بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ م بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ{۱۷۲} اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ م بَعْدِھِمْ اَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ{۱۷۳} وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ{۱۷۴}
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَالَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ{۱۷۵} وَلَوْشِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِھَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْھَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ{۱۷۶} سَآئَ مَثَلَانِ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاَنْفُسَھُمْ کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ{۱۷۷} مَنْ یَّھْدِاللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِیْ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ{۱۷۸}
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ{۱۷۹} وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۸۰} وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ{۱۸۱} وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ{۱۸۲} وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ{۱۸۳}
اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِہِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ{۱۸۴} اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ وَّاَنْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ م بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ{۱۸۵} مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَیَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ{۱۸۶} یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰھَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ لَا یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَآ اِلَّا ھُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغَتَۃً یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْھَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ{۱۸۷} قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ وَلَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ{۱۸۸}
ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ{۱۸۹} فَلَمَّآ اٰتٰہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ فِیْمَآ اٰتٰھُمَا فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ{۱۹۰} اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْن{۱۹۱} وَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّ لَآ اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ{۱۹۲} وَاِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰی لَا یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْھُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ{۱۹۳} اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْھُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۱۹۴} اَلَھُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ کِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ{۱۹۵} اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ{۱۹۶} وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَلَآ اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ{۱۹۷} وَاِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰی لَا یَسْمَعُوْا وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ{۱۹۸} خُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ{۱۹۹} وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۲۰۰} اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَامَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَ{۲۰۱} وَاِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ{۲۰۲}
وَاِذَا لَمْ تَاْتِھِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَیْتَھَا قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ھٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ{۲۰۳} وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ{۲۰۴}
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ{۲۰۵} اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ{۲۰۶}
(اے۵۶۳؎ پیغمبر،اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلائو)، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے۵۶۴؎ اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں،( آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۵۶۵؎۔ یہ (ہم نے) اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیںہلاک کریں گے؟۵۶۶؎ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، (اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو۵۶۷؎) اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔۱۷۲-۱۷۴
