ پر مبنی قرار دینے کا طریقہ اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اسی طرح کلاسیکی فقہ میں حاکم کے انتخاب کے لیے اہل حل وعقد کے مشورے کے ساتھ ساتھ ولی عہدی کو بھی ایک مستقل طریقے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جبکہ بالجبر منصب اقتدار پر مسلط ہو جانے والوں کے حق حکمرانی کو بھی بالفعل تسلیم کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص کے حاکم بن جانے کے بعد کفر یا کھلم کھلا فسق جیسی انتہائی صورتوں کے علاوہ اس کو اقتدار سے الگ کیے جانے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور تاحیات حق حکمرانی کو مثالی طریقہ گردانا گیا ہے۔ پھر حکومتی مناصب کے لیے اہلیت کے ضمن میں بہت سی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’خلیفہ‘ یعنی پوری ملت اسلامیہ کے سب سے اعلیٰ منصب حکمرانی کے لیے قبیلہ قریش کا فرد ہونا ضروری یا کسی نہ کسی درجے میں مطلوب ہے۔ سیاسی، عدالتی اور انتظامی مناصب کے لیے خواتین کو بالعموم اہل نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح ایک مسلم ریاست کے غیر مسلم باشندوں کے لیے بھی ایسے مناصب پر تقرری کا استحقاق تسلیم نہیں کیا گیا۔ دور جدید کی جمہوری مسلم ریاستوں میں بالعموم مذکورہ شرائط وضوابط کی پابندی قبول نہیں کی گئی اور ریاست کی سیاسی پالیسیوں، قانون سازی کے عمل اور قانون کی تعبیر وتشریح اور تنفیذ جیسے معاملات میں شرکت کو بلا لحاظ مذہب و جنس اصولی طور پر ریاست کے تمام باشندوں کا حق مانا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی جوہری تبدیلیوں کے ساتھ ریاستی نظام کا ناک نقشہ اس سے بالکل مختلف بن جاتا ہے جو ہمیں کلاسیکی فقہ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

o شریعت کے نفاذ میں یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ریاست کی سطح پر اس کی کس تعبیر کو اختیار کیا جائے گا اور اس ضمن میں عملی طور پر فیصلہ کن اتھارٹی کس کے پاس ہوگی؟ اسلام میں تھیاکریسی کا کوئی وجود نہیں اور دین وشریعت کی تعبیر وتشریح کا حق کسی مخصوص ادارے یا گروہ کے لیے تسلیم نہیں کیا گیا، تاہم یہ کام چونکہ بدیہی طور پر ایک مخصوص علمی مہارت اوربصیرت کے ساتھ ساتھ فقہ وقضا کے ساتھ ایک عملی ممارست کا تقاضا کرتا ہے جس کی توقع فطری طور پر علما اور فقہا ہی سے کی جا سکتی ہے، اس لیے اسلامی تاریخ میں اس ضمن میں مرجع کی حیثیت عمومی طورپر علما ہی کو حاصل رہی ہے۔ معاصر مسلم ریاستوں میں سے سعودی عرب اور ایران میں بھی شرعی قانون کی تعبیر وتشریح کی حتمی اتھارٹی علما ہی ہیں۔ تاہم، دور جدید کی بیشتر مسلم ریاستوں میں اور خاص طور پر پاکستان میں قرآن وسنت کی قانونی تعبیر وتشریح کا حتمی اختیار کسی مخصوص طبقے کے بجاے منتخب جمہوری اداروں کے لیے تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ قانون کی ترتیب وتدوین اور ان پر نظر ثانی کے لیے قائم کیے جانے والے قانونی اداروں، مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں بھی علما کے علاوہ دوسرے ماہرین قانون کو باقاعدہ شریک کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال بھی مذہبی ذہن کے لیے عدم اطمینان اور تشویش کا باعث ہے۔

