[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔
اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
عربی لغت میں ’سیاسۃ‘ مصدر ہے اس کی ماضی ’سَاسَ‘ اور مضارع ’یَسُوْسُ‘ ہے۔ عربی میں کہا جاتا ہے: ’ساس الدابۃ أوالفرس‘۔ (اس نے مویشی یا گھوڑے کی دیکھ بھال کی)، یعنی اس کو چارہ ڈالا، پانی پلایا، صاف کیا اور اسے سدھایا۔ یہ اصل ہے، جس سے سیاست بشر کے معنی اخذ کیے گئے ہیں۔ انسان جانوروں کی سیاست میں مہارت حاصل کرنے کے بعد انسانوں کی سیاست تک پہنچ گیا، یعنی ان کے معاملات کی دیکھ بھال میں ان کی قیادت کرنے لگا۔ مجازی طور پر کہا جاتا ہے: ’سَاسَ الرعیّۃ‘ (اس نے عوام کو کچھ باتوں کا حکم دیا اور کچھ سے منع کیا)۔ ’ساس الأمر سیاسۃ‘، یعنی کسی کام کا اس طریقے سے انتظام کرنا کہ اس کی مصلحت کے تقاضے پورے ہو جائیں۔
انسانی معاشرے میں سیاست کا تعلق احکام صادر کرنے اور اداروں کو چلانے سے ہوتا ہے۔ قانونی لغت کے مطابق سیاست سے مراد عام معاملات کو چلانے کا اصول یا فن ہے۔ جدید عربی میں لفظ ’سیاست‘ کا اطلاق حکمت عملی، اصول جہاں بانی اور پالیسی پر ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں ’سیاست‘ کا لفظ مکی یا مدنی کسی سورت میں وارد نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی اس کے مشتقات کا استعمال ہوا ہے، مگر بعض ایسے الفاظ آئے ہیں جو سیاست کے معنوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً ’الْمُلْک‘ کا لفظ، یعنی لوگوں پر حکمرانی کرنا، ان کو بعض باتوں کا حکم دینا اور بعض باتوں سے روکنا اور معاملات میں ان کی قیادت کرنا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ مقام مدح اور مقام ذم، دونوں طریقوں سے استعمال ہوا ہے۔ یہ حکومت عادلانہ بھی تھی اور ظالمانہ بھی۔ بعض حکومتیں باہمی مشورے سے چلتی تھیں اور بعض میں آمرانہ نظام تھا۔ مثلاً آل ابراہیم کے بارے میں آیا ہے:
وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا.(النساء ۴:۵۴)’’اور ہم نے ان کو عظیم ملک (حکومت) عطا کیا‘‘۔
آل ابراہیم میں حضرت یوسف (یوسف ۱۲: ۱۰۱)، طالوت (البقرہ ۲:۲۴۷) اور حضرت سلیمان (البقرہ ۲:۱۰۲) کو حکومت عطا کی۔ یہ حکومت مردوں کے ساتھ ساتھ خاتون کو بھی عطا کی گئی۔ سورۂ نمل میں ہدہد کا قول ہے: ’اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُھُمْ‘، ’’میں نے ایک عورت کو دیکھا جو ان پر حکومت کرتی ہے‘‘۔ (۲۷: ۲۳) ملکۂ سبا کا ذکر قرآن نے مدحیہ انداز میں کیا ہے۔ اس کی خوش حالی، فہم و فراست اور باہمی مشورے سے حکمرانی کے انداز کی تعریف کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْٓ اَمْرِیْ مَاکُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰی تَشْھَدُوْنِ.(النمل۲۷: ۳۲)’’اے اہل دربار، میرے اس معاملے میں مجھے اپنی رائے بتاؤ جب تک تم حاضر ہو کر مشورہ نہ دو گے، میں کسی کام کا فیصلہ کرنے والی نہیں۔‘‘
مفسرین کے قول کے مطابق جس نے حکمرانی میں مشاورت کی طرح ڈالی، وہ ملکۂ سبا تھی۔
اس کے مقابلہ میں قرآن حکیم نے نمرود اور فرعون جیسے آمروں کی پرزور مذمت کی ہے۔
دوسرا لفظ جو سیاست کا مفہوم ادا کرتا ہے، وہ ’تمکین فی الأرض‘ ہے، جس کے معنی زمین میں تسلط اور قدرت عطا کرنے کے ہیں۔ سورۂ کہف میں حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الْاَرْضِ.(۱۸: ۸۴)’’ہم نے اس کو زمین میں دسترس عطا کی۔‘‘
سورۂ حج میں اللہ کا قول ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ.(۲۲: ۴۱)’’یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم ان کو زمین میں دسترس (حکومت) دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
