HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۵۴- ۵۸ (۵)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّاٍم ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِہٖ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ{۵۴} اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ{۵۵} وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ{۵۶}
وَھُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہٗ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآئَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ{۵۷} وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذْنِ رَبِّہٖ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ{۵۸}
(لوگو)، حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۳۷۹؎،پھر اپنے عرش پر متمکن ہوا۳۸۰؎۔وہ رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے جو اُس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے۔ اور اُس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے ہیں جو اُس کی حکم برداری میں لگے ہوئے ہیں۳۸۱؎۔ سنو، خلق بھی اُسی کی ہے اور حکم بھی اُسی کا ہے۳۸۲؎۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، جہانوں کا پروردگار۳۸۳؎۔ تم اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۳۸۴؎، یقینا وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۳۸۵؎۔ اور زمین کی اصلاح کے بعد اُس میں فساد برپا نہ کرو۳۸۶؎اوراُسی کو پکارو، بیم و رجا، دونوں حالتوں میں۳۸۷؎۔ (یہی خوبی کا راستہ ہے) بے شک، اللہ کی رحمت اُن لوگوں سے قریب ہے جو خوبی اختیارکرنے والے ہیں۳۸۸؎۔۵۴-۵۶
وہی ہے جو اپنی رحمت (برسانے) سے پہلے ہوائوں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ (پانی سے) لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو ہم اُسے کسی مردہ زمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں اور وہاں مینہ برسا دیتے ہیں، پھر اُس سے طرح طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اِسی طرح ہم مردوں کو بھی اٹھا کھڑا کریں گے،۳۸۹؎ شاید تم یاددہانی حاصل کرو۳۹۰؎۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے، وہ اپنے پروردگار کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو ناقص ہوتی ہے ، اُس کی پیداوار بھی ناقص ہی ہوتی ہے۔ (تمھارا معاملہ بھی یہی ہے)۳۹۱؎، ہم (اِس قرآن کی آیتوں میں) اپنی نشانیاں اِسی طرح گوناگوں پہلوئوں سے دکھاتے ہیں، اُن کے لیے جو شکر گزار بننا چاہیں۳۹۲؎۔۵۷-۵۸

۳۷۹؎ یہ اللہ کے ایام ہیں جن کے بارے میں قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ ہمارے حساب سے ہزار سال کے برابر بھی ہوتے ہیں اور پچاس ہزار سال کے برابر بھی۔ مدعا یہ ہے کہ جس کو کائنات کا خالق مانتے ہو، وہی کائنات کا رب بھی ہے۔ اُس نے دنیا کو پیدا کرکے تمھارے مزعومہ شرکا و شفعا کے حوالے نہیں کر دیا جنھیں تم رب بنائے بیٹھے ہو اور اِسی بنا پر اُن کی عبادت کرتے ہو۔ وہ اُس کا انتظام و انصرام خود دیکھ رہا ہے۔ اِس عالم کو وہ اپنے کلمۂ ’کُنْ‘ سے چشم زدن میں بھی پیدا کر سکتا تھا، مگر اُس کی حکمت کا تقاضایہ ہوا کہ اِسے اہتمام و تدریج کے ساتھ اور چھ ادوار میں پیدا کرے تاکہ اُس کے کمال قدرت کے ساتھ اُس کی ربوبیت اور رحمت کی شانیں بھی نمایاں ہوں اور تم اپنے خالق کو اُس کی ابدی رحمتوں کے ساتھ اپنے پروردگار کی حیثیت سے بھی پہچان لو۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔خدا کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں تھی کہ ہماری غذا کے لیے براہ راست آسمان سے روٹی برستی، پھر یہ کیوں ضروری ہوا کہ ہوائیںچلیں، بادل اٹھیں، مینہ برسے، کھیتوں میں ہل چلیں، گندم بوئی جائے، انکھوے نکلیں، ڈنٹھل پیدا ہوں، اُس میں برگ و بار نمایاں ہوں، فصل اپجے، خوشے نمودار ہوں، پھر اُن میں دانے بیٹھیں، پھر گرم و خشک ہوائیں چلیں جو اِن دانوں کو پکائیں اور اِس طرح کہیں چھ مہینے کے گرم و سرد مراحل سے گزر کر گندم کا دانہ کھیت سے کسان کے کھتے تک پہنچے۔ یہ سب اِس لیے ہے کہ اِس طرح اِس کائنات کی ایک ایک چیز خدا کی آیات خلق و تدبیر اور اُس کے عجائب قدرت و حکمت کا ایک دفتر بن گئی ہے۔ انسان اِس کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالتا ہے، اگر آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل بیدار ہو تو معرفت الٰہی کا ایک دبستان کھل جاتا ہے۔ ایک ایک شے نہ جانے کتنے بھیس بدلتی اور کتنے جامے تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرے اور ہم اُن کے اندر خدا کی نشانیوں کو دیکھیں اور اُن سے سبق حاصل کریں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۷۷)