اس تجزیے سے واضح ہے کہ دور جدید میں مسلمان ریاستوں میں ’خروج‘ کا مسئلہ ایک بالکل مختلف پس منظر میں پیدا ہوا ہے جو ماضی کے مقابلے میں سادہ نہیں، بلکہ پیچیدہ ہے اور اس کی تہہ میں دنیا کی تہذیب، تاریخ اور سیاست میں رونما ہونے والی نہایت گہری اور دور رس تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ آج اس مسئلے پر محدود فقہی دائرے میں غور کرنا کافی نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کی جڑیں بنیادی طور پر کسی فقہی حکم کی تفہیم وتعبیر میں نہیں، بلکہ دنیا کے منظر نامے پر رونما ہونے والی جوہری تبدیلیوں کے فہم اور تجزیے میں پائی جاتی ہیں۔

مسلمانوں کے بعض طبقات نے اپنے فہم وبصیرت کی حد تک کلاسیکی اسلامی ریاست کے خط وخال کو معیار مانتے ہوئے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا، اس نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت مسلمانوں کی جو ریاستیں اس وقت قائم ہیں، وہ نہ صرف اسلامی ریاست کی تمام بنیادی خصوصیات سے محروم ہیں، بلکہ الٹا معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ ان کا فہم انھیں یہ بتاتا ہے کہ اسلامی نظام سیاست کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ قانونی وتشریعی سطح پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لیے تسلیم کیا جائے اور شرعی مآخذ میں منصوص یا ان سے مستنبط احکام وقوانین کے علاوہ، جنھیں فقہ اسلامی میں بیان کیا جاتا ہے، انسانوں کے لیے اپنے فہم وبصیرت اور تجربات کی روشنی میں قانون سازی اور تشریع کا حق تسلیم نہ کیا جائے، جبکہ جدید جمہوری نظام قانون سازی میں بنیادی سرچشمہ عوام کی پسند وناپسند کو قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے نظام میں ان غیر نظریاتی عناصر، مثلاً غیر مسلموں اور لادین وسیکولر طبقات کو بھی شریک کرنا پڑتا ہے جو سرے سے شریعت کی حاکمیت پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ خارجی سطح پر ان کے تجزیے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دنیا میں امت مسلمہ کے غلبہ اور سربلندی کی ضمانت ’جہاد‘ کا شرعی حکم تھا جس سے روگردانی کے نتیجے میں مغربی طاقتیں اور ان کی لادینی تہذیب ہر سطح پر مسلمانوں پر غالب آ گئی ہے۔ ان دو مقدمات کی روشنی میں ان حضرات نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ غلبہ اسلام اور جہاد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے تو اس کا حل انھیں اس کے علاوہ کچھ نہ دکھائی دیا کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور چونکہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ممکن نہیں، اس لیے مطلوبہ تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ان کے طرز فکر کا منطقی نتیجہ قرار پایا۔

ظاہر ہے کہ اس ذہنی رویے کو فکری اور نفسیاتی بنیادوں پر مخاطب بنانے کے لیے فقہی بحثیں کافی نہیں، اس لیے کہ فقہی بحثیں کبھی گروہوں اور قوموں کے اجتماعی ذہنی رویے کو تشکیل نہیں دیتیں اور نہ ان میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ بحثیں پہلے سے طے شدہ ذہنی رویوں کے زیر اثر پیدا ہوتی اور قانونی زبان میں انھی رویوں کے عملی اظہارات کی توجیہ کی خدمت انجام دیتی ہیں۔ جو ذہن اس وقت ہمارا مخاطب ہے، اس کے لیے محرک کا کردار کسی فقہی نوعیت کے تصور یا بحث نے نہیں، بلکہ ذہن وفکر اور نفسیات کی سطح پر موثر چند دوسرے عوامل نے ادا کیا ہے، اس لیے اس کے لیے فقہی اصول اور حدود و قیود بھی وہی قابل قبول ہوں گے جو اس کے بنیادی فکری احساس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔

اب آئیے، یہ دیکھتے ہیں کہ ا س پوری صورت حال میں فکر اقبال ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے:

