(۱)
عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ.(مسلم، رقم ۴۹۹۴)
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی والے درندے اور چنگال والے پرندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔
توضیح:
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام قرار دیا ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہے۔
۱۔’’ایمان والو ،کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں اور اللہ ہی کا شکر ادا کرو، اگر تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو ۔ اس نے تو بس تمھارے لیے مردار اورخون اور سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا ہے ۔‘‘ (البقرۃ ۲: ۱۷۲۔ ۱۷۳)
۲۔ ’’کہہ دو:میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے ،حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا سؤر کا گوشت ،اِس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں یا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ۔‘‘ (الانعام۶: ۱۴۵)
درج بالا حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خور و نوش کے حوالے سے قرآن کے بتائے ہوئے اصولِ طیبات و خبائث کا اطلاق کرتے ہوئے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کچلی والے درندے اور چنگال والے پرندے خبائث میں سے ہیں، لہٰذا یہ ممنوع ہیں۔
(۲)
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو... أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی یَوْمَ خَیْبَرَ عَنْ لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْأَہْلِیَّۃِ وَعَنْ الْجَلَّالَۃِ وَعَنْ رُکُوْبِہَا وَعَنْ أَکْلِ لَحْمِہَا.(نسائی، رقم۴۴۵۲)
حضرت محمد بن عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے... کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور جلالہ سے، یعنی اس پر سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔
توضیح:
شریعت نے ہمارے لیے صرف طیبات ہی کو حلال ٹھہرایا ہے۔ یہ حدیث اس چیز کو واضح کرتی ہے کہ پالتو گدھا اور جلالہ طیبات میں سے نہیں، بلکہ یہ خبائث میں سے ہیں۔جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں ، جسے گندگی کھانے کی عادت پڑ گئی ہو اور اس وجہ سے وہ بدبودار ہو گیا ہو۔ آپ نے جلالہ پر سواری کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوار ہونے کی حالت میں اس کا پسینہ سوار کے جسم کو لگتا ہے۔
(۳)
عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ مُتْعَۃِ النِّسَاءِ یَوْمَ خَیْبَرَ وَعَنْ أَکْلِ لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ. (بخاری، رقم۴۲۱۶۔مسلم، رقم ۳۴۳۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔
توضیح:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مردوں کے لیے عورتوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے کا جائز راستہ کیا ہے؟ اِسے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صلاحیت رکھتے ہوں ، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت اور بڑے علم والا ہے ۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں ، انھیں چاہیے کہ عفت اختیار کریں ، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے۔‘‘ (النور ۲۴: ۳۲۔۳۳)
ان آیات میں یہ بات بالکل واضح کر دی گئی ہے کہ عورتوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے ، اور وہ نکاح ہے۔
نکاح ایک معروف چیز ہے۔ یہ علانیہ ایجاب و قبول کے ساتھ مردو عورت کے درمیان مستقل رفاقت کا عہد ہے۔نکاح کی اصل فطرت یہی ہے کہ یہ زندگی بھر کے تعلق کے ارادے کے ساتھ عمل میں آئے، جبکہ متعہ محض ایک متعین مدت تک کے لیے ہو تا ہے اور یہ نکاح کی اصل فطرت ہی کے خلاف ہے۔
درج بالا حدیث ہمیں یہ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن قرآن کی اس ہدایت کو سوسائیٹی میں نافذ کرتے ہوئے مرد و عورت کے درمیان متعہ کے تعلق کو ممنوع قرار دے دیا۔
پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے مناہی کی وجہ اس کا خبائث میں سے ہونا ہے، جیسا کہ پچھلی حدیث کے تحت بیان ہوا ہے۔
(۴)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ: أُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ وَدَمَانِ: اَلْجِرَادُ وَالْحِیْتَانُ وَالْکَبِدُ وَالطِّحَالُ.(بیہقی، رقم۱۱۲۸)
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ ہمارے لیے دو مردار اور دو خون یعنی ٹڈی اور مچھلی اور جگر اور تلی حلال ٹھہرائے گئے ہیں۔
توضیح:
خورو نوش میں حلت و حرمت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کہہ دو:میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے ،حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا سؤر کا گوشت ،اِس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں یا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ۔‘‘ (الانعام۶:۱۴۵)
اس آیت میں یہ واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردار اور خون، دونوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔ درج بالا حدیث بتاتی ہے کہ دو مردار، یعنی ٹڈی اور مچھلی حرام نہیں ہیں اور اسی طرح دو خون، یعنی جگر اور تلی بھی حرام نہیں ہیں۔ ان دونوں میں دراصل کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں مردار اورخون کے الفاظ اپنے عرف عام کے مطابق بولے گئے ہیں اور حدیث میں ان الفاظ کے غلط اطلاق سے بچانے کے لیے انھیں ان کے عام اطلاق سے ہٹ کر بولا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مردہ مچھلی اور ٹڈی حرام نہیں ہیں، اگرچہ یہ مردہ ہی ہوتی ہیں اور نہ جگر اور تلی حرام ہیں، اگرچہ یہ خون ہی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں، کیونکہ عرف عام میں نہ مری ہوئی مچھلی اور ٹڈی کو مردار کہا جاتا ہے اور نہ جگر اور تلی کو خون کہا جاتا ہے۔
(۵)
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّا نَرْکَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیلَ مِنَ الْمَاءِ فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِہِ عَطِشْنَا أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہُوَ الطَّہُوْرُ مَاؤُہُ الْحِلُّ مَیْتَتُہُ.(نسائی، رقم۵۹)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ سمندر میں سفر کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ تھوڑا سا ہی پانی ہوتا ہے، اگر ہم اس سے وضو کرنے لگ جائیں تو پھر پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار بھی حلال ہے۔
توضیح:
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ واضح کیا ہے کہ سمندر کا پانی طیبات میں سے ہے۔ چنانچہ یہ پاک شمار ہو گا اور اس کا مردہ جانور بھی طیبات میں سے ہے۔ لہٰذا یہ بھی حلال تصور ہو گا۔
قرآن نے مردار کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ قرآن نے حرام چیزوں کو بیان کرتے ہوئے، مردار کا لفظ جس معنوں میں بولا ہے، اس کا اطلاق سمندر کے مردہ جانور پر نہیں ہوتا۔
(۶)
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَرَأَیْتَ إِنْ أَحَدُنَا أَصَابَ صَیْدًا وَلَیْسَ مَعَہُ سِکِّیْنٌ أَیَذْبَحُ بِالْمَرْوَۃِ وَشِقَّۃِ الْعَصَا؟ فَقَالَ أَمْرِرِ الدَّمَ بِمَا شِءْتَ وَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ.(ابو داؤد، رقم۲۸۲۴)
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول،آپ فرمائیں کہ اگر ہم میں سے کوئی اپنا شکار پا لے اور اس کے پاس چھری نہ ہو توکیا وہ پتھریا لکڑی کے ٹکڑے سے ذبح کرلے؟ آپ نے فرمایا: جس چیز سے چاہو، خون بہادو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لو۔
توضیح:
جانور کا تذکیہ کرنے میں اصل چیز یہ ہے کہ اس کا خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ خون کس چیز سے بہایا گیا ہے۔
