بلال کے والد کا نام رباح (یاابو رباح)تھا ۔وہ زمانۂ جاہلیت کی کسی جنگ میں حبشہ سے قید ہو کر آئے تھے۔ بلال کی ولادت مکہ (یا سراۃ) میں ہوئی۔ ان کی والدہ حمامہ بھی جنگی قیدی تھیں،ان کا تعلق بنو جمح سے تھا ۔ ان کی نسبت سے بلال کو بلال بن حمامہ بھی کہا جاتا ہے۔ بلال کی پرورش بنوجمح ہی میں ہوئی۔
بلال کا شمار السابقون الاولون (سبقت کرنے والے ،اسلام لانے میں اول ۔توبہ: ۱۰۰) میں ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر کے بعد وہ دوسرے بالغ مرد تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا۔اپنا اسلام ظاہر کرنے میں بھی وہ آگے آگے تھے،ان سات نفوس قدسیہ میں سے ایک جنھوں نے ببانگ دہل مسلمان ہونے کا اعلان کیا، (۱)خود نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم، آپ کے چچا ابوطالب نے مشرکین کی ایذا رسانیوں کے خلاف آپ کا ساتھ دیا۔(۲)ابوبکر،ان کی قوم نے ان کو حفاظت میں رکھا۔(۳)بلال،(۴)خباب بن ارت یا مقداد بن اسود،(۵) صہیب،(۶)عماراور ان کی والدہ(۷) سمیہ۔آخری چاراصحاب غلام تھے، ان کا کوئی قبیلہ نہ تھاجو انھیں پناہ دیتا۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں وہ مستضعفین (نسا:۹۹)میں سے تھے یعنی وہ اہل ایمان جنھیں دبا کر رکھا گیا ہو۔ان کے آقا انھیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں ڈال دیتے۔ شام کو وہ بے حال ہو جاتے تو انھیں چھوڑتے،اپنے اپنے گھر جا کر وہ جسموں پر پانی ڈالتے تو کچھ سکون ہوتا۔ ایک شام کو ابوجہل آیا، سمیہ کوگالی گلوچ کی،برا بھلا کہا اورنیزے کی انی مار کران کی جان لے لی۔ وہ اسلام کی پہلی شہیدہوئیں۔
بلال اسلام کے کٹے دشمن امیہ بن خلف کی غلامی میں تھے۔ جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو امیہ نے ان کو سخت ایذائیں دینا شروع کر دیں۔تیز دھوپ میں جلتی ریت پر لٹادیتا اور مطالبہ کرتا، دین اسلام سے رجوع کر کے کفر و شرک کی طرف لوٹ آؤ۔ ان کے سینے پر یا الٹے منہ لٹا کر کمر پر بھاری پتھر(یاگائے کی کھال) رکھوا دیتااور کہتا ،لات و عزیٰ تمہارے رب ہیں۔ وہ پکارتے ، اﷲ واحد ہی میرا رب ہے۔امیہ کہتا،تم اسی طرح پڑے رہو گے حتیٰ کہ مر جاؤ یا محمد کا انکار کر کے لات و عزیٰ کی پوجا کرنے لگو۔بلال کو پیٹا جاتا تو وہ ہر ضرب پر’احد ‘ (اﷲ ایک ہے)،’ احد‘(اﷲ ایک ہے) پکارتے۔کہا جاتا، وہ کفریہ کلمات کہو جو ہم بول رہے ہیں تو بلال جواب دیتے ،میری زبان ان کو ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ابوجہل بھی ان پر تشدد کرنے میں شریک تھا۔ ورقہ بن نوفل نے بلال کو سزائیں جھیلتے دیکھا تو کہا، اگر ان تکالیف سے تمہاری جان چلی گئی تو میں تمہاری قبر کو جائے برکت بنالوں گا۔بلال نے ہر طرح کی سختی برداشت کر لی توان کے گلے میں رسی ڈال دی گئی اور بچے مکہ کے دو بڑے پہاڑوں جبل ابوقبیس اور جبل احمر کے بیچ انھیں کھینچتے پھرے۔ اس حال میں بھی بلال احد، احد پکارتے رہے۔اسی دوران میں نبئ اکرم نے ابوبکر سے کہا،کاش ہمارے پاس کچھ مال ہوتا تو بلال کو خرید لیتے۔آپ کے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں، ابوبکر!بلال کو (آزادی میں) اپنا ساجھی بنا لو۔ ابوبکرامیہ کے پڑوسی تھے تاہم انھوں نے عباس بن عبدالمطلب کو اس سے بات کرنے کو کہا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے خود سودا کیا ،امیہ کو اس کی منہ مانگی رقم ۷اوقیہ (قریباً سوا ۲۳ تولے سونا،دوسری روایت:۱۵ اوقیہ ( ۵۰ تولے) دے کربلال کو خرید ا اور پھر آزاد کر دیا۔ ایک روایت ہے کہ انھوں نے بلال کو اپنے سیاہ فام غلام کے تبادلے میں لیا۔آزاد ہونے سے پہلے بلال پتھروں میں دبے ہوئے تھے۔بعد میں یہی بلال ابوبکر کے خزانچی بن گئے۔ ابوبکر ہی کی نسبت سے انھیں قُرَشی و تیمی بھی کہا جاتا ہے۔
سورۂ ص میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’وَ قَالُوْا مَا لَنَا لَانَرٰی رِجَالاًکُنَّا نَعُدُّہُمْ مِنَ الْاَشْرَارِ۔ اَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِیّاً اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الاَبْصَارُ،(روز قیامت)مشرکین آپس میں باتیں کریں گے، کیا بات ہے،ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہے جنھیں ہم دنیا میں بری قسمت والا سمجھتے تھے۔ہم نے یونہی ان سے ٹھٹھاکیا یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں؟ (آیات:۶۲،۶۳)مشہور مفسر مجاہد کہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ محشر کے دن ابو جہل اور دوسرے متمردین بلال اور دوسرے مستضعفین کے بارے میں یہ بات کریں۔
بلال نے حبشہ کو ہجرت نہ کی۔مدینہ جانے کا موقع آیا توسب سے پہلے مصعب بن عمیر اورعمروبن ام مکتوم پہنچے۔ان کے بعد بلال اور عمار بن یاسرنے ہجرت کی۔بلال نے سعد بن خیثمہ کے ہاں قیام کیا۔مدینہ آمد کے فوراًبلال ، ابوبکراورعامر بن فہیرہ کو بخار چڑھ گیا۔انھوں نے اسے مدینہ کی آب و ہوا پر محمول کیا۔ بلال کا بخار ہلکا ہوا تو یہ شعر پڑھنے لگے،
الا لیت شعری ہل ابیتن لیلۃ
بفخٍ وحولی اذخر و جلیل
(سنو!کاش مجھے علم ہو تا کہ میں مکہ کے مقام فخ میں اس حال میں رات بسر کروں گا کہ میرے گرد اذخر کی خوش بو دار گھاس اور جلیل جیسی عام گھاس ہو گی )
و ہل اردن یوماً میاہ مجنۃ
وہل یبدون لی شامۃ و طفیل
(اور یہ کہ ایک دن میں مکہ کے نشیبی بازارمجنہ میں واقع چشموں کا پانی پینے آؤں گااور مجھے شامہ اور طفیل کے پہاڑ نظر آئیں گے )
انھوں نے عتبہ ،شیبہ اور امیہ پر لعنت بھی بھیجی کیونکہ انھی کی وجہ سے انھیں مکہ چھوڑ کر وباکی سرزمین مدینہ آنا پڑا۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو پتا چلاکہ ان کے صحابہ بخار کی وجہ سے ہذیانی کیفیت میں ہیں تو دعا فرمائی،اے اﷲ! مدینہ ہمارے لیے محبوب بنا دے ،ہم اس سے مکہ جیسی یا اس سے بڑھ کر محبت کریں ۔اسے ہماری صحت کا باعث بنا دے۔ اس کے پیمانوں، صاع(سیر اورپاؤ) و مُد(تولہ و ماشہ) میں برکت ڈال دے اور اس کے بخار کو جحفہ (مہیعہ) منتقل کر دے ۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو خثعم (اس کی ذیلی شاخ بنوفزع)کے ابورویحہ(عبداﷲ بن عبدالرحمان) کو بلال کا انصاری بھائی قرار دیا۔ کچھ اہل تاریخ ابورویحہ کے ساتھ بلال کی مواخات کو نہیں مانتے ،ان کا کہنا ہے،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہجرت سے قبل ہی عبیدہ بن حارث کو ان کا بھائی قرار دے چکے تھے۔ عبیدہ ان تین صحابہ میں سے ایک تھے جنھوں نے جنگ بدر کے دن دعوت مبارزت دی ۔ان کا ہاتھ کٹ گیا اور اسی زخم سے ان کی وفات ہوئی۔ابن اثیرکا عبیدہ کے بجائے ابوعبیدہ بن جراح کا نام بتانا شاید ایک مغالطہ ہے۔ ابن اسحاق نے ابو رویحہ والی روایت کی پرزورتائید کرتے ہوئے لکھا ہے،خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب نے جب دیوان ترتیب دیے،بلال جہاد کی غرض سے شام میں مقیم تھے ۔ سیدناعمر نے ان سے پوچھا، آپ اپنا دیوان(فوجیوں اور ان کے وظیفوں کی فہرست) کس کے ساتھ رکھوائیں گے؟انھوں نے جواب دیا ، ابورویحہ کے ساتھ ،میں ان سے کبھی جدا نہ ہوں گاکیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے اور ان کے بیچ عقد قائم فرمایا تھا۔تب سیدنا عمرنے بلال اور دوسرے اہل حبشہ کا دیوان بنوخثعم کے ساتھ منسلک کر دیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں،یہ دیوان (ریکارڈ)ان کے زمانے میں بھی اسی طرح شام میں پڑا ہوا تھا۔
بلال اسلام کے پہلے مؤذن تھے،وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خازن ،آپ کے معاون اور پیش کار بھی رہے۔ہجرت کے بعد مسلمان مدینہ آئے تو کسی پکار کے بغیر نماز ادا کرنے مسجد پہنچ جاتے پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کی ذمہ داری لگائی کہ نماز کے وقت الصلاۃ جامعۃ (نمازجمع ہونے کی دعوت دے رہی ہے یعنی نماز کے لیے اکٹھا ہونے کا وقت ہو گیا ہے) کی آواز بلند کریں۔ اس کے بعد ناقوس کھڑکھڑانے ،بگل بجانے یا آگ جلانے کے مشورے دیے گئے لیکن اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سے ان پر عمل نہ ہوا۔ آخر کار ایک انصاری عبداﷲ بن زید بن عبد ربہ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اذان کے الفاظ الہام ہوئے۔انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ کو اپنا خواب سنایا توآپ نے فرمایا، یہ خواب سچاہے۔بلال کے ساتھ کھڑے ہو کر انھیں یہ کلمات سکھاؤ ۔وہ اذان دیں کیونکہ وہ تم سب سے بلند آواز رکھتے ہیں۔بلال نے اذان دی،سیدنا عمر اپنے گھر میں تھے، سن کر جلدی جلدی نکلے۔ان کی چادر گھسٹ رہی تھی ،بولے اﷲ کے نبی !اس اﷲ کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میں نے بھی ایسا خواب دیکھا ہے۔شبلی نعمانی کہتے ہیں،اذان حضرت عمر کی تجویز پر شروع کی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ بخاری کی روایت کو ترجیح دی جائے گی جس میں ابن عبد ربہ کا نہیں بلکہ عمر کا نام مذکور ہے۔ زہری کا کہنا ہے،اگلے دن بلال نے فجر کی اذان دی تو الصلاۃ خیر من النوم، نماز نیند سے بہتر ہے کے الفاظ بڑھا دیے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں برقرار رکھا۔ آپ نے اقامت میں قد قامت الصلٰوۃ ،نماز کھڑی ہو گئی ہے کے الفاظ کا اضافہ بھی فرمایا۔بعد میں عمرو بن ام مکتوم اور بلال باری باری سے اذان دینے لگے۔ اگردونوں موجود نہ ہوتے تو یہ ذمہ داری ابومحذورہ کی ہوتی،عہد نبوی کے چوتھے مؤذن سعد قرظ(سعد بن عائذ) تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا کہ اذان میں کلمات دو دو دفعہ جب کہ اقامت میں ایک ایک دفعہ کہیں۔
