[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(گذشتہ سے پیوستہ)
انسان کی تخلیق کی غرض جیسا کہ مکرر ذکر ہوا، امتحان ہے۔ فرمایا ہے:
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعاً بَصِیْراً. إِنَّا ہَدَیْْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً.(الدہر: ۲۔۳)
’’ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے بنایا تاکہ اس کا امتحان لیں۔ پس اس کو دیکھنے والا اور سننے والا بنایا۔ ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا ہے، اب وہ شاکر بنے یا ناشکری کرنے والا۔‘‘
اس امتحان کے لیے ضروری تھا کہ اس کو ارادہ و اختیار دیا جائے اور وہ دیا گیا۔ اس کے ساتھ عقل بھی عطا کی گئی تاکہ وہ بھلے اور برے میں فرق و امتیاز کر سکے۔ ان نعمتوں کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عرصۂ امتحان میں ہے۔ جن لوگوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا وہ اس دنیا میں معاصی اور منکرات کی غایتِ وجود کو نہیں سمجھ سکے۔ ۲۵
دنیا میں مصائب و آلام، غربت و افلاس، عزت و ذلّت اور عروج و زوال کے واقعات کی مختلف علّتیں ہیں۔ بیشتر مصائب و آلام وہ ہیں جو انسانی ارادہ و اختیار کی آزادی کے غلط استعمال سے پیدا ہوتے ہیں اور بعض کا تعلق انسانی عقل کے عروج و تربیت سے ہے، اور بعض مصائب کی علّت خدائی تدبیر و حکمت ہے اور ان کی حیثیت تہدیدات و تنبیہات کی ہے۔۲۶
جو لوگ متعدد خداؤں کے قائل ہیں ان کا خیال بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ نظامِ عالم جس توافق و سازگاری کا مظاہرہ کرتا ہے اس سے متعدد خداؤں کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ اقتدار کی ایک اہم خصوصیت توسیع و تصادم ہے۔ ایک سے زیادہ خدا ہونے کی صورت میں ان کے درمیان رزم آرائی لازمی تھی اور بایں طور نظام عالم درہم برہم ہو جاتا۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی کائنات کے کسی گوشہ میں بھی کسی نوع کا انتشار و اختلال نظر نہیں آتا بلکہ حیرت انگیز حد تک نظم و انضباط پایا جاتا ہے جو اس بات کی ایک قوی دلیل ہے کہ اس میں متعدد خداؤں کے بجائے ایک ہی قادر مطلق خدا کی حکم رانی ہے۔
نصاریٰ کا خیال حد درجہ لغو ہے اور اللہ کے بارے میں ظنِّ فاسد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خیال کے مطابق کائنات کی تخلیق ایک کارِ فضول ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی فضول کام کرے۔ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ اللہ جو خیرِ مطلق ہے اس کی تخلیق پر شیطان کو تصرف حاصل ہو جائے۔ اس سے تو اللہ کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے حالانکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا اس کائنات کی سب سے عظیم اور برتر قوت ہے اور کل موجوداتِ عالم اس کے تابعِ فرمان ہیں۔
عالم تکوینی کی طرح عالم تشریعی یعنی انسان کے تمدنی امور میں بھی اللہ کی حاکمیت ایک حقیقت ہے۔ جو اصحابِ علم قوموں کے عروج و زوال کے واقعات پر نظرِ غائر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ واقعات ایک متعیّن اصول کے تحت ظاہر ہوتے ہیں اور یہ اخلاق اصول ہے۔ نفوسِ انسانی کو کائنات مادی پر جو برتری حاصل ہے اس کی وجہ اس کے عقلی کمالات ہیں۔ جو قوم اپنے نفوس کی صحیح تربیت کرتی ہے اس کو عروج حاصل ہوتا ہے اور جو قوم اس سے غفلت برتتی ہے وہ زوال سے دوچار ہوتی ہے۔
کسی قوم کا غلبہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس کے نفوس زیادہ تربیت یافتہ ہیں اور وہ مغلوب قوم کے مقابلے میں حکومت کی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔ مولانا فراہی کے الفاظ ہیں: فان اللّٰہ لا یسلط قومً علیٰ قوم اِلا لحکمۃ و مصلحۃ و صلاح الغالب للحکومۃ و عدم صلاح المغلوب لھا.۲۷
