[’’سیروسوانح‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(۲)
ایام شورش ہی میں حضرت عثمان نے طلحہ کو بلایا،ان کے بیٹے موسیٰ ساتھ تھے۔وہ بتاتے ہیں، علی، سعد، زبیر اور معاویہ بھی وہاں موجود تھے۔عثما ن نے ان سب کو خطاب کر کے کہا،تم رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے صحابہ اور روئے زمین پر بہترین افراد ہو ۔تم نے اپنے اس ساتھی کو کسی زور زبردستی اور لالچ کے بغیر خلیفہ چنا تھا جو عمررسیدہ ہو چکا ہے ۔معترضین کے اعتراضات بہت عام ہو چکے ہیں،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھ کر اپنے قرابت داروں کی مدد کی ہے۔اگر تم اس عمل کو غلط سمجھتے ہوتو میں اپنی عطائیں واپس لے لیتا ہوں چنانچہ ان کے مشورہ پر عبداﷲ بن خالد بن اسیداور مروان کو دیے جانے والے عطیے واپس لیے ۔
بلوہ کے دنوں میں ملعون غافقی بن حرب مسجد نبویؐ میں جماعت کی امامت کرتا رہا ، کچھ نمازیں علی، طلحہ بن عبیداﷲ، ابو ایوب انصاری اور سہیل بن حنیف نے پڑھائیں۔خلیفۂ مظلوم نے شہادت سے قبل بار بار طلحہ سے رجوع کیا ،وہ ان کا ۵۰ ہزار کا قرض واپس کرنے آئے تو نہ لیا اورکہا،ابومحمد!(طلحہ کی کنیت) یہ تمہارے حسن سلوک کا صلہ ہے۔ عثمان آخری بار گھر سے باہر آئے تو طلحہ،علی ، زبیراور دیگر اصحاب کو پاس بلایا ،انھیں بیٹھنے کو کہااور الوداعی خطبہ ارشادفرمایا۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روایات لغو اور بے سر و پا ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ طلحہ بن عبیداﷲ نے ابن عدیس اور سودان بن حمران کے ساتھ مل کر سیدنا عثمان کے قتل کی سازش کی۔بلوائیوں نے پانی بند کیا تو سیدنا عثمان نے اپنے پڑوسی آل حزم سے پانی مانگا اور علی،طلحہ،زبیر،عائشہ اور دوسری امہات المومنین کو پیغامات بھیجے۔ سب سے پہلے علی اور ام المومنین ام حبیبہ پانی لے کر آئے تو انھیں روک دیاگیا۔طلحہ نے سیدہ ام حبیبہ سے فسادیوں کی بدسلوکی کا سنا تو پانی پہنچانے کے بجائے خانہ نشین ہو گئے۔ عمومی واقعات کے متضاد ایک اور روایت حکیم بن جابر کی ہے جس میں ہے، حضرت علی نے طلحہ کو باغیوں کے خلاف حضرت عثمان کا دفاع کرنے کو کہا تو وہ نہ مانے اور کہا، بنو امیہ کو چاہیے ،حق ازخودادا کر دیں۔
شہید مظلوم کا جنازہ رات کے اندھیرے میں چراغ گل کر کے اٹھایا گیا۔حکیم بن حزام، ابوجہم بن حذیفہ،نِییار ؓ بن مُکرَم،جبیب بن مطعم،زید بن ثابت، کعب بن مالک،طلحہ،زبیر، علی اور حسن نے میت کو کندھا دیا۔
خلیفۂ مظلوم کی شہادت کے بعدمدینہ ۵ دن(دوسری روایت:۲دن) تک ملعون غافقی بن حرب کی امارت میں رہا۔ بصرہ سے آئے ہوئے باغی ایک بار پھر طلحہ کے پاس آئے اور انھیں زمام خلافت سنبھالنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے سختی سے انکار کر دیا۔ اسی اثنا میں طلحہ،زبیر اورچند مہاجرین وانصار اکٹھے ہو کر حضرت علی کے پاس گئے اور کہا،امت امیر کے بغیر متحد نہیں رہ سکتی ۔ہاتھ بڑھایے ،ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ نہ مانے۔ یہ حضرات بار بار آتے اور کہتے رہے،خلافت کی عدم موجودگی میں اہل ایمان راہ راست پر نہ رہیں گے تو وہ راضی ہوئے۔ سب سے پہلے طلحہ نے اپنے شل ہاتھ کے ساتھ ان کی بیعت کی پھر زبیر آگے بڑھے۔ حبیب بن ذویب نے طنز کیا ،بیعت کی ابتدالنجے ہاتھ سے کی گئی ہے اس لیے اس کی تکمیل نہ ہو گی۔دوسری روایت کے مطابق طلحہ نے بیعت میں تاخیر کی اور اشتر کے تلوار سونتنے پر ہاتھ آگے کیا۔سعد بن ابی وقاص کاکہنا ہے ،ان سے زبردستی بیعت لی گئی۔