اور اُس کی سرگذشت بھی اِنھیں سنائو ۵۶۸؎جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائی تھیں، مگر وہ اُن سے نکل بھاگا۵۶۹؎۔اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان اُس کے پیچھے لگ گیا۵۷۰؎، یہاں تک کہ وہ گمراہوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اِن آیتوں کے ذریعے سے اُسے بلندی عطا کرتے۵۷۱؎، لیکن وہ زمین کا ہو رہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا۔ چنانچہ اُس کی مثال کتے کی سی ہو گئی کہ تم اُس پر (پتھر)اٹھائو، جب بھی زبان نکالے رہتا ہے اور چھوڑ دو، جب بھی زبان نکالے رہتا ہے۵۷۲؎۔ یہ اُس قوم کی تمثیل ہے جس نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا۔ سو یہ سرگذشت (اِنھیں) سنائو تاکہ یہ سوچیں۔ کیا ہی بری تمثیل ہے اُس قوم کی جس نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرتی رہی۵۷۳؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جن کو اللہ ہدایت بخشے، وہی ہدایت پانے والے ہیں اور جن کو وہ (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دے، وہی نامراد ہوتے ہیں۵۷۴؎۔ ۱۷۵-۱۷۸
(یہ متنبہ ہو جائیں)، جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۵۷۵؎۔ اُن کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ اُن کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ہیں۔ اُن کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ہیں۵۷۶؎۔ وہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۵۷۷؎۔ (ایمان والو، تم یاد رکھو کہ) اللہ کے لیے صرف اچھے نام ہیں، سو اُس کو اُنھی سے پکارو۵۷۸؎ اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اُس کے ناموں میں کج روی اختیار کر رہے ہیں۵۷۹؎۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اُس کا بدلہ عنقریب پا لیں گے۔ (یاد رکھو کہ سب یکساں نہیں ہیں)،ہمارے پیدا کیے ہوئے لوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حق کے مطابق لوگوں کی رہنمائی اور اُسی کے مطابق فیصلے کرتا رہا ہے۔ (اِس کے برخلاف) جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلادیا ہے، اُن کو ہم وہاں سے دائوں پر لے جا رہے ہیں، جہاں سے اُن کو خبر بھی نہ ہو گی۔ (اِس وقت) میں اُن کو ڈھیل دے رہا ہوں، اِس لیے کہ میری تدبیر بڑی محکم ہے۵۸۰؎۔۱۷۹-۱۸۳
کیا اِنھوں نے غور نہیں کیا کہ اِن کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۵۸۱؎؟وہ تو ایک کھلا خبردار کرنے والا ہے۔کیا اِنھوں نے زمین و آسمان کی سلطنت پر اور اُن چیزوں پر جو خدا نے پیدا کی ہیں، کبھی نگاہ نہیں کی (کہ اِن پر یہ حقیقت واضح ہوجاتی کہ خدا نے یہ کارخانہ عبث نہیں بنایا) اور نہیں سوچا کہ کیا عجب اِن کی مدت قریب آلگی ہو۵۸۲؎؟ سو(یہ مدت پوری ہو گئی تو) اِس کے بعد یہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟ (حقیقت یہ ہے کہ ) جنھیں خدا(اپنے قانون کے مطابق) گمراہی میں ڈال دے، اُن کے لیے پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہو سکتا۔ اُن کو وہ اُن کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ (تمھارے استہزا کے لیے) وہ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ آخر وہ گھڑی کب نازل ہوگی؟۵۸۳؎کہہ دو کہ اُس کا علم تو میرے پروردگار ہی کے پاس ہے۔ وہی اپنے وقت پر اُس کو ظاہر کرے گا۵۸۴؎۔ زمین و آسمان اُس سے بوجھل ہو رہے ہیں۵۸۵؎۔ وہ تم پر اچانک آ پڑے گی۔وہ (اُس کے بارے میں) تم سے اِس طرح پوچھتے ہیں گویا تم اُس کی تحقیق میں لگے ہوئے ہو۔۵۸۶؎کہہ دو: اُس کا علم تو صرف خدا کو ہے، مگر لوگوں کی اکثریت (اِس بات کو)نہیں جانتی۔ کہہ دو: (تم مجھ سے اُن چیزوں کا مطالبہ نہ کرو جو خدا کے علم و اختیار میں ہیں) ،میں اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے۔ مجھے سارے غیب کا علم ہوتا تو میں خیر کثیر جمع کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۵۸۷؎۔(حقیقت یہ ہے کہ) میں صرف ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لانا چاہیں۔۱۸۴-۱۸۸
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا تاکہ اُس سے تسکین پائے۵۸۸؎۔ پھر (بارہا ایسا ہوا کہ)جب مرد نے عورت کو چھا لیا تو اُسے ایک ہلکا سا حمل رہ گیا۔ سو اُس کو لیے پھرتی رہی۔ پھر جب زیادہ بوجھل ہو گئی تو مرد و عورت، دونوں نے مل کر اللہ، اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (پروردگار)، اگر تو نے ہمیں تندرست اولاد عطا فرمائی تو ہم تیرے شکر گزاروں میں رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اُن کو صحیح و سالم اولاد عطا فرما دی تو اُس کی بخشی ہوئی چیزمیں وہ دوسروں کو شریک ٹھیرانے لگے۔۵۸۹؎ (حقیقت یہ ہے کہ)اللہ برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۵۹۰؎۔ کیا وہ اُن کو شریک ٹھیراتے ہیںجو کسی چیز کو پیدانہیں کرتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ وہ نہ اُن کی کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد کر سکتے ہیں۔ اور اگر تم اُن کو رہنمائی کے لیے پکارو تووہ تمھارے پیچھے نہ آئیں گے۔