۱۔ اقبال مغربی تہذیب کے لادینی تصورات اور الحاد پرستانہ واباحیت پسندانہ رجحانات کے سخت ناقد تھے اور انھیں دین اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے تاہم، دو حوالوں سے ان کا رجحان مغربی تہذیب سے متعلق مثبت دکھائی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ اہل مغرب نے تہذیبی ارتقا کے نتیجے میں اپنے مذہبی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے زیر اثر مسلمانوں کے طرز فکر اور انداز معاشرت پر ملوکیت اور ملائیت کے زیر سایہ صدیوں سے طاری جمود کو توڑنے اور فکر وعمل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ رعایا اور حکمرانوں کے حقوق واختیارات کے باہمی توازن کے حوالے سے مغرب نے جمہوریت کے عنوان سے جو سیاسی نظام اور جو سیاسی ادارے متعارف کروائے ہیں، ان سے مسلمان معاشرے بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اقبال کے ہاں متضاد رویے پائے جاتے ہیں، بلکہ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم میں جناب ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ تبصرہ نقل کیا تھا کہ اقبال آخر وقت تک مغربی تہذیب کے حوالے سے اپنا کوئی واضح رد عمل متعین نہیں کر سکے۔ کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کے تہذیبی تجربات اور حاصلات کو اس کے مخصوص فکری اور فلسفیانہ پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور جمہوریت کا نظام بھی چونکہ ایک مخصوص فکری رو کا نتیجہ اور اس کی پیداوار ہے جو اسلام کے نظام فکر سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے مغربی طرز کے جمہوری سیاسی نظام میں اسلام کی اجتماعی اقدار کی حقیقی عمل داری قائم کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال یہ گفتگو کا ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اقبال مغربی تہذیب کو کلیتاً مسترد کر دینے کے بجاے اس سے اخذ واستفادہ کے قائل تھے اور اہل مغرب کے تہذیبی وتمدنی تجربات کو اسلامی تصورات کے قالب میں ڈھالے جانے کو ایک قابل عمل اور مفید امکان خیال کرتے تھے۔

۲۔ اقبال کے طرز فکرکی ایک خصوصیت یہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے مسائل کے درست تجزیے اور ان کا حل تجویز کرنے کے ضمن میں کسی ایک مخصوص طبقے کو اجارہ دار نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ مختلف ومتنوع زاویہ ہاے نظر رکھنے والے، امت کے سارے طبقات کا مشترک مسئلہ ہے اور وہ سب کی فکری ونظری کاوشوں کو امت کا مجموعی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے خطبہ اجتہاد میں انھوں نے ترکی کے مسلمانوں کے ہاں فکری بیداری کے بعض نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اصولی طور پر اس رجحان کے پیدا ہونے کی تحسین کی اور لبرل طبقات کے ہاں ممکنہ فکری کجی کے حوالے سے خدشات ظاہر کرنے کے باوجود اسلام اور امت مسلمہ کی تشکیل نو کے ضمن میں ان سے اہم اور بنیادی کردار کی توقع وابستہ کی ہے۔

۳۔ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں اقبال نے بڑی صراحت کے ساتھ ’اجتہاد مطلق‘ کی دعوت دی اور اس حوالے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آزادئ فکر کو بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

The question which confronts him today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near futre is whether the Law of Islam is capable of evolution—a question answered in the affirmative, provided the world of Islam approaches it in the spirit of Umar—the first critical and independent mind in Islam who, at the last moments of the Prophet, had the moral courage to utter these remarkable words: ‘The Book of God is sufficient for us.’ (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 129)

’’جو سوال آج انھیں (ترکوں کو) درپیش ہے اور مستقبل قریب میں دوسرے مسلم ممالک کو بھی پیش آنے والا ہے، یہ ہے کہ کیا اسلامی قوانین میں ارتقا کی کوئی صورت ممکن ہے؟ یہ سوال شدید فکری کاوش چاہتا ہے اور یقیناًاس کا جواب اثبات میں ہوگا، بشرطیکہ ہم سوال کا ادراک اس انداز سے کریں جس انداز میں اس کی روح حضرت عمرؓ کے ہاں ملتی ہے جو اسلام میں پہلے تنقیدی اور طبع زاد ذہن کے حامل نقاد تھے اور جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں یہ قابل قدر الفاظ کہنے کی جسارت کی: خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘

(ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت)

...since things have changed and the world of Islam is confronted and affected today by new forces set free by the extraordinary development of human thought in all its sections, I see no reason why this attitude should be maintained any longer. Did the founders of our schools ever claim finality for their reasonings and interpretations? Never. The claim of the present generation of Muslim liberals to reinterpret the foundational legal principles, in the light of their own experience and the altered conditions of modern life is, in my opinion, perfectly justified. The teaching of the Qur’an that life is a process of progressive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems. (The Reconstruction, p. 133, 134)

’’اب چونکہ صورت حال بدل چکی ہے اور عالم اسلام کو ان نئی قوتوں کی طرف سے آج نئے مسائل وحوادث کا سامنا ہے جو انسانی فکر کے ہمہ جہت اور غیر معمولی ارتقاکی آفریدہ ہیں، لہٰذا مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اس طرح کا رویہ اپنائے رکھیں۔ کیا ہمارے ائمہ فقہ نے اپنے استدلال اور تعبیرات کے لیے قطعیت کا کبھی کوئی دعویٰ کیا تھا؟ بالکل نہیں۔ موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلام کے بنیادی اصولوں کی ازسرنو تعبیرات ہونی چاہئیں، میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے، خود اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر نسل کواپنے اجداد کی رہنمائی میں انھیں رکاوٹ سمجھے بغیر یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔‘‘

۴۔ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے حق کو مذہبی علما تک محدود رکھنے کے بجاے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہ نمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیارکر لیا گیا۔

۵۔ عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے اقبال نے ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے بجاے معروضی حقیقتوں سے ہم آہنگ ایک نیا قابل عمل اور مفید طریقہ تجویز کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truely manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members. (The Reconstruction, p. 126)

’’موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جومصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔‘‘

مذکورہ چند نکات سے دور جدید میں ریاست سے متعلق بنیادی سوالات ومسائل کے حوالے سے اقبال کا فکری رخ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

ریاست سے متعلق عصری مسائل پر فکر اقبال کی روشنی میں غور وفکر کی یہ بحث ادھوری اور تشنہ رہے گی اگر ہم اس سوال پر اپنی توجہ مرکوز نہ کریں کہ جن سوالات کا جواب اقبال نے آج سے پون صدی قبل مسلم ریاستوں کی آزادی سے بھی پہلے سوچ لیا تھا، ہم ابھی تک انھی سوالات سے کیوں نبرد آزما ہیں؟ ہمارے نزدیک اس ضمن میں درج ذیل نکات اہل علم ودانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں:

