HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

دمشق میں پہلا دن

ڈاکٹر زاہد منیر عامر

(جامع اموی، مزار حضرت یحییٰ، راس الحسین اور مرقد صلاح الدین ایوبی)


صبح ساڑھے تین بجے آنکھ کھلی چار بجے گاڑی کو آنا تھا جو نہ آئی ۔جامعہ اردنیہ میں میرے میزبان ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب نے کہا تھا کہ اگر ساڑھے چار تک گاڑی نہ آئی تو آپ مجھے فون کر لیجیے گا بار بار فون ملانے کی کوشش بالآخر کامیابی ہوگئی ڈاکٹر صاحب نے وعدہ خلافی کرنے والوں پر بے دریغ لعنت بھیجی اور کہا میں پانچ دس منٹ میں آتا ہوں۔پونے پانچ تک وہ میرے ہوٹل پہنچے اور ہم عمان کی ویران سڑکوں پر رواں دواں ہوگئے ۔اکا دکا گاڑیاں، اشارے روشن، پہاڑوں ،درختوں اور نئی طرز کی عمارتوں کے جلو میں ہم ایرپورٹ کی سمت بڑھ رہے تھے۔ راستے میں بیرونی ممالک میں قائم اردو چیرز کے مسائل موضوعِ سخن رہے ۔ساڑھے پانچ بجے ہم عمان کے ملکہ عالیہ ایر پورٹ پر تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے مغادرون یعنی ڈیپارچرز کے دروازے میں ڈالا اور رخصت ہو گئے۔ اندر ایک عجیب خموشی کی کیفیت تھی کوئی چہل پہل نہیں تھی میں نے خیال کیا شاید صبح کے اس پہر کے باعث ایسا ہے لیکن میں داخل ہو کر آگے بڑھ رہا تھا کہ ایر پورٹ کے ایک کارندے نے میری منزل اور ایر لائن دریافت کی۔ جواب ملنے پر بتایا کہ آپ کا ٹرمینل نمبر ایک ہے۔ جلد ہی باہر نکلا ڈاکٹر صاحب گاڑی اور سگریٹ سٹارٹ کر چکے تھے۔ شکر ہے انھوں نے میرا اشارہ دیکھ لیا چنانچہ ہم پیدل ملکہ عالیہ ایر پورٹ کے نئے ٹرمینل نمبرایک کی سمت بڑھے۔میں ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب سے رخصت ہو کر اندر داخل ہوا۔اندر ایک لمبی قطارہر کاؤنٹر پرAll Departures کے بورڈ چمک رہے تھے ۔تمام مسافر ایک قطار میں کھڑے تھے جس سے قطار زیادہ ہی لمبی ہو گئی تھی ۔مجھے مصر ایر لائن یاد آئی۔ سفرِ جاپان میں ایسی ہی گدھا گھوڑا ایک پالیسی دیکھ کر میں بد مزہ ہوا تھا۔بہ ہر حال یہاں نسبتاً صورتِ حال بہتر تھی۔مجھے اس سفر میں بچ جانے والے اردنی دیناروں کے ڈالرز لینا تھے۔ قطار کے دائیں جانب عمان کے سرکاری بنک کا صراف کاؤنٹر تھا، لیکن نہیں پہلے بورڈنگ کارڈ لینا چاہیے۔ اس لیے میں نے قطار چھوڑنا مناسب نہ سمجھارفتہ رفتہ تین کاؤنٹر آباد ہوگئے لیکن قطار ایک ہی رہی۔ اپنی باری آنے پر بورڈنگ کارڈ دینے والے نوجوان کو میں نے سلام کیا اس نے جواباً صباح الخیر کہاکارڈ لے کر میں صرافہ کی جانب بڑھا لیکن اس سے پہلے رد مبیعات کی اطلاع درج تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ نے قیام اردن کے زمانے میں پچاس اردنی دیناروں سے زیادہ مالیت کی خریداری کی ہے تو ایک غیر ملکی کی حیثیت سے آپ اس پر ادا کیا گیا سیلز ٹیکس بارہ فی صد کے حساب سے واپس لے سکتے ہیں۔ واپسی کی کچھ شرائط بھی لکھی تھیں میرے پاس تمام رسیدیں نہیں تھیں۔ اس لیے میں اس طرز عمل کو سراہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

فلائٹ سات بجے عمان سے دمشق کے لیے روانہ ہوئی ۔محض پینتیس منٹ کے سفر کے بعد ہم دمشق ایرپورٹ پرتھے یہاں عجیب ویرانی کی کیفیت تھی۔ کوئی چہل پہل نہیں، شور وشغب نہیں، ایک تو ہماری فلائٹ ہی منفرد تھی کہ رائل اردنیہ کے پورے جہاز میں مجھ سمیت کل تین مسافر تھے ،لیکن حیرت اس بات پر تھی کہ دمشق ایر پورٹ پر ہماری فلائٹ کے مسافروں کے علاوہ بھی کوئی مسافر نہیں تھا۔ میں جہاز سے اتر کر ایرپورٹ کی عمارت میں داخل ہی ہوا تھا کہ سامنے سفارت خانہ پاکستان دمشق کا نمائندہ پروٹوکول میرے نام کی تختی لیے موجود تھا۔ اس نے مجھ سے پاسپورٹ لیا اور امیگریشن وغیرہ کے مراحل آناً فاناً طے کروادیے ۔اندر آئے تو ایک لاؤنج میں سیاہ برقعوں میں ملبوس بہت سی خواتین فرش پر بیٹھی تھیں۔ حیرت ہوئی کہ یہ اس طرح بے یارو مددگار کیوں بیٹھی ہیں ؟ کرسیوں پر کیوں نہیں بیٹھ جاتیں؟ نگاہ دوڑائی تو لاؤنج میں کوئی کرسی نہ پائی وضع قطع سے یہ خواتین زائرین معلوم ہوتی تھیں غالباً ایرانی زائرین ۔سفارت خانے کے نمائندے نے بہ آسانی امیگریشن کے مراحل طے کروادیے اور مجھے لے کر شہر کی جانب روانہ ہوا۔

