بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ{۱۱۸} وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْکلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ{۱۱۹} وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ{۱۲۰} وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ{۱۲۱}
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتٍ لَیْسَ بِخَاِرجٍ مِّنْھَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۲۲} وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْھَا لِیَمْکُرُوْا فِیْھَا وَمَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِھِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ{۱۲۳} وَاِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ{۱۲۴} فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ{۱۲۵} وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْمًا قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ{۱۲۶} لَھُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۲۷}
وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ وَقَالَ اَوْلِیٰٓؤُھُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِیْٓ اَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوٰکُمْ ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ{۱۲۸} وَکَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًام بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ{۱۲۹} یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا شَھِدْنَا عَلٰٓی اَنْفُسِنَا وَغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَشَھِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ{۱۳۰} ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا غٰفِلُوْنَ{۱۳۱} وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ{۱۳۲} وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَ کُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ{۱۳۳} اِنَّ مَاتُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ{۱۳۴} قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ{۱۳۵}
وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ وَھٰذَا لِشُرَکَآئِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِھِمْ فَلَایَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَاکَانَ لِلّٰہِ فَھُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِھِمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ{۱۳۶} وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَآؤُھُمْ لِیُرْدُوْھُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَافَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ{۱۳۷} وَقَالُوْا ھٰذِہٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا یَطْعَمُھَآ اِلَّا مَنْ نَّشَآئُ بِزَعْمِھِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُھُوْرُھَا وَاَنْعَامٌ لَّا یَذْکُرُوْنَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا افْتِرَآئً عَلَیْہِ سَیَجْزِیْھِمْ بِمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ{۱۳۸} وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ھٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَا وَاِنْ یَّکُنْ مَّیْتَۃً فَھُمْ فِیْہِ شُرَکَآئُ سَیَجْزِیْھِمْ وَصْفَھُمْ اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ{۱۳۹} قَدْخَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَھُمْ سَفَھًام بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَارَزَقَھُمُ اللّٰہُ افْتِرَآئً عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ{۱۴۰}
سو (پروا نہ کرو۱۸۵؎ اور )اگر اُس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۱۸۶؎ تو جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ، اُنھیں (بغیر کسی تردد کے) کھائو اور تم اُن چیزوں میں سے کیوں نہ کھائو جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، دراں حالیکہ اُس نے جو کچھ تم پر حرام ٹھیرایا ہے، وہ (اپنی کتاب میں) تفصیل سے بیان کر دیا ہے۱۸۷؎ ، اِس استثنا کے ساتھ کہ تم کسی چیز (کو کھانے) کے لیے مجبور ہو جائو۱۸۸؎۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ لوگ بغیر کسی علم کے اپنی بدعتوں۱۸۹؎ کے ذریعے سے گمراہی پھیلاتے ہیں۔ اِن حد سے بڑھنے والوں کو تیرا پروردگار خوب جانتا ہے۔ تم اِس گناہ کے ظاہر و باطن ، دونوں کو چھوڑ دو۱۹۰؎۔ جو لوگ اِس گناہ کا اکتساب کرتے ہیں، وہ عنقریب اپنی اِس کمائی کا بدلہ پا لیں گے۔ اور اُن جانوروں میں سے بھی ہرگز نہ کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا، یہ نافرمانی ہے۱۹۱؎ اور شیاطین اپنے ایجنٹوں کو القا کر رہے ہیں کہ وہ (اِس معاملے میں) تم سے جھگڑیں۱۹۲؎۔ (اِس لیے متنبہ رہو کہ ) اگر اِن کا کہا مانو گے تو تم بھی مشرک ہو جائو گے۔۱۹۳؎ ۱۱۸-۱۲۱