بلال کانوں میں انگلیاں دے کر اذان دیتے تھے جب کہ عبداﷲ بن عمر ایسا نہ کرتے ۔ابو جحیفہ کہتے ہیں،میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا ،میں ان کے منہ کو دیکھتا رہا کہ ادھر ادھر کو گھوم رہا ہے۔یعنی وہ حی علی الصلاۃ کہتے ہوئے منہ دائیں طرف اور حی علی الفلاح کہنے کے وقت بائیں طرف موڑ لیتے تھے۔
سورج ڈھلتاتو بلال ظہر کی اذان دے دیتے ، اقامت کچھ دیر بعد کہتے۔ اقامت میں کچھ تاخیر بھی کر دیتے لیکن اذان وقت سے موخر نہ ہونے دیتے۔ اذان دینے کے بعد بلال حجرۂ مبارکہ کے دروازے پر جاتے ، حی علی الصلاۃ ، حی علی الفلاح کے الفاظ دہراتے اور نماز،یا رسول اﷲ !کہہ کر آپ کو مطلع کرتے۔رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم حجرہ سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے توبلال آپ کو دیکھتے ہی اقامت کہنا شروع کر دیتے۔ ابوذر بتاتے ہیں،ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ مؤذن(بلال) نے (ظہر کی) اذان دینا چاہی۔آپ نے (روک دیا اور) فرمایا،دن ٹھنڈا ہو لینے دو،(کچھ دیر کے بعد) وہ اذان دینے لگے تو بھی آپ نے یہی فرمایا۔تیسری بار بھی ایسا ہی ہواتو آپ نے ارشاد فرمایا،ٹھنڈا ہونے لینے دو حتی کہ سایہ ٹیلوں کے برابر(ہم مثل) ہو جائے ۔بلا شبہ گرمی کی شدت جہنم کا جوش ہے۔
انس بن مالک کہتے ہیں، ایک دن بلال اذان دینے کے لیے میذنہ (چبوترہ یا مینار)پر چڑھے تو یہ شعر پڑھ رہے تھے،
ما لبلال ثکلتہ امہ
وابتل من نضح دم جبینہ
بلال کو کیا ہوا ،اس کی ماں اسے گم پائے اورخون سے اس کی پیشانی تر ہو جائے
مدینہ کی ایک سردصبح کو بلال نے اذان دی ،نبی صلی اﷲ علیہ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے تو مسجد میں کوئی نہ تھا۔پوچھا ،لوگ کہاں ہیں؟بلال نے جواب دیا،انھیں جاڑے نے روک لیا ہے۔تب آپ نے دعا فرمائی،اﷲ! ان کا پالا دور کر دے۔بلال کہتے ہیں،شام تک مسجد میں نمازیوں کی رونق ہوگئی۔
ایک بار ماہ رمضان میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا،بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں تاکہ تہجد پڑھنے والوں کو متنبہ اور سوئے ہوؤں کو بیدار کر دیں۔تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی آوازبلند ہو۔پھر فرمایا،عمروبن مکتوم نابینا ہیں ،لوگ کہتے ہیں ،صبح ہو گئی ،صبح ہو گئی توہی اذان دیتے ہیں۔
بلال نے بدر،احد،خندق اورتمام معرکوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب رہ کر شرکت کی۔جنگ بدر میں انھوں نے زید بن ملیص اوراپنے پرانے آقا امیہ بن خلف کوجہنم واصل کیا۔دوسری روایت کے مطابق زید مقداد بن عمرو کے ہاتھوں قتل ہوا۔امیہ اور عبدالرحمان بن عوف کا آپس میں معاہدہ تھاکہ وہ مکہ اور مدینہ میں ایک دوسرے کے متعلقین کی حفاظت کریں گے۔اسی معاہدے کے مطابق بدر میں امیہ اور اس کے بیٹے علی نے ہتھیار ڈال دیے تاکہ جنگی قیدی بن کر قتل ہونے سے بچ جائیں۔ عبدالرحمان ان دونوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کرنے کے لیے ایک پہاڑی کی اوٹ میں لے جا رہے تھے کہ بلال نے دیکھ لیااور کہا ،یہ تو رئیس الکفار امیہ ہے ۔