سوق حمیدیہ

دمشق کے پاکستانی سفارت خانے کا نمائندہ مجھے فندق الشموع چھوڑ کر رخصت ہوگیا میں نے سفارت خانہ دمشق کے حکام سے کہہ رکھا تھا کہ میرے قیام کے لیے جامعہ امویہ کے قریب کسی ہوٹل کاانتخاب کیا جائے۔ فندق الشموع جامعہ امویہ سے قریب واقع ہے اتنا کہ تھوڑی ہمت کی جائے تو یہاں سے پیدل بھی جامعہ امویہ جایا جا سکتا ہے ۔ میں گزشتہ شب دیر تک جاگا تھا اور عمان سے رخصتی صبح صادق کے وقت عمل میں آئی تھی۔چنانچہ طبیعت نے کچھ دیر آرام کرناچاہا لیکن اس خیال سے کہ چند روزہ قیام میں اگر اس اجلے دن کی یہ ساعتیں آرام کی نذر کردیں تو لوٹ کر نہیں آئیں گی اپنی قوتوں کو مجتمع کیا اور پیدل جامعہ امویہ کی جانب چل پڑا راستے میں صراف سے امریکی ڈالروں کو شامی پاؤنڈمیں تبدیل کرنے ، ناشتے اور ٹیلی فون سِم خریدنے کے مراحل طے کیے اور لوگوں سے راستہ پوچھتا سوق حمیدیہ پہنچ گیا۔ ایک بڑے مسقف بازار کا صدر دروازہ سامنے تھا لیکن اس میں سامنے سے داخل نہیں ہوا جا سکتا تھا۔ دائیں جانب بنی ہوئی سیڑھیوں سے اتر کر اور پھر چڑھ کربازار کے اندر داخل ہوا۔ابھی شہر پوری طرح بیدار نہیں ہوا تھا لیکن سیڑھیوں میں پڑے ایک نوجوان کی بے ہوشی کچھ اور ہی کہے دے رہی تھی وہ سر کہیں پاؤں کہیں کے عالم میں بے سدھ سورہا تھا۔ قدموں میں وزن کرنے والی مشین رکھی تھی لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور اسے لوگوں سے یا لوگوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔مجھے مینار پاکستان لاہورکے ارد گرد واقع پارکوں اور بھاٹی گیٹ کے علاقے میں نیند سے شکست کھائے لوگوں کی بے چارگی اوربے بسی یاد آگئی ۔بازار میں داخل ہوا تو پتلون قمیص اور واسکٹ میں ملبوس سماوار سجائے ایک نوجوان کا سامنا ہوا۔ چہرے پر خشخشی داڑھی سر پر ترکی ٹوپی کمر میں تین رخا سماوار۔وہ ایک انداز خاص سے پیالیوں کو ٹکرا کر آواز پیدا کررہا تھا تاکہ راہ گیر اس کی جانب متوجہ ہوکر اس کی چائے پی لیں میں نے اس کے خاص لباس اور وضع سے متاثر ہوکر اس کی تصویر بنانا چاہی تو اس نے یکایک اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا۔ کہنے لگا تصویر بنانے کے لیے چائے پینا ضروری ہے ۔

ناشتہ کرنے کے بعد بازار میں پھرتے، امریکی ڈالروں کے بدلے شامی پاؤنڈ حاصل کرتے ،ٹیلی فون کی سِم تلاش کرتے اور سِم کی خریداری کے لیے دکاندار کے مطالبے پورے کرتے ہوئے اتنا وقت ہوگیا کہ ظہر کی اذان سنائی دینے لگی۔ عالم عرب میں یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ نمازیں ان کے اوّلین وقت میں ادا کی جاتی ہیں اور جونہی نماز کا وقت ہوا ویسے ہی اذان کی آواز یں بلندہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اذانیں بھی ہمارے ہاں کی طرح مختلف نہیں ہوتیں یکساں طریقے سے ایک ہی بار میں سب اذانیں ہو جاتی ہیں ۔مصر میں تو سرکاری طور پر اذان ریڈیو پر ہوتی ہے اور مسجد کے موذن کے پاس ریڈیو رکھا ہوتا ہے اذان کے وقت سے کچھ قبل وہ ریڈیو چلا لیتا ہے جونہی ریڈیو پر سرکاری اذان شروع ہوتی ہے وہ ریڈیو بند کرکے مسجد کا سپیکر آن کرتا ہے اور اذان دے دیتا ہے ۔یہ عمل پورے مصر میں یکساں طور پر انجام پاتا ہے اور تمام نمازوں میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔اور مساجد میں با جماعت نماز کے اوقات کی نشان دہی کرنے والے چارٹوں کی بجاے اذان کے اوقات کے چارٹ لگے ہوتے ہیں یہ طے ہے کہ ہر نماز اذان کے دس منٹ بعد ہوگی سوائے فجر کے جس میں اذان اور جماعت کادرمیانی وقفہ آدھ گھنٹے کے بقدر ہوتا ہے۔سفر دوبئی میں معلوم ہوا کہ وہاں ایک ہی اذان ریلے سسٹم سے تمام مساجد میں نشر ہوتی ہے ،بہ ہر حال یہ ملک شام کی پہلی اذان تھی جو میری سماعتوں تک پہنچی :

 

ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز

وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار

لیکن مصر سے آنے والے مسافر کاالمیہ وہی تھا جس کی نشان دہی اقبال مرحوم کر چکے تھے:

 

سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے

دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہء سیماب

اذان کی آواز سنتے ہی مسجد کی جستجو ہوئی ۔خواہش یہ تھی کہ نماز ظہر، مسجد اموی ہی میں پہنچ کر ادا کی جائے لیکن دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اذان اور نماز میں وقفہ مختصراور یہاں سے مسجد اموی تک فاصلہ زیادہ ہے جس کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکے گا چنانچہ قریب ترین مسجدتلاش کی گئی سوق حمیدیہ کی بغلی گلیوں میں گھومتے گھومتے میں جلد ہی ایک مسجد میں پہنچ گیا آخر یہ دمشق تھا اور میں سوق حمیدیہ میں پھر رہا تھا یہاں کا ہر ذرہ ہی تاریخ ہے نماز کے بعد دیکھا کہ میں جس مسجد میں پہنچا ہوں اس کا نام جامع شمسی احمد باشا ہے اور اس کی تجدید دائرۃ الاوقاف الاسلامیہ نے ۱۳۶۳ھ میں کی ہے۔

نماز کے بعد ایک بار پھر بازار میں داخل ہونا تھا ۔دونوں جانب دعوت نظارہ دیتی دکانوں سے گزر کر میں جامع اموی کی سمت بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ بازار ختم ہوایعنی مسقف بازار ختم ہوا ورنہ تو یہاں ہر جانب بازار ہی بازار ہے۔ میں ایک ایسے منطقے میں جا پہنچا جہاں کچھ کھنڈرات کے سے آثار دکھائی دینے لگے جن کے نیچے دکانیں آراستہ تھیں۔بہت سے محرابی دروازے لیکن کوئی چھت نہیں ،کو ئی عمارت نہیں دکاندارآتے جاتے ملکی اورغیر ملکی لوگ، چھوٹی چھوٹی دکانیں جن پر دھوپ سے بچنے کے لیے چھولداریاں ڈالی ہوئیں، دکانوں پر بکنے والے چھوٹے چھوٹے ہدایا جن میں سے زیادہ کا تعلق مذہبی جذبات سے تھا ۔میں ان بے سقف محرابوں کو دیکھنے لگا اورسوچنے لگایہاں کبھی کوئی بلندعمارت ہوگی اب جس کی باقیات ہی باقی ہیں اور ان کے نیچے بیٹھنے والوں کے لیے اس عمارت کا وجودوعدم برابر ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ میں جامعہ اموییہ پہنچ چکا ہوں اور میرے سامنے مسجد کا دروازہ ہے۔

