[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
مولانا حمید الدین فراہیؒ نے ایک رسالہ ’’فی ملکوت اللہ‘‘ کے نام سے لکھا ہے، جو دراصل ان کی تفسیر ’’نظام القرآن‘‘ کے مقدمہ کا ایک حصّہ ہے۔ یہ رسالہ جو بڑی تقطیع کے ۴۷ صفحات پر مشتمل ہے، دائرہ حمیدیہ، مدرستہ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ (ہند) سے ۱۳۹۱ ہجری میں شائع ہو چکا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں اسی رسالے کا تعارف کرایا گیا ہے۔
اس رسالے میں جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، ملکوت اللہ یعنی اللہ کی بادشاہت اور اس کی یکتائی سے متعلق امور و مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں بعض مقامات پر نقطے لگے ہوئے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آگے کچھ مزید لکھنا چاہتے تھے جسے وہ نہیں لکھ سکے۔ اس کے علاوہ اس رسالے کے بعض مباحث مجمل ہیں۔ تعارف میں ان سب امور کا لحاظ رکھا گیا ہے تاکہ کوئی بات غیر واضح یا نامکمل نہ رہ جائے۔
مولانا فراہیؒ سے پہلے کسی عالمِ دین نے اس موضوع سے تعرض نہیں کیا حالانکہ توحیدی نقطۂ نظر سے یہ ایک اہم موضو ع ہے۔ اس کے فہم کے بغیر معارف قرآن تک رسائی مشکل ہے۔ مولانا فراہی نے رسالے کا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے:
فہذا کتاب من مقدمۃ نظام القرآن، باحث عن مسئلۃ ملکوت اللہ الجامعۃ لمعارف مہمۃ من علوم القرآن التی لا یطلع علیھا الطالب الا اذا قام علی ھذہ النقطۃ الجامعۃ التی تنفجر منھا انھار علوم، کانھا نبعت من عین جموم۔ واذلم یتعرض لھا أحد من علمائنا ینبغی اولأ ان نعرفھا ونبین وجوھھا.۱
’’اس کتاب کا تعلق مقدمہ نظام القرآن سے ہے۔ اس میں ’ملکوت اللہ‘ کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے جو علوم قرآن کے اہم معارف کا جامع ہے۔ ان معارف سے اس کا طالب اس وقت تک آگاہی حاصل نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ اس کی نگاہ اس مرکزی نقطہ یعنی علم ملکوت اللہ پر برابر مرتکز نہ رہے جس سے علوم کی نہریں اس طرح جاری ہیں گویا کسی لبریز چشمہ سے پھوٹ نکلی ہوں۔ چونکہ ہمارے علماء میں سے کسی نے اس علم سے تعرض نہیں کیا ہے اس لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس کا تعارف کرائیں اور دین میں اس کی اہمیت کے وجوہ کو تفصیل سے بیان کریں۔‘‘
مولانا فراہی کے نزدیک اس علم کا مقام بہت اونچا ہے۔ جملہ دینی علوم کی بنیاد اور ان کی حقیقی غرض و غایت خدا کی صفات کاملہ کی صحیح معرفت ہے ۲ ۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ علم صفات کا معاملہ علم ذات سے بالکل مختلف ہے۔ خدا کی صفات کا علم انسان کے لیے بقدرِ ظرف و حاجت ممکن ہے لیکن ذاتِ خداوندی کا عرفان ناممکن ہے۔ انسانی عقل بہرحال محدود ہے اور اس پر ہر دور کے اربابِ عقل کا اتفاق رہا ہے۔ عہدِ حاضر کے اصحابِ علم و نظر کا بھی یہی خیال ہے کہ انسانی عقل اپنی محدودیت کی وجہ سے ہستی مطلق کے ادراک سے عاجز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نہ تصور کی گرفت میں آ سکتا ہے اور نہ تخیل کا پرِ پرواز وہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ برہان و استدلال کی نارسائی بھی معلوم کہ وہ عقل ہی کے ساز و برگ ہیں۔
لیکن کائنات مرئی جو اللہ کی صفاتِ علم و قدرت کا آئینہ ہے انسانی عقل و شعور کے دائرۂ کار علم و فہم سے ماورا نہیں ہے۔ انسان اس آئینہ کے اندر خالق عالم کا معنوی دیدار کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہستی مطلق کی جو صفت سب سے زیادہ لائق توجہ ہے وہ اس کی ہمہ گیر اور خالص بادشاہی ہے یعنی یہ کہ اس کائنات میں اس کے سوا کوئی دوسرا علی الاطلاق حاکم و متصرف نہیں ہے۔ اس بنا پر انسان کا حقیقی معبود و مطاع اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ہے ۳ ۔
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشاہدۂ فطرت کا ذکر ان لفظوں میں آیا ہے:
وَ کَذالِکَ نُرِی اِبْراھِیْمَ مَلَکُوتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوقِنِیْنْ. (سورۂ انعام۔۷۶)
’’اور ہم نے بایں طور ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مشاہدہ کرایا تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔‘‘
اس آیت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کے اقتدار اعلیٰ (ملکوت اللہ) کی معرفت نظم کائنات کے مشاہدہ سے حاصل ہوئی۔ اس مشاہدہ سے ان پر یہ راز کھلا کہ اس عالمِ رنگ و بو پر ایک ہی ذاتِ بے نہایت کی حکم رانی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا وجود کائنات کے کسی گوشے پر کسی نوع کا حکم و تصرف نہیں رکھتا اور اس خاکداں کی ہر چھوٹی بڑی چیز اس کے حکم کے آگے سرنگوں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص توحید کے اساسی پہلو یعنی خدا کی بادشاہی کی یکتائی سے ناآشنا ہے وہ دنیا کے واقعات و حوادث بالخصوص قوموں کے عروج و زوال کے حقیقی اسباب کے فہم سے قاصر ہو گا۔ اشخاص کے ساتھ ہدایت و ضلالت اور عزت و ذلّت کے جو معاملات پیش آتے ہیں ان کی توجیہ بھی اس کے لیے مشکل ہو گی۔ وہ ہر واقعہ اور ہر حادثہ کو ظاہری اسباب و علل سے مربوط کر کے دیکھے گا اور نتیجتاً غلط نتائج تک پہنچے گا اور بایں طور فکر و عمل کی مسلسل جادہ پیمائیوں کے باوجود نہ تو اس کو زندگی کی سیدھی شاہراہ مل سکے گی اور نہ ہی تخلیقِ حیات کی حقیقی غایت سے وہ واقف ہو سکے گا۔