۵۹۱؎ تم اُنھیں پکارو یا خاموش رہو، تمھارے لیے برابر ہے۔ تم اللہ کے سوا جنھیں پکارتے ہو، وہ بندے ہیں، جس طرح تم بندے ہو۵۹۲؎۔سواُنھیں پکاردیکھو، اُنھیں چاہیے کہ تمھیں جواب دیں، اگر تم سچے ہو۔۵۹۳؎ (تم نے کبھی غور نہیں کیا)، کیا اُن کے پائوں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں؟ کیا اُن کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں؟ کیا اُن کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں؟ کیا اُن کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں۵۹۴؎؟ کہہ دو (اے پیغمبر)، تم اپنے سب شریکوں کو بلا لو، پھرمیرے خلاف تدبیریں کر دیکھو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔۵۹۵؎ میرا کارساز اللہ ہے جس نے نہایت اہتمام کے ساتھ یہ کتاب اتاری ہے اور وہ اپنے نیک بندوں کی کارسازی فرماتا ہے۵۹۶؎۔ (اِس کے برخلاف) جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ نہ تمھاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد کر سکتے ہیں۔ تم اُنھیں رہنمائی کے لیے پکارو تو تمھاری بات نہ سنیں گے۔ تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمھاری طرف دیکھ رہے ہیں، مگر (حقیقت یہ ہے کہ) وہ کچھ نہیں دیکھتے۔۵۹۷؎ (اِن کے ماننے والوں کو اب اور کیا سمجھایا جائے؟ اِس لیے) درگذر کرو (اے پیغمبر)، نیکی کی تلقین کرتے رہو۵۹۸؎ اور اِن جاہلوںسے اعراض کرو۔ (اِس کے باوجود)اگر تمھیں کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آجائے تو اللہ کی پناہ چاہو۔ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (یاد رکھو)، جو خدا ترس ہیں، اُنھیں جب شیطان کی کوئی چھوت لاحق ہوتی ہے تو فوراً (اپنے پروردگار کا) دھیان کرتے ہیں اور دفعتاً اُن کے دل روشن ہو جاتے ہیں۔ (اِس کے برخلاف) اِن (جاہلوں) کے بھائی، (شیاطین) اِنھیں گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں، پھر (اُس میں) کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔۱۸۹-۲۰۲
(اِن کے مطالبے پر) تم اِن لوگوں کے سامنے جب کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنے لیے) کوئی نشانی کیوں نہیں گھڑلی۵۹۹؎؟ کہہ دو: میں تو صرف اُس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔ یہ اُن لوگوں کے لیے تمھارے پروردگار کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والی آیتیں ہیں اور ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان لائیں۶۰۰؎۔ (اِس لیے) جب قرآن سنایا جائے تو اُس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔۲۰۳-۲۰۴
اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو (اے پیغمبر)، دل ہی دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور ہلکی آواز سے اور اُن لوگوں میں سے نہ ہو جائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۶۰۱؎۔ حقیقت یہ ہے کہ جو (فرشتے) تیرے پروردگار کے حضور میں ہیں، وہ اُس کی عبادت سے کبھی تکبر نہیں کرتے۔ وہ اُس کی تسبیح کرتے ہیں اور اُسی کے آگے سجدہ ریز رہتے ہیں۶۰۲؎۔ ۲۰۵-۲۰۶
۵۶۳؎ زمین پر خدا کی دینونت کے واقعات سے استدلال کے بعد اب یہ قریش کو اُس عہد فطرت کی یاددہانی کرائی ہے جس کی بنیاد پر تمام بنی آدم قیامت کے دن مسئول ٹھیرائے جائیں گے اور خدا کی بارگاہ میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکے گا کہ اُسے کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی یا اُس نے شرک اور الحاد کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی اور خدا کے اقرار اور اُس کی توحید کے تصور تک پہنچنا اُس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ قرآن نے اِس عہد کو جس طریقے سے پیش کیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ یہ محض تمثیلی انداز بیان نہیں ہے، بلکہ اُسی طرح کے ایک واقعے کا بیان ہے جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اِس سے یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ خالق کا اقرار مخلوقات کی فطرت ہے۔ وہ اپنے وجود ہی سے تقاضا کرتی ہیں کہ خالق کی محتاج ہیں۔ اُن کے لیے خالق کا اثبات پیش نظر ہو تو کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف متنبہ کرنے اور توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انسان بعض اوقات انکار کر دیتا ہے۔ لیکن یہ محض مکابرت ہے، لہٰذا جس وقت انکار کرتا ہے، عین اُسی وقت اپنے دائرئہ علم میں ہر انفعال کے لیے فاعل ، ہر ارادے کے لیے مرید، ہر صفت کے لیے موصوف، ہر اثر کے لیے موثر اور ہر نظم کے لیے ایک علیم و حکیم ناظم کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ اُس کا تمام علم اِسی سرگردانی کی سرگذشت ہے۔یہ عمل کی تکذیب ہے جو اُس کے انکار کی حقیقت بالکل آخری درجے میں واضح کر دیتی ہے۔
۵۶۴؎ اصل الفاظ ہیں:’مِنْ م بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِھِمْ‘۔’مِنْ ظُہُوْرِھِمْ‘’مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ‘سے بدل واقع ہوا ہے۔ اِس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ یہ واقعہ کسی خاص دور ہی کے بنی آدم سے متعلق نہیں ہے، بلکہ قیامت کے دن تک جتنے بنی آدم بھی پیدا ہونے والے ہیں، اُن سب سے متعلق ہے اور ارواح کے اجسام کے ساتھ اتصال کی ابتدا سے پہلے ہوا ہے۔
