[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
اب آپ نے بلال کوخانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا۔زبیر کہتے ہیں، اس کا مقصد مشرکین کو مرعوب کرنا تھا۔ان میں سے اکثر اس وقت پہاڑوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ حارث بن ہشام اور صفوان بن امیہ نے دیکھا تو کہا، اس حبشی کو تو دیکھو۔ صفوان نے کہا،خدا کا شکر ہے کہ اس نے یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی میرے والد کو اٹھا لیا۔ عکرمہ بن ابوجہل(یا ابو جہل کی بیٹی جویریہ) نے کہا،اﷲ نے ابو الحکم (ابوجہل) کو عزت بخشی کہ اس غلام کو اذان دیتے دیکھنے کا موقع نہیں دیا۔ عتاب (یا خالد) بن اسید نے بھی ایسی ہی بات کہی۔سہیل بن عمرو اور اس کے ساتھیوں نے اس موقع پر اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔ بعدمیں ان اصحاب میں سے اکثر نے اسلام قبول کر لیا۔
جنگ حنین ۸ھ کے موقع پر حضرت معاویہ نے ۱۰۰ اونٹ اور۴۰ اوقیہ (۱۳۴تولے) سونا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نذر کیے۔سونا بلال نے تولا۔ حنین سے آپ جعرانہ آئے ،بلال نے ہاتھ میں کپڑا پکڑ رکھا تھاجس میں چاندی تھی ۔آپ اس میں مٹھی بھرتے اور لوگوں میں بانٹتے جاتے۔
غزوۂ تبوک (۹ھ )کے موقع پر ابو موسیٰ اشعری اپنے ساتھیوں کے کہنے پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگنے گئے۔آپ نے فرمایا، میں کوئی سواری مہیا نہ کروں گا۔ابوموسیٰ رنجیدہ ہو کر لوٹے ہی تھے کہ بلال آگئے اورندا دی ،رسول اکرمؐ تمہیں بلا رہے ہیں۔تب آپ نے انھیں ۶ اونٹ عطا کیے جو آپ نے اسی وقت سعدسے خرید ے تھے۔
۹ ھ میں بنو تمیم کے سردار زبرقان بن بدر،قیس بن عاصم،عمروبن اہتم اور اقرع بن حابس اپنے ان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مدینہ آئے جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر عیینہ بن بدر نے گرفتار کیے تھے ۔بلال ظہر کی اذان دے چکے تھے ،مسجد میں اہل ایمان آپ کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے۔ ان لوگوں نے جلدبازی کی اور حجرۂ مبارکہ کے باہر کھڑے ہو کر آپ کو آوازیں دینے لگے۔اس موقع پر سورۂ حجرات کی آیات:
اِنَّ الَّذِےْنَ ےُنَادُوْنَکَ مِنْ وَرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُہُمْ لَاےَعْقِلُوْنَ۔وَ لَوْ اَنَّہّمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَےْہِمْ لَکَانَ خَےْراً لَہُمْ۔ (آیات :۴،۵) “بلا شبہ وہ لوگ جو حجروں کے باہر سے آپ کو آوازیں دیتے ہیں ،ان میں سے اکثر عقل سے عاری ہیں۔اگر یہ صبر کر لیتے یہاں تک کہ آپ باہر نکل آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔”
حارث بن حسان علا بن حضرمی کی شکایت لے کر مدینہ پہنچے تو دیکھا کہ مسجد نبوی کھچا کھچ بھری ہوئی ہے اور بلال گلے میں تلوار لٹکائے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے کھڑے تھے۔انھوں نے آپ سے درخواست کی کہ بنو تمیم اور بنوبکر کے جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے دہنا کے مقام کو ان کے درمیان حد فاصل قرار دے دیں۔
۱۰ھ میں بنومحارب کا وفد مدینہ آ یا ،اسے رملہ بنت حارث کے گھر ٹھہرایا گیا۔بلال صبح و شام انھیں کھانا پہنچاتے رہے۔انھوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ بنوثفیف کا وفد مدینہ آ کر مشرف بہ اسلام ہوا تو رمضان (۱۰ھ)کا مہینہ تھا۔بلال انھیں سحر وافطار کا کھاناپہنچاتے۔وہ کہتے ، فجر تو ہوچکی تو بلال جواب دیتے ، میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کوسحری کرتے چھوڑ کر آیا ہوں۔بلال طعام افطار لاتے تو بنو ثقیف کے افراد کہتے ،ابھی سورج پوری طرح غروب نہیں ہوا۔وہ کہتے، میں آپ کے افطار کر لینے کے بعد تمہارے پاس آیا ہوں پھر خود بھی تھال میں ہاتھ ڈال کر ایک لقمہ لے لیتے۔
ابواما مہ باہلی حجۃ الوداع کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،۸ ذی الحجہ(یوم ترویہ) کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم منی پہنچے۔بلال آپ کے ساتھ تھے، ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس پروہ کپڑا ٹانگ کر دھوپ سے بچانے کے لیے آپ پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ ۹ ذی الحجہ کو آپ نے میدان عرفات میں وقوف کیا،اہل ایمان کو پہلا خطبہ ارشاد کیا،بلال نے اذان دی تو دوسراخطبہ شروع فرمایا۔اس سے فارغ ہوئے تو بلال نے دوسری اذان دی۔ انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی،پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر کی جماعت کرائی۔دوسری روایت کے مطابق آپ نے ایک ہی خطبہ دیا اور اس کے فوراً بعد دونوں نمازیں متصلاً پڑھا دی۔آپ کی رمی کے واقعات روایت کرتے ہوئے ام حصین کہتی ہیں، بلال آپ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے۔اسامہ بن زید آپ پر کپڑا تان کر سایہ کیے ہوئے تھے۔جمرۂ عقبہ کو کنکر مارنے کے بعد آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔
حبشہ (Ethiopia)کے شاہ نجاشی نے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو تین نیزے تحفے کے طور پر بھیجے۔ ایک نیزہ آپ نے اپنے پاس رکھا ،ایک سیدنا علی اور ایک سیدناعمرکودے دیاتھا۔عیدالفطر اور عیداالاضحی کی نمازیںآپ کھلے میدان میں پڑھاتے تھے، جب عید کے میدان کی طرف روانہ ہوتے تو بلال آپ والا نیزہ اٹھا کر آپ کے آگے آگے چلتے۔ دوگانہ ادا کرنے سے پہلے بلال اسے آپ کے مصلی کے آگے گاڑ کر سترہ بنادیتے ۔آپ نے نماز استسقا ادا فرمائی تو بھی بلال نے یہ نیزہ اٹھایا اور اسے سترے کے طور پر استعمال کیا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ کے نواح میں ابطح کے مقام پر عصر کی نمازپڑھائی ،تب بھی بلال نے اذان کے بعد آپ کے سامنے نیزہ گاڑا اور پھر اقامت کہی۔ اسی موقع کا واقعہ ہے کہ بلال نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ کا وضو کا( بچا ہوا) پانی پکڑا تو صحابہ اس کی طرف لپکے۔ جسے کچھ پانی مل گیا ،اس نے جسم پر مل لیا اورجسے نہ مل سکا، اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری حاصل کرلی۔ عہد صدیقی میں بھی بلال ہی نیزہ برداری کرتے رہے تاہم حضرت عمر اور حضرت عثمان کے عہد ہائے حکومت میں سعدقرظ(سعد بن عائذ جو قرظ یعنی کیکر کا کاروبار کرتے تھے) نے یہ فریضہ انجام دیا۔ابن سعد اپنے دور کا حال بیان کرتے ہیں، آج کل عید کے موقعوں پر امرا کے جلوس کے آگے اٹھائے جانا والا نیزہ یہی ہے۔
ایک عید کے موقع پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو خیال ہو اکہ آپ عورتوں کو خطبہ سنا نہیں پائے چنانچہ آپ بلال کو لے کرعیدگاہ کے زنانہ حصے کی طرف آئے،بلال نے ہاتھ پر ٹیک لگائی اور عورتوں کو (دوبارہ)وعظ فرمایااور صدقہ کرنے کا حکم دیا۔عورتیں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں پھینکنے لگیں اور بلال اپنے کپڑے کے کونے میں لپیٹنے لگے۔