جامع الاموی

آگے بڑھا توسامنے کی دیوار میں نصب ایک چھوٹے سے پتھر پر لکھا تھا: الجامع الاموی ،بناہ الخلیفہ الولید بن عبدالملک سنۃ ۸۶ھ /۷۰۵ء خط عمدہ ،کاتب کا نام شھاب اور نیچے یہی عبارت فرانسیسی زبان میں بھی لکھی ہوئی ۔میں ابھی مسجد میں داخل نہیں ہوا تھا اور ہنوز بیرون مسجد واقع کھنڈروں ہی کے نیچے کھڑا تھا یہ غالباًآرمینیائی معبد کے آثار ہیں جس کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح بتایا جاتا ہے یہ عظیم اور مقدس ترین معبد سمجھا جاتا تھا جس کی زیارت کے لیے دوردراز سے لوگ آیا کرتے تھے اسی معبد کی مغربی سمت میں پہلی صدی عیسوی میں یہ حضرت یحییٰ کامقام بنا جسے بازنطینی حکمران تھیوڈوسس نے ۳۷۹ء میں باضابطہ چرچ میں تبدیل کر دیا ۔

۶۳۴ء میں جب حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں مسلمان دمشق میں داخل ہوئے تو انھوں نے اس کی مشرقی سمت کو مسجد بنایااور عیسائی عبادت گاہ سے کوئی تعرض نہ کیا ۔ میں ان کھنڈرات نمامحرابوں اور ستونوں سے گزر کر مسجد کے دروازے میں داخل ہوا تو ایک دم کشاد اور تازگی کا احساس ہوا وہی کشادگی جو مسجدوں اور اسلامی تہذیب کا خاصہ ہے ۔دروازے سے مسجد کے وسیع صحن میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب مسجد کے مرکزی ہا ل کا مدخل تھا میں نے پہلے اس ہال میں جانا مناسب سمجھا۔ دوگانہ ادا کیا یہاں ایک محفل درس ہورہی تھی میں پہنچاتو یہ اپنے اختتام کے قریب تھی چندے اس میں بیٹھا معاً محفل کا اختتام ہوا اور دعا شروع ہو گئی دعا میں عالمِ اسلام کا ذکر بھی ہوا۔شیخ نے اس ضمن میں پاکستان کا ذکر بھی کیا جس سے میرا دل خوش ہو گیا۔ مصر میں علما دعا کراتے ہوئے عالمِ اسلام کا ذکر کرتے ہیں تو پاکستان کا تذکرہ بھول جاتے ہیں بعض اوقات میں نے انھیں پاکستان یاد کرایا اور عالمِ اسلام میں اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی تو میرے کہنے پر دعا میں پاکستان کا ذکر بھی شامل ہوالیکن یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری نہ رہا، یہاں بن کہے دعا میں پاکستان کا ذکر سن کر خوشی تو ہونا ہی تھی ۔دعا کے بعد ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی ،تعارف ہوا اس نے ڈرتے ڈرتے مجھے بعض معلومات سے آگاہ کیا جن کا تعلق مسجد امویہ اور شام کے معاشرے سے تھا اورمسجد کے بعض مقامات کی نشاندہی کی ۔

صدیوں کا سفر

میں اب مسجد کے مرکزی ہال میں کھڑا صدیوں کا سفر کررہا تھا۔ آرمینیائی دَیر ،مسیحی کنیسا، اموی مسجد یہ سب مراحل چشمِ تصور پر ابھر رہے تھے تاریخ میں مذکور ہے کہ جب مسلمانوں نے کنیسا کی مشرقی سمت میں مسجد بنالی تو قریباً ستر برس تک گرجے کی گھنٹیاں اور مسجد کی اذانیں اکٹھی بلند ہوتی رہیں یہ ولید بن عبدالملک تھا جسے یہاں ایک عالی شان مسجد بنانے کا خیال آیا ایک ایسی مسجد جس کی کوئی نظیر نہ ہو وہ جیسی عالی شان مسجد بنانا چاہتا تھا اس کے لیے ضروری تھا کہ یہ تمام جگہ مسجد کی تعمیر میں صرف ہو لیکن کنیسا کی یہاں موجودگی میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے باوجود قوت و اقتدار رکھنے کے اس سلسلے میں عیسائی راہ نماؤں سے گفت و شنید کی اور انھیں اس کے بدلے میں کوئی جگہ دینے کی پیش کش کی لیکن عیسائی راہ نماؤں نے اس تجویز کو مسترد کردیاخلیفہ کے ولولوں پر اوس پڑ گئی ۔یہ مسلمانوں کا عام اخلاق و کردار تھا کہ غیر مسلموں کی رضا کے بغیر ان کی جگہ پر قوت کے زور پر تصرف نہیں کیا جاتا تھا مقصد چاہے مسجد بنانا ہی کیوں نہ ہو چنانچہ عیسائی راہ نماؤں کے انکار پر ولیدخاموش ہوگیا، اس کے بعد یہ اس کا بھائی مغیرہ تھا جس نے ایک بار پھر اس جگہ کے حصول کے لیے گفت و شنید کا دروازہ کھولا اور عیسائی ہم وطنوں کو ایک کی جگہ چار گرجے دینے کی پیش کش کی یہ فراخ دلانہ پیش کش عیسائی راہ نماؤں نے قبول کرلی۔ یوں ۷۰۵ ء میں مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوایہی سنہ ہے جو مسجد کے اس دروازے پر لکھا ہوا ہے جس سے میں مسجد میں داخل ہوا ۔ مسجد کی تعمیر، نو برس میں مکمل ہوئی اور اس کی تعمیر پردس ہزار دینار خرچ آیا۔کہتے ہیں کہ مسجد کا تعمیراتی کام اتنا تھا کہ محض اس کے حسابات کے دفتر اٹھارہ اونٹوں پر لا دے جاتے تھے ۔

اب میرے سامنے مسجد کے مین ہال میں حضرت یحییٰ کا مزار تھامیرے قدم بے ساختہ اس جانب اٹھ رہے تھے مزار کے گرد حد بندی کر کے خواتین اور مردوں کے منطقے جدا کیے گئے تھے میں اپنی حد کی جانب بڑھا اور اپنی دانست میں قدموں کی سمت جا پہنچا لیکن یہاں قدم کہاں یہاں تو اللہ کے اس جلیل القدر نبی کا محض مبارک سر دفن ہے۔ روایات کے مطابق جب مسجد اموی کی تعمیر کے لیے کھدائی ہو رہی تھی تو اب جہاں مسجد کا مرکزی ہال ہے اس میں ایک غار دریافت ہوا ابن فقیہہ الہمدانی کی روایت ہے کہ کھدائی کی نگرانی کرنے والے زید ابن واقد نے اس صورت حال سے ولید کو مطلع کیا اور ولید نے خود آکر جگہ کا معائنہ کیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس چھوٹے غار کے وسط میں ایک سنگی باسکٹ میں ایک سر مدفون ہے اور پتھر پر یہ عبارت تحریر ہے کہ ’’یہ بپتسمہ دینے والے یحییٰ کا سر ہے‘‘ ۔خلیفہ نے اسے اس کی جگہ پر ہی رہنے دیا اور اس کے اوپر اس مقام کی نشاندہی کرنے والا ایک ستون بنوا دیا، بعد کے زمانے میں یہاں ایک خشبی مرقد بنادیا گیا جس پر سنہری ہلال نے اس ستون کی جگہ لے لی ۔۱۸۹۳ء میں مسجد میں لگنے والی آگ کے بعد اس کی موجودہ عمارت تعمیر ہوئی جو ترکوں کے عہد حکومت کی یادگار ہے۔