۵۶۵؎ انسان کو اِس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اِس لیے یہ واقعہ تو اُس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت اُس کے صفحۂ قلب پر نقش اور اُس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے۔ اِسے کوئی چیز بھی محو نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اُسے یاد دلایا جائے تو وہ اِس کی طرف اِس طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے، دراں حالیکہ اُس نے کبھی اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اِس یقین کے ساتھ لپکتا ہے، جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اُس کو جانتا تھا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا یہ اقرار اُس کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب تھا جو اُس کے اندر ہی موجود تھا۔ اُس نے اِسے پا لیا ہے تو اُس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اِس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پا لی ہے۔
۵۶۶؎ یعنی جہاں تک توحید اور بدیہیات فطرت کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں مجرد اِس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیاجائے گا۔ اُن سے انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہو گا کہ اُسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی یا اُس نے یہ انحراف خارجی اثرات کے نتیجے میں اختیار کیا تھا اور اِس کے ذمہ دار اُس کے باپ دادا اور اُس کا ماحول ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میںجواب دہ ہے۔
۵۶۷؎ یعنی مزید حجت جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی اُن کا مواخذہ ہو گا اور آخرت کے لحاظ سے بھی اُن کی مسئولیت دوچندہو جائے گی، ورنہ اصلاً تو یہ حجت، جیسا کہ بیان ہوا ، اُس علم سے قائم ہو جاتی ہے جو انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ آیات الہٰی کی تفصیل سے اِسی علم کی یاددہانی ہوتی ہے۔ قرآن مجید اِسی بنا پر اپنے لیے ’ذِکْر‘ اور ’ذِکْرٰی‘ اور رسولوں کے لیے ’مُذَکِّر‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔
۵۶۸؎ یہ من حیث القوم یہود کی تمثیل ہے۔ آگے یہ بات قرآن نے خود واضح کر دی ہے۔ لیکن آیت میں چونکہ لفظ ’الَّذِیْ‘ آیا ہے، اِس لیے مختلف اشخاص کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’’الَّذِیْ‘ اگرچہ اصلاً معرفہ کے لیے آتا ہے ،لیکن تمثیلات میں یہ لازم نہیں ہے کہ اِس سے کوئی معین شخص ہی مراد ہو جو خارج میں بھی موجود ہو، بلکہ متکلم جس کی تمثیل پیش کرنا چاہتا ہے، اُس کو نگاہ میں رکھ کر اُس کا ایک ایسا سراپا آراستہ کر دیتا ہے جواُس پر پوری طرح منطبق ہو جاتا ہے۔ چونکہ پیش نظر صرف واقعے کی تصویر کشی ہوتی ہے، اِس وجہ سے تقاضاے بلاغت یہ ہوتا ہے کہ اُس کو نکرہ کے بجاے معرفہ کے لفظوں میں ذکر کیا جائے تاکہ تمثیل ایک خاص شخص کی صورت میں متمثل ہو کراِ س طرح سامع کے سامنے آجائے کہ گویا اُس نے اُس کی سرگذشت صرف سنی ہی نہیں، بلکہ خود اُس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ ‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۹۵)
۵۶۹؎ یعنی کتاب الہٰی کی جو تشریف و ـخلعت اُنھیں عطا فرمائی گئی تھی، وہ اُنھوں نے اتار پھینکی اور استاذ امام کے الفاظ میں بالکل ننگے الف بن کر رہ گئے۔
۵۷۰؎ یہ اُس سنت الہٰی کے مطابق ہوا جو سورۂ زخرف (۴۳) کی آیت ۳۶ میں بیان ہوئی ہے کہ جو خداے رحمن کی یاددہانی سے منہ پھیرتے ہیں، اُن پر ایک شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے، پھر وہ اُسی کے ساتھی بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔
۵۷۱؎ یعنی اُس قانون کے مطابق چاہتے جو ہم نے اُن لوگوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے جنھیں ہم اپنی آیتوں سے نوازتے ہیں۔ وہ قانون یہ ہے کہ اگر اِن آیتوں کی قدر کریں گے تو اِن کے ذریعے سے اُنھیں دین و دنیا کی سرفرازی حاصل ہو گی اور اِن سے گریز کرکے اپنی خواہشوں کے غلام ہو کر رہ جائیں گے تو اُنھی کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
۵۷۲؎ یعنی زبان نکالے ہوئے حرص و دناء ت کی تصویر بنا رہتا ہے۔ اُسے پیار کیجیے یا دھتکاریے، اُس کی یہ حالت کسی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتی۔ ہم اپنی زبان میںبھی اُس شخص کو جو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو، اِسی رعایت سے دنیا کا کتا کہتے ہیں۔
۵۷۳؎ اِس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ تمثیل کسی خاص شخص کی تمثیل نہیں ہے، بلکہ اُس قوم کی تمثیل ہے جس نے اللہ کی آیتوں سے بہرہ یاب ہونے کے بعد اُنھیں جھٹلا دیا۔ قرآن کے طالب علم جانتے ہیں کہ اِس سے مراد یہودی ہو سکتے ہیں۔