ایک دفعہ انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے مابین لڑائی جھگڑا ہو گیا۔بنی صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو ظہر کی نماز پڑھا کر قبا تشریف لے گئے ۔آپ کو وہاں دیر ہو گئی اور عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ بلال نے ا ذان دے کرسیدنا ابوبکر سے کہا،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو رکنا پڑ گیا ہے ، آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟انھوں نے کہا، ہاں۔تب بلال نے اقامت کہی اور سیدنا ابوبکر سجادۂ امامت پر کھڑے ہو گئے۔ نماز جاری تھی کہ آپ واپس لوٹ آئے اور صفوں کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے پہلی صف تک پہنچ گئے۔سیدناابو بکر نماز پڑھانے میں اتنے مگن تھے کہ انھیں پتا نہ چلا،مقتدیوں نے بار بار تالیاں بجائیں تو وہ پیچھے ہٹے اور آپ نے نماز مکمل کرائی۔ فارغ ہونے کے آپ نے صحابہ کو تالیاں بجانے سے منع فرمایااور کہا، جسے دوران نماز میں کوئی شبہ پیش آجائے توسبحان اﷲ کہے۔
زینب بنت معاویہ اپنے شوہر عبداﷲبن مسعود اور اپنے یتیم بھانجوں اوربھتیجو ں پر انفاق کرتی تھیں جو ان کی پرورش میں تھے۔وہ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کرنے آئیں،آیا یہ انفاق درست ہے؟ آپ کے ہاں ایک انصاریہ کھڑی تھیں،انھیں بھی ایسا ہی سوال درپیش تھا۔بلال ان کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ان سے درخواست کی کہ اس سوال کا جواب پوچھ کر بتائیں۔آپ نے فرمایا، زینب کودہرا اجر ملے گا ،ایک حق قرابت ادا کرنے کا اور دوسرا صدقہ دینے کا۔
ایک بار بلال نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کھجور کی عمدہ قسم برنی لے کر آئے ۔آپ نے پوچھا، یہ کہاں سے آئی؟انھوں نے بتایا،میرے پاس ہلکی کھجور تھی ، میں نے اس کے دو صاع دے کر بدلے میں اس کا ایک صاع لے لیا تاکہ آپ کو کھلاؤں۔آپ نے فرمایا،اوہ!اوہ! یہ تو عین سود ہے ،بالکل ہی سود ہے۔ایسا ہر گزنہ کرنا ۔جب تم کھجورخریدنا(یعنی اس کا تبادلہ کرنا) چاہو تو اسے بیچ کراناج کی کوئی اور جنس لے لوپھر اس کے بدلے میں وہ کھجورلے لو جو تمہیں چاہیے۔
نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آیا ۔آپ کامرض شدید ہو چکا تھا جب بلال نماز کے لیے کہنے آئے۔آپ نے فرمایا، ابوبکر کو کہو،لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ آپ کی وفات ہوچکی تھی، ابھی تدفین نہ ہوئی تھی کہ بلال اذان کے لیے کھڑے ہوئے۔ انھوں نے’’ اشہد ان محمداً رسول اﷲ‘‘ پکارا تو مسجد میں موجود صحابہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔تدفین کے بعد سیدناابوبکر نے اذان دینے کو کہاتو بلال نے جواب دیا، اگر آپ نے مجھے اس لیے آزاد کیا تھا کہ میں آپ کی بات مانتا رہوں تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کا آزاد کرنا اﷲ کی خاطر تھا تو معاملہ میرے اور اﷲکے بیچ رہنے دیں۔ حضرت ابوبکر یہ کہہ کر خاموش ہو گئے ، میں نے تو تمہیں اﷲ کی رضا جوئی کے لیے آزاد کیا تھا۔بلال نے کہا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدمیں کسی کے لیے اذان نہ دوں گا۔
نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعدسیدنابلال حضرت ابوبکرکے پاس آئے اور کہا، یا خلیفۃ رسول اﷲ!میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے،’’مومن کا بہترین عمل اﷲ کی راہ میں جہادکرنا ہے۔‘‘سیدنا ابوبکر نے پوچھا ،بلال!تم کیاچاہتے ہو؟ انھوں نے ،میں اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے سرحدوں پر جانا چاہتا ہوں۔ حضرت ابوبکر نے کہا،بلال!میں تمہیں اﷲ کا اور اپنے اس احترام اور حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو تمہارے دل میں ہے ،میں بوڑھا اور کم زور ہو گیاہوں او رمیری عمر تھوڑی رہ گئی ہے ،تم شہر نبی صلی اﷲ علیہ وسلمسے نہ جاؤ۔چنانچہ وہ مدینہ ہی میں مقیم رہے۔خلیفۂ اول کی وفات کے بعدوہ سیدنا عمر کے پاس آئے اور وہی بات کہی۔حضرت عمرنے بھی وہی جواب دیا تو بلال نے جانے پر اصرار کیا۔سیدناعمرنے پوچھا ،تو میں اذان کا فریضہ کسے سونپوں؟ انہوں نے کہا،سعد قرظ کو ، وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے بھی اذان دے چکے ہیں۔ سعید بن مسیب کی روایت کے مطابق بلال عہد صدیقی ہی میں شام چلے گئے تھے۔سیدناابو بکر نے شام کو جانے والے جس دستے کا سربراہ معاویہ بن ابوسفیان کو مقرر کیاتھا،بلال اس میں شامل تھے۔
حضرت بلال نے حمص کی پہلی جنگ( ۱۵ھ) میں شرکت کی۔ حمص فتح ہونے کے بعد کمانڈر ان چیف ابوعبیدہ نے سمط بن اسود کو بنو معاویہ،اشعث بن مئناس کو سَکون اور مقداد کو بلیّ بھیج دیا۔بلال اورخالد فوج میں رہے۔
۱۷ھ کے اواخر میں بیت المقدس اور رملہ(رام اﷲ) کے بیچ واقع عمواس نامی بستی میں طاعون کی وبا پھوٹی اور شام و عراق کے سارے علاقے میں پھیل گئی۔ مجموعی طور پر اس نے ۲۵ ہزارمسلمانوں کی جان لے لی۔وبا ختم ہوئی تو حضرت عمر شام پہنچے، انھوں نے حمص ، دمشق اور شام کے انتظامی معاملات نمٹائے اور وبا میں وفات پانے والوں کے میراث کے مسائل سلجھائے۔پھروہ جابیہ پہنچے ، بلال ان کے ساتھ تھے۔ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے اصرار کیا ، بلال اذان دیں۔کئی سالوں کے بعد بلال کی آواز بلند ہوئی توسیدنا عمر،وہاں پرموجود صحابہ اور حاضرین ہچکیاں لے کر رونے لگے ،خود بلال کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ شام کی سرزمین میں بیت المقدس کے قریب بلال کی یہ پہلی اور آخری اذان تھی۔۱۷ھ ہی میں سیدناعمرنے خالد بن ولیدسے قنسرین کی کمان واپس لینے کا حکم دیا۔ ان پر ایک قصیدہ گو اشعث بن قیس کو ۱۰ ہزار درہم انعام میں دینے کا الزام تھا۔ابوعبیدہ نے یہ فرمان ملنے کے بعد لوگوں کو مسجد میں جمع کر لیا،خود منبر پر بیٹھ گئے اورخالدکو اپنے سامنے کھڑا کر لیا۔فرمان کے الفاظ کی پیروی کرتے ہوئے بلال نے خالد کا عمامہ کھولا،وہ ٹوپی اتاری جس پرعمامہ بندھا تھاپھر عمامے کا طوق بنا کرخالدکے گلے میں ڈال دیا۔ بلال نے خالد کے تمام مال کو دو حصوں میں بانٹ کرآدھا ان سے لے لیا۔ جوتاتقسیم ہونے سے رہ گیاتوابوعبیدہ نے کہا، یوں نہیں،ایک پاؤں خالد کے پاس رہنے دواور دوسرا ضبط کر لو۔کاروائی مکمل ہونے کے بعد ابوعبیدہ نے منبرسے اتر کر خالدسے معذرت کی اور کہا، یہ سب امتثال امر امیر المومنین میں تھا۔
قیام شام کے دوران ہی میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم بلال کے خواب میں آئے اور فرمایا،بلال! یہ دوری کیسی؟کیا وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کو آؤ؟ چنانچہ بلال مدینہ آئے اور آپ کی قبر پر بیٹھ کر زاروقطارروتے رہے۔حسنین آئے تو بلال ان سے لپٹتے اور انہیں چومتے رہے۔ایک روایت کے مطابق انھوں نے ان دونوں کی خواہش پر فجر کی اذان بھی دی لیکن پوری نہ کر پائے ۔
