الطاف احمد اعظمی
[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(۱)
جمہوریت ایک سیاسی نظام ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے اچھا طرز حکومت ہے، یعنی عوام کی اکثریت کی رائے سے حکومت کا بننا اور اس کا بگڑنا۔ اس نظام میں انفرادی آزادی اور شخصی مساوات کے تصورات کو جو اہمیت دی گئی ہے اس کی وجہ سے عہد حاضر میں اس کی طرف لوگوں کا میلان زیادہ ہے۔ بہت سے مسلم دانشور بھی اس طرز حکومت کے حامی ہیں۔
لیکن ہر دور میں اصحابِ علم کی ایک بڑی تعداد نے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، جمہوریت کو ناپسند کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں عوام کی حاکمیت اور مطلق آزادی کا تصور غیر عقلی اور باعثِ فساد ہے۔
آئیے دیکھیں کہ جمہوریت میں کون سی خوبیاں اور خامیاں ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہو کہ جمہوری نظام اور اسلام کے سیاسی نظام میں موافقت ہے یا مغائرت؟ لیکن اس سے پہلے جمہوریت کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینا ضروری ہے۔
موجودہ جمہوریت ارتقاء کے مختلف مدارج طے کرکے اس مقام تک پہنچی ہے۔ جمہوریت کا اوّلین گہوارہ یونان کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں (City states) تھیں۔ ان ریاستوں میں ایتھنز کی شہری ریاست زیادہ قابلِ ذکر ہے۔ اس جمہوری ریاست میں عوام کے منتخب نمایندے حکومت کرتے تھے۔ اس کے تمام شہری سماجی اور سیاسی اعتبار سے مساوی حیثیت رکھتے تھے اور ان کوا پنی شہری اور سماجی ذمّہ داریوں کا پورا احساس تھا۔ ایتھنز کے سب سے بڑے مدبّر پیرک لز (Perecles) نے اپنی مشہور ماتمی تقریر میں اس وقت کی جمہوریت کی جو تصویر کشی کی ہے اس میں حقیقی جمہوریت کے بنیادی خد وخال بالکل نمایاں ہیں۔ وہ کہتاہے:
’’ہمارا دستور جمہوری کہلاتا ہے، اس لیے کہ حکومت چند لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ پوری جماعت کے ہاتھ میں ہے۔ ذاتی جھگڑوں میں ہمارا قانون سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے اور انصاف کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑتا ہے اور ہماری رائے عامّہ زندگی کے ہر شعبے میں جہاں کار نمایاں کا موقع ہو، ہنر کی قدر کرتی ہے، کسی فرقے کی رعایت سے نہیں بلکہ کام کی خوبی دیکھ کر۔ ہم سیاسی زندگی میں ہرایک کو اپنا جوہر دکھانے کا موقع دیتے ہیں اور یہی اصول ہم اپنے روز مرّہ کے باہمی تعلقات میں برتتے ہیں۔ ہمارا ہم سایہ اپنے مذاق کے مطابق خوشی منائے تو ہم اسے نہ تیکھی نظروں سے دیکھتے ہیں نہ برا بھلا کہتے ہیں۔ ہم ان چھوٹی چھوٹی بد تمیزی کی حرکتوں سے پرہیز کرتے ہیں جن کی چوٹ چاہے دکھائی نہ دے مگر جن کے دل پر لگتی ہے انھیں دکھ دیتی ہے۔ ملنے ملانے میں ہم بے ریا اور با مروّت ہیں۔ مگر ہم اپنی ریاست کے انتظامی معاملات میں سختی سے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔ جو برسرِ اقتدار ہو ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ قوانین کی اطاعت کرتے ہیں، خصوصاً ان کی جو مظلوموں کی حمایت میں بنے ہوں اور اس اخلاقی معیار کا بہت پاس رکھتے ہیں جس کی خلاف ورزی باعثِ شرم و ندامت ہے۔‘‘ ۱
ان خوبیوں کے باوجود یونان کی جمہوریت ناقص تھی، اس میں آفاقیت (Universality) کی روح موجود نہ تھی۔ صرف ریاست کے شہری طبقہ کو اس سے مستفید ہونے کا حق حاصل تھا اور وہ بھی ان ہی لوگوں کو جو ریاست کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں، حالاں کہ یہ طبقہ عددی اعتبار سے اقلیت میں تھا۔ جو لوگ ریاست کے پیدائشی باشندے نہیں تھے ان کو اور غلاموں کو کوئی قانونی استحقاق حاصل نہ تھا، حالاں کہ وہ اکثریت میں تھے۔ بہر حال یونان میں جمہوریت اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ایک طویل مدت تک موجود رہی۔
یونان کے بعد روم دوسرا ملک تھا جس نے جمہوری روایات کو آگے بڑھایا۔ رومی ریاست نے جمہوریت میں دو چیزوں کا اضافہ کیا۔ ایک یہ قانونی اصول کہ جمہور کی مرضی (Popular consent) ہی تمام سیاسی قوتوں اور فیصلوں کی بنیاد ہے، دوسرے یہ کہ تمام انسان مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ رومیوں کے نظریہ کے مطابق ریاست کی حیثیت ایک اخلاقی برادری (Moral community) کی تھی اور ملکی قانون کے مطابق اس کی یہ ذمّہ داری تھی کہ وہ کسی طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر شخص اور ہر طبقہ کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرے۔
رومی ریاست کے زوال کے نتیجے میں جس نے یورپ کو سیاسی انتشار میں مبتلا کردیا، جمہوریت اور اس کی روایات ایک مدت کے لیے پسِ پشت چلی گئیں۔ چرچ جو انسانی مساوات (Human brotherhood) کے نظریے میں یقین رکھتا تھا اورجس کے دروازے تمام انسانوں کے لیے کھلے ہوئے تھے، جمہوری قدروں کی پاسبانی کرسکتا تھا، لیکن اس نے یہ کام نہیں کیا۔