ہائے میری نگاہوں پر بائبل کی بیان کردہ تفصیل کے مناظر ابھرنے لگے۔ دربار شاہی میں محفل رقص اپنے عروج پر تھی۔ رقاصہ نے اپنے کمال فن سے بادشاہ کو مسحور کر دیا تھا۔ رقاصہ، ملکہ کی بیٹی ہی تھی جب رقص تمام ہوا تو بادشاہ نے کمال خسروانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا سے دنیا کی کوئی بھی چیز مانگنے کی پیش کش کی۔ ناپخت رقاصہ نے اپنی ماں سے مشورہ کیا کہ اس نادر لمحے میں کیا مانگنا چاہیے؟ ماں جو اللہ کے نبی سے اس بنا پر شدیدناراض تھی کہ اس نے بادشاہ کے ساتھ اس کے ناجائز تعلق پر تنقید کی تھی اس موقع کو غنیمت سمجھتی ہے اور بیٹی سے کہتی ہے کہ بادشاہ سے یحییٰ کا سر مانگ لو حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں کی سلطنت دو ریاستوں میں تقسیم ہو گئی تھی یہودیہ اور اسرائیل یہ دونوں ریاستیں اپنی ناتدبیریوں کے باعث آئے دن معرکہ آرا رہتی تھیں۔ نوبت بہ این جا رسیدکہ یہودیہ نے اسرائیل کے خلاف ،جو انھی کے ہم مذہب بلکہ دینی بھائی تھے،دمشق کے آرامی حکمرانوں سے مدد طلب کی تھی۔ ریاست یہودیہ کے بادشاہ ہیرودکا دربار بے حیائیوں کا مرکز بن چکا تھا اور خود بادشاہ نے اپنے بھائی فلپ کی بیوی کو گھر میں ڈال لیا تھا جس پر حضرت یحییٰ تنقید کرتے تھے اور بادشاہ اور اس کی ناجائز ملکہ کو یہ تنقید بہت ناگوار گزرتی تھی چنانچہ حضرت یحییٰ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اب جب اس کی محبوبہ نے ان کے سر کا مطالبہ کردیا تو بادشاہ نے یہ جاننے کے باوجود کہ یحییٰ نبی ہیں یا کم از کم قوم کے ایک نہایت نیک اور پارسا شخص ہیں ان کا سر قلم کر نے کا حکم دے دیا اور بائبل کی کتاب مرقس (باب ۷۶ /۱۷۔۱۹)کے مطابق اپنی معشوقہ کی فرمایش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا۔ یہ المناک روایت متی اور لوقا میں بھی مذکور ہے۔

صحرا میں اذان

یہ تفصیل بائبل میں ہے قرآن کریم نے حضرت یحییٰ کی غیر معمولی ولادت ان کی پارسائی اور اللہ کا پیغام مضبوطی سے تھامنے کی صفات کا ذکر کیا ہے :اے یحییٰ میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لے اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرمادی اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی وہ پرہیز گار شخص تھا اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والا تھا وہ سرکش اور گنہگار نہ تھا ۔اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس دن و ہ زندہ کرکے اٹھایا جائے۔ (مریم۱۲۔۱۵)

قرآن حکیم نے ان کی صفات بیان کرتے ہوئے ’حنانًا‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب شفقت اور مہربانی بتایا جاتا ہے شارحین اس سے مراد لیتے ہیں کہ ہم نے اسے والدین اور اقربا پر شفقت اور مہربانی کا جذبہ اور نفس کی آلایشوں اور گناہوں سے پاکیزگی عطا کی تھی ۔یوحنا کے مطابق حضرت یحییٰ کہتے تھے ’’میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو۔‘‘(۱:۲۳)ان کی تعلیم وہی تھی جو تمام انبیاے کرام کی تعلیم تھی وہ نماز روزے کی تلقین کرتے ،لوگوں کو توبہ کی راہ کی طرف لاتے اور گناہوں سے توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے یعنی توبہ کرواکر غسل کرواتے تاکہ روح اور جسم دونوں کی آلودگی دور ہوجائے اسی لیے ان کا نام یوحنّا بپتسمہ دینے والا مشہور ہوگیا تھا John the Baptist متی میں حضرت عیسیٰ ؑ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں۔ (۱۱:۱۱)قرآن کریم نے انھیں حضرت عیسیؑ ٰ کی نبوت کی اطلاع دینے والا (اللہ کے کلمے کی تصدیق کرنے والا)سردار ،ضابط نفس اور نیک لوگوں میں سے نبی قرار دیا ہے۔ (آل عمران ۳۹)یہاں ان کے لیے حَصُوراً کا لفظ لایا گیا ہے جس کے معانی گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب بھی نہ پھٹکنے والاہیں ۔ان میں اور حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ یوں بھی وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے قریبی رشتہ دار تھے بعض روایات کے مطابق خالہ زاد تھے اور دونوں کا زمانہ بھی ایک ہی ہے۔ لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحییٰ،حضرت عیسیٰ ؑ سے چھ ماہ بڑے تھے ان کے ساتھ بنی اسرائیل کا سلوک بھی حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے ملتا جلتا تھا۔ ان کے سفاکانہ قتل کا واقعہ بھی حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعہ صلیب سے دو ڈھائی سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ یہی نہیں بنی اسرائیل نے حضرت زکریا ؑ کے ساتھ بھی تو وہی سلوک کیا تھا جو خود حضرت یحییٰ کے ساتھ کیا گیا۔فتح بیت المقدس کے بعد جب بخت نصر ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا تو اس نے قربان گاہ کے سامنے تیر کا ایک نشان دیکھا اس نے یہودیوں سے پوچھا کہ یہ نشان کیسا ہے تو اسے بتایا گیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم نے زکریا نبی کو قتل کیا تھا وہ ہمیں ہماری برائیوں پر ملامت کیا کرتا تھا جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آ گئے تو یہاں ہم نے اسے مار ڈالا تھا۔(تواریخ نیز تلمود)حضرت زکریا کی ملامت بھی انھی اخلاقی برائیوں پر تھی جن پر حضرت یحییٰ تنقید کرتے تھے یہودیہ کی ریاست میں کھلم کھلاہونے والی بت پرستی اور بدکاریوں پران کی صدائے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے انھیں یہودیہ کے بادشاہ یو آس کے حکم سے عین ہیکل سلیمانی میں قتل کردیا گیا تھا۔ صاحب قصص القرآن نے تاریخ ابن کثیر کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب یہود نے حضرت زکریاؑ کے قتل کا ارادہ کیاتو وہ جان بچانے کے لیے بھاگے ان کے سامنے ایک درخت آگیااور وہ اس کے شگاف میں گھس گئے ظالم یہود نے اس درخت پر آرہ چلا کر درخت اور حضرت زکریا ؑ دونوں کے دو ٹکڑے کردیے (۲/۲۷۳) اقبال نے انبیا کے ساتھ بنی اسرائیل کے اسی سلوک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’’زہر ہا در بادۂ گلفام اوست ‘‘ کا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ع

