HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۱- ۹ (۱)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

الٓمّٓصٓ{۱} کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَبِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ{۲} اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ{۳} وَکَمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا فَجَآئَ ھَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْھُمْ قَآئِلُوْنَ{۴} فَمَا کَانَ دَعْوٰھُمْ اِذْجَآئَ ھُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ{۵} فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ{۶} فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْھِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ{۷} وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذِ نِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ{۸} وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ بِمَاکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ{۹} 
ـــــــــــــ۲ ـــــــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ’ المص‘ ہے۲۸۰؎۔یہ کتاب ہے جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔ سو اِس سے، (اے پیغمبر)، تمھارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو۲۸۱؎۔ اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ اِس کے ذریعے سے (لوگوں کو) خبردار کرو۲۸۲؎ اور ایمان والوں کو (اِس سے) یاددہانی ہو۲۸۳؎۔ (لوگو) ، تمھارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تمھاری جانب اتارا گیا ہے، اُس کی پیروی کرو اور اپنے پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کے پیچھے نہ چلو۔ (افسوس) ، تم کم ہی یاددہانی حاصل کرتے ہو۔ (اِس سے پہلے) کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کر دیا تو ہمارا عذاب اُن پر رات میں اچانک ٹوٹ پڑا یا دن دہاڑے آگیا، جب وہ آرام کر رہے تھے۔۲۸۴؎ پھر جب وہ اُن پر ٹوٹ پڑا تو اِس کے سوا کچھ نہ کہہ سکے کہ بے شک ،ہم ہی ظالم تھے۔ سو یہ ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے پوچھیں جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے بھی پوچھیں (کہ اُنھوں نے ہمارا پیغام پہنچایا تو اُنھیں کیا جواب ملا۲۸۵؎)۔ پھر پورے علم کے ساتھ ہم تمام سرگذشت اُنھیں سنا دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔ اور وزن کی چیز اُس روز صرف حق ہوگا۲۸۶؎۔ پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے، وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے،وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، اِس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے اور اپنے اوپر ظلم ڈھاتے رہے۲۸۷؎۔۱-۹

۲۸۰؎ اِس جملے میں مبتدا عربیت کی رو سے محذوف ہے۔ اِسے کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہو گی:’ھذہ المص‘۔ اصطلاح میں اِنھیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے اور سورتوں کے شروع میں یہ اُن کے نام کی حیثیت سے آئے ہیں۔ اِن کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی ابتدا میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

۲۸۱؎ آیت کی ابتدا ’کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ‘ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ یہاں بھی مبتدا محذوف ہے۔ مدعا یہ ہے کہ تم نے یہ کتاب خدا سے درخواست کرکے اپنے اوپر نہیں اتروائی، بلکہ خدا نے اپنے فیصلے سے اور تمھاری کسی خواہش اور تمنا کے بغیر تم پر نازل کی ہے، اِس لیے لوگ نہیں مانتے تو اِس کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، سو تمھیں کوئی پریشانی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جس نے اِسے نازل کیا ہے، وہی اِس کی دعوت کو اتمام تک پہنچائے گا اور وہ سب کچھ فراہم کرے گا جو اِس دعوت کو اتمام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورئہ طٰہٰ (۲۰) کی آیت ’مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی‘ میں ہے۔

۲۸۲؎ یعنی اِس بات سے خبردار کرو کہ خدا کے پیغمبر کو جھٹلانے کے نتائج دنیا اور آخرت میں اُن کے لیے کیا ہو سکتے ہیں۔

۲۸۳؎ اصل الفاظ ہیں:’وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘۔ اِس کا عطف ’لِتُنْذِرَ بِہٖ‘ پر ہے۔ یہ اضمار فعل سے منصوب اور ’تذکیر‘ کے معنی میں اسم ہے، یعنی ’لتنذر بہ وتذکرتذکیرًا‘۔

۲۸۴؎ مطلب یہ ہے کہ رات کی تاریکیوں میں اور دن دہاڑے، جس وقت خدا نے چاہا، آگیا۔ اُسے نہ کوئی روک سکا اور نہ اپنے آپ کو اُس سے بچانے میں کامیاب ہوا۔ 

۲۸۵؎ پیچھے اُس عذاب کا ذکرتھا جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا میں خدا کی دینونت کے ظہور سے آتا ہے۔ اُس سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس طرح وہ آیا تو مجرموں کے پاس اپنے جرم کا اقرار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا، اِسی طرح جزا و سزا کا دن بھی آ کر رہے گا، جب لوگوں سے پرسش ہو گی اور رسولوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ اُن کی دعوت کے جواب میں اُن کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا۔

۲۸۶؎ یعنی باطل کے لیے اُس روز سرے سے کوئی وزن نہیں ہو گا۔ دوسرے مقامات میں یہ صراحت بھی ہے کہ قیامت میں وزن رکھنے والی چیز صرف وہ اعمال ہوں گے جو ، خدا کے لیے اور آخرت میں اُس کی رضامندی حاصل کرنے کی خواہش اور ارادے کے ساتھ کیے گئے ۔ اُن کے سوا تمام اعمال وہاں بے وزن ہوجائیں گے۔

۲۸۷؎ اصل الفاظ ہیں:’بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ‘۔اِن میں تضمین ہے، اِس لیے کہ صلے اور فعل میں مناسبت نہیں ہے۔ اِسے کھول دیجیے تو پوری بات اِس طرح ہے:’بما کانوا یکفرون بایاتنا ویظلمون انفسھم‘۔ اِس کا فائدہ یہ ہے کہ تھوڑے الفاظ نے ایک وسیع مفہوم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B