HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

سعید بن زید رضی اﷲ عنہ

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حضرت سعید ۵۹۳ء یا ۵۹۴ء(ہجرت سے ۲۹ سال قبل)میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام زیداور دادا کا عمرو بن نفیل تھا، والدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھاجو بنو خزاعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔عدی ان کے نویں جد تھے جن کی نسبت پر انھیں عدوی کہا جاتا ہے ۔ دسویں پشت کعب بن لؤی پرسعید کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔ بنو عدی قریش کی ایک شاخ تھے۔یہ بنو ہاشم اور بنو امیہ جیسا مرتبہ نہ رکھتے تھے لیکن جب ان میں علم و حکمت کا چرچا ہوا تو قریش کے قبائلی تنازعات اور جنگ و جدال میں پیش آنے والے نزاعات نمٹانے کی ذمہ داری (سفارتِ مفاخرت) انھیں سونپی گئی۔ سعید کے چچا زاد،عمربن خطاب بھی اس منصب پر فائز ر ہے، نفیل دونوں کے دادا تھے۔سعید کی کنیت ابواعور (یا ابوثور) تھی۔

سعید کے والد زید نے دوسری جنگ فجار میں جوعام فیل کے ۲۰ سال بعد ہوئی اپنے قبیلے بنو عدی کی نمائندگی کی۔ تب رسول اکرم کی عمر مبارک ۲۰ سال تھی اور آپ بنوہاشم کے دستے میں شامل تھے۔زید بتوں کی پوجا سے نفرت کرتے تھے، دینِ صحیح کی تلاش کرتے کرتے شام تک گئے۔ ورقہ بن نوفل بھی ان کے ساتھ تھے جنھوں نے پہلے مذہبِ یہود اختیار کیا پھر نصرانی بن گئے لیکن زید کو یہود و نصاریٰ کا دین پسندنہ آیا۔ان کا کہنا تھا،اگر ہم اہل شرک ہیں تو شرک کا ارتکاب کرنے میں یہ بھی کم نہیں ۔زید موصل پہنچے تو ایک راہب نے ان سے کہا، تو دین ابراہیم کی تلاش میں ہے جو اب دنیا میں نہیں پایا جاتا۔پوچھا ، ان کا دین کیا تھا؟ اس نے بتایا،ابراہیم یکسو تھے ، اﷲ واحد کی عبادت کرتے ، کسی کو اس کا شریک ٹھہراتے نہ بتوں کے نام کا ذبیحہ چکھتے۔ زید نے کہا، میرا دین بھی یہی ہے چنانچہ وہ دین حنیف پرپختہ ہو گئے ، بیت اﷲ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور صرف اﷲ کے نام پر ذبح کیا ہوا کھاتے ۔ سیدناعمر کے والدخطاب بن نفیل نے ان کی شدید مخالفت کی ، ایذائیں پہنچائیں اورقبیلے کے لوگوں کے ساتھ مل کر مکہ سے نکال باہر کیا، وہ جبل حراپر پناہ لینے پرمجبور ہو گئے۔خطاب زید کے چچا ہونے کے ساتھ ان کے ماں جائے بھائی بھی تھے کیونکہ دونوں کی ماں جیدا پہلے نفیل اور پھر ان کے بیٹے عمرو کے نکاح میں رہی۔ جاہلیت میں ایسی شادی عام تھی، قرآن مجید نے اسے گناہ کی شادی (زواج المقت)کا نام دے کر حرام کردیا۔ زید نے کئی بچیوں کی جان بھی بچائی جنھیں ان کے والدین زندہ گاڑنے لگے تھے ۔ جب بچی ذرا بڑی ہو تی توزید اسے لے جاتے ، اس کا تمام خرچہ اٹھاتے اور اس کے والد سے کہتے ، تم کہو گے تو اسے لوٹا دوں گا یا اس کی کفالت کرتا رہوں گا۔ زید آخری دم تک اولاد اسماعیل میں آنے والے نبئ آخر الزمان کی انتظار میں رہے۔ واقدی کا کہنا ہے کہ زید طبعی موت مرے اور جبل حرا کے دامن میں دفن ہوئے جب کہ ہشام بن عروہ کی روایت کے مطابق آنحضور کی بعثت کے وقت وہ شام میں تھے اور آپ کی آمد کی خبر سن کر مکہ آ رہے تھے کہ میفعہ (بلقان) کے لوگوں نے انھیں قتل کر دیا۔زید نے عامر بن ربیعہ سے کہاتھا، میری وفات کے بعد تم آخری رسول کا زمانہ پاؤ تو انھیں میرا سلام کہنا۔ جب نبئ امی مبعوث ہوئے اور عامرنے اسلام قبول کیا تو آپ کو ان کی یہ وصیت سنائی۔ آپ نے زید کے سلام کا جواب دیا، ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور فرمایا، میں ان کو جنت میں خوشی سے چلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں ۔ سعیدبن زید اور عمربن خطاب نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے زید کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے بارے میں استفسارکیاتوآپ نے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا،’’زید روزِ قیامت ایک امتی کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘ سعید کی والدہ نے بعثت نبوی کا زمانہ پایا اور اسلام کی طرف سبقت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