 

ارّہ و کِرم و صلیب انعام اوست

بد چلن اوربدقسمت قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ جب انھیں ان کے کردار کا آئینہ دکھایا جاتا ہے تو وہ برا مان جاتے ہیں اور آئینہ دکھانے والوں ہی پر الزامات لگا کر انھیں گردن زدنی قرار دیاجاتا ہے جیسے یرمیاہ نبی نے اپنی قوم کی بد اعمالیوں پر متنبہ کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ اگر تم نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو خداتمھیں دوسری قوموں کے ہاتھوں پامال کردے گا اس پر بجائے اپنے انحطاط کی جانب متوجہ ہونے اور اپنی کمیوں کو دور کرنے کے قوم نے ان پر دشمنوں سے ملے ہوئے ہونے اوراپنی قوم کے ساتھ غداری کے الزامات لگاکر حوالہ ء زنداں کردیا تھا۔

عالم اسلام کی پہلی مسجد

آج جو حصے مساجدکا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں ان کا آغاز مسجد امویہ سے ہوا تھامثلاً محراب ،وضو کے لیے الگ جگہ ،مینار،گنبدوغیرہ اس سے قبل مساجد بالکل سادہ ہوتی تھیں جن میں ان تعمیرات کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ یوں بھی ۸۶ ہجری تک کتنی مساجد تھیں۔دنیا کے بت کدوں میں پہلے خانہ خدا کے بعدبطور مسجد عالم اسلام کی پہلی مسجد تو مسجد قبا تھی جس کی تعمیر میں سرکاررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے اور جس کے بارے میں لَمَسجِِدُُُُُ اُسِّسَ عَلی التَقویٰ کی آیت نازل ہوئی یا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی مسجد نبوی۔ مسجد نبوی کی تعمیراتی سادگی کا عالم یہ تھا کہ اس کی دیواریں کچی اینٹوں کی ،ستون کھجور کے تنوں کے اور چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی لمبائی ستر ہاتھ اور چوڑائی ساٹھ ہاتھ تھی ۔لیکن اس مسجد کی عظمت کے کیا کہنے جس کی تعمیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک ہوئے بنیادوں کے لیے پتھر اور دیواروں کے لیے اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے رہے جس میں آپ آرام فرما ہیں ،جو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ، جس میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے بقدر ہے ۔آج کی مرمریں سلیں جتنی بھی زیبا ہوں ان عظمتوں کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔

مسجد اموی کا امتیاز اس کی مذکورہ اوّلیات، شان و شوکت، فن تعمیر کے حسن اوروسعت کے باعث ہے اس کا گنبد عجیب شان رکھتا ہے اور تمام دمشق سے دکھائی دیتا ہے اسے غور سے دیکھیں تو شاہین کی شباہت ابھرتی ہے شاید اسی لیے اس کا نام قبۃ النسرہے یعنی شاہینی گنبد۔ یہ اس عمارت میں میناروں کے بعد سب سے نمایاں تعمیر ہے لیکن بنانے والوں نے اسے ایسا وقار عطا کردیا ہے کہ میناروں کی بلندی بھی اس کی شان کو کم نہیں کرسکی ہے ۔یہ چھتیس میٹر کی اونچائی پر چار ستونوں پر قائم ایک ہشت پہلو تعمیر ہے جس کے اطراف میں ہر پہلو پر دو دریچے بنائے گئے ہیں اور ان دو دریچوں کے اوپر گنبد کی سطح میں بھی ایک ایک دریچہ رکھا گیا ہے۔

دلہن کا مینار

مسجد اموی کا عزم کرتے ہو ئے منارۃ المسیح دیکھنے کا خیال بھی تھاکہ مشہور روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول جامعہ اموی کے سفید مینار پر ہوگا(لیکن یہ روایت درست نہیں) اسی روایت کے زیر اثر مسجد کے مشرقی مینار کو منارۃالمسیح کہا جاتا ہے۔اس مینار کی اصل تعمیر تو اموی دور ہی کی تھی لیکن مرور زمانہ سے اس میں تجدیدکا عمل ہوتا رہا ہے۔ ۱۴۷۹ء میں بھڑک اٹھنے والی آگ کے بعد اسے۱۴۸۸ء میں مملوک سلطان قاتیبائی کے دور میں تعمیر کیا گیا۱۷۵۹ء میں آنے والے زلزلے نے اس مینار کو ایک بار پھر نقصان پہنچایا۔موجودہ صورت میں اس کا زیریں حصہ اسی جگہ پر ہے جہاں اموی دورمیں تھا لیکن اس کی تعمیر مملوک دور کی ہے جبکہ بالائی حصہ عثمانی دور کی تعمیرپرمشتمل ہے۔ اس کے علاوہ دو مینار اور ہیں ۔ مغرب کی جانب واقع مینار کا ڈیزائن بالکل ہی مختلف ہے اس کی تعمیر بھی بہت بعد کی یعنی ۱۴۸۸ء کی ہے اور اس کا نقشہ بھی زمانہ بعد کے میناروں کی طرح مدوّرہے۔

ایک مینار مسجد کی شمالی دیوارکے وسط میں مسجد کے گنبد کے مقابل ہے جسے مئذنۃ العروس کہا جاتا ہے یہ بھی ولید ہی کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ اس کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے شام میں ایک دلچسپ کہانی سنائی جاتی ہے۔غالباً مملوک عہد میں اس مینار کی تجدید کی ضرورت پیش آئی۔ اس زمانے میں مینار کی چھت کو موسمی اثرات سے بچانے کے لیے اس پر ایک خاص دھات لگائی جاتی تھی۔ اتفاق سے ان دنوں یہ دھات میسر نہیں تھی ۔بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو بھی یہ دھات مہیا کردے گا۔ اسے اس دھات کے وزن کے بقدر سونا انعام دیا جائے گا۔ ایک بڑے مال دار تاجرکی بیٹی نے یہ دھات مہیا کردی جس پر اسے وعدے کے مطابق سونا دینے کا اعلان کیا گیا۔ صاحبزادی نے بادشاہ کے ایفائے عہد ہی کو کافی جانا اور اپنی عطا کردہ دھات کا کوئی بدل وصول نہیں کیا، اس سے بادشاہ متاثر ہوا یا شہزادی یا دونوں، یہ تومعلوم نہیں تاہم اس مینار کی تعمیر نوکانتیجہ یہ نکلاکہ صاحبزادی بادشاہ کی عروس یعنی ملکہ بن گئی بس اس وقت سے یہ مینار مئذنۃ العروس کہلانے لگا۔یہی مینار ہے جس پر سے دمشق پر منگولوں کے حملے کا اعلان کیا گیا تھا۔