حضرت علی خلیفہ بن گئے تو حضرت عثمان کے قصاص کے مسئلے پرطلحہ کاان سے اختلاف ہو گیا۔وہ زبیر اور دوسرے اکابرصحابہ کے ساتھ ان کے پاس آئے اور کہا،ہم نے بیعت کے وقت حدوداﷲ قائم کرنے کی شرط لگائی تھی۔ یہ باغی گروہ عثمان کے قتل میں شریک رہا ہے ،اس سے ان کے خون ناحق کا قصاص لینا فرض بنتا ہے ۔علی نے کہا،اس وقت زمانۂ جاہلیت کے حالات عود کر آئے ہیں، تا وقتیکہ لوگ ایک رائے پر جمع نہ ہو جائیں قصاص لینا ممکن نہیں۔طلحہ نے تجویز دی کہ زبیرکو کوفہ کی اورانھیں بصرہ کی گورنری دے دی جائے تووہ وہاں سے فوج اکٹھی کر لائیں گے جو مدینہ کو خوارج اور قاتلین عثمان سے خالی کرالے گی ۔ حضرت علی نے یہ مشورہ نہ مانا توطلحہ و زبیر عمرہ کی اجازت لے کر مکہ چلے گئے ۔سعید بن عاص اور مغیرہ بن شعبہ ان کے ساتھ تھے لیکن مکہ جا کر الگ ہوگئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ کو حج کے بعدحضرت عثمان کی شہادت اور حضرت علی کے انتخاب کی اطلاع ملی تو راستے ہی سے مکہ واپس چلی گئیں۔ یعلٰی بن امیہ یمن سے اور عبداﷲ بن عامر بصرہ سے پہنچے ،یہ دونوں حضرت عثمان کے گورنر رہ چکے تھے۔ایک ہزار (دوسری روایت کے مطابق ۳ ہزار)کا لشکرفراہم ہو گیاتو ان سب نے بصرہ جانے کا قصد کیاجہاں انھیں مزید حمایت ملنے کی امید تھی۔بخاری کے الفاظ ہیں،’’جب طلحہ،زبیر اور عائشہ بصرہ گئے تو علی نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی کو روانہ کیا ۔یہ دونوں کوفہ آئے اور منبر پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کیا۔عمارنے کہا،عائشہ بصرہ آئی ہیں،واﷲ!وہ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں،دنیا و آخرت میں لیکن اﷲ جانچنا چاہتا ہے کہ آپ اس کی پیروی کرتے ہیں یا عائشہ کی۔‘‘ حضرت علی نے مقابلے میں آنے کا ارادہ کر لیا اور گورنر بصرہ عثمان بن حنیف کو جنگ کی تیاری کی ہدایت کی تاہم اہل مدینہ کی اکثریت جنگ نہ چاہتی تھی۔ عبداﷲ بن عمر مکہ چلے آئے، وہ حضرت عائشہ کی فوج سے ملے نہ اپنی بہن ام المومنین حفصہ کو اس میں شامل ہونے دیا ۔ ربیع الثانی۳۶ھ میں بصرہ کے قریب مربد کے مقام پر جیش عائشہ کا عثمان کی فوج سے سامنا ہوا،طلحہ سرخ اونٹ پر سوارمیمنہ کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ پہلے دن ہلکی جھڑپ ہوئی پھر عائشہ لشکر کو بنو مازن کے مقبرے میں لے آئیں، دوسرے دن شدید جنگ ہوئی۔ ابن حنیف کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا تو صلح پر مجبور ہوئے۔ شرائط کے مطابق قاضئ بصرہ کعب بن سور کو مدینہ بھیجا گیا جنھوں نے تحقیق کی کہ طلحہ و زبیر نے مجبوراً علی کی بیعت کی تھی۔تائید میں خودحضرت علی نے خط لکھا اور کہا،اس وقت اگر دونوں قلادۂ اطاعت اتارنا چاہتے ہیں تو ان کو اجازت ہے۔