HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۱۰- ۲۵ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ{۱۰}
وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ{۱۱} قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ{۱۲} قَالَ فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ{۱۳} قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ{۱۴} قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ{۱۵} قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ{۱۶} ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ{۱۷} قَالَ اخْرُجْ مِنْھَا مَذْئُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ{۱۸}
وَ یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ فَکُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ{۱۹} فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَھُمَا مَاوٗرِیَ عَنْھُمَا مِنْ سَوْاٰتِھِمَا وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ{۲۰} وَقَاسَمَھُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ{۲۱} فَدَلّٰھُمَا بِغُرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادٰھُمَا رَبُّھُمَآ اَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَاَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ{۲۲} قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ{۲۳} قَالَ اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ{۲۴} قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تُخْرَجُوْنَ{۲۵}
(لوگو) ، ہم نے اِس سرزمین میں۲۸۸؎ تمھیں اقتدار عطا فرمایا اور تمھارے لیے اِس میں معاش کی راہیں کھول دی ہیں۲۸۹؎،پر تم کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔۱۰
(تمھاری سرگذشت یہ ہے کہ) ہم نے تمھیں پیدا کیا، پھر تمھاری صورتیں بنائیں۲۹۰؎، پھر فرشتوں سے کہا: آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو۲۹۱؎۔ ابلیس۲۹۲؎ کے سوا سب سجدہ ریز ہو گئے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا۲۹۳؎۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا۲۹۴؎، جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا۲۹۵؎؟ بولا:میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے۲۹۶؎۔ فرمایا: اچھا تو یہاں سے اتر،۲۹۷؎ تجھے یہ حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے، سو نکل جا، تو ذلیل ہے۲۹۸؎۔ بولا: مجھے اُس دن تک مہلت دے۲۹۹؎،جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: تجھے مہلت ہے۳۰۰؎۔ بولا:تو نے مجھے گمراہی میں ڈالا ہے۳۰۱؎، اِس وجہ سے میں بھی اولاد آدم کے لیے تیری سیدھی راہ پر گھات میں بیٹھوں گا۳۰۲؎۔ پھر اِن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے اِن پر تاخت کروں گا۳۰۳؎ اور تو اِن میں سے اکثرکو اپنا شکرگزار نہ پائے گا۳۰۴؎۔فرمایا:نکل جا یہاں سے، ذلیل اور راندہ ۔ (یاد رکھ کہ)اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، میں تیرے سمیت اُن سب سے اکٹھے جہنم کو بھردوں گا۳۰۵؎۔۱۱-۱۸
اے آدم، تم اور تمھاری بیوی ، دونوں اِس باغ ۳۰۶؎میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چاہو، کھائو۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت۳۰۷؎ کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔ پھر شیطان نے اُنھیں بہکایا کہ اُن کی شرم گاہوں میں سے جو چیز اُن سے چھپائی گئی تھی، وہ اُن کے لیے کھول دے۳۰۸؎۔ اُس نے اُن سے کہا: تمھارے رب نے تمھیں اِس درخت سے صرف اِس وجہ سے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جائو یا تمھیں ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۳۰۹؎۔ اُس نے قسمیں کھاکر۳۱۰؎ اُن سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیرخواہ ہوں۔ اِس طرح فریب دے کر اُس نے دونوں کو رفتہ رفتہ مائل کر لیا۔ پھر جب اُنھوں نے درخت کا پھل چکھا۳۱۱؎ تو اُن کی شرم گاہیں اُن پر کھل گئیں ۳۱۲؎اور وہ اُس باغ کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے۔۳۱۳؎(اُس وقت) اُن کے پروردگار نے پکارا کہ کیا میں نے تمھیں اِس درخت سے روکا نہیں تھا اور تم سے کہا نہیں تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۳۱۴؎؟ دونوں بول اٹھے: پروردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اب اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گاا ور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم نامراد ہو جائیں گے۔۳۱۵؎ فرمایا: (یہاں سے) اتر جائو۳۱۶؎، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۳۱۷؎اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسر کرنی ہے۔ فرمایا: تم اِسی میں جیو گے ، اِسی میں مرو گے اور اِسی سے نکالے جائو گے۔۳۱۸؎۱۹-۲۵