شمع کی روشنی، وضو کا پانی اور شیشۂ ساعت

صحنِ مسجد میں تین عمارتیں زائر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہیں،یہ تینوں عمارتیں مدوّر ہیں۔ میں باب البرید سے مسجد میں داخل ہوا تھا داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ ستونوں پر استوار کیا گیا اور اونچا گنبد دکھائی دیا۔ یا اللہ عین صحن مسجد میں یہ گنبد کیساہے؟ گنبد تو مساجد کے مرکزی ہال پر ہوا کرتے ہیں مسجد کا صحن اور یہ آٹھ ستونوں پر استوار ایک خوبصورت تعمیر ستونوں پر ہشت پہلو عمارت اور اس عمارت پر گنبد عمارت پر نہایت دیدہ زیب نقاشی ہر جانب پیلی زمین پر سبزبوٹے اور پھول ۔اونچائی تین انسانوں کے بقدر زینے کے بغیر چڑھنا ممکن نہیں۔ عمارت میں ایک جانب دروازہ جو اب زمانوں سے کھلا پڑا ہے ۔پتہ چلا کہ یہ عمارت خزانہ رکھنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی اور اسی رعایت سے اس کا نام قبۃ الخزنہ ہے۔ موجودہ تعمیر ۷۸۵ء کی ہے۔صحن مسجد کے وسط میں ایک اور گنبد بھی ہے لیکن یہ گنبد ایک چوکور تعمیر کے اوپر واقع ہے ۔چار جانب دودروازوں کی حامل ایک عمارت اوپر جنگلے کی حامل چھت اور اس چھت پر ایک اور چھت ڈال کر اس پر گنبد بنایا گیا ہے یہ سب کچھ خوش ذوقی کا مظہر ہے اس بنا کے نیچے فوارہ اور فوارے کے گرد وضو کے لیے ٹونٹیاں ہیں، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ جامع اموی، پہلی مسجد ہے جس میں وضو کے لیے جگہ مخصوص کی گئی تھی یہ مکان اسی کا مظہر ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں وضو کی جگہ صحن مسجد کے بیچ میں بنائی گئی تھی جو اب سرکتے سرکتے مساجد سے باہر نکل آئی ہے ۔بعض پرانی مساجد میں اب تک وضو کی جگہ وسط صحن ہی میں دیکھی جاسکتی ہے جیسے مصر کی خوبصورت ترین مسجد، مسجد محمد علی پاشا کے بھی صحن ہی میں وضو کی جگہ موجود ہے اسی طرح اسکندریہ میں امام بوصیری کا مزار جس مسجد میں واقع ہے اس میں بھی یہ تعمیر صحن مسجد ہی میں ہے۔

صحن مسجد کا تیسرا گنبد قبۃ الساعات یا کلاک ٹاور یا قبۃ زین العابدین ہے اس کے نیچے مسجد کی گھڑی رکھی جاتی تھی اور اس کی حفاظت و آرایش کے لیے یہ گنبدتعمیر کیا گیا۔گنبد آٹھ ستونوں پر استوار ہے ۔ یہاں کبھی کلاک بھی تھا اب محض یہ گنبد موجود ہے اور اس کے نیچے کی جگہ خالی ہے جہاں اب پرندے سایہ پاتے ہیں۔ شیشہ ساعت تو سنا بلکہ دیکھا تھا گنبد ساعت پہلی بار یہیں دیکھا۔ صحنِ میں ایک اور قابل توجہ تعمیر ایک ٹاور عمود الشموع ہے جس پر کاپر کا خوبصورت جنگلا ہے اس میں شمعیں لگائی جاتی تھیں تاکہ صحن مسجد رات کو بھی روشن رہے۔

راس الحسین

میں جب قاہرہ آیا تو یہ سن کر حیران رہ گیا کہ یہاں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک سر کا مدفن ہے ۔زیارت کو پہنچا۔ یہ مدفن ایک بڑی مسجد میں واقع ہے جسے جامع حسین کہا جاتا ہے اور یہ مسجد جامع الازہر کے مقابل واقع ہے اس منطقے کو ’حسین ‘کہا جاتا ہے اور اس کی بغل ہی میں قاہرہ کا مشہور روایتی بازار خان الخلیلی واقع ہے ۔جہاں ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ قاہرہ کے دوستوں سے پوچھا تو انھوں نے بڑی تحدی کے ساتھ کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ یہاں حضرت حسین کا سر مبارک مدفون ہے ۔آج جب جامع اموی پہنچا تو یہاں بھی مشہد حسین موجود پایا۔ صحنِ مسجد میں مرکزی ہال کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو بائیں جانب کے کمروں میں یہ مرقد موجود ہے۔ تعمیر دھات کی ہے اور نہایت زیبا ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قرآنی آیات اور طویل عربی عبارات لکھی ہیں کھڑکی پر لکھا ہے ’من قتل مظلوماً‘ مشہد کے اطراف میں اشعار لکھے ہیں یوں کہ ہر بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہے اور آخر ی سطرمیں یا سید الشہدا لکھا ہے مثلاً:

 

ھل مومن ینسلی   اھل کہذی جلی

راس الحسین سلی  علی السنان تجلی

لالاوہ کذکا ء   والہفتا یا حسینا

یا سید الشہدا

یہیں محراب امام زین العابدین بھی ہے دیوار میں ایک محراب بنی ہوئی ہے زائرین آتے ہیں اورکچھ دیرکے لیے اس میں اپنا سر ڈالتے ہیں۔دمشق ہی میں راس الحسین کاایک اور مقام باب الصغیر میں بھی ہے۔ راقم نے وہاں بھی حاضری دی یہاں پتھر کا بنا ہوا ایک بہت بڑا پیالہ بھی رکھا ہے جس کے بارے میں مختلف حکایتیں مشہور ہیں واللہ اعلم اس کی تعمیر بھی جامع اموی کے اس مشہد کی مانند ہے یہاں زائرین کا بے پناہ ہجوم تھا اور مشہد کا دروازہ بند تھا دروازہ کھلنے کا وقت قریب تھا۔ اس لیے ہجوم لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جاتا تھا جونہی دروازہ کھلا ہجوم دھکم پیل کرتا ہوا بے محابا اندر داخل ہوااور آہ وزاری کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ مزار کی عمارت کو چھونے کے لیے بیتاب تھے کچھ لوگ یہاں نفل پڑھنا چاہتے تھے دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا لوگ ایک دوسرے کے اوپر سے گزرتے ہوئے اپنی اپنی مرادیں مانگ رہے تھے کچھ دیر میں مجھے بھی داخلے کا موقع مل گیاعمارت ویسی ہی جمیل جیسی کہ جامع اموی میں مشہد کی عمارت ہے غالباًجامع اموی میں راس الحسین رکھا گیا اوریہاں تدفین کی گئی۔اب راس الحسین کہاں مدفون ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ چھت پر ایک گنبد اور گنبد کے اندرون میں طویل عبارات ،خطاطی نہایت عمدہ ۔مزار کے اطراف میں قرآنی آیات اور اشعاراور یا سیدالشہدا کے کلمات لکھے ہوئے ۔ایک بڑا فریم جس میں حضرت علی کے فرمودات درج زائرین ان سب چیزوں سے والہانہ عقیدت کا اظہار کررہے تھے (باب صغیر کے دیگر مزارات کی تفصیل آگے آئے گی) لیکن اطمینان نہیں ہوا تاریخی مصادر دیکھے تو ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ میں راس الحسین کی نسبت مصریوں کے دعوے کی واضح تردیدموجود پائی۔