مولانا فراہی نے ’علم ملکوت اللہ‘ کے فوائد پر اجمالاً گفتگو کی ہے۔ ہم یہاں ان کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ اس علم کی اہمیت اور اس کے فوائد پورے طور پر واضح ہو جائیں۔
(۱) اس علم سے دنیا کی تاریخ کا فہم حاصل ہوتا ہے اور قلب کو اطمینان ملتا ہے اور اس حقیقت سے انسان باخبر ہوتا ہے کہ بہت سے دنیوی احوال و واقعات جو بظاہر شر معلوم ہوتے ہیں باعتبار انجام خیر ہوتے ہیں۔ یہ ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے ۴ ۔
اس میں شک نہیں کہ اس دنیا میں خیر کے ساتھ شرکا بھی وجود ہے۔ لیکن یہ ایک اضافی وجود ہے، اس کو مستقل بالذّات وجود کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اس سے شرکا صدور ممکن نہیں ہے کہ وہ خیر محض ہے ۵ ۔
یہاں ہم شر کے وجود کو بعض مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ ہر شخص کی نظر میں بہادری ایک عمدہ صفت ہے اور ایک معنی میں یہ خیر ہی کا ایک پہلو ہے لیکن اس سے دشمن کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ اس کی نظر میں شر ہے۔ اسی طرح آگ بذاتِ خود خیر ہے اور انسانی زندگی کے لیے اس کا وجود ناگزیر ہے لیکن اسی آگ سے تباہی و بربادی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں، کھیت کھلیان اور مکان جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم آگ کے اس عمل کو شر کہیں گے؟ کون ہے جو شب کو شر کہے گا، وہ تو گہوارۂ راحت ہے۔ لیکن دیکھیں کہ دنیا کے اکثر گناہ اور جرائم تاریکی کے پردے ہی میں انجام پاتے ہیں۔ ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ شر دراصل ایک سلبی حالت ہے، اس کو ایجابی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ حیثیت صرف خیر کو حاصل ہے۔
بعض موجوداتِ عالم کی شکل میں ہم کو جو شر نظر آتا ہے وہ بھی اضافی وجود ہے اور ترکیب مادی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ عالم خاکی کی ہر شے کی ترکیب و تعمیر میں مختلف النوع عناصر شامل ہیں لیکن وہ عناصر بجائے خود خیر و شر کی صفات سے خالی ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انھی عناصر کی ترکیب سے ایسی بھی چیزیں بنتی ہیں جن سے شرکا صدور ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرکا تعلق ترکیب سے ہے نہ کہ جوہرِ تخلیق سے۔
وجود شر پر ایک دوسرے پہلو سے غور کریں۔ ہر چیز کی تخلیق میں اصولِ اضداد کی کارفرمائی ہے یعنی ہر وجود مثبت اور منفی دو اکائیوں پر مشتمل ہے۔ اس کائنات مادی کا سب سے چھوٹا جز ایٹم ہے اور یہ اصولِ اضداد کی سب سے عمدہ مثال ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی (الیکٹران، پروٹان وغیرہ) میں الیکٹران منفی اور پروٹان مثبت صفت رکھتا ہے لیکن ایٹم کا وجود اور اس کی ساری قوت اسی مثبت اور منفی صفت کی مرہونِ منت ہے۔
اس پہلو سے کائنات کا مطالہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ وہ تمام اشیاء جو بظاہر شر دکھائی دیتی ہیں دراصل حصولِ خیر کا ذریعہ ہیں۔ اگر ان چیزوں میں شر موجود نہ ہوتا تو خیر کی معرفت ممکن نہ تھی۔ تعرف الاشیاء باضدادھا ’’چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ شر کی عدم موجودگی میں ہمارے اندر خیر کی طرف رغبت بھی پیدا نہ ہوتی اور نہ ہی ہمارے نفوس کے پوشیدہ کمالات ظاہر ہوتے۔ یہ شر ہی ہے جو انسان کی فطری قوتِ ایجاد و تخلیق کو برابر مہمیز کرتا رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ساری تمدنی ترقیاں اس مخالف ماحول کی دین ہیں جو دراصل شر کی ایک صورت ہے اور جس سے وہ آغاز آفرینش سے برابر دو چار رہا ہے۔ اگر خالق عالم کی طرف سے یہ مخالف ماحول مہیا نہ کیا جاتا تو انسان کے نفسی کمالات کا اظہار ممکن نہ تھا۔ غرض جس پہلو سے بھی دیکھیے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شر انسان کی روحانی اور مادی دونوں طرح کی ترقی کے لیے ایک ناگزیر عامل ہے۔
اس مسئلہ کو ایک اور زاویۂ نگاہ سے دیکھیں۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق انسان کی غایتِ تخلیق امتحان ہے:
خلق الموۃ والحیاۃ لیبلوکم ایّکم احسن عملا (سورۂ ملک: ۲)
’’اس نے موت اور زندگی پیدا کی تاکہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں کون باعتبار عمل اچھا ہے۔‘‘