سعید کے والد نے دعا کی تھی،اے اﷲ ! اگر تو نے مجھے یہ نعمت (اسلام)پانے کی مہلت نہ دی تو میرے بیٹے سعیدکواس سے محروم نہ رکھنا۔ ان کی تربیت اور دعا ہی کا نتیجہ تھا کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو سعید فوراً مسلمان ہو گئے۔ابھی آپ نے دار ارقم میں دعوت کا کام شروع نہ کیا تھا، اندازہ ہے کہ انھوں نے۶۱۱ء (۲نبوی) میں اسلام قبول کیا جب ان کی عمر ۲۰ سال سے بھی کم تھی۔ ابن ہشام کہتے ہیں، سعید پہلے آٹھ سابقون الاولون (علی، زید بن حارثہ،ابوبکر،عثمان، زبیر، عبدالرحمان، سعد اور طلحہ) کے بعدمسلمان ہوئے۔ ابوعبیدہ، ابوسلمہ، ارقم، عثمان بن مظعون،عبیدہ بن حارث، فاطمہ بنت خطاب، اسمابنت ابو بکر، عائشہ بنت ابوبکر، خباب،عمیر بن ابی وقاص، عبداﷲ بن مسعود،مسعود بن ربیعہ،سلیط بن عمرو،حاطب بن عمرو، عیاش بن ابو ربیعہ،اسما بنت سلامہ،خنیس بن حذافہ،عامر بن ربیعہ،عنز بن وائل، عبداﷲ بن حجش،ابواحمد بن حجش،جعفر بن ابو طالب،اسما بنت عمیس، حاطب بن حارث، فکیہہ بنت یسار،معمر بن حارث،سائب بن عثمان،نُعیم بن عبداﷲ (نحّام)، عامر بن فہیرہ، خالد بن سعید،ابو حذیفہ، واقد بن عبداﷲ،عمار بن یاسر اورصہیب بن سنان کے مشرف باسلام ہونے کا زمانہ بھی وہی ہے۔پہلے پچاس مسلمانوں کی فہرست میں سعیدکا نمبر اٹھائیسواں اور ان کی اہلیہ فاطمہ کا ستائیسواں ہے۔ سعید کے ایمان لانے کی تفصیل ہمیں معلوم نہیں البتہ حضرت عمر کے قبول اسلام کے تذکرے میں ان کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں سعید کا بیاہ عمر کی بہن فاطمہ بنت خطاب سے ہوچکا تھا۔ دونوں میاں بیوی مسلمان ہو ئے تو اپنا ایمان عمر سے چھپائے رکھا جو اس وقت اسلام سے دور ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے۔خباب بن ارت فاطمہ کے گھر جاتے اور انھیں قرآن مجید سکھاتے ۔ پہلی ہجرت حبشہ کے بعد کا واقعہ ہے،ایک دن عمر کو معلوم ہوا کہ محمدﷺ کوہ صفا کے دامن میں واقع دار ارقم میں ہیں اور ۴۰ صحابہ آپ کے پاس جمع ہیں تووہ تلوار لے کر نکلے۔ راستے میں نُعیم بن عبداﷲ(نحّام) ملے۔انھوں نے پوچھا ،کدھر کا اردہ ہے؟ میں محمدﷺ کی طرف جا رہا ہوں جنھوں نے قریش کے خداؤں کو برا بھلا کہا اور ان کی جمعیت کو منتشر کر دیا ہے۔نُعیم نے کہا،اگر تم نے محمدﷺ کو قتل کیا تو بنو عبد مناف تجھے جیتا نہ چھوڑیں گے۔ تواپنے اہل خانہ کے پاس جاکر انھیں کیوں نہیں سدھارتا؟ پوچھا ، کون سے اہل خانہ؟نُعیم نے کہا، تمہارے بہنوئی اور چچیرے سعید اور تمہاری بہن فاطمہ ،واﷲ !وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔عمر اسی وقت بہن کے گھر کی طرف بھاگے جہاں دونوں میاں بیوی خباب سے قرآن حکیم کا سبق لے رہے تھے، آہٹ پاکر انھوں نے خباب کو چھپا دیا ۔ دروازہ کھلا تو عمر نے پوچھا ،یہ کچھ پڑھنے کی آواز آ رہی تھی، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم محمد ﷺکے پیرو ہو گئے ہو۔ پھر سعیدکو پکڑ لیا اور پیٹنے لگے، بہن فاطمہ نے چھڑانا چاہا تو ان کا سر بھی پھاڑ دیا۔فاطمہ بولیں ،عمر!ہم اﷲو رسول پر ایمان لاکراسلام میں داخل ہو چکے ہیں، تمہارا جو جی چاہتا ہے کر لو۔ عمر نے اپنی بہن کو خون آلود دیکھا تو پشیمان ہوگئے اور کہا،وہ اوراق مجھے بھی دکھاؤ جوتم پڑھ رہے تھے۔ سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات کاپڑھنا تھا کہ عمر کی دنیا بدل گئی اور وہ فوراً اسلام لانے پر آمادہ ہو گئے۔اتنے میں خباب سامنے آئے اور انھیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔

نبوت کے تیسرے سال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کی طرف سے حکم ہو ا،’’فاصدع بما تؤمر‘‘، توجو حکم وحی آپ کو ملا ہے ،کھلے بندوں کہہ دیں۔ (سورۂ حجر:۹۴)تب صحابہ گھروں سے باہر نکل کر پہاڑوں کی اوٹ میں نماز پڑھنے لگے۔ایک بار سعد بن ابی وقاص،عمار بن یاسر،عبداﷲ بن مسعود،خباب بن ارت اور سعید بن زید مل کر ایک گھاٹی میں نماز ادا کر رہے تھے کہ مشرکوں کا ایک ٹولا آ دھمکاجس میں ابوسفیان اور اخنس بن شریق بھی تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو برا بھلا کہا، گالی گلوچ کی ،ان کو مار پیٹ کرنے لگے تھے کہ سعد بن ابی وقاص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر ایک مشرک(عبداﷲ بن خطل) کو دے ماری جس سے وہ زخمی ہو گیا ۔یہ شرک و اسلام کی کشمکش میں نکلنے والا پہلا خون تھا۔

سعیدحبشہ کو ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں شامل نہ تھے۔جب ہجرت مدینہ کا موقع آیا تووہ عمر بن خطاب ،زید بن خطاب،عبداﷲ بن سراقہ،خنیس بن حذافہ،واقد بن عبداﷲ اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر مدینہ گئے۔ان کا قیام ابولبابہ(بشیربن عبدالمنذر) کے بھائی رفاعہ بن عبدالمنذر کے گھر ہوا جو بنو عمرو بن عوف (قبا) میں رہتے تھے۔ ابن سعد کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سعید اور رافع بن ملک زرقی کے درمیان مواخات قائم فرمائی جو انصار کے ابتدائی مسلمان اور بیعت عقبہ کے بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جب کہ ابن ہشام کا کہنا ہے ، ابی بن کعب سعیدکے انصاری بھائی بنے۔

۲ھ میں ابوسفیان کی قیادت میں قریش کاایک قافلہ تجارت کی غرض سے شام گیا ،اسے مدینہ سے گزر کر مکہ واپس جانا تھا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے طلحہ بن عبیداﷲ اور سعید بن زید کوقافلے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ دونوں مدینہ سے نکل کر شام کے راستے پر واقع مقام حورا پہنچے اور قافلے کا انتظار کرنے لگے ۔اسی اثنا میں آپ کوقافلے کی آمد کی اطلاع مل گئی اس لیے آپ۳۱۳ جان نثارصحابہ کی مختصر فوج لے کر مدینہ سے نکل پڑے۔ قافلے نے تعاقب سے بچنے کے لیے مسلسل دن رات سفر شروع کر دیا اور ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے مکہ واپس پہنچ گیا۔ادھر طلحہ او ر سعید جنھیں آپ کی روانگی کا علم نہ تھا، آپ کو اطلاع کرنے کے لیے مدینہ لوٹے۔عین اس وقت بدر کے میدان میں معرکۂ فرقان برپا تھاجس میں قریش کے بہترین افراد پر مشتمل لشکر نے نئی اسلامی فوج کے ہاتھوں بری طرح شکست کھائی۔ دونوں اصحاب مدینہ سے پھر نکلے ، تربان کے مقام پر ان کی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی،آپ بدر سے وپس آ رہے تھے۔ طلحہ اور سعیداپنی اس مہم کی وجہ سے جنگ بدرمیں شامل نہ ہو سکے جو رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے انھیں سونپی گئی تھی اس لیے آپ نے انھیں مال غنیمت میں سے اسی طرح پورا حصہ عطا فرمایا جیسے اس جنگ میں شریک اصحاب کو ملا تھا۔سات اصحاب اور بھی تھے جنھیں آپ نے جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کے باوجودحصۂ غنیمت عطا فرمایا، عثمان بن عفان جنھیں آپ نے ان کی اہلیہ اوراپنی دختررقیہ کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دیا تھا، ابولبابہ جن کو آپ نے مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر کیا تھا، عاصم بن عدی جنھیں آپ نے اپنی غیرموجودگی میں عالیہ (حجاز،مدینہ کا بالائی علاقہ)کا نگران مقرر فرمایا، حارث بن حاطب جن کو آپ نے مدینہ سے ۴۰ میل باہر نکل کر روحا کے مقام سے کسی ضروری کام کے لیے بنو عمرو بن عوف (اوس کا ذیلی قبیلہ جوقبا اور صُفینہ میں مقیم تھا) واپس بھیج دیا،حارث بن صمہ جو روحا پہنچ کر بیمار پڑے ، خوات بن جبیرجوبدر میں علیل ہوئے، ابو ضیاح بن ثابت جن کی ٹانگ پتھر لگنے سے زخمی ہو گئی، آپ نے ان تینوں کولوٹا دیا۔

سعید جنگ احد، جنگ خندق اور تمام معرکوں میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔وہ صلح حدیبیہ میں بھی موجود تھے۔

سعید کاتبین وحی میں سے تھے،جب رسول اکرم پر قرآن کی نئی آیت نازل ہوتی تو آپ کے حکم سے تحریر کر لیتے۔

سعیدکی بہن عاتکہ بنت زید حضرت ابوبکر کے صاحب زادے عبداﷲ کے نکاح میں تھیں ۔وہ جنگ طائف میں ایک تیر لگنے کے کچھ عرصہ بعدوفات پا گئے تو وہ عمر کی زوجیت میں آ گئیں۔

سعید بن زید سے پوچھا گیا، حضرت ابوبکر کی بیعت خلافت کب ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا، اسی روزجس دن رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات ہوئی۔صحابہ نے پسند نہ کیا کہ وہ دن کا کچھ حصہ بھی نظم اجتماعی کے بغیر گزاریں۔پھر سوال کیا گیا ،کیا کسی نے ان کی مخالفت کی؟تو انھوں نے کہا ، نہیں ! سوائے اس کے جو مرتد ہونا چاہتا تھا۔ سعید سے پوچھا گیا،کیا کوئی مہاجر ان کی بیعت کرنے میں پیچھے رہا تو انھوں نے جواب دیا ،نہیں۔ خلیفۂ اول ابوبکر صدیق نے اپنے مرض الموت میں حضرت عمر کو جانشین نامزد کرنے سے پہلے عبدالرحمان بن عوف، عثمان، سعید بن زید او راسید بن حضیر سے مشورہ کیا۔

طبری اور ابن کثیر کے مطابق جنگ یرموک ۱۳ھ میں ہوئی ۔تب خالد بن ولیدافواج کے کمانڈر ان چیف تھے، انھوں نے قلب کے کمانڈرابوعبیدہ کو فوجیوں کی نگرانی کے لیے لشکر کے آخرمیں بھیج دیا اور ان کی جگہ سعید بن زیدکو متعین کیا۔اسی جنگ کے دوران میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر آئی اور خلیفۂ دوم حضرت عمر کا حکم موصول ہواکہ خالد بن ولید کو معزول کر کے ابوعبیدہ کو شام میں موجود اسلامی فوج کاامیر الامرامقرر کردیا گیا ہے۔ابن اسحاق اور ابن عساکر کا کہنا ہے کہ یرموک کی جنگ ۲۵ رجب ۱۵ھ(۱۵تا۲۰ اگست ۶۳۶ء) کوابوعبیدہ بن جراح کی کمان میں لڑی گئی۔ان کی بیان کردہ روایات میں سعید بن زید کی شمولیت کا تذکرہ نہیں ملتا تاہم شبلی نعمانی نے’’الفاروق‘‘ میں اس جنگ کے جوتفصیلی حالات بیان کیے ہیں ،ان میں سعید کی شرکت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔فرماتے ہیں،’’ عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار قتال گرم تھا (رومی جرنیل) ابن قناطیر نے میسرہ پر حملہ کیا۔بدقسمتی سے اس حصے میں اکثر لحم وغسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بودوباش رکھتے تھے ،ایک مدت سے روم کے باج گزار رہتے آئے تھے ۔رومیوں کا جورعب دلوں میں سمایا ہوا تھااس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے ۔عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کوآگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن اشیم، سعیدبن زید، یزیدبن ابی سفیان، عمروبن العاص،شرحبیل بن حسنہ داد شجاعت دے رہے تھے۔ قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے مگر ان کے تیور پر بل نہ آتا تھا۔ ابو الاعور گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبی میں رحمت، دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ سعیدبن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کومار گرا دیا۔لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا ۔دفعۃً قیس بن ہبیرہ جن کوخالد نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہوگئیں اور گھبرا کر پیچھے ہٹیں، ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کیا۔ رومی دور تک ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آگئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا اور میدان خالی ہو گیا۔‘‘ کوشش کے باوجودہمیں ’’الفاروق‘‘ کے اس اقتباس کا ماخذ معلوم نہیں ہو سکا۔

جنگ اجنادین میں سعید نے گھڑ سوار فوج کی قیادت کی۔وہ صفوں کے درمیان پھرتے ہوئے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔خالد بن ولید کا ارادہ تھا کہ ظہر کی نماز کے بعد جنگ کی ابتدا کی جائے لیکن رومیوں نے پہل کر کے مسلمان فوجیوں کو شہید کرنا شروع کیا تو سعید نے پکار کر جنگ جلد شروع کرنے کی استدعا کی ۔تب خالد نے رومیوں پر حملہ کرنے کا اذن دے دیا۔ رجب ۱۴ھ میں دمشق فتح ہوا،سعید بن زیدنے شہر کے محاصرے اوراس کی فتح میں پرجوش شرکت کی۔ جب ابوعبیدہ ایلیا (بیت المقدس)کی مہم پر گئے تو سعید کو دمشق کا قائم مقام گورنر مقرر کیا۔کچھ وقت گزرا تھا کہ انھوں نے ابوعبیدہ کوخط لکھا کہ میں ایسا ایثار نہیں کر سکتا جس کے نتیجے میں جہاد سے محروم ہو جاؤں۔ان کے اصرار پر یزید بن ابوسفیان کودمشق کا گورنر بنایا گیا اور وہ واپس میدان جنگ پہنچ گئے۔

۱۸ھ میں خلیفۂ ثانی عمر دوسری بار شام کے سفر پر گئے تو سعید ان کے ساتھ تھے، سرغ تک پہنچے تھے کہ طاعون کی وبا پھوٹنے کی خبر ملی ۔سیدناعمرنے صحابہ سے سفر جاری رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا اورعبدالرحمان بن عوف کی رائے پر لوٹ آئے۔

سعید مسجد میں بڑے اہتمام سے حاضرہوتے۔عہد فاروقی کا واقعہ ہے ، عبداﷲ بن عباس حج کے موقع پر منٰی میں تھے کہ انھیں معلوم ہوا ،امیر المومنین مدینہ جا کر کچھ اہم موضوعات پر خطاب کریں گے۔ مدینہ واپسی پر پہلا جمعہ آیا توانھوں نے جلدی جلدی مسجد نبوی کا رخ کیا لیکن دیکھا کہ سعید بن زید ان سے بھی سبقت لے گئے ہیں اور منبر کے پائے سے لگے بیٹھے ہیں۔

۲۳ھ میں خلیفۂ دوم حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ہوش میں آنے پر وہ عبداﷲ بن عباس کاسہارا لے کر بیٹھے اور کہا، دیکھو! میں نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا۔سعید بن زید اور عبداﷲ بن عمر پاس تھے،سعید نے کہا،اگر آپ مسلمانوں میں سے کسی کو نامزد کر دیتے تو لوگ مطمئن ہو جاتے۔عمر نے کہا،لوگوں کو طمع نے گھیر رکھا ہے۔اگر ابوحذیفہ کے آزادکردہ سالم یا ابوعبیدہ بن جراح ،دونوں میں سے کوئی زندہ ہوتاتو اسے خلیفہ مقرر کرکے میں مطمئن ہو جاتالیکن اب چاہوں گا کہ ان اصحاب رسول میں سے کسی ایک کو خلیفہ چن لیا جائے جن سے آپ اپنی وفات تک راضی رہے۔پھر عشرۂ مبشرہ میں سے چھ صحابیوں عثمان، علی، زبیر ، طلحہ، عبدالرحمان اورسعد پر مشتمل شوریٰ تشکیل دے دی لیکن ساتویں زندہ صحابی سعید بن زید کو شامل نہ کیا کیونکہ وہ ان کے بہنوئی اورچچا زاد تھے اور ان کی بہن عاتکہ عمرکے عقد میں تھیں ۔ان کا خیال تھا کہ ان حوالوں سے انہیں ترجیح نہ مل جائے۔ اس وقت سعید کو اختیار و اقتدارسے دور رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ باقی عمر میں بھی کسی منصب پر فائز نہ ہوئے۔حضرت عمر کی شہادت پر سعیدبن زید بہت روئے اور کہا ،عمر کی موت نے (قلعۂ) اسلام میں وہ شگاف ڈال دیا ہے جو قیامت تک پر نہ ہوسکے گا۔

اپنے عہد خلافت میں سیدنا عثمان ہر سال حج پر جاتے رہے ما سوائے آخری سال کے جب مدینہ میں جاری دنگا اور فساد کی وجہ سے ان کے لیے نکلنا ممکن نہ ہوا۔اس مبارک سفر میں وہ خلیفۂ ثانی کی طرح ازواج مطہرات کو بھی ساتھ لے کر گئے۔کاروان حج چلتا تو سب سے آگے سعید بن زید ہوتے جب کہ عبدالرحمان بن عوف قطار کے آخر میں رہتے۔

آخرِ عہد عثمانی میں بلوائی مدینہ پرحملہ آور ہونے کے لیے شہر کے قریب وادئ ذو خشب میں جمع ہوئے توحضرت عثمان کی درخوست پر حضرت علی ان سے بات کرنے گئے ۔۳۰ کبار صحابہ ان کے ساتھ تھے جن میں سعیدبن زیدبھی تھے۔باقی اہم اصحاب محمد بن مسلمہ،ابو جہم عدوی ،جبیر بن مطعم،حکیم بن حزام، مروان بن حکم ، سعید بن عاص، عبد الرحمان بن عتاب،ابو اُسیدساعدی،ابو حُمید ساعدی، زید بن ثابت،حسان بن ثابت،کعب بن مالک اور نیار بن مکرم تھے۔ بات علی اور محمد بن مسلمہ نے کی جس کے نتیجہ میں باغی اس وقت واپس ہو گئے لیکن جب مروان نے حضرت عثمان سے اجازت لیے بغیر مہر خلافت لگا کرا ن کی طرف سے خط لکھ کر مصر روانہ کیاتو انھوں نے اسے پکڑ لیا اور مدینہ لوٹ آئے۔انھوں نے حضرت علی سے پھر رابطہ کیا اوراس مسئلے پر عثمان سے بات کرنے کو کہا۔ انھوں نے ہامی بھرلی لیکن جب یہی بات سعد بن ابی وقاص اور سعیدبن زید سے کی تو انھوں نے جواب دیا،ہم تمہارے معاملے میں نہ آئیں گے۔ سیدنا عثمان منبر پر بیٹھے توعمرو بن عاص اورچند اور لوگوں نے اظہار توبہ کرنے کا مطالبہ کیا ۔انھوں نے قبلہ رو ہو کر توبہ و استغفار کی تو حاضرین پر رقت طاری ہو گئی، ان میں سے کچھ رونے بھی لگے۔ اس موقع پر سعید بن زید اٹھ کر حضرت عثمان کی طرف بڑھے اور کہا،امیر المومنین !جو لوگ آپ کے ساتھ نہیں ،آئندہ بھی ساتھ نہ دیں گے۔آپ اﷲ سے ڈرتے ہوئے اپنے ارادوں کی تکمیل کریں۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعدکوفہ کی جامع مسجد میں گفتگو کرتے ہوئے سعید بن زید نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ عمراسلام لانے سے پہلے مجھے اور اپنی بہن (یعنی میری اہلیہ)کو اسلام سے روکنے کے لیے(محض) رسی سے باندھ دیا کرتے تھے لیکن تم لوگوں نے مسلمان ہو کر سیدنا عثمان کے ساتھ اتنی زیادتیاں کی ہیں کہ احد پہاڑ اگرپھٹ پڑے تو بجا ہو گا۔

سعید نے جنگ جمل میں حضرت علی کا ساتھ دیا۔ انھوں نے کہا،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے چار صحابہ بھی کسی خیر کے کام کے لیے جمع ہوتے تو علی ضروران میں سے ایک ہوتے۔ سعیدبن زید روایت کرتے ہیں ، ہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے آئندہ آنے والے ایک فتنے کا ذکرکیا اوراس کی ہولناکی کے بارے میں تنبیہ فرمائی۔ ہم نے پوچھا ،یارسول اﷲ!اگر اس فتنے نے ہمیں آن لیا توکیانیست ونابود کردے گا؟آپ نے فرمایا،(تم میں سے کچھ کا) قتل ہونا کافی ہو جائے گا۔ سعید کہتے ہیں، میں نے اپنے بھائیوں (عثمان،طلحہ،زبیر،علی)کو قتل ہوتے دیکھا۔ ابوذر، سعد بن ابی وقاص اور سلمہ بن اکوع کی طرح سعید بن زید بھی ایک زمانہ میں لوگوں سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ حضرت علی کے عہد خلافت میں جب فتنہ عروج پر تھا ،وہ مسجد نبوی میں جمعہ پڑھنے آتے نہ نماز حالانکہ انھیں اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا خوب علم تھا۔

عہد اموی شروع ہوا تو حضرت معاویہ نے گورنر مدینہ مروان کوخط لکھا کہ وہ لوگوں سے یزید کی بیعت لے تو اس نے جواب دیا،میں سعید بن زید کے آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ وہ سید اہل مدینہ ہیں، انھوں نے بیعت کر لی تو عوام ان کی پیروی کریں گے۔ سعید نے بیعت نہ کی تو مروان نے اصرار نہ کیا۔

سعید بن زید ان دس صحابہ (عشرۂ مبشرہ)میں سے ایک تھے جنہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ سنن ابوداؤد میں آپ کی یہ بشارت خود سعید کی زبانی روایت ہوئی ہے۔ کوفہ کی جامع مسجد میں گورنر مغیرہ بن شعبہ اہل کوفہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ سعید بن زید آئے تو مغیرہ نے انھیں اپنے پاس بٹھا لیا۔اسی اثنا میں ایک کوفی قیس بن علقمہ آیا اور گالی گلوچ کرنے لگا۔سعید نے مغیرہ سے پوچھا، یہ کسے گالیاں دے رہا ہے؟ انھوں نے بتایا،علی بن ابوطالب کو۔سعید غصے میں آ گئے او رتین بار اومغیر بن شعیب ! کہہ کر کہا،تم سنتے نہیں!رسول اکرم کے صحابہ کو تمہارے سامنے گالی دی جا رہی ہے اور تم روکتے ٹوکتے نہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سناہے،’’ ابوبکر جنت میں جائیں گے، عمر جنت میں جائیں گے،عثمان جنت میں جائیں گے،علی جنت میں جائیں گے،طلحہ جنت میں جائیں گے،زبیر جنت میں جائیں گے،عبدالرحمان جنت میں جائیں گے، سعد جنت میں جائیں گے اورایک نواں مومن جنت میں جائے گا۔اگر میں چاہتا تو اس کا نام بھی لے لیتا۔مسجد میں موجود حاضرین پکارے، نواں کون ہے ؟ سعید نے کہا،وہ میں ہوں۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جنتی ہونے میں ہر گز کوئی شبہ نہیں لیکن اس رو ایت میں دسویں جنتی کے طور پر آپ کا نام لیا گیا ہے اور ابو عبیدہ بن جراح کانام نہیں آیا البتہ ترمذی کی روایتوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ سلم کی بجائے ابوعبیدہ کا ذکر ہے۔ایک روایت کے مطابق نبئ اکرم حجۃ الوداع سے واپس آئے تو منبر پر تشریف فرما ہو کرعشرۂ مبشرہ سے راضی ہونے کا اعلان کیا۔

سعید بن زیدفرماتے ہیں،میں نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنت میں جائیں گے ۔اگر دسویں کا بھی بتا دوں تو گناہ نہ ہو گا۔ پوچھاگیا ، ان کی تفصیل کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا، (ایک بار)ہم رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جبل حرا پر تھے (کہ وہ لرزا)۔ آپ نے فر مایا،حرا! تھم جا۔تم پر نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔سعید سے پوچھا گیا ،اس ارشاد میں کن ہستیوں کا ذکر کیا گیا ہے؟تو انھوں نے جواب دیا،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، ابوبکر ، عمر،عثمان، علی، طلحہ،زبیر،سعداورعبدالرحمان ۔پھر ان سے دریافت کیا گیا ،دسویں صاحب کون تھے توانھوں نے کہا،میں(سعید)۔ بخاری میں اسی طرح کا واقعہ جبل احد کے بارے میں بیان ہوا ہے اور اس میں نبئ اکرم کی معیت میں محض ابوبکر،عمر اورعثمان کا ذکر ہے۔ابن حجر کہتے ہیں ، قوی احتمال ہے کہ یہ واقعہ ایک سے زیادہ دفعہ رونما ہوا۔ سعیدبن جبیر کہتے ہیں،ابوبکر، عمر، عثمان،علی،طلحہ ، زبیر،سعد، عبدالرحمان اور سعید میدان جنگ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے آگے رہتے تھے اور نماز میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔

سعید سے مروی احادیث کی تعداد ۴۸ ہے۔۲ حدیثیں بخاری و مسلم دونوں میں(متفق علیہ) ہیں جب کہ ایک حدیث ایسی ہے جو صرف بخاری میں ہے۔ سعیدنے براہ راست نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی جب کہ ان سے حدیث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں،عبداﷲ بن عمر،عمرو بن حریث،ابو طفیل عامر ، حُمید بن عبدالرحمان،طلحہ بن عبداﷲ ،ریاح بن حارث،عبداﷲ مازنی،زر بن حبیش،ابو عثمان نہدی، سعید بن مسیب ،عباس بن سہل،عروہ بن زبیر،قیس بن ابو حازم ، عبدالرحمان بن عمرو، عبدالرحمان بن اخنس، ابو سلمہ بن عبدالرحمان ،محمد بن زید،ابن سیرین ،ابو الخیر مرثد،نوفل بن مساحق،ہشام بن سعید(بیٹا)، ہلال بن یساف ، یزید بن حارث اورابوبکر بن سلیمان ۔ان سے روایت کردہ چند احادیث رسول، ۔ ’’جو اپنے مال کے پاس (اس کی حفاظت کرتا ہوا)قتل ہواوہ شہید ہے،جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہواقتل ہوا، شہید ہے،جو شخص اپنی جان بچاتے ہوا مارا گیا ، شہید ہے،جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرتا ہواقتل ہوا، شہید ہے ‘‘۔ ’’جس نے کسی کا حق مارکرایک بالشت زمین بھی لے لی ،روز قیامت اﷲ تعالیٰ اس کی گردن میں سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔ یعنی اسے اتنا گہرا دھنسا دیا جائے گا کہ یہ زمینیں اس کا طوق بن جائیں گی۔ ‘‘

حضرت معاویہ کے عہد حکومت میں جب سعید عقیق میں رہتے تھے ،ان کی پڑوسن اروی بنت اویس نے گورنر مدینہ مروان بن حکم کی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ انھوں نے اس کی زمین کا ایک حصہ غصب کر لیا ہے ۔الزام غلط تھا لیکن سعید نے وہ حصہ ارویٰ کے حوالے کر دیا اور اسے بددعا دی جو بعینہٖ پوری ہوئی۔بخاری میں اس واقعہ کے متعلق جو روایت ہے،اس میں بددعا دینے کا ذکر نہیں۔

سعید بن زید کا قد لمبا اور بال گھنے تھے۔ان کا رنگ گندمی تھا۔ان کی انگوٹھی میں قرآن کی آیت نقش تھی۔

آخری عمر میں سعیدمدینہ کی قریبی آبادی عقیق میں مقیم تھے۔یہ چشموں سے سیراب ہونے والی سرسبزوادی تھی جہاں کھجوروں کی بہتات تھی۔ وہیں ۵۱ھ (۶۷۳ء،دوسرا قول:۵۵ھ) میں ان کی وفات ہوئی، عمر ستر برس سے اوپر تھی۔ انھیں معدے کا مرض لاحق ہوا۔بخاری کی روایت ہے،’’سعید بن زید جو بدری تھے ،جمعہ کے دن مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔دن چڑھ چکا تھا اورنماز کاوقت قریب تھا لیکن عبداﷲ بن عمر نے جمعہ چھوڑااورسواری پر بیٹھ کران کے پاس (عقیق) چلے گئے۔ ‘‘سعدبن ابی وقاص بھی پہنچے،انھوں ہی نے میت کو غسل دیا، ابن عمر نے خوشبو لگائی۔سعیدکاجنازہ کندھوں پر رکھ کر مدینہ لایا گیا۔ سعد اپنے گھرپہنچے تو اندر جا کر غسل کیا اور کہا، میں سعید کو غسل دینے کی وجہ سے سے نہیں بلکہ گرمی کی شدت سے نہایا ہوں۔ سعید کو مدینہ میں دفن کیا گیا، نماز جنازہ عبداﷲ بن عمر نے پڑھائی۔ بنوعدی، قریش کے متعدد افراد اور سعید کے تمام بیٹوں نے شرکت کی۔ سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر قبر میں اترے۔ ہیثم بن عدی کی شاذ روایت کے مطابق سعید کوفہ میں حضرت عثمان سے ملنے والی جاگیر میں مقیم تھے ، وہیں حضرت معاویہ کے عہد خلافت میں ان کی وفات ہوئی اور ان کا جنازہ گورنر مغیرہ بن شعبہ نے پڑھایا۔ سعید کے بعد ان کے بیٹے اسودنے اس جاگیر میں سکونت اختیار کی۔

سعید بن زید نے اپنی زندگی میں ۸ نکاح کیے ۔۸ بیویوں اور ۲ امہات اولاد سے ہونے والی ان کی اولاد کا شمار: ۱۴ لڑکے اور۱۹لڑکیاں کیا گیا ہے۔ فاطمہ (ام جمیل، رملہ) بنت خطاب سے عبدالرحمان( اکبر) پیداہوئے۔جلیسہ بنت سوید سے زید ،عبداﷲ (اکبر)اور عاتکہ نے جنم لیا۔بنو غسان کی امامہ بنت دجیج سے عبدالرحمان (اصغر)، عمر (اصغر)، ام موسیٰ اور ام حسن کی پیدائش ہوئی۔ حزمہ بنت قیس سے سب سے زیادہ اولاد ہوئی۔ ان سے محمد، ابراہیم (اصغر)، عبداﷲ (اصغر)،ام حبیب(کبریٰ)،ام حسن(صغریٰ)،ام زید(کبریٰ)،ام سلمہ،ام حبیب(صغریٰ)،ام سعید(کبریٰ)اور ام زید پیدا ہوئے۔ بنو تغلب کی ام اسود سے عمرو (اصغر) اور اسودنے جنم لیا۔بنو کلب کی ضمخ بنت اصبغ سے عمرو(اکبر)،طلحہ اور زجلہ کی پیدائش ہوئی۔بنو تغلب کی بنت قربہ سے ابراہیم (اکبر) اور حفصہ پیدا ہوئے۔ام بشیر بنت ابومسعود انصاری نے ام زید (صغری) کو جنم دیا۔ام ولد ام خالد سے خالد،ام خالداور ام نعمان نے جنم لیا۔ایک اور ام ولد سے عائشہ،زینب، ام عبدالحولااور ام صالح پیدا ہوئے۔

مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبری(ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم)، المسند الصحیح المختصرمن السنن( مسلم، شرکۃ دار الارقم )،تاریخ الامم والملوک(طبری)، تاریخ دمشق الکبیر(ابن عساکر)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیراعلام النبلاء(ذہبی)،فتح الباری(ابن حجر)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)،الفاروق (شبلی نعمانی)،الصدیق ابوبکر(محمد حسین ہیکل)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ : سعید انصاری)،صورمن حیاۃ الصحابہ (عبدالرحمان رافت پاشا)

____________________

B