سیاست کا مفہوم ادا کرنے کے لیے قرآن حکیم نے ’استخلاف‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ.(۲۴: ۵۵)’’جولوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا، جیسے ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا۔‘‘
اسی طرح سورۂ اعراف (۷: ۱۲۹) میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاں جہاں ’تمکین فی الأرض‘ اور ’استخلاف فی الأرض‘ وارد ہے، ان کے مخاطبین مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ دونوں میں تمیز کی کوئی گنجایش نہیں۔
سیاست کا مفہوم ادا کرنے کے لیے قرآن حکیم میں کئی جگہ ’حکم‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہے:
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ.(النساء ۴: ۵۸)
’’جب لوگوں میں حکم چلانے لگو تو انصاف سے حکم چلاؤ۔‘‘
امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ میں سے آدھی کتاب کا انحصار اس آیت پر رکھا ہے۔ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۴۴، ۴۵، ۴۷ اور ۵۰ میں بھی لفظ ’حکم‘ کے یہی معنی ہیں۔
سنت نبویہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ روایت ہے:
عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کانت بنو إسرائیل تسوسہم الأنبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وإنہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون قالوا: فما تأمرنا؟ قال: فواببیعۃ الأول فالأول أعطوھم حقہم فان اللّٰہ سائلہم عما استرعاھم.(بخاری، رقم ۳۲۶۸۔ مسلم، رقم ۱۸۴۲)’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل کی سیاست انبیا کرتے تھے۔ جب بھی ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہو جاتا۔ بے شک، میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ کثرت سے ہوں گے۔ لوگوں نے پوچھا: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: یکے بعد دیگرے آنے والوں کی بیعت پوری کرو اور ان کا حق ان کو دو، کیونکہ اللہ ان سے ان لوگوں کے بارے میں، جن کی رکھوالی وہ کر رہے ہیں، بازپرس کرے گا۔‘‘
عصر حاضر کی تعریف کے مطابق ایسی سرگرمیاں جن کا تعلق قانون سازی اور قانون کے نفاذ کے لیے حکومت سازی سے ہو ان کو سیاسی سرگرمیاں سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر دینی سرگرمیوں کو معاشی سرگرمیاں سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر یہ سرگرمیاں حکومت کی شکل اختیار کر جائیں تو ان کو سیاسی سرگرمیوں سے تعبیر کیا جائے گا۔ اسلامی نظام کے قیام کے لیے گھر والوں اور وقت کے صاحب اقتدار کی مخالفت کے باوجود قبول اسلام، اس کے بارے میں جستجو، اس کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنا، اپنے وطن سے ہجرت کرنا، بیعت کرنا اور دین کے دفاع کی خاطر جہاد کرنا، سب پر سیاسی سرگرمیوں کا اطلاق ہو گا۔ عصر حاضر کی تعریف کے مطابق ان سرگرمیوں کو محض معاشی سرگرمیاں نہیں، بلکہ سیاسی سرگرمیاں سمجھا جائے گا۔
مردوں کے ساتھ عورتوں کی شرکت تو انسانی زندگی کا خاصہ ہے۔ اس کا تعلق زمانۂ قدیم سے انسانی معاشرے کی روایات سے بالکل اسی طرح سے ہے، جس طرح شادی کی روایت انسانی معاشرے میں قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے، کیونکہ اللہ نے مردوں اور عورتوں کو جوڑا جوڑا (زوج) اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ وہ مل کر زمین کو آباد کریں۔ اسی روایت پر عمل کرنے سے ہی تہذیب و تمدن کا قافلہ آسانی کے ساتھ رواں دواں رہ سکتا ہے۔ سابقہ انبیاے کرام کی سیرت سے اسی طریقے کی تائید ہوتی ہے اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نے اسی روایت میں مزید وسعت پیدا کر دی اور اس کے ساتھ ساتھ ضروری ضابطے بھی وضع کیے تاکہ یہ روایت کسی بھی ایسے شائبہ کے بغیر آگے بڑھتی رہے جو اسے داغ دار کر دے۔