ایک طویل عرصہ کے بعد یعنی سولہویں صدی میں اس وقت یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ ایک بار پھر مغرب میں جمہوری عمل کا آغاز ہوگا جب مارٹن لوتھر (۱۴۸۳۔۱۵۴۶) کی تحریکِ اصلاحِ کلیسا کے نتیجے میں پاپائے اعظم کے اقتدار کا محل زمیں بوس ہوگیا اور جاگیرداری نظام کے زوال کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔
لیکن یہ امید، امیدِ موہوم ثابت ہوئی۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئی قومی ریاستیں وجودمیں آئیں ان پر مطلق العنان بادشاہی (Absolute monarchy) کا تسلّط قائم ہوگیا۔ خدائی اختیارات کے مالک بادشاہوں (Divine rights kings) نے حکومت کے تمام اختیارات اور وسائل کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ایک مرکزی انتظامی نظام کے تحت ساری قوم پر آمرانہ تسلّط قائم کرلیا۔ ان بادشاہوں نے عیّاری سے کام لے کر دینی اور دنیوی دونوں طاقتوں کو خود اپنی ذات میں جمع کرلیا تھا۔ وہ خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جواب دہ نہ تھے، انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کسی شخص یا گروہ کو بادشاہ کے ظلم و ستم کے خلاف آوازبلند کرنے کا حق حاصل نہ تھا۔ اس ظلم و زیادتی میں بادشاہ کے ساتھ چرچ بھی شریک تھا۔ آزادی کی ہر آواز کو کچلنے میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز تک یہی صورت برقرار رہی اور جمہوریت کی حمایت میں اٹھنے والی ہر آواز کو آمریت کے بھاری قدموں کے نیچے روند ڈالا گیا۔
انگلستان وہ پہلا ملک ہے جہاں سب سے پہلے جمہوری عمل کا آغاز ہوا۔ ۱۶۸۸ کے انقلاب میں خدائی اختیارات کی مالک بادشاہی پر بندشیں عائد کی گئیں اور رفتہ رفتہ پارلیمنٹ کا اقتدارِ اعلیٰ بحال ہوا۔ پہلی بار آبادی کے ایک بڑے حصے کو حکومت سازی کے حقوق حاصل ہوئے اور عوام کے منتخب نمایندوں کو موروثی شرف و فضیلت کے حامل امراء (Lords) پر برتری حاصل ہوئی۔ اس انقلاب میں تاجر طبقہ یعنی بورثوا پیش پیش تھا، کیوں کہ انفرادی آزادی کا جمہوری اصول ان کے لیے بے پناہ کشش رکھتا تھا۔
فرانس ابھی تک طبقۂ امراء کی مطلق العنانی اور اس کی زیادتیوں کا شکار تھا اور جب بھی جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے کوئی تحریک اٹھی تواس کو طاقت کے بل پر دبادیا گیا۔ لیکن بغاوت کی آگ برابر دلوں میں سلگتی رہی اور بالآخر ۱۷۸۹ء میں وہ انقلاب برپا ہوگیا جو تاریخ میں انقلابِ فرانس کے نام سے مشہور ہے۔ اس انقلاب سے فرانس میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا اورا نسانی حقوق کے صحیح تصور سے لوگ آشنا ہوئے، جو تاریخ کے صفحات میں آج بھی منشورِ حقوقِ انسانی (Declaration of human rights) کی شکل میں موجود ہے۔۲
اس منشور میں انسان کے فطری حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ تمام لوگوں کی ملکیت ہیں، ان پر کسی مخصوص گروہ کا اجارہ نہیں ہوسکتاہے۔ ان فطری حقوق میں ضمیر اور اظہار رائے کی آزادی، مساوات اور جمہور کی فرماں روائی (People sovereignty) اور ہر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق جیسے امور شامل تھے۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ انقلاب فرانس کے نتیجے میں ہول ناک خوں ریزی اور بے پناہ ظلم و سفّاکیت کے واقعات پیش آئے۔ اس کا سب سے الم ناک پہلو یہ ہے کہ جمہوری انقلاب جلد ہی دوبارہ مطلق العنانی میں تبدیل ہوگیا۔ لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس انقلاب نے انفرادی آزادی اور حاکمیتِ عوام کے تصوّرات کی جو شمع روشن کی تھی اس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑی اور دنیا کی متعدد اقوام نے اس سے استفادہ کرکے جمہوری روایات کو آگے بڑھایا ہے۔
جمہوریت۳ (Democracy) دو یونانی لفظوں ‘Demos’ اور ‘Cratea’ سے مرکب ہے۔ اس کے معنی بالترتیب عوام اور طاقت کے ہیں۔ گویا جمہوریت اس نظامِ حکومت کو کہتے ہیں جس میں اقتدار یا قوت عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں عوام ہی فرماں روا ہوتے ہیں۔
ارسطو (۳۸۴۔۳۲۲ ق م)نے جمہوریت کے ذکر میں لکھا ہے کہ اس میں اربابِ حلّ وعقد (Magistrates) کے انتخاب میں افراد کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے اور ان میں غریب بھی ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف مطلق العنان حکومت میں صرف امراء حکومت کرتے ہیں اور یہ تعداد چند افراد تک محدود ہوتی ہے۔۴
جمہوریت کی سب سے عمدہ تعریف وہ ہے جو ابراہم لنکن (۱۸۰۹۔۱۸۶۵) کی طرف منسوب کی جاتی ہے، یعنی:
“Government of people, by the people, for the people”
’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ، اور عوام کے فائدے کے لیے۔‘‘
جمہوریت کی یہ تعریف محض اس کے ایک پہلو کی وضاحت ہے۔ بعض اصحابِ علم کے نزدیک جمہوریت ایک سماجی فلسفہ ہے اوراس لحاظ سے اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ انسانی شخصیت (Human personality) کا احترام ہے اور اس احترام کا مستحق سماج کا ہر فرد ہے۔ اس احترام میں پیدائش، امارت اور سماجی حیثیت کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔
حاکمیتِ عوام، مساوات اور انفرادی آزادی جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ انہی عناصرِ ثلاثہ سے مل کرجمہوریت کا پیکر بناہے۔ اگر ان میں سے ایک عنصر بھی غائب ہوجائے تو اس سے جمہوریت کا حسن مجروح ہوگا، اور اگر تینوں ہی عناصر موجود نہ ہوں تو پھر وہ جمہوریت نہیں آمریت اور ملوکیت ہے۔ جمہوریت کے عناصرِ ثلاثہ کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
یہ جمہوریت کا سنگِ بنیاد ہے۔ جمہوریت میں عوام ہی ملک کے اصلی فرماں روا ہوتے ہیں۔ ان ہی کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ جن لوگوں کو چاہیں اقتدار کی مسند پر بٹھائیں اورجن کو نہ چاہیں انھیں اس سے محروم کردیں۔ ان کی مرضی کے بغیر نہ کوئی حکومت بن سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون منظور ہو سکتا ہے۔ غرض یہ کہ عوام ہی ملک و حکومت کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔
انفرادی آزادی: یہ جمہوریت کی روح ہے۔ جمہوری حکومت میں ہر شخص کو اس بات کی آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ جو مذہب یا عقیدہ رکھنا چاہے اس کو رکھ سکتا ہے۔ کسی شخص یاجماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے عقیدہ و مذہب میں مداخلت کرے۔ اسی طرح ہر شخص کو اجتماع، جماعت سازی اور اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے۔ جمہوری ریاست کے ہر فرد کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ حکومت پر تنقید اور اس کے کار پردازوں کا محاسبہ کرے تاکہ ان کی کج روی کا سدِّ باب ہو۔
ہر مذہبی گروہ کو اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اصول و نظریات کے مطابق اپنے مذہبی رسوم و رواج ادا کرے اور ملکی قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت اور اپنی تہذیب و کلچر کو فروغ دینے کے لیے کوشش کرے۔ اسی طرح ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق پیشہ اختیار کرنے، تجارت کرنے اور اس سے نفع حاصل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ یہ حق بھی اس کو حاصل ہے کہ وہ اپنی محنت کی جائز کمائی سے ذاتی ملکیت بنائے اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس میں اضافہ کرے۔ جب تک ایک فرد کی آزادی ریاست کی سلامتی یا کسی دوسرے فرد کی آزادی کے لیے خطرہ نہ بنے، حکومت کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
طبقاتی حقوق (Class privileges) کے دور میں انسانوں کو پیدائش کے لحاظ سے مساوی حیثیت حاصل نہیں تھی بلکہ عزت واحترام اور حقوق کے لحاظ سے انھیں اشراف و اجلاف کے خانوں میں بانٹ دیا گیا تھا اور یہ انسانیت کی تذلیل کے مترادف تھا۔ اس لیے جمہوریت میں اس بات پر کافی زور دیا گیا ہے کہ سماج کے تمام افراد باعتبارِ پیدائش مساوی ہیں، نسل ورنگ، ذات پات اور جائے پیدائش کے لحاظ سے ان کے درمیان کسی قسم کا امتیازی سلوک جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔
مساوات کا یہ مطلب بھی ہے کہ سماج کا ہر فرد قانون کی نظر میں یکساں ہے، ان میں کسی طرح کی تفریق ممنوع ہے، اور ہر شخص کو مذہب اور رنگ ونسل کے امتیاز کے بغیر یکساں ترقی کے مواقع حاصل ہیں۔ ہندوستان کے پہلے مدبّر سیاست داں اوروزیر اعظم جواہر لال نہرو (متوفی ۱۹۶۴ء)نے اپنی متعدد تقریروں اور کتابوں میں جمہوریت پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں:
’’آج دنیا کے مختلف ملکوں میں خواہ حکومت کی کوئی شکل و صورت (Form) ہو، اس بات کو تسلیم کیا جاتاہے کہ سماجی مساوات ایک ایسا مثالی نمونہ ہے جس کو مطمحِ نظر بنانا چاہیے اوراس کے حصول کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔ لیکن سماجی مساوات کا مطلب مطلق مساوات نہیں بلکہ اس سے مراد یکساں مواقع ہیں۔ یہ جمہوریت کا ایک لازمی حصّہ ہے۔‘‘۵
یکساں مواقع (Equal opportunities) کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص کولازماً یکساں ترقی کرنا چاہیے۔ ہر شخص کی ترقی کی سطح اس کی ذاتی استعداد پر منحصر ہے۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو قدرت کی طرف سے جو صلاحیتیں ملی ہیں ان کو وہ کسی روک ٹوک کے بغیر نشو ونما دے کر حدِّ کمال تک پہنچا سکے۔ ترقی کے مواقع صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہونے چاہئیں جو موروثی حیثیت یا معاشی قوت کے بل پر دوسروں کو مغلوب کرسکتے ہیں۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر شخص کو ایک بہتر زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح یہ ممکن ہے کہ سماج کا ہرفرد اپنی فطری صلاحیتوں سے ریاست کو فائدہ پہنچائے اور خود بھی مسرتوں سے بہرہ اندوز ہو۔
جمہوریت میں نظری حیثیت سے عوام ہی کو حکومت کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں کہ ہر شخص حکومت کرے، اس لیے جمہوریت میں یہ قاعدہ رکھا گیا ہے کہ عوام انتخاب کے ذریعے سے اپنے حقِّ فرماں روائی کو اپنے نمائندوں یعنی ملک کی کسی ایک سیاسی جماعت کو تفویض کردیں جو ان کی مرضی کے مطابق حکومت کا نظم و نسق چلائے۔ چنانچہ جس جماعت کو عوام کی اکثریت کی تائید وحمایت ملتی ہے اس کو حکومت کی کرسی پر بیٹھنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ گویا جمہوریت میں اکثریت کی حکومت کا قاعدہ چلتا ہے۔ جو سیاسی جماعت اقلیت میں ہوتی ہے وہ اکثریت کے حریف (حزبِ اختلاف) کی حیثیت سے کام کرتی ہے، یعنی اس کا کام حکومت پر تنقید کرنا اور اس کے غلط فیصلوں کے نتائج سے عوام کو آگاہ کرکے اگلے انتخاب میں اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
کوئی نظام حکومت ہو اس میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں اور اس سے جمہوری حکومت بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہلِ علم اور اربابِ سیاست نے جمہوریت پر تنقید کی ہے اور اس کے بعض اصولوں کو غلط بتایا ہے۔
مثلاً ارسطو نے آزادی اور مساوات کے جمہوری تصورات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علمی اور عقلی سطح پر آسانی کے ساتھ ان دونوں تصوّرات کی تشریح کی جاسکتی ہے لیکن تجربی سطح پرایسا کرنا مشکل ہے۔ آزادی اور مساوات کسی سماج میں کیوں کر ممکن ہے؟ آزادی کا تصور نظم و ضبط کے تصور سے متصادم ہے، دوسرے لفظوں میں وہ ایک متعیّن طرزِ حیات کی نفی کرتا ہے۔ اسی طرح مساوات کا تصور نظمِ بزرگاں (Hierarchy)، عمدگی اور خود انصاف کے خلاف ہے۔۶
تصوّرِ مساوات کی وضاحت میں ارسطو نے پیرانڈر (Perander) کی رائے نقل کی ہے جو امبریشیا (Ambracia) کا ایک ظالم حکم راں(Tyrant) تھا ۔ جب تھراسائی بولس (Thrasybulus) نے پیرانڈر سے مشورتاً پوچھا کہ اس کی ریاست میں ممتاز افراد نے جو شورش برپا کر رکھی ہے اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟ تو اس نے جواب میں ایک لفظ نہیں کہا بلکہ اس کے سامنے میدان میں غلّے کی جو فصل کھڑی تھی اس کے ان خوشوں کے سر اس نے کاٹ لیے جو دوسرے خوشوں سے نمایاں تھے۔ اس سے تھراسائی بولس نے یہ سمجھا کہ اسے اپنی ریاست کے ممتاز افراد کے سر کاٹ لینے چاہئیں۔۷
ارسطو اصولی حیثیت سے آزادی کا حامی تھا، لیکن مطلق آزادی کے تصور کا مخالف تھا۔ اس کے نزدیک ایک جمہوری سماج میں آزادی کا مطلب قانون کے اندر آزادی (Freedom within the law) ہے۔۸
لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ زیادہ تر جمہوری ملکوں کے لوگ اس آزادی کا مطلب مطلق آزادی سمجھتے ہیں، بالخصوص وہ لوگ جن کا تعلق عددی اعتبار سے غالب طبقہ سے ہوتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ اہلِ مغرب بھی جن کو جمہوریت اور اس کی بنیادی قدروں پر بڑا ناز ہے، اس فکری بے اعتدالی سے محفوظ نہیں ہیں، اور اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر عہد حاضر کے کئی ایک سیاسی مفکرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جمہوریت ہی میں کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے، دوسرے لفظوں میں مقتضیاتِ زمانہ کا ساتھ نہ دے پارہی ہو۔۹
آزادی کے تصور کا ایک دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں سیاسی آزادی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اورمعاشی آزادی سے بڑی حد تک صرفِ نظر کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سماج کا ایک بڑا طبقہ سیاسی آزادی کے باوجود ترقی اور خوش حالی سے محروم رہتاہے۔ آمریت کی طرح جمہوریت میں بھی دولت ملک کے معدودے چند افراد یاخاندانوں میں محدود رہتی ہے اور یہی لوگ پسِ پردہ حکومت پراثر انداز ہوکر اس کی معاشی پالیسی کو اپنے حق میں وضع کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ پہلے سے امیر ہوتے ہیں وہ اور زیادہ امیر ہوجاتے ہیں اور غریب طبقہ کی غربت میں ان کی ترقی کی بہ نسبت اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے جواہر لال نہرو فرماتے ہیں:
’’لفظ جمہوریت کے بارے میں گفتگو کرنا کچھ اچھا نہیں ہے، یا کسی خاص طرزِ حکومت (Form of governance) کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ سب سے اچھا، ناقابلِ تغیّر اور تنقید سے بالاتر ہے، کچھ مفید نہیں ہے۔ دراصل ہمیں اساس کولینا چاہیے۔ اس کی بنیاد دراصل افراد اور جماعت دونوں کی ترقی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ افرادکو زیادہ اہمیت دینا چاہیے، کیوں کہ اسی طریقے سے جماعت خوش حال ہوسکتی ہے۔ کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ جماعت (مراد ریاست) خوش حال ہوگی تو افراد بھی خوش حال ہوں گے۔
بہرحال کوئی بھی طرزِحکومت ہو، اصل چیز جو مقصود ہے وہ لوگوں کی فلاح وبہبود ہے اوراس فلاح میں پہلی چیز مادّی فلاح ہے، یعنی بھوک اورافلاس سے آزادی۔ اس لیے کہ جب تک کوئی شخص معاشی دباؤ سے آزاد نہیں ہوجاتا اس سے آگے بڑھنے کی توقع کرنا فضول ہے۔‘‘۱۰
وہ مزید فرماتے ہیں:
’’معاشی دباؤ کے تحت سیاسی آزادی ایک بہت محدود آزادی ہے۔ اس لیے کہ انسان اسی وقت ترقی کرسکتاہے اور اس کی فطری صلاحیتیں نشو ونما پاسکتی ہیں جب کہ وہ معاشی اور دوسرے طرح کے دباؤ سے بالکل آزاد ہوجائے۔ انسان کی تخلیقی صلاحیت غربت وفاقہ کی حالت میں کیوں کر ترقی کرسکتی ہے، خواہ اس کوووٹ کا حق حاصل ہو۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر بعض لوگ سیاسی آزادی سے زیادہ معاشی فلاح پر زور دیتے ہیں،۱۱ خواہ اس کے عوض سیاسی آزادی سے دست بردار ہونا پڑے۔ اس حل سے دوسری مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ لوگ فی الواقع چاہتے ہیں کہ لوگ ترقی کریں اور انھیں ترقی کے مواقع حاصل ہوں تو اس کے لیے معاشی آزادی کے ساتھ سیاسی آزادی بھی ضروری ہے۔‘‘۱۲
دوسری آزادیوں کے علاوہ جن میں عقیدہ و ضمیر کی آزادی بھی شامل ہے، اظہارِ رائے کی آزادی جمہوریت کی ایک بڑی خوبی ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں ہر شخص کو غور وفکر اور بحث ومباحثہ کی آزادی حاصل ہوتی ہے، وہ جس خیال کو صحیح سمجھتا ہے اس کو کسی خوف اور اندیشے کے بغیر ظاہر کرسکتاہے۔ اس میں مخالف رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس طرزِ عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صحیح نقطۂ نظر کو غالب آنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح افراد اور جماعت (ریاست) دونوں غلط نقطۂ نظر کے نقصانات سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ بہت سے اہلِ علم نے جمہوریت کی اس غیرمعمولی خوبی کو سراہا ہے۔۱۳
لیکن اظہارِ رائے کی یہ آزادی اسی وقت تک مفید ہے جب تک وہ قانونی حدود کی پابند ہو۔ قانونی حدود سے تجاوز کرنے کے بعد یہ آزادی فتنہ و فساد کا ایک بڑا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ہندوستان میں ہندو فرقہ پرست جماعتوں کی طرف سے اس ملک کی اقلیتوں کے ساتھ جو نازیبا سلوک کیا جاتا ہے اوران کے خلاف ہر طرح کی زہر افشانی کی جاتی ہے وہ آزادی کے غلط استعمال کی ایک واضح مثال ہے۔
اس معاملے میں مغربی ممالک کا رویّہ بھی غیر جمہوری ہے، حالاں کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے سب سے بڑے علم بردار ہیں اوراظہار رائے کی آزادی کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ لیکن وہ دوسروں بالخصوص مسلمانوں کے معاملے میں اکثراس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خاص و عام سب اسلام اور اس کے پیغمبر پراس حد تک جارحانہ تنقید کرتے ہیں کہ وہ بسا اوقات تہذیب و شائستگی کی حدوں سے تجاوز کرکے تذلیل واہانت کی حد میں داخل ہوجاتی ہے۔ جب مسلمان ان کی اِس ناشائستہ حرکت پر احتجاج کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے قائل ہیں۔ برطانوی قانون میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تنقید ممنوع ہے لیکن اسلام کے پیغمبر پر تنقید ہی نہیں ان کی تذلیل کی ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟
مغرب کا یہ منافقانہ رویّہ اس وقت بالکل کھل جاتا ہے جب کوئی شخص ہولوکاسٹ پر تنقید کرتا ہے اور اس کی تاریخی حیثیت کو معرضِ بحث میں لے آتا ہے۔ ایسے شخص کو نہ صرف مطعون کیا جاتا ہے بلکہ بعض مغربی ملکوں میں اس تنقید کی سزا قید وبند ہے۔ یہ کیسی اظہارِ رائے کی آزادی ہے؟ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ہولوکاسٹ جس میں کہا جاتا ہے کہ ۶۰ لاکھ یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعہ ہے اورابھی ثبوت کا محتاج ہے۔ خیال و عمل میںیہ فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ مغرب اپنی تمام روشن خیالی اور وسیع المشربی کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی اور متعصبانہ اور غیر جمہوری رویّہ رکھتا ہے۔
جمہوریت کے عملی نقائص میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں سارے لوگ خواہ خواندہ ہوں یا ناخواندہ، انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نااہل افراد بھی محض عیّاری یا سرمائے کے بل پر منتخب ہوجاتے ہیں۔برطانوی فلسفی جان اسٹوارٹ مل (م ۱۸۷۳) جو نمایندہ جمہوریت (Representative democracy) کا زبردست حامی تھا، لکھتاہے:
’’جمہوریت بلاشبہ ضروری اور لازمی چیز ہے لیکن یہ اپنے اندر کچھ برائیاں بھی رکھتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں اکثریت بالعموم معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو حکم رانی کے لیے منتخب کرتی ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ آزادی، اصلیت (Originality) اور لامرکزیت (Decentralization) کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘۱۴
جمہوریت کے بعض دوسرے عملی نقائص بھی ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔
جمہوریت کے ان نقائص کے باوجود جن کا اوپر ذکر ہوا، تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ آمریت کے مقابلے میں بہتر طرزِ حکومت ہے۔ آمریت میں انسان کے فطری حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں اور چند لوگ حاکم اور انسانوں کی کثیر تعداد ان کی محکوم ہوتی ہے۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں ان پر حکومت کرتے ہیں، حتّی کہ ظلم و ستم سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جمہوریت میں نہ صرف انسان کے فطری حقوق کا لحاظ کیا جاتا ہے بلکہ وہ آمروں کے ظلم و ستم سے بھی محفوظ ہوجاتے ہیں، کیوں کہ زمامِ حکومت عام لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہی اپنے حکم راں کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کو معزول کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ بلا شبہہ یہ چیزجمہوری طرزِحکومت کی ایک بڑی خوبی ہے جو کسی اور دنیوی نظام میں موجود نہیں ہے۔ سوامی ناتھن لکھتے ہیں:
“Why, despite all this, do we regard democracy as th best political system? Because it is grounded in choice for the ordinary man, and freedom to chooze is a permanent virtue that makes other freedoms possible. In democracies, the ruler is choozen by ordinary citizens and voted out by them too.”۱۵
’’ان سب (نقائص) کے باوجود ہم کیوں جمہوریت کو ایک عمدہ سیاسی نظام خیال کرتے ہیں؟ اس لیے کہ اس کی بنیاد عام لوگوں کی پسند پرقائم ہے، اور انتخاب کی آزادی ایک ایسی دائمی خوبی ہے جو دوسری آزادیوں کے حصول کو ممکن بناتی ہے۔جمہوریت میں عوام اپنے فرماں روا کا انتخاب کرتے ہیں اور وہی ان کو کرسیِ اقتدار سے ہٹا دیتے ہیں۔‘‘
اس معاملے میں سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل (م ۱۹۶۵ء) کی رائے زیادہ صائب ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جمہوریت کوئی مثالی نظام (Ideal system) نہیں ہے لیکن دوسرے سیاسی نظامات اس سے زیادہ برے ہیں۔۱۶ اس خیال سے اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے۔
کیا جمہوریت اور اسلام میں مطابقت ہے؟
جمہوریت میں حکومت سازی کے عمل میں عوام کی شرکت اوراس معاملے میں ان کی فیصلہ کن حیثیت، نیز سماجی مساوات اور سیاسی و معاشی آزادی کے تصوّرات کی خوبیوں کو دیکھ کر بہت سے مسلم اصحابِ علم کا خیال ہے کہ اسلام اور جمہوریت میں مطابقت پائی جاتی ہے اور وہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس کو اختیار کرنے میں مذہب اسلام کے نقطۂ نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس معاملے میں ہمارے بعض علماء نے کچھ زیادہ ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ علامہ رشید رضامصری نے خلافت راشدہ کو جمہوریت ہی کی ایک شکل قرار دیا ہے۔۱۷
علامہ شبلی نعمانیؒ نے اپنی معروف کتاب ’الفاروق‘ میں کئی مقامات پر جمہوریت اور سوشلزم کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ اس سے ان کا مقصود یہ دکھانا ہے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی مغائرت نہیں ہے۔ لکھتے ہیں:’’حضرت عمرؓ نے خلافت کے متعلق جو تقریر کی تھی وہ در حقیقت حکومتِ جمہوری کی اصلی تصویر ہے اورحکومت جمہوری کی حقیقت آج بھی اس سے واضح تر وصحیح تر نہیں بیان کی جاسکتی۔‘‘۱۸
اس معاملے میں بعض مسلم دانشوروں نے غلو کی حد تک جمہوریت اور اسلام میں مطابقت کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں:
’’حیرت ہے کہ لوگ اس طرح کی جمہوریت رکھنے والے اسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلام کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں حالاں کہ جمہوریت کے خلاف بولنا دراصل اسلام کے خلاف بولنا ہے، جمہوریت کے خلاف بولنا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بولنا ہے۔‘‘۱۹
لیکن کئی معروف مسلم دانشور اور علماء جمہوریت کے ناقد ہیں اور بعض جزوی مشابہتوں کے باوجود اسلام اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں دیکھتے بلکہ کہتے ہیں کہ بعض معاملات میں جمہوریت اسلام سے صریحاً متصادم ہے۔
علامہ اقبال (م ۱۹۳۸ء)جمہوریت کے شدید مخالف تھے۔ انھوں نے اپنی نظم و نثر دونوں میں اس تصورِ حکومت کی نفی کی ہے۔ ان کی مشہور نظم ’خضرِراہ‘ کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتاہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس، الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زر گری
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھاہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو۲۰
اقبال کا خیال ہے کہ جمہوریت دراصل سرمایہ داروں کے ذہن کی پیداوار ہے تاکہ وہ انفرادی آزادی کے جمہوری تصور کے پردے میں کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی تجارت کو فروغ دیں اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرکے خوب عیش کریں۔
اقبال کا یہ بھی خیال ہے کہ جمہوریت ملوکیت ہی کی ایک تبدیل شدہ صورت ہے۔ اس کا ظاہر بلاشبہ حسین اور جاذبِ نظر ہے لیکن اس کا باطن تاریک اور بڑا ہی خوف ناک ہے۔ ان کی مشہور نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانیِ جمہور کا غوغا کہ شر؟
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر
پہلا مشیر
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہواہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اورہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر۲۱
اقبال جمہوریت کو احمقوں کی حکومت سمجھتے تھے کیوں کہ اس میں ایک جاہل اور عالم دونوں انتخابِ حکومت میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۲۲
گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانی نمی آید
معلوم ہے کہ جمہوریت میں مذہب ایک انفرادی معاملہ ہے، ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور اقبال کے نزدیک ریاست اور مذہب میں جدائی ممکن نہیں، کیوں کہ مذہب کی رو سے خدا ہی حاکم اعلیٰ ہے اور بندوں کو اسی کے قانون کی اطاعت کرنی ہے، جب کہ جمہوریت میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس میں خدا کے بجائے عوام ہی حاکم اور قانون ساز ہوتے ہیں۔ اقبال ہر اس سیاسی نظام کو جس میں مذہب کو قیادت کا مقام حاصل نہ ہو، چنگیزی حکومت قرار دیتے ہیں
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۲۳
اقبال نے اپنے بعض مضامین میں بھی جمہوریت کے بارے میں اپنے ذہنی تحفّظات کا اظہار کیا ہے۔ معروف مغربی دانشور ینگ ہسبینڈ کے ایک مضمون پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ ’’جمہوریت کے ساتھ جھگڑے اور فساد لازم و ملزوم ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ جمہوریت کامل سیاسی سکون کی ضامن ہے تو وہ دنیا کی تاریخ سے بالکل ناواقف ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جمہوریت میں ایسی تمام خواہشات اور شکایات کو پھر سے ابھرنے کا موقع ملتا ہے جنھیں شخصی حکومت کے دور میں دبا دیا گیاہو یا پورا نہ کیا گیا ہو۔ جمہوریت ایسی آرزوؤں اور تمناؤں کی موجد ہوتی ہے جو بسا اوقات ناقابلِ عمل ہوتی ہیں۔‘‘۲۴
ہندوستان کے معروف عالم اور مفسّرِ قرآن علامہ حمید الدین فراہیؒ (م ۱۹۳۰ء) اشتراکیت۲۵ اور جمہوریت دونوں کے منکر تھے۔ وہ جمہوریت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’فوضی (ایسی حکومت جس میں سب کی حیثیت مساوی ہو) عربوں کے نزدیک ایک ناپسندیدہ طریقۂ حکومت تھا اور اسے وہ احمقوں کی حکومت قرار دیتے تھے لیکن اس وقت مغرب میں بہت سے لوگ اس طرز حکومت کے داعی و مبلّغ ہیں اور اس سے عوام کو گم راہ کرتے ہیں، مگر یہ طریقہ بھی پہلے طرزِ حکومت کی طرح فتنہ اور نظام انسانی کی شکست و ریخت کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اطیعوااللّٰہ و اطیعوا الرسول واولی الامر منکم (سورۂ نسآ:۵۹) ’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اورجو تم میں صاحب امر ہوں ان کی بھی۔ دوسری جگہ ہے: وامرہم شوریٰ بینہم (شوریٰ: ۳۸) ’’اور ان کے معاملات باہم مشورہ سے انجام پاتے ہیں۔‘‘۲۶
مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م ۱۹۹۸ء) کا بھی خیال تھا کہ جمہوریت اسلام کے بالکل برخلاف تصور حکومت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’تاریکی اور روشنی میں، رات اور دن میں، بدی اور نیکی میں جو فرق ہے وہی جمہوریت اور اسلام میں ہے۔ آپ فلسفہ کی رو سے بھی غور کرلیں۔ آپ جمہوریت کی تعریف کریں۔ عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ سے، عوام کی بہبود کے لیے، یہی تعریف ہے آپ کسی جگہ پڑھ لیجیے۔ اسلام میں اللہ کی حاکمیت، اللہ کی حکومت، اللہ کے قانون کے ذریعہ سے، اللہ کے ماننے والوں کے لیے، موٹی سی یہ تعریف ہے، کہیں پڑھ لیں۔ اب ان دونوں میں ذرا جوڑ ملائیے۔ ہے کوئی جوڑ ملتا ہوا، کوئی تک ہے۔‘‘
جمہوریت کی نمائش کی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں اور امریکنوں نے ایک نظام چلا کر ساری دنیا کو مبہوت کردیا ہے، لیکن حالت کیا ہے۔ آپ یقین کریں کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی بڑی بڑی لابیاں ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں تمام پبلسٹی کے ذرائع ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے ماہر ان کے ملازم ہوتے ہیں اور وہ جس شیطنت کو پھیلانا چاہیں پھیلا دیتے ہیں۔ اس جمہوریت کے متعلق گزشتہ جنگ عظیم کے فاتح چرچل اور ڈیگال وغیرہ نے متفقہ طورپر یہ فیصلہ کیا تھا کہ جمہوریت نازک حالات میں نہیں چل سکتی۔ اس زمانے میں صرف آمر ہی حکومت کرسکتا ہے، ان کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ سب چیزیں ایک سراب ہیں۔
اسلام کا اپنا الگ نظام ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس کی بنیاد بہر حال ایک نظام پر ہوگی لیکن اس کی شکل ایمانی ہوگی، اس کی بنیاد علم و تقویٰ پر، اہل استنباط پر اور شورائیت پر ہوگی۔ خلیفہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تمام اہم معاملات میں اہل استنباط سے مشورہ کرے اور وہ قوم کے معتمد لوگ ہوں گے جو کتاب وسنت کی روشنی میں فیصلہ کریں گے۔ اس کے لیے آج کے زمانے میں بھی ایک نظام بنایا جاسکتا ہے اور پہلے بھی تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں رہا ہے۔ اس کے بعد کے زمانے میں بعض خصوصیات مٹ گئیں، لیکن بہت سی خصوصیات باقی رہی ہیں۔ بنو امیّہ کے زمانے میں بہت سی خصوصیات رہیں۔ قانون کا مرجع کتاب و سنت تھا اوراس میں اشخاص کی مرضی کو بالکل دخل نہیں تھا۔ اس زمانے میں حنفیت، شافعیت اور مالکیت کے جھگڑے تو نہیں تھے، کتاب و سنت تھی۔
[باقی]
____________
۱؎ تاریخِ فلسفۂ سیاسیات، محمد مجیب بی اے (اکسن)، ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد، ۱۹۳۶، ص۱۰
۲؎ اس منشور کے متعلق یورپ کے مشہور مؤرخ لارڈ ایکٹن نے کہا تھا کہ کاغذ کا یہ پرزہ دنیا کے تمام کتب خانوں سے زیادہ وزنی ہے۔
۳؎ جمہوریت فرانسیسی لفظ ’ریپبلک‘ کا ترجمہ ہے، اور اس کا ماخذ عربی لفظ جمہور ہے۔ اس کے معنی ریت کے بلند تودے اور ہر چیز کے بڑے حصّے کے ہیں۔ اس زمین کو جو اپنے اطراف سے بلند واقع ہو،جمہور کہتے ہیں۔ جماہرالقوم کے معنی اشرافِ قوم کے ہیں۔ جمہوری ایک شراب کا بھی نام ہے، اس لیے کہ اس کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد استعمال کرتی ہے۔ (دیکھیں، لسان العرب، تحت کلمہ ’جمہور‘) معلوم ہوا کہ جمہور کے مفہوم میں گروہ کثیر کا مفہوم غالب ہے۔ فقہ میں جب جمہور علماء کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو اس سے مراد علماء کی اکثریت ہوتی ہے۔ جمہوریت کالفظ سب سے پہلے اٹھارہویں صدی میں ترکی زبان میں استعمال ہوا۔
۴؎ Democracy and Dictatorship, by Zevedei Barbu, London, 1956, P.12
۵؎ Future of Asian Democracy (Report of a symposium), by Sohan Lal, N. Delhi, 1959, P.4
۶؎ Democracy and Dictatorship, by Zevedei Barbu, P.41
۷؎ ایضاً
۸؎ ایضاً
۹؎ Future of Asian Democracy, P.5
۱۰؎ Future of Asian Democracy, P.5
۱۱؎ اشارہ کمیونسٹوں کی طرف ہے
۱۲؎ Future of Asian Democracy, P.6
۱۳؎ ایضاً، ص۱۰
۱۴؎ Western Political Philosophers, by Mauraie Cranston, National Academy Delhi, 1965, P.110
۱۵؎ Capitalism is as Flawed as Other Systems, by Swaminathan S Anklesaria Aiyar, The Times of India (Sunday), 19 May, 2002, P.5
۱۶؎ Equal Rights, Duties and Privileges (Letter from America), by T.V. Parasuram, Indian Express, 1981, P.5
۱۷؎ دیکھیں، الخلافۃ، قاہرہ، ۱۳۴۱ھ، ص۵
۱۸؎ الفاروق، علمی کتب خانہ، اردو بازار، جامع مسجد دہلی، ۱۹۵۱، حصّہ دوم، ص۲۲۷
۱۹؎ ماہنامہ اشراق، لاہور، ستمبر ۲۰۰۰، مضمون: جمہوریت اور اصلاح معاشرہ، محمد بلال، ص۹
۲۰؎ کلیات اقبال (اردو) ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، ۱۹۹۲، بانگِ درا، ص۲۶۱، ۲۶۲
۲۱؎ کلیات اقبال (اردو) ارمغانِ حجاز، (ابلیس کی مجلسِ شوریٰ)، ص۶۴۹، ۶۵۰
۲۲؎ ایضاً، ضربِ کلیم، ص۶۱۰، ۶۱۱
۲۳؎ کلیات ا قبال (اردو) بال جبریل، ص ۳۳۲
۲۴؎ فکر اسلامی کی تشکیل جدید، علامہ اقبال، مرتّبہ :ڈاکٹر سید حسین جعفری،مضمون: عصرحاضر کے تقاضے، اقبال اور اجتہاد، پروفیسر وارث میر، کراچی ۱۹۸۸، ص۱۴۱
۲۵؎ علامہ نے اشتراکیت کے بارے میں لکھا ہے کہ بعض حکماء مثلاً لائی گرگس جو اسبارطہ (اسپارٹا) کا مقنّن تھا،اور افلاطون نے اشتراکیت کی تحسین کی ہے اور ایک قوم پراس کا تجربہ بھی کیا تھا۔ لیکن استعدادات کے فرق کی وجہ سے یہ نظام قائم نہ رہ سکا۔ یہ نظام اب بھی موجود ہے اور بعض جماعتیں اس کی داعی و مبلّع ہیں اور عوام الناس کا میلان اس کی طرف زیادہ ہے لیکن امراء واغنیاء اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ نظریہ لوگوں کے اندر اختلاف و عداوت کا ایک ذریعہ بن گیا ہے اور اس سے ایک فتنہ نے جنم لیا ہے جس کی آگ جلد بجھتی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اہم یقسمون رحمۃ ربک ط نحن قسمنا بینہم معیشتہم فی الحیٰوۃ الدنیا ورفعنا بعضہم فوق بعض درجٰت لیتخذ بعضہم بعضاً سخریاط ورحمۃ ربک خیر مما یجمعون(سورئہ زخرف:۳۲) ’’کیا وہ تمہارے رب کی رحمت کو بھی تقسیم کرناچاہتے ہیں؟ ہم نے اس دنیا میں ان کے درمیان ان کا رزق تقسیم کردیا ہے اور اس میں ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور تیرے رب کی رحمت ان کے اندوختہ سے بہتر ہے۔‘‘ (فی ملکوت اللّٰہ، ص۴۶)
۲۶؎ فی ملکوت اللّٰہ ، دائرہ حمیدیہ، سرائے میر، اعظم گڑھ، ۱۳۹۱ھ، ص۴۶
______________________