HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

عہد رسالت میں خواتین کا سیاسی کردار (۵)

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(گزشتہ سے پیوستہ)


بصرہ کے واقعات

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بصرہ کی طرف خروج صحیح تھا یا غلط؟ اس کا انحصار بصرہ کے واقعات کو ٹھیک طریقے سے سمجھنے پر ہے۔ ان واقعات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سیاسی کردار پر خاص طور پر اور خاتون کے سیاسی کردار پر عام طور پر جو فیصلہ صادر کریں گے وہ غلط ہو گا۔ اس لیے ہم صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے درج ذیل نکات پر بحث کریں گے:

حضرت عائشہ کا حوأب کے چشمہ (کنوئیں) کے پاس سے گزر

حوأب مکہ سے بصرہ کے راستے میں بصرہ کے قریب ایک چشمہ (کنواں) ہے۔ اس بارے میں روایات کی بنیاد پر حضرت عائشہؓ پر لعن طعن کی گئی ہے اور ان کے موقف کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔

ضعیف روایات

حوأب کا قصہ طبری نے اپنی کتاب ’’تاریخ الامم والملوک‘‘ (۴/۴۵۹۔۴۶۰) میں اسمٰعیل بن موسیٰ فزاری کی سند سے ایک طویل روایت میں بیان کیا ہے۔ اس روایت کی سند کا تجزیہ درج ذیل ہے:

ابن عدی نے ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ (۱/۵۲۸) میں کہا ہے کہ مبالغہ آرائی اور شیعہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرو۔ انہی کا قول ہے کہ میں نے عبدان الاہوازی کو کہتے سنا ہے کہ میں نے ابوبکر بن ابی شیبہ کو سنا ہے۔ اس نے ہمارا اسمٰعیل کے پاس جانا ناپسند کیا اور کہا: یہ فاسق جو سلف کو گالیاں دیتا ہے، تمھیں کیا تعلیم دے گا؟ اسمٰعیل یہ قصہ علی بن عابس اورق سے روایت کرتا ہے جسے نسائی اور ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے اور وہ ابو الخطاب البحری سے روایت کرتا ہے جو مہجور ہے۔ وہ ایک دوسرے مجہول، یعنی صفوان بن قسیعہ الاحمسی سے روایت کرتا ہے۔ آخر میں اونٹ کے مالک عرنی کی شخصیت مجہول تر ہے۔ اونٹ کا مالک وہ نہیں، بلکہ یعلیٰ بن امیہ ہے جو اونٹ کو یمن سے لایا تھا اور حضرت عائشہؓ اس پر مکہ سے سوار ہو کر آئی تھیں۔

روایت کا متن اسے واضح طور پر موضوع قرار دے رہا ہے۔ اونٹ کے مالک اور حضرت عائشہ کے ساتھیوں کے درمیان گفتگو پر تکلف اور رکیک ہے۔ مثلاً اس کا قول کہ ’’اس اونٹ پر چڑھ کر جسے میں نے طلب کیا، اسے پا لیا اور اگر کسی اور نے میرا پیچھا کیا تو میں بچ نکلا۔ مالک نے پوچھا: تو اس اونٹ کو کس کے لیے چاہتا ہے؟ اس نے کہا: تیری ماں کے لیے۔ میں نے کہا کہ میری ماں تو گھر بیٹھی ہوئی ہے، وہ اسے کبھی نہیں چھوڑے گی‘‘۔ علما نے ایسی تمام روایات کو موضوع قرار دیا ہے جن میں لفظاً اور معناً رکاکت موجود ہو۔ اونٹ کے مالک عرنی کو ایک صحرا شناس کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ وہ پہلے حضرت عائشہؓ کے ساتھیوں سے ملتا ہے، پھر حضرت علیؓ کے ساتھیوں سے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس راستے سے گزرے ہیں جس سے وہ گزرا ہے۔ گویا ان دونوں کے پاس اس وقت تک کوئی رہنما تھا جب وہ ان سے ملا۔ اونٹ کے اصل مالک نے عرینہ قبیلے کے ایک آدمی سے اونٹ دو سو دینار کے عوض خریدا تھا۔ قصہ گھڑنے والے نے بڑی ہوشیاری سے سارے قصہ کے ہیرو کو عرنی بتایا تاکہ اصل روایت اور موضوع روایت میں مشابہت برقرار رہے۔

حضرت عائشہؓ مکہ سے بصرہ اسی اونٹ پر سوار ہو کر آئیں جو یعلیٰ نے قتل عثمان کے بعد ام المومنین کو دیا تھا۔ اور قصے میں ہے کہ راستے میں حضرت عائشہؓ کی اونٹنی کو اس اونٹ سے بدل دیا گیا۔

قصے میں تہمت لگائی گئی ہے کہ ابن زبیر نے لشکر کے خلاف سازش کی اور حضرت عائشہؓ کو حضرت علیؓ کے لشکر سے خوف زدہ کر کے حوأب سے کوچ پر آمادہ کیا، حالاں کہ اس وقت تک فریقین میں سے کوئی بھی دوسرے سے خوف زدہ نہیں تھا اور وہ دونوں اصلاح کی تمنا کرتے تھے اور نہ ہی حضرت عائشہ اتنی اناڑی تھیں کہ کوئی ان کو خوف زدہ کرے اور خوف زدہ کرنے والا کون؟ عبداللہ بن زبیر کے مقام و مرتبہ کا صحابی۔ وہ حضرت عائشہؓ کو وہ بات بھلا دیتا ہے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا تھا۔ پھر قصے میں جس طرح حضرت علی کی طرف سے خلافت کے حق دار ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، اس سے رفض اور تشیع کی صاف صاف بو آرہی ہے۔ وہ حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے مقابلہ میں اپنے آپ کو خلافت کا حق دار قرار دے رہے ہیں، جبکہ صحیح روایات کے مطابق وہ سب خلفاے راشدین کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مندرجہ بالا حقائق کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں۔

ایک روایت طبری (۴/ ۴۶۹) نے احمد بن زہیر سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حوأب کے کتوں کو بھونکتے سنا تو کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون، میں ہی وہ ہوں جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب بیویوں کی موجودگی میں یہ کہتے سنا، ’’کاش مجھے پتا چل جائے تم میں سے جس پر یہ کتے بھونکیں گے؟‘‘ انھوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن زبیر ان کے پاس آئے۔ گمان کیا جاتا ہے (طبری کے یہ الفاظ غور طلب ہیں) کہ انھوں نے کہا: جھوٹا ہے وہ جو کہتا ہے کہ یہ حوأب کا مقام ہے وہ یہ بات کہتے رہے، یہاں تک کہ عائشہؓ چل پڑیں اور بصرہ پہنچ گئیں۔

اس کے علاوہ ایک اور مشہور اور غیر مستند روایت مسعودی اور بلاذری نے ابو مخنف سے بیا ن کی ہے۔ کہ جب حضرت عائشہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو طلحہ، زبیر اور دیگر پچاس آدمیوں نے گواہی دی کہ یہ مقام حوأب نہیں۔ یہ اسلام میں پہلی جھوٹی گواہی تھی۔

کیا یہ ممکن ہے کہ طلحہ اور زبیر جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہو، وہ جھوٹی گواہی دیں؟

حاکم نے مستدرک (۳/ ۱۱۹) میں اسی مضمون کی ایک روایت اپنے شیخ محمد بن عبد اللہ الحفید سے روایت کی ہے جسے شیخ ناصرالدین البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ، کیونکہ محمد بن عبداللہ مجہول ہے اور وہ علی الاعلان اپنے مسلک کی بنا پر نشہ کرتا تھا۔ آلوسی کا اس روایت کے بارے میں قول ہے کہ اس روایت میں ’إیاک أن تکونی یا حمیراء‘ (اے حمیراء، اس بات سے بچنا کہ تم ان بیویوں میں شامل ہو) کے الفاظ اہل سنت کی معتبر کتابوں میں موجود نہیں۔

طبری (۳/ ۲۶۳) میں ایک روایت سیف بن عمر کے واسطے سے بیان کی گئی ہے کہ جس عورت پر حوأب کے کتے بھونکتے تھے، وہ ام زمل سلمیٰ بنت مالک الفزاریہ ہے جس نے مقام ظفر اور حوأب کے درمیان مرتدین کے لشکر کی قیادت کی تھی۔ یاقوت حمری نے بھی مادہ حوأب کے تحت ’’معجم البلدان‘‘ (۲/۳۱۴) میں اسی روایت کو بغیر سند کے بیان کیا ہے۔ اسے شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

صحیح روایات

ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ میں قیس بن ابی حازم سے روایت بیان کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا ہو گا جب تم میں سے ایک پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟ یہ الفاظ بھی ہیں: ’’تم میں سے کسی پر حوأب کے کتے بھونکیں گے‘‘۔ امام ذہبی نے اس حدیث کو سنداً صحیح قرار دیا ہے۔ ابن کثیر نے اسے صحیحین کی شرط کے مطابق کہا ہے۔ ابن حبان نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ البانی نے ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ (۵/ ۴۷۵) میں اس کی تخریج کی ہے۔ امام احمد نے ایک ایسی سند کے ساتھ جو صحیحین کی شرط کے مطابق ہے، روایت کیا ہے کہ جب حضرت عائشہ حوأب کے چشمہ پر آئیں تو انھوں نے کتوں کو بھونکتے سنا اور کہا: میرا خیال ہے کہ میں لوٹ جاؤں، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا: ’’تم میں سے کس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ حضرت زبیر نے ان سے کہا: آپ واپس جائیں گی؟ ہو سکتا ہے کہ اللہ آپ کی وجہ سے لوگوں کے درمیان صلح کر ا دے۔

ان صحیح روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حضرت عائشہؓ کو نہ کسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور نہ کسی کام سے منع کیا گیا ہے۔ وہ روایات جن میں لفظ ’إیاک‘ (تو بچنا) ہے، ان کو علما نے صحیح قرار نہیں دیا۔ صحیح روایات میں حضرت عائشہ کے حوأب کے پاس سے گزرنے کا وہ منفی اثر نہیں جو من گھڑت روایات میں بیان ہوا ہے اور نہ ان کا حضرت عائشہ کی ذات پر یہ اثر ہوا کہ انھوں نے سنجیدگی سے واپس جانے کے بارے میں سوچا ہو۔ انھوں نے اس کے لیے ’ظن‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ایک لمحہ کے لیے انھیں واپس جانے کے بارے میں گمان ہوا ہو گا، لیکن جب حضرت زبیر نے مسلمانوں کی اصلاح کی بات کی تو وہ گمان ختم ہو گیا۔ امام آلوسی کا قول ہے: ’’پھر اس میں کوئی ممانعت وارد نہیں۔ حضرت عائشہ اپنے اجتہاد سے چل نکلیں، انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس راستے میں حوأب کا مقام ہے اور جب انھیں پتا چلا تو لوٹنا ان کے لیے ممکن نہ تھا ،کیونکہ باقی صحابہ اس پر متفق نہیں تھے اور پھر اس سے اصلاح کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دور سے دیکھ رہا ہے کہ ایک بچہ کنویں میں گر جائے گا، وہ اسے بچانے کے لیے بھاگتا ہے اور لاشعوری میں اس آدمی کے سامنے سے گزرتا ہے جو نماز پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ پیچھے لوٹے تو جو ہو گا اس کی تلافی ممکن نہیں۔ وہ بچے کو گزرنے سے بچا نہ سکے گا۔ چنانچہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے‘‘۔ اسی کے لیے وہ مامور ہے۔

خلاصۂ بحث

چنانچہ علمی اور تاریخی لحاظ سے حوأب کے قضیہ سے ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا جو اس پہلو سے حضرت عائشہؓ کے سیاسی کردار پر نکتہ چینی کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس سے اس سیاسی کردار کی تائید ہوتی ہے جو انھوں نے ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کی پیشین گوئی کی اور اسے برا نہیں سمجھا۔ یہ حدیث تو نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ امام احمد نے ایک اور شکل میں اس پیشین گوئی کا ذکر کیا ہے، وہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے کہا کہ تمھارے اور عائشہ کے درمیان کوئی معاملہ ہو گا۔ انھوں نے کہا: میرے درمیان اے اللہ کے رسول؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، انھوں نے پوچھا: کیا میں ان کو لڑائی میں مشغول کروں گا؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، لیکن اگر ایسی بات ہو تو ان کو محفوظ مقام تک پہنچا دینا۔ چنانچہ حوأب کے چشمہ پر سے گزرنے والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کا موقف درست تھا اور وہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے انھیں سیاسی کردار ادا کرنے کا حق حاصل تھا۔

حضرت عائشہؓ کی بصرہ میں صلح کی کاوشیں

بصرہ کے قریب پہنچنے کے بعد حضرت عائشہؓ نے وہاں کے سربرآوردہ لوگوں سے خط و کتابت کی اور ان کے جواب کا انتظار کیا۔ حضرت علی کی طرف سے مقرر کردہ بصرہ کے والی نے گفتگو کے لیے اپنے دو قاصد بھیجے۔ حضرت عائشہ نے ان کے سامنے اپنے خروج کا سبب بیان کیا۔ ان میں سے ایک عمران بن حصین فاضل صحابی تھے۔ انھوں نے عثمان بن حنیف کو جا کر کہا: ’’میں تو بیٹھ رہا ہوں تم بھی بیٹھ جاؤ‘‘، یعنی اس معاملہ میں شریک نہ ہو (تاریخ طبری ۴/ ۴۶۴) حضرت عائشہ کی بات سننے کے بعد اگر ان کو یقین ہو جاتا کہ عائشہ کا موقف غلط ہے تو وہ کبھی عزلت نشینی اختیار نہ کرتے، بلکہ ان پر عائشہؓ کا مقابلہ دینی لحاظ سے واجب ہو جاتا۔ حضرت عائشہ کی باتیں سننے کے بعد انھوں نے طرفین میں سے کسی کے موقف کو ترجیح نہ دی، اس لیے گوشہ نشینی اختیار کی۔

لوگوں سے حضرت عائشہ کے خطاب کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے، اسے سننے کے بعد لوگ دو فریقوں میں تقسیم ہو گئے: ایک فریق حضرت عائشہ کو برحق سمجھتا تھا، جبکہ دوسرا فریق ان سے اختلاف کرتا تھا اور عثمان بن حنیف کا ساتھ دے رہا تھا۔ عثمان بن حنیف اور حُکیم بن جبلہ کے کھلم کھلا اعلان جنگ کے باوجود حضرت عائشہؓ کا منادی تو قاتلین عثمان کے خلاف بھی جنگ کرنے سے روک رہا تھا (طبری ۴/ ۴۶۴)۔

حضرت عائشہ کے خطبے کے بعد حُکیم بن جبلہ نے جنگ کا اعلان کر دیا۔ حضرت عائشہ کے ساتھیوں نے بھی نیزے نکال لیے، لیکن وہ لڑائی سے رکے رہے تاکہ دوسرے بھی رک جائیں۔ حُکیم اور اس کے ساتھی باز نہ آئے اور لڑتے رہے۔ اصحاب عائشہ صرف دفاع میں لڑتے رہے، جبکہ حُکیم اپنے سواروں کو ابھارتا رہا (طبری ۴/ ۴۶۶)۔

یہ حُکیم بن جبلہ وہی تھا جس کے گھرمیں عبداللہ بن سبا بصرہ آنے کے بعد ٹھہرا تھا۔ فسطاط جانے کے بعد بھی اس کی خط و کتابت حُکیم سے جاری رہی۔ یہ وہی تھا جس نے حضرت عثمان پر برسر منبر کنکریاں پھینکی تھیں اور جب فتنہ پرداز پہلی دفعہ حضرت عثمان سے بحث مباحثہ کے بعد مدینے سے چلے گئے تھے تو حُکیم اور اشتر نخعی مدینے ہی میں ٹھہرے رہے۔ حضرت عثمان کی جعلی تحریر کے پیچھے ان دونوں کا ہاتھ تھا۔ اسی تحریر کے بعد بلوائی دوبارہ مدینہ میں آگئے اور حضرت عائشہ، طلحہ اور زبیر بصرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ حضرت علی سے مفاہمت ہو جاتی، مگر اچانک اس حُکیم نے جنگ چھیڑ دی (تاریخ طبری ۴/۴۷۰)۔

اس کے باوجود حضرت عائشہ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ دائیں طرف مقاتلین سے دور ہٹ جائیں، یہاں تک کہ رات ان کے درمیان حائل ہو گئی۔ صبح سویرے عثمان بن حنیف ان کی طرف بڑھے۔ حُکیم بھی بڑبڑاتا ہوا آیا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ حضرت عائشہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف راستے میں جو مرد یا عورت اس کے کہنے پر حضرت عائشہؓ کو گالیاں نہ دیتا تھا، اسے نیزہ مار کر قتل کر دیتا تھا۔ قبیلہ عبدالقیس کے لوگ غصے میں آگئے، انھوں نے حُکیم سے کہا: تو نے کل بھی یہی حرکت کی تھی اور آج بھی وہی حرکت کر رہا ہے۔ بخدا، ہم تجھے چھوڑ رہے ہیں تاکہ اللہ تجھ سے بدلہ لے۔ حُکیم بن جبلہ قاتلین عثمان کی معیت میں لڑتا رہا۔ قاتلین جانتے تھے کہ بصرہ میں ان کا کوئی ٹھکانا نہیں، اس لیے وہ اس کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ وہ عائشہؓ کے ساتھیوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور سختی سے لڑنے لگے۔

حضرت عائشہؓ کا منادی انھیں جنگ سے روکتا رہا، مگر وہ لڑتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی رہیں: صرف ان سے لڑو جو تم سے لڑے، دوسروں سے نہیں۔ حُکیم منادی کی پروا کیے بغیر جنگ کو بھڑکاتا رہا۔ جب طلحہ اور زبیر کو لڑنے والوں کی حقیقت کا پتا چل گیا تو انھوں نے کہا: اس اللہ کا شکر ہے جس نے بصرہ میں قاتلین عثمان کو جمع کر کے ہمیں بدلہ لینے کا موقع فراہم کیا۔ انھوں نے منادی کر دی جس نے عثمان کو قتل نہیں کیا، وہ اپنا ہاتھ روک لے۔ ہم صرف عثمان کے قاتلوں کو چاہتے ہیں۔ پھر انھوں نے سخت جنگ کی، یہاں تک کہ بصرہ کے قاتلین میں سے حرقوس بن زھیر کے سوا کوئی نہ بچا۔ زبیر اور طلحہ نے منادی کر دی: دیکھو، اگر تمھارے قبیلوں میں سے کسی ایک نے مدینہ پر چڑھائی کی ہو تو اسے ہمارے پاس لے آئیں۔