جس شرکت کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے، وہ سابقہ انبیا کی سنت ہے۔ اس سے بطور تمہید ان قرآنی نصوص کو پیش کیا جائے گا جن کا تعلق سابقہ انبیا کے زمانے میں مرد اور عورت کی شرکت کے کے بارے میں ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے دور کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے:
حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ.(ھود ۱۱: ۴۰)’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے حکم دیا کہ ہر قسم کے جان داروں میں جوڑا جوڑا (یعنی) دو ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے (کہ ہلاک ہو جائے گا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو، اس کو کشتی میں سوار کر لو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔‘‘
اس حکم پر عمل کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی بیوی اور کنعان نامی بیٹے کو چھوڑ کر اپنے بیٹوں سام، حام اور یافث اور ان کی بیویوں کو کشتی میں سوار کر لیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اہل ایمان میں چھ مرد اور ان کی بیویاں تھیں۔ روایت ہے کہ کشتی میں سوار کل لوگوں کی تعداد اسی تھی جن میں آدھے مرد اور آدھی عورتیں تھیں۔
آیت مبارکہ میں ’زوجین‘ کا لفظ قرآن حکیم کا وہ لفظ ہے جو مرد اور عورت کے اشتراک پر قطعی دلیل مہیا کرتا ہے۔ مرد عورت کا زوج ہے اور عورت مرد کا۔ قرآن حکیم میں عورت کے لیے ’زوجہ‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا، کیونکہ امام راغب کے نزدیک یہ گھٹیا لغت ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’النساء شقائق الرجال‘ (عورتیں مردوں کی نظیر ہیں)۔ جوڑے میں مکمل وابستگی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اسی لیے قرآن میں ’زوج‘ کا لفظ ہم خیال اور ہم مشرب ساتھیوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ تخلیق کے تقاضوں کو مرد اور عورت، دونوں مل جل کر پورا کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ مرد کے بغیر عورت ناقص ہے اور عورت کے بغیر مرد۔ ان میں سے کوئی ایک زندگی کے قافلے کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ آیت زیربحث میں حضرت نوحؑ کی بیوی کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے اسے کشتی میں سوار کرنے سے منع فرما دیا تھا، کیونکہ اللہ نے فرمایا دیا تھا کہ سوائے ان گھر والوں کے جن کی ہلاکت کے بارے میں حکم ہو چکا ہے، باقی گھر والوں کو کشتی میں سوار کر لو۔ سورۂ تحریم (۶۶) کی آیت ۱۰ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے حضرت نوحؑ اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی مثال دی ہے کہ وہ ہمارے دو نیک بندوں کی بیویاں تھیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں ’زوج‘ کے بجاے ’امْرَاَتَ‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ وہ دونوں کافر تھیں اور لفظ ’زوج‘ مشابہت، مجانست اور پیوستگی پر دلالت کرتا ہے، اسی لیے قرآن میں عام طور پر انبیا کی مومن بیویوں کو لفظ ’زوج‘ سے تعبیر کیا اور کافر بیویوں کو لفظ ’امرأۃ‘ سے۔