لیکن مغلوب قومیں بالعموم جاہلی حمیّت کی وجہ سے اپنے نفوس کی کمزوری سے چشم پوشی کرتی ہیں۲۸ اور اس غلط فہمی میں رہتی ہیں کہ وہ غالب قوم سے افضل و اعلیٰ ہیں۔۲۹ اس کی نہایت عمدہ مثال ہندوستانی مسلمان ہیں۔ آج تک انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا کہ ان کی مغلوبیت کی حقیقی وجہ کیا ہے اور ہندو قوم کیوں کر ان پر غلبہ رکھتی ہے؟ مغلوبین کے باوجود وہ خود کو اہل ہنود سے برتر سمجھنے ہیں۔ فخر کی اس نفسیات کا مظاہرہ انھوں نے انگریزی دورِ حکومت میں بھی کیا تھا اور مدتوں اس کم فہمی کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا۔
کسی قوم کے نفسی کمالات (عقلی برتری اور سیاسی عروج) کا اس کے اخلاق سے گہرا رشتہ ہے۔ ان کا تعلق درخت اور اس کے پھل جیسا ہے جس طرح پھل سے درخت کی پہچان ہوتی ہے اسی طرح کسی قوم کے اخلاق کو دیکھ کر اس کے نفسی حالات اور اس کی ترقی کے مدارج معلوم ہو جاتے ہیں اور ان کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عروج و اقتدار کی اہل ہے یا نہیں؟
قوموں کے عروج و زوال کا اخلاقی قانون ناقابلِ تغیر ہے، اور اس کا غیر متبدّل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کوئی اتفاقی قانون نہیں بلکہ ایک علیم و خبیر ہستی کا بنایا ہوا حکیمانہ قانون ہے جو انسان کے تمدّنی امور میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ یہی غیر متبدّل اخلاقی قانون عالم تشریعی میں اللہ کی حاکمیت مطلقہ کی ایک ناقابل تردید دلیل ہے۔
لیکن یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ عالم تشریعی میں اللہ کی حاکمیت کا مفہوم اس کے تکوینی اقتدار اعلیٰ سے قدرے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے واقعی مفہوم کی تفہیم میں بہت سے اہل علم اور مذہبی جماعتوں کو ہر دور میں شدید غلط فہمی لاحق ہوئی ہے۔
عالمِ تکوینی میں خدا کا اقتدار اعلیٰ کسی واسطہ کے بغیر نافذ ہے جب کہ عالم تشریعی میں یہ بالواسطہ ہے اور یہ واسطہ انسان ہے۔ اللہ کی طرف سے انسان کو ارادہ و اختیار کا عطا کیا جانا اس امر کا متقاضی تھا کہ عالم تشریعی میں حکومت کی زمامِ کار اس کے ہاتھ میں دی جائے تاکہ اس کے نفسی کمالات کو ظہور کا موقع ملے۔ اسی کا نام اصطلاحِ شریعت میں خلافت ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو آگے آ رہی ہے۔
عالم تشریعی میں انسان کے اقتدار و حکومت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو زمین پر مطلق حاکمیت حاصل ہے۔ حاکمیتِ مطلقہ تمام تر خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی کی مرضی سے عالم تشریعی میں حکومت بنتی اور بگڑتی ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس شخص یا جماعت کے ہاتھ میں زمین کا اقتدار ہو اور کس وقت یہ اقتدار اس سے واپس لے لیا جائے۔ فرمایا ہے:
ثُمَّ جَعَلْنَاکُمْ خَلاَءِفَ فِیْ الأَرْضِ مِن بَعْدِہِم لِنَنظُرَ کَیْْفَ تَعْمَلُونَ.(۱۰: ۱۴)
’’پھر ان کے بعد اس نے تم کو زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا تاکہ دیکھے کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِکُم مَّا یَشَاءُ کَمَا أَنشَأَکُم مِّن ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ آخَرِیْنَ.(۶: ۱۳۳)
’’اگر وہ چاہے تو تم کو لے جائے (یعنی حکومت سے محروم کر دے) اور تمھارے بعد جس کو چاہے تمھارا جانشین مقرر کرے، جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے اٹھایا۔‘‘
خدا نے عالم تشریعی میں جیسا کہ اوپر بیان ہوا، انسان کو اقتدار و حکومت سے نوازا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی حیثیت خلیفہ کی ہے۔ ۳۰ اس تفویضِ اقتدار کی ایک غرض تو وہ ہے جس کا اس سے پہلے ذکر ہوا یعنی امتحان کہ اقتدار و اختیار ملنے کے بعد اس کا طرز عمل کیا ہوتا ہے (لننظر کیف تعملون: ۱۰۔۱۴)۔ اور دوسری غرض یہ ہے کہ نفوسِ انسانی میں پوشیدہ کمالات ظاہر ہوں اور ان کی تکمیل ہو۔۳۱ ان دونوں اغراض کا تقاضا تھا کہ خلافت قائم ہو، دوسرے لفظوں میں زمین پر انسان کو اقتدار و اختیار دیا جائے تاکہ اس کے ذریعہ تمدن کا اظہار ہو۔ تمدن کیا ہے؟ انسان کے نفسی کمالات کا درجہ بدرجہ ظہور و شیوع۔۳۲