صحن میں واپس آیا تو ایک بہت بڑا چھکڑا سامنے تھا ہمارے ہاں جو تانگے چلتے ہیں ان کے پہیوں جتنے چار پہیے اور لمبا ڈھانچہ جس سے آثار قدامت کے ہویدا موٹی لکڑی کے بنے ہوئے اس سٹرکچر پر کوئی عبارت نہیں تھی جس سے معلوم ہو کہ یہ کیا ہے دریافت کرنے پراتنا معلوم ہوا کہ یہ ترکوں کی یادگار ہے اور بس۔اس وقت تو معلوم نہیں تھا لیکن اسی سفر میں معلوم ہوا کہ یہاں وہ کمرہ بھی ہے جس میں بیٹھ کر امام غزالی نے احیاء علوم لکھی تھی اثنائے سفر میں اس بات کی تحقیق کا تو وقت نہیں تھاتاہم، یہ کمرہ دیکھنے کے لیے دوبارہ مسجد اموی آیا۔یہ کمرہ باب البرید کے بائیں جانب واقع ہے میں نے شوق سے اسے دیکھادوگانہ ادا کیااور اس کی تصویر بنائی۔

مسجد کے مشرف سے ملاقات

مسجد کے مقامات دیکھ چکا تو مسجد کے دفتر کی جانب رخ کیا یہ ایک لمبا چوڑا مکتب تھا مہمان دار نے بڑھ کر استقبال کیا، تپاک سے بٹھایا۔ پاکستانی ہونے کے حوالے سے ان کے طرز عمل میں خاص احترام پیدا ہوگیا اور پھر یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ میں جامعہ الازہر قاہرہ میں پڑھاتا ہوں کچھ تعارفی گفتگو ہوئی اس کے بعد مسجد کے مشرف العام سے ملاقات ہوئی مشرف العام یعنی مسجد کے امور کا سربراہ یا ڈائریکٹر جنرل ان کا نام محمد غسان الجیرودی تھاانھوں نے اپنا کارڈ دیاکارڈ پران کے تعارف کے علاوہ مسجد اموی بلکہ اس کے صحن میں واقع خزنہ کی تصویربھی تھی اور اس کے نیچے اطیب التمنیات یعنی نیک تمنائیں بھی لکھا ہوا تھاوہ بہت تپاک سے ملے۔ آؤ بھگت کی پہلے جامعہ الازہر کے بارے میں پوچھتے رہے پھر جامعہ امویہ کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ صحنِ مسجد میں مرکزی دروازے کے اوپر اور خزنہ کے ارد گردجو نقاشی اور آرایش ہے یہ بلاشبہ بہت خوب صورت ہے لیکن یہ مساجد کے عمومی کلچر سے بالکل الگ چیز ہے کیونکہ مساجد میں پینٹنگز کا رواج نہیں رہا ہے انھوں نے کہا کہ اشجار اور پودوں کی یہ تصویریں جنت کا تخیلی تصور ابھارتی ہیں اس اعتبار سے مسلم کلچر سے ہم آہنگ ہیں ۔تاریخ سے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ مسجد کا ایک عجائب گھر بھی ہے لیکن کسی وجہ سے اس روز یہ عجائب گھر دیکھا نہیں جاسکتا تھا انھوں نے جو کچھ بتایااور اس کے بارے میں جو تعارفی کتابچہ دیا ان سے پتہ چلا کہ اس میوزیم کا افتتاح ۵ مئی ۱۹۸۹ء کو ہوااور اس میں جامع کی مختلف الواح مختلف زمانوں کے سکے جن میں ولیدبن عبدالملک بانی جامع کے عہد کا سکہ بھی شامل ہے قرآن حکیم کے نادر مخطوطات مختلف مشاہیر خطاطوں کے فن پارے جو جامعہ اموی کوہدیہ کیے گئے ،مختلف زمانوں کے ظروف، جامع میں استعمال ہونے والے انواع و اقسام کے جاے نمازوں کے نمونے (السجاد) جو بجاے خود ایک تاریخ ہیں، ساعات یعنی مختلف زمانوں میں زیر استعمال رہنے والی گھڑیاں، احادیث کی عبارتوں کی حامل سنگی اور خشبی الواح بعض قدیم دروازے اور عہدبنو امیہ سے دور بدور نویں صدی ہجری تک کی دستاویزات شامل ہیں۔