مثال دینے کا مطلب کسی مجرد حقیقت اور نظریہ کی مثال محسوس شکل سے دی جاتی ہے تاکہ وہ حقیقت یا نظریہ نکھر کر سامنے آ جائے۔ اس مثال سے کافروں کے خیال کا پتا چل گیا اور انجام کا بھی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح صاحب اختیار اور صاحب ارادہ ہے اور مستقل شخصیت کی مالک ہے، کسی کے تابع نہیں اور وہ اپنے کیے کی خود ذمہ دار ہے۔ وہ اپنی ذات کے بارے میں جواب دہ ہے۔ کسی نبی کی بیوی ہونا اسے اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کر سکتا۔ اس آیت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ خواتین مرد کے لیے اسی طرح قابل تقلید ہیں، جس طرح مرد خواتین کے لیے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ. (ابراہیم ۱۴:۳۷)’’(حضرت ابراہیم نے کہا) اے پروردگار، میں نے اپنی اولاد میدان (مکہ) میں، جہاں کھیتی نہیں، تیرے عزت والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔ اے پروردگار، تاکہ یہ نماز قائم کریں۔ تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو میووں سے روزی دے تاکہ (تیرا) شکر کریں۔‘‘
بخاری (رقم ۳۱۸۴) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور ان کے شیرخوار بچے کو بیت اللہ کے بغل کی جانب زمزم کے پاس ایک بڑے درخت کے نیچے چھوڑ دیا۔ مکہ کے قرب و جوار میں کوئی انسان نہ رہتا تھا اور وہاں پانی بھی موجود نہ تھا۔ ان کے پاس ایک تھیلی رکھی جس میں کھجوریں تھیں اور ایک مشکیزہ جس میں پانی تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ واپس لوٹنے لگے تو ہاجرہ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں اور کہنے لگیں: آپ ہمیں اس وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں جس میں نہ کوئی مونس ہے نہ غم خوار؟ جب جواب نہ ملا تو ہاجرہ نے کہا: کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ حضرت ابراہیم نے فرمایا: ہاں، تو حضرت ہاجرہ نے کہا: پھر وہ ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔ جب چلتے چلتے مقام ثنیہ کے پاس پہنچے تو آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اٹھائے اور وہ دعا مانگی جس کا مذکورہ آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت ہاجرہ بچے کو دودھ پلاتی تھیں اور خود مشکیزے سے پانی پیتی تھیں۔ مشکیزے کا پانی ختم ہو گیا تو انھیں اور بچے کو پیاس لگی۔ بچہ پیاس سے بلکنے لگا تو قریب تر میں کوہ صفا پر چڑھ گئیں، اس امید پر کہ شاید کوئی نظر آئے، مگر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ کوہ صفا سے نیچے اتر کر جب وادی میں پہنچیں تو بے تابی میں قمیص کو اوپر اٹھا کر تیزتیز دوڑنے لگیں، یہاں تک کہ وادی سے گزر کر مروہ کی پہاڑی پر پہنچیں اور دیکھنے لگیں شاید کوئی انسان نظر آجائے، مگر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ انھوں نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ جب وہ مروہ کے اوپر سے جھانک رہی تھیں تو انھوں نے ایک آواز سنی اور کہا: تم نے آواز تو سنا دی اگر فریاد رسی کر سکتے ہو تو کرو۔ زمزم کی جگہ کے پاس اچانک فرشتہ نمودار ہوا، اس نے ایڑھی ماری تو پانی نکل آیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بچے کی ایڑھیوں کی رگڑ سے معجزاتی طور پر پانی نکل آیا ہو۔ حضرت ہاجرہ نے کمال دانش مندی سے اسے حوض کی شکل دینا شروع کی اور اپنے ہاتھ سے منڈیر بنایا۔ حضرت ہاجرہ نے خود بھی پانی پیا اور بچے کو بھی پانی پلایا۔
پھر بنو جرہم کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھوں نے مکہ کے زیریں علاقے میں پڑاؤ ڈالا۔ انھوں نے پرندے کو چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہاں پانی ہے جس پر پرندہ چکر لگا رہا ہے۔ انھوں نے قاصد بھیجا جس نے تصدیق کر دی کہ وہاں پانی موجود ہے، تو قبیلے والے وہاں سے اٹھ کر پانی کے قریب آگئے۔ حضرت ہاجرہ پانی کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے پڑاؤ ڈالنے کی اجازت مانگی تو انھیں مل گئی۔ ابن عباس راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل کے ماں نے ان کی آمد کو اچھا سمجھا، کیونکہ وہ انسانوں سے محبت کرتی تھیں۔ ان لوگوں نے وہاں پڑاؤ ڈال دیا اور پیغام بھیج کر اپنے گھر والوں کو یہاں بلا لیا۔ وہ بھی آکر ان کے پاس رہنے لگے، حتیٰ کہ ان کے یہاں گھر آباد ہو گئے۔
قرآن کی آیات اور بخاری کی روایت سے حضرت ہاجرہ کی عظیم شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ بے آب و گیاہ وادی، تن تنہا خاتون، گود میں دودھ پیتا بچہ۔ کس قدر وحشت زدہ ماحول تھا۔ اس ماحول میں انھوں نے کسی مرد کی مدد کے بغیر بڑی ہمت و حوصلے سے بچے کی پرورش کی۔ وہ بچہ عام بچہ نہ تھا، ایک ہونے والا نبی تھا۔ نہ صرف بچے کی پرورش کی، بلکہ بیت اللہ کو آباد کرنے میں اپنے شوہر کے مشن میں بھرپور شرکت کی۔ جب حضرت ابراہیم ان کو تنہا چھوڑ کر جانے لگے تو پوچھا: کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو؟ جواب ملا کہ اللہ کے سہارے۔ اس پر اس عظیم خاتون نے کہا: میں اللہ سے راضی ہوں۔ کس قدر پختہ ایمان تھا ان کا اور کس قدر توکل ان کو اللہ پر۔
بنو جرہم کو پانی کے پاس پڑاؤ کی اجازت دے کر وہ ایک معاشرتی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق وہ انسان دوست تھیں۔ انھوں نے اس شرط پر پڑاؤ کی اجازت دی کہ وہ پانی استعمال کر لیں، مگر اس پر ان کو حق ملکیت نہ ہو گا۔ یہ ان کی فہم و فراست اور حسن تدبیر کی ایک واضح دلیل ہے۔ حضرت اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی سیکھی اور انھی میں بیاہے گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ خاتون کا کام معاشرے میں شمولیت ہے نہ کہ عزلت و تنہائی۔
اللہ نے اس باہمت اور باحوصلہ خاتون کو یہ اعزاز بخشا کہ صفا و مروہ کے درمیان انھوں نے سات چکر لگائے تھے۔ ان کو قیام قیامت تک ہر حج کرنے والے پر واجب قرار دیااور جس راستہ پر وہ تیز تیز قدموں سے دوڑی تھیں، اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مستحب قرار دیا۔ آج بھی آپ کو دو سبز نشانوں کے درمیان حاجی بھاگتے نظر آتے ہیں، وہ حضرت ہاجرہ کی سنت ہے۔ جس گزرگاہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہ، خلفا اور بادشاہ دوڑتے رہے اور جس گزرگاہ پر مسلمان قیامت تک دوڑتے رہیں گے، اس گزرگاہ پر کسی زمانے میں ممتا کی ماری ماں گود کے بچے کی پیاس بجھانے کے لیے دوڑی تھی۔ اللہ کو اس کی یہ ادا اتنی بھائی کہ ہر آنے والے کو وہاں پر سعی (دوڑنے) کا حکم دیا۔ ایک خاتون کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے۔
سورۂ ہود میں ارشاد ہے:
وَامْرَاَتُہٗ قَآءِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ وَمِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ءَ اَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.(۱۱: ۷۱۔۷۳)’’اور اس کی بیوی جو پاس کھڑی تھی، ہنسنے لگی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی۔ اس نے کہا: ہائے خرابی: کیا میرے بچہ ہو گا؟ اور یہ ہیں میرے شوہر بوڑھے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ انھوں (فرشتوں) نے کہا: کیا تم اللہ کی قدرت پر تعجب کرتی ہو؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں اے گھر والو، تم پر ہوں۔‘‘
آیت مبارکہ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ مہمانوں کے استقبال میں شریک تھیں اور ان کی خدمت میں مشغول تھیں۔ ہنسی ان کو اس بات پر آئی کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ وہ فرشتے تھے جو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے تھے۔ فرشتوں نے انھیں براہ راست دو بار خطاب کیا اور ان کو اسحاق کی خوش خبری دی۔ اس پر اللہ نے رحمتیں اور برکتیں بھیج کر ایک خاتون کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔ امام ابن حزم اپنی کتاب ’’الفصل فی الملل والاھواء والنحل‘‘ (۵/۱۷) میں فرماتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ام اسحاق نبی تو نہ تھی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے ان سے ہم کلام ہو۔
ابوالانبیا حضرت ابراہیم کے دور میں ان کی دونوں بیویوں نے ان کے مشن میں شریک ہو کر سب دینی اور معاشرتی سرگرمیوں میں ان کاساتھ دیا اور اللہ نے قدم قدم پر ان کی مدد فرمائی اور ان کی عزت افزائی کی۔
حضرت موسیٰ کی والدہ کا ذکر قرآن حکیم کی سورۂ طٰہٰ (۲۰) کی آیات ۳۸، ۴۰، ۹۴ اور سورۂ قصص (۲۸) کی آیات ۷۔ ۱۳ میں ہوا ہے۔ سورۂ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِذْ اَوْحَےْنَآ اِآٰی اُمِّکَ مَاےُوْحٰٓی. (۲۰: ۳۸)’’جب ہم نے تیری ماں کی طرف وحی کی ایسی بات کی جو وحی ہی کے ذریعے بتائی جا سکتی تھی۔‘‘
وحی کی تفصیل سورۂ قصص میں نسبتاً تفصیل سے ہے:
وَاَوْحَیْنَآ اِلآی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.(۲۸: ۷)’’اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ۔ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا۔ ہم اس کو تمھارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اسے پیغمبر بنا دیں گے۔‘‘
وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًا اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِھَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ.(۲۸:۱۰)’’اور موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار ہو گیا۔ اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس (بے قراری) کو ظاہر کر دیتی۔ غرض یہ تھی کہ مومنوں میں رہیں۔‘‘
وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِ.(۲۸:۱۱)’’اور اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔‘‘
فَرَدَدْنٰہُ اِآٰی اُمِّہٖ کَیْ تَقَرَّعَیْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ.(۲۸:۱۳)’’ہم نے ان کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں اور تاکہ ان کو علم ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، لیکن ان میں اکثر کو اس کا علم نہیں۔‘‘
حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی گئی تھی یا یہ محض الہام تھا؟ اس کے بارے میں امام ابن حزم اندلسی (حوالہ پیچھے مذکور ہے) فرماتے ہیں:
’’معمولی عقل و شعور رکھنے والا آدمی بھی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر موسیٰ کی والدہ کا عمل اللہ کے عطا کردہ شرف نبوت سے نہ ہوتا اور محض خواب یا دل میں پیدا شدہ وسوسہ کے مطابق وہ ایسا کرتیں تو ان کا یہ عمل نہایت ہی مجنونانہ اور مقہورانہ ہوتا اور اگر آج ہم میں سے کوئی ایسا کر بیٹھے تو ہمارا یہ عمل گناہ قرار پائے گا یا ہم کو پاگل سمجھ کر پاگل خانے بھیج دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسی صاف اور واضح بات ہے جس میں شک و شبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
اللہ کا یہ وعدہ کہ میں اسے تیرے پاس لوٹا دوں گا اور اسے رسول بناؤں گا، کیا وعدہ الہام یا خواب کی صورت میں کیا جا سکتا ہے؟ یہ بات صرف وحی کے ذریعے سے ہی بتائی جا سکتی ہے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ کو یقین تھا کہ یہ وحی الٰہی ہے۔ چنانچہ انھوں نے حکم کی تعمیل میں پل بھر بھی دیر نہ کی اور بچے کو دریا میں ڈال دیا۔ ابو حیان نے ’’البحر المحیط‘‘ (۷/ ۱۰۰) میں ان الفاظ سے ان لوگوں کے قول کے خلاف استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ وحی سے مراد الہام یا خواب ہے۔
اب آئیے قصہ میں حضرت موسیٰ کے کردار کی طرف۔ ’’انھوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں ذرہ بھر دیر نہ کی‘‘، اسی سے دونوں جملوں کو فالے تعقیب کے ذریعے سے جوڑا گیا ہے۔ اپنے جگر گوشہ کو دریا کی موجوں کے سپرد کر کے ایک ماں قدرتی طور پر دل گرفتہ تھی، اللہ قدم قدم پر والدہ کی رہنمائی کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے ماں کی ممتا کا احساس ہے۔ تیرے اندر جو جذبات تڑپ رہے ہیں، میں ان سے باخبر ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا کہا مان کر تو نے اپنے لخت جگر کو اپنی آغوش سے نکال کر دریا کی آغوش میں ڈال دیا ہے۔ جو میرا کہا مانتے ہیں، میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ میرے ہاتھ دریا کی لہروں پر قابو پر کر ان کو ان کی گود بنا سکتے ہیں۔ خوش ہو جاؤ، ہم نہ صرف اسے تیری آغوش میں واپس لے آئیں گے، بلکہ اسے رسالت کے منصب پر بھی فائز کریں گے۔ یہ وحی سہمے ہوئے دل کی ڈھارس بندھاتی ہے۔
یہ اللہ کی تدبیر تھی کہ فرعون اور اس کی بیوی نے دریا سے نکال لیا۔ قرآن کہتا ہے: جو ان کے دلوں میں پیدا ہوئی، اللہ کی عطا کردہ تھی۔ فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا: یہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرنا۔ بچے کی حفاظت جاہ و مال سے نہ ہوئی، بلکہ صرف اور صرف اس محبت کی وجہ سے جو اللہ نے ان کے دلوں میں اپنی تدبیر کے تحت ڈال دی تھی۔ اللہ کو منظور تھا کہ موسیٰ کی تربیت شاہی محل میں ہو اور وہ اس زمانے کے علم و حکمت سے بہرہ ور ہوں اور اس علم و حکمت کو کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے استعمال کریں۔
موسیٰ کے غم کے سوا ام موسیٰ ہر غم سے فارغ ہو چکی تھی، مگر اللہ نے ان کے دل پر صبر کی گرہ لگا دی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اپنی بے چینی سے وہ منہ سے کوئی ایسی بات نکال دیتیں جس سے سارا راز فاش ہو جاتا۔ جس طرح کسی چھوٹنے والی اور بھاگنے والی چیز کو باندھ دیا جائے تو وہ قرار پکڑ جاتی ہے، بالکل اسی طرح اللہ نے وحی کے ذریعے سے ان کے دل پر صبر کی گرہ لگا دی۔ اللہ نے ایسا کیوں کیا؟ تاکہ ان کا شمار اہل ایمان ہی میں رہے۔ یہاں پر ام موسیٰ کے لیے مومنات کی جگہ ’مُؤْمَنُوْنَ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ کی نعمت میں اہل ایمان مرد و زن میں کوئی تمیز نہیں۔
جب موسیٰ کی ماں کا دل موسیٰ کے غم کے سوا ہر غم سے فارغ ہو گیا تو انھوں نے اپنی بیٹی اور موسیٰ کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جاؤ اور کوئی خبر لاؤ، بہن کی حسن تدبیر سے بچہ ماں کی گود میں واپس آگیا اور اللہ نے اس کی ٓٓآنکھوں کو ٹھنڈا کر دیا اور ان کے رنج کو دور کر دیا۔ حضرت موسیٰ کی ماں کا بھروسہ اللہ پر کامل تھا۔ ایک ماں اپنے بچے کے فراق میں جس بے کلی کا شکار ہوتی ہے، اس پر انھوں نے نہایت حوصلے اور صبر سے کام لیا، اللہ نے قدم قدم پر وحی سے ان کی رہنمائی فرما کر ان کو اعزاز بخشا اور ان کے جذبۂ ایمانی کی تحسین فرمائی۔
______________