دونوں فریق لڑتے رہے، یہاں تک کہ عائشہ کے ساتھیوں نے صلح کی دعوت د ے دی، اور ان کے درمیان ایک تحریر لکھی گئی کہ مدینہ کی طرف ایک قاصد بھیج کر پتا چلایا جائے کہ آیا طلحہ اور زبیر کو حضرت علی کی بیعت پر مجبور کیا گیا یا نہیں۔ اگر تو ایسا ہوا تو عثمان بن حنیف بصرہ سے نکل جائے گا، ورنہ طلحہ اور زبیر وہاں سے نکل جائیں گے۔ قاصد یہ پیغام لایا کہ ان کو واقعی بیعت پر مجبور کیا گیا ہے۔ چنانچہ عثمان سے کہا گیا کہ وہ بصرہ سے نکل جائے، مگر وہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔

تاریخ طبری (۴/ ۴۷۴) میں ہے کہ ان بلوائیوں کی ایک جماعت حضرت عائشہؓ کو قتل کرنے کے لیے ان کے گھر کے دروازہ تک پہنچ گئی۔ ان کے ساتھ ایک آدمی تھا جو رہنمائی کر رہا تھا، لیکن ان کے گھر کو مسلمانوں کی ایک جماعت نے گھیرے میں لیا تھا۔ انھوں نے حملہ آوروں کو قتل کر دیا۔ ان واقعات سے اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے لوگوں کو جنگ پر بھڑکایا۔ ان پر تو جنگ تھوپی گئی تھی اور وہ اپنے دفاع کے لیے لڑ رہے تھے۔

سیدہ عائشہ کے دوسرے شہروں کی طرف خطوط

حضرت عائشہؓ نے اہل شام، کوفہ، یمامہ اور اہل مدینہ کو خطوط لکھے اور ان کو بتایا کہ ہم لڑائی نہیں چاہتے، بلکہ اللہ کی حدود کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں لڑائی پر مجبور کیا گیا ہے۔ انھوں نے کسی سے مدد نہ طلب کی، بلکہ یہی کہا کہ وہ اس فتنہ سے الگ رہیں، قاتلین کی حمایت نہ کریں اور اپنے اپنے گھروں میں مقیم رہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کا ہدف اصلاح تھا، نہ کہ جنگ۔

یہ روایت غلط ہے کہ حضرت عائشہ نے عثمان بن حنیف کے مثلہ (ناک کان کاٹنا) کا حکم دیا۔ امام طبری نے سیف بن عمر کی صحیح روایت (۴۶۸۴) میں بیان کیا ہے کہ بلوائیوں نے خود یہ کام کیا تھا۔ حضرت طلحہ اور زبیر نے اسے ناپسند کیا اور خبر حضرت عائشہ کی طرف بھیجی تو انھوں نے کہا: اسے آزاد کر دو۔ جہاں جانا چاہتا ہے چلا جائے، اسے قید مت کرو۔

کیا حضرت عائشہ کا خروج حضرت علی کے خلاف تھا یا انھیں خلافت کے منصب سے ہٹانے کے لیے تھا؟

یہ جو مشہور روایت ہے کہ بعض صحابہ نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی، صحیح روایت نہیں۔ کسی صحیح روایت میں اس بات کا اشارہ تک نہیں کہ ان صحابہ نے بیعت نہیں کی۔ ہاں روایات میں اس بات پر اختلاف ہے کہ بیعت پر ان کو مجبور کیا گیا یا نہیں۔ ہاں، حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھیوں نے قاتلین عثمان سے سبقت لینے اور ان سے انتقام نہ لینے پر اعتراض کیا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے بارے میں تساہل سے کام لیا جا رہا ہے، کیونکہ اقامت حدود میں اتنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ (۱۳/ ۷۰۰) میں لکھتے ہیں: ’’کسی نے حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھیوں سے یہ روایت نہیں کی کہ ان کا حضرت علیؓ سے خلافت کے بارے میں جھگڑا تھا اور نہ ان میں سے کسی نے دعویٰ کیا کہ اسے خلیفہ بنا دیا جائے‘‘۔ ابن العربی نے ’’العواصم من القواصم‘‘ (ص ۱۵۵) میں لکھا ہے: ’’رہا یہ دعویٰ کہ وہ علی کو خلافت سے اتارنا چاہتے تھے، یہ باطل ہے کیونکہ خلع کے لیے سب کی راے اور ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ وہ صرف راے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے نکلے تھے تاکہ حدود کے نفاذ میں تاخیر نہ ہو۔

یہ درست ہے کہ حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھی نہ تو حضرت علی کو خلافت سے اتارنا چاہتے تھے اور نہ ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا چاہتے تھے، لیکن انھوں نے حضرت علیؓ کو بتائے بغیر خروج کیا جو مناسب نہ تھا۔ یہ ایک غلطی تھی جس کے نتیجے میں ایک اور غلطی سرزد ہوئی کہ حضرت علیؓ ان کے پیچھے نکل پڑے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ کو کہنا پڑا کہ طلحہ، زبیر اور ام المومنین میری خلافت سے ناراض ہوکر اکٹھے ہو گئے ہیں اور لوگوں کو اصلاح کی دعوت دے رہے ہیں، جبکہ حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھی سمجھ رہے تھے کہ حضرت علیؓ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے حضرت علیؓ کو بتائے بغیر خروج کیا۔

اعتماد کے اس فقدان میں دو عامل کارفرما تھے:

ایک تو یہ کہ حضرت علیؓ کے گرد بلوائیوں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا اور وہ ان کے لشکر میں بھی گھس گئے تھے، اس لیے انھیں ڈر تھا کہ اگر انھوں نے عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے حد نافذ کی تو حرم نبوی میں خون ریزی ہو گی۔ جب وہ بصرہ کی طرف نکلے تو ان کے لشکر میں زیادہ تر یہی بلوائی تھے جن کے متعلق وہ خود گلہ کرتے تھے کہ وہ ان کا کہنا نہیں مانتے اور انھوں نے ان کے اور ان سے پہلے خلیفہ کے خلاف سرکشی اختیار کر رکھی ہے۔ فسادیوں کے اس لشکر نے جو حضرت علیؓ کے ساتھ چپکا ہوا تھا، حالات کو بگاڑنے میں بڑا رول ادا کیا۔ انھوں نے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان فتنہ و فساد پیدا کیا۔ آیندہ کے واقعات اس کے شاہد ہیں۔

دوسرا عامل یہ تھا کہ حضرت علیؓ فیصلہ کرتے وقت بڑے صحابہ کی راے کی طرف خاص توجہ نہیں دیتے تھے۔ مثلاً جب حضرت عبداللہ بن عباس اور مغیرہ بن شعبہ نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ عثمانؓ کے عاملوں کو عجلت میں معزول نہ کریں تو انھوں نے ان کے مشورہ کی طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ پھر جب ابن عباس اور ان کے بیٹے حسن نے مشورہ دیا کہ جب تک طلحہ اور زبیر ان فسادیوں سے نمٹ نہ لیں اور صلح نہ ہو جائے آپ گھر میں بیٹھے رہیں (طبری ۴/ ۴۵۶)۔ اگر فساد ہو گا تو آپ کے ہاتھوں سے نہ ہو گا۔

حضرت علی کے خروج کا مقصد

آپ کی نیت نیک تھی۔ وہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر تک پہنچ کر ان کو خروج سے روکنا چاہتے تھے۔ تاریخ طبری کی روایت کہتی ہے کہ وہ ان کے پاس جلدی سے پہنچ کر ان کو روکنا چاہتے تھے۔ وہ تو انھیں راستے میں روکنا چاہتے تھے، لیکن وہ نکل چکے تھے۔ وہ بلوائیوں کو مدینہ سے دور رکھنا چاہتے تھے تاکہ اہل مدینہ کا خون نہ بہے۔ چنانچہ عائشہؓ ، طلحہؓ اور زبیرؓ کے ساتھ صلح کی غرض سے بصرہ کی طرف خروج سے پہلے انھوں نے اعلان کیا: ’’کل کوئی ایسا شخص ہمارے ساتھ نہ جائے جس نے حضرت عثمانؓ کے قتل میں کسی نہ کسی صورت میں مدد کی ہے‘‘ (تاریخ طبری ۴/ ۴۹۳)۔

حضرت علیؓ عائشہؓ کے ساتھیوں کو امت کے خلاف خروج نہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ نے مدینہ سے بصرہ کی طرف کوچ کا ارادہ کیا تو جلیل القدر صحابی رفاعہ بن رافع نے حضرت علی سے پوچھا: اے امیر المومنین، آپ کا کیا ارادہ ہے؟ آپ ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: ہمارا ارادہ اصلاح کا ہے، بشرطیکہ وہ ہماری بات مان لیں۔ انھوں نے پوچھا: اگر انھوں نے بات نہ مانی؟ تو آپ نے فرمایا: ہم ان کو معذور سمجھ کر چھوڑ دیں گے اور صبر کریں گے۔ انھوں نے کہا: اگر وہ اس پر راضی نہ ہوئے؟ آپ نے جواب دیا: جب تک وہ ہمیں کچھ نہ کہیں، ہم انھیں چھوڑ دیں گے۔ انھوں نے پوچھا: اگر انھوں نے ہمیں نہ چھوڑا؟ آپ نے فرمایا: ہم ان سے ہاتھ روکے رکھیں گے تو رفاعہ نے کہا: پھر ٹھیک ہے (تاریخ طبری، روایت سیف بن عمر ۴/ ۷۹۴)۔

