بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَاوَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا قَالُوْا نَعَمْ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ{۴۴} الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ کٰفِرُوْنَ{۴۵}
وَبَیْنَھُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلًّام بِسِیْمٰھُمْ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوْھَا وَھُمْ یَطْمَعُوْنَ{۴۶} وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُھُمْ تِلْقَآئَ اَصْحٰبِ النَّارِ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ{۴۷} وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَھُمْ بِسِیْمٰھُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ{۴۸} اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَایَنَالُھُمُ اللّٰہُ بِرَحْمَۃٍ اُدْخُلُواالْجَنَّۃَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ{۴۹}
وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآئِ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ{۵۰} الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَھْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنْسٰہُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَآئَ یَوْمِھِمْ ھٰذَا وَمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ{۵۱} وَلَقَدْ جِئْنٰھُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ ھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ{۵۲} ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَھَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآئَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْنُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ{۵۳}
جنت کے لوگ(اِس موقع پر) دوزخ والوں کو پکار کر پوچھیں گے کہ ہم نے تو اُس وعدے کو بالکل سچاپایا جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا، کیا تم نے بھی اُس وعدے کو سچا پایا جو تمھارے پروردگار نے (تم سے) کیاتھا۳۵۷؎؟ وہ جواب دیں گے: ہاں۔ پھر ایک پکارنے والا اُن کے درمیان پکارے گا کہ خدا کی لعنت اِن ظالموں پر ــــ (فرمایا): اِن پر جو (آج) اللہ کی راہ سے روکتے ۳۵۸؎اور اُس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں۳۵۹؎ اور آخرت کے منکر ہیں۳۶۰؎۔ ۴۴-۴۵
اِن دونوں گروہوں کے درمیان پردے کی دیوار ہو گی ۳۶۱؎اور دیوار کی برجیوں پر کچھ نمایاں اور ممتاز لوگ ہوں گے ۳۶۲؎جو ہر ایک کو اُس کی علامت ۳۶۳؎سے پہچانیں گے اور جنت کے لوگوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ـــ یہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر امیدوار ہوں گے (کہ داخل ہو جائیں گے۳۶۴؎)۔ اُن کی نگاہیںجب دوزخ والوں کی طرف پھیری جائیں گی۳۶۵؎ تو (بے اختیار) کہیں گے: پروردگار، ہمیں اِن ظالموں کا ساتھی نہ بنانا۳۶۶؎۔ (اِس کے بعد) یہ برجیوں والے (دوزخ کے) کچھ نمایاں لوگوں۳۶۷؎ کو پکاریں گے، جنھیں یہ اُن کی علامت سے پہچانتے ہوںگے۔ یہ (اُن سے)کہیں گے: کیا کام آئے تمھارے جتھے اور تمھارا وہ تکبر جو تم کیا کرتے تھے!(ذرا جنت کی طرف دیکھو)، کیا یہی ہیں وہ لوگ جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ یہ کبھی اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہو سکتے۳۶۸؎؟ (جنت کے لوگو)، تم (اپنی اِس) جنت میں داخل رہو۳۶۹؎، اب نہ تمھارے لیے کوئی خوف ہے اور نہ تم کبھی غم زدہ ہو گے۔۴۶-۴۹
اہل جنت کو (دیکھ کر) یہ دوزخ والے آواز دیں گے کہ (اپنے ہاں کا) کچھ پانی یا کچھ روزی جو اللہ نے تمھیں عطا فرمائی ہے، ہمیں بھی عنایت کرو۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں منکروں کے لیے حرام کر رکھی ہیں۳۷۰؎ ــــ (فرمایا): ۳۷۱؎ اُن کے لیے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا اور جنھیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میںمبتلا کیے رکھا۳۷۲؎۔ سو آج ہم اُنھیں اُسی طرح بھلا دیں گے ،۳۷۳؎ جس طرح وہ اپنے اِس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور جس طرح وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۳۷۴؎ ـــ (اِس۳۷۵؎ وقت، اے پیغمبر)، ہم (تیری قوم کے) اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں، جس کی تفصیل ہم نے علم قطعی کی بنیاد پر کی ہے۳۷۶؎، اُن کے لیے ہدایت و رحمت بنا کر جو ایمان لائیں۳۷۷؎۔ کیا یہ اِسی کے منتظر ہیں کہ (جس چیز کی خبر دی جا رہی ہے)، اُس کی حقیقت سامنے آجائے۔ جس دن اُس کی حقیقت سامنے آجائے گی تو یہی لوگ جنھوں نے اِس سے پہلے اُسے نظر انداز کر دیا تھا، کہیں گے کہ بے شک، ہمارے پروردگار کے بھیجے ہوئے پیغمبر بالکل سچی بات لے کر آئے تھے۔ پھر کیا ہیں کوئی ہمارے سفارشی کہ ہمارے حق میں سفارش کر دیں یا (ہے کوئی صورت کہ) ہمیں لوٹا دیا جائے کہ ہم اُس کے خلاف عمل کریں جو پہلے کرتے رہے ہیں!!(افسوس)، اِن لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال لیا اور جو کچھ افترا یہ کرتے رہے۳۷۸؎، وہ سب اِن سے جاتے رہے۔۵۰-۵۳
۳۵۷؎ یہ سوال تفضیح کے لیے ہے۔ آگے اِس کا جواب نقل ہوا ہے۔ وہ بھی، اگرغور کیجیے تو مجرموں کا آخری اعتراف ہے جس کے بعد اُن کے اور اُن کی سزا کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں رہ جائے گی۔ جنت اور دوزخ کے لوگوں میں اِس سوال و جواب سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہاں پہنچ کر انسان کی قوتوں اور صلاحیتوں میں کیا انقلاب برپا ہو جائے گا کہ لوگ جب چاہیں گے اور جہاں سے چاہیں گے، ایک دوسرے کو مخاطب کر لیں گے۔
۳۵۸؎ اصل میں لفظ ’یَصُدُّوْنَ‘ آیا ہے۔ یہ لازم اور متعدی، دونوں معنوں میں آتا ہے۔ ترجیح کا قرینہ نہ ہو تو اِسے متعدی مفہوم میں لینا چاہیے، اِس لیے کہ متعدی لازم کو بھی شامل ہوجاتا ہے۔
۳۵۹؎ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ توحید کی صراط مستقیم میں کجی پیدا کرکے شرک کی پگ ڈنڈیاں نکالنے کی تعبیر ہے۔
۳۶۰؎ ’الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ‘ سے یہاں تک یہ پورا ٹکڑا منادی کے اعلان کا حصہ نہیں ہے۔ اُس کا اعلان آیت میں ’الظّٰلِمِیْنَ‘ پر ختم ہو گیا ہے۔ اُس کے بعد یہ ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی طرف بطور تضمین ہے جس نے کلام کو بالکل مطابق حال کر دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس تضمین سے گویا یہ وضاحت ہو گئی کہ ظالمین سے مراد کون لوگ ہوں گے۔ فرمایا کہ وہی لوگ جو آج اللہ کی راہ سے لوگوں کو روک رہے ہیں، جو اُس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ساعی ہیں اور آخرت کے منکر ہیں۔ اِس وضاحت کے بعد آخرت میںہونے والی منادی وقت کے قریش پر ٹھیک ٹھیک اِس طرح چسپاں ہوگئی، گویا جامۂ بود کہ برقامت او دوختہ بود۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۶۵)
۳۶۱؎ اصل میں لفظ ’حِجَاب‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد وہ دیوار ہے جو دوزخ اور جنت کے درمیان کھڑی کر دی جائے گی۔ سورۂ حدید (۵۷) کی آیت ۱۳میں اِس کا ذکر ہے۔
۳۶۲؎ آیت کے الفاظ ہیں:’وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ‘۔لفظ ’اَعْرَاف‘ کے معنی بلندیوں کے ہیں۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں یہ اُن برجیوں اور دیدبانوں کے لیے آیا ہے جو اطراف و جوانب کو دیکھنے کے لیے اُس دیوار پر بنی ہوں گی جو دوزخ اور جنت کے درمیان کھڑی کی جائے گی۔ لفظ ’رِجَال‘ جب اِس طریقے سے آتا ہے، جس طرح یہاں آیا ہے تو اِس سے نمایاں اور ممتاز شخصیتیں مراد ہوتی ہیں۔ یہاں اِس سے امتوں کے رجال مراد ہیں جو دنیا میں حق کے علم بردار اور خیر کے داعی بن کر کھڑے ہوئے۔
۳۶۳؎ یعنی اُس علامت سے جو لوگوں کے اعمال کے اثرات سے اُن کے چہروں پر نمایاں ہو جائے گی۔ روایتوں میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو وضو کے آثار سے پہچانیں گے، جن سے اُن کی پیشانیاں اور چہرے چمک رہے ہوں گے*۔ اِس نوعیت کے بعض اشارات قرآن میں بھی ہیں۔
۳۶۴؎ یہ الفاظ اُن کی ذہنی کیفیت کے لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں کہ یہ سارا اعزاز و اکرام دیکھنے کے باوجود اپنی تواضع اور فروتنی کے سبب سے وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ پروردگار کا فیصلہ جب تک صادر نہیں ہو جاتا، اُس کی رحمت کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔
۳۶۵؎ آیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ جنت کے نظارے میں اُن کی محویت کو دیکھ کر اُنھیں توجہ دلائی جائے گی کہ ذرا ایک نظر اِن اہل دوزخ پر بھی ڈال لیجیے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ جنت اور دوزخ کا یہ مشاہدہ اُنھیں اِس لیے کرایا جائے گا کہ حق و باطل ، دونوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیںاور اہل حق کو بشارت دیں اور حق کے دشمنوں کی فضیحت کے لیے اُن کو سرزنش کریں۔
۳۶۶؎ یہ تعوذ کے الفاظ ہیں جو دوزخ والوں پر نظر پڑتے ہی بے اختیار اُن کی زبان سے نکلیں گے۔ اِن سے جہنم کے مناظر کی ہول ناکی بھی ظاہر ہوتی ہے اور وہ کمال خشیت بھی جس کے ساتھ وہ اِن مناظر کو دیکھ رہے ہوں گے۔
۳۶۷؎ یہاں بھی اصل میں وہی لفظ ’رِجَال‘ ہے جس کے بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ یہ جب اِس طریقے سے آتا ہے، جس طرح اِن آیتوں میں آیا ہے تو اِس سے کسی گروہ یا جماعت کے بڑے اور نمایاں لوگ مراد ہوتے ہیں۔ آگے وضاحت ہے کہ اِن کی علامتیں اِنھیں دوسروں سے ممتاز کر دیں گی، لہٰذا پہچانے جائیں گے کہ یہ فرعون ہے، یہ ابوجہل اور ابولہب ہے اور یہ فلاں اور فلاں ہے۔
۳۶۸؎ قرآن میں کئی جگہ بیان ہوا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے منکرین نے اُن کے پیرووں کو اُن کی غریبی اور کمزوری کے سبب سے بالعموم اِسی نظر سے دیکھا اور اُن کے بارے میں اِسی اعتماد سے دعوے کیے ہیں کہ جنھیں خدا نے دنیا میں کچھ نہیں دیا، وہ آخرت میں اُس کی رحمتوں کے مستحق کیسے ہو سکتے ہیں۔
۳۶۹؎ اصل میں لفظ ’اُدْخُلُوْا‘ آیا ہے۔ یہ اپنے ابتدائی معنی میں نہیں، بلکہ تمکن و استمرار کے مفہوم میں ہے۔ سورئہ یوسف کی آیت ’اُدْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ‘**میں بھی یہی مفہوم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے تمھیں جنت سے سرفراز فرمایا ہے، تم اِس میں سرفراز رہو، تمھارے لیے اب نعمت ہی نعمت ہے۔
۳۷۰؎ مطلب یہ ہے کہ اُنھیں حتمی طور پر اِن سے محروم رکھنے کا فیصلہ کر دیا ہے، اِس لیے یہ نعمتیں نہ اُن کو پہنچ سکتی اور نہ وہ کسی طرح اِنھیں پا سکتے ہیں۔
۳۷۱؎ یہاں سے آگے پھر ایک تضمین ہے۔ قریش کی تنبیہ کے لیے اہل جنت کے جواب کے ساتھ ملا کر اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے کہ منکرین سے کون لوگ مراد ہیں۔
۳۷۲؎ یہ وجہ بیان ہوئی ہے کہ اُنھوں نے اِس طرح کا لا ابالیانہ طرزعمل کیوں اختیار کیا۔ فرمایا: اِس لیے کہ دنیا میں عیش اور آزادی کے ساتھ جینے کی جو مہلت اُنھیں دی گئی، وہی اُنھیں دھوکے میں ڈالنے کا باعث بن گئی اور اُنھوں نے خیال کیا کہ دنیا بس اِسی لیے پیدا ہوئی ہے کہ بابر بہ عیش کوش ۔
۳۷۳؎ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولتا نہیں، چنانچہ لازم مقصود ہے ، یعنی نظرانداز کر دیں گے۔
۳۷۴؎ اصل الفاظ ہیں:’مَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ‘۔ پچھلے جملے پر عطف نے اِس فقرے میں ’کما کانوا‘ کا مفہوم پیدا کر دیا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۳۷۵؎ یہاں سے آگے روے سخن قریش کی طرف ہے۔ یہ انذار کی سورہ ہے اور اِس کے مخاطب بھی وہی ہیں، اِس لیے کلام بار بار اُن کی طرف لوٹتا ہے۔
۳۷۶؎ یعنی ایسے علم کی بنیاد پر جو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے اور بالکل اٹل ہے۔ آیت میں اِس کے لیے لفظ ’عِلْم‘ آیا ہے جس کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی صورت میں ایک ایسی کتاب اِن کے پاس آئی ہے جس میں ہم نے اپنے علم قطعی کی روشنی میں اُن تمام امور کی تفصیل کر دی ہے جن کو ماننا اور جن پر عمل کرنا آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
۳۷۷؎ اصل الفاظ ہیں:’ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘۔ اِن میں فعل ارادۂ فعل کے معنی میں ہے، یعنی جو ماننا چاہیں، اُن کے لیے دنیا میں ہدایت اور نتیجے کے طور پر آخرت میں رحمت بنا کر۔
۳۷۸؎ یعنی خدا پر جھوٹ باندھ کر اُس کے شریک ٹھیراتے اور اپنی طرف سے بدعتیں ایجاد کرتے رہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
* مسلم، رقم۵۰۳۔
** یوسف۱۲: ۹۹۔