۵۷۴؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور قریش کے لیے تہدید و وعید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں خدا کا ایک قانون ہے۔ اِس کے تحت ہدایت اُنھی کو ملتی ہے جو اُس کے سچے طالب ہوتے ہیں اور جو خواہشوں کی غلامی اختیارکر لیتے ہیں، وہ گمراہی کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اُنھیں کبھی راہ ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔اِس لیے ہر شخص پر واضح ہونا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اِسی قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔
۵۷۵؎ یہ سخت غصے اور تہدید کا جملہ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت نے سرکشی کا جو رویہ اختیار کیا ہے، اُس کے بعد تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے اُنھیں پیدا ہی جہنم کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ آگے وضاحت کر دی ہے کہ وہ کیوں جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔فرمایا ہے کہ حقائق کو سمجھنے اور اُن کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے جو صلاحیتیں ہم نے اُنھیں دی تھیں، اُن سے اُنھوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ اُن کی پیدایش کا مقصد ہی یہ ہو کر رہ گیا ہے کہ پیدا ہوں، زندگی گزاریں اور جہنم رسید ہو جائیں۔
۵۷۶؎ یہ سمجھنا، دیکھنا اور سننا اپنے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے ہے، ورنہ مطلوبات بطن و فرج کے لیے تو وہ ہر چیز کو خوب سمجھتے ، دیکھتے اور سنتے ہیں۔
۵۷۷؎ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔چوپایوں کے مانند اِس وجہ سے ہیںکہ جس طرح چوپایوں کی طلب و جستجو بس اپنے پیٹ اور تن کی مطلوبات ہی تک محدود ہوتی ہے، اِسی طرح اُن کی تگ و دو بھی اپنی مادی ضروریات و خواہشات ہی تک محدود ہے۔ اور چوپایوں سے زیادہ بے عقل اِس وجہ سے ہیں کہ چوپائے بہرحال اپنی جبلت کی تمام صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اِس میں وہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے ،لیکن انسان کی فطرت کے اندر قدرت نے جو اعلیٰ صلاحیتیں رکھی ہیں، اُن سے نہ صرف یہ کہ وہ حقیقی فائدہ نہیں اٹھاتا ،بلکہ بسا اوقات اُس سے ایسی حرکتیں صادر ہوتی ہیں جو ایک بیل یا گدھے سے کبھی صادر نہیں ہوتیں۔ مثلاً انسان انسان ہو کر اتنا بے عقل اور کج فہم بن جاتا ہے کہ درختوں، پتھروں اور جانوروں کی پرستش شروع کر دیتا ہے، لیکن ایک گدھا یا بیل ایسی بے عقلی کبھی نہیں کر سکتا۔ فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو اصلی اور حقیقی بے خبر ہیں، اِس لیے کہ یہ بے خبری چوپایوں میں بھی نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۳۹۸)
۵۷۸؎ یعنی ایسے ناموں سے پکارو جو اُس کی شان یکتائی، اُس کی قدرت، اُس کی بے نیازی اور اُس کے علم و حکمت کے مطابق ہیں۔ یہ اُسی توحید کی وضاحت مزید ہے جس کا ذکر اوپر عہد فطرت کے حوالے سے ہوا ہے۔
۵۷۹؎ اصل میں لفظ ’یُلْحِدُوْنَ‘ آیا ہے۔ یہ یہاں صفات الٰہی کی بے حرمتی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے نام اور ایسی صفات اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہیں جو کسی طرح اُس کے شایان شان نہیں ہے، جن سے اُس کی ذات و صفات کی اہانت ہوتی ہے اور جن سے وہ پاک، برتر اور منزہ ہے۔
۵۸۰؎ یہ معاملہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو خدا کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔جب شکاری کو اپنی ڈور پر پورا اعتماد ہوتا ہے تو وہ مچھلی کو آخری حد تک ڈھیل دیتا ہے۔ مچھلی سمجھتی ہے کہ اب اُس نے بازی مار لی، حالاں کہ شکاری اِس لیے اُس کو ڈھیل پر ڈھیل دیتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کتنا ہی زور لگائے، لیکن وہ اُس کے قابو سے باہر نہیں جا سکتی۔ اُس کی بھاگ دوڑ اُس کے لیے نجات کی راہ نہیں کھولے گی، بلکہ اُس کو تھکا کر اتنا چور کر دے گی کہ بالآخر وہ بے جان ہو کر خود بخود گھسٹتی ہوئی کنارے پر آلگے گی۔ یہی حال خدا کی تدبیر کا ہے۔ اُس کی تدبیر نہایت محکم اور اُس کی گرفت نہایت شدید ہوتی ہے۔ کوئی اُس کے احاطے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اِس وجہ سے وہ لوگوں کو اُن کی سرکشی کے باوجود ڈھیل پر ڈھیل دیتا ہے۔ اِس ڈھیل کو سرکش اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، حالاںکہ وہ جتنی ہی زور آزمائی کرتے ہیں، اتنے ہی اپنی ہلاکت کے گڑھے سے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ جلد بازی وہ کرتا ہے جس کو اپنی تدبیر کے ناکام ہو جانے کاا ندیشہ ہو۔ جس کا تیر بے خطا اور جس کا وار بے پناہ ہو، اُس کو جلد بازی کی کیا ضرورت ہے؟‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۰۰)
