حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کمزور انسان سے قوت ور مسلمان زیادہ بہتر اور خدا کے نزدیک پیارا ہے اور ہر ایک میں بھلائی ہے ، ہر وہ چیز جو تجھے نفع دے اس کی پوری خواہش کر اور خدا سے مدد چاہ ،اس راہ میں کمزوری نہ دکھا اور اگر تجھے اس میں کچھ تکلیف پہنچ جائے تو یوں نہ کہہ کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوتا ، بلکہ یہ کہہ اللہ نے مقدر کر دیا تھا اور جو چاہا اس نے کیا کیونکہ یہ اگر اور مگر شیطان کا کاروبار کھولتا ہے۔‘‘
یہ حدیث ان تمام مسائل کی شرح کرتی ہے جن کو اسلام کی اصطلاح میں تقدیر ، توکل ، صبر اور شکر سے ادا کیا جاتا ہے ۔یہ چاروں تعلیمات اسی لیے ہیں کہ مسلمانوں میں حوصلہ مندی ، پرامیدی، استقلال اور ثبات قدم پیدا ہو۔ مسلمان وہ ہے جو کسی بڑے کام کے کرنے کا عزم کرے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کوپا تکمیل تک لے جائے اور اگر اس میں کامیاب ہو جائے تو عجز و انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھک جائے اور فخر و غرور کو پاس بھی نہ آنے دے ۔ اور یہ سمجھے کے یہ اسی کے فضل و کرم سے ہوا ہے ۔
اور اگر ناکامی ہو جائے تو یاس و ناامیدی کے بجائے اپنے رب پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے ثابت قدمی اور حوصلے کے ساتھ اسے تقدیر سمجھتے ہوئے قبول کر لے یہی بندۂ مومن کا رویہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے ۔
لیکن آج کے نفسا نفسی کے دور میں مسلمان اپنے رب کی تعلیمات کو بھول کر اور اپنے رب پر بھروسہ چھوڑ کر اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں انسان اللہ پر بھروسے کے بجائے انسانوں پر بھروسہ کرتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی کتا ب اور نبی ﷺ کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو حجت ماننے کے بجائے اپنے مسلک کے بزرگوں کی باتوں کو حجت مان کر ان پر عمل کیا ۔ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر بھروسہ چھوڑ کر ان لوگوں پر بھروسہ کیا جو اللہ تبارک کے خود محتاج ہے۔
_______________