عبداﷲ ہوزنی کہتے ہیں، حلب(شام) میں حضرت بلال سے میری ملا قات ہوئی تو میں نے ان سے رسول اکرم کے انفاق کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے بتایا،آپ کے پاس جب کوئی مسلمان آتااور آپ دیکھتے کہ اس کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں یا کھانے کو کچھ نہیں تو مجھے قرض لے کر اس کے کپڑوں اورخوراک کا بندوبست کرنے کا حکم ارشاد کرتے۔ایک بارمجھے ایک مشرک ملا اور کہا،میرے پاس بہت مال ہے مجھ سے قرض لے لیا کرو۔میں نے اس سے ادھار پکڑ لیا۔کچھ عرصہ گزرا ،میں وضو کر کے اذان دینے لگا تھا کہ وہی مشرک چندتاجروں کو لے کر آ گیا اور سخت لہجے میں رقم کا مطالبہ کیاجس کی واپسی کی مدت میں چار روز رہتے تھے۔اس نے کہا، میں نے توصرف اس لیے تمہیں قرض دیا تھا کہ تم میری غلامی میںآ جاؤ اور میں تمہیں اپنی بکریاں چرانے کا کام سونپ دوں۔نماز کے بعد میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور ان مسلمانوں سے سوال کرنے کی اجازت مانگی جوخوش حال تھے۔فجر سے پہلے میں اس غرض سے گھر سے نکلا ہی تھا کہ ایک شخص سامان سے لدے ہوئے چار اونٹ لیے کھڑا مل گیا۔ آپ کو اطلاع کی تو فرمایا،یہ تمہارے قرض کی ادائی ہے ۔ میں نے سامان اتارکرفجر کی اذان دی ۔نماز کے بعد بقیع پہنچا اور اعلان کر دیا ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذمہ جس کا بھی کوئی قرض ہے ،لے لے۔ چند لمحوں میں آپ کا تمام دین ادا ہوگیا،ڈیڑھ یا دو اوقیہ (دینار،اشرفیاں)میرے پاس بچ گئے۔میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہواتو فرمایا، میں انتظار کروں گا کہ تم ان دیناروں سے بھی میرا پیچھا چھڑا دو۔اگلے روز دو مسافر آئے تومیں ان کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کا انتظام کرنے میں انھیں صرف کر دیا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو خبر کی تو فرمایا،اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے اس حال میں موت نہیں دی کہ دو دینار بھی پاس ہوتے۔
بلال کا رنگ گہرا گندمی (سیاہ)تھا۔ان کا قد لمبا تھا ، لاغر ہونے کی وجہ سے جسم کسی قدر خمیدہ تھا۔سر کے بال گھنے اور کھچڑی تھے جن پر وہ کوئی رنگ نہ لگاتے تھے ۔رخسار ہلکے اور کم زور تھے۔تمام مؤرخین کہتے ہیں، بلال کی کوئی اولاد نہ ہوئی تاہم ابن اثیر نے ۵۱۹ھ میں سمرقند میں وفات پانے والے ہلال بن عبدالرحمان کو بلال کی اولاد(نسل) میں سے بتایاہے۔ بلال کی کنیت ابو عبداﷲ تھی ۔ دوسری روایات میں ابو عبدالکریم یاابو عبدالرحمان کو ان کی کنیت بتایاگیا ہے۔بلال کے بھائی کا نام خالد اور بہن کا غفرہ تھا۔مکہ میں جنم لینے اور اسی شہر میں اپنے شب و روز بسر کرنے کا اثر تھا کہ بلال ٖفصیح عربی بولتے تھے۔ابن کثیر کہتے ہیں ،یہ غلط ہے کہ وہ شین نہ بول سکتے تھے۔ یہ خیال ان سین بلال عند اﷲ شیناً والی روایت کی بنیاد پر کیاگیا ہے جو قطعاً بے اصل ہے۔