۵۸۱؎ ساتھی سے مراد یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ کو جو دن رات اِس بات کی لگن تھی کہ آپ اپنی قوم کو اُس عذاب سے خبردار کر دیں جو سنت الٰہی کے مطابق رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر لازماً آتا ہے، اُسے دیکھ کر قریش کے لیڈر اپنے لوگوں کو آپ کے اثر سے بچانے اور اپنی سیادت کی دھاک قائم رکھنے کے لیے اُن سے کہتے تھے کہ اگرچہ یہ شخص بھلا چنگا ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اِسے عذاب اور قیامت کا سودا لاحق ہو گیا ہے۔ یہ قریش کی اِسی طفل تسلی کی تردید فرمائی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ساتھی کا لفظ بھی اِسی بنا پر استعمال کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس لفظ کے استعمال سے قریش کو اِس امر واقعہ کی طرف توجہ دلانا ہے کہ یہ پیغمبرؐ اُن کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں، بلکہ اُن کے دن رات کے ساتھی ہیں۔ اِن کا بچپن، اِن کی جوانی، سب اُنھی کے اندر اور اُنھی کے ساتھ گزری ہے۔ ہر دور اور ہر مرحلہ میں اُنھوں نے اِن کو دیکھا اور آزمایا اور ہر طرح کے حالات میں اِن کو جانچا اور پرکھا ہے۔ پھر آخر یہ اِس امر پر کیوں نہیں غور کرتے کہ جو شخص ہمیشہ اپنی سلامت روی، اپنی صداقت شعاری، اپنی بے غرضی، اپنی پاک بازی، اپنی فکر و راے کی اصابت اور اپنی دانش و بینش کی پختگی کے اعتبار سے ساری قوم میں گل سرسبد رہا دفعتاً وہ اب خبطی اور دیوانہ کیسے بن گیا؟ ‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۰۰)
۵۸۲؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کی کائنات پر غور کرتے تو لازماً اِس نتیجے پر پہنچ جاتے کہ نہ یہ کارخانہ عبث بنا ہے کہ جزا و سزا کے بغیر یوں ہی چلتا رہے اور کسی ظالم، معاند، حق و انصاف کے دشمن اور سرکش کے لیے کوئی یوم حساب نہ آئے اور نہ اِس کا علیم و حکیم خداوند جس نے انسان کو خیر و شر میں امتیاز کا شعور دیا ہے، خود اِس شعور سے بے نیاز ہو کر دنیا کو یوں ہی چھوڑے رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ حسرت و افسوس کے ساتھ فرمایا ہے کہ وہ اِس بات پر غور کرتے تو یہ بات بھی اُن پر کھل جاتی کہ کیا عجب کہ اُن کی وہ اجل بھی قریب آ لگی ہو جس سے پیغمبر اُن کو خبردار کررہے ہیں اور خدا کا وہ فیصلہ اُن کے لیے بھی صادر ہونے والا ہے جو اُن سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرنے والوں کے لیے صادر ہو چکا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ گویا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں آفاقی شہادت کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر جو کچھ کہہ رہے ہیں، اُس کو خبط پر محمول نہ کرو، بلکہ اپنی بلادت اور سرگشتگی پر ماتم کرو۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۰۳)
۵۸۳؎ اصل میں ’اَیَّانَ مُرْسٰھَا‘ کے الفاط آئے ہیں۔ ’اَیَّانَ‘ بھی’متی‘کے معنی میں ہے، لیکن یہ اُس موقع پر استعمال ہوتا ہے ،جب استغراب و استنکار کے لہجے میں کسی چیز کے متعلق پوچھنا مقصود ہو۔ اِسی طرح ’مُرْسٰی‘ جہاز وغیرہ کے لنگر انداز ہونے کو کہتے ہیں۔ اِس سے سوال کے اندر چھپے ہوئے طنز و استہزا کو سمجھا جا سکتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں گویا مدعا یہ ہے کہ جس گھڑی کے ڈراوے سنا رہے ہو ، وہ کب نمودار ہو گی؟ آخر یہ جہاز چلا تو کہاں اٹک کر رہ گیا، یہ ساحل پر کب لنگر انداز ہو گا؟
۵۸۴؎ مطلب یہ ہے کہ اُس کا علم بھی خدا ہی کے پاس ہے اور اُس کو برپا کردینے کی قدرت بھی وہی رکھتا ہے۔ مجھے نہ اُس کے وقت کا پتا ہے اور نہ میں یہ طاقت رکھتا ہوں کہ جب چاہوں، اُسے برپا کردوں۔
۵۸۵؎ اِس سے کیا مراد ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ جس طرح ایک حاملہ عورت ولادت کے قریب بارحمل سے گراں بار ہوتی ہے، اگرچہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ ولادت کا صحیح وقت کیا ہے، لیکن ہر آنکھیں رکھنے والا دیکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ یہ عورت جنے گی اور بہت جلد جنے گی، وہی حال قیامت اور عذاب کے معاملے میں آسمان و زمین میں غور کرنے والے ارباب بصیرت کا ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین کو اِس بوجھ سے گراںبار دیکھتے ہیں، اور اگرچہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اِس بوجھ سے کب سبک دوش ہوں گے ،لیکن جس طرح ایک حاملہ اپنے آخری مرحلہ میں اپنے بوجھ سے سبک دوش ہونے کے لیے منتظر اور بے قرار ہوتی ہے، وہی بے قراری آسمان و زمین کے اندر نمایاں ہے۔ اِس میں اِس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو آسمان و زمین کے اندر قیامت اور عذاب کی نشانیاں نظر نہیں آ رہی ہیں، اُن کو گویا آخری مرحلے میں پہنچی ہوئی حاملہ کا حمل نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۳/ ۴۰۴)
۵۸۶؎ حالاں کہ کوئی شخص بھی جسے خدا نے علم و عقل سے بہرہ یاب کیا ہو ، کسی ایسی چیز کے درپے نہیں ہو سکتا جو اُس کے حدود علم و تحقیق سے ماورا ہو۔ اور اُسے ہونا بھی نہیں چاہیے، اِس لیے کہ اِس سے بڑھ کر بے عقلی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی جاننے کی چیزوں پر توجہ کرنے کے بجاے اُن چیزوں کی کھوج کرید میں لگا رہے جن کو نہ وہ جان سکتا ہے اور نہ وہ اُس کے جاننے کی ہیں۔