حضرت علیؓ اس مسئلہ کو سیاسی اختلاف نہ تصور کرتے تھے۔ آپ نے ایک ساتھی سے پوچھا: یہ جو حضرت عثمانؓ کے خون کے بدلہ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی حجت ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں، اس نے پوچھا: اس معاملے میں تاخیر کرنے کے لیے کیا آپ کے پاس حجت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس نے پوچھا: اگر کل ہم جنگ میں پھنس گئے تو ان کا اور ہمارا حال کیا ہو گا؟ آپ نے جواب دیا: ہمارے اور ان میں سے جس کا دل صاف ہو گا، وہ لڑائی میں حصہ نہیں لے گا اور اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

جب معرکہ ختم ہو گیا تو حضرت عمار بن یاسر نے حضرت علیؓ سے پوچھا: جن لوگوں کو ہم نے قتل کیا ہے، ان کے بیٹوں کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟ آپ نے فرمایا: ان پر تمھیں کوئی اختیار نہیں۔ انھوں نے کہا: اگر آپ اس بات کے علاوہ کوئی بات کہتے تو ہم آپ کی مخالفت کرتے، اس کا مطلب ہے کہ جن صحابہ نے آپ کے ساتھ خروج کیا، وہ بھی اس اختلاف کو سیاسی اختلاف تصور نہیں کرتے تھے۔

صلح کے لیے حضرت علیؓ کی کاوش

بصرہ کے قریب نزول سے پہلے حضرت علیؓ نے قعقاع بن عمرو کو حضرت عائشہؓ سے گفتگو کے لیے بھیجا۔ اس نے ان سے پوچھا: اے ام المومنین، آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ انھوں نے کہا: اصلاح کے لیے۔ اس نے طلحہ اور زبیر کو بلا بھیجا، جب وہ آئے تو ان سے بھی سوال پوچھا: کیا تم فرماں بردار ہو یا مخالف؟ انھوں نے کہا: فرماں بردار، انھوں نے اصلاح کی وجہ حضرت عثمانؓ کا قتل بتایا۔ قعقاع نے کہا: تم نے اہل بصرہ کے قاتلین عثمان میں سے چھ سو آدمیوں کو قتل کر کے صرف حرقوص بن زبیر کو زندہ چھوڑا۔ جب تم نے اس کا مطالبہ کیا تو چھ ہزار لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ مضر اور ربیعہ کے قبیلوں میں تمھارے حمایتی تمھیں چھوڑ کر ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اگر تم ان سے لڑتے تو وہ تم پر ٹوٹ پڑتے۔ تم نے احتیاط کی، جس بات کے لیے تم مجبور کر رہے ہو، وہ اس سے کہیں بڑھ کر احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے ان سے کہا: تمھاری کیا راے ہے؟ اس نے کہا کہ اس کا علاج سکون ہے۔ عثمان کا قتل ایک عام آدمی کا قتل نہیں، انھوں نے بات مان لی اور وہ حضرت علیؓ کے پاس لوٹ گیا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے دو اور قاصد بھیجے جنھوں نے قعقاع کی بات کی تائید کی، لشکر میں شامل سب قبائل کو صلح کا یقین ہو گیا۔ جب حضرت علی نے کوچ کا ارادہ کیا اور پھر وہی الفاظ دہرائے جو بصرہ آنے سے پہلے کہے تھے: ’’میں کل کوچ کر رہا ہوں۔ کل کوئی ایسا شخص کوچ نہ کرے جس نے کسی نہ کسی شکل میں عثمان کے قتل میں مدد کی ہو۔ وہ یہ بات کہہ کر حضرت عائشہؓ، طلحہ اور زبیر کو صلح کا یقین دلانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے بڑے بڑے صحابہ سے مشورہ لینے کے لیے قاصد بھیجے، مگر ان میں سے کسی کی طرف قاصد نہ بھیجا جنھوں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کیا تھا‘‘۔

جنگ جمل

فریقین کے درمیان مصالحانہ گفتگو کی تکمیل کے بعد قاتلین عثمان جمع ہوئے۔ ان میں ابن السوداء بھی تھا، انھوں نے باہمی مشورہ کیا کہ حضرت علی اللہ کی کتاب کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ سب سے بڑھ کر حدود نافذ کرنے پر عمل کریں گے اور انھوں نے قاتلین عثمان سے علیحدگی کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ أشتر نخعی نے کھڑے ہو کر کہا: علی کا معاملہ تو آج ہی واضح ہوا ہے۔ ہمارے بارے میں سب آدمیوں کی ایک ہی راے ہے۔ وہ ہماری لاشوں پر ہی صلح کر سکتے ہیں، چلو علیؓ پر حملہ کر کے اسے بھی عثمان کے پاس پہنچا دیتے ہیں۔ پھر فتنہ بھڑک اٹھے گا اور لوگ ہمیں پر سکون ہونے کے لیے کہیں گے۔ ابن سبا نے ان کو مشورہ دیا کہ تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ لوگوں میں گھل مل جاؤ۔ ان سے مدارات کرو اور جب کل ان کی ملاقات ہو تو جنگ چھیڑ دو اور ان کو مہلت نہ دو۔ ان کو لڑا کر پھر بکھر جانا۔

رات پھر علی کی طرف سے عبداللہ بن عباس اور طلحہ اور زبیر کی طرف سے محمد بن طلحہ صلح کی گفتگو میں مصروف رہے۔ صبح کے دھندلکے میں قاتلین عثمان نے دونوں لشکروں میں گھس کر ہتھیار چلوا دیے۔ کعب بن مسعود حضرت عائشہ کے پاس دہائی دیتا ہوا آیا کہ لوگوں نے جنگ شروع کر دی ہے۔ چلو ہو سکتا ہے کہ اللہ آپ کی وجہ سے صلح کرا دے۔ پھر وہ اونٹ پر سوار ہو کر روانہ ہو گئیں۔

گھمسان کے رن میں حضرت علیؓ، عائشہؓ، طلحہؓ اور زبیر نے جنگ روکنے کی کوشش کی۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: اے کعب، اونٹ کو چھوڑ کر قرآن پکڑ لو اور ان کو اس کی دعوت دو، قرآن اس کے حوالے کیا اور کہا کہ اگر ان میں ذرہ برابر بھی نیکی ہے تو وہ قرآن کی آواز پر لبیک کہہ کر لڑائی چھوڑ دیں گے۔ کعب قرآن لہرا رہے تھے۔ حضرت علی پیچھے کھڑے لوگوں کو روک رہے تھے، فتنہ پردازوں نے صلح سے خوف زدہ ہو کر حضرت کعب کو تیراندازی کر کے قتل کر دیا اور حضرت عائشہؓ کو ہودے میں نیچے گرا دیا۔ وہ اونچی آواز سے پکارنے لگیں: اے بیٹو، اللہ کی اطاعت تمھارے لیے بہتر ہے، اللہ سے اور یوم حساب سے ڈرو! مگر حملہ آور ان کی بات نہیں مان رہے تھے۔ وہ حضرت عائشہ پر چوٹ لگانا اور ان کی بے عزتی کرنا چاہتے تھے۔ محمد بن طلحہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا: اے ماں، مجھے حکم دو، آپ نے فرمایا کہ میں تمھیں حکم دیتی ہوں کہ تم بہتر انسان بنو۔ چنانچہ وہ صرف اس پر حملہ کرتے تھے جو ان پر حملہ کرتا تھا۔ اس خطرناک مقام میں بھی ام المومنین نے اپنا مرتبہ اور مقام قائم رکھا۔ بلوائی حضرت علی کے لشکر میں ہراول دستہ تھے۔ ان سے لڑنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ حضرت عائشہ نے کہا: لوگو، عثمان کے قاتلوں اور ان کے ساتھیوں پر لعنت بھیجو۔ آپ دعا کرنے لگیں، اہل بصرہ اور حضرت علی بھی ا ن کے ساتھ دعا کرنے لگے، وہ اور کر بھی کیا سکتی تھیں؟ قاتلین کا سارا زور اونٹ (جمل) کی طرف تھا۔ ہودہ تیر لگ لگ کر سیہہ کی مانند ہو گیا تھا۔ حضرت طلحہ اور زبیر کے قتل کے بعد وہ حضرت عائشہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ شام تک جنگ چلتی رہی۔ شام کے وقت حضرت علی آگے بڑھے، اونٹ کو گھیرے میں لے لیا گیا تو جنگ رک گئی۔

جھوٹی روایت

طبری میں حجاج بن ارطاۃ سے ایک روایت مروی ہے کہ جنگ کے دوران مصحف لہرانے والے حضرت علی تھے، حالاں کہ صحیح روایت میں بیان ہو چکا ہے کہ مصحف سیدہ عائشہؓ نے لہرایا اور بصرہ کے قاضی کعب بن سورکے حوالے کیا جو معرکہ میں شہید ہوئے۔ حجاج بن ارطاۃ مدلّس تھا، اس لیے اس کی روایات متروک ہیں۔ دوسرا راوی عمار بن معاویہ دہنی ہے جو ثقہ ہے، مگر وہ واقعہ میں شریک ہی نہیں ہوا۔ اس روایت میں ایک شعر حضرت عائشہ کے بارے میں یوں ہے:

وأمہم قائمۃ تراھم

یاتمرون الغی لاتنہاہم

’’ان کی ماں کھڑی دیکھ رہے تھی۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہی کا مشورہ دے رہے تھے، مگر وہ ان کو روک نہیں رہی تھیں۔‘‘

یہ شعر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ روایت اس لیے گھڑی گئی ہے کہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عائشہؓ جنگ چاہتی تھیں۔

جنگ کے بعد حضرت عائشہ اور حضرت علیؓ، دونوں کا ردعمل یہ تھا کہ جب بھی ان کو کسی کی شہادت کی خبر ملتی، خواہ اس کا تعلق حضرت عائشہ کے لشکر سے ہو یا حضرت علیؓ کے، دونوں کہتے: اللہ اس پر رحم کرے۔ حضرت علی نے فریقین کے مقتولین کی نماز جنازہ پڑھی اور ان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی زخمی کا کام تمام نہ کیا جائے اور کسی کے گھر میں داخل نہ ہوا جائے۔ یہ جنگ علیؓ اور عائشہؓ کے لشکروں کے درمیان جنگ نہ تھی۔

قعقاع بن عمرو حضرت عائشہؓ کے پاس حاضر ہوا اور سلام کیا، آپ نے ان سے پوچھا: ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمارے علم میں یہ نافرمان ماں ہے، تو قعقاع نے کہا: ’’بخدا، وہ جھوٹا ہے۔ آپ ہمارے علم میں فرماں بردار ترین ماں ہیں، لیکن آپ کا کہا نہیں مانا جاتا‘‘۔ ایک آدمی نے حضرت علی کو بتایا کہ دو آدمی حضرت عائشہ کی عیب جوئی کر رہے ہیں تو انھوں نے قعقاع کو کہا کہ انھیں سزا دی جائے تو انھوں نے انھیں کپڑے اتار کر سو سو کوڑے مارے۔

حضرت علی نے حضرت عائشہؓ کو چالیس بصرہ کی عورتوں کے ہمراہ عزت و احترام سے بھیجا اور محمد بن ابی بکر کو کہا کہ انھیں گھر پہنچاؤ۔

خروج عائشہؓ اور صحابہ کی تنقیدی روایات

یہ سب روایات اس دعویٰ پر قائم ہیں کہ اللہ نے ازواج مطہرات کو گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ دعویٰ تاریخی اور ادبی کتابوں میں تشکیل دیا گیا ہے اور اس کو اس طرح ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ گویا یہ خروج حرام ہے یہ اس بات کو جانے بغیر ہے کہ دعویٰ کی اصل کیا ہے اور اس میں کتنی صداقت ہے؟ اس سلسلہ میں انھی روایات پر اکتفا کیا گیا ہے جو ’’تاریخ طبری‘‘ میں مروی ہیں صرف آخری روایت بخاری کی ہے۔

طبری نے اپنی تاریخ (۴/۴۷۶) میں ابو مخنف سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ نے زید بن صوخان کو خط لکھا: ’’اللہ کے رسول کی محبوب بیوی کی طرف سے اپنے مخلص بیٹے زید بن صوخان کی طرف، جب تمھارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو چلے آنا اور اس معاملہ میں ہماری مدد کرنا۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو لوگوں کو عمل سے دور رکھنا‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’عائشہ بنت ابی بکر اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کی طرف، میں آپ کا مخلص بیٹا ہوں، بشرطیکہ آپ اس کام سے الگ ہو جائیں اور اپنے گھر کی طرف لوٹ جائیں، وگرنہ میں سب سے پہلے آپ کو چھوڑ دوں گا‘‘۔ زید بن صوخان نے کہا: اللہ ام المومنین پر رحم کرے۔ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ گھر نہ چھوڑیں اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ قتال کریں۔ جو حکم انھیں دیا گیا ہے، اس کو چھوڑ کر ہمیں وہ اس کا حکم دے رہی ہیں، اور جو حکم ہمیں دیا گیا ہے، اس پر عمل کر رہی ہیں اور ہمیں اس سے منع کر رہی ہیں۔

یہ روایت ابو مخنف نے مجالد بن سعید سے روایت کی ہے۔ امام ذہبی کا قول ہے کہ صحابہ سے ابو مخنف کی کسی روایت کا اعتبار نہیں۔ وہ اگرچہ صحابہ کے زمانہ میں پیدا ہوا، مگر وہ چشم دید گواہ نہیں۔ پھر علما کی راے میں وہ شیعہ ہے اور بہت جھوٹ لکھتا ہے۔ اسے حجت نہیں سمجھا جاتا۔ محققین کے نزدیک حضرت عائشہ اور زید بن صوخان کے درمیان مکاتبت کی ایک روایت بھی صحیح نہیں۔ البتہ ’’تاریخ طبری‘‘ (۴/۴۸۳) میں سیف بن عمر کی روایت ہے کہ زید بن صوخان نے اہل کوفہ کے سامنے حضرت عائشہ کا نامہ پڑھا کہ ’’اے لوگو، باز رہو۔ گھروں میں بیٹھے رہو، ہاں عثمان کے قاتلوں سے ہاتھ نہ روکنا‘‘۔ تحریر پڑھنے کے بعد زید نے وہی الفاظ پڑھے جو اوپر نقل ہو چکے ہیں۔ ابن حبان نے بھی سیف بن عمر کی روایت کو (الثقات ۲: ۴۸۲) بیان کیا ہے لیکن الفاظ کو انھوں نے زید بن صوخان کے بجاے عمار بن یاسر کی طرف منسوب کیا ہے۔

یہ قول جو زید بن صوخان یا عمار بن یاسر کی زبان سے نکلا، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور نہ ہی یہ صحابہ کی راے تھی۔ صحابی خواتین ہجرت کے لیے نکلیں، جہاد میں شرکت کے لیے اور مرتدین کی سرکوبی کے لیے نکلیں تو پھر حضرت عائشہ پر کیوں اعتراض کیا جا رہا ہے؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت عائشہ زید اور عمار سے بڑھ کر شریعت کو سمجھتی تھیں۔ اس بارے میں جمہور علما کی بھی یہی راے ہے۔ اگر خروج حرمت کے منافی ہوتا تو سب سے پہلے وہ خود اسے قبول نہ کرتیں اور نہ ہی طلحہ اور زبیر جیسے صحابی اسے قبول کرتے۔

پھر یہ خروج جنگ کے لیے نہ تھا، مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی غرض سے تھا۔ چنانچہ مذکورہ روایت میں شبث بن وہبی نے زید بن صوخان کو جواب دیا: عائشہ نے تو وہی حکم دیا ہے جو اللہ نے دیا ہے لوگوں کے درمیان اصلاح کا۔

اس روایت میں بعض ایسی باتوں کا ذکر ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ شبث بن وہبی نے زید بن صوخان پر چوری کے اور قعقاع بن عمرو نے نشے کو برا بھلا کہنے اور پھر فتنے میں داخل ہونے کے الزام لگائے۔ اسی روایت کے مطابق جب کسی نے عمار بن یاسر سے پوچھا کہ تم نے عثمان کو قتل کیوں کیا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ ہماری بے حرمتی کرتے تھے اور ہماری جلدوں پر ضرب لگاتے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ روایت خواہ زید کی زبان سے ہو یا عمار کی زبان سے، صحیح نہیں۔ اس میں بہت سی خلاف حقیقت باتیں گھسیڑ دی گئی ہیں اور یہ کام ان راویوں نے کیا ہے جن کے خاص مذہبی میلانات تھے اور جو سیدہ عائشہ پر اعتراض جڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں زید بن صوخان کے لیے حضرت علی کے لشکر میں قتل ہونے کے بعد رحم کی دعا کی۔

جاریہ بن قدامہ کی روایت

طبری نے تاریخ (۴/ ۴۶۵۔۴۶۶) میں نصر بن مزاحم سے روایت کی ہے کہ ’’صحابی جاریہ بن قدامہ آیا اور کہنے لگا: اے ام المومنین، بخدا آپ کا اس ملعون اونٹ پر جو ہتھیاروں کا نشانہ ہے نکلنا اتنا برا ہے کہ عثمان کا قتل اتنا برا نہیں۔ اللہ کی طرف سے تمھارے لیے ایک ستر اور حرمت مقرر ہے۔ آپ نے اپنا پردہ چاک کر دیا ہے اور اپنی حرمت کو جائز قرار دیا ہے۔ بے شک، جو آپ سے لڑائی کرنا چاہتا ہے، وہ آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ اگر تو آپ اپنی مرضی سے آئی ہیں تو اپنے گھر لوٹ جائیں اور اگر آپ مجبوراً آئی ہیں تو لوگوں سے مدد مانگنے نکلیں۔ یہ ایک طویل روایت ہے جس میں بنو سعد کا نوجوان طلحہ اور زبیر کو طعنہ دیتا ہے کہ وہ اپنی عورتیں تو نہیں لائے اور ام المومنین کو لے آئے ہیں۔ روایت کا وہ حصہ خاصا تعجب انگیز ہے جس میں جہینہ کا نوجوان محمد بن طلحہ ساجد سے قاتلین عثمان کا پتا پوچھتا ہے تووہ حضرت عائشہ اپنے باپ طلحہ اور حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ جوان یہ بات سن کر حضرت علی سے مل جاتا ہے۔ یہ روایت نصر بن مزاحم سے مروی ہے جو غالی شیعہ تھا۔ راوی اور روایت کا یہ جھکاؤ پڑھنے والے کو صاف نظر آرہا ہے۔ یہ روایت نصر بن مزاحم کے خیال کے مطابق سہیل بن یوسف المتوفی ۱۹۰ھ نے قاسم بن محمد (المتوفی ۱۰۶ھ) سے اخذ کی۔ متن روایت کا یہ جملہ قابل غور ہے: ’’حضرت عثمان کا قتل اتنا برا نہیں جتنا آپ کا خروج برا ہے‘‘۔ یعنی مسلمانوں کا خلیفہ قتل ہو گیا تو کوئی بری بات نہیں، لیکن عائشہ کا اصلاح کی خاطر نکلنا بہت بڑی بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خلیفہ مقتول رہتا اور خون کا بدلہ نہ مانگا جاتا اور عائشہ گھر میں بیٹھی رہتیں۔