بلال کی شادی بنوزہرہ کی ایک عرب عورت سے ہوئی۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ابو بکیرکی بیٹی سے ان کا رشتہ طے فرمایا۔ابوبکیر کے بیٹے آپ کے پاس آئے اور کہا، ہماری فلاں بہن کی شادی کرادیں۔آپ نے فرمایا، تمہارا بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟انھوں نے جواب نہ دیا اور چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر آئے اور کہا، ہماری فلاں بہن کا نکاح کرا دیں۔آپ ے فرمایا، تم بلال سے اعراض کیوں کر رہے ہو؟اب بھی انھوں نے یہ رشتہ طے نہ کیا اور تیسری بارپھر آئے اور اپنی درخواست پیش کی۔آپ نے فرمایا، تم بلال کا رشتہ کیوں چھوڑ رہے؟ایک جنتی شخص سے روگردانی کیوں کر رہے ہو؟تب انھوں نے یہ رشتہ مان لیا۔ بلال نے اپنے اور اپنے بھائی کے لیے ایک یمنی(یاخولانی) گھرانے میں رشتے کا پیغام بھیجا اور کہا،میں بلال ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ۔ ہم دونوں حبشی غلام اور گم راہ تھے۔اﷲ نے اسلام کی طرف ہماری راہ نمائی کی اور ہمیں آزاد کیا۔آپ اگر اپنی بیٹیاں ہمارے نکاح میں دے دیں تو الحمد ﷲ، اگر انکار کر دیں تو اﷲ اکبر۔ دونوں کی وہاں شادی ہوگئی ،بلال کی بیوی کا نام ہند خولانی تھا۔بلالؓ کے ایک بھائی نے جو خود کو عربی کہلاتا تھاایک عرب عورت سے شادی کی بات کی۔اس کے اہل خانہ نے کہا، اگر بلال آ جائیں تو ہم یہ رشتہ دے دیں گے۔بلال آئے ،تشہد پڑھا اور کہا، میں بلال بن رباح ہوں، یہ میرا بھائی ہے اور اخلاق و عادات میں سخت درشت ہے۔اگر آپ اس سے بیٹی بیاہنا چاہتے ہیں تو بیاہ دیں اور اگر اس کا رشتہ چھوڑنا چاہتے ہیں تو چھوڑ سکتے ہیں۔وہ بلال کی راست گوئی سے بہت متاثر ہوئے اور کہا، جس کا بھائی ایسا ہو،ہم اس سے ضرور ناتا جوڑیں گے۔
حضرت بلال بہت صاحب فضیلت تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،’’بلال حبشہ کے سبقت کرنے والے ہیں۔‘‘یعنی حبشہ کے باشندگان میں سے انھوں ہی نے ایمان و اسلام کی طرف سبقت کی۔آپ نے ان کے جنتی ہونے کی شہادت بھی دی،ایک بار بلال سے فرمایا،میں جنت پہنچا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی،اپنا کیا ہوا ایسا عمل بتاؤ جس کے مقبول ہونے کی تمہیں بہت امید ہو۔انھوں نے جواب دیا،میں ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔وضو ٹوٹ جاتا ہے تو دوبارہ کر لیتا ہوں اور جب بھی وضو کرتا ہوں،دو رکعت تحےۃ الوضو پڑھنا لازم سمجھتا ہوں۔آپ نے فرمایا، ہاں یہی عمل اتنے بلند مرتبے تک پہنچا سکتا ہے۔ حضرت عمر ہمیشہ انھیں سیدی بلال کہہ کرپکارتے اور کہتے ،سیدناابوبکر ہمارے سردار ہیں، انھوں نے ہمارے سردار بلال کو آزاد کیا۔ بعثت کے بالکل ابتدائی زمانے میں عمرو بن عبسہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے حالات جاننے کے لیے مکہ پہنچے،آپ سے ان کی ملاقات سوق عکاظ میں ہوئی ۔انھوں نے پوچھا،آپ کو اﷲ نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟فرمایا،صلۂ رحمی کرنا،بت شکنی کرنا اور شرک سے پاک ہو کر اﷲ واحد کی عبادت کرنا۔عمرو نے پوچھا، اس مقصد میں کس نے آپ کا ساتھ دیا؟جواب فرمایا،ایک آزاد(ابوبکر) اور ایک غلام (بلال) نے۔ اس جلالت قدر کے باوجود بلال بہت منکسر المزاج تھے ۔لوگ ان کے پاس آکران کے فضائل بیان کرتے اوراﷲ کے ہاں ان کے مرتبہ و مقام کو سراہتے تو جواب دیتے،میں تو بس ایک حبشی ہوں ،کل تک غلام تھا۔ایک سیاہ فام نے سعید بن مسیب کے آگے دست سوال دراز کیا تو انھوں نے کہا،کالا ہونے کی وجہ سے افسردہ نہ ہوجاؤ ۔ بہترین انسانوں میں سے تین سیاہ فام تھے،بلال،عمر کے آزادکردہ غلام مہجع اور بڑے بڑے ہونٹوں والے سیاہ فام حکیم لقمان جو سوڈان سے تعلق رکھتے تھے۔