۵۸۷؎ یعنی علم و عمل کا سارا خزانہ سمیٹ لیتا، لیکن تم جانتے ہو کہ مجھے نقصان بھی پہنچ جاتا ہے اور اپنے لیے خیر و صلاح کے راستوں پر بھی میں اُسی حد تک آگے بڑھ سکتا ہوں جس حد کا مجھے علم دیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔’لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ‘ کے ٹکڑے میں جس خیر کی زیادہ سے زیادہ مقدار جمع کر لینے کی تمنا کااظہار ہے، وہ پیغمبر کے ظرف اور اُس کی طلب کے اعتبار سے ہے۔ پیغمبر اپنے حوصلہ اور اپنے ارمان کے اعتبار سے اِس مقام بلند پر ہوتا ہے کہ وہ خیر کی کسی وادی کو نا طے کردہ نہیں چھوڑنا چاہتا ،لیکن وہ خیر سے واقف اُسی حد تک ہوتا ہے، جس حد تک اُس کو وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اُس کو پورا غیب معلوم ہو جائے تو ظاہر ہے کہ اُس کے اپنے امکان کے حد تک تو اُس کی کوشش یہی ہو گی کہ خیر کی راہ کے کسی پتھر کو بھی الٹے بغیر نہ چھوڑے۔ لیکن دائرۂ وحی سے باہر اُسے بھی دوسروں کی طرح اپنی صواب دید ہی پر کام کرنا اور اپنی عقل ہی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جس میں کامیابی اور ناکامی ،دونوں کے امکانات مضمر ہوتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۰۵)
۵۸۸؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا یہ نہیں کر سکتا تھا کہ دو الگ الگ اور مستقل وجود پیدا کرے اور دونوں میں ایسی مطابقت ، ہم آہنگی اور سازگاری پیدا کر دے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے راحت دل و جان اور سرمایۂ تسکین و نشاط بن جائیں۔ یہ اِس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ ایک ہی علیم و حکیم ہستی کا ارادہ ہے جس نے اپنے پیشگی منصوبے کے تحت، دونوں کو خاص ڈھنگ سے وجود بخشا اور اِس طرح پروان چڑھایا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بمنزلۂ جان و تن ہو گئے ہیں۔آیت میں ایک جان سے مراد آدم علیہ السلام ہیں۔ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
۵۸۹؎ یہ مشرکین کا عام رویہ ہے۔ اپنی اصل ضرورت اور اصل احتیاج کے وقت تو وہ اللہ، پروردگار عالم ہی کی طرف متوجہ ہوتے اور اُسی کو پکارتے ہیں، لیکن جب وہ احتیاج پوری ہو جاتی ہے تو اُسے دوسروں کی کرامت اور اُن کے علم و عمل کا کرشمہ قرار دینے لگتے ہیں۔
۵۹۰؎ شرک جس نوعیت کا بھی ہو، اُس سے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال کی نفی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ وہ ایسی تمام نسبتوں اور شراکتوں سے منزہ اور ارفع ہے، اِس نوعیت کی کوئی چیز بھی اُس سے منسوب نہیں کی جا سکتی۔
۵۹۱؎ اصل میں لفظ ’لاَ یَتَّبِعُوْکُمْ‘ آیا ہے۔ لفظ’اِتِّبَاع‘یہاں اپنے ابتدائی لغوی مفہوم میں ہے، یعنی ’مشی خلفہ‘۔ہم نے ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ ہم بھی اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ اُس نے مصیبت میں بلایا، لیکن کوئی اُس کے پیچھے نہیں آیا۔
۵۹۲؎ یہ اُن ذوات پر تبصرہ ہے جنھیں مشرکین اپنے زعم کے مطابق خدائی میں شریک مانتے اور معبود قرار دے کر پوجتے تھے، یعنی فرشتے اور جنات وغیرہ۔
۵۹۳؎ یہ اُسی طرح کا چیلنج ہے ، جس طرح کا چیلنج سورئہ بقرہ (۲) کی آیت ۲۳ میں دیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مطلب یہ ہوا کہ اب تک تو تم نے اپنے اِن خیالی معبودوں کو جو چاہا مانا اور جو چاہا منوایا، لیکن اب پیغمبر اور قرآن نے اِن سب کی خدائی کو چیلنج کر دیا ہے۔ اب وقت ہے کہ وہ تمھاری مدد اور رہنمائی کے لیے پہنچیں اور تم کو بھی اور خود اپنے آپ کو بھی سنبھالیں۔ اگر اُنھوں نے اپنی خدائی بچالی تو بے شک، معلوم ہو گا کہ تم سچے ہو۔ ‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۰۹)
۵۹۴؎ اوپر ذوات پر تبصرہ کیا تھا۔ اب یہ اُن مظاہر پر تنقید ہے جنھیں مشرکین اِن ذوات کے پیکر اور قالب کی حیثیت سے سونے، چاندی یا لوہے اور پتھر کی مورتوں کی صورت میں ڈھالتے اور یہ گمان رکھتے تھے کہ اُن کے یہ معبود اِن مورتوں کے اندر حلول کر آئے ہیں۔ زبور میں یہی حقیقت بدیں الفاظ بیان ہوئی ہے:
اُن کے بت چاندی اور سونا ہیں
یعنی آدمی کی دست کاری۔
اُن کے منہ ہیں، پر وہ بولتے نہیں۔
آنکھیں ہیں، پروہ دیکھتے نہیں۔
اُن کے کان ہیں، پر وہ سنتے نہیں۔
ناک ہیں، پر وہ سونگھتے نہیں۔
اُن کے ہاتھ ہیں، پر وہ چھوتے نہیں۔
پاؤں ہیں، پر وہ چلتے نہیں۔
اور اُن کے گلے سے آواز نہیں نکلتی۔
اُن کے بنانے والے اُنھی کے مانند ہوجائیں گے۔
بلکہ وہ سب جو اُن پر بھروسا رکھتے ہیں۔
(۱۱۵: ۴- ۸)
۵۹۵؎ یہ اُن دھمکیوں کا جواب ہے جو مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو اور اُن کی طرف سے لوگوں کے عقیدے خراب کر رہے ہو تو یاد رکھو، ایک دن اُن کا قہر تم پر ٹوٹ پڑے گا اور تم کہیں پناہ حاصل نہ کر سکو گے۔
۵۹۶؎ مطلب یہ ہے کہ تمھارے معبود تو اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں ہٹا سکتے، لیکن میرا حامی و ناصر وہ پروردگار ہے جس نے انسان کی حیثیت سے میری سب سے بڑی احتیاج پوری کی اور مجھے کتاب ہدایت سے نوازا ہے۔ اُس کی شان یہی ہے کہ وہ اپنے صالح بندوں کی کارسازی فرماتا ہے۔