سیاسی معنی میں ہر فرد اپنی جگہ ایک خلیفہ ہے، لیکن کوئی اجتماع یعنی ریاست اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتی جب تک اس کے تمام افراد اختیار و حریت کے اپنے فطری حق سے برضا و رغبت دست بردار ہو کر کسی ایک فرد کو اپنا حاکم یعنی خلیفہ تسلیم نہ کر لیں۔ اور یہی خلافت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ خلافت کی بنیاد معاہدہ پر ہے۔ جو خلیفہ اور افراد اور ریاست کے درمیان انجام پاتا ہے۔ قیامِ خلافت سے افراد کو جو فائدے پہنچتے ہیں ان کی خاطر ہر شخص اپنے حقِ حریت کو بخوشی چھوڑ کر خلیفہ کی اطاعت قبول کرتا ہے۔ سمع و طاعت کے عہد کے ساتھ ہی افراد کی حریت ختم ہو جاتی ہے، لیکن یہ ضائع نہیں ہوتی بلکہ محفوظ ہو جاتی ہے کیونکہ سمع و طاعت کا عہد جس امام سے کیا جاتا ہے وہ عادل اور متقی شخص ہوتا ہے۔ اس طرح امّت جابر و قاہر حکمران کی دست درازی سے محفوظ ہو جاتی ہے۔
اس معاہدے کے قیام و بقا کا انحصار جمہور کے صدق و اخلاص پر ہے۔۳۳ اس سلسلے میں خلیفہ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر خلیفہ کسی ایسے شخص کو بنایا گیا جو عمدہ خصائص کا حامل نہیں ہے تو جمہور کی طرف سے لازماً سمع و طاعت کے اظہار و اقرار میں جس پر بنائے معاہدہ ہے، کمی واقع ہو گی اور امت بتدریج خلافت کے فوائد سے محروم ہوتی جائے گی اور انجام کار خلافت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لیے اس معاملہ میں بڑے حزم و احتیاط اور دور بینی کی ضرورت ہے۔۳۴
مولانا فراہی نے انتخاب کے طریقے سے بحث نہیں کی ہے۔ کتاب میں اس مقام پر نقطے لگے ہوئے ہیں۔۳۵ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس مسئلہ پر اظہار خیال کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اس کا انھیں موقع نہ ملا۔ اسلامی مفکرین میں ابوالحسن ماوردی (۹۷۴۔ ۱۰۵۸ء) نے اپنی کتاب ’الاحکام السلطانیہ‘ میں لکھا ہے کہ خلیفہ کا انتخاب بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ خلیفہ نامزد ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر فاروق کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔
لیکن اس کا انحصار حالات و ظروف پر ہے، کسی متعین طریقے کو لازم کرنا قرینِ حکمت نہیں ہے۔ حالات و مقتضیاتِ زمانہ کے لحاظ سے خلیفہ کے انتخاب کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، البتہ عوام کے ذریعہ خلیفہ کا براہِ راست انتخاب صحیح نہ ہو گا۔ یہ طریقہ اپنے اندر بڑے مفاسد رکھتا ہے۔ خلیفہ کا انتخاب بہر صورت اہل الرائے کے ذمہ ہونا چاہیے البتہ اہل الرائے کے انتخاب میں بعض شرائط کے ساتھ عوام کے نمائندے حصہ لے سکتے ہیں۔ کون اہل الرائے ہے، اس کا فیصلہ حالات اور قومی ضروریات کو سامنے رکھ کر کیا جائے اور یہ کام قوم کے دانش مند لوگ انجام دیں۔ مغرب کے جمہوری ملکوں میں اہل الرائے کا انتخاب براہِ راست عوام کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان ملکوں میں معیارِ خواندگی کے بلند ہونے کی وجہ سے یہ طریقہ ٹھیک ہو لیکن مشرقی ممالک کے مخصوص حالات کی وجہ سے جہاں شرحِ خواندگی بہت کم ہے یہ طریقہ غیر مفید بلکہ نقصان دہ ہو گا۔ غالباً اسی لیے مولانا فراہی نے اس نوع کی حکومت کو ’فوضی‘ کے مثل کہا ہے۔ ۳۶
ابوالحسن ماوردی نے اپنی محولہ بالا کتاب میں لکھا ہے کہ امام مرد ہو، عاقل و بالغ ہو، بلند کردار ہو، عدالت، شجاعت، سخاوت، تواضع، اولوالعزمی اور ثابت قدمی جیسے اوصاف رکھتا ہو، حواس و اعضاء بالکل صحیح و سالم ہوں، اتنا علم رکھتا ہو کہ اجتہاد کر سکے، اوصابتِ رائے اس حد تک ہو کہ موقع و محل کے لحاظ سے فیصلے کر سکے اور اہم معاملات میں اصحابِ عقل و دانش سے مشورہ کرے لیکن فیصلہ اپنی عقل و فہم کے مطابق کرے۔ امام غزالی (۲۰۵۸۔۱۱۱۱ء) نے ’الاقتصاد فی الاعتقاد‘ اور ’احیاء العلوم‘ میں امامت کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور خلیفہ کے جو اوصاف بیان کیے ہیں ان میں اس عہد کے سیاسی حالات کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ اس وقت خلیفہ طاقتور سلطان کے مقابلے میں بے بس تھا۔ چنانچہ امام صاحب خلیفہ کے لیے جہاد، اصابتِ رائے اور قوتِ اجتہاد کو ضروری نہیں سمجھتے کہ ان امور میں وہ سلطان وقت اور علماء دربار پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ امام صاحب ورع یعنی خوف خدا کو خلیفہ کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔
امام ابن تیمیہ (۱۲۶۳۔ ۱۳۲۸ء) نے ’’الریاءۃ الشرعیہ‘‘ میں امام کے اوصاف بیان کرنے کے بجائے لکھا ہے کہ اگر خلیفہ کتاب و سنت کے مطابق حکومت کرے خواہ بہت سارے اوصاف و کمالات نہ رکھتا ہو، تو باعثِ خیر و برکت ہے۔ ابن خلدون (۱۳۳۲۔ ۱۴۰۶ء) کے بیان کے مطابق خلیفہ کے لیے چار بنیادی اوصاف ضروری ہیں، علم (علم اجتہاد)، عدالت، کفایت، (سیاسی مہارت)، شجاعت اور اعضاء و حواس کی درستی۔
شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳۔ ۱۷۶۳ء) نے ’’حجۃ اللّٰہ البالغہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، الخیر الکثیر اور البدور البازغہ‘‘ میں جا بجا سیاسی امور پر گفتگو کی ہے۔ شاہ صاحب نے خلیفہ کے جو اوصاف بیان کیے ہیں وہ تقریباً وہی ہیں جو ماوردی نے ذکر کیے ہیں۔ یعنی وہ عاقل و بالغ، آزاد، بہادر، صائب الرائے، اور عادل ہو۔ عمدہ شہرت کا مالک ہونا بھی شاہ صاحب کے نزدیک ضروری ہے۔ علامہ جمال الدین افغانی (۱۸۳۹۔ ۱۸۹۷ء) کے نزدیک اصابت رائے، بلند حوصلگی اور سلیم الطبعی ایک اچھے حکمران کے بنیادی اوصاف ہیں۔ علامہ اقبال (۱۸۷۷۔ ۱۸۳۸ء) نے خلیفہ کے اوصاف کے تعین میں ماوردی کا اتباع کیا ہے۔
اوصافِ خلیفہ کے متعلق مولانا فراہی کا خیال زیادہ جامع اور دور جدید کے حالات کے لحاظ سے قابلِ ترجیح ہے۔ مولانا کے نزدیک خلیفہ کے لیے درج ذیل اوصاف ضروری ہیں:
(۱) سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اس کی فرماں برداری کرنے والا ہو۔۳۷
(۲) دوربیں اور حقیقت شناس ہو۔۳۸
(۳) متواضح اور خاکسار ہو۔۳۹
(۴) صاحب عزم و ہمت ہو۔۴۰
(۵) خدا پر بھروسہ رکھنے والا ہو۔۴۱
(۶) حق کے معاملہ میں اس کا دل تذبذب سے خالی ہو اور اس کی حمایت میں کوئی تامّل نہ ہو۔۴۲
(۷) جاہ و منزلت کے طلب سے بے نیاز اور اس سے دور بھاگنے والا ہو۔۴۳
(۸) لیکن کرسی اقتدار پر فائز ہونے کے بعد عدل و قسط کے قیام میں ساعی ہو۔۴۴
خلیفہ کے مذکورہ اوصاف میں پہلی صفت غیر واضح ہے۔ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کون سب سے زیادہ متقی او ر خدا کا فرماں پردار ہے۔ اس لیے یہ ایک زائد شرط ہے۔ بقیہ شرطوں سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ قرآن کی درج ذیل آیت میں ایک اچھے حکمراں کے اوصاف کو بڑے جامع اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا:
قَالُوَاْ أَنَّی یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِیْ الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ.(۲: ۲۴۷)
’’انھوں (یعنی یہودیوں) نے کہا کہ وہ (یعنی طالوت) کیونکر ہم پر بادشاہ ہو گا، ہم اس سے کہیں زیادہ بادشاہت کے حقدار ہیں، اور وہ کچھ صاحب مال و زر بھی نہیں ہے۔ (ان کے نبی نے) کہا، اللہ نے تم پر بادشاہت کے لیے اسی کو چنا ہے، اور اس کو علم اور جسم میں کشادگی عطا کی ہے۔‘‘
اس آیت کے مطابق ایک اچھے حکمراں کے اندر دو صفتوں کا ہونا ضروری ہے، ایک علم اور دوسرے جسم۔ علم سے مراد یہ ہے کہ حکمراں عاقل و دانا ہو، یعنی دوربیں اور معاملہ فہم، ان مبادیاتِ سیاست سے پوری طرح آشنا ہو جو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ دین کے کلیات سے بھی بخوبی واقف ہو، عالم و فاضل ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء کارِ حکومت کے لیے موزوں نہیں ہیں، اس لیے کہ وہ جذباتی او رغیر حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ علامہ ابنِ خلدون نے اپنے مشہور مقدمہ میں اسی خیال کا اظہار کیا ہے جو راقم کے نزدیک بالکل صحیح ہے۔ علماء کا کام محض مذہبی معاملات کی دیکھ بھال ہے۔