معاہدہ کے مطابق اب عثمان کو بصرہ طلحہ و زبیرکے حوالے کرنا تھا،وہ محل سے باہر نہ آئے تواہل بصرہ نے اندر گھس کر انھیں نکالا اور ان کی ڈاڑھی نوچ ڈالی۔ حضرت عائشہ کے سامنے لایا گیا تو انھوں نے جانے کی اجازت دے دی۔اب بصرہ کا ایک گروہ جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، حضرت عثمان کاقاتل حکیم بن جبلہ ان میںآگے آگے تھا۔ وہ مارا گیا تو طلحہ و زبیر کی مخالفت ختم ہوگئی اوراہل بصرہ نے ان کی بیعت کر لی۔ خلیفۂ مظلوم کا ایک قاتل حرقوص بن زہیربھاگ کر اپنے قبیلے بنوسعد میں چلا گیا۔
حضرت علی صرف ۷۶۰ سوار لے کرمدینہ سے نکلے ،ذی قارمیں ۱۰ ہزارسے زائد افراد ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ کوفہ پہنچ کر انھوں نے قعقاع کوبصرہ بھیجا جنھوں نے سیدہ عائشہ، طلحہ اور زبیر سے ملاقات کی۔ صلح کے لیے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی شرط لگائی گئی توقعقاع نے کہا، ایک قاتل مارنے کے لیے آپ نے چھ سو افراد کو قتل کر دیا۔اب حرقوص کے درپے ہیں جس کی حمایت میں چھ ہزار افراد اکٹھے ہو چکے ہیں اس لیے اس شرط پر عمل کرنے سے مزید فساد جنم لے گا۔ سیدہ عائشہ نے پوچھا ، تو کیا کیا جائے ؟قعقا ع نے کہا ،مسئلے کا حل یہ ہے کہ حالات کو پرسکون ہونے دیا جائے ، قصاص کو موخر کر دیا جائے اور علی کی بیعت کر کے خیر وبرکت کی امید کی جائے ۔سیدہ عائشہ آمادہ ہو گئیں اور کہا، علی آ جائیں ، ان کے بھی یہی خیالات ہوئے تو معاملہ طے ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت علی نے بصرہ روانگی کا اعلان کر دیا اور کہا ، عثمان کی شہادت میں حصہ لینے والا کوئی شخص ہمارے ساتھ نہ چلے۔یہ سن کر قاتلین عثمان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ ان کی شہادت کی پلاننگ کرنے والوں کی مجموعی تعداد قریباً اڑھائی ہزار تھی ،ان میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔ اشتر، شریح، ابن سبا،سالم اورعلبا ان کے لیڈر تھے ۔انھوں نے اپنے اجلاس میں طے کیا کہ حضرت علی کے ساتھ چلا جائے ، فریقین کو ہر گزاکٹھا نہ ہونے دیا جائے اور موقع دیکھ کر ان میں جنگ بھڑکا دی جائے۔ بصرہ میں قصر عبید اﷲ بن زیاد کے پاس دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو حضرت علی کی فوج کی نفری ۲۰ ہزار تھی اور جیش عائشہ ۳۰ ہزار کے عدد کو پہنچ چکا تھا ۔ گھڑسواروں کی کمان طلحہ کے پاس تھی۔ علی نے طلحہ وزبیر کو پیغام بھیجا،اگر تم قعقاع کے ساتھ کی جانے والی بات پر قائم ہوتو جنگ سے رکے رہو۔ رات ہوئی تو خلیفۂ مظلوم کے قاتلوں میں بے حداضطراب تھا، پو پھٹنے سے پہلے ان کے دو ہزار کے قریب آدمیوں نے تلواریں سونتیں اور طلحہ و زبیر کی فوج پر ٹوٹ پڑے۔ فریقین میں سے ہر ایک یہ سمجھ رہا تھا کہ جنگ کی ابتدا دوسرے نے کی ہے۔ دیکھتے دیکھتے جنگ کا بازار گرم ہو گیا۔ابن سبا کے ساتھی خوب قتل و غارت کر رہے تھے ، علی پکار رہے تھے ، رکو! رکو! لیکن کوئی ان کی سن نہ رہا تھا۔حضرت عائشہ بھی ہودج پر سوار لڑائی روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ دوران جنگ میں علی نے طلحہ کو بلا کر پوچھا، کیامیں تمہارا دینی بھائی نہیں اور تم نے میری بیعت نہیں کر رکھی؟ پھر تم میرے خون کو کیوں حلال سمجھنے لگے ہو؟ طلحہ نے الزام لگایا، آپ نے حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا تھا۔جواب میں علی نے قاتلین عثمان پر لعنت بھیجی اور کہا،تم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہلیہ کو لڑنے کے لیے لے آئے ہو اور اپنی اہلیہ کو گھر میں چھپا رکھا ہے؟ پھر علی زبیرسے مخاطب ہوئے اور انھیں وہ دن یاد دلایا جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی، زبیر!تم علی سے جنگ کرو گے حالانکہ تم زیادتی پر ہو گے۔ زبیرنے اس بات کی تصدیق کی۔ ایک روایت کے مطابق وہ فی الفور میدان جنگ چھوڑ کر چلے گئے۔ طلحہ پکارے ، ہم نے عثمان کے معاملے میں کوتاہی کی اس لیے آج اس سے کوئی اعلیٰ مقصد نہیں پاتے کہ ان کا قصاص لینے کے لیے اپنا خون بہا دیں ۔اﷲ! عثمان کے بدلے میں میری جان لے لے اور راضی ہوجا۔ذہبی کہتے ہیں ،طلحہ کو سیدناعثمان کی نصرت نہ کر سکنے کی خلش تھی ، اسی پروہ پشیمان تھے۔ وہ حضرت عائشہ کے ساتھ کھڑے تھے (دوسری روایت کے مطابق زبیر کی طرح میدان جنگ چھوڑ کر جارہے تھے) کہ ایک اندھا تیر ان کی پنڈلی پر آلگا اور اس میں سے پار ہو کر گھوڑے کے پہلو میں گھس گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے اپنے لشکر میں موجودمروان بن حکم نے پھینکا اور ابان بن عثمان کی طرف مڑ کر کہا،ہم نے تمہارے والد کے ایک قاتل کو ختم کر دیا۔ابن کثیرنے اس روایت کو مشہور ہونے کے باوجود ترجیح نہیں دی۔ ان کا کہنا ہے ، تیر کسی اور نے پھینکا تھا۔ گھوڑا بدک گیا اورطلحہ نے مدد کے لیے پکارا تو ان کے غلام نے اسے روکا۔زخم سے خون جاری تھا ، اور اسی زخم سے ان کی وفات ہوئی۔ تاریخ ۱۰ جمادی الثانی ۳۶ھ (۲دسمبر ۶۵۶ء)اور دن جمعرات (یا جمعہ)تھا۔ان کی عمر ۶۴(یا ۶۰) برس ہوئی۔دوسری روایت ہے کہ وہ جنگ جمل کے پہلے شہید تھے ، اختتام جنگ پر حضرت علی نے میدان میں ان کا لاشہ دیکھ کر انتہائی دکھ کا اظہار کیا۔ دوپہر کے بعدجنگ سیدہ عائشہ کی کمان میں لڑی گئی اور عصر تک جاری رہی۔ ۴۰ (یا ۷۰) آدمی شہید ہوئے جنھوں نے باری باری حضرت عائشہ کے اونٹ ’عسکر‘کی نکیل تھامی ، اونٹ بھی مارا گیا تو ساری فوج شکست کھا گئی۔ حضرت علی نے ہدایت دی، جنگ سے بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، زخمی پر وار نہ کیا جائے اور گھروں میں نہ گھسا جائے۔ تسمے کاٹ کر سیدہ عائشہ کا ہودہ اتارا گیا، علی ان سے عزت و اکرام سے پیش آئے۔محمد بن ابوبکرنے اپنی بہن کی خیریت دریافت کی اور انھیں بصرہ لے گئے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت علی نے لوگوں سے بیعت لی اور عبداﷲ بن عباس کو بصرہ کاگورنر مقرر کیا۔طلحہ کے بیٹے محمد (سجاد) جن سے وہ’ ابو محمد‘ کنیت کرتے تھے، جنگ جمل ہی میں ’عسکر ‘کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
طلحہ کو دریا کنارے دفن کیا گیا۔شہادت کے کچھ عرصہ بعد ان کے اہل خانہ میں سے کسی (دوسری روایت:عائشہ بنت طلحہ)نے خواب میں دیکھاکہ وہ کہہ رہے ہیں ،مجھے اس رستے پانی سے نجات کیوں نہیں دلاتے ،میں تو ڈوب گیا ہوں۔گورنرا بن عباس(یا عائشہ)نے قبر کھدوائی تو پانی سے بھری ہوئی تھی۔ انھوں نے طلحہ کا جسد نکلوایا اور ۱۰ ہزار درہم میں بصرہ کے مضافات میں واقع ابوبکرہ کا ایک گھر خرید کر اس میں دوبارہ تدفین کرائی۔طلحہ کی میت روز اول کی طرح تروتازہ تھی البتہ زمین کے ساتھ مس کرنے والا چہرے اور ڈاڑھی کا حصہ سبزی مائل ہوچکا تھا۔
جنگ جمل ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعدطلحہ بن عبیداﷲ کے فرزند عمران حضرت علی کے پاس آئے۔علی نے انھیں خوش آمدید کہااور آؤبھتیجے!کہہ کر اپنے ساتھ چادر پر بٹھالیا۔انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا،اﷲ مجھے اور تمہارے باپ طلحہ کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جن کا ذکر اس نے اپنے اس ارشاد میں کیا ہے، ’ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخواناً علی سرر متقٰبلین‘۔ ہم (جنت میں داخلہ کے وقت) ان کے سینوں جو کھوٹ کپاٹ ہے، نکال باہر کریں گے، یہ بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ (سورۂ حجر :۴۷) دو آدمی(ابن کوا اورحارث ہمدانی) بچھونے کے کنارے پربیٹھے ہوئے تھے ،بول پڑے، اﷲ کی طرف سے یہ توقع پوری ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ کل تو تم ان کو قتل کر رہے تھے اور اب جنت میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھ جاؤ گے۔ علی زور سے چلائے ،(ایک روایت کے مطابق حارث کا گریبان پکڑ لیا اور اسے درہ مارا) اٹھو یہاں سے ، روئے زمین پر انتہائی پھٹکارے ہوئے اور بدبخت ترین لوگو! اگر میں اور طلحہ جنت میں اکٹھے نہ ہوں گے تو پھر کون ہوگا؟ پھر عمران بن طلحہ سے پوچھا، تمہارے بھائی بہن کیسے ہیں؟ گزشتہ سالوں میں ہم نے تمہاری زمین اس لیے قبضہ میں نہیں لی کہ ہم اسے ہتھیانا چاہتے تھے۔ ہمیں اندیشہ تھا کہ لوگ اس پر قبضہ نہ کر لیں پھرعلی نے ایک اہل کار کو بلا کر کہا، گورنر کوفہ ابن قرظہ کے پاس جاؤ اوراسے کہو،عمران کواس کی زمین واپس کرے اور پچھلے سالوں کی آمدن لوٹا دے۔حضرت علیؓ کی ایک اور روایت ہے،میرے کانوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے،طلحہ و زبیر جنت میں میرے پڑوسی ہوں گے۔
طلحہ بن عبیداﷲ میانہ قد،خوب رو،سپیدی مائل گندم گوں ، پتلی ناک اور چوڑے شانوں والے تھے ۔ان کے سر پر بہت بال تھے جونہ بالکل سیدھے نہ بہت گھنگھریالے تھے ،بالوں پر کوئی رنگ نہ لگاتے۔عام طور پر زرد کپڑے پہنتے۔انھیں تیز تیز چلنے کی عادت تھی ۔طلحہ سونے کی انگوٹھی پہنتے جس میں سرخ یاقوت جڑا ہوتا،یہ وفات کے وقت بھی ان کے ہاتھ میں تھی۔ ایک بارحضرت عمر نے دیکھا کہ طلحہ نے حالت احرام میں گیرو(گِل ارمنی) سے رنگی ہوئی سرخ چادریں اوڑھ رکھی ہیں، پوچھا، طلحہ! ان چادروں کا کیا معاملہ ہے؟طلحہ نے جواب دیا،امیر المومنین ! ہم نے انھیں مٹی سے رنگا ہے ۔عمر نے کہا، تم جماعت ائمہ سے تعلق رکھتے ہو ،لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں۔کسی نادان نے دیکھ لیا تو کہے گا، طلحہ حالت احرام میں رنگ دار کپڑے پہنا کرتے تھے ۔ احرام باندھنے والے کا بہترین لباس تو سفید چادریں ہیں۔
طلحہ جلد غصہ میں آ جاتے تھے۔عہد صدیقی میں ایک بار وہ عثمان، علی،زبیر،عبدالرحمان اورسعدکے ساتھ بیٹھے کوئی گفتگو کر رہے تھے۔سیدناعمر کا وہاں سے گزر ہوا ، سب خاموش ہو گئے تو انھوں نے پوچھا ،کیا بات چیت ہو رہی ہے؟کسی نے بتانا مناسب نہ سمجھاتو عمر نے کہا ، مجھے خوب معلوم ہے تم اکیلے کیا باتیں کرتے ہو ۔ طلحہ غصے میں آ گئے اور کہا،ابن خطاب!کیا آپ ہمیں غیب کے علم سے بتائیں گے؟غیب تو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
طلحہ بن عبیداﷲ کا ذریعۂ معاش تجارت تھا،مدینہ آنے کے بعد انھوں نے زراعت بھی شروع کر دی۔ اپنے کنبے کا سال بھر کا غلہ وہ مدینہ ہی کی زمین سے حاصل کرتے۔یہ زمین ایک کنویں سے سیراب کی جاتی جس کارہٹ چلانے کے لیے ۲۰ اونٹ موجودتھے۔کہا جاتا ہے، وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے کنویں سے پانی حاصل کر کے گندم کاشت کی۔ کوفہ کی زرخیز اراضی نشاستج اورعراق کے دیگر قطعات سے طلحہ کو ایک ہزار درہم روزانہ کی آمدن حاصل ہوتی۔خیبر کی جاگیر وہ فروخت کرچکے تھے۔دوسری روایت کے مطابق ان کی عراق سے ہونے والی سالانہ آمدن۴ لاکھ درہم، صنعا(یمن)کے پہاڑی علاقے سراۃ سے ایک لاکھ دینار کے لگ بھگ حاصل ہوتے۔ان کے دوسرے ذرائع آمدن بھی تھے ۔وفات کے وقت انہوں نے ۳کروڑ درہم کی مالیت کا ترکہ چھوڑا،اس میں ۲۲لاکھ درہم ، ۲ لاکھ دینارنقد اور سیروں سوناچاندی تھے ،باقی مالیت کی اراضی اور جائیداد تھی۔
طلحہ صاحب ثروت ہونے کے ساتھ بے حد فیاض اور سخی تھے۔انھوں نے کئی مواقع پر آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو گراں قدر رقوم پیش کیں،جنگ بدر میں اپنے مال سے فدیہ دے کر دس قیدی چھڑائے،غزوۂ عمرہ میں سب مسلمانوں کے کھانے کا خرچ برداشت کیااور غزوۂ تبوک کے مصارف کے لیے زر کثیر خرچ کیا۔غزوۂ ذی قَرَد میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر بیسان نام کے ایک نمکین چشمے پر ہوا۔آپ نے فرمایا،اب اس کا نام نَعمان اور پانی میٹھا ہو گا۔طلحہ نے اسے خرید کرعام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔قبیصہ بن جابر کہتے ہیں ،میں نے طلحہ بن عبیداﷲ کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا کہ بغیر مانگے بڑی بڑی رقمیں دے دیتا ہو۔ سائب بن یزید کا کہنا ہے ، میں سفر و حضر میں طلحہ کے ساتھ رہا، کپڑے لتے، کھانے پینے اور درہم و دینار دینے میں ان سے بڑھ کرکسی کو سخی نہیں پایا۔ عہد عثمانی کے گورنر کوفہ سعید بن عاص کے پاس ایک شخص خنیس آیا اور کہا، طلحہ بن عبیداﷲ کتنے سخی ہیں۔ سعید نے جواب دیا ،جس کے پاس نشاستج جیسی اراضی ہو ، ضرور سخی و فیاض ہوگا۔بخدا ! اگر میرے پاس ایسی جائیداد ہوتی تو اﷲ(میرے ذریعے)تمہیں بھی عیش و آرام والی زندگی دیتا۔ایک دفعہ طلحہ کو ان کی اہلیہ سُعدی بنت عوف نے رنجیدہ دیکھا تو کہا، ہم گھر والوں کی کوئی بات ناگوار گزری ہے تو معذرت کر لیتے ہیں۔ جواب دیا،میرے پاس کچھ مال ہے جس نے مجھے بوجھل اور پریشان کررکھا ہے۔ سُعدی نے اسے بانٹنے کا مشورہ دیا تو انھوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو بلا کر یہ سارا مال تقسیم کر دیا، پوچھنے پر بتایا کہ کل ۴ لاکھ درہم تھے۔ ایک بار ان کے پاس حضرموت سے ۷ لاکھ درہم آئے ۔ رات بھر بے چین رہے تو زوجہ ام کلثوم بنت ابوبکرنے پوچھا ،اس بے کلی کی کیا وجہ ہوئی ؟ کہا،جو شخص رات کو اس قدر مال گھر میں رکھ کر سوتا ہو،اپنے رب سے کیا ہی بدگمان ہوگا؟ انھوں نے مشورہ دیا، صبح ہوتے ہی اسے پلیٹوں اور تھالوں میں رکھ کر دوستوں میں بانٹ دیں۔ طلحہ خوش ہوئے اور کہا، تو نیک انسان (ابوبکر ) کی نیک بیٹی ہے۔دن چڑھتے ہی طلحہ نے ساری رقم مہاجرین و انصار میں تقسیم کر دی ۔آخری ایک ہزار حضرت علی کی اہلیہ کو ملے۔ ایک اور بار ایک بڑی رقم ان کے ہاتھ آئی تو ایک ہزار گھر والوں کے لیے رکھ کر باقی بانٹ دیے۔اپنے قبیلے بنوتیم کے نادار کو دیکھتے تو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ضرورت پوری کیے بغیر جانے نہ دیتے۔بنو تیم کی بیواؤں اور ان کے رنڈووں کی شادیاں کراتے، شادی شدہ حضرات کی خدمت کرتے اور قرض تلے دبے ہوئے لوگوں کے قرض چکاتے۔طلحہ ہر سال اپنی فصل آنے پر سیدہ عائشہ کو۱۰ ہزار درہم بھیجتے۔انھوں نے صبیحہ تیمی کے ۳۰ ہزار درہم چکائے،عبیداﷲ بن معمر اور عبداﷲ بن عامر کا ۸۰ ہزار قرض اداکیا۔ ایک بدو نے قرابت داری کا واسطہ دے کر طلحہ سے سوال کیا تو کہا، رحم کا واسطہ دے کرپہلے مجھ سے کسی نے نہیں مانگا۔میرے ایک قطعۂ زمین کی عثمان ۳ لاکھ درہم قیمت دے رہے ہیں، یہ رقم چاہے تو جا کر ان سے لے لویا میں وصول کر کے تمہارے حوالے کر دیتا ہوں۔پھربد وکے کہنے پر اسے قیمت لے دی۔ معاویہ کہتے ہیں،طلحہ نے عمدہ ، سخاوت سے بھرپور ،شرافت والی زندگی گزاری اور فقیرانہ حالت میں قتل ہوئے۔انھی خوبیوں کی بنا پر انھیں ’’طلحۂ خیرؓ‘‘،’’ طلحۂ فیاضؓ‘‘ اور’’طلحۂ جودؓ‘‘ کہا جاتا تھا۔ایک روایت کے مطابق یہ القابات انھیں خودآنحضرت نے علی الترتیب جنگ احد،غزوۂ عُشیرہ (یا ذی قَرَد)اورغزوۂ خیبر (یا حنین)کے مواقع پر عطا فرمائے تھے۔
طلحہ بن عبیداﷲ کا شمار قریش کے بردباروں میں ہوتا تھا ،وہ ابوبکر و عمر کے خاص مشیروں میں شامل تھے۔علقمہ لیثی کہتے ہیں،طلحہ کو جنگ جمل میں حصہ لینے پربہت پشیمانی تھی ،تنہائی میں بیٹھ کر ندامت سے بار بار ڈاڑھی پر ہاتھ مارتے۔ان کا قول ہے ،آدمی کا کم ترین عیب ہے کہ وہ گھر میں بیٹھا رہے۔
عثمان تیمی روایت کرتے ہیں،حج میں ہم طلحہ بن عبیداﷲ کے ساتھ حالت احرام میں تھے۔طلحہؓ ے لیے بھنے ہوئے پرندے کا تحفہ آیا ۔وہ سو رہے تھے،ہم میں سے کچھ لوگوں نے کھا لیا جب کہ کچھ نے اجتناب کیا۔طلحہ بیدار ہوئے تو کھانے والوں کو درست قرار دیااور کہا، ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اس حالت میں شکار کا گوشت کھایا ہے۔مالک بن اوس نے ۱۰۰ دینار(اشرفیاں) بھنانا چاہے،طلحہ بن عبیداﷲ سے ان کی بات طے ہو گئی ۔ طلحہ نے دینارلے لیے،ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر کہنے لگے ،اترائی کے باغات سے میراخزانچی لوٹ آئے تو ابھی میں ان کی ریزگاری (چاندی کے سکے،درہم)دیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ ان کا مکالمہ سن رہے تھے، انہوں نے مالکؓ سے کہا،تم طلحہؓ سے خردہ وصول کیے بغیرنہیں جا سکتے ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہے ، سونا سونے (یا چاندی)کے بدلہ میں سود ہے مگر یہ کہ لین دین ہاتھ کے ہاتھ ہو ،گندم گندم کے بدلے میں سود ہے مگر یہ کہ ہاتھ کے ہاتھ ہو،جو کے بدلہ میں جو سود ہے مگر یہ کہ ہاتھ کے ہاتھ ہو۔کھجور کھجور کے بدلے میں بیچنا سود ہے مگر یہ کہ سودا نقد بہ نقد ہو۔