۳۸۰؎ اصل الفاظ ہیں:’ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘۔ یہ خدا کے اقتدار کی تعبیر ہے اور ’اِسْتَوٰی‘ کے ساتھ ’عَلٰی‘ نے اِس میں تمکن کے معنی پیدا کر دیے ہیں۔اِس سے وہ بات مزید واضح ہو گئی ہے جو پچھلے جملے میں مضمر تھی کہ خدا محض علت العلل نہیں ہے کہ محرک اول کی حیثیت سے اُس نے ایک حرکت تو پیدا کر دی، مگر اِس کے بعد کسی گوشے میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔ ہرگز نہیں، وہ اپنی کائنات کے تخت حکومت پر متمکن ہے اور اُس کے تمام معاملات براہ راست اُس کی نگرانی میں انجام پا رہے ہیں۔

۳۸۱؎ یہ اُس تدبیر و انتظام کی وضاحت کی ہے جو ’اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘ کے جملے میں بالاجمال بیان ہوا ہے۔ یعنی ہر چیز اپنے مفوضہ فرائض پورے جوش اور سرگرمی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ نہ کوئی چیز اپنی ذمہ داری سے غافل ہو سکتی ہے اور نہ بال برابر اپنے حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ مہ و آفتاب ہوں یا نجوم و کواکب، سب اپنے خالق کے فرماں بردار ہیں، اُس کے حکم سے سرموانحراف نہیں کرتے۔

۳۸۲؎ یعنی نہ خلق میں اُس کا کوئی شریک ہے اور نہ مخلوقات کی تدبیر امور میں۔ وہی خالق ہے ، وہی مالک ہے اور اُسی کا امر و حکم کائنات کے گوشے گوشے میں جاری ہے۔ کسی فرشتے، کسی جن، کسی پیغمبر، کسی ولی کا اِس معاملے میں کوئی حصہ نہیں ہے، سب اُس کے حکم کے پابند اور اُس کے سامنے مجبور محض ہیں۔

۳۸۳؎ چنانچہ اِس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اُس کی بارگاہ تک رسائی کے لیے وسائل وو سائط تلاش کیے جائیں۔ اُس کی عظمت و جبروت کے ساتھ اُس کی رحمت و برکت بھی بے پایاں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ خدا کے باب میں اُس غلط فہمی کا ازالہ ہے جس میں مشرک قومیں بالعموم مبتلا ہوئیں کہ اُنھوں نے خدا کی عظمت و جبروت کا تصور اِس قدر بڑھایا کہ اُس کی صفات رحمت و برکت کا تصور اُس کے نیچے بالکل دب کر رہ گیا۔ اِس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بندوں کے لیے خدا سے براہِ راست تعلق و توسل ناممکن سمجھ لیا گیا اور پھر ایسے وسائل و وسائط کی تلاش ہوئی جو خدا سے مقصد برآری کا ذریعہ بن سکیں۔۔۔صفات الٰہی کے باب میں یہ گمراہی شرک کے عوامل میں سے ایک بہت بڑا عامل ہے۔ مشرکین نے بہت سے فرضی معبودوں کی پرستش، بالخصوص ملائکہ کی پرستش، اِسی وجہ سے کرنی شروع کی کہ یہ خدا کی چہیتی بیٹیاں ہیں، یہ ہم سے راضی رہیں تو یہ اپنے باپ کو ہم سے راضی رکھیں گی اور پھر سارا جہان ہم پر مہربان ہو جائے گا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۷۹)

۳۸۴؎ مطلب یہ ہے کہ جب خلق بھی اُسی کی ہے اور امر و حکم بھی اُسی کا ہے تو اُس کے حضور میں رعونت اور استکبار کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔ اِس کے بعد تو ہر سلیم الفطرت انسان کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے کہ اُسے کمال عاجزی اور لجاجت کے ساتھ پکارے۔ اُس کی ادائوں اور حرکات سے بھی اِسی کا اظہار ہونا چاہیے اور الفاظ و عبارات سے بھی۔ پھر اِس عاجزی اور لجاجت میں وقار بھی ہونا چاہیے اور اخلاص بھی۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ لوگوں کو دکھا کر نہیں، اُسے چپکے چپکے پکارو۔ وہ تمھارے دلوں کی حالت کو جانتا اور تمھاری سرگوشیوں کو سنتا ہے۔ اُس کے حضور نہ چیخنے چلانے کی ضرورت ہے اور نہ دکھاوے کا کوئی موقع، وہ سمیع و علیم ہے۔

۳۸۵؎ یعنی اُن کو پسند نہیں کرتا جو اکڑیں اور اپنے حدود سے تجاوز کرکے اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے لگیں۔ اُس کے سامنے عاجزی اور تضرع ہی زیبا ہے۔

۳۸۶؎ قرآن مجید میں یہ تعبیر نظم اجتماعی کے خلاف سرکشی کے لیے بھی اختیار کی گئی ہے اور خدا اور اُس کے رسولوں کے مقابلے میں سرکشی کے لیے بھی۔ یہاں اِسی دوسرے مفہوم میں ہے۔ انسان نے زمین پر زندگی کی ابتدا کی تو وہ اِس فساد سے پاک تھی۔ بعد کے زمانوں میں بھی رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اِسے بار بار پاک کیا گیا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس کی اصلاح کے بعد اِس میں فساد برپا نہ کرو۔

