(۷۲)
عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ وَأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِیْ عَذَّبْتُہُ.(مسلم، رقم ۶۶۸۰)
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عزت اللہ کی ازار اور بزرگی اس کی ردا ہے، چنانچہ (وہ فرماتا ہے کہ) جو اِن میں میرا مقابلہ کرے گا، میں اسے عذاب دوں گا۔
حقیقی عزت اور بزرگی، بڑائی اور عظمت صرف اور صرف خدا کے لیے ہے، وہی ان کا اصل حق دار اور مالک ہے۔ اس کے علاوہ جس کسی کو بھی کچھ عزت اور بڑائی حاصل ہے، اس کی عطا کردہ ہے۔ لہٰذا جو شخص خدا کے مقابل میں عزت دار بنتا اور بزرگی کو اپنا حق سمجھتا ہے، وہ اپنے اس رویے سے گویا خدا کی ملکیت کو اس سے چھینتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ ایسے شخص کو عذاب دے گا۔
(۷۳)
عَنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ حُذَیْفَۃَ وَذَکَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَشْرَبُوْا فِیْ آنِیَۃِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلَا تَلْبَسُوا الْحَرِیْرَ وَالدِّیْبَاجَ فَإِنَّہَا لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَلَکُمْ فِی الْآخِرَۃِ.(بخاری، رقم ۵۶۳۳)
حضرت ابن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھیڑا اور یہ بتایا کہ آپ نے فرمایا ہے: سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیا کرو اور ریشم و دیبا نہ پہنا کرو، کیونکہ یہ چیزیں ان (کفار) کے لیے دنیا میں ہیں اور تمھارے لیے آخرت میں ہوں گی۔
(۷۴)
عَنْ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: نَہَانَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَّشْرَبَ فِیْ آنِیَۃِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَأَنْ نَّأْکُلَ فِیْہَا وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ وَالدِّیْبَاجِ وَأَنْ نَّجْلِسَ عَلَیْہِ.(بخاری، رقم ۵۸۳۷)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے روکا ہے اور آپ نے ہمیں ریشم اور دیبا کے کپڑے پہننے اور ان (کی بنی ہوئی گدیوں وغیرہ) پر بیٹھنے سے روکا ہے۔
(۷۵)
عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَرِبَ فِیْ إِنَاءٍ مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ فَإِنَّمَا یُجَرْجِرُ فِیْ بَطْنِہِ نَارًا مِّنْ جَہَنَّم.(مسلم، رقم ۵۳۸۷)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سونے یا چاندی کے برتن میں پیتا ہے، وہ تو بس جہنم کی آگ کو اپنے پیٹ میں غٹ غٹ اتار رہا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے جن سے امارت کی نمایش ہوتی ہو یا وہ بڑائی مارنے، شیخی بگھارنے اور دوسروں پر رعب جمانے کا ذریعہ بنتی ہوں۔چنانچہ آپ نے سونے اور چاندی کے قیمتی برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جو شخص ان برتنوں میں کھاتا پیتا ہے، وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھرتا ہے۔ نیز آپ نے یہ بھی بتایا کہ یہ برتن دنیا میں تو ان کفار کے لیے ہیں، لیکن آخرت میں یہ مومنین کے لیے ہوں گے۔
(۷۶)
عَنِ الْبَرَّاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَہَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ وَاتِّبَاعِ الْجِنَازَۃِ وَتَشْمِیْتِ الْعَاطِسِ وَإِجَابَۃِ الدَّاعِیْ وَإِفْشَاءِ السَّلَامِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ وَنَہَانَا عَنْ خَوَاتِیْمِ الذَّہَبِ وَعَنِ الشُّرْبِ فِی الْفِضَّۃِ أَوْ قَالَ آنِیَۃِ الْفِضَّۃِ وَعَنِ الْمَیَاثِرِ وَالْقَسِّیِّ وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ وَالدِّیْبَاجِ وَالْإِسْتَبْرَقِ.(بخاری، رقم ۵۶۳۵)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے روکا ہے:آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے میں شامل ہونے، چھینک کے جواب میں ’یرحمک اللّٰہ‘ کہنے، دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنے، سلام کو پھیلانے، مظلوم کی مدد کرنے اور قسم کھانے والے کو قسم پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے، چاندی میں پینے یافرمایا چاندی کے برتنوں میں پینے سے (زین یا کجاوے پر) ریشم کا گدا استعمال کرنے سے، وہ مصری کپڑا استعمال کرنے سے جس میں ریشم کے دھاگے بھی ہوتے ہیں اور ریشم و دیبا اور استبرق استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(۷۷)
عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی الْبَرَّاءِ بْنِ عَازِبٍ فَسَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَہَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ وَاتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ وَتَشْمِیْتِ الْعَاطِسِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ أَوِ الْمُقْسِمِ وَنَصْرِ الْمَظْلُوْمِ وَإِجَابَۃِ الدَّاعِیْ وَإِفْشَاءِ السَّلَامِ وَنَہَانَا عَنْ خَوَاتِیْمَ أَوْ عَنْ تَخَتُّمٍ بِالذَّہَبِ وَعَنْ شُرْبٍ بِالْفِضَّۃِ وَعَنِ الْمَیَاثِرِ وَعَنِ الْقَسِّیِّ وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ وَالْإِسْتَبْرَقِ وَالدِّیْبَاجِ.(مسلم، رقم ۵۳۸۸)
عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَاءِ ... وَعَنِ الشُّرْبِ فِی الْفِضَّۃِ فَإِنَّہُ مَنْ شَرِبَ فِیْہَا فِی الدُّنْیَا لَمْ یَشْرَبْ فِیْہَا فِی الْآخِرَۃِ. (مسلم، رقم ۵۳۹۰)