عبدالرحمان نے کہا، بلال! اس وقت یہ میری قید میں ہے۔بلال بولے،اگر یہ بچ گیا تو میں نہ بچوں گاپھر بلند آواز سے پکارے ،او اﷲ کے انصار! دیکھویہ امیہ جا رہا ہے۔ بلال کی آواز پر لپکنے والے انصاری مسلمانوں نے امیہ اورعلی کوگھیرے میں لے کر تلواروں کی زد پر رکھ لیا، عبدالرحمان نے اپنے آپ کو امیہ پر گرا کر اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن انصار نے ان کے جسم کے نیچے سے و ار کر کے آناً فاناً اسے قتل کر دیا،اس کا بیٹا پہلے ہی مارا جا چکا تھا۔امیہ کو بچانے کی کوشش میں ایک زخم عبدالرحمان کے پاؤں پر بھی لگا ۔ وہ کہا کرتے تھے ،اﷲ بلال پر رحم کرے، میرے قیدی کے معاملے میں مجھے پریشان کیا۔ابن اثیر نے امیہ کو ٹھکانے لگانے والوں مسلمانوں کے یہ نام لکھے ہیں:بلال، خبیب اوررفاعہ بن رافع انصاری۔
غزوۂ ذات الرقاع (۴ھ)میں جابر بن عبداﷲاپنے مریل اونٹ کی وجہ سے لشکر سے پیچھے رہ گئے ۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور پوچھا ،جابر! کیا بات ہے؟آپ کومعلوم ہوا تو سواری سے اترے اور لاٹھی سے اونٹ کی نکیل کھینچی(یا اسے ضرب لگائی )اور جابر سے کہا ،اب تم سوار ہو جاؤ۔ اونٹ دوڑنے لگا حتی کہ جابر اسے آپ سے آگے جانے سے روکتے۔پھر آپ نے ایک اوقیہ (۳۳: ۳ تولے، ۴ دینار)سونے کے بدلے میں وہ اونٹ خرید لیا۔مدینہ لوٹ کر جابر اونٹ آپ کے حوالے کرنے آئے تو آپ نے ان کے لیے دعا کی اور بلال کو بلا کر ایک اوقیہ دینے کی ہدایت فرمائی۔بلال نے سونا تولا اور کچھ وزن بڑھا دیا۔جابررخصت ہونے لگے تو آپ نے ان کوبلا کر اونٹ واپس کر دیا اور قیمت بھی انھی کے پاس رہنے دی۔
۵ھ میں جنگ خندق ہوئی۔ مشرکین کے ساتھ جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کی عصر کی نمازرہ گئی۔ دوسری روایت کے مطابق آپ ظہر، عصر ،مغرب اور عشا کی چارنمازیں ادا نہ کر سکے۔اسی طرح رات کا ایک حصہ گزر گیا تب آپ نے بلال کو اذان دینے کا حکم دیا ،اذان دینے کے بعد انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی ، انھوں نے پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھائی ،بلال نے تیسری اقامت کہی توآپ نے مغرب کی جماعت کرائی۔آخری اقامت کے بعد عشاادا کی۔
غزوۂ ذی قرد(۶ھ) میں سلمہ بن اکوع نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مویشیوں کو ہانک لے جانے والے مشرکوں کو مار بھگایااورتمام مویشی چھڑا لائے۔ تب بلال نے ایک اونٹ ذبح کر کے اس کی کوہان اور کلیجی بھون کر آپ کو کھانے کے لیے پیش کی۔
جنگ خیبر(۷ھ) میں ابوحقیق کا قموص نامی قلعہ فتح ہوا توبلال نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس صفیہ بنت حییّ اور ایک یہودی عورت کو لے کرآئے۔یہ دونوں جنگ میں قید ہوئی تھیں، بلال جنگ میں قتل ہونے والے یہودی مقتولین کے پاس سے گزرے تو وہ یہودیہ بین کرنے لگی۔آپ نے فرمایا،بلال!کیا تم سے رحم سلب کر لیاگیا ہے جو عورتوں کو ان کے مرد مقتولوں کے پاس لے آئے؟ یہودی عورت کو تو آپ نے واپس بھیج دیا اور صفیہ پر اپنی چادر ڈال دی ۔یہ اشارہ تھا کہ آپ نے انھیں اپنے لیے خاص کر لیاہے ۔ تین دن کے سفر کے بعد آپ نے سد صہبا کے مقام پرپڑاؤ ڈالا اور صحابہ کو اپنے ولیمے پر مدعو کیا۔آپ نے بلال کو چادریں بچھانے کے لیے کہاجن پر کھجوریں، پنیر اور گھی رکھ کر کھانے کے لیے پیش کیے گئے۔ولیمے میں روٹی اور گوشت نہ تھے۔