۳۸۷؎ یعنی جن چیزوں کے آرزومند ہو، اُن کے لیے بھی اُسی کو پکارو اور جن سے بچنا چاہتے ہو، اُن کے لیے بھی اُسی کی پناہ ڈھونڈو۔ پیچھے خدا کو پکارنے کی ہیئت بتائی تھی۔ یہ اُس کا محرک بتا دیا ہے کہ خوف و طمع کی ہر حالت میں تمھارا مرجع و مولیٰ صرف اُسی پروردگار کو ہونا چاہیے جو تمھارا اور تمھارے گردوپیش میں پھیلی ہوئی کائنات کا خالق بھی ہے اور اپنی مخلوقات کی تدبیر امور کرنے والا بھی۔

۳۸۸؎ اِس سے معلوم ہوا کہ خوبی اور احسان کے مقام پر فائز رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان بیم و رجا، دونوں حالتوں میں اپنے پروردگار کی طرف یک سو رہے اور ہر مشکل کے وقت اُسی سے دعا و مناجات کرے۔

۳۸۹؎ اوپر فرمایا تھا کہ ہر حال میں اللہ ہی سے لو لگائو، اُس کی رحمت اُن لوگوں کے قریب ہے جو اللہ سے لو لگاتے ہیں۔ یہ اُس کی تمثیل بیان کر دی ہے کہ جس دن پورے عالم کے لیے اِس رحمت خداوندی کا ظہور ہو گا، اُسے دور نہ سمجھو۔جس کی ہوائیں چل رہی ہیں، وہ ابر رحمت بھی عنقریب برس جائے گا اور اُس سے فیض یاب ہونے کے لیے ہم مردوں کو اُسی طرح اٹھا کھڑا کریں گے ، جس طرح بارش سے مردہ زمین کو زندہ کر دیتے ہیں۔

آیت میں ’سُقْنٰہٗ‘ کی ضمیر ’سَحَاب‘ کے لیے ہے۔ یہ اگرچہ ’سحابۃ‘کی جمع ہے، مگر صورت کے لحاظ سے واحد ہے، اِس لیے ضمیر واحد آگئی ہے۔ ’اَنْزَلْنَا بِہِ‘ میں’ب‘ظرفیہ ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیاہے۔

۳۹۰؎ یعنی زمین کی اِن نشانیوں میں سے اُس دن کی یاددہانی حاصل کرو جس میں مردے زندہ کیے جائیں گے۔

۳۹۱؎ یہ اُسی تمثیل کو آگے بڑھا کر اُس رحمت کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو قرآن کی صورت میں نازل ہوئی ہے کہ اُس کا فیض بھی ہر شخص کو یکساں نہیں پہنچے گا۔ دلوں کی زمین زرخیز ہوگی تو باغ و چمن لہلہا اُٹھیں گے اور شور زمینوں سے اگر کچھ اگا بھی تو یونہی کچھ خاروخس اگ جائیں گے۔ اِس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا۔آخر میں ’لَایَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا‘ کے الفاظ ہیں۔ جملے کے پچھلے حصے میں ’نَکِد‘ کا مقابل لفظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گیا ہے۔ اُس سے جو مفہوم پیدا ہوتا ہے، ہم نے ترجمے میں اُسے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ تمثیل کس قدر حقیقت افروز اور قرآن کی بلاغت کا کیسا عمدہ نمونہ ہے؟ استاذ امام نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ایک ہی بارش کی تمثیل سے کتنے حقائق آشکاراہو گئے! توحید کی دلیل بھی سامنے آگئی، امکان معاد اور وقوع قیامت کی نظیر بھی مل گئی اور ہدایت و ضلالت کے باب میں جو سنت اللہ مقرر ہے، وہ بھی نمایاں ہو گئی۔ گویا سورہ کے آغاز سے یہاں تک جو مسائل زیر بحث آئے تھے، اصولاً وہ سب ہی بے نقاب ہو گئے۔۔۔یہ کائنات پروردگار نے بنائی ہی ایسی شکل میں ہے کہ اگر انسان دیدئہ بینا رکھتا ہو تو پتا پتا،بوٹا بوٹا اُن حقائق کی شہادت دے رہا ہے جن کی دعوت قرآن دے رہا ہے، لیکن دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان کہاں ہیں!!‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۸۵)

۳۹۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ‘۔ اِن میں فعل ارادئہ فعل کے لیے ہے۔ شکر کی حقیقت قدردانی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں خدا نے اپنی نشانیوں کی طرف گوناگوں پہلوئوں سے جو توجہ دلائی ہے، یہ اُس کا بہت بڑا احسان ہے۔ تم اِس کی قدر کرو گے اور اِس کے نتیجے میں خدا کے شکر گزار بننا چاہو گے تو تمھارے دلوں کی زمین بھی سرسبزوشاداب ہو جائے گی۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B