۱۔ فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے سب سے اہم پہلو جو بطور خاص ہماری توجہ کا مستحق ہے، وہ ہے اس ساری صورت حال میں سیکولر عناصر کا طرز فکر اور رویہ جو ہمارے خیال میں مذہبی شدت پسندی کی پیدایش کے اسباب و عوامل میں سے ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ جدید تہذیبی وسیاسی تبدیلیوں اور اہل مغرب کے سماجی تجربات سے بھرپور استفادہ کا قائل ہونے کے باوجود اقبال نے سیکولرزم یعنی ریاستی واجتماعی معاملات سے مذہب اور اہل مذہب کی بے دخلی کے نظریے کی کبھی تائید نہیں کی، بلکہ اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے، تاہم ہمارے ہاں سیکولر طرز فکر کے زیر اثر تربیت پانے والے مقتدر طبقات کا فکری وعملی رویہ دین اور ریاست کی جدائی ہی کے تصور کا مظہر رہا ہے جو بجاے خود جمہوریت کی اصل روح کے منافی اور معاشرہ وریاست کی تشکیل کی بنیاد اکثریت کی خواہش اور اعتقاد کے برعکس ایک محدود مگر مقتدر اقلیت کے خیالات وتصورات پر رکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے نہایت بلند پایہ سیکولر دانش ور بھی اس زمینی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں یا خود کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ مذہبی جماعتوں اوران کے مطالبات چاہے وہ بظاہر کتنے ہی خیالی، فرسودہ، غیر حقیقت پسندانہ اور عملی تقاضوں سے دور سمجھے جاتے ہوں کو حاصل اثر ورسوخ کا اصل راز عوام کی اسلام کے ساتھ گہری جذباتی اور اعتقادی وابستگی میں ہے۔ مذہبی طبقات اسی وابستگی کو معاشرتی اور سیاسی سطح پر اظہار بخشتے اوراس کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس کے مطالبات ومظاہر کا اپنے فہم کے لحاظ سے تعین کرتے ہیں۔ سیکولر حلقہ دانش یہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور ریاست میں مذہب او رمذہبی طبقات کے کردار کو محدود کرنے کے جس نقطۂ نظر کا وہ قائل ہے، اسے فکری بنیادوں پر اس ملک کے عوام سے تسلیم کرائے بغیر جس کی کامیابی کا اگر امکان بھی ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت طویل اور صبر آزما کام ہے اس تصور کو زبردستی معاشرے پر ٹھونس دے اور اگر یہ نہ کر سکے تو کم از کم ریاستی قوانین اور پالیسیوں میں مذہبی عنصر کے نمایاں اور موثر ہونے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی اور معاشرت میں مذہب کے کردار کی یہ تحدید عوام الناس نے قبول کر لی ہے اور کیا وہ مذہب کے اپنے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو کر سیکولر حلقے کی فکری دریافتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی راہنمائی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بالبداہت واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں، اس لیے کہ مذہب بنیادی طور پر انسان کے جس ذہنی وفکری اضطراب کو address کرتا ہے اور جس سے مطمئن ہو کر انسان اس دنیا میں اس کی راہنمائی کو ایک نہایت گہری نفسیاتی اور اعتقادی سطح پر قبول کرتا ہے، وہ دنیا کی مادی زندگی کے مسائل ومشکلات نہیں، بلکہ کائنات کی حقیقت ومعنویت، انسان کے مقصد وجود اور موت کے تصورات ہیں جن کا کوئی تشفی بخش جواب کسی غیر مذہبی مادی فلسفے کے پاس نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی فلسفہ ان سوالات کو انسان کے ذہن سے محو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کی ساری تگ وتاز کا ہدف بس یہ ہے کہ انسان اپنی توجہ ان سوالات سے ہٹا دے اور زندگی کے فوری نوعیت کے مسائل (immediate concerns) پر قانع ہو جائے۔ فرض کر لیجیے کہ مذہب، انسان کے توہم اور اس کی نفسیاتی ضرورتوں کی پیداوار ہے، لیکن وہ مادی کائنات سے ماورا ایک دنیا اور اس کے ایک مقتدر خالق اور پھر حیات بعد الموت کا تصور پیش کر کے بہرحال انسان کے نفسیاتی تقاضوں کا ایک ایسا جواب فراہم کرتا ہے جو چاہے غیرحقیقی اور خیالی کیوں نہ سمجھا جائے، انسان کے لیے اطمینان بخش ہے جبکہ محض مادی زندگی کے دائرے میں محدود کوئی بھی فلسفہ اس صلاحیت سے یکسرمحروم ہے۔ پھر یہ کہ عملی طور پر کائناتی قوتوں کے علم اور ان کی تسخیر او ر اس کے نتیجے میں انسان کے ذہنی اضطرابات اور پریشانیوں کے دور ہو جانے کا تصور ایک elitist تصور ہے جس سے بہت آسودہ حال اور مادی پریشانیوں سے بے نیاز افراد یا طبقے ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل معاش کی منصفانہ تقسیم کا سوال ابھی تک انسان کے لیے حل طلب ہے اور جمہوری اصولوں اور آزاد معیشت کے خود کار جادوئی کرشموں کا منظر ہر چند سال کے بعد پوری دنیا کو دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔

ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال لبرل حلقے کی طرف سے بے حد سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے کہ وہ زندگی اور اس کے مسائل کی توجیہ غیر مذہبی اساس پر کرنے اور مذہبی روایت اور اس کے نمائندوں کے کردار کو محدود ترکرنے کا جو نسخہ کیمیا (panacea) تجویز کر رہا ہے، ایک مسلمان معاشرے میں اس کی قبولیت کے عملی امکانات کتنے پائے جاتے ہیں۔ ہم پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ لبرل حلقے کے تمام تر جائز اور ناجائز تحفظات بلکہ کسی قدر تعصبات کے باوجود مذہبی شدت پسندی کا حل مذہب اور مذہبی عناصر کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے اور انھیں غیر موثر بنانے میں نہیں، بلکہ انھیں ایک حقیقی جمہوری فضا میں معاشرے اور اس کے مسائل کے حوالے سے مذہبی نقطہ نظر پیش کرنے اور معاشرے کی تعلیم وتربیت اور ملک وقوم کی اجتماعی پالیسیوں کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دینے میں ہے۔ مذہبی عناصر کا فہم اسلام یقیناًاس وقت قابل رشک نہیں اور وہ ملک وقوم کے حقیقی مسائل کے بارے میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، لیکن صورت حال ان طبقوں کے ہاں بھی زیادہ مختلف نہیں جو اس وقت طاقت و اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور مختلف معاشرتی طبقات کے بارے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں ان کے فہم وادراک میں بہتری آتی جائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے لگیں گے تو مذہبی عناصر کے لیے اس سے مختلف معیار وضع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ مذہبی عنصر کے لیے معاشرت، قانون اور سیاست کے میدان میں موثر کردار ادا کرنے اور ان دائروں میں ملکی وقومی پالیسیوں میں اس کی نمائندگی یا اثرات کو قبول کرنے سے انکار ایک خاص متعصبانہ اور تنگ نظر ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جو کسی طرح بھی قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے اور معاشرے میں رواداری اور انسانی وجمہوری قدروں کے فروغ میں مددگار نہیں، بلکہ اس کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔

۲۔ موجودہ نظام سیاست ومعیشت پر کلی عدم اطمینان اور اس کے خلاف بغاوت کا ذہنی رویہ دنیا پرمغرب کے عمومی استیلا اورمسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال سے پیدا ہونے والے احساس محرومی، عدم تحفظ اور فرسٹریشن کی پیداوارہے۔ اقتدار اور اختیار، انسان کے لیے ایک نفسیاتی اطمینان کا موجب ہوتا ہے اور یہ ذہنی سہارا موجود ہو تو افراد اور طبقات مختلف نوع کے خطرات اور چیلنجز درپیش ہونے کے باوجود frustration کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ یہ چیزیں بالعموم ان کے جذبہ عمل کو انگیخت کرنے کا باعث بنتی ہیں، لیکن طاقت اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ایک طرف احساس محرومی اور دوسری طرف اپنی پوزیشن کی کمزوری کا احساس خارجی خطرات کے حوالے سے انسان کو نہایت شدید طو رپر حساس بنا دیتا ہے اور ایسی صورت میں انسان عام طور پر نئی صورت حال کے امکانات اور مواقع کا مثبت طور پر جائزہ لینے کی صلاحیت سے کام لینے کے بجاے ہر معاملے کو تحفظاتی زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور معمولی اوربعض اوقات غیر حقیقی خطرہ سامنے آنے پر بھی لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دنیا کے سیاسی اور تہذیبی حالات میں تغیر آنے کے بعد مسلمانوں کے جو طبقات اس کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی ہم آہنگی پیدا کر چکے ہیں اور یقیناًبعض اوقات ایسا اپنی مذہبی اور تہذیبی روایت اور اپنے آزاد تشخص کی قیمت پر ہوا ہے ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جو طبقات اپنے مذہب اور اپنی تہذیب سے وابستگی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں جدید طرز معاشرت میں اپنے لیے کوئی موثر کردار ادا کرنے کے امکانات اورمواقع دکھائی نہیں دیتے، ان میں مزاحمت اور بغاوت کے رجحان کا پیدا ہونا ایک قابل فہم بات ہے۔