(۷)
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّہُ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّیْدِ، فَقَالَ: إِذَا أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَإِنْ أَدْرَکْتَہُ لَمْ یَقْتُلْ فَاذْبَحْ وَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنْ أَدْرَکْتَہُ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ یَأْکُلْ فَکُلْ فَقَدْ أَمْسَکَہُ عَلَیْکَ، فَإِنْ وَجَدْتَّہُ قَدْ أَکَلَ مِنْہُ فَلَا تَطْعَمْ مِنْہُ شَیْءًا فَإِنَّمَا أَمْسَکَ عَلٰی نَفْسِہِ وَإِنْ خَالَطَ کَلْبُکَ کِلَابًا فَقَتَلْنَ فَلَمْ یَأْکُلْنَ فَلَا تَأْکُلْ مِنْہُ شَیْءًا فَإِنَّکَ لَا تَدْرِیْ أَیُّہَا قَتَلَ.(نسائی، رقم ۴۲۶۸)
حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تم جب اپنا کتا چھوڑتے ہو تو اللہ کا نام لے کر چھوڑو۔ پھر اگر دیکھو کہ اس نے شکار کو (زندہ پکڑا ہے) مارا نہیں تو اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کر لو اور اگر دیکھو کہ مار ڈالا ہے، مگر اس میں سے کچھ کھایا نہیں تو تم اسے کھا سکتے ہو، اِس لیے کہ یہ اس نے تمھارے لیے روک رکھا ہے۔ لیکن اگر کھا لیا ہو تو اسے کھانا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ پھر اس نے اپنے لیے روکا ہے اور اگر دوسرے کتے بھی اپنے کتے کے ساتھ اس طرح دیکھو کہ انھوں نے شکار کو مار دیا ہے اور اس کو کھایا نہیں تب بھی اسے نہ کھاؤ، اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کس نے مارا ہے۔
توضیح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکاری جانور کے ذریعے سے شکار کرنے والے کو درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
۱۔جب وہ شکار پر اپنا سدھایا ہوا جانور، مثلاً شکاری کتا وغیرہ چھوڑے تو اسے اللہ کا نام لے کر چھوڑے۔
۲۔ اگر وہ کتا اس جانور کو پکڑ لے، لیکن اسے مارے نہیں، تو اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کرے اور کھائے۔
۳۔ اگر وہ جانور کو مار ڈالے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھائے تو وہ اسے کھا لے، کیونکہ یہ اس کتے نے اسی کے لیے روک رکھا ہے۔
۴۔ البتہ اگر اس کتے نے خود بھی کھایا ہے تو اب اس شکار کو کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ شکار اس نے اپنے لیے روکا ہے ۔
۵۔ اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی شامل ہو جائیں اور وہ سب مل کر شکار کو ماریں، لیکن اسے کھائیں نہیں، تب بھی وہ اس کو نہ کھائے، کیونکہ اسے معلوم نہیں ہے کہ وہ شکار اس کے اپنے سدھائے ہوئے کتے نے مارا ہے یا دوسرے آوارہ کتوں نے۔
(۸)
عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تُصُدِّقَ عَلٰی مَوْلَاۃٍ لِمَیْمُونَۃَ بِشَاۃٍ فَمَاتَتْ فَمَرَّ بِہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ہَلَّا أَخَذْتُمْ إِہَابَہَا فَدَبَغْتُمُوہُ فَانْتَفَعْتُمْ بِہِ فَقَالُوْا: إِنَّہَا مَیْتَۃٌ فَقَالَ: إِنَّمَا حَرُمَ أَکْلُہَا.(مسلم، رقم۸۰۶)
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما )سے روایت ہے کہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی کو صدقے میں بکری دی گئی تھی، وہ مر گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا :تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتاری کہ دباغت کے بعد اس سے فائدہ اٹھاتے؟ لوگوں نے عرض کیا :یہ تو مردار ہے، آپ نے فرمایا:اس کا صرف کھانا ہی حرام ہے۔
توضیح:
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ واضح کیا ہے کہ شریعت نے جس چیز کو جس پہلو سے حرام کیا ہے، وہ چیز بس اسی پہلو سے حرام ہوتی ہے۔ چنانچہ شریعت کے مطابق ہم مردہ جانور کو کھا تو نہیں سکتے، البتہ اس کی کھال وغیرہ اتار کر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
__________________________