آیت میں ’جسم‘ سے مراد واضح طور پر حکمراں کا صاحب عزم و ہمت ہونا ہے جیسا کہ دوسرے مفکرین نے بھی لکھا ہے۔ وہ جسمانی لحاظ سے صحت مند اور بارعب ہو، اس میں کہیں کوئی معمولی سا خلقی نقص نہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ حوصلہ مند اور جری ہو، یعنی نامساعد حالات میں ہمت و حوصلہ نہ ہارے بلکہ چٹان کی طرح اپنی جگہ ثابت و قائم رہے، حتیٰ کہ اس کو اپنی جان کی بھی فکر نہ ہو۔ مولانا فراہی او ردوسرے مفکرین نے خلیفہ کے جن اوصاف کا ذکر کیا ہے وہ دراصل انھی دو صفات کی شرح و تفصیل ہے۔
مولانا فراہی نے خلیفہ کے فرائض سے کوئی بحث نہیں کی ہے۔ ممکن ہے کہ ان کو اس کا موقع نہ ملا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ قرآن میں حکمراں (خلیفہ) کے فرائض واضح لفظوں میں مذکور ہیں اس لیے ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھا۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق خلیفہ کے درج ذیل فرائض ہیں:
(۱) نماز اور زکوٰۃ کے نظامات کا قیام
(۲) امر بالمعروف و نہی عن المنکر
(۳) قیام عدل
پہلے اور دوسرے فرض کا ذکر ایک جگہ ان لفظوں میں ہوا ہے:
الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ.(۲۲: ۴۱)
’’(وہ لوگ کہ) اگر ہم ان کو زمین میں جمادیں (یعنی اقتدار عطا کریں) تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کاموں کا حکم دیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے۔ اور معاملات کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
تیسرے فرض یعنی قیام عدل کے سلسلے میں فرمایا:
إِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ.(۴: ۵۸)
’’جب تم لوگوں کے درمیان (ان کے معاملات کا) فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی.(۵: ۸)
’’کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو کہ یہ بات تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام کے ذکر میں ہے:
یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ.(۳۸: ۲۶)
’’اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا، پس تم لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرو اور (اس معاملے میں) خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ یہ چیز تم کو راہِ حق سے برگشتہ کر دے گی۔‘‘
مولانا فراہی نے لکھا ہے کہ سلب خلافت کی ایک اہم وجہ مسلوب قوم کے اعمال ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم کے اربابِ حل و عقد عدل و قسط کی راہ چھوڑ دیتے ہیں اور یہ فساد بڑھ کر پوری قوم میں سرایت کر جاتا ہے تو پھر لوگ صالح افراد کی پیروی چھوڑ کر غیر صالح لوگوں کی پیروی کرتے ہیں، جن کے اقوال و اعمال ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہوتے ہیں۔ انجام کار ظالم او رشر پسند ان پر غالب آ جاتے ہیں اور وہ کسی کی رائے یا مرضی کا لحاظ کیے بغیر ظالمانہ طریقوں سے ان پر حکومت کرتے ہیں۔ اسی کا نام ملوکیت ہے۔ ۴۵ خلافت و ملوکیت میں جو چیز فرق و امتیاز پیدا کرتی ہے وہ انتخاب امیر ہے۔ حق انتخاب کے مسلوب ہونے کے ساتھ ہی خلافت ختم ہو جاتی ہے اور ملوکیت کا آغاز ہوتا ہے۔۴۶
خلافت اور ملوکیت کی بحث میں بہت سے علماء نے غلطی کی ہے۔ انھوں نے خلافت کی دو قسمیں بتائی ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کے ارباب معاملہ کسی کو خلیفہ منتخب کریں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کو منتخب کیا گیا تھا، دوسرے یہ کہ خود خلیفہ کسی شخص کو اپنا جانشین مقرر کر دے جیسا کہ خلیفۂ اول نے حضرت عمر فاروق کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ خلافت کی ایک تیسری قسم بھی ہے اور وہ یہ کہ کوئی صاحب قوت شخص جبراً تخت اقتدار پر فائز ہو جائے۔ علماء کے نزدیک اس صورت میں بھی خلافت قائم ہو جاتی ہے۔ ردّ المحتار میں ہے:
فقد علم انہ یصیر اماماً بثلثۃ لکن الثالث فی الامام المتغلب و ان لم تکن فیہ شروط الامامۃ وقد یکون بالتغلب مع مبایعۃ و ھوالواقع فی سلاطین الزمان نصرھم الرحمن.۴۷
’’پس معلوم ہوا کہ امام تین طرح سے ہو سکتا ہے لیکن تیسری صورت امامِ متغلّب کی ہے اگرچہ اس میں شرائط امامت مفقود ہوں۔ اور کبھی تغلب کے ساتھ مبایعت (یعنی بیعت کرے) سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ اس زمانہ کے سلاطین میں جاری ہے۔ اللہ ان کی مدد فرمائے۔‘‘
اکثر علماء و فقہاء کے نزدیک امامِ متغلّب کی اطاعت واجب ہے اور اس کے خلاف خروج جائز نہیں ہے۔ ردّالمتار کے الفاظ ملاحظہ ہوں: بعد الستقرار سلطنتۃ ونفوذ قھرہ لا یجوز الخروج علیہ کما صرحوابہ ’’امامِ متغلّب کی سلطنت کے استقراء کے بعد اس کے خلاف خروج جائز نہیں ہے جیسا کہ فقہاء نے تصریح کی ہے۔‘‘ امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے: فیہ دلیل بوجوب طاعۃ المستولین للامامۃ بالقھر من غیر اجتماع ولا عھد۔ ۴۸ اس حدیث میں اس امر کی دلیل ہے کہ جو شخص بزور قوت کسی رضا مندی اور وصیت کے بغیر امامت پر قابض ہو جائے اس کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔‘‘
لیکن مولانا فراہی اس کو خلافت کے بجائے ملوکیت قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک قیام خلافت بغیر انتخاب کے ممکن نہیں ہے۔ قہر و غلبہ کی حکومت ہی کا دوسرا نام ملوکیت ہے۔ لیکن امامِ متغلّب کی اطاعت کو وہ بھی جائز کہتے ہیں کیونکہ حکومت نہ ہونے سے اس کا ہونا بہتر ہے، بالخصوص اُمّتِ غیر صالحہ کے لیے۔ اگر سرے سے حکومت ہی ختم ہو جائے تو پھر سماج میں فساد و انارکی پھیل جائے گی۔ اس وجہ سے مخصوص حالات میں ملوکیت کو گوارا کیا جا سکتا ہے۔ ۴۹
امامِ متغلّب کی اطاعت اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ غیر صالح قوم میں بھی صالح افراد موجود ہوتے ہیں، اس لیے عین ممکن ہے کہ کبھی کوئی ایسا شخص برسراقتدار آ جائے جو صالح اور متقی ہو۔۵۰ ایسا شخض خود رائے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ غیر صالح قوم اپنے حقِ حرّیت کو ضائع کر چکی ہوتی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذولقرنین ہیں۔۵۱ گو کہ یہ ملوک تھے اور اپنے فیصلوں میں کسی کی رائے اور مشورے کے پابند نہ تھے لیکن اس کے باوجود ان کی حکومت عدل و تقویٰ کی بنیاد پر قائم تھی۔
ملوکیت سے خلافت کی طرف مراجعت کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے اخلاق و معاملات کو پوری سختی کے ساتھ درست کیا جائے، کیونکہ جمہور کا فسادِ اخلاق ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔۵۲ حاکم بہر حال جمہور ہی کا ایک فرد ہوتا ہے۔ اگر قوم درست ہے تو لازماً حاکم بھی درست ہو گا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قوم باعتبار باطن نادرست ہے۔ اور اس کی اصلاح کے بغیر حقیقی معنی میں قیامِ خلافت ممکن نہیں ہے۔
مولانا فراہی نے خلیفہ کی معزولی سے کوئی بحث نہیں کی ہے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر اہلِ علم کے نزدیک خلیفہ کو معزول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی مختار مذہب ہے۔ امام ابو محمد کے نزدیک فسق کی وجہ سے خلیفہ کا عزل جائز ہے۔ ’شرح موقف‘ میں ہے کہ جس طرح امت کو خلیفہ بنانے کا حق حاصل ہے اسی طرح وہ منصب خلافت سے اس کو معزول کرنے کا حق بھی رکھتی ہے، جب کہ خلیفہ سے ایسے افعال صادر ہوں جن سے مسلمانوں کے احوال و معاملات میں اختلال پیدا ہو اور اُمورِ دینی میں ضعف آنے کا قوی اندیشہ ہو۔ لیکن اگر اس کی معزولی سے فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر اس سے گریز بہتر ہے اور کم تر درجہ کی مضرت کو برداشت کیا جائے۔
ملوکیت کے نقصانات اور خلافت کے فوائد کے پیش نظر قیامِ خلافت مسلمانوں پر واجب ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اس کو اپنا نصب العین اور مقصد حیات بنائیں اور اس کے لیے ہر ممکن جد و جہد کریں اور اس راہ میں ایثار و قربانی سے دریغ نہ کریں حتیٰ کہ اس کے لیے اپنی فطری آزادی کو بھی قربان کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ ہو۔۵۳
قیام خلافت کی اس بات کو ہندوستان کی ایک دینی جماعت نے اس مفہوم میں لیا کہ مسلمانوں پر حکوت الٰہیہ کا قیام واجب ہے خواہ وہ سیاسی اعتبار سے مغلوب ہوں، یعنی انھیں نہ آزاد علاقہ حاصل ہو اور نہ سیاسی اقتدار۔ قیام خلافت کی یہ تعبیر غلط اور مضرت رساں ہے۔۵۴
مولانا فراہی نے جس قیام خلافت کی بات کہی ہے اور اس راہ میں سب کچھ قربان کر دینے کی ترغیب دی ہے اس کا تعلق ان مسلمانوں سے ہے جن کو علاقائی خودمختاری اور سیاسی بالادستی حاصل ہو، کیونکہ حرّیت اور اختیار کے بغیر قیام خلافت ممکن نہیں ہے۔ سیاسی اعتبار سے مغلوب مسلمان ان دونوں نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہے وہاں بھی قیام خلافت سے پہلے عام مسلمانوں کے اخلاق کی اصلاح و تربیت ضروری ہے، یعنی ان کو عمل کی دعوت دی جائے جس میں توحید اور اخلاق حسنہ کی تعلیمات کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ مولانا فراہی لکھتے ہیں:
’’اس سے معاملہ کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمّہ داری سے عہدہ برآمد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے عمل صالح کریں، پھر ادائے حقوق کے معاملہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و ریاست کے ممکن نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلاف قائم کریں اور خلافت کا قیام چونکہ اطاعت امیر پر منحصر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر اطاعت بھی موجود ہو۔‘‘ ۵۵
عملِ صالح کے مرحلہ سے گذرے بغیر بالفرض کسی مذہبی گروہ کو حکومت مل بھی جائے تو باعتبار نتائج وہ دنیوی حکومت سے مختلف نہ ہو گی، کیونکہ عدل و قسط کی بنیاد پر حکومت چلانے کے لیے جس طرح کے ذی استعداد اور صاحب کردار افراد کی ضرورت ہے وہ قوم میں موجود نہ ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے قوم کی اخلاقی اور ذہنی حالت کو درست کرنے کے لیے ایک طویل المدت لائحہ عمل بنایا جائے اور اس کے مطابق جد و جہد کی جائے۔ جس وقت یقین ہو جائے کہ ایک ایسا گروہ تیار ہو گیا ہے جو صلاحیت اور کردار کے اعتبار سے زمام حکومت سنبھالنے کی استعداد رکھتا ہے تو اس وقت قوم کے سیاسی معاملات میں حصہ لیا جائے اور حکومت میں تبدیلی کے لیے حالات کے لحاظ سے مناسب اقدامات کیے جائیں۔
اس کے برخلاف جن ملکوں میں مسلمان سیاسی اعتبار سے مغلوب ہوں وہاں ان کا طریقۂ کار اس سے مختلف ہو گا۔ ان کو صبر اور تقویٰ کی راہ میں ایک طویل مدت تک چلنا ہو گا یہاں تک کہ غالب قوم کی اجلِ معیّن پوری ہو جائے۔
اصولی طور پر یہ بات سمجھ لیں کہ حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ اسی فرد یا جماعت کو ملتی ہے جس میں حکومت کرنے کی زیادہ اہلیت ہوتی ہے۔ اس میں کافر و مسلم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ منکرین خدا کو بھی اسی اصول کے تحت حکومت ملتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ کسی غیر صالح حکمراں سے راضی نہیں ہوتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ فرعوں اور نمرود کی حکومت سے اللہ خوش تھا لیکن وہ خدا کی مرضی ہی سے تخت حکومت پر متمکّن ہوئے۔ فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ. (۲: ۲۵۸)
’’کیا تم کو اس شخص کا قصہ نہیں معلوم جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں مباحثہ کیا اس وجہ سے کہ اللہ نے اس کو حکومت دی تھی۔‘‘
سوال یہ ہے کہ خدا نے نمرود جیسے کافر و مشرک کو حکومت کیوں دی تھی؟ جواب بالکل واضح ہے کہ اس دور کے مخصوص حالات میں خاندان نمرود کے اندر حکومت کرنے کی اہلیت زیادہ تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذہنی اعتبار سے ناکارہ اور اخلاقی لحاظ سے بودی قوم کو اللہ کبھی زمینی اقتدار عطا نہیں کرتا، خواہ وہ کتنی ہی ظاہری عبادتیں کرے اور کتنی ہی دعائیں کرے۔ اس معاملے میں دعا اور عبادت جیسے اعمال اسی وقت مؤثر بنتے ہیں جب قوم کا اجتماعی شعور بیدار ہو اور وہ اخلاقی لحاظ سے اپنے حریفوں سے بلند و برتر ہو۔