اگر خیر کے ساتھ شر کی تخلیق نہ ہوتی تو پھر امتحان کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ انسان کو ارادہ و اختیار اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے خواہ خیر کی پیروی کرے یا شر کی، دوسرے لفظوں میں خدا کا مطیع بنے یا نفسِ امّارہ کا، جو انسان کو برابر برائی کے لیے اُکستاتا رہتا ہے۔
اس امتحان کا تعلق افراد کے ساتھ اقوام سے بھی ہے۔ ان کے ساتھ شر کے جو معاملات پیش آتے ہیں وہ دراصل اس امتحان کے نتائج ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اس دنیا میں اس لیے ظاہر کر دیتا ہے تاکہ برے لوگوں کو تنبیہ ہو اور اچھے لوگوں کو تسلی کہ اللہ کا قانونِ مکافات برحق ہے۔
(۲) ملکوت اللہ سے ہم کو تاریخ دین کا علم حاصل ہوتا ہے جس کا تعلق اقوام کے عروج و زوال سے ہے۔ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے ۶ ۔
ایک تاریخ تو وہ ہے جس کا دائرہ مادّی اسباب و علل کے گرد گھومتا ہے اور اس میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی عوامل کو اہمیت حاصل ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہی عوامل تاریخ کی صورت گری کرتے ہیں۔ لیکن ایک دینی تاریخ بھی ہے جس میں تاریخ کی تعبیر اخلاقی قدروں کی بنیاد پر کی جاتی ہے یعنی اخلاق کی بلندی ایک قوم کو بامِ عروج تک لے جاتی ہے اور اسی کی پستی اس کو ذلت کے کھڈ میں گرا دیتی ہے۔ بلاشبہ قوموں کے عروج و زوال میں سماجی اور اقتصادی عوامل بھی کام کرتے ہیں لیکن اس معاملہ میں فیصلہ کن چیز اعمالِ اخلاق ہیں جن کا تعلق تمام تر باطن سے ہے۔ قرآن مجید کی دو آیتیں اس اخلاقی اصول کی طرف ہماری رہنما ئی کرتی ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغیِرُ مَا بِقوَْمِ حَتَّی یُغَیِّروا مَا بِاَنْفُسِھِمْ. (سورۂ رعد.۱۱)
’’بے شک اللہ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو (بری حالت میں) اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو تبدیل نہ کر لے۔‘‘
ذٰلک بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یکْ مُغَیِّرا نعمۃً انعمھا علیٰ قوم حتَّی یُغَیِروا مَا بانفُسِھِمْ. (سورۂ انفال: ۵۳)
’’یہ اس بنا پر ہوا کہ اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو عطا کر چکا ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو تبدیل نہ کر لے۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے جو اصول مستنبط ہوتا ہے وہ اخلاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو کوئی نعمت مثلاً مال و دولت اور ملک و اقتدار وغیرہ عطا کرتا ہے تو اس نعمت کی بقا اور اس کا زوال دونوں اس قوم کی اندرونی حالت پر منحصر ہوتے ہیں۔ جب تک اس کی نفسی (اخلاقی) حالت نعمت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی ہے اس وقت تک وہ نعمت اس کے پاس باقی رہتی ہے۔ لیکن جس وقت اس کی نفسی حالت تبدیل ہو کر نعمت کے تقاضوں کے برخلاف ہو جاتی ہے تو وہ نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اقوام کا عروج و زوال ان کی نفسی یعنی اخلاقی حالت کے تابع ہے، خارجی حالات کا اس سے بہت کم تعلق ہے۔ خارجی حالات دراصل قوموں کے باطنی احوال کا عکس ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کسی قوم کی اخلاقی حالت کے تمام مراحل و منازل صاف طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس زاویۂ نگاہ سے اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نہایت مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو گا، بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو اہلِ تقویٰ ہیں۔ یہ مطالعہ انھیں اس حقیقتِ نفس الامری سے آگاہ کرے گا کہ اس دنیا میں عروج و سربلندی صرف متّقین یعنی اللہ تعالیٰ کے سچے فرماں برداروں کے لیے مخصوص ہے۔ اگر اس کے برخلاف صورت ملے تو یقین کر لیں کہ متّقین موجود نہیں ہیں۔ غیر متّقین کو حکومت ملتی ہی اس وقت ہے جب خدا کی زمین اہل تقویٰ سے خالی ہو جاتی ہے۔ ایک اجلِ معیّن تک کاروبار دنیا کو بہرحال چلنا ہے اس لیے مشیّتِ الہٰی اس کام کے لیے اس قوم کا انتخاب کرتی ہے جو مخلوق خدا کی کفالت اور اس کے معاملات کے نظم و انصرام کی بہتر صلاحیت رکھتی ہو۔ لیکن یہ انتظام بالکل عارضی ہوتا ہے۔ مشیتِ الہٰی برابر اس بات کی منتظر رہتی ہے کہ اہلِ تقویٰ (یہاں تقویٰ اور خشیتِ الہٰی سے محروم صرف سیاسی غل غپاڑا کرنے والے مذہبی گروہ مراد نہیں) کا کوئی منظم گروہ اٹھے اور غیر متّقین سے اقتدار لے کر ان کے حوالے کر دے۔