۲۸۸؎ یعنی سرزمین حرم میں، جہاں قریش کو اختیار و اقتدار حاصل تھا۔ سورہ کے مخاطب چونکہ وہی ہیں، اِس لیے یہاں سے تمہید اٹھائی ہے۔

۲۸۹؎ یہ اُن راہوں کی طرف اشارہ ہے جو ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی دعائوں اور بیت اللہ کے طفیل اُن کے لیے کھولی گئیں۔

۲۹۰؎ اِس کی تفصیل قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلے زمین کے پیٹ میں انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا، پھر اُس میں اپنی نسل آپ پیدا کر لینے کی صلاحیت ودیعت ہوئی، پھر اُس کا تسویہ کیا گیا، اِس طریقے سے جو مخلوق وجود میں آئی، اُس میں سے دو کا انتخاب کرکے پھر اُن میں روح پھونکی گئی جس سے آدم و حوا کی صورت میں نطق و بیان کی صلاحیت اور عقل و شعور سے بہرہ یاب ایک نئی مخلوق، یعنی انسان کی ابتدا ہوگئی۔ یہ نوع انسانی پر گزرنے والے مختلف مراحل کی تفصیل ہے جن میں سے ہر مرحلے کی مدت ہزاروں سال ہو سکتی ہے۔ ہڈیوں، کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کے اوراق میں سائنس دان جو کچھ پڑھ رہے ہیں، وہ یہی سرگذشت ہے، اِس کا ارتقا کے اُس تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ڈارون نے پیش کیا تھا۔

۲۹۱؎ یہ سجدہ تعظیم کے لیے تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا، اِس لیے اِس میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اطاعت کا یہ امتحان جس وجہ سے لیا، وہ یہ تھی کہ اولاً، آدم پر واضح ہو جائے کہ اصلی سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے۔ لہٰذا اُسے بھی اپنی انانیت کو ایک طرف رکھ کر ہمیشہ حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا چاہیے۔ ثانیاً، وہ یہ سمجھ لے کہ اُسے جب اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہے کہ فرشتوں نے اُس کو سجدہ کیا تو یہ بات کسی طرح اُس کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی برتر سے برتر مخلوق کو بھی خدا کا شریک سمجھ کر اُس کی پرستش کرے۔ بندگی اور پرستش اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ وہ اگر اِس حق میں کسی کو شریک کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی اہانت نہیں کرتا، بلکہ خود اپنی بھی اہانت کرتا ہے۔

۲۹۲؎ یہ ’ابلس‘ سے ’افعیل‘ کے وزن پر اُس جن کا لقب ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ’ابلس‘ کے معنی مایوس اور غم زدہ ہونے کے ہیں۔ بعض لوگ اِسے فرشتہ سمجھتے ہیں، لیکن قرآن میں صراحت ہے کہ یہ جنات میں سے تھا۔

۲۹۳؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات چونکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے فرشتوں سے زیادہ دور نہیں ہیں، اِس لیے اُنھیں جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو علیٰ سبیل التغلیب جنات بھی اِس حکم میں شامل تھے۔

۲۹۴؎ اصل میں ’مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’مَا مَنَعَکَ‘ کے بعد ’لَا‘ کا لانا ضروری نہیں تھا، اِس لیے کہ اُس میں خود ’لاَ‘ کا مضمون موجود ہے، لیکن لایا گیا ہے تو اِس سے شدت نکیر کا مضمون پیدا ہو گیا ہے۔ یہ اسلوب ہماری اپنی زبان میں بھی موجود ہے۔

