انسانی فطرت ہے کہ وہ توقعات اور امیدوں پر زندگی گزارتا ہے ۔ یہ توقعات اور امیدیں اسے اپنے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ہوتی ہیں ۔ انسانی فطرت کی بنا پر ہر انسان کسی دوسرے سے توقعات وابستہ کرتا اور امید لگاتا ہے ۔ لیکن کسی کی امیدوں کو پورا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا،جو لوگ دولت کے ڈھیر جمع کرتے جاتے ہیں ان کو احساس تک نہیں ہوتا کے یہ دولت کے ڈھیر آخرت میں ان کے گلے کا طوق ثابت ہوگا۔ مگر اس معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی توقعات پوری کرنا اور کسی کی زندگی میں عین اس وقت امید کی شمع جلانا جب اندھیرا روشنی کو ہرطرف سے کھا چکا ہو اپنا ’’پیشہ‘‘ بنا لیتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جان لیا ہے کہ انسان کے احساس کو معراج اس وقت حاصل ہوتی ہے ، جب وہ دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنا شروع کر دے اور نظر کو رفعت اس وقت عطا ہوتی ہے ، جب اسے اپنی ذات سے باہر ، دوسروں کی تکالیف نظر آنا شروع ہو جائیں ۔ اور احساس و نظر کی معراج حاصل کرنے کا واحد ذریعہ دکھی انسانیت کی خدمت ہے ۔
انسانیت کی خدمت بہت بڑے پیمانے پر تنظیمیں بنا کر کرنا ضروری نہیں ، بلکہ انسانیت کی خدمت تو وہ معمولی سی چیز ہے جو کسی غریب کی بیٹی کے جہیز کا حصہ بن سکے ۔جو کسی بے آسرا کو چھت کا آسرا دے سکے، وہ دس بیس روپے کی دوا ہے جو کسی بیمار کی صحت بن سکے اور وہ ایک نوالہ بھی ہے جو کسی بھوکے کو زندگی دلا سکے ۔ سو بہت بڑی بڑی فاؤنڈیشز ہی نہیں یہ معراج ہر انسان اپنے گردوپیش میں حاصل کر سکتا ہے ۔ بات صرف اس احساس کی ہے کہ مسائل ہر ایک کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں اور تکالیف سبھی کی آنکھ سے نیندیں چراتی ہیں ۔اور یہ احساس ان لوگوں کی متاع ہے جو اپنی زندگی دوسروں کے آرام کے لیے وقف کر دیتے ہیں ۔ اور وہ ایک لمحے کی مسکراہٹ جو کسی خوشی کا سبب بن سکے ، وہ بھی دوسروں کو دے دیتے ہیں ۔
کسی کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا اس وقت اور بھی آسان ہو جاتا ہے ، جب انسان یہ جانتا ہو کہ جس زندگی میں وہ سانس لے رہا ہے ، یہ منزل نہیں ، سفر ہے ۔ اور یہ کہ حقیقی زندگی کا آغاز تو اس زندگی کے اختتام سے مشروط ہے ۔ اور اس سفر کے لیے درکار سامان صرف وہی اعمال ہیں جو کسی دوسرے کے لیے فائدہ مند ہوں ۔جو لوگ ا س بات سے واقف ہیں وہ اس سامان سفر کے حصول کے لیے اپنی نیندیں ، اپنا آرام ، اپنی خوشی سب کچھ وقف کر دیتے ہیں ۔ یہی لوگ حقیقتاً انسان ہیں ۔
انسانی خدمت کا احساس اجتماعی سوچ سے پیدا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں انفرادی مسائل کو اجتماعی مسائل پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ ملاوٹ کرنے والا یہ نہیں سوچتا کہ اس سے وہ تو فائدہ حاصل کرے سکے گا مگر کوئی بیمار بھی پڑ سکتا ہے ۔ جعلی ادویات بنانے والا یہ نہیں سوچتاکہ اس کی دولت سے زیادہ اہمیت کسی کی جان کی ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو ہم چور، قاتل معاشرے کی سفید چادر پر لگے بدنما داغ کہ سکتے ہیں ، مگر اس اجتماعی مسئلے میں ہم سبھی کسی نہ کسی حیثیت سے گناہ گار ہیں ۔ ایک غریب کو دھتکارنے سے پہلے ہم یہ نہیں سوچتے کہ ان چند روپوں کے دینے سے شاید ہماری زندگی پر تو کوئی اثر نہ پڑے مگر اس غریب کی زندگی پر ضرور پڑے گا جس کو صرف کھانا ہی نہیں ، بلکہ زندگی میسر آ سکے گی ، وہ اپنی بیٹی کے لیے جہیز خرید سکے گا ، اپنے بے چھت بچوں کے لیے ایک چھت خرید سکے، یا اپنے بوڑھے ماں باپ کی دوا لا کر ان کی زندگی اور اپنے آپ کو یتیم ہونے سے بچا لے گا ۔
سو اصل بات دوسروں کے مسائل کو سمجھنا ، ان کا حل تلاش کرناہے ۔ یہ خواہ کسی بھی معیار ، مقدار یا کسی کے لیے بھی ہوں دکھی انسانیت کی خدمت ہیں اور ’’دکھی انسانیت کی خدمت ہے احساس و نظر کی معراج‘‘۔
___________________