(۳) اس سے شریعتوں کے اختلاف کی حقیقت معلوم ہوتی ہے ۷ ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بڑے مذاہب بالخصوص اسلام، یہودیت اور عیسائیت کی شریعتوں میں واضح فرق و اختلاف ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ یہ فرق و اختلاف بالکل ظاہری ہے، ان کی روح وکنہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہو سکتا تھا۔ تمام شریعتوں کا جوہر اصلی ایک ہے یعنی خیر و تقویٰ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اگر اس جوہر اصلی پر برابر نظر رہتی تو شرائع کے ظاہری اختلاف کے باوجود دین کے نام پر نہ تو فرقے بنتے اور نہ ہی مختلف قوموں کے درمیان مذہبی جھگڑے پیدا ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شرائع کے ظاہری اختلاف کو بنیاد قرار دے کر ہر مذہب کے پیروؤں نے دوسرے مذہب کے پیروؤں کو گم راہ، بے دین اور کشتنی قرار دیا۔ یہود و نصاریٰ نے اس معاملہ میں زیادہ غلو کیا۔ انھی کے متعلق قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے:
وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیْْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْءٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ. (سورۂ البقرہ:۱۱۳)
’’یہود کہتے ہیں کہہ عیسائی بے اصل ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہود بے اصل (بے دین) ہیں حالانکہ یہ کتاب (تورات) کی تلاوت کرتے ہیں (جس میں لکھا ہوا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے)۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّہِ أَن یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ وَسَعَی فِیْ خَرَابِہَا.(سورۂ البقرہ: ۱۱۴)
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے ذکر سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو۔‘‘
مسلمانوں کی روش بھی یہود و نصاریٰ سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے بھی ظاہر شریعت کو دیکھا، اس کے باطن یعنی تقویٰ کو نہ دیکھا۔ اس طرز کا لازمی نتیجہ وہی نکلا جو اس سے پہلے نکل چکا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی یہود و نصاریٰ کی طرح فرقے بنے، صف بندیاں ہوئیں، مساجد و مدارس الگ ہوئے اور ایک فرقے نے دوسرے فرقے کو کافر و بے دین کہا، حتیٰ کہ مساجد کی بے حرمتی اور معصوم نمازیوں کے قتل کے واقعات سے بھی اس قوم کی تاریخ خالی نہیں ہے۔ اور ہنوز یہ افسوس ناک سلسلہ جاری ہے۔
وحدتِ الہٰ کا لازمی تقاضا وحدتِ شریعت ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی حاکم و آمر ہے تو اصلاً اس کی شریعت بھی ایک ہو گی۔ قرآن مجید کی یہ آیت اس حقیقت کی ترجمان ہے:
أَفَغَیْْرَ دِیْنِ اللّہِ یَبْغُونَ وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعاً وَکَرْہاً وَإِلَیْْہِ یُرْجَعُون. (سورۂ آل عمران: ۸۳)
’’کیا وہ دین خداوندی کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے سب چاروناچار اسی کے آگے سر اطاعت جھکائے ہوئے ہیں اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
نظم کلام سے بالکل واضح ہے کہ ’دین اللہ‘ سے جو عالم تکوینی اور عالم تشریعی دونوں کے لیے یکساں ہے، خدا کا آئین اطاعت مراد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عالمِ تکوینی میں یہ جبراً نافذ ہے اور عالم تشریعی میں طوعاً مطلوب ہے۔ اگر آپ عالم تکوینی کے قوانین کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ مختلف النوع ہیں۔ جو قوانین عالم سماوی کے لیے ہیں وہ عالم خاکی کے قوانین سے مختلف ہیں حتی کہ ان دونوں عوالم کے اپنے قوانین بھی مختلف ہیں۔ لیکن ان سب قوانین کو جو چیز ایک رشتۂ وحدت میں پروتی ہے وہ قانون اطاعت ہے یعنی خالق کائنات کی کامل فرماں برداری۔
عالم تشریعی کے قوانین کا بھی یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر دور میں مختلف انبیاء و رسل کے ذریعہ جو شریعت بھی آئی اس کی روح ایک تھی یعنی دل کی پوری رضا و رغبت کے ساتھ خدا کی اطاعت و بندگی۔ اسی کا اصلاحی نام تقویٰ ہے۔ شرائع میں جو ظاہری فرق و اختلاف نظر آتا ہے وہ اعتباری ہے نہ کہ حقیقی۔ شرائع کی روح جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، تقویٰ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ اس کو ’خیرات‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے:
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَکِن لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُم فَاسْتَبِقُوا الخَیْْرَاتِ إِلَی اللہ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً فَیُنَبِّءُکُم بِمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُونَ. (سورۂ المائدہ: ۴۸)
’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کر دیا ہے اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی اُمّت بنا دیتا۔ (لیکن ایسا نہیں کیا تو اس لیے کہ) جو شریعت تم کو دی ہے اس میں تمہارا امتحان لے۔ پس (شریعت کے ظاہری اختلاف کو زیادہ اہمیت نہ دو بلکہ) نیکی میں (ایک دوسرے سے) مسابقت کرو۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر جس چیز میں تم اختلاف کیا کرتے تھے اس (کی حقیقت) سے تم کو باخبر کرے گا۔‘‘