طلحہ پہلے قاریوں میں سے تھے۔ان کا شمار قلیل الروایت صحابہ میں ہوتا ہے۔ سائب بن یزید کہتے ہیں ، میں طلحہ بن عبیداﷲ ،سعد،مقداداور عبدالرحمان بن عوف کی صحبت میں رہا اور کبھی انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ ہاں طلحہ سے میں نے جنگ احد کے حالات سنے تھے۔بخاری میں ان سے مروی ایک حدیث (رقم:۴۶)درج ہے جس کی کئی ابواب میں تکرار ہوئی ہے۔ مسلم میں۴ احادیث (ارقام: ۹، ۱۰۴۶، ۱۰۴۷،۶۲۰۱) مروی ہوئی ہیں ۔طلحہ سے ان کے بیٹوں یحیےٰ،موسیٰ اور عیسیٰ نے حدیث روایت کی ہے ۔دیگر راویوں کے نام ہیں،سائب بن یزید، مالک بن اوس،ابوعثمان نہدی،قیس بن ابوحازم، مالک بن ابو عامر،احنف بن قیس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمان۔
۶ خواتین طلحہ بن عبیداﷲ کے عقد میں آئیں جن میں سے۲ کی بہنیں نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقد میں تھیں۔ ان خواتین، ۲ امہات اولاد (باندیاں جن سے اولاد ہو جائے) اور ایک سبیہ (جنگ میں قید ہو کر ملنے والی عورت) سے ان کے ۱۵ بچے (۴لڑکیاں اور۱۱ لڑکے) ہوئے۔ انھوں نے اپنے تمام بیٹوں کو انبیا کے ناموں سے موسوم کیا۔ (۱)حمنہ (ام المومنین زینب بنت جحش کی بہن) بنو خزیمہ سے تھیں ، امیمہ بنت عبد المطلب ان کی والدہ تھیں۔ان سے محمد (سجاد) اور عمران پیدا ہوئے۔ محمد جنگ جمل میں اپنے والد کے ساتھ شہید ہوئے۔ (۲) بنو تمیم کی خولہ بنت لہب بنت قعقاع سے موسیٰ نے جنم لیا۔(۳) عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ام ابان سے یعقوب ، اسماعیل اور اسحاق کی پیدائش ہوئی۔ یعقوب بڑے شہ سوار تھے ،جنگ حرہ میں شہید ہوئے۔ (۴)حضرت ابو بکر کی صاحب زادی(ام المومنین عائشہ کی بہن) ام کلثوم سے زکریا ،یوسف اور عائشہ ہوئے ۔ (۵) سُعدی بنت عوف سے عیسیٰ اور یحیےٰ پیدا ہوئے۔ (۶) بنو طے کی جربا(ام حارث)بنت قسامہ سے ام اسحاق ہوئیں ۔ام اسحاق کی شادی پہلے حضرت علی کے بڑے صاحب زادے حسن سے ہوئی ، ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی حسین کے عقد میں آئیں۔انھی کے بطن سے فاطمہ بنت حسین پیدا ہوئیں(۷،۸) ایک ام ولد سے صعبہ اور دوسری سے مریم نے جنم لیا۔ (۹) بنو تغلب کی جنگی قیدی فرعہ سے صالح کی پیدائش ہوئی ۔ابن حجر نے۲ مزید ازواج فارعہ بنت ابوسفیان (ام المومنین ام حبیبہ کی بہن) اور رقیہ بنت ابوامیہ (ام المومنین ام سلمہ کی بہن) کا ذکر بھی کیا ہے۔ حضرت ابوبکر کے پوتے عبداﷲ بن عبدالرحمان اور مصعب بن زبیر طلحہ کے داماد تھے۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبری(ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح (بخاری ، شرکۃ دار الارقم)، المسند الصحیح المختصر من السنن( مسلم، شرکۃ دار الارقم )،تاریخ الامم والملوک (طبری) ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ(ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، فتح الباری(ابن حجر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ جات:Della Vida،L. Veccia Vag Lieri)
________________