__________
۲۵ فی ملکوت اللہ، ص۱۰۔
۲۶ فی ملکوت اللہ، ص۱۳، ۱۷۔
۲۷ فی ملکوت اللہ، ص۲۰۔
۲۸ فی ملکوت اللہ، ص۱۸۔
۲۹ فی ملکوت اللہ، ص۱۸۔
۳۰ اکثر علماء نے خلیفہ سے خلیفۃ اللہ مراد لیا ہے یعنی اللہ کا نائب ۔ اس تصور کے ساتھ بعض دینی جماعتوں نے جب دکھا کہ زمین پر فسّاق و فجار کو غلبہ حاصل ہے تو اس سے انھوں نے یہ سمجھا کہ وہ غاصب ہیں، اس لیے اللہ کے ماننے والوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے غلبہ و اقتدار کو ختم کرنے کے لیے جہاد کریں۔ خلیفہ کا یہ مفہوم کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں، رقم کی کتاب ’’احیائے اُمّت اور دینی جماعتیں‘‘ صفحہ ۱۷۸ تا ۱۸۹۔
۳۱ فی ملکوت اللہ، ص ۱۰، ۱۱۔
۳۲ فی ملکوت اللہ، ص ۲۲۔
۳۳ فی ملکوت اللہ، ص۳۲۔
مغربی مفکرین مثلاً ہابس (۱۵۸۶۔ ۱۶۷۹ء) اور جان لاک (۱۶۳۲۔ ۱۷۰۴ء) نے گوکہ حکومت کی بنیاد معاہدہ (Contract) پر رکھی ہے لیکن اقتدار اعلیٰ کے معاملے میں افراط و تفریط کی روش اختیار کی ہے۔ ہابس کا حاکم مطلق العنان ہے اور جان لاک کا بے اختیار کیونکہ اس کے خیال میں اصل مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ ہے۔ فرانسیسی مفکر روسو (۱۷۱۲۔۱۷۷۸ء) نے ان دونوں سے الگ راہ اختیار کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے اور اس نے جان ومال کی حفاظت کی غرض سے معاہدہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ حاکم اور محکوم کے درمیان نہیں بلکہ افراد کا ایک باہمی معاہدہ ہے اور وہی اس معاہدہ کی اصلی قوت ہیں۔ اس نظریے کے مطابق عوام ہی مقتدر اعلیٰ ہیں۔ مغرب کی جمہوریت اسی اصول پر مبنی ہے۔
اسلام میں گو کہ خلیفہ کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں لیکن اسے مشورہ کا پابند کیا گیا ہے۔ یہ در اصل خودرائی اور مطلق العنانی پر ایک روک ہے۔ جس طرح افرادِ ریاست پر خلیفہ کی اطاعت ازروئے معاہدہ واجب ہے، اسی طرح خلیفہ پر لازم ہے کہ وہ معاملات حکومت میں عوام کے اہل الرائے سے مشورہ کرے۔ اور یہ قرآن مجید کے اس حکم کے مطابق ہو گا: و امرہم شوریٰ بینھم (سورۂ شوریٰ: ۳۸)۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ نہ مطلق العنان ہوتا ہے اور نہ مجبور محض بلکہ وہ درمیانی حیثیت رکھتا ہے۔
۳۴؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۵۔
۳۵؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۵۔
۳۶؎ فی ملکوت اللہ، ص۴۶۔
۳۷؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۳۸؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۳۹؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۴۰؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۴۱؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۴۲؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۴۳؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۴۴؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔
۴۵؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۵۔
۴۶؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۵۔
۴۷؎ ابن عابدین، ردّالمحتار علی الدرالمختار، ج۳ ص۲۳۸۔
۴۸؎ امام نووی، شرح مسلم (کتاب الامارہ، باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلیفۃ الاوّل)، کتب خانہ رشیدیہ دہلی، ۱۳۷۶ ھجری، ج۱۲، ص۲۳۴۔
۴۹؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۶۔
۵۰؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۶۔
۵۱؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۷۔
۵۲؎ فی ملکوت اللہ، ص۲۸۔
۵۳؎ فی ملکوت اللہ، ص۳۱۔
۵۴؎ قارئین راقم کی کتاب، ’’احیائے اُمّت اور دینی جماعتیں‘‘ ملاحظہ کریں۔
۵۵؎ مولانا حمید الدین فراہی، تفسیر سورہ والعصر (تفسیر نظام القرآن) دائرہ حمیدیہ، سرائے میر اعظم گڑھ، ۱۹۹۰ء ص۳۴۴۔
__________________