۲۹۵؎ مطلب یہ ہے کہ اِس سجدے کا حکم چونکہ میں نے دیا تھا، اِس لیے یہ سجدہ آدم کو نہیں، بلکہ درحقیقت مجھے تھا۔ لیکن اِس کے باوجود امتثال امر کے بجاے تو نے سرکشی اختیار کی، آخر کیوں؟

۲۹۶؎ اِس سے واضح ہے کہ عزوشرف کو نسل و نسب پر مبنی سمجھنے کا فلسفہ ابلیس کی ایجادات میں سے ہے۔ جو لوگ اِس بنیاد پر اکڑتے اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت اُسی کے پیرو ہیں۔

۲۹۷؎ یہ خدا کی بارگاہ سے اترنے کا حکم ہے، جہاں جنات اور فرشتے ، سب اُس کے حضور میں اُس سے ہم کلام تھے۔

۲۹۸؎ مطلب یہ ہے کہ ہماری بارگاہ میں سرکشی اور تکبر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اِس جرم کا ارتکاب کر رہے ہو تو اِس کی سزا دائمی ذلت ہے۔ یہاں سے نکل جاؤ، اب اِسی ذلت میں رہو گے۔ ہماری بارگاہ کے دروازے تم پر ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے ہیں۔

۲۹۹؎ یعنی اِس بات کی مہلت کہ میں یہ ثابت کر سکوں کہ انسان کو جو شرف بخشا گیا ہے، وہ فی الواقع اُس کا اہل نہیں ہے۔

۳۰۰؎ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ابلیس اور اُس کی ذریت کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے یہ مہلت دے دی ہے کہ وہ انسان کو بہکانے اور ورغلانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے، کر لے۔ انسان کے شرف و مزیت کے معاملے کا فیصلہ اِس کے نتیجے میں قیامت پر ملتوی ہو گیا ہے۔ اب وہیں معلوم ہو گا کہ اِس جنگ میں کون جیتتا اور کون ہارتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہی وہ موڑ ہے ، جہاں سے انسان کی زندگی کا رزار امتحان میں داخل ہوتی ہے۔ شیطان نے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اپنا پورا زور اِس بات کے لیے لگانے کا منصوبہ بنایا کہ وہ انسان کو نااہل و نالائق ثابت کر دے اور انسان کی سعادت و کامرانی اِس بات میں ٹھیری کہ وہ یہ ثابت کرے کہ فی الواقع وہ اِس کا اہل ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۳۲)

۳۰۱؎ یعنی میں خود گمراہ نہیں ہوا، بلکہ تو نے حکم ہی ایسا دیا تھا جس کا امتثال میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ میں اگر گمراہ ہوا ہوں تو اِس گمراہی پر ، معاذ اللہ، تو نے مجھے مجبور کیا ہے۔ آگے کی آیات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی اِس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک کھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

۳۰۲؎ اِس سے توحید کی راہ مراد ہے اور ابلیس نے یہ چیلنج اللہ تعالیٰ کو دیا ہے کہ وہ جنت الفردوس کے لیے صالحین کے انتخاب کی اُس اسکیم کو ناکام بنا دے گا جو انسان کی تخلیق سے اللہ کے پیش نظر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔انسان کی فطرت اور خدا میں براہ راست ربط ہے۔ فطرت کی راہ میں غیر فطری کج پیچ نہ پیدا کر دیے جائیں تو انسان توحید کے سوا کوئی اور راہ نہیں اختیار کر سکتا۔ اِس وجہ سے توحید کو قرآن میں بھی اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں بھی ’صراط مستقیم‘ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جب تک انسان اِس راہ پر قائم رہتا ہے، اُس وقت تک وہ سست رو اور آبلہ پا ہو کر بھی روبمنزل رہتا ہے، اِس وجہ سے دیر سویر منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے۔ برعکس اِس کے، اگر وہ شرک کے کسی موڑ کی طرف مڑ جائے تو اصل منزل سے روگرداں ہو جاتا ہے اور پھر جتنے قدم بھی وہ آگے بڑھتا ہے، اُس کا سفر کسی ’ضلال بعید‘ ہی کی راہ میں ہوتا ہے۔یہ رمز ہے جس کے سبب سے شیطان کو انسان پر پوری فتح حاصل کرنے کا اُس وقت تک موقع نہیں ملتا، جب تک وہ اُس کو توحید کی شاہراہ سے ہٹا کر شرک کی کسی پگ ڈنڈی پر نہ ڈال دے۔ چنانچہ اُس نے اپنے چیلنج میں آشکارا الفاظ میں بتا دیا کہ وہ انسان کی گھات میں توحید کی راہ پر بیٹھے گا اور اِس راہ سے اُس کو بے راہ کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۲۳۲)