(تم اِن کی پروا نہ کرو)۔ کیا جو مردہ تھا، پھر ہم نے اُسے زندہ کر دیا اور ایک ایسی روشنی عطا فرمائی جسے وہ لوگوں کے درمیان لے کر چل رہا ہے۱۹۴؎، اُس شخص کے مانند ہوجائے گا جو تاریکیوں۱۹۵؎ میں پڑا ہوا ہے، کسی طرح اُن سے نکلنے والا نہیں ہے۱۹۶؎؟اِن منکروں کے اعمال اِن کے لیے اِسی طرح خوش نما بنا دیے گئے ہیں۱۹۷؎۔ ہر بستی میں اُس کے بڑے بڑے مجرموں کو ہم نے اِسی طرح ڈھیل دی۱۹۸؎ کہ اُس میں اپنی چالیں چل لیں۔ وہ یہ چالیں اپنے ساتھ ہی چلتے تھے، مگر اُنھیں اِس کا احساس نہیں تھا۱۹۹؎۔ جب اُن کے سامنے کوئی آیت آتی تو کہتے تھے: ہم نہیں مانیں گے، جب تک وہی ہم کو نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے۲۰۰؎۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا منصب کسے عطا فرمائے۲۰۱؎۔ اللہ کے ہاں یہ مجرم عنقریب اپنی مکاریوں کی پاداش میں ذلت اور عذاب شدید سے دوچار ہوجائیں گے۔ (یہ ہدایت پانے والے نہیں ہیں)، اِس لیے کہ اللہ (اپنے قانون کے مطابق ۲۰۲؎)جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے، اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے، اُس کا سینہ تنگ کر دیتا اور ایسا بھینچتا ہے گویا اُسے آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہے۔ اللہ اِسی طرح اُن لوگوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۲۰۳؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) یہ راستہ تیرے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے۲۰۴؎۔ (اِس کی وضاحت میں) اپنی آیتیں ہم نے اُن لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کر دی ہیں جو یاددہانی حاصل کریں۔ اُن کے اعمال کے صلے میں اُن کے پروردگار کے ہاں اُن کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور وہ اُن کا کارساز ہے۲۰۵؎۔۱۲۲-۱۲۷
اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ اِن سب (مجرموں) کو اکٹھا کرے گا۲۰۶؎، (پھر فرمائے گا):اے جنوں کے گروہ، تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا۲۰۷؎ اور انسانوں میں سے اُن کے ساتھی (فوراً) کہیں گے: پروردگار، ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے خوب حظ اٹھایا۲۰۸؎ اور (آج) اپنی اُس مدت کو پہنچ گئے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دی تھی۔۔۲۰۹؎۔ اللہ فرمائے گا: تمھارا ٹھکانا اب دوزخ کی آگ ہے، تم اُس میں ہمیشہ رہو گے، مگر جو اللہ چاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۲۱۰؎۔ ہم ظالموں کو اُن کے کرتوتوں کے باعث اِسی طرح ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اے جنوں اور انسانوں کے گروہ، کیا تمھارے پاس خود تمھارے اندر سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو میری آیتیں تمھیں سناتے اور اِس دن کی ملاقات سے خبردار کرتے تھے؟۲۱۱؎ وہ کہیں گے: ہم خود اپنے خلاف گواہ ہیں۔ (اِن پر افسوس)، دنیا کی زندگی نے اِنھیں دھوکے میں ڈالے رکھا اور اب خود اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ وہ منکر تھے۔ (ہم نے) یہ (پیغمبر) اِسی لیے (بھیجے تھے) کہ تمھارا پروردگار بستیوں کو اُن کے ظلم کی پاداش میں ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جبکہ اُن کے باشندے (حقیقت سے) بے خبر ہوں۔(اِن میں سے) ہر ایک کا درجہ اب اُس کے عمل کے مطابق ہے اور جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں، تمھارا پروردگار اُس سے ناواقف نہیں ہے۔ تمھارا پروردگار بے نیاز ہے، وہ رحمتوں والا ہے۲۱۲؎۔ اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور تمھارے بعد تمھاری جگہ جس کو چاہے ، لے آئے، جس طرح اُس نے دوسروں کی نسل سے تمھیں اٹھایا ہے۲۱۳؎۔ (یاد رکھو)، جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے، وہ آکر رہے گی ۲۱۴؎اور تم (خدا کو) عاجز نہیں کر سکتے۔ (اے پیغمبر)، کہہ دو کہ میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر چلو، میں اپنے طریقے پر چل رہا ہوں۲۱۵؎۔ عنقریب تم جان لو گے کہ انجام کار کی کامیابی۲۱۶؎ کسے حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔۲۱۷؎ ۱۲۸-۱۳۵
(اِن کا ظلم اِس حد کو پہنچ چکا ہے کہ ) اللہ کے لیے اِنھوں نے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپایوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا ہے، بزعم خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے۔ پھر جو اِن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے، وہ تو اللہ کو نہیں پہنچ سکتا اور جو اللہ کا ہے، وہ اِن کے شریکوں کو پہنچ سکتا ہے۲۱۸؎۔ کیا ہی برے فیصلے ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ اِسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے اُن کی اولادکے قتل کو اُن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے خوش نما بنا دیا ہے۲۱۹؎، اِس لیے کہ اُن کو برباد کر ڈالیں اوراِس لیے کہ اُن کے دین کو مشتبہ بنا دیں۲۲۰؎۔ اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے۔۲۲۱؎لہٰذا اُنھیں چھوڑو کہ اپنے اِسی افترا میں پڑے رہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ چوپائے اور یہ کھیتی ممنوع ہیں، اِنھیں صرف وہی کھا سکتے ہیں جنھیں ہم کھلانا چاہیں، اپنے گمان کے مطابق۔ (اِسی طرح) کچھ جانور ہیں جن کی پیٹھیں (اُن کے نزدیک) حرام ہیں اور کچھ جانور ہیں جن پر محض اللہ پر جھوٹ باندھ کر اللہ کا نام نہیں لیتے۔ اللہ عنقریب اُن کو اِس جھوٹ کا بدلہ دے گا۔ اور کہتے ہیں کہ جو کچھ اِن جانوروں کے پیٹ میں ہے، وہ ہمارے مردوں کے لیے خاص ہے اورہماری عورتوں کے لیے حرام ہے، لیکن اگر وہ مردہ ہو تو دونوں اُس (کے کھانے) میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ عنقریب اُن کی اِن باتوں کی سزا اُنھیں دے گا۔ بے شک ، وہ حکیم و علیم ہے۲۲۲؎۔ یقینا نامراد ہوئے وہ لوگ جنھوں نے اپنی اولاد کو محض بے وقوفی سے، بغیر کسی علم کے قتل کیا اور اللہ نے جو رزق اُنھیں عطا فرمایا تھا، اُسے اللہ پر جھوٹ باندھ کر حرام ٹھیرایا ہے۲۲۳؎۔ وہ یقینا بھٹک گئے ہیں اور ہرگز راہ راست پر نہیں رہے۔۱۳۶-۱۴۰
۱۸۵؎ یعنی اِن کے اُس پروپیگنڈے کی پروا نہ کرو جو یہ تمھاری اصلاحات کے خلاف کر رہے ہیں کہ یہ شخص وہ چیزیں بھی جائز ٹھیرا رہا ہے جو ہمارے بزرگوں ـــــ ابراہیم و اسمٰعیلعلیہما السلام ـــــ کے زمانے سے حرام چلی آ رہی تھیں۔ یہ اِن کے ظنون و اوہام ہیں۔ ابراہیم و اسمٰعیل کا دین درحقیقت وہی تھا جو اِس وقت اِن کے سامنے شرک و بدعت کی تمام آلایشوں سے پاک کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔
۱۸۶؎ یہ تاکید اور تنبیہ، بلکہ ایک نوعیت کی تہدید بھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔تحریم و تحلیل کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اگر کسی اور کے لیے بھی یہ حق تسلیم کر لیا جائے تو یہ خدا کے حقوق میں دوسرے کو حصہ دار بنانا ہے اور یہ شرک ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مسئلہ صرف ایک چیز کے کھانے اور نہ کھانے کا نہیں ہے، بلکہ جن چیزوں کو مشرکانہ توہمات کی بنا پر حرام ٹھیرایا گیا ہے، اللہ کی طرف سے اُن کی حلت کے اعلان کے باوجود اُن سے اجتناب کرنا گویا بالواسطہ شرک کو تسلیم کرنا ہوا، اِس وجہ سے یہ مسئلہ کفر و ایمان کا مسئلہ بن جاتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۵۴)
۱۸۷؎ یہ اُس تفصیل کی طرف اشارہ ہے جو اِس سورہ میں بھی ہے اور قرآن کے بعض دوسرے مقامات میں بھی کی گئی ہے۔
۱۸۸؎ اِس استثنا کے حدود و شرائط اِس سے پہلے سورئہ بقرہ اور سورۂ مائدہ میں بیان ہو چکے ہیں۔
۱۸۹؎ اصل میں لفظ ’اَھْوَآئ‘آیا ہے۔ اِس کے معنی خواہشات کے ہیں، لیکن سیاق کلام سے واضح ہے کہ یہاں اِس سے مراد وہ مشرکانہ بدعتیں ہیں جو محض خواہشات کی بنیاد پر دین بنا لی جاتی ہیں۔ ’بِغَیْرِ عِلْمٍ‘ کے الفاظ اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کر تے ہیں۔
۱۹۰؎ یعنی شرک کے ظاہر و باطن کو چھوڑ دو۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔شرک کی ایک تو حقیقت ہے، جو یہ ہے کہ خدا کی ذات یا صفات یا اُس کے حقوق میں کسی کو شریک ماننا۔ دوسرے اُس کے مظاہر و اشکال ہیں، مثلاً اصنام، انصاب، ازلام، بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام اور اِس نوع کی دوسری چیزیں جو کسی شرکیہ عقیدے یا تصور کا عملی مظہر اور نشان ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِن دونوں میں بڑا گہرا ربط ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے سہارے سے پروان چڑھتی اور غذا و قوت حاصل کرتی ہیں۔ اِس وجہ سے اگر کسی برائی کا استیصال مقصود ہو تو یہ ضروری ہو گا کہ اُس برائی کی حقیقت اور اُس کے مظاہر و اشکال، دونوں کا استیصال کیا جائے۔ اِس کے بغیر اُس کا استیصال ناممکن ہے۔ اگر یہ خیال کرکے اشکال و مظاہر سے چشم پوشی برتی جائے کہ جب اصل برائی پر ضرب لگا دی گئی تو اشکال و مظاہر میں کیا رکھا ہوا ہے تو وہ برائی اِنھی اشکال میں پھر اپنا نشیمن بنا کر اُس میں اپنے انڈوں بچوں کی پرورش شروع کر دیتی ہے اور آہستہ آہستہ اُس کا پورا کنبہ ازسرنو آباد ہو جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۵۶)
۱۹۱؎ یہ قرآن نے مزید وضاحت فرما دی ہے کہ جس ذبیحہ پر غیر اللہ کا نام تو نہیں لیا گیا، مگر اللہ کