[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حضرت زید بن حارثہ بنو کلب سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے دادا کانام شراحیل (یا شرحبیل)اور پڑدادا کاعبدالعزی تھا ۔ اپنے اٹھارویں جدکلب بن وبرہ کی نسبت سے کلبی اور چوبیسویں جد قضاعہ کی نسبت سے قضاعی کہلاتے ہیں۔ زید قریش میں سے نہ تھے ، حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارفخشذ (ارفکشاد) کے پڑپوتے قحطان (یا یقطان)بن عابر (یاعامر)ان کے مورث اعلیٰ تھے ۔ عابر معلوم تاریخ کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینتیسو یں جد تھے۔ زید کی والدہ سُعدی بنت ثعلبہ کا تعلق بنو طے کی شاخ بنومعن سے تھا،مستدرک حاکم کی روایت (۴۹۴۶) کے مطابق جبلہ، اسما اور زید کی ولادت کے بعد وہ چل بسیں۔
حضرت زیدآٹھ برس کے تھے کہ ان کی والدہ سُعدی انھیں لے کر اپنے قبیلے والوں سے ملنے گئیں ۔ان کے قیام کے دوران میں قبیلۂ بنوقین بن جسر نے بنومعن کے گھروں میں لوٹ مار کی ۔غارت گر نوعمرزیدکو اٹھا کر لے گئے اور بازار عکاظ(یامکہ کے بازار حُباشہ) میں فروخت کے لیے پیش کر دیاجہاں سے حکیم بن حزام نے چار سو درہم دے کر انھیں اپنی پھوپھی خدیجہ بنت خویلد کے لیے خرید لیا۔سیدہ خدیجہ کی شادی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہوگئی تو انھوں نے کوئی اور تحفہ دینے کے بجائے اپنا غلام زید آپؐ کو ہبہ کر دیا۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق سیدہ خدیجہ نے حکیم بن حزام کے خریدے ہوئے غلاموں میں سے زید کو خود چنا اور انھیں شادی کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ سے خود مانگا۔
ادھرزید کے والدنے اپنے بیٹے کو ہر جگہ ڈھونڈا اور ہر قافلے سے اس کا پتا پوچھا،نہ ملا تو اسے یاد کرتے اور رقت و سوز سے یہ شعرپڑھتے،
بکیت علی زید و لم ادر ما فعل
احی فیرجی ام دونہ الاجل
(میں زیدکو یاد کر کرکے رویا ،مجھے نہیں معلوم وہ کیسا ہے؟ زندہ ہے یااسے موت درپیش آ گئی ہے؟)
وان ہبت الارواح ہیجن ذکرہ
فیاطول ماحزنی علیہ ویاوجل
(اگر ہوائیں چلتی ہیں تو اس کی یاد افزوں کردیتی ہیں،ہائے!اس کا غم مجھ پر کتنا طویل ہو گیاہے اور اس کی سلامتی کا خوف کتنا زیادہ ہو گیا ہے)
آخرکاربنوکلب کے افراد حج جاہلیت کرنے مکہ آئے تو زید کو دیکھا اور پہچان لیا۔زید نے کچھ اشعار پڑھے اور کہا،میرے گھر والوں کو بھی سنا دینا،ان میں سے دو یہ تھے۔
احن الی قومی و ان کنت نائیا
بانی قطین البیت عند المشاعر
(میں اپنی قوم سے ملنے کا بہت مشتاق ہوں ،اگرچہ دور ہوں کہ حرم بیت اﷲ میں مقامات حج کے قریب رہتا ہوں)
فانی بحمد اﷲ فی خیر اسرۃ
کرام معدّ کابراً بعد کابر
(میں ا لحمدﷲ بہترین کنبے میں زندگی گزار رہا ہوں ، معد بن عدنان کے شرفامیں رہتا ہوں جن میں ایک کے بعد دوسراسردار ہوتا آیا ہے )
زید کے قبیلے والوں نے واپس جا کر ان کے والد کو ان کا مقام پتا بتایاتو وہ اور زید کے چچا کعب انھیں فدیہ دے کر چھڑانے کے لیے مکہ آئے۔ابھی وادئ غیر ذی زرع میں اسلام کی آمد نہ ہوئی تھی اورزید نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس رہتے تھے۔ان کے والد اور چچا بیت اﷲ میںآپ سے ملے اورکہا، اے ابن عبدالمطلب !اے ابن ہاشم!سردار قوم کے بیٹے! آپ حرم الٰہی کے رہنے والے ہیں، غلاموں اور قیدیوں کو آزادکراتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور مصیبت کے ماروں کی مدد کرتے ہیں۔ہم اپنے بیٹے کے لیے آئے ہیں جو آپ کے پاس ہے۔ہمارے ساتھ نیکی کریں ، اس کا فدیہ لے کر احسان کریں، اپنی فریادہم آپ ہی سے کرتے ہیں۔کون ہے وہ؟ آپ نے دریافت فرمایا۔ انھوں نے بتایا،زید بن حارثہ۔ فرمایا،میں تمھیں فدیے سے بھی بہتر حل بتا دیتا ہوں،زید کو بلا لو اور اسے اختیار (choice) دے دو ۔ اگر تمھارے ساتھ جانا چاہے تو بغیر کسی فدیے کے تمہارا ہے اور اگر میرے ساتھ رہنا پسند کرے تو اﷲ کی قسم !میں اس شخص کے بدلے میں جو مجھے چنے کوئی فدیہ لینا پسند نہ کروں گا۔حارثہ اور کعب نے کہا، آپ نے خوب انصاف کیا ہے۔پھر آپ نے زیدکو بلایا اور پوچھا، انھیں جانتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا،جی ہاں!یہ میرے والد اور چچا ہیں۔آپ نے فرمایا،تم مجھے جان گئے ہو اور میرے ساتھ رہ کر دیکھ لیا ہے ، میرا یا ان دونوں کا انتخاب کر لو۔زید نے کہا ،میں آپ پر کسی کو ہرگز ترجیح نہ دوں گا۔ آپ میرے باپ اور چچا کی جگہ پر ہیں۔ دونوں نے ملامت کی،زید! تیرا ناس ہو،تو نے غلامی کو آزادی اوراپنے باپ چچا اور گھر والوں پر ترجیح دے دی ۔ جواب تھا،ہاں،میں نے اس شخص سے ایسا سلوک پایا ہے کہ میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا ۔ زید کا جواب سن کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں اپنا لے پالک بنا لیاپھرقریش کے تما م حلقوں اور ان کی مجلسوں میں (دوسری روایت :حجر اسود کے پاس)لے گئے اور اعلان فرمایا،گواہ رہو! زید میرا بیٹا ہے ،وہ میرا وارث ہو گا اور میں اس کا وارث بنوں گا۔ زید کے والد اورچچامطمئن ہو گئے اور خوشی خوشی واپس چلے گئے۔تب زید کو زید بن محمد کہا جانے لگا تاآنکہ دین اسلام کا ظہور ہوا۔ ان کا نام زید آپؐ ہی کا تجویز کردہ تھا، قریش کے جد قصی کا اصل نام زید تھا اسی لیے قریش اس نام کو بہت پسند کرتے تھے۔ عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں،سورۂ احزاب کی ان آیات کے اترنے سے پہلے ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمدہی کہا کرتے تھے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَآء کُمْ أَبْنَاء کُمْ ذَلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ.(آیت: ۴)
’’ اﷲ نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے (حقیقی) بیٹوں جیسا نہیں بنا دیا۔یہ تو تمھارے مونہوں سے بنائی ہوئی باتیں ہیں‘‘
ادْعُوہُمْ لِآبَاءِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاء ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ.(آیت :۵)
’’انھیں ان کے (حقیقی) باپوں کے نام سے پکارو،یہی اﷲ کے ہاں زیادہ قرین انصاف ہے۔اور اگر تمھیں ان کے آبا کا علم ہی نہ ہو تو تمھارے دینی بھائی اور تعلق دار ہیں۔ ‘‘
(بخاری: ۴۷۸۲،مسلم:۶۳۴۲)
زید گھر کے علاوہ تجارتی و کاروباری معاملات میں بھی نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کاہاتھ بٹاتے۔
ام ایمن جن کا اصل نام برکت تھا، جنگ فیل میں قید ہونے والے اہل حبشہ میں سے تھیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو والد کی طرف سے وراثت میں ملی تھیں اور انھوں نے آپ کی پرورش بھی کی تھی۔پہلے خاوند عبید بن زید سے پیدا ہونے والے بیٹے ایمن کے نام سے ام ایمن کنیت کی جو زیادہ مشہور ہوگئی۔ سیدہ خدیجہ سے شادی کے بعد آپ نے ان کو آزاد کر دیا اور اپنے غلام زید بن حارثہ سے ان کا بیاہ کیا۔ انھی سے اسامہ بن زید پیدا ہوئے۔ام ظبا ان کی دوسری کنیت ہے۔۴ ھ میں نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی دختر زینب بنت جحش اسدیہ سے زید کی شادی کی۔ یہی زینب تھیں جوبعد میں آپ کے عقد میں آئیں۔زینب کو طلاق دینے کے بعد ام کلثوم سے زید کی شادی ہوئی ۔ عقبہ بن ابومعیط کی یہ بیٹی ہجرت کر مدینہ آئیں تو زبیر بن عوام، زید بن حارثہ، عبدالرحمان بن عوف اور عمرو بن عاص نے انھیں شادی کا پیغام بھیجا۔ انھوں نے اپنے ماں جایے عثمان بن عفان سے صلاح لی تو انھوں نے نبئ اکرم سے رجوع کرنے کو کہا۔ وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ نے زید بن حارثہ کا مشورہ دیا۔ام کلثوم بن عقبہ سے زیدبن زیداور رقیہ کی ولادت ہوئی، یہ دونوں بچپن میں فوت ہو گئے ۔ ام کلثوم کو طلاق دینے کے بعدزید نے ابولہب بن عبدالمطلب کی بیٹی درہ سے شادی کی۔ان کو بھی طلاق دے دی تو زبیر بن عوام کی بہن ہند سے نکاح کیا۔
زید بن حارثہ بیان کرتے ہیں ،زمانۂ جاہلیت میں بیت اﷲ کے پاس تانبے کا بنا ہوا ایک بت پڑا ہوتا تھا جس کا نام اساف (یا نائلہ )تھا۔مشرکین طواف کے وقت اسے چھوتے تھے ۔ایک بار میں نے آپ کے ساتھ طواف کیا تو (برکت سمجھ) کر اسے چھولیا۔آپ نے منع فرمایاکہ اسے نہ چھوؤ۔زید کہتے ہیں ،اگلی بار میں نے طواف کیا توبھی آپ ساتھ تھے۔ میں نے سوچا ،میں اسے (آج بھی)چھوؤں گا ،دیکھوں تو کیا ہوتا ہے ؟آپ نے دیکھا تو فوراً ڈانٹا ، تمھیں منع نہ کیا گیاتھا؟زید مزید کہتے ہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت بخشی اور آپ پر کتاب نازل کی!آپ نے کبھی کسی بت کو نہ چھوا تھا۔
بعثت سے قبل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دور جاہلیت کے موحد زید بن عمروبن نفیل سے مکہ کی وادئ بلدح(یا بالائی مکہ) میں ملاقات ہوئی۔ آپ اور زید بن حارثہ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔آپ نے زید سے پوچھا ، قوم آپ کو برا کیوں سمجھتی ہے ؟ انھوں نے کہا، میری طرف سے ان کے ساتھ اس کے سوا کوئی زیادتی نہیں ہوئی کہ میں انھیں گمراہ سمجھتا ہوں ۔میںیثرب ،ایلہ اور شام کے احبار سے ملا ہوں اور سب کو شرک میں ملوث پایا ہے ۔الجزیرہ کے ایک عیسائی عالم نے کہا، تو جس دین کو ڈھونڈ رہا ہے وہ تمھارے ہی شہر میں ایک نبی لے کر مبعوث ہو گالیکن مجھے ابھی تک اس کے آثار نہیں ملے۔زید کی وفات کے بعد آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو آپ نے زید بن حارثہ سے کہا، روز قیامت زید بن عمرو اکیلے ہی ایک امت کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے۔
زید کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔غلاموں میں سے سب سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔مشہور ہے کہ وہ سیدہ خدیجہ اورحضرت ابو بکر کے بعد ایمان لائے تاہم، زہری ،سلیمان بن یسار،عروہ بن زبیراور سلمہ نے زیدکو مسلم اول قراردیا ہے۔ابن اسحاق اور ابن ہشام کی بیان کردہ ترتیب یوں ہے،سب سے پہلے سیدہ خدیجہ ایمان لائیں۔جبریل علیہ السلام نے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کونماز سکھائی تو آ پ اور خدیجہ چھپ کر نماز اداکرتے۔ سیدنا علی آپ کی پرورش میں تھے ، ایک دن گزرا تھا کہ انھوں نے دونوں کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ دین حق کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد وہ بھی مسلمان ہوگئے۔زید بن حارثہ آپ کے آزاد کردہ تھے، آپ کے قریب ہونے کی وجہ سے انھیں بھی سبقت الی الاسلام کا شرف حاصل ہو گیا۔حضرت ابوبکر کو آپ نے خود اسلام کی دعوت دی تو وہ بلا تردد ایمان لے آئے ۔ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم صبح سویرے کعبہ جاتے اورچاشت کی نماز ادا فرماتے۔اس وقت تو قریش کی طرف سے کوئی خدشہ نہ ہوتا لیکن جب آپ کوئی دوسری نمازپڑھتے تو علی اور زید آپ کی حفاظت کرتے۔
ابوطالب کی زندگی میں قریش مکہ نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کوکوئی جسمانی تکلیف نہ پہنچائی لیکن ان کی وفات کے بعد ایک بدبخت نے آپ کے سر پر مٹی ڈال دی ، دوسرے نے نماز پڑھتے ہوئے آپ پربکری کی کوکھ پھینک دی ۔تب آپ زید بن حارثہ کو لے کر بنوثقیف سے مدد مانگنے گئے لیکن انھوں نے الٹا دیوانوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا ۔ مشرکین کی ایذارسانیاں بڑھ گئیں تو اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن عام مل گیا۔ زید بن حارثہ اور ان کی اہلیہ ام ایمن بھی مہاجرین میں شامل تھے۔ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوایوب انصاری کے گھر قیام فرمایا جب کہ زید حمزہ بن عبدالمطلب اور ابومرثدغنوی کے ساتھ انصاری صحابی کناز بن حصین ( یا حصن)کے ہاں مقیم ہوئے۔ابن سعد کی روایت کے مطابق زید کلثوم بن ہدم یا سعد بن خیثمہ کے مہمان ہوئے۔آپ کو مدینہ لانے والا راہبر عبداﷲ بن اریقط مکہ واپس ہوا تو آپ نے اپنے دونوں آزاد کردہ غلاموں زید بن حارثہ اورابورافع کو دو اونٹ اور پانسو درہم دے کراس کے ساتھ بھیجا۔یہ آپ کی دختران فاطمہ اور ام کلثوم اور ازواج سودہ بنت زمعہ اورعائشہ کو مدینہ لے کر آئے۔ حضرت ابوبکر کی اہلیہ ام رومان، ان کے بیٹے عبداﷲ اور زید کے اپنے بیٹے اسامہ بھی ان کے ساتھ مدینہ النبی پہنچے۔
دار ہجرت پہنچ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار میں مواخات قائم فرمائی توچند مہاجرین کو بھی ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا۔آپ نے زید بن حارثہ کو حمزہ بن عبدالمطلب کا دینی بھائی قرار فرمایا۔اسی لیے جنگ احد کے روز سیدالشہدا حمزہ نے اپنی شہادت کی صورت میں زید کے حق میں وصیت کی۔ کچھ اہل تاریخ نے اس مواخات کی صحت سے انکار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے ،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں موافقت پیدا کرنے کے لیے مواخات قائم فرمائی اس لیے ایک مہاجر کی دوسرے مہاجر سے مواخات کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ آپ کا سیدنا علی کو اپنا بھائی قرار دینے کا مطلب یہ تھا کہ وہ بچپن سے اپنے والد ابوطالب کی زندگی ہی میں آپ کے زیر سایہ اور زیر کفالت رہے۔ دوسری روایت کے مطابق اسید بن حضیر زید کے انصاری بھائی تھے۔
۲ھ میں کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چرا گاہ میں غارت گری کی تونبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے میدان بدر کے پاس واقع وادئ سفوان تک اس کا پیچھا کیا۔اپنی غیرموجودگی میں آپ نے زید بن حارثہ کو مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر فرمایا۔
زید نے بدر اور بعد کے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ان کا شمار چند ماہر تیر انداز صحابہ میں ہوتا ہے۔
۲ھ۔غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم،علی اور زید بن حارثہ کے پاس ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے۔اس یوم فرقان میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شان دار فتح دی، زید بن حارثہ نے ابوسفیان کے بیٹے حنظلہ کو جہنم واصل کیا۔دوسری روایت کے مطابق علی ، حمزہ اور زید نے مل کر اسے قتل کیا۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم بدر سے مدینہ واپس روانہ ہوئے تو اثیل کے مقام پر عصر کی نماز ادا فرمائی۔ وہیں سے آپ نے بشارت سنانے کے لیے عبداﷲ بن رواحہ کو بالائی مدینہ (قبا)اور زید بن حارثہ کو زیریں مدینہ کی طرف بھیجا۔ زید رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اونٹنی عضبا(قصوا) پر سوار اس وقت پہنچے جب عثمان جنت البقیع میں اپنی اہلیہ اورآپ کی صاحبزادی رقیہ کی تدفین کر رہے تھے۔ زید نے منادی کی،عتبہ و شیبہ قتل ہو گئے، امیہ اور ابوجہل مارے گئے، ابو البختری اور زمعہ جہنم واصل ہوئے،نبیہ و منبہ اپنے انجام کو پہنچے۔منافقین نے ان کی تصدیق کرنے کے بجائے الٹا کہا، تمھارے صاحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی قتل ہو گئے ہیں تبھی تو زیدان کی اونٹنی پر سوار ہو کر لوٹے ہیں۔ یہودیوں نے کہا،زید شکست کھا کر آئے ہیں۔ اسامہ بن زید کہتے ہیں ، میں اپنے والد سے تنہائی میں ملا اورمخالفین کی باتوں کے بارے میں پوچھا ۔ انھوں نے کہا، میری بات ہی سچ ہے۔
نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحب زادی زینب آپ کی بعثت سے قبل سیدہ خدیجہ کے بھانجے ابو العاص بن ربیع سے بیاہی ہوئی تھیں۔آپ کو منصب نبوت عطا ہوا تو ابو العاص کفر پر قائم رہے۔ انھوں نے جنگ بدر میں مشرکوں کا ساتھ دیا اورمسلمانوں کی قید میں آ گئے۔مکہ سے بدر کے قیدیوں کا فدیہ آیا تو اس میں زینب کا بھیجا ہوا کچھ مال اوروہ گلوبند بھی تھا جو سیدہ خدیجہ نے ابوالعاص سے شادی کے وقت زینب کو دیا تھا۔نکلس کو دیکھ کر آپ پر رقت طاری ہو گئی، آپ نے اسے ابو العاص کو واپس کیا اوراس شرط پر رہائی بھی دے دی کہ وہ زینب کو مدینہ بھیج دیں گے۔جنگ بدر کے ڈیڑھ ماہ بعدآپ نے زید بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو مکہ بھیجا اور فرمایا،تم بطن یاجج پہنچ کر رک جانا اور جب زینب آجائیں تو انھیں ساتھ لے آنا۔اس مقصد کے لیے اپنی انگوٹھی بھی زید کو دی تاکہ اسے پہچان کر زینب ان کے ساتھ آجائیں۔پہلی بار وہ ابوالعاص کے بھائی کنانہ کے ساتھ مکہ سے نکلیں توذو طوی کے مقام پر دو مشرکوں ہبار اور فہری نے انھیں جانے سے روک دیا۔اس موقع پر ابوسفیان نے یہ کہہ کرزینب کو واپس لوٹا دیا کہ کچھ دنوں کے بعد چپکے سے رات کے اندھیرے میں نکل جائیں۔ چنانچہ چند دن گزرنے کے بعد زید نے ایک چرواہے کے ہاتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی انگوٹھی بھیجی تو زینب ان کے ساتھ مدینہ روانہ ہو گئیں۔
غزوۂ قردہ(یا فردہ):جنگ بدر کے بعد قریش کو تشویش ہوئی کہ ان کی تجارتی گزرگاہ مدینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے پرخطر ہو گئی ہے اس لیے شام کے سفر کے لیے متبادل راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔انھوں نے بکر بن وائل کے راہبر فرات بن حیان عجلی کی خدمات حاصل کیں جو جمادی الاولیٰ ۳ھ میں ان کے تجارتی قافلے کو ذات عرق اور غمرہ کے راستے سے لے کر نکلا۔اس قافلے میں صفوان بن امیہ( یا ابوسفیان )،حویطب بن عبدالعزیٰ اور عبداﷲ بن ابو ربیعہ چاندی کی ایک بڑی مقدار لے کر سفر کر رہے تھے۔ انھی دنوں نعُیم بن مسعود مدینہ آیا ہوا تھا ،اس نے اپنے پرانے دوست سلیط بن نعمان سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو خبر کردی۔ آپ نے فوراً زید بن حارثہ کو ایک دستہ دے کر روانہ کر دیا۔ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں زید امیر مقرر ہوئے۔نجد کے ایک چشمے قردہ (فردہ)پر انھوں نے قافلے کوجا لیا ،قریش کے لیڈر بھاگ گئے تو زید نے دو آدمیوں کو قید کیا اور مال و اسباب مدینہ لے آئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک لاکھ درہم مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ: بیس ہزار درہم ) رکھ کر باقی مال زید کے دستے میں تقسیم کر دیا۔ قید ہو کر آنے والے فرات نے اسلام قبول کر لیا۔یہی فرات جنگ خندق میں مشرکوں کا جاسوس بن گیا تو آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن اس نے توبہ کر لی اور بعد میں اچھا مسلمان ثابت ہوا۔
۳ھ۔جنگ احد کے اگلے دن آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم احد کے تمام شرکا حتیٰ کہ زخمیوں کوبھی لے کر مدینہ سے سات میل دور حمرا الاسد کے مقام پر گئے اور تین دن قیام کیا۔ اظہار قوت آپ کا مقصد تھا اسی لیے ابوسفیان کوجو پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتا تھا مدینہ کا رخ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔واپس لوٹتے ہوئے آپ نے معاویہ بن مغیرہ کو پکڑاجو راستے سے بھٹک گیا تھا۔اسی نے سیدنا حمزہ کی ناک کاٹی تھی اور ان کی نعش کا مثلہ کیا تھا۔ مدینہ پہنچ کر معاویہ نے حضرت عثمان کے گھر جا کر ان سے امان طلب کر لی۔ان کے کہنے پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے تین دن کی مہلت دے دی اور فرمایا، اس کے بعداگر تو نظر آیا تو تجھے قتل کر دیا جائے گا ۔وہ مدینہ سے نکل کر روپوش ہو گیا ، چوتھے دن آپ نے زید بن حارثہ اور عمار بن یاسر کو اس کے پیچھے بھیجااور فرمایا، وہ زیادہ دور نہیں گیا ہوگا ،فلاں جگہ چھپا ہو گا،اسے دیکھتے ہی قتل کر دینا۔عمار اور زید نے اسے حمات کے مقام پر جا لیا اور اس کی گردن اڑا دی۔
۴ ھ ، ۵ھ۔ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کی عزت افزائی کے لیے ان کی شادی اپنی پھوپھی زاد زینب بنت جحش سے کی تو ان کے ددھیالی اعزہ ، خاص طور پر ان کے بھائی عبداﷲ بن جحش نے اس رشتے پر اعتراض کیا۔ان کا کہنا تھا ، زینب بنو اسد کی آزاد عورت ہیں جب کہ زیدایک آزادہ کردہ غلام ہیں اس لیے ان دونوں میں کفاء ت نہیں۔ خود زینب بھی اس رشتے پر راضی نہ تھیں لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے اور اﷲ تعالیٰ کے ارشاد :
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ.(سورۂ احزاب:۳۶)
’’کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ جب اﷲ اور اس کا رسول کوئی حکم دے دیں تو وہ اپنے معاملے میں خود اختیاری کریں۔ ‘‘
پر خاموش رہی تھیں۔ اپنے مزاج کی تیزی کی وجہ سے وہ شادی کے بعد بھی اپنے حسب و نسب پر فخر کرتی رہیں اس لیے زید نے انھیں طلاق دینے کا ارادہ کر لیا لیکن پہلے آپ سے مشورہ کیا۔ آپ نے فرمایا، ’امسک علیک زوجک واتق اﷲ‘ ۔اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔(سورۂ احزاب: ۳۷)ایک سال سے کچھ اوپر وقت گزرا تھا اور ابھی کوئی اولاد نہ ہوئی تھی کہ یہ شادی طلاق پر منتج ہوئی ۔تب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے زینب کو اپنی زوجیت میں لینے کا فیصلہ کیا اس لیے کہ ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ کے لیے دوسری شادی دشوار کام تھا۔ اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ اللہ نے خود آپ کو یہ عقد کرنے کا حکم دیاتھا کیونکہ ایک منہ بولے بیٹے کی مطلقہ کی حرمت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مقصود تھا۔ اﷲ کے ارشاد :
وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللَّہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ.(سورۂ احزاب: ۳۷)
’’آپ اپنے دل میں وہ چھپائے ہوئے تھے جسے اﷲ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں سے خائف ہو رہے تھے‘‘
کا مطلب ہے کہ اﷲ کی طرف سے آپ کو وحی آ چکی تھی کہ زینب کو طلاق ہوگی اور آپ کو ان سے نکاح کرنا ہوگا لیکن آپ سمجھتے تھے کہ اس سے کفار و منافقین کو طعن و تشنیع کا موقع ملے گا اس لیے ظاہر نہ فرمانا چاہتے تھے ۔ جب زینب کی عدت پوری ہو گئی تو آپ نے زیدہی کو ان کے پاس بھیجااور فرمایا، جاؤ ، اس کے سامنے میرا ذکر کرو۔زینب آٹے کو خمیر لگا رہی تھیں، زیدکہتے ہیں، مجھے ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی ،اس لیے پیٹھ پھیر کر کہا ، زینب!مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمھارے پاس اپنا ذکر کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ زینب نے کہا،میں کوئی فیصلہ نہ کروں گی حتیٰ کہ اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں۔وہ اپنے مصلےٰ کی طرف گئی تھیں کہ قرآن مجید کا حکم نازل ہو گیا۔
کتب تاریخ میں بیان کردہ یہ روایت ہر گزدرست باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک بار نبی صلی اﷲ علیہ وسلم زید کی غیر موجودگی میں ان کے گھر گئے اورپردہ ہٹنے پر زینب کو دیکھ لیاتو وہ انھیں بھا گئیں۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا اپنی پھوپھی زاد کو بچپن سے لے کرجوانی تک کی تیس سالہ زندگی میں کبھی نہ دیکھا ہو گا کہ زید کے ہاں انھیں دیکھنا کوئی معنی رکھتا ؟ اگر یہ واقعہ درست ہوتا تو کیاآپ کی شان نبوت کے خلاف نہ ہوتا کہ معاذ اﷲ آپ اپنے صحابہ اور موالی کی منکوحات پر نظر رکھتے ہیں؟ابن عربی نے ان تمام روایات کوناقابل التفات( ساقطۃ الاسانید) قرار دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں ،زینب ( آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد اور آپ کے مولا زید کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے ) ہر وقت آپ کے ساتھ رہتی تھیں اور ابھی حجاب کا حکم بھی نازل نہ ہوا تھا۔( اس لیے یکایک محبت پیدا ہونے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا تھا؟)ایک قلب مطہر کو اس فاسد تعلق سے کیا لینا؟ (احکام القرآن :سورۂ احزاب )قرطبی لکھتے ہیں،یہ روایت کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو زید کی اہلیہ زینب سے (معاذ اﷲ)محبت یا عشق ہو گیا تھاکسی ایسے شخص کی وضع کردہ ہے جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عصمت سے نا واقف تھا یا اس نے(جان بوجھ) کر آپ کی حرمت کو پامال کرنا چاہا۔(الجامع لاحکام القرآن:سورۂ احزاب) ابن کثیرکہتے ہیں،ان اقوال کے غلط ہونے کی وجہ سے ہم ان کا ذکر نہ کرنا ہی مناسب سمجھا ہے۔ (تفسیر القرآن العظیم:سورۂ احزاب)قرآن مجید میں زید کودیے جانے والے حکم کہ ’’اﷲ سے ڈرتے رہو ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ زید سے بھی کوئی فروگزاشت ہوئی ہو گی۔
۶ ھ میں زید بن حارثہ نے کئی مہمات کی سربراہی کی ، وہ صلح حدیبیہ (۶ ھ)میں بھی شریک ہوئے۔ ربیع الثانی ۶ھ میں زید بنوسُلیم کے علاقے جموم گئے جہاں بنومزینہ کی ایک عورت حلیمہ کو قابو کیا ۔اس نے بنو سلیم کے ایک ٹھکانے کی نشان دہی کی۔زید نے وہاں سے مال ڈنگر حاصل کیے اور کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا۔جمادی الاولیٰ ۶ھ میں زید پندرہ آدمیوں کا سریہ لے کر مدینہ سے چھتیس میل دور واقع طرف نامی علاقے میں گئے ۔یہ بنوثعلبہ کا مسکن تھا،بدوؤں نے انھیں دیکھا تو اپنے اونٹ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔اسی ماہ زیدمدینہ سے چاردن کے سفر کی مسافت پر واقع مقام عیص گئے جہاں شام سے واپس آنے والے قریش کے ایک قافلے پر چھاپا مارا۔ابن سعد کی روایت کے مطابق ابوالعاص بن ربیع بدر کے بجائے اس سریہ میں قید ہوئے۔
۶ ھ ہی میں(یا ۷ھ میں) رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی دحیہ بن خلیفہ کلبی قیصر روم کو آپ کا نامہ پہنچا کر اور اس سے مال وخلعت حاصل کر کے لوٹے تو بنوجذام کی سرزمین حِسمی میں وادئ شنار کے مقام پر بنو جذام کی شاخ بنو ضلیع سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹے ہنید اور عوص اور ان کے ساتھیوں نے انھیں لوٹ لیااور چند بوسیدہ کپڑوں کے سوا کچھ پاس نہ رہنے دیا۔ایک نو مسلم قبیلے بنو ضبیب نے ان کا پیچھا کر کے لوٹا ہوا مال واپس لے لیا اوردحیہ مدینہ آ گئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے زید بن حارثہ کی قیادت میں پانسو صحابہ کا ایک لشکر روانہ کیا۔بنو عذرہ کے ایک راہبر کی راہ نمائی میں زید رات کے وقت سفر کرتے اور دن کو اوجھل رہتے۔ فضافض کے مقام پرعلی الصبح انھوں نے ہنید اور عوص کوپکڑااور قتل کر کے ان کا مال و اسباب چھین لیا۔ایک ہزار اونٹ اور پانسو بکریاں ان کے ہاتھ اور سو عورتیں اوربچے قید میں آئے ۔بنو خصیب کا ایک شخص اوربنو احنف (یا اجنف)کے دو آدمی بھی مارے گئے۔یہ قبیلے صلح حدیبیہ کے بعدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک دعوتی خط ملنے پر ایمان لا چکے تھے ۔ زید کو اس بات کا علم نہ تھا لیکن جب انھوں نے ان سے سورۂ فاتحہ سن لی تو اعلان کر دیا کہ ان کا مال ہم پر حرام ہے۔ تب بھی زید کے ساتھیوں نے توقف کرنے کا مشورہ دیاتو یہ لوگ بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید کی قیادت میں مدینہ گئے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط دکھایااور اپنا مال واپس کرنے کی درخواست کی۔آپ نے مقتولوں کے بارے میں تین بار استفسار کیا تووفد میں شامل ابوزید بن عمرو نے کہا، ان کی دیت رہنے دیں لیکن قیدیوں کو چھوڑ دیں۔ آپ نے معاملہ سلجھانے کے لیے حضرت علی کی ذمہ داری لگائی ۔ انھوں نے کہا، زید میری بات نہ مانیں گے تب آپ نے اپنی تلوار بطور علامت ان کے حوالہ کی۔ حضرت علی نے فحلتین پہنچ کرزید سے ملاقات کی اور تمام مال واپس دلایا۔
رجب ۶ھ میں زید ایک تجارتی قافلہ (یا سریہ )لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے ۔ وادی قریٰ پہنچے تو بنو فزارہ کے لوگوں نے راہ زنی کی ،ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا اور سامان تجارت چھین لیا۔ زید کے کئی ساتھی شہید ہوئے اور وہ خود بھی زخمی ہو گئے۔ واپسی پر انھوں نے قسم کھائی کہ فزارہ سے دوبارہ جنگ کرنے تک غسل جنابت کی حاجت ہر گز نہ ہونے دیں گے ۔رمضان ۶ ھ میں ان کے زخم مندمل ہوئے تو وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے انھیں ایک لشکر دے کر روانہ کیا ۔زید نے اپنے معمول کے مطابق راتوں کا سفر کیا لیکن بنو فزارہ کی شاخ بنوبدر کو ان کے آنے کی خبر ہو گئی ۔ صبح سویرے فزارہ کے ٹھکانوں پر پہنچ کر انھوں نے وہاں پر موجود لوگوں کو گھیر لیا اور انھیں ان کے انجام تک پہنچایاپھر بدر کی پوتی ام قرفہ (فاطمہ بنت ربیعہ بن بدر) اور اس کی بیٹی جاریہ بنت مالک کو قید کر لائے۔ ام قرفہ کو اپنے قبیلے میں بہت عزت دار سمجھا جاتا تھا حتی کہ ’اعز من ام قرفہ ‘(ام قرفہ سے زیاد عزت دار ) ضرب المثل بن گئی۔زید کے کہنے پر قیس بن مسحر نے اسے بری طرح قتل کیاکیونکہ اس نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے اپنے بیٹوں اور پوتوں پر مشتمل چالیس گھڑ سواروں کا دستہ تیار کیا تھا۔ اس کی بیٹی سلمہ بن اکوع کی قیدمیں آئی تو انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کردی۔ آپ نے اپنے ماموں حرب (یا حزن) بن ابووہب کو عطیہ کر دی۔ اسی سے عبد اﷲ بن حرب (یاعبدالرحمان بن حزن)پیدا ہوئے۔ شعبان ۶ھ میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم بنو خزاعہ کی شاخ بنو مصطلق کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ان کے چشمہ مریسیع گئے تو زید بن حارثہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا اس لیے وہ اس غزوہ میں حصہ نہ لے سکے۔ دوسری روایت کے مطابق زید بن ثابت قائم مقام حاکم مقرر ہوئے۔ ابن ہشام نے زید کے ایک اور سریے کا ذکر کیا ہے۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں حضرت علی کے آزادکردہ غلام ضُمیرہ کے ساتھ مدین بھیجا،یہ مصر کے سرحدی علاقے مینا کے کچھ لوگ پکڑ کر لائے ۔ کچھ قیدی دوسرے علاقوں کے تھے۔ انھیں الگ الگ کر کے بانٹا گیا تو رونے لگ گئے تب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں اکٹھا رکھنے کا حکم دیا۔
آپ نے حارث بن عمیرکی سربراہی میں ایک وفد کو شاہ بُصری کے نام خط دے کر بھیجا۔یہ وفد شام کے سرحدی علاقے بلقا کے مقام موتہ سے گزر رہا تھاکہ وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمروغسانی نے حارث کا گلا گھونٹا اور باقی ارکان کوبھی شہید کردیا۔ایلچیوں کو راہ داری دینے کے بجائے قتل کردینا سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی تھی۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی ایلچی کو قتل کیے جانے کا یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا اس لیے آپ نے شہدا کا بدلہ لینا اورشرحبیل کی تادیب کرناضروری سمجھا ۔تین ہزار کا لشکرتیار کر کے زیدبن حارثہ کو اس کا امیر مقرر کیا ۔روانگی کے وقت آپ خودلشکر میں تشریف لے گئے اور زید کو سفید علم عطا کیا اور لشکر کیے لیے دعائے خیر و برکت کی۔مزید فرمایا،’’ اگر زید شہید ہوئے تو جعفر بن ابوطالب امیر ہوں گے ، اگرجعفر شہادت پا گئے تو عبداﷲ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے۔وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے تو مسلمان باہمی رضامندی سے اپنا امیر چن لیں‘‘ پھرثنےۃ الوداع کے مقام پر انھیں الوداع کہا۔ ایک یہودی نعمان بن فنخص اس وقت موجود تھا۔اس نے زیدسے کہا،اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں تو تم ہر گز زندہ نہ لوٹو گے کیونکہ بنی اسرائیل کے نبی اس طرح جب کسی کا نام لے لیتے تھے تو وہ ضرور شہید ہو جاتا تھا۔
جمادی الاولیٰ ۸ھ میں مدینہ سے چل کر یہ لشکر وادئ قریٰ پہنچا تو زید نے چند روز رک کر دشمن کے متعلق معلومات فراہم کیں۔شام کے علاقے معان پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہرقل(یا اس کے بھائی ) کی قیادت میں ایک لاکھ کی رومی فوج مآب پہنچ گئی ہے۔لخم ،جذام،قین ،بہرا اور بلی قبائل کے ایک لاکھ افراد بھی مالک بن رافلہ (یا زافلہ) کی قیادت میں رومیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ زید بن حارثہ نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی تو یہ رائے سامنے آئی کہ اس تازہ صورت حال میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم آنے تک مزید پیش قدمی نہ کی جائے ۔ عبداﷲ بن رواحہ نے زور دیا کہ آپ کا حکم صادر ہو چکا ہے،ہمیں اعداد و شمار دیکھنے کے بجائے اسی کو بجا لانا چاہیے،دوروز کے توقف کے بعد اسی رائے پر عمل کرنے کا فیلہ ہوا۔جیش اسلامی دوبارہ روانہ ہوا،عبداﷲ بن رواحہ نے عربی نحو کی کتابوں میں کثرت سے نقل کیا جانے والا اپنا یہ مشہور رزمیہ شعر(رجز)اسی سفر میں پڑھا۔
یا زید زید الیعملات الذبل
تطاول الیل علیک فانزل
(اے زید(بن ارقم)! زید(بن ارقم)! قوی تیز رفتار اونٹ چلتے چلتے سست پڑ گئے ہیں،تم پر رات لمبی ہو گئی ہے، اس لیے اتر کر حدی خوانی کر لے)
’المفصل‘ میں زمخشری نے سیبویہ کا تتبع کرتے ہوئے اس شعر کو نام لیے بغیر جریر کے ایک بیٹے کی طرف منسوب کیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن رواحہ کا ہے۔ زیدبن ارقم بھی غزوۂ موتہ میں شریک تھے،انھی کو مخاطب کر کے عبداﷲ نے یہ رجز پڑھا ۔ کچھ لوگوں نے زیدسے ابن حارثہ کو مراد لیا ہے جو درست نہیں کیونکہ ایک سپہ سالار کا کام نہیں کہ اونٹوں کو ہانک کھینچ کر دوڑائے اور ان کے لیے حدی پڑھے۔
اردن کے مشرق میں واقع قصبے موتہ میں رک کر زید بن حارثہ نے لشکر کی ترتیب درست کی، بنو عذرہ کے قطبہ بن قتادہ کو میمنہ کا اور عبایہ بن مالک انصاری کو میسرہ کا کمانڈر مقرر کیا۔بحیرۂ مردار کے ساحل پر سرزمین بلقا میں مشارف کے مقام پر دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ چھ دن تک زید ضرب و فرار (hit and run) کے اصول پر رومی فوج پر حملہ آور ہوتے رہے۔کبھی ایک مقام پر ،کبھی دوسری جگہ سے، کبھی سامنے سے ، کبھی پہلو سے آتے، دشمن کو جوابی کارروائی کا موقع نہ دیتے اور صحرا میں غائب ہو جاتے۔ ساتویں دن وہ سامنے (front) سے نمودار ہوئے،جونہی رومی فوج کے پرے (phalanxes) بڑھنے لگے ،زید نے پسپائی (withdrawl) اختیار کر لی۔رومی بازنطینی فوج نے ان کا پیچھا کیا لیکن دو لاکھ کی فوج عجلت میں اپنی ترتیب قائم نہ رکھ سکی۔ موتہ کے مقام پر زید نے پلٹ کر بھرپور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ سو صفوں پر مشتمل رومی لشکر کا ایک چھوٹا سا حصہ ان کا ہدف بناجو حملے کی تاب نہ لا سکا۔ رومیوں نے راہ فرارپکڑی اور اپنے لشکر ہی کو روندتے ہوئے کھلے میدان کی طرف بھاگے۔ مسلمان سپاہی ان کے پیچھے پیچھے تھے ۔زید بن حارثہ پر چاروں طرف سے وار ہو رہے تھے ، زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ وہ گھوڑے سے گر پڑے اور شہادت سے سرفراز ہوئے۔فرمان نبوی کے مطابق جعفر بن ابوطالب فوراً آگے بڑھے، اپنے سرخ گھوڑے سے اتر کر اسے ذبح کیا اور علم تھام کر پیادہ ہی لڑنا شروع کر دیا۔ انھوں نے نوے (بخاری،۴۲۶۰ :پچاس) سے زائد زخم کھائے، پہلے ان کا دایاں پھر بایاں بازو کٹا لیکن وہ جان فشانی سے آخر دم تک لڑتے رہے اسی لیے انھیں ذوالجناحین (دو پروں والا،یہ پرجنت میں عطا ہوں گے )کا لقب ملا۔ اب عبداﷲ بن رواحہ نے علم تھاما اور رجز پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ان کی قیادت میں جیش اسلامی ہزاروں رومیوں کو دھکیلے جا رہا تھا لیکن وہ بھی شہید ہوگئے تو ثابت بن اقرم نے علم اسلامی بلند کیا۔اسی اثنا میں جب فوج اپنا کمانڈر چننا چاہتی تھی، خالد بن ولید سامنے آئے اور کمان سنبھال لی۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ منظم پسپائی کے ذریعے میدان جنگ چھوڑا جائے اور مدینہ کو مراجعت اختیار کی جائے۔ اگلے دن انھوں نے لشکر کی ہےئت بدل دی، ساقہ کی جگہ مقدمہ اورمقدمہ کی جگہ ساقہ کوکر دیا، میمنہ و میسرہ کو بھی ادل بدل دیا۔ رومیوں کومسلمانوں کے ہاتھ پہلے پرچم دکھائی نہ دیے اورفوج کی ترتیب بھی بدلی بدلی نظر آئی توگمان کیا کہ اسلامی فوج میں نئی کمک آ گئی ہے۔ اصل میں یہ وہ چھوٹے چھوٹے دستے تھے جو خالد نے ظلمت شب میں پیچھے بھیج دیے تھے اوروہ دن چڑھے ان کی ہدایت کے مطابق ایک ایک کر کے جنگ میں دوبارہ شامل ہوئے ۔ دشمن کا مورال گر گیا تو خالدنے اگلا پورا دن دفاع کمزور نہ ہونے دیا،رات ہوئی تو وہ اپنی فوج کو بحفاظت نکال لائے۔جاتے جاتے مسلمانوں نے رومی میسرہ کے عرب کماندار مالک بن زافلہ کو جہنم واصل کیا۔ رومی فوج نے خالد کی واپسی کو بھی ایک چال سمجھا اور پیچھا نہ کیا۔مدینہ پہنچنے پر کچھ لوگوں نے کہا،راہ حق کی جنگ سے انھیں واپس نہیں آنا چاہیے تھا لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ بھاگے ہوئے نہیں ہیں،اﷲ نے چاہا تو پھر لڑیں گے۔یہ ابن اسحاق کی روایت تھی، واقدی اور بیہقی کا اصرار ہے کہ خالد نے تین ہزار کے لشکر کے ساتھ رومیوں اور عربوں کی مشترکہ دو لاکھ کی فوج کوشکست سے دوچار کیا۔وہ دلیل میں بخاری کی ذیل میں درج کردہ روایت کو پیش کرتے ہیں جس میں فتح صریح کا ذکر ہے۔ابن کثیر کہتے ہیں ،جب خالد نے فوج کی ترتیب میں تبدیلی کی تو اﷲ نے انھیں فتح سے سرفراز کیا۔وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’یہ بھاگے ہوئے نہیں ہیں‘‘ان معدودے چند افراد (مثلاًسلمہ بن ہشام ،عبداﷲ بن عمر) کے بارے میں تھا جو فرار ہوئے، فوج کی اکثریت ثابت قدم رہی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ اہل ایمان اور کفار کی فوجوں میں اس قدر تفاوت ہونے کے باوجود جنگ موتہ میں کل بارہ مسلمان شہید ہوئے۔
مدینہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کوجنگ موتہ کے شہدا کی خبر ملی تو رونے لگے اور فرمایا ،وہ میرے بھائی،مجھ سے انس رکھنے والے اور میری باتیں کرنے والے تھے۔ بخاری کی روایت ہے، آپ منبر پر تشریف لائے۔شہدا کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا،’’ علم زید نے تھامااور شہید ہو گئے پھر جعفرنے پکڑا اور شہادت پائی۔ اس کے بعدیہ ابن رواحہ کے ہاتھ آیا،انھوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ، آخرکار علم اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد)نے پکڑا اور اﷲ نے انھیں فتح دی۔‘‘یہ بیان کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔آپ نے زید،جعفر اور عبداﷲ کے لیے دعائے مغفرت کی اور فرمایا، اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو، وہ جنت میں دوڑتا ہوا داخل ہو گیا ہے۔زید کی بیٹی نے آپ کے سامنے آہ و زاری کی توآپ پھوٹ پھوٹ کررونے لگے ، اسامہ آپ کے سامنے آئے توبھی آپ کی آنکھیں آنسووں سے تر ہو گئیں۔ سعدبن عبادہ نے کہا، یا رسول اﷲ! اتنی رقت کیوں؟ فرمایا ، یہ ایک دوست کی اپنے محبوب دوست سے محبت ہے۔ شہادت کے وقت زید بن حارثہ کی عمر۵۵ سال تھی۔
زید بن حارثہ کی شہادت کے بعدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رومیوں سے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ فرما لیا چنانچہ غزوۂ تبوک اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
زید بن حارثہ رسول اﷲ صلی علیہ وسلم سے دس سال چھوٹے تھے۔ان کا قد چھوٹا، رنگ گہرا سیاہ اور ناک چپٹی تھی۔ایک دوسری روایت میں بالکل برعکس بیان ہوا ہے کہ زید گورے چٹے تھے البتہ ان کے بیٹے اسامہ سیاہ رنگ کے تھے ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی مجزز بن اعور کا تعلق بنوکنانہ کی شاخ بنو مدلج سے تھا، ان کے دو بیٹے علقمہ ا ور وقاص بھی صحابہ میں شامل تھے ۔ اگرچہ قریش میں بھی چندقیافہ دان موجودتھے لیکن علم قیافہ کی مہارت رکھنے میں بنو مدلج اور بنو اسد خاص طور سے مشہور تھے۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں،ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم گھر آئے تو بڑے مسرور تھے ،آپ کا چہرہ دمک رہا تھا ۔فرمایا، تمھیں معلوم ہے، مجزز مدلجی میرے پاس آئے تواسامہ اور زید لیٹے ہوئے تھے ۔ انھوں نے چادر سے اپنے سر ڈھانپ رکھے تھے اوران کے پا ؤں نظر آ رہے تھے۔ مجزز نے دیکھ کر کہا،یہ دونوں پاؤں ایک دوسرے سے گہرا(نسبی) تعلق رکھتے ہیں۔ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید کو بیٹوں کی طرح رکھا ہوا تھا ۔جس طرح ہر شخص اپنی اولاد سے دلی لگاؤرکھتا ہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتا ہے ایسے ہی خیر البشر صلی اﷲ علیہ وسلم زید اور اسامہ کے بارے میں مجزز کے اس تبصرے سے بہت خوش ہوئے اور فوراً سیدہ عائشہ سے اس کا ذکر کیا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ زید کا رنگ صاف اوران کے بیٹے اسامہ کا سیاہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے طعن زنی کی تھی ۔مجزز کی قیافہ شناسی سے نسب کے ان ماہرین کو خاموش ہوناپڑا کیونکہ عرب اس علم پر اعتقاد رکھتے تھے اور اسلام نے ان کے اعتقاد کو باطل قرار نہ دیا تھا۔
قرآن مجید میں زید کے علاوہ کسی صحابی کا نام صراحۃً مذکور نہیں ہوا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّا قَضَی زَیْْدٌ مِّنْہَا وَطَراً زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَاءِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَراً.(سورۂ احزاب: ۳۸)
’’اور جب زیدنے اس(زینب) سے علیحدگی کا ارادہ پورا کرلیا تو ہم نے آپ سے اس کا بیاہ کر دیا تاکہ اہل ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں میں حرمت نہ رہے حالانکہ وہ ان سے اپنیحاجت پوری کر چکے ہوں۔‘‘
سورۂ احزاب کی آیات ۴تا۶ میں لے پالک بیٹوں کو ان کے اصل باپوں کے نام سے پکارنے کا حکم آیا ہے ،اولاً اس فرمان کا اطلاق بھی زید بن حارثہ پر ہوا۔ ان کے علاوہ آیت ۴۰بھی زید کے بارے میں نازل ہوئی ۔
مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ.
’’محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ،وہ تو اﷲ کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کا اختتام کرنے والے ہیں۔‘‘
زید بن حارثہ کورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کامحبوب (حِب رسول اﷲ)کہا جاتا تھا۔آپ کا ارشاد ہے ،’’مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اﷲ نے انعام کیا اور میں نے بھی اس پر انعام و اکرام کیا۔‘‘مراد زیدبن حارثہ ہیں جنھیں اﷲ نے نعمت اسلام سے سرفراز کیا اورقرآن مجید میں نام لے کر ان کا ذکر کیا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان پر احسان کیا۔پہلے اپنی باندی برکت پھر پھوپھی زاد زینب سے ان کی شادی کی اور غزوۂ موتہ میں امارت دیتے ہوئے اپنے چچیرے جعفر بن ابوطالب پر مقدم رکھا۔ برا بن عازب کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید سے فرمایا، ’’تو میرا بھائی اور میرا مولاہے۔‘‘ زید کے پوتے محمد بن اسامہ سے مروی ہے،آپ نے زید بن حارثہ کو ارشاد فرمایا، زید! تو میرا مولا(ساتھی ، رشتہ دار) ہے ، مجھ سے ہے، میری طرف منسوب ہے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا، اﷲ کی قسم! زید امارت کے لیے موزوں تھا۔وہ میرے محبوب ترین انسانوں میں سے تھا۔ واقعۂ معراج کے ضمن میں مذکور ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جنت میں داخل ہوئے تو ایک سرخ و سیاہ ہونٹوں والی دوشیزہ دیکھی۔آپ نے پوچھا ،تو کس کو ملے گی؟ تو اس نے کہا، زید بن حارثہ کو۔ حضرت علی روایت کرتے ہیں،میں ،جعفر بن ابوطالب اور زید بن حارثہ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئے۔آپ نے زید کو کہا،تو میرا مولا ہے تو وہ خوشی سے پھدکنے لگے۔ جعفر کو ارشاد کیا،تو جسم کی بناوٹ اور اخلاق میں میرے مشابہ ہے تو وہ زید کے پیچھے ہو کر مارے فرحت کے اچھلنے لگے۔ پھر مجھ سے فرمایا، تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تو میں جعفر کی اوٹ لے کر کدکنے لگا۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں، زید بن حارثہ (وادی قریٰ میں بنو فزارہ کو ان کے انجام تک پہنچا کر) مدینہ لوٹے (توسیدھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے)،آپ میرے حجرے میں تھے ۔زید نے دروازہ کھٹکھٹایا، اس وقت آپ نے پورے کپڑے نہ پہنے ہوئے تھے لیکن لپک کر اس حالت میں ان کی طرف بڑھے کہ چادرگھسٹ رہی تھی۔آپ نے ان کو گلے لگاکر بوسہ لیااور غزوۂ (ام قرفہ)کے واقعات سنے ۔
خلیفۂ ثانی عمربن خطاب نے اسامہ بن زید کا وظیفہ ساڑھے تین ہزار اور اپنے بیٹے عبداﷲ کا تین ہزار درہم مقرر کیا تو انھوں نے اعتراض کیا۔آپ نے اسامہ کو مجھ پر کیوں ترجیح دی حالانکہ وہ کسی موقع پر مجھ سے آگے نہیں بڑھا۔ عمر نے جواب دیا،اس لیے کہ زیدبن حارثہ تیرے باپ سے زیادہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو محبوب تھے اور اسامہ تم سے بڑھ کر آپ کو پیار ا تھا۔میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی ہے۔
زید کے بھائی جبلہ بن حارثہ سے پوچھا گیا ،تم بڑے ہو یا زید؟انھوں نے جواب دیا ، زید، حالانکہ میں پہلے پیدا ہوا تھا۔ہماری والدہ فوت ہوئی تو ہم دادا کی پرورش میں آ گئے وہاں سے چچا مجھے لے گئے۔ زید سیدہ خدیجہ کے پاس پہنچ چکے تھے اورانھوں نے ان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا ۔ (اس طرح وہ مرتبہ میں مجھ سے بڑے ہو گئے) ۔ایک بار جبلہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ زید کو ان کے ساتھ بھیج دیا جائے۔آپ نے فرمایا، اگر وہ تمھارے ساتھ جانا چاہے تو میں نہ روکوں گا لیکن زید نے جانے سے انکار کر دیا۔ وفازید بن حارثہ کا نمایاں وصف تھا۔
ایک بار زید بن حارثہ نے طائف کے ایک شخص سے خچر کرائے پر لیا۔اس نے شرط رکھی کہ و ہ انھیں اپنی مرضی والی جگہ پر اتارے گا۔پھروہ زید کو ایک ویرانے میں لے گیا اور اترنے کو کہا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہاں بہت سے لوگ قتل کر کے پھینکے ہوئے ہیں۔خچر والے نے زید کو بھی مارنا چاہا تو انھوں نے کہا، مجھے دو رکعتیں پڑھ لینے دو۔اس نے کہا، پڑھ لو ،پہلے پڑے ہوئے ان مقتولوں نے بھی نماز پڑھی تھی لیکن ان کی نماز نے انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ زید کہتے ہیں ،میں نے نماز ادا کر لی تووہ مجھے قتل کرنے کے لیے بڑھا ۔میں پکارا،یا ارحم الرٰحمین !تواسے آواز آئی ، اسے قتل نہ کرو۔وہ ڈر گیااور آواز دینے والے کو ڈھونڈنے لگا۔کچھ نہ ملا تو پھر میری طرف لپکا ۔میں نے پھریا ارحم الرٰحمین کی صدا لگائی تو پھر پلٹ گیا۔ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہوا تومجھے ایک گھڑ سوار ہاتھ میں آہنی نیزہ پکڑے کھڑا نظر آیا،نیزے کے سرے پر آگ کا شعلہ لپک رہاتھا ۔گھڑ سوار نے وہ نیزہ خچر والے کی پشت میں گھونپ دیا جس سے وہ فوراً ہلاک ہو گیا۔اسے انجام تک پہنچانے کے بعد اس غیبی انسان نے بتایا، جب تو نے پہلی دفعہ یا ارحم الرٰحمین پکارا تو میں ساتویں آسمان میں تھا۔ دوسری دفعہ صدا لگائی تو میں آسمان دنیاپر آچکا تھا ،تمھاری تیسری پکار پر میں تمھارے پاس موجود تھا۔ قتل سے پہلے دو رکعتیں اداکرنے کی سنت پر زید سے پہلے خبیب بن عدی (غزوۂ رجیع میں)عمل پیرا ہو چکے تھے۔ پھر عہد معاویہ میں حجر بن عدی نے اس پر عمل کیا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور زیدبن حارثہ کو اپنا نائب حاکم مقرر فرمایا۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ نے جس سریہ میں زید کو بھیجا،امیر ہی بنایا۔اگر آپ کی رحلت کے وقت زندہ ہوتے تو ضرور ان کو خلیفہ مقرر فرماتے۔ سلمہ بن اکوع بتاتے ہیں، میں سات غزوات میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں اور کچھ سرایا میں زید بن حارثہ کے ساتھ شریک رہا۔آپ انھی کو ہمارا امیر مقرر فرماتے۔ جن جنگوں میں زید نے شرکت کی ،ان کے نام یہ ہیں، غزوۂ قَردہ(یا فردہ) ،غزوۂ جموم ،غزوۂ عیص،غزوۂ طرف ،غزوۂ حسمیّ،غزوۂ ام قرفہ۔غزوۂ موتہ آخری غزوہ تھا جس میں زید بن حارثہ نے شرکت کی، یہ ۸ ھ میں ہوا، اسی میں وہ اہل ایمان کی قیادت کرتے ہوئے شہادت سے سرفراز ہوئے۔ وفات سے قبل آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں ایک لشکر کو شام کے سرحدی علاقے بلقا کی طرف روانہ ہونے کا حکم د یا۔یہ وہی جگہ تھی جہاں ان کے والد زید شہید ہوئے تھے۔اس موقع پر کچھ لوگوں نے اسامہ کے کم عمر ہونے اورکبار مہاجرین وانصار ان کے ما تحت ہونے کی طرف توجہ دلائی تو آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ کر فرمایا،تم نے اگراسامہ کی امارت پر اعتراض کیا ہے (تو کیا؟)اس پہلے اس کے باپ کی سربراہی پر بھی معترض ہوتے رہے ہو۔اﷲکی قسم!زید امارت کے لائق تھا اور مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھا ۔اﷲ کی قسم!زید کے بعد اسامہ مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے،میں اسی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمھارے نیکوکاروں میں ہے۔
زیدنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ان سے روایت کرنے و الوں میں شامل ہیں،انس بن مالک،بر ا بن عازب،عبداللہ بن عباس، ان کے بھائی جبلہ بن حارثہ اور بیٹے اسامہ۔ تابعین میں سے علی بن عبداللہ بن عباس،ہزیل بن شرحبیل اور ابوعالیہ نے ان سے مرسلہ روایتیں بیان کی ہیں۔صحیح بخاری میں زید بن حارثہ سے مروی ایک روایت موجود ہے۔
مطالعہئ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاغانی (ابو فرج اصفہانی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)،سیراعلام النبلا (ذہبی)، فتح الباری (ابن حجر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، صورمن حیاۃ الصحابہ (عبدالرحمان رافت پاشا)، اردو دائرہئ معارف اسلامیہ (مقالہ جات: گلزار احمد، V.Vacca)، معارف القرآن، سورہئ احزاب (مفتی محمد شفیع)،تدبر قرآن، سورہئ احزاب (امین احسن اصلاحی)
_______________