روایت کے جس حصہ میں محمد بن طلحہ ساجد کی راے پیش کی گئی ہے، اس سے شیعی میلان صاف صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ طلحہ کے متقی اور عابد بیٹے نے یہ راے دی ہو گی، لیکن ان کی مزعومہ راے کے باوجود نوجوان حضرت علی سے مل گیا۔ یہ روایت شعر اور نصوص سے بھری ہوئی ایک ڈرامائی روایت ہے۔

حضرت ام سلمہ کی روایت

طبری نے اپنی تاریخ (۴/۴۵۱) میں ابو مخنف سے روایت بیان کی ہے کہ ہمیں عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے اپنے باپ سے حدیث سنائی کہ ’’ام سلمہ نے کھڑے ہو کر کہا: اے امیر المومنین، اگر اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہوتی اور آپ اسے قبول کرتے تو میں آپ کے ساتھ خروج کرتی۔ یہ رہا میرا بیٹا عمر۔ بخدا، وہ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ آپ کے ساتھ خروج کرے گا۔ یہ آپ کے ساتھ تمام معرکوں میں حاضری دے گا۔ چنانچہ اس نے خروج کیا۔ حضرت علی کے ساتھ رہا۔ انھوں نے اسے بحرین کا عامل بنایا پھر معزول کر دیا۔‘‘

ام سلمہ کے بیٹے کے حضرت علی کے ساتھ خروج کو حاکم نے ’’مستدرک‘‘ میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے، مگر ام سلمہ کے پہلے قول کا کوئی معتبر شاہد نہیں۔

راوی ابو مخنف شیعہ ہے۔ اس پر سنی اور شیعی علما کا اتفاق ہے۔ ابن معین اس کے بارے میں کہتے ہیں: غیر ثقہ ہے۔ دار قطنی کا قول ہے کہ ضعیف اخباری ہے۔ ذہبی اور ابن حجر کا قول ہے: ’’ایسا اخباری ہے جو غیر معتبر خبریں تالیف کرتا ہے۔‘‘

ام سلمہ کے بارے میں حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ (۷/ ۱۳۲) میں ایک قول نقل کیا ہے: ’’جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ کر لوں، مجھے اونٹ کی پیٹھ حرکت نہیں دے گی۔ عملی طور پر اونٹ کی پیٹھ نے حرکت دی جب ام سلمہ سب امہات المومنین کے ساتھ حج کے لیے نکلیں، بلکہ انھوں نے حضرت عائشہ کے ساتھ مل کر مدینہ کی طرف خروج کرنے کے لیے سب امہات المومنین کے ساتھ مل کر اتفاق کیا تھا محض اصلاح کی غرض سے اور اللہ کی حدود کے نفاذ کے لیے۔ اختلاف تو اس وقت ہوا جب صحابہ نے بصرہ جانے کا فیصلہ کیا‘‘۔ ام سلمہ کا یہ قول ضعیف ہے اور کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر نہیں۔

حضرت عمار بن یاسر کی روایت

تاریخ طبری (۴/۵۴۵) میں جریر بن حازم سے روایت ہے: ’’جب لوگ فارغ ہوگئے تو حضرت عمار نے حضرت عائشہ سے کہا: اے ام المومنین، آپ کا یہ سفر اس عہد سے کس قدر بعید ہے جو آپ سے باندھا گیا۔ حضرت عائشہ نے کہا: ابو الیقظان ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: میرے علم کے مطابق تو حق گو ہے۔ انھوں نے جواب دیا، شکر ہے اس خدا کا جس نے آپ کی زبان سے میرے حق میں فیصلہ نکالا۔‘‘

روایت سے یہ وہم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو کسی عہد کا پابند کیا تھا جو انھوں نے پورا نہیں کیا۔ یہ بات درست نہیں، پیچھے امام احمد کی اس روایت کا ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ کے رسول نے حضرت علی سے کہا: تمھارے اور عائشہ کے درمیان کوئی بات ہونے والی ہے۔ حضرت علی نے پوچھا: کیا میرے اور ان کے درمیان، آپؐ نے جواب دیا: ہاں، حضرت علی نے کہا: میں تو ان میں سب سے بڑھ کر بدبخت ہوا؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن اگر ایسا ہو تو ان کو محفوظ مقام کی طرف لوٹا دینا۔ اللہ کے رسول مقام نبوت کی وجہ سے یہ بات جانتے تھے کہ واقعہ ہونے والا ہے، مگر آپ نے حوأب کی پیشین گوئی کے مانند نہ تو حضرت عائشہ کو خروج سے منع فرمایا اور نہ ان کے ساتھ کوئی عہد باندھا۔

حضرت ابوبکرہؓ کی روایت

بخاری نے کتاب الفتن میں ابوبکرہؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ ’’جمل کے ایام میں مجھے اللہ نے ایک کلمہ سے نفع پہنچایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو والی بنایا ہے تو آپ نے فرمایا: وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جس نے حکومت کا سربراہ ایک عورت کو بنا دیا ہو۔‘‘

اس روایت نے ہماری سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی تاریخ میں بحث مباحثوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اس سے دلیل پکڑنے والے اسے خواتین کی توہین کا سبب گردانتے ہیں اور انھیں سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔

اس حدیث سے سب سے پہلے حضرت عائشہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کم و بیش پچاس برس زندہ رہیں، اکثر لوگوں نے ان سے احکام کو سیکھا اور سمجھا۔ آپ سے مرویات کی تعداد امام ذہبی کے نزدیک دو ہزار دس ہے۔ ان میں سے ۱۷۴ احادیث متفقہ ہیں، بخاری میں الگ سے ۵۴ اور مسلم میں ۹۹ احادیث ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شرعی احکام کا ایک چوتھائی حصہ ان سے مروی ہے۔ ان کے بارے میں قاسم بن محمد بن ابی بکر نے کہا ہے: اور عمر کے زمانہ میں وہ مستقل فتویٰ دیتی تھیں اور اپنی وفات تک فتویٰ دیتی رہیں۔ اگر امت مسلمہ کی سب سے عظیم خاتون پر تہمت لگائی جائے گی تو روے زمین پر بسنے والی کون سی خاتون محفوظ رہے گی؟

ہیثمی کی ’’مجمع الزوائد‘‘ (۵/۴۰۹) میں ابوبکرہ کی دوسری روایات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بیش تر روایات پر تحقیقی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ راقم نے مذکورہ حدیث پر ایک تحقیقاتی کتابچہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’حضرت ابو بکرہ کی روایت اور عورت کی حکمرانی‘‘۔ یہ کتابچہ مکتبہ دانشوراں اردو بازار لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔ میں نے حدیث مذکور کا سند اور متن کے اعتبار سے تجزیہ کیا ہے اور تاریخی حقائق کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس حدیث کو ابوبکرہ نے جنگ جمل میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ سے انھوں نے دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ظاہری طور پر یہ حدیث حضرت عائشہ کے موقف کی توہین ہے۔ اس حدیث میں جنسی امتیاز کو غیر جانب داری کا سبب بتایا گیا ہے اور اس فریق کی حمایت کے لیے کہا گیا ہے جس میں مرد ہو نہ کہ عورت۔

جولوگ اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں، انھوں نے اس کی یہ توجیہ پیش کی ہے: ’’ابن بطال (شارح صحیح البخاری) نے مہلب بن ابی صفرہ (شارح صحیح البخاری) کی روایت سے نقل کیا ہے ’’کہ ابوبکرہ کا صحیح مسلک یہ تھا کہ وہ لوگوں میں اصلاح کے لیے حضرت عائشہ کے ہم خیال تھے۔ ان کا ارادہ جنگ کا نہ تھا، لیکن جب جنگ چھڑ گئی تو لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ابوبکرہ نے حضرت عائشہ کی راے سے رجوع نہیں کیا، بلکہ اہل فارس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو الفاظ انھوں نے سنے تھے، ان کی روشنی میں انھوں نے بھانپ لیا تھا کہ حضرت عائشہ مغلوب ہوں گی۔ جنگ کے ختم ہونے کے بعد حضرت ابوبکرہ نے لڑائی میں شریک نہ ہونے کے بارے میں اپنی راے کے درست ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ مہلب کا قول ہے کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ اور ان کے کسی ساتھی کے ساتھ حضرت علی کی خلافت کا کوئی تنازع نہ تھا۔ وہ صرف اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ حضرت علی قاتلین عثمان کا بدلہ نہیں لے رہے تھے۔