اس ذہنی کیفیت میں کوئی پائیدار تبدیلی لانے کے لیے تاریخ وتہذیب کے وسیع تر تناظر میں بعض بنیادی سوالات کو موضوع بحث بنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اہل مذہب کو آسمانی صحائف اور انسانی تاریخ کی روشنی میں دنیا میں قوت واقتدار اور سربلندی کے خدائی قوانین کا نیا فہم حاصل کرنا ہوگا۔ قریش، جنھیں خود خدا کے پیغمبر کی زبان نے حکومت واقتدار کی زمام سپرد کی تھی، ان کی قیادت وسیادت بھی اس بات کے ساتھ مشروط تھی کہ وہ دینی اوراخلاقی اعتبار سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیے رکھیں گے۔ قرآن مجید کے صریح بیان (ذلک بان اللّٰہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم) کی رو سے مسلم اقوام کا زوال ان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اسباب کے درجے میں یقیناًاس میں اغیار کی سازشوں نے بھی پورا پورا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ سازشیں خدا کی نصرت سے محرومی کا سبب نہیں بن سکتی تھیں جب تک کہ خود مسلمان اپنے اعمال سے اس کا جواز مہیا نہ کرتے۔ اب اگر مسلمانوں کو دنیا میں دوبارہ غلبہ نصیب ہوگا تو خدا کی اس سنت کے برخلاف نہیں بلکہ اس کے تحت ہی ہوگا۔ احادیث میں بیان ہونے والی پیش گوئیاں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن یہ مفروضہ، جس کا ہمیشہ کی طرح ان دنوں بھی مذہبی حلقوں میں بہت چرچا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی حالت کا لحاظ کیے بغیر محض ان کی زبوں حالی پر ترس کھا کر کسی ظاہر ہونے والے کو ظاہر اور کسی نازل ہونے والے کو نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، نہایت تباہ کن ہے۔ اپنی نااہلیوں کا مداوا خدائی فیصلوں میں ڈھونڈنے کا رویہ نہ پہلے کوئی نتیجہ پیدا کر سکا ہے اور نہ اب اس کا کوئی امکان ہے۔ دنیا میں سرفرازی اور سربلندی کسی قوم کا استحقاق نہیں، بلکہ خدا کا انعام ہے۔ اس باب میں بنی اسرائیل کی نفسیات اور مسلمانوں کی موجودہ مذہبی نفسیات کے مابین جو حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں، ان کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح یہ اس تصور بھی، جو درحقیقت ہماری کمزور اور بیمار نفسیات کی پیداوار ہے، بے حد نظر ثانی کا محتاج ہے کہ اسلام بحیثیت ایک عالمی مذہب کے صرف اسی صورت میں زندہ رہ سکتا اور مسلمان اس کی تبلیغ واشاعت کا فرض تبھی ادا کر سکتے ہیں جب انھیں دنیا میں سپر پاور کی حیثیت حاصل ہو۔ مسلمانوں کو دنیا کی تاریخ میں اور خود ان کی اپنی تاریخ میں وہ مثالیں بہ تکرار یاد دلانے کی ضرورت ہے جب علم واستدلال، اعلیٰ انسانی ومذہبی اخلاق، صبر وحوصلہ اور حکمت و تدبیر نے سیاسی طاقت کا سہارا لیے بغیر دشوار سے دشوار تر حالات میں یہ مقصد کامیابی سے حاصل کیا۔ صدیوں تک اسلام اور عالمی اقتدار کا باہمی تعلق ایک تاریخی واقعہ ہے نہ کہ کوئی مذہبی فریضہ۔ اللہ تعالیٰ نے آج تک دنیا میں کسی قوم کے ساتھ، حتیٰ کہ اپنی چنیدہ اور برگزیدہ قوم، ذریت ابراہیم کے ساتھ بھی ابد الآباد تک سیاسی سربلندی اور عالمی اقتدار کا اجارہ نہیں کیا۔ تاریخ بدلتی رہتی ہے اور خدا اپنی حکمتوں کے تحت یہ منصب دنیا کی مختلف قوموں کو دیتا رہتا ہے، چنانچہ دنیا میں اسلام کے کردار کو ایک مخصوص تاریخی سانچے سے نکال کر جدید تہذیبی حقائق کی روشنی میں ازسرنو دریافت اور متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

____________

B