اس آیت کے مطابق دنیا کی ہر قوم کو الگ الگ شریعت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امر پر قادر تھا کہ جملہ اقوام کو ایک ہی شریعت دیتا جس میں کوئی فرق نہ ہوتا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کی وجہ بھی بتا دی یعنی امتحان۔ کس بات کا امتحان؟ اس بات کا امتحان کہ لوگ اشکالِ شریعت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں یا روحِ شریعت یعنی خیر و تقویٰ کو جو تمام شرائع کی اصل و اساس ہے اور جس پر روز آخرت فوز و فلاح کا حصول منحصر ہے۔
قرآن میں ایک جگہ قربانی کے ذکر میں فرمایا گیا ہے:
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ. (سورۂ الحج۔۳۷)
’’اللہ تک جانور کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہنچتا بلکہ جو چیز اس تک پہنچتی ہے وہ تمہارا تقویٰ ہے۔‘‘
حقیقت نماز کے بیان میں ارشاد ہوا ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُون.َ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ. (سورۂ المومنون:۱۔۲)
’’وہ مومن کامیاب ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک اصل چیز جو قابل لحاظ ہے وہ روحِ شریعت یعنی تقویٰ ہے۔ اگر کسی نے قربانی کی اور اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے تو ظاہر شریعت کے اعتبار سے اس کی قربانی کی اور اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے تو ظاہر شریعت کے اعتبار سے اس کی قربانی ہو گئی لیکن اللہ کی نظر میں یہ قربانی معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے نماز پڑھی اور اس کے واجبات و فرائض میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی مگر دل میں خشوع کی کیفیت نہ تھی تو شریعت کے نقطۂ نظر سے اس کی نماز ہو گئی لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ یہ نماز روزِ آخرت اس کے لیے کامیابی کا ذریعہ بن سکے گی۔
آیتِ مذکورہ میں ایک اور اہم بات کہی گئی ہے کہ شریعتوں کے ظاہر ی فرق کی بنا پر مذہبی نزاع غلط ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق اس دنیا میں مذہبی اختلافات کا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ اس غرض کے لیے اللہ نے آخرت کا دن مقرر کیا ہے ۸ ۔ اس لیے ظاہر شریعت میں اختلاف پر جھگڑا کرنے کے بجائے روحِ شریعت یعنی نیکی و تقویٰ کی طرف تیزگامی ہو کہ تنہا یہی چیز فلاحِ آخرت کی ضامن ہے۔ ’’فاستبقوا الخیرات‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔
(۴) اس سے خدا کے اصولِ سیاست (حکومت) کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ عدل اور حکمت کا اصول ہے ۹ ۔ کائنات کی ہر چیز اس اصول کے مطابق اپنے فطری وظائف انجام دی رہی ہے۔ اس علم کا لازمی تقاضا ہے کہ انسانی معاشرہ بھی اس اصول پر قائم ہو۔ اس سے انحراف کر کے کسی اچھے سماج کا قیام و بقا ممکن نہیں ہے۔ اس کی ایک عبرت ناک مثال عہدِ جدید میں روس کی ہے۔ اس ملک میں اشتراکیت کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اصولِ حکمت سے انحراف تھا۔ اشتراکیت نوازوں نے جو سماجی، معاشی اور سیاسی قوانین وضع کیے اس میں سماج کے تمام طبقات کے لیے انصاف نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہ انسانی فطرت کے خلاف تھے۔
لیکن عدل اور حکمت پر مبنی قانون سازی ایک مشکل کام ہے۔ قانون سازی کرنے والوں کا تعلق لازمی طور پر سماج ہی سے ہو گا اس لیے جو بھی قانون اس میں اس کے غالب طبقہ کے مفادات دوسرے طبقات پر لازماً حاوی ہوں گے۔ اگر حکومت غیر جمہوری ہو تو پھر عدل کا قیام اور بھی مشکل ہے۔
انسانی معاشروں کی تاریخ میں ظلم و استحصال کے جو اندوہ ناک واقعات ملتے ہیں اس کی وجہ وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ شخصی اور جماعتی خود غرضیوں کے علاوہ انسان کی فطرت میں انتہا پسندی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک گیا ہے۔ اس انتہا پسندی کا واحد علاج یہ ہے کہ ’وحی‘ کو جو عدل و حکمت پر مبنی خدائی قانون ہے، عقل کے ساتھ مخلوط کیا جائے۔ اس وحی کا دوسرا نام قرآن حکیم ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ اللہ کی سلطنت کس طرح حکمت، عدل اور رحمت کے اصولوں پر قائم ہے۔ رحمت کا مطلب قانون شکنی نہیں بلکہ حدودِ آئین کے اندر ضروری حد تک عفو و درگزر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مثالی انسانی معاشرہ کا قیام انھی اصولِ ثلاثہ کی پیروی کے ذریعہ ممکن ہے۔
(۵) اس علم سے عقل کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔۱۰ خدا جس ہستی کا نام ہے اس کو حکماء کی زبان میں عقلِ مجرّد اور شعورِ مطلق کہا گیا ہے اور اسی کی ایک ادنیٰ تجلّی انسانی شعور بھی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا کوئی عمل عقل و شعور کے منافی نہ ہو۔ عقل کی توہین و تردید کا مطلب دراصل خدا کی ایک صفت کی تنقیص و تردید ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ کسی دور میں بھی اللہ کی طرف سے قوانین کی تفصیلی صورتیں نازل نہیں ہوئیں بلکہ زیادہ تر اصول یعنی کلیاتِ قانون دئیے گئے تاکہ انسان اپنی عقلِ خداداد کی مدد سے حالات و ظروف کی رعایت کرتے ہوئے ذیلی قوانین بنا سکے۔ خدا کی آخری کتاب یعنی قرآن مجید میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے زیادہ تر قوانین کلی نوعیت کے ہیں۔ اور اس کی غرض وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔
لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ اہل مذہب نے تقریباً ہر دور میں عقل کی توہین کی ہے اور دین و مذہب کے معاملات میں اس کے استعمال کو اچھا سمجھا ہے۔ مسلمان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ مولانا روم نے عقل کو شیطان اور ان کے شاگرد معنوی علامہ اقبال ؒ نے اس عیّار کہا ہے،۱۱ حالانکہ قرآن مجید میں عقل کی توصیف وارد ہے۱۲ اور بکثرت مقامات پر انفس و آفاق کے آثار و مظاہر میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔۱۳ قرآن نے ان لوگوں کو جانور کہا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔۱۴
قرآن کی اس واضح تعلیم کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے علماء اسلام نے عقل کی برائی بیان کی ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انھوں نے عقل کے جو عملی مظاہر دیکھے ان سے یہ قیاس کر لیا کہ عقل ایمان کی دشمن ہے۔ اس کے علاوہ انسان جذبات اور خواہشات بھی رکھتا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کی عقل خام ہوتی ہے وہ بسا اوقات جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مخدوم سے خادم بن جاتی ہے۔ لیکن جو عقل پختہ ہوتی ہے وہ جذبات سے مغلوب نہیں ہوتی اور اپنے وظیفہ اصلی یعنی استدلال (Reasoning) کے کام کو صحیح ڈھنگ سے انجام دیتی ہے اور اس کے اکثر فیصلے صحیح ہوتے ہیں۔ لیکن خطا کا امکان پھر بھی رہتا ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا رویہّ ہر حال میں غیر جذباتی ہو گا۔ اس کے علاوہ عقل محدودیت رکھتی ہے۔ اس لیے مامون طریقہ یہ ہے کہ عقل کو وحی کے ساتھ مربوط کیا جائے اور وحی کو ہی رہنمائی کا مقام حاصل ہو۔
(۶) اس علم سے ہمارے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ ہم اللہ کی طرف منسوب بعض متضاد افعال، مثلاً ہدایت و ضلالت اور رحمت و عذاب کی صحیح توجیہ کر سکیں۔۱۵ بظاہر یہ بات پریشان کن ہے کہ جو اللہ ہدایت دیتا ہے وہ گم راہ بھی کرتا ہے۔ اسی طرح جو ذات رحمان و رحیم ہے، اس درجہ رحیم کہ کل آسمان و زمین کی پہنائیاں بھی اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں، اس کی طرف عذاب کی نسبت کس طرح کی جا سکتی ہے۔ ہر دور کے اصحابِ علم نے جن میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں، اس مشکل سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اس عالم مادی کی ہر چیز اطاعت و انقیاد کی راہ میں گام زن ہے، معمولی حکم عدولی کا تصور بھی ان کے لیے محال ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ اگر اطاعت کرتا ہے تو نافرمانی بھی کرتا ہے۔ اس سے بالکل واضح ہے کہ وہ ارادہ و اختیار رکھتا ہے جس سے دوسری مخلوقات محروم ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے:
إِنَّا ہَدَیْْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً. (سورۂ الدھر:۳)
’’ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا ہے، اب وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر (ناشکری) کرنے والا۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ لا وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِلا وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ.(سورۂ البلد: ۱۰)
’’کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو لب نہیں بنائے اور ہم نے اس کو دونوں راستے نہیں دکھائے؟‘‘
ایک اور جگہ فرمایا ہے:
وَمَن یَکْسِبْ إِثْماً فَإِنَّمَا یَکْسِبُہُ عَلَی نَفْسِہِ. (سورۂ نسآء۔۱۱۱)
’’جو شخص برائی کماتا ہے تو اس کے کسب کا وبال خود اس کے اوپر ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ہے:
وَلَقَدْ آتَیْْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَۃَ أَنِ اشْکُرْ لِلَّہِ وَمَن یَشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ. (سورۂ لقمان۔۱۲)
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ (اس نعمت کے اعتراف کے طور پر) تم اللہ کا شکر بجا لاؤ۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے (یعنی اس کا فائدہ اسی کو ملے گا) اور جو کفر کرتا ہے یعنی ناشکری تو (اس کے نتائج کا وہ خود ذمہ دار ہو گا) اللہ بے نیاز اور سزاوارِ حمد ہے۔‘‘
لیکن انسانی ارادہ و اختیار مطلق نہیں بلکہ محدود اور مشیَتِ الٰہی کے تابع ہے جیسا کہ قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ. (سورۂ تکویر۔ ۲۹)