حدیث کے نص کی توجیہ شیخ محمد غزالی کے الفاظ میں یوں ہے: ’’جب فارس پر فتح اسلامی کا غلبہ ہو رہا تھا تو وہاں پر موروثی آمرانہ حکومت تھی۔ حکمران خاندان مشورے سے ناآشنا تھا۔ مخالفانہ راے کو برداشت نہ کیا جاتا تھا۔ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے بیٹا باپ اور بھائیوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کر رہا تھا۔ رعایا حکم کی غلام تھی۔ ایسے حالات میں ایک قاتل عسکری سپہ سالار کا ہونا ضروری تھا جو رومیوں کے حملوں کا دفاع بھی کر سکے۔ ایسے حالات میں شاہی خاندان کی ایک عورت کا حکمران ہونا عجیب لگتا تھا۔ آپؐ نے ایک واقعہ پر اپنی راے پیش کی تھی، مقام تنقید عورت نہیں تھی، مقام تنقید موروثی نظام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل فارس کی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ ایسے مخدوش حالات میں بھی موروثی نظام سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ ابن بطال نے جو کہا ہے کہ ابوبکرہ بھانپ گئے تھے، حالاں کہ وہ بھانپنے والے کچھ نہیں، صرف دو عورتوں میں مشابہت کی وجہ سے انھوں نے حضرت عائشہ کا ساتھ چھوڑا تھا۔ بھلا حضرت عائشہ اور ایک فارسی عورت میں کیا مشابہت ہو سکتی ہے؟

چنانچہ اس حدیث کو حضرت عائشہ اور دوسری خواتین کے سیاسی کردار کے خلاف استعمال کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

نسائی نے غلطی سے اس حدیث کو ’النھی عن استعمال النساء فی الحکم‘ (عورتوں کو حکمرانی کا عہدہ دینے کی ممانعت) کے عنوان کے تحت تحریر کیا ہے۔ حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے نہی کا پہلو نکلتا ہو۔

امام بخاری نے درست طور پر اسے صحیح بخاری کی کتاب الفتن میں بیان کیا ہے اور باب کا کوئی نام نہیں دیا۔

عصر حاضر تک فقہا کا اس بارے میں اتفاق نہیں کہ اس حدیث کو قاعدہ مقرر کر کے عورت کو حق وراثت سے محروم کر دیا جائے۔

مذکورہ روایات کی قدر و قیمت

مذکورہ روایات کو ابن مخنف اور نصر بن مزاحم جیسے ان راویوں نے گھڑا ہے جو مذہبی تعصب کے ساتھ متہم ہیں۔ انھوں نے صحابۂ کرام کے خلاف عام طور پر اور حضرت عائشہ کے خلاف خاص طور پر لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا ہے، جس کے نتیجہ کے طور پر اسلام میں خواتین کے سیاسی کردار پر طعنہ زنی کی جاتی ہے۔ حضرت عائشہ کی راے ان صحابۂ کرام کی راے پر بہرحال مقدم ہے جن کی طرف مخالفانہ راے کو منسوب کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں انھی آرا کو درست مانا جائے گا جن کو معتبر مصادر سے اخذ کیا گیا ہو۔ اس سلسلہ کی عجیب تر روایت وہ ہے جسے مقدسی نے اپنی تاریخ (۵/ ۴۱۵) میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے۔ انھوں نے حضرت عائشہ سے مخاطب ہو کر کہا ہے: ’’کہا ہم آپ کے شوہر کے وارث نہیں ۔۔۔ پھر آپ ہماری اجازت کے بغیر کیوں نکلیں؟‘‘ یہ عجیب و غریب فقہی حکم ہے!

کیا حضرت عائشہ اس خروج پر نادم تھیں؟

جب حضرت عائشہ کا یہ خروج شریعت کے خلاف نہ تھا تو انھوں نے اس پر ندامت کا اظہار کیوں کیا؟ ایسی تمام روایات کے وضع کرنے میں وہی ہاتھ کام کر رہا ہے جو مذکورہ تمام روایات کو وضع کرنے میں کام کر رہا تھا۔

شاہ عبدالعزیز دہلوی نے مختصر التخقۃ الاثنیٰ عشریۃ (ص ۲۷۰) میں ایک قول نقل کیا ہے: ’’میں نے علی سے لڑائی کی، کاش میں اس سے پہلے مر مٹی ہوتی‘‘۔ اس قول کو نقل کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ درست نہیں۔ صحیح روایت یہ ہے کہ وہ جمل کے دن کو یاد کر کے سخت روتی تھیں، یہاں تک کہ ان کی اوڑھنی بھیگ جاتی تھی۔ وہ روتی اس لیے تھیں کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہتی تھیں، بلکہ محض اصلاح کی طلب گار تھیں۔ حضرت علی نے طرفین کے مقتولوں کے پاس سے گزرنے کے بعد بھی اسی قسم کے الفاظ کہے تھے۔ وہ اپنی رانوں پر دوہتڑ مارتے تھے اور کہتے تھے: کاش، میں اس سے پہلے مر مٹا ہوتا۔

طبرانی نے حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے: ’’میری خواہش تھی کہ میں بھی ایسے بیٹھی رہتی جیسے دوسرے بیٹھے رہے، مجھے یہ بات پسند تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے دس بچے ہوتے اور سب کے سب عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کی طرح ہو تے (جو حضرت علی کے ساتھ جنگ جمل اور صفین میں شامل تھے)، اس روایت کو شیعہ نے اتنا اچھالا ہے کہ اسے مشکوک بنا دیا ہے۔ اس روایت کی سند میں ابو معشر نخیعالمدنی ہے جسے بخاری نے ’’الضعفاء الصغیر‘‘ (ص ۱۱۹) میں منکر الحدیث، ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ (۷/۱۲) میں اور ابن حجر نے ’’تقریب التہذیب‘‘ (۲/۲۴۱) میں ضعیف قرار دیا ہے۔ جہاں تک عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کے ذکر کا تعلق ہے، انھوں نے حضرت معاویہ کے ہاتھ سے حجر بن کندی کے قتل پر بھی سخت غصے کا اظہار کیا تھا، حالاںکہ حجر جنگ جمل میں حضرت علی کے ساتھ تھے۔ 

جو مسلمانوں کی اصلاح کی خواہاں ہو، اسے پشیماں ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ رونا اس بات کا تھا کہ جس طریقے سے وہ معاملات کو سرانجام دینا چاہتی تھیں ویسے نہیں کر پائیں۔ یہی بات تو قعقاع بن عمرو نے کہی تھی کہ ہمارے علم میں آپ سے بڑھ کر کوئی فرماں بردار ماں نہیں مگر آپ کا کہا نہیں مانا گیا۔ اگر فتنہ پردازوں کی شرارت کی وجہ سے حضرت عائشہ کی خواہش پوری نہ ہو سکی تو اس میں ان کا کیا قصور؟ وہ صاحب راے تھیں۔ انھوں نے وہی کردار ادا کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ حضرت علی جنگ کے بعد آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ آپ کو معاف کریں، آپ نے کہا: اور آپ کو بھی۔ میں تو صرف اصلاح چاہتی تھی (ابن العربی العواصم من المقواصم: ۱۶۳)۔ یہ کہنا کہ حضرت عائشہ کے پاس خروج کے لیے کوئی دلیل نہ تھی، قطعی غلط ہے حضرت عائشہ نے سورۂ نساء آیت ۱۱۴ سے دلیل پیش کی تھی: ’لاَّ خَیْْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰہُمْ اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوفٍ اَوْ اِصْلاَحٍ بَیْْنَ النَّاسِ‘ ’’ان کی بہت سی سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہاں جو صدقہ یا کسی نیکی اور لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم کرے‘‘ (۴: ۱۱۴) اور انھوں نے اصلاح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کاوشوں سے بھی استدلال کیا تھا۔

حضرت علی کو اس خروج سے سب سے بڑھ کر نقصان ہوا، لیکن جب ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا قاتلین عثمان سے بدلہ طلب کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس تاخیر کرنے کی کوئی دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، انھوں نے کہا کہ اگر کل جنگ ہو جاتی ہے توان کا اور ہمارا کیا حال ہوگا؟ (یعنی کیا انجام ہو گا) آپ نے جواب دیا: مجھے امید ہے کہ ان کی اور ہماری طرف سے جو بھی خلوص قلب کے ساتھ اللہ کے لیے لڑے گا، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا (تاریخ طبری ۴/۴۹۶)۔

حضرت عائشہ کا خروج اور علما کی آرا

امام النووی نے ’’شرح صحیح مسلم‘‘ (۵/۲۴۲) کتاب فضائل الصحابہ میں صحابہ کے باہمی اختلاف پر نسبتاً تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کے اختلاف کی تین قسمیں ہیں:

ایک قسم وہ ہے جس میں اجتہاد کے ذریعہ سے انھیں پتا چلا کہ حق ایک طرف ہے جس کی مخالفت بغاوت ہے، اس لیے اس طرف کی نصرت اور ان کے اعتقاد کے مطابق باغی سے جنگ ان پر واجب ہو گی۔