ابتدائے اسلام میں حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کے سرکشوں کی طرح کفار قریش نے نبئ آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ عمار، صہیب، بلال، خباب اور عبداﷲ بن مسعود کی طرح کے غریب مسلمانوں کو اپنے پاس نہ آنے دیں۔اسلام کو غلبہ حاصل ہوا اور لوگ جوق در جوق دین میں داخل ہونے لگے تو یہ تقاضا عرب کے نومسلم سرداروں نے کیا۔بنوتمیم کے سردار اقرع بن حابس اوربنوفزارہ کے عیینہ بن حصن مدینہ آئے تو دیکھا کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم انھی چاروں مخلص مسلمانوں کے ساتھ تشریف فرما ہیں،چنداور غربا بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کو حقارت سے دیکھنے کے بعدوہ آپ کو علیحدہ لے گئے اور فرمائش کی کہ ہمارے مرتبے کے مطابق ہمارے لیے الگ نشست مقرر کی جائے۔ اگر عرب کے مختلف اطراف سے آنے والے وفود نے ہمیں ان کے ساتھ بیٹھے دیکھ لیا تو عار کی بات ہو گی۔ یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ اﷲ کی طرف سے فوراً وحی نازل ہوئی:
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِےْنَ ےَدْعُوْنَ رَبَّہُم بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ ےُرِےْدُوْنَ وَجْہَہُط مَا عَلَےْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِنْ شَیْءٍ وَّ مَامِنْ حِسَابِکَ عَلَےْہِمْ مِنْ شَیءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الْظّٰلِمِےْنَ۔(نسا:۵۲) “اے نبی! ان اہل ایمان کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کو اس کی خوشنودی چاہنے کے لیے صبح و شام پکارتے ہیں۔ان کے حساب میں سے آپ پر کوئی بار نہیں،نہ آپ کے حساب میں سے ان کے ذمہ کچھ آئے گا۔ایسا نہ ہو کہ آپ ان کو دھتکاریں اور ظالموں میں شامل ہو جائیں۔”
سورۂ کہف آیت:۲۸ میں یہی مضمون دوسرے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ (ابن ماجہ:۲۴۳۱)
بلال نے ۲۰ھ (۶۴۲ء)میں دمشق میں وفات پائی۔انھیں باب صغیر کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ابن کثیر کہتے ہیں،بلال شام کے قصبے داریّا میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔ان کا کہنا ہے،دمشق کے باب صغیر میں بلال کے نام سے مشہور قبر بلال بن حمامہ کی نہیں بلکہ بلال بن ابو الدرداکی ہے جو دمشق کے گورنر اور قاضی رہے ۔ان کاسن وفات۹۳ھ ہے ۔ایک اور روایت کے مطابق ان کا جسد داریّا سے دمشق لایا گیا اور باب کیسان میں دفنایا گیا۔ ۱۸ھ میں طاعون عمواس میں بلال نے وفات پانے کی روایت درست نہیں۔بلال کی عمر ۶۳ برس ہوئی۔ شعیب بن طلحہ کہتے ہیں ،بلال میر ے جد حضرت ابوبکر کے ہم عمر تھے۔
بلال سے مروی احادیث کی تعداد ۴۴ ہے ۔ان میں سے۴ صحیحین میں،۲ بخاری میں اور ایک متفق علیہ ہے۔بلال نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی جب کہ ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں:ابوبکر،عمر،اسامہ بن زید، عبداﷲ بن عمر،کعب بن عجرہ،برابن عازب،اسود بن یزید،ابو عثمان نہدی، سعید بن مسیب،عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ،قیس بن ابی حازم،ابوعبداﷲصنابحی،نُعےَم بن زیاد،ابوادریس خولانی، قبیصہ بن ذؤیب،حکم بن مینا، حارث بن معاویہ، شہر بن حوشب اورشداد۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد )، الجامع المسند الصحیح (بخاری) ، المسند الصحیح المختصر من السنن( مسلم، شرکۃ دار الارقم )،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)، فتح الباری(ابن حجر)، تاریخ ابن خلدون،سیرت النبی ؐ(شبلی نعمانی)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: W.Arafat)
____________