۳۰۳؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شیطان نے یہ چیلنج کس عزم و ارادے سے اور کس زور اور طنطنے کے ساتھ دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ بیان ہے شیطان کے حملے کی قوت، وسعت اور ہمہ گیری کا خود اُس کی زبان سے۔ وہ ہر جہت، ہر سمت، ہر پہلو سے انسان پر حملہ کرے گا۔ وہ اُس کے مشاہدات، احساسات، جذبات، خواہشات ہر منفذ سے اُس کے اندر گھسنے کی کوشش کرے گا۔ وہ اُس کے فکر، فلسفہ، علم، ادراک ہر چیز کو مسموم کرے گا۔ وہ اُس کی تحقیق، تنقید، تصنیف، تالیف، ادب، آرٹ، لٹریچر ہر چیز میں اپنا زہر گھولے گا، وہ اُس کے تہذیب، تمدن، معیشت، معاشرت، فیشن، کلچر، سیاست اور مذہب ہرچیز کے اندر فساد برپا کرے گا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۳۳)

۳۰۴؎ اِس جملے کا ٹھیک ٹھیک مطلب یہ ہے کہ تو اُن کی اکثریت کو توحید پر قائم نہیں پائے گا۔ اِس لیے کہ وہ جب خدا کی نعمتوں اور اُس کے افضال و عنایات کے لیے اُس کے شکر گزار نہیں ہوں گے تو دوسروں کے ہوں گے اور اُنھیں معبود بنا کر اُن کی پرستش کرنے لگیں گے۔

۳۰۵؎ یہ پوری بے نیازی اور شان کبریائی کے ساتھ شیطان کے چیلنج کا جواب بھی ہے اور اُس فیصلے کا دوٹوک اظہار بھی جس میں کسی رو رعایت کی گنجایش نہیں ہے۔

۳۰۶؎ یہ غالباً اِسی دنیا کا کوئی باغ تھا جسے آدم و حوا کا مستقر قرار دیا گیا۔ اِس میں جو امتحان اُنھیں پیش آیا، اُس سے دونوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ شیطان اُن پر حملہ کرے گا تو کہاں سے کرے گا۔

۳۰۷؎ سورئہ طہٰ(۲۰) کی آیت ۱۲۰ میں اِسے ’شَجَرَۃِ الْخُلْدِ‘ کہا گیا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ لفظ ’الشَّجَرَۃ‘ یہاں مجازی مفہوم میں ہے۔ ’شَجَرَۃِ الْخُلْدِ‘ کے لفظ سے جو معنی ظاہر ہوتے ہیں اور اِس درخت کا پھل کھانے کے جو اثرات آگے بیان ہوئے ہیں، دونوں اِس بات کی طرف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ اِس سے مراد وہی شجرئہ تناسل ہے جس کا پھل کھانے کے باعث انسان اِس دنیا میں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہے، لیکن آج بھی دنیا میں اُس کے لیے سب سے بڑی آزمایش اگر کوئی ہے تو یہی درخت ہے۔ آگے کی آیتوں سے مزید واضح ہو جائے گا کہ شیطان سب سے بڑھ کر اِسی کو فتنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا اور اُنھیں اجاز ت دی کہ وہ یہ لباس پہن کر اِس درخت کا پھل کھائیں، لیکن شیطان ہمیشہ اُنھیں اِس لباس کے بغیر ہی اِس کا پھل کھانے کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔

۳۰۸؎ یعنی جنسی تلذذ جس سے آدم و حوا ابھی واقف نہیں ہوئے تھے۔ 

۳۰۹؎ ابلیس نے یہ لالچ دے کر آدم و حوا کو اُس درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی۔چنانچہ اِس پھل کی خواہش میں جو غیر معمولی کیفیت انسان پر طاری ہو جاتی ہے، اُس سے مغلوب ہو کر وہ شیطان کے فریب میں آگئے اور یہ پھل کھا بیٹھے۔ شیطان کی اِس بات میں، اگر غور کیجیے تو اتنی سچائی بھی ہے کہ یہ اُسی درخت کا پھل ہے جس کے کھانے سے دنیا میں انسان کی زندگی کا تسلسل قائم ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کے سجدے سے مشرف ہونے کے باوجود آدم علیہ السلام فرشتوں کے مرتبے کو اپنے سے اونچا سمجھتے تھے۔ نیز وہ یہ جانتے تھے کہ یہ زندگی جو اُن کو حاصل ہوئی ہے، ابدی زندگی نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شیطان اُن کو اِن دونوں چیزوں کے نام پر ورغلانے کی کوشش میں کامیاب نہ ہوتا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۳۵)

۳۱۰؎ اصل میں ’قَاسَمَھُمَا‘ کا لفظ آیا ہے۔ ’اقسم‘ کے بجاے اِس لفظ کا استعمال یہاں تکثیر اور مبالغے کے لیے ہے، یعنی بار بار قسمیں کھا کر یقین دلایا۔ عربی زبان کے افعال میں حروف کی زیادتی جس طرح معنی میں فرق پیدا کرتی ہے، اُسی طرح لفظ کے معنی میں محض شدت، تکثیر اور مبالغے کا فائدہ بھی دیتی ہے۔

۳۱۱؎ اصل الفاظ ہیں:’فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ‘۔ اِن میں مضاف عربیت کے قاعدے سے محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۳۱۲؎ یعنی اُن کے بارے میں یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ صرف رفع حاجت کا ذریعہ نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسری چیز بھی اِن کے اندر چھپی ہوئی ہے جو اِن کا پھل کھانے کے بعد ہی کھلتی ہے۔

۳۱۳؎ اِس سے واضح ہے کہ جنس اور جنسی اعضا کے ساتھ شرم کا احساس انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ یہ کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے اور نہ تہذیب کے ارتقا سے مصنوعی طور پر پیدا ہوئی ہے، بلکہ ایک ایسا احساس ہے جو خدا نے انسان کے اندر الہام کر دیا ہے۔ جنس کے معاملات سے واقف ہوتے ہی یہ آپ سے آپ نمایاں ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انسان اپنے اُن اعضا کو ڈھانکنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے لیے جنسی تلذذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

۳۱۴؎ یہ اُن تنبیہات کا حوالہ دیا ہے جو اوپر آیات ۱۷-۱۹ میں گزر چکی ہیں۔

۳۱۵؎ یہ اُس توبہ کی بہترین مثال ہے جس کا ذکر سورئہ نساء (۴) کی آیت ۱۷ میں ہوا ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اُسے لازماً قبول کر لیتا ہے۔

۳۱۶؎ اصل میں لفظ ’اِھْبِطُوْا‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس میں اترو کا مفہوم وہی ہے جو سورئہ بقرہ (۲) کی آیت ۶۱ کے الفاظ ’اِھْبِطُوْا مِصْرًا‘ میں ہے، یعنی اے آدم و حوا اور ابلیس، تم سب اِس باغ سے نکل کر زمین میں اتر جاؤ۔