اس کے برعکس دوسری قسم ہے۔ اجتہاد سے ان پر ظاہر ہوا کہ حق دوسری طرف ہے، اس لیے اس کی اور باغی سے جنگ ان پر واجب ہے اور پہلی قسم کی طرح پیچھے ہٹنا ان کے لیے روا نہیں ہو گا۔ 

تیسری قسم ان صحابہ کی ہے جن کو مسئلہ کے صحیح ہونے میں شک ہو گیا، اور ان کو پتا نہ چل سکا کہ وہ کس طرف کو ترجیح دیں۔ وہ فریقین سے الگ رہے، یہ الگ رہنا ہی ان کے حق میں واجب ہو گا۔

ابن خلدون نے ’’مقدمہ‘‘ (۲ـ/۲۱۷) میں اس مسئلہ کو صحت و خطا سے ہٹ کر زیادہ دقت نظر سے دیکھا ہے۔ انھوں نے دونوں فریقوں کے حق میں خطا کے احتمال سے انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’جان لو کہ ان کا اختلاف دینی امور میں تھا۔ اس اختلاف کا سرچشمہ اجتہاد ہے جس کی بنیاد صحیح دلائل اور معتبر مآخذ پر ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اجتہادی مسائل میں حق ایک طرف ہوتا ہے اور دوسری طرف خطا ہوتی ہے تو خطا کار جہت کا تعین ممکن نہیں، اس لیے طرفین کے صحیح ہونے کا احتمال باقی رہتا ہے اور طرفین میں سے کسی کو گناہ گار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ دونوں حق پر ہیں اور ہر مجتہد درست ہے تو بھی طرفین میں سے کسی کی خطا اور گناہ کی نسبت درست نہ ہو گی۔ دین کے ظنی امور کے بار ے میں صحابہ اور تابعین کے اختلاف کی انتہا اجتہادی اختلاف ہے اور یہی اس کا حکم ہے۔‘‘

حضرت عائشہ کے خروج کے بارے میں سب اعتراضات دو غلط مفروضوں پر قائم ہیں: ایک تو یہ کہ وہ جنگ کے لیے نکلی تھیں اور دوسرے یہ کہ انھوں نے اس کام کا ذمہ لیا جو ولی الامر پر واجب تھا اور وہ ولی الامر نہ تھیں۔ حضرت عائشہ کی نیت نیک تھی۔ وہ جنگ کرنے نہ نکلی تھیں، بلکہ وہ جنگ روکنے اور حدود اللہ کے قیام کے لیے نکلی تھیں۔ ان کا خروج نہ خلافت کے خلاف تھا اور نہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے تھا۔ ان کا خروج ان پر واجب تھا۔ ان کا عدم خروج ان کے احساس ذمہ داری کے منافی ہوتا جس کی وجہ سے یہ قاعدہ کلیہ بن جاتا کہ امت کے سیاسی مسائل میں خواتین کو کوئی دخل حاصل نہیں اور اس کے بعد ان کے لیے سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتے۔ فقہی اور تاریخی شکل میں سیدہ عائشہ کا خروج یہ ثابت کرتا ہے کہ دین اسلام نے ہر صاحب راے کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی راے پیش کرنے کی مکمل آزادی دی ہے۔ اس واقعہ کو مرد اور عورت کی فضیلت کے معرکہ میں بدلنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

خلاصۂ بحث

لوگوں نے عام طور پر خروج کے مسئلہ کو اس محدود دائرے میں سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ایک فریق صحیح ہے اور دوسرا غلط۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی خطا کار نہیں۔ خروج کی حقیقت اور مقصد میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے، غلطی اگر کہیں ہوئی ہے تو طریق کار میں ہوئی ہے۔ خروج کے اسباب اور شرعی احکام کو مطعون نہیں کیا جا سکتا، بلکہ خرابی جنگ چھڑ جانے سے ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک صحیح روایت بھی ایسی نہیں کہ جنگ حضرت علی یا حضرت عائشہ کے ارادے سے ہوئی ہو۔ یہ جنگ کیسے شروع ہوئی، اس کی تفصیل دی جا چکی ہے۔

خروج کے اس اچانک نتیجہ کو دیکھ کر سارا بوجھ حضرت عائشہ کے سر خصوصاً اور سب خواتین کے سر عموماً تھوپ دیا گیا ہے۔ ماضی کی تاریخ کو آنے والے حالات کی روشنی میں سمجھنا زمینی ترتیب کو معکوس کرنے کے مترادف ہے تاریک کی تصویر پیش کرنے میں یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔

جس طرح مورخین پر خروج کا نتیجہ اور حضرت علی کی کامیابی اثر انداز ہوئی، بالکل اسی طرح ان پر معاشرے کا ثقافتی دباؤ اثرانداز ہوا ہے۔ معاشرے پر شرعی احکام اس طرح حکومت نہیں کرتے، جس طرح رسم و رواج کا راج چلتا ہے۔ ایک معاشرہ جس میں عورت کو مرد کے مقابلے میں ہیٹی سمجھا جائے، اس سے شرعی احکام کی پابندی کیسے کی جا سکتی ہے؟ تاریخ کے اس سطحی تصور کی وجہ سے خطا کو حضرت عائشہ اور طلحہ وزبیر جیسے صحابہ کی طرف منسوب کیا جا تا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجتہد کا موقف بہرحال درست ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صحابہ کی نیت اور اخلاص کے بارے میں شک کرنا گناہ ہے، لیکن ساتھ ساتھ ضعیف روایات کی بنیاد پر قائم ان کے باہمی جھگڑوں پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ یہ حالات کو سمجھنے کا سطحی نقطۂ نظر ہے۔ تاریخ کا مطالعہ تحقیقی نقطۂ نظر سے ازبس ضروری ہے۔

حضرت عائشہ نے اپنے عقیدے کی طرف دعوت کا جو حق استعمال کیا، اسے کتاب و سنت کی سند حاصل ہے۔ وہ امانت، خلافت اور عبودیت کے مفہوم سے مربوط ہے۔ وہ حقوق اللہ سے الگ کوئی چیز نہیں، کیونکہ اس کا ربط شریعت سے ہے۔ کسی فرد اور کسی جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس سے دست بردار ہو۔ یہ انسانی ضرورت ہے جس کی حفاظت شریعت اور ریاست، جماعت اور فرد پر واجب قرار دیتی ہے۔ اگر ریاست اس بار ے میں کوتاہی کرے گی تو اس کی ذمہ داری امت پر انفرادی اور اجتماعی صورت میں واجب ہو گی۔

سیدہ عائشہ نے ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے خلیفۂ وقت کے خلاف خروج کیا، ان کا محاصرہ کیا اور ان کو قتل کیا، ایک انتہائی اہم اور درست سیاسی کردار ادا کیا۔ انھوں نے دیکھا کہ اللہ کی اتھارٹی اور اس کی شریعت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو انھوں نے انتہائی خلوص کے ساتھ اللہ کی حدود کو قائم کرنے کی کاوش کی۔ یہ سب انھوں نے اس لیے کیا کہ حق سربلند ہو اور باطل سرنگوں ہو۔ ان کے ساتھ صحابہ کی ایک بڑی تعداد تھی جنھوں نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے جہاد میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ یہ کردار اس عظیم خاتون نے فکری اور اعتقادی جرأت کے ساتھ اس وقت ادا کیا جب تاریخ اسلام اپنے ابتدائی مرحلے سے گزر رہی تھی۔

دنیا میں جیسا کہ امام شاطبی نے ’’الموافقات‘‘ (۲/ ۳۴۱) میں کہا ہے: ’’نہ محض مصلحت کا وجود ہے نہ محض فساد کا۔ کسی کام میں مصلحت کو اس کے غالب پہلوؤں کے پیش نظر قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔ ہمارا ظن غالب بھی یہی ہے کہ سیدہ عائشہ کے خروج میں مصلحت فساد پر غالب تھی۔

اکثر مورخین جنھوں نے اس موضوع پر بحث کی ہے وہ شیخ محب الدین الحظیب (العواصم من القواصم ۹۸) کے الفاظ میں ’’نہ اس زمانے کے حالات سے مانوس تھے اور نہ اس زمانے کے لوگوں سے۔ اس لیے وہ صحابہ جیسے اونچے کردار کے لوگوں کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے معلومات حاصل کرنے میں کوئی تحقیق نہیں کی، بلکہ بنی بنائی معلومات کو جو ان کے مزاج سے نہ کہ صحابہ کے مزاج سے لگا کھاتی تھیں، بغیر تحقیق کے قبول کر لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اصلاح کے لیے اس خروج کی راہ میں مرد اور خواتین صحابہ نے جو مشکلات برداشت کیں، ان کو کرید کرید کر پیش کیا جاتا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ انھوں نے کس قدر دلیرانہ سیاسی کردار ادا کیا تاکہ امت مسلمہ یک جان ہو کر اس ہدف کی طرف رواں دواں ہو جس کے حصول کے لیے وہ وجود میں آئی ہے۔

یہ وسیع سیاسی تحریک، جسے ایک مومن خاتون نے مہمیز دیا، اس اسلامی معاشرے میں صحت و عافیت کی علامت ہے جس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ہر مرد اور عورت پر رکھ دی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B