حضرت معاویہ بن سوید بن مقرن (رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ میں حضرت براء بن عازب کے پاس آیا تو میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے روکا ہے:آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے میں شامل ہونے، چھینک کے جواب میں ’یرحمک اللّٰہ‘ کہنے، قسم کو پورا کرنے یا قسم کھانے والے کو قسم پورا کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنے اور سلام کو پھیلانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے ہمیں( سونے کی) انگوٹھیوں سے یا (فرمایا:) سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے چاندی (کے برتنوں) میں پینے سے، (زین یا کجاوے پر) ریشم کا گدا استعمال کرنے سے، وہ مصری کپڑا استعمال کرنے سے جس میں ریشم کے دھاگے بھی ہوتے ہیں اور ریشم و استبرق اور دیبا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت اشعث بن ابی شعثاء سے روایت ہے کہ... آپ نے چاندی کے برتنوں میں پینے سے روکا ہے، کیونکہ جو شخص دنیا میں ان میں پیے گا، و ہ آخرت میں اِن میں نہیں پیے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو وہ سات اعمال صالحہ بجا لانے کا حکم دیا جو تواضع کا اظہار ہیں اور ان سات اعمال سے منع فرمایا جو تکبر کا اظہار ہیں۔
وہ اعمال جنھیں آپ نے بجا لانے کا حکم دیا، وہ یہ ہیں:
۱۔ بیمار کی عیادت کرنا
۲۔ جنازے میں شامل ہونا
۳۔ چھینک کے جواب میں ’یرحمک اللّٰہ‘ کہنا،
۴۔ دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنا
۵۔ سلام کو پھیلانا
۶۔ مظلوم کی مدد کرنا
۷۔ اپنی قسم کو پورا کرنا
اوروہ اعمال جن سے آپ نے روکا، وہ یہ ہیں:
۱۔ سونے کی انگوٹھیاں پہننا
۲۔ چاندی کے برتنوں میں پینا
۳۔ ریشم کا گدا استعمال کرنا
۴۔ ریشم کے دھاگوں والا کپڑا استعمال کرنا
۵۔ ریشم کا لباس پہننا
۶۔ دیبا کا لباس پہننا
۷۔ استبرق کا لباس پہننا
نیز آپ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ جو شخص دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں پیے گا، وہ آخرت میں ان میں پینے سے محروم رہے گا۔
(۷۸)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللِّحٰی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَتِہِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَہُ. (بخاری، رقم ۵۸۹۲)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، ڈاڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کترواؤ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اس موقع پر ڈاڑھی (کے بال درست کرنے کی غرض سے اس) کو مٹھی میں پکڑ کر اضافی بال کاٹ دیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بعض مشرکین نے مونچھیں بڑھا کر اور ڈاڑھی منڈھا کر بڑی متکبرانہ شکل بنائی ہوئی ہے، تو آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم اپنے چہرے کی وضع قطع میں ان مشرکین کی مخالفت کرو، اپنی مونچھیں چھوٹی اور ڈاڑھی بڑی رکھو، یہ ڈاڑھی اور مونچھیں رکھنے کی متواضع صورت ہے۔
(۷۹)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُہْرَۃٍ فِی الدُّنْیَا أَلْبَسَہُ اللّٰہُ ثَوْبَ مَذَلَّۃٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ أَلْہَبَ فِیْہِ نَارًا.(ابن ماجہ، رقم ۳۶۰۷)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کوئی لباس پہنا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گااور پھر اس میں آگ بھڑکا دے گا۔
تکبر اپنی حقیقت میں بندگی کی نفی ہے ۔ اس کا اظہار خواہ کسی صورت میں بھی ہو، یہ خدا کو سخت ناپسندہے۔ انسان خدا کا بندہ ہے، اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ اس کی زمین پر اس کا بندہ بن کر جیے۔
اظہار تکبر کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ انسان فاخرانہ لباس کے ذریعے سے دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرتا ہے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جو شخص دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کا کوئی فاخرانہ لباس پہنے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ایسا لباس پہنائے گا جو دوسروں کی نگاہ میں اس کی ذلت کا باعث ہو گا اور پھر اس لباس کے اندر آگ بھڑکا دی جائے گی تاکہ وہ اپنے جرم کا پورا پورا بدلہ پائے۔
(۸۰)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَی مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلَاءَ.(بخاری، رقم ۵۷۸۳)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا جو غرور سے اپنا تہ بند گھسیٹتے ہوئے چلتا ہو۔
(۸۱)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الَّذِیْ یَجُرُّ ثِیَابَہُ مِنَ الْخُیَلَاءِ لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.(مسلم، رقم ۵۴۵۵)
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غرور سے اپنا تہ بند گھسیٹتے ہوئے چلتا ہو، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔
(۸۲)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: إِنَّ أَحَدَ شِقَّیْ ثَوْبِیْ یَسْتَرْخِیْ إِلَّا أَنْ أَتَعَاہَدَ ذٰلِکَ مِنْہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذٰلِکَ خُیَلَاءَ.(بخاری، رقم ۳۶۶۵)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹ کر چلے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے کپڑے کی ایک طرف لٹک جایا کرتی ہے، سوائے اس کے کہ میں ہر وقت اس کا دھیان رکھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تکبر کی وجہ سے تھوڑا ہی یہ کرتے ہو۔
تکبر کے اظہار کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے لباس یا اپنے ازار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص اظہار تکبر کے لیے ایسا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اتنا ناراض ہو گا کہ وہ اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا، حالاں کہ اس دن ہر شخص خدا کی نظر کرم کا انتہائی محتاج ہو گا۔
_______________