جنگ خیبرکے موقع پر ایک مدعئ اسلام کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،یہ دوزخی ہے۔جنگ کے دوران میں وہ شدید زخمی ہوگیا تودرد کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اپناگلا کاٹ ڈالا۔تب صحابہ کا تعجب ختم ہوا او رانھوں نے کہا، یا رسول اﷲ !اﷲ نے آپ کے ارشاد کو سچ ثابت کر دیا ہے۔آپ نے بلال کو حکم دیا ،لوگوں میں اعلان کر دو،جنت میں مسلمان شخص ہی داخل ہو گا البتہ اﷲ تعالیٰ اس دین کی تائید ایک فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔ اسی غزوہ سے واپسی کے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورمسلمانوں کی فجر کی نماز قضا ہو گئی۔جس رات کو یہ واقعہ ہوا،لیلۃ التعریس کہلاتی ہے۔ تعریس کے معنی ہیں: رات بھر سفر کرنے کے بعد آخری پہر میںآ رام کرنا۔رات کے لمبے سفر کے بعد لوگوں کے کہنے پرآپ کچھ سستانے کے لیے لیٹے اور پوچھا،کون ہماری فجر کی حفاظت کرے گا؟کہیں ہم سوتے نہ رہ جائیں۔بلال نے کہا،میں کروں گا۔باقی صحابہ سو گئے لیکن بلال کھڑے ہو کر نوافل پڑھنے لگے ،کچھ دیر کے بعد وہ اپنے اونٹ سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے اور طلوع فجرکا انتظار کرنے لگے۔ اس حالت میں ان پر بھی نیند غالب آ گئی۔چنانچہ نماز کے وقت پر کوئی بھی نہ اٹھ پایا۔سورج بلند ہو گیاتو سب سے پہلے آپ بیدار ہوئے اورفرمایا، بلال! یہ آپ نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟انھوں نے جواب دیا،مجھ پر بھی اسی نیند کا غلبہ ہوگیا جو آپ پر طاری ہوئی۔فرمایا، سچ کہا۔ پھرآپ اپنی اونٹنی کو تھوڑی دور تک چلا کر لے گئے اور وہاں اتر کر وضو کیا۔باقی لوگ بھی وضو کر چکے تو بلال کو اقامت کہنے کو کہا اور اسی طرح نمازپڑھی جیسے وقت پر ادا فرماتے تھے۔نمازپڑھانے کے بعد آپ نے فرمایا،جو مسلمان نماز پڑھنا بھول جائے اس وقت نماز ادا کرے جب اس کو یاد آئے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ عمرۂ قضا کے لیے مکہ گئے تو سہیل بن عمرو اورحویطب بن عبدالعزیٰ نے آپ کو مکہ سے نکل جانے کو کہا۔آپ نے بلال کو حکم دیا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے مکہ میں کوئی صحابی نہ رہے۔
فتح مکہ (۸ھ)کے دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے،بلال،اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ آپ کے ساتھ تھے۔آپ کے داخل ہونے کے بعد دروازہ بند کر دیا۔آپ نے اندر کافی وقت گزارااور نوافل ادا کرنے کے بعد باہر تشریف لے آئے جب کہ بلال نے مزیدتاخیر کی۔ دروازہ کھلنے کے فوراًبعدعبداﷲ بن عمرآئے اور بلال سے پوچھ کردونوں ستونوں کے درمیان آپ کے نوافل پڑھنے کی جگہ متعین کی اور دو رکعتیں اداکیں۔ بعد ازاں انھیں جب بھی بیت اﷲ کے اندر جانے کا موقع ملتا ،اسی جگہ نماز پڑھتے۔اہل تاویل نے بلال کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے فضل بن عباس کے قول کو تسلیم نہیں کیا کہ آپ نے بیت اﷲ کے اندر نمازنہیں پڑھی۔
_____________