ایوبی نماند

اب میں مسجد سے باہر نکلا منزل صلاح الدین ایوبی کے مزار پر حاضری دینا تھی ۔ایک ایسا سالار جو بیک وقت فولاد اور ابریشم کی صفات اپنے اندر مجتمع رکھتا تھاجس کی فراخ حوصلگی، جرات،اعلیٰ کردار، سخاوت اور دلیری کا اعتراف اپنوں ہی نے نہیں غیروں نے بھی کیا ہے۔ جس کے ہاتھوں اکانوے سال بعد مسجد اقصیٰ مسلمانوں کو واپس ملی اور آج ایک بار پھر کسی صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہی ہے۔۔۔نورالدین زنگی کا لائق جانشین ،جس نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز پر حکومت کی جس نے عالمِ اسلام کی بے حس حکومتوں کے عدم تعاون کے باوجود ایسی کامیابیاں حاصل کیں کہ تاریخ کے اوراق ان سے جگمگا رہے ہیں ۔ دشمن افواج کی عورت کا بچہ گم ہوجانے پر بچوں کی طرح رونے والا، دشمن کا گھوڑا مرجانے پر مقابلے کے لیے اپنی جانب سے گھوڑا بھیجنے والادشمنوں پر فتح پانے کے بعد غریب عیسائیوں کا زرِ فدیہ اپنی جیب سے دے کر انھیں امان دے دینے والا اکانوے سال کے بعد القدس کو آزاد کروانے کے بعد بھی عیسائیوں کو اس کی زیارت سے نہ روکنے والا بلکہ ہر ممکن سہولتیں بہم پہنچانے والا صلاح الدین ایوبی میں اس کے مقام کے بالکل قریب پہنچ چکا تھایہ عظیم انسان اورتاریخ انسانی کا بے مثل سالار جامع اموی کے عقب میں واقع ایک چھوٹے سے مقبرے میں آرام کررہا ہے مسجد سے باہر نکلا تو ایک بورڈ نے مقبرے کی سمت راہ نمائی کی جس پر لکھا تھا :المدرسۃ العزیزیہ و مدفن صلاح الدین ایوبی بناھما ابنہ العزیزعثمان سنۃ ۵۹۲ھ / ۱۱۹۵ء یہ بورڈ اس دیوار پر نصب تھا جس دیوار میں مسجد کا مشرقی مینار واقع ہے ۔ مینار زیرِ مرمت تھااور اس کے گردا گرد لوہے کے جنگلے لگے ہوئے تھے۔ آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے محافظۃ دمشق کے مدیریۃ ھندسۃ المرور والنقل کی جانب سے رکاوٹی پٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔لیکن مزار کی جانب کوئی رکاوٹ نہیں تھی ۔ اسی دیوار پر ذرا آگے معھد العلوم الشریعۃ کا بورڈ بھی لگا تھا، ذرا آگے بڑھا تو بائیں جانب ایک چھوٹی سی عمارت کے چہرے پرلکھا تھا : مقام صلاح الدین الایوبی المتوفی سنۃ ۵۸۹ھ گویا مزار وفات سے تین سال بعد تعمیر ہوا۔دائیں جانب الرجا ترک الحذا ء خارجاً کی ہدایت تحریر تھی۔ایک درمیانے سائز کا سہ پہلو مدخل اطراف میں پھولوں بھرے گملے، محرابی کھڑکی کے اوپر مقام کا بورڈ اس سادہ سے مدخل میں داخل ہوا تو ایک چھوٹی سی میز بچھائے مقبرے کا محافظ بیٹھا تھا میز پر کچھ تعارفی کتابچے اور بینر رکھے تھے۔

میں نے کتابچوں پر ایک نظر ڈالی اور اپنے تجرباتِ مصر کی روشنی میں سوچنے لگا کہ یہاں بھی پیسے طلب کیے جائیں گے اور پیسوں کے بغیر آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا لیکن یہ دمشق تھا، دربان مہذب شخص تھااس نے احترام کے ساتھ اندر جانے کے لیے راہ نمائی کی بلکہ جب میں نے عمارت کی تصویر بنانا چاہی تو اس میں بھی میرا ساتھ دیا۔ اس وقت مقبرے میں کوئی دوسرا نہیں تھا اندر گیا تو سامنے دوبڑی قبروں کو موجود پایا ایک بالکل سفید اور دوسری سراسر سبز غلاف میں ملفوف۔ میں نے دربان سے پوچھا کہ یہ دوسری قبر کس کی ہے اس نے بتایا کہ دونوں صلاح الدین ایوبی کی ہیں ارے ایک زندہ انسان دو کرسیوں پر بیٹھ نہیں سکتا دو چارپائیوں پر لیٹ نہیں سکتا تو مرنے کے بعد دو قبروں میں کیسے سما سکتا ہے؟ میں پریشان ہوا اس نے میری الجھن رفع کرتے ہوئے بتایاکہ سفید پتھر والا تعویذ صلاح الدین کے معاصر عیسائی حکمران نے تحفے کے طور پر بھیجا تھا جسے یہاں رکھ دیا گیا ہے صلاح الدین اس دوسرے تعویذ کے نیچے آرام فرما ہیں۔اس دوسرے تعویذ پر ایک بورڈ لکھ کر رکھا گیا تھا۔ ھذا قبرالقائد صلاح الدین الایوبی سنۃ۵۳۲ھ ۔۵۸۹ھ ۔ سبز غلاف کے اوپر اور اطراف میں آیۃ الکرسی اور دوسری قرآنی آیات درج تھیں۔ یہ دونوں تعویذ ایک چھوٹے کمرے میں تھے جس کی دھاری دار دیواروں میں دریچے اور طاقچے بنے ہوئے تھے روشنیاں تھیں خاموشی تھی اور احترام تھا میں تعویذ کے قریب بیٹھ گیا اور بیتے زمانوں کا تصور کرنے لگا۔ تاریخ کی خوفناک ترین جنگ حطین،خلیفہ بغداد کا عدم تعاون، صلیبی جنگیں صلاح الدین کی بیماری اور بیماری کے باوصف شہ سواری انگلستان کے بادشاہ رچرڈ شیردل فرانس کے فلپ آگسٹس جرمنی کے فریڈرک باربروسا سے بیک وقت مقابلہ اور کامیابیوں کا ایک سلسلہ۔ یا اللہ یہ ایک انسان تھا یا عزم و ہمت کا کوئی پہاڑ، پورا یورپ متحد ہو کر جس کے مقابل آگیا لیکن اس کے سامنے یہ متحدہ افواج ٹھہر نہ سکیں اور جس نے مدینہ پر حملے کا ناپاک ارادہ کرنے والے رینالڈ کی فوج کو نہ صرف شکست دی بلکہ رینالڈ کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا لیکن پہلے اسے اسلام کے دامن امن و عافیت میں آنے کی دعوت دی، جس کے مقابلے پر آنے والا فرانس کا بادشاہ دریا میں ڈوب مرا، وہ صلاح الدین ایوبی۔ آج میں اس کے سرھانے بیٹھا تھا اس نے بادشاہ ہوتے ہوئے بھی عوام سے محبت کی، یہی وجہ تھی کہ اس کی وفات کو ابن خلکان جیسے مورخ نے خلفائے راشدین کی وفات کے بعد عالمِ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیا۔ مجھے اپنے ساتھ صلاح الدین کے تعلق کی ایک اور جہت محسوس ہوتی ہے وہ فاتح مصر بھی تو تھااس کے عہد میں جامعہ الازہر کو اس کی موجودہ شناخت ملی ۵۶۴ھ میں جب وہ اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ مصر میں داخل ہوا تویہاں فاطمیوں کی حکومت تھی جنھوں نے بڑے بڑے خزانے اور محلات بنا رکھے تھے۔ صلاح الدین نے ان خزانوں کو بیت المال میں جمع کروادیا اور محلات کی جگہ شفاخانے، مدرسے اور ذہنی مریضوں کی علاج گاہیں قائم کردیں اس کے ایسے ہی اقدامات نے اسے عوام میں محبوبیت عطا کردی تھی۔ میں قاہرہ میں اپنے گھر کی کھڑیوں سے جبل مقطم پر واقع صلاح الدین کا قلعہ روز دیکھتا ہوں۔ آج اس کی لحد پر حاضر ہوا تو اس کی محبوبیت کے دوسرے مناظر بھی نگاہوں پر ابھر آئے اور اقبال کی آواز سنائی دینے لگی:

 

در مسلمان شان محبوبی نماند

خالد و فاروق و ایوبی نماند


مصنف کا تعارف: پروفیسر و صدر نشین مسند ظفر علی خان ،ادارہ علوم ابلاغیات پنجاب یونی ورسٹی ،لاہور،پاکستان

_________________

B