۵۹۷؎ اصل الفاظ ہیں:’وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ، وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ‘۔ اِن میں ’تَرٰھُمْ‘ اگرچہ واحد ہے، لیکن یہ ’خطاب لغیر معین‘ کے اسلوب پر آیا ہے، لہٰذا جمع کے مفہوم میں ہے اور اِس کے مخاطب مشرکین ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں ’رویت‘،’نظر‘اور’ابصار‘کے الفاظ اِس ٹکڑے میں اِس خوبی سے استعمال ہوئے ہیں کہ بس قرآن کا اعجاز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے بصرو، تم تو یہ خیال کر رہے ہو کہ یہ تمھیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں، لیکن اِنھیں سوجھتا سجھاتا کچھ بھی نہیں۔
۵۹۸؎ اصل میں لفظ ’عُرْف‘ آیا ہے۔ اِس سے مراد وہ باتیں ہیں جو تمام سلیم الطبع لوگوں کے نزدیک نیکی اور خیر کی باتیں سمجھی جاتی ہیں اور اِس لحاظ سے گویا جانی پہچانی ہوتی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ جو دعوت دے رہے ہو، اُس پر جمے رہو۔ خدا کا فیصلہ جب تک صادر نہیں ہو جاتا، تمھارے لیے یہی حکم ہے۔ اِن کی بوالفضولیوں کے پیش نظر تم خیر و صلاح کی یہ دعوت منقطع نہیں کر سکتے۔
۵۹۹؎ یہ صریح طعن کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن گھڑ کر لا سکتے ہو تو اپنے دعویٰ نبوت کی تائید کے لیے کوئی معجزہ بھی گھڑ کر لے آؤ۔ اِس مفہوم کے لیے اصل میں لفظ’اِجْتِبَائ‘آیا ہے۔ اِس کے لغوی معنی تو کسی چیز کا انتخاب کر لینے کے ہیں، مگر طنزیہ اسلوب نے یہاں اِس میں گھڑنے اور بنا لینے کے معنی پیدا کر دیے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس قول سے ظالموں کا مطلب یہ ہوتا کہ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اُس کا معاملہ تو بہت آسان ہے۔ اِدھر اُدھر سے جو باتیں اگلوں کے واقعات اور کاہنوں اور اہل کتاب کی روایات پر مشتمل کانوں میں پڑیں، اُن میں سے جو باتیں دل کو بھا گئیں ،اُن کو جوڑ جاڑ کر کچھ کلام بنایا اور اُس کو لاکر ہمیں اِس دعوے کے ساتھ سنا دیا کہ یہ اللہ نے اپنے خاص فرشتے کے ذریعے سے وحی بھیجی ہے۔ لیکن اب ہم نے مطالبہ جو معجزے کا رکھ دیا ہے تو تمھاری کچھ پیش نہیں جاتی، اِس لیے کہ اِدھر اُدھر سے باتیں چھانٹ لینا اور چیز ہے، معجزہ دکھانا اور چیز ہے۔ یہ چھانٹ لینے کی چیز نہیں تھی کہ کہیں سے چھانٹ کر لاتے اور ہمیں دکھا دیتے کہ یہ لو، تمھارا مطالبہ پورا کر دیا۔ گویا اِس طعنے میں صرف معجزہ نہ دکھا سکنے ہی کا طعنہ نہیں، بلکہ اِس سے زیادہ زہرآلود طعنہ اِس کے اندر یہ مضمر ہے کہ نعوذباللہ قرآن ایک من گھڑت چیز ہے جو اِدھر اُدھر سے اپنے ذوق کے مطابق چھانٹی ہوئی چیزوں کا مجموعہ ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۱۲)
۶۰۰؎ یعنی آغاز کے لحاظ سے ہدایت اور انجام کے لحاظ سے رحمت۔ یہ اُس طنز کا جواب ہے جو اوپر نقل ہوئی ہے اور دیکھیے کہ کس قدر با عظمت اسلوب میں اور کیسا باوقار جواب ہے۔ فرمایا تھا کہ نیکی کی تلقین کرتے رہو اور اِن جاہلوں سے اعراض کرو۔یہ بہترین مثال ہے کہ اِس ہدایت کی تعمیل کس طرح ہونی چاہیے۔ اُن کی بات چونکہ آخری درجے میں جاہلانہ تھی، اِس لیے اُس کا نوٹس ہی نہیں لیا اور اصل حقیقت نہایت سادہ لفظوں میں سامنے رکھ دی ہے کہ میں معجزے اور کرامتیں نہیں، بلکہ یہ بصائر اور ہدایت و رحمت لے کر آیا ہوں، اِس لیے قبول کرنا ہے تو اِسے قبول کرو۔ دنیا اور آخرت کی تمام سعادتیں اِسی میں مضمر ہیں۔ لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ دلوں کی خرابی دور کی جائے اور جانتے ہو، وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ تم حقیقت کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔
۶۰۱؎ یہ آخر میں خدا کو دائماً یاد رکھنے کی تلقین فرمائی اور اُس کا طریقہ بھی بتا دیا ہے کہ خدا کا یہ ذکر نازو تدلل کے ساتھ نہیں، بلکہ لجاجت ، خوف، فروتنی اور مسکنت کے ساتھ اور پست آواز سے ہونا چاہیے تاکہ دل کی توجہ اِس میں شامل رہے۔ روح کی زندگی کے لیے یہ اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح جسم کی زندگی کے لیے سانس کی آمدوشد ضروری ہے۔ شیطان کے حملوں سے یہی ذکر آدمی کو بچاتا اور دعوت حق کے راستے پر پا بر جا رکھتا ہے۔ قرآن کی اکثر سورتیں اِسی تلقین پر ختم ہوتی ہیں، اِس لیے کہ دعوت کی راہ میں یہی بدرقہ ہے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو بیدار کرنے والے کہیں خود غفلت کی نیند نہ سو جائیں اور جس بھول سے وہ دوسروں کو نکالنا چاہتے ہیں، وہی بھول کہیں اُنھیں بھی لاحق نہ ہو جائے۔
۶۰۲؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کو یاد کرنے والوں کا زمرہ یہ ہے ۔ وہ زمین پر رہتے بستے ہیں، مگر اُن کا تعلق فرشتوں کی بزم قدس سے ہوتا ہے جو اپنے پروردگار کی بندگی سے کبھی سرتابی نہیں کرتے۔ اپنے دل کی گہرائیوں سے مانتے ہیں کہ اُن کا خالق بے عیب ، بے نقص اور بے خطا ہے، ہر قسم کی کمزوریوں سے منزہ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بے ہمتا اور بے مثل ہے۔ وہ زبان سے بھی دائماً اِسی حقیقت کا اعتراف و اعلان کرتے اور اُسی کے سامنے سجدہ ریز رہتے ہیں۔ اِس میں مشرکین پر بھی تعریض ہے کہ جن کو خدا کے شریک ٹھیراتے ہو، اُن کا اپنا حال یہ ہے کہ ہر وقت خدا کے آگے سرگرم سجود اور زمزمہ سنج تسبیح و تہلیل ہیں۔
کوالالمپور
۲۸/ مارچ ۲۰۱۱ء
ـــــــــــــــــــــــــ