۳۱۷؎ یعنی ابلیس تمھارا دشمن ہے اور تم اُس کے دشمن ہو۔ تمھارے اور اُس کے درمیان فطری تعلق دشمنی کا ہے، لہٰذا تم کو ہمیشہ اُسے اپنا دشمن ہی سمجھنا چاہیے۔

۳۱۸؎ آدم و ابلیس کی سرگذشت یہاں تمام ہوئی۔ اِس سے جو حقائق مخاطبین پر واضح کرنا مقصود ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ سرکشی اور تکبر خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ اِس کا ارتکاب کرلینے کے بعد انسان ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ ہو سکتا ہے۔ ابلیس نے اِسی جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ فرشتے اپنی خلقت کے لحاظ سے اُس سے برتر تھے، لیکن اُنھوں نے خدا کے حکم کو اِس سے بڑا سمجھا اور بغیر کسی تردد کے اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا۔ خدا کی تمام مخلوقات کے لیے صحیح رویہ یہی ہے۔ دولت و ثروت اور عزوجاہ ، سب خدا کی عطا ہے۔ اِس کے زعم میں مبتلا ہو کر سرکشی اور تکبر کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو یہ انسان کے لیے ابدی خسران کا باعث بن جائے گا۔

۲۔ ابلیس جس انجام کو خود پہنچا ہے، وہ انسان کو بھی اُسی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اُس نے خدا سے اِسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مہلت لی ہے۔ اُس کا اصلی ہدف عقیدئہ توحید ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ مشرکین کے لیے خدا کی جنت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ یہ ثابت کردینا چاہتا ہے کہ جس کے سامنے اُسے جھکنے کے لیے کہا گیا تھا، وہ اِس کا اہل بھی نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کی ذات و صفات کی صحیح معرفت کے ساتھ اُس کی بندگی کر سکے۔

۳۔ انسان کی سب سے بڑی کمزوری اُس کی جنسی جبلت ہے۔ ابلیس اِس بات سے واقف ہے کہ انسان کو اپنی گرفت میں لینے کا سب سے آسان راستہ یہی ہے کہ اُسے اِس جبلت کی تسکین پر خدا کی عائد کردہ پابندیوں کو توڑ دینے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ وہ آدم و حوا پر اِسی راستے سے حملہ آور ہوا تھا۔ اِس کے لیے وہ ہر دائوں، ہر فریب اور ہر چرتر استعمال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور لوگوں کو اُسی طرح شیشے میں اتارلیتا ہے، جس طرح ابدیت کا لالچ دے کر اُس نے آدم و حوا کو شیشے میں اتارا تھا۔ اپنے حریف کے محاذ میں یہ کمزور ترین مقام ہے جو اُس نے پہلے دن سے حملے کے لیے تلاش کر رکھا ہے۔

۴۔ غلطی ابلیس نے بھی کی اور غلطی آدم و حوا سے بھی ہوئی، لیکن دونوں میں فرق ہے۔ ابلیس کو غلطی پر توجہ دلائی گئی تو وہ اکڑ بیٹھا اور بندگی سے منہ موڑ کر سرکشی کا رویہ اختیار کر لیا۔ مگر آدم و حوا نے یہ نہیں کیا۔ اُنھیں جب احساس ہوا کہ اُنھوں نے نافرمانی کی ہے تو ندامت اور شرم ساری کے ساتھ وہ فوراً اپنے رب کی طرف پلٹے اور معافی مانگ کر اُس کے دامن رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ چنانچہ ابلیس ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ ہے اور بنی آدم کے لیے جنت کے دروازے کھلے ہیں۔ وہ جب چاہیں ، نیکی، خیر اور توبہ و استغفار کا زادراہ لے کر اُن میں داخل ہونے کے لیے سفر کی ابتدا کر سکتے ہیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B