’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ دونوں جہاں کا رب بھی چاہے۔‘‘
انسانی ارادہ و اختیار کو تسلیم کر لینے کے بعد ہدایت و ضلالت کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قانون قدرت یہ ہے کہ جو بندہ اپنی مرضی سے ہدایت کی راہ پر چلنا چاہتا ہے خدا کی مشیت اس کی ہم نوائی کرتی ہے اور اسی کا نام خدائی ہدایت ہے جیسا کہ فرمایا ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ . (سورۂ عنکبوت۔ ۶۹)
’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں انتہائی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنی (رضا کی) راہ ضرور دکھائیں گے اور اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
اور جو بندہ اپنی خوشی سے ضلالت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو مشیت خداوندی اس میں مزاحم نہیں ہوتی اور ضلالت کی راہ میں چلنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ اللہ کے گم راہ کرنے کا یہی مطلب ہے۔ فرمایا ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ إِنَّ الشَّیْْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوّاً إِنَّمَا یَدْعُو حِزْبَہُ لِیَکُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیْرِ. الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ کَبِیْرٌ. أَفَمَن زُیِّنَ لَہُ سُوءُ عَمَلِہِ فَرَآہُ حَسَناً فَإِنَّ اللَّہَ یُضِلُّ مَن یَشَاءُ وَیَہْدِیْ مَن یَشَاءُ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْْہِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُونَ.(سورۂ فاطر: ۵۔۸)
’’اے لوگو! اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے۔ تو ایسا نہ ہو کہ دنیوی زندگی تم کو دھوکا میں ڈال دے اور نہ ایسا ہو کہ دھوکے باز (یعنی شیطان) اللہ کے بارے میں تم کو کسی دھوکے میں مبتلا کر دے۔ بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم بھی اس کو اپنا دشمن سمجھو۔ وہ اپنے گروہ کو (باطل کی طرف) بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے، اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔ تو کیا ایسا شخص جس کو اس کا عملِ بد اچھا کر کے دکھایا گیا، پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگا، (اور ایسا شخص جو برائی کو برائی سمجھتا ہے، دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟) اللہ جس کو چاہتا ہے گم راہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہیہدایت دیتا ہے۔ پس (اے پیغمبر) تم ان کے حال پر افسوس کر کے اپنے آپ کو ہلکان نہ کرو۔ بے شک اللہ کو ان کے تمام کاموں کی خبر ہے۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ایمان اور کفر بندے کے اختیاری اعمال ہیں اور یہ اختیار اس کو اس لیے دیا گیا ہے تاکہ اس کی آزمائش ہو کہ کون اچھا عمل کرتا ہے اور کون اختیار کا غلط استعمال کر کے برے کام کرتا ہے (سورۂ ملک۔۲)
خدا کا عذاب اس کی رحمت کے منافی نہیں بلکہ اس کا عین اقتضاء ہے۔ اللہ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی نعمت سے نوازا، خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت عطا کی اور لطفِ مزید کے طور پر انبیاء و رسل کے ذریعہ اچھائی اور برائی دونوں کی راہیں بالکل واضح کر دیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا انسان کا کام ہے کہ وہ ہدایت کی راہ پر چلے یا کفر کی راہ اختیار کرے لیکن اس حق انتخاب کے نتائج سے وہ نہیں بچ سکتا ہے۔ دنیا میں عملِ بد کے نتائج کو کبھی کبھار صرف اس لیے ظاہر کر دیا جاتا ہے کہ غافل لوگ خبر دار ہو جائیں اور برے لوگ توبہ کی طرف مائل ہوں تاکہ آخرت کے زیادہ بڑے عذاب سے بچ سکیں۔ فرمایا ہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ.(سورۂ روم: ۴۱)
’’انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ ان کے بعض اعمال کا ان کو مزہ چکھائے، تاکہ باز آ جائیں۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
فَأَخَذَہُ اللَّہُ نَکَالَ الْآخِرَۃِ وَالْأُولَی. إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَن یَخْشَی.(سورۂ نازعات: ۲۵۔۲۶)
’’پس اللہ نے اس کو (یعنی فرعون کو) آخرت اور دنیا (دونوں) کے عذاب میں پکڑ لیا۔ بے شک اس (واقعہ) میں عبرت ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ڈرے۔‘‘
ایک اور مقام پر ہے:
وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ.(سورۂ سجدہ۔۲۱)
’’اور ہم (روز آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے ان کو قریب (یعنی دنیا) کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ وہ باز آ جائیں۔‘‘
’’لعلھم یرجعون‘‘ کا جملہ بتاتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کے حق میں کس درجہ رحیم و شفیق ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے روزِ آخرت اعمال بد کے تلخ نتائج سے دوچار ہوں۔ دنیا کی سزا تنبیہ کی غرض سے ہے نہ کہ جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے خدا اس عیب سے بالکل پاک ہے۔
ملکوت اللہ کا بنیادی مفہوم جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، اللہ کی حاکمیتِ مطلقہ (توحیدِ ربوبیت) ہے جو تمام آسمانی مذاہب میں ایک متفق علیہ اصول رہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ ہر مذہب کے ماننے والے اس بنیادی اصول سے منحرف ہو کر شرک کی مختلف راہوں میں بٹ گئے۔ اس متفق علیہ اصول کا ذکر قرآن مجید میں ان لفظوں میں ہوا ہے:
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ. (سورۂ آل عمران: ۶۴)
’’کہ دو کہ اے اہلِ کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (یعنی متفق علیہ) ہے۔ (وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے ایک دوسرے کو خدا کے سوا رب (یعنی آقا اور کارساز) قرار نہ دے۔‘‘
اس حاکمیتِ مطلقہ کے دو پہلو ہیں، ایک کا تعلق عالمِ تکوینی سے اور دوسرے کا عالم تشریعی سے ہے۔ مولانا فراہیؒ نے حاکمیت مطلقہ کے ان دونوں پہلوؤں سے بحث کی ہے اوراثبات میں عقلی و نقلی دونوں طرح کے دلائل دیے ہیں۔ مؤخرالذکر کی تشریح میں تاریخ بالخصوص مذہبی تاریخ کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
عالم تکوینی میں اللہ کی حاکمیت کے متعلق شروع سے مختلف نقطہء ہائے نظر رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے دنیا میں معاصی اور آلام کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جو لوگ جور و ظلم کے ذمہ دار ہیں انھی کو غلبہ حاصل ہے اور صالح لوگ مغلوب ہیں، اس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ اس دنیا کا کوئی حاکم و آمر نہیں ہے۔ اگر کوئی خدا ہے جو علم و عدل کی صفات بھی رکھتا ہو تو ان معاصی و مصائب کی کیا توجیہ کی جائے گی؟ یہ ملاحدہ کا گروہ ہے۔
مجوسیوں نے اس مشکل کو اس طرح حال کیا کہ دوالٰہ بنا لیے، ایک معبودِ خیر (یزداں) اور دوسرا معبودِ شر (اہرمن)۔ نصاریٰ ان سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ دنیا پر شیطان کی حکومت ہے۔ معتزلہ نے یہ توجیہ پیش کی کہ شرور و ذنوب کا تعلق بندوں کے افعال سے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بچوں کی تکالیف کی وجہ کیا ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی وجہ ان کے افعال ہیں۔ اور مشرکین نے فرض کر لیا کہ اس کائنات پر ایک کے بجائے متعدد خداؤں کی حکومت ہے۔ یونان کے مشرکین کا یہی عقیدہ تھا۔
مولانا فراہی ؒ نے خدا کے وجود اور اس کی حاکمیت کے متعلق مختلف مکاتب فکر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور یہ بات واضح کر دی ہے کہ انسان کی عقل اور اس کے علوم ہر چیز کی روح و کنہ کے ادراک سے قاصر ہیں۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام افعال کی حقیقت و غایت کو مکمل طور پر جان سکے۔ اس سلسلے میں مولانا نے رواقیین کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کا ہر واقعہ اپنے اندر خیر و حکمت کے پہلو رکھتا ہے، خواہ وہ خیر و حکمت ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ ہماری عقل محدود ہے اس لیے ہر چیز کی حقیقت کا ادراک اس کے لیے مشکل ہے۔ عقل کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خدائے واحد پر ایمان لائے۔
جن لوگوں نے وجود خدا کا انکار کیا ہے ان کے انکار کی بنیاد علم کے بجائے سراسر ظن و تخمین پر ہے۔ اگر وہ غور و تدبر سے کام لیتے تو دنیا میں شر کے وجود اور ظلم و استحصال کے واقعات کی حقیقی علّت معلوم کر سکتے تھے۔ ان کا انکار خدا خود ان کے قول کے خلاف ہے۔ ان کا انکار ثابت کرتا ہے کہ وہ خود کو اس کائنات کے بالمقابل ایک برتر وجود خیال کرتے ہیں۔ اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی اس سے بھی برتر وجو دہے جس نے ان کے نفوس کو کائنات پر برتری عطا کی ہے۔ نفس کی یہ برتری ارادہ و اختیار کی مظہر ہے۔ انسانی نفوس میں ارادہ و اختیار کی قوت تسلیم کر لینے کے بعد دنیا میں ظلم و استحصال کے واقعات اور خود نفس انسانی میں شر کی موجودگی کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ارادہ و اختیار کے لازمی ثمرات ہیں۔
[باقی]
_____________
۱ مولانا حمید الدین فراہی، فی ملکوت اللہ، الدائرۃ الحمیدیہ، سرائے میر اعظم گڑھ، ۱۳۹۱ھجری، ص۳
۲ ایضاب، ص۴
۳ ایضاب، ص۴
۴ ایضاب، ص۴
۵ ابن سینا اور بعض دوسرے مسلم فلاسفہ کا یہی نقطۂ نظر ہے۔ (مصنف)
۶ فی ملکوت اللہ، ص۴، ۵
۷ فی ملکوت اللہ، ص۵
۸ دیکھیں، بقرہ۔۱۱۳، اٰل عمران۔۵۵، مائدہ۔۴۸، انعام۔۱۶۴، نحل۔۹۲، حج۔۶۹
۹ فی ملکوت اللہ، ص۵
۱۰ فی ملکوت اللہ، ص۵
۱۱ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ ملاّ ہے نہ زاہد نہ حکیم
۱۲ سورۂ فاطر۔۲۸
۱۳ سورۂ بقرہ۔۱۶۴، روم۔۲۴، نحل۔۱۲، اٰل عمران۔۱۹۱
۱۴ سورۂ انفال۔۲۲، اعراف۔۱۷۹
۱۵ فی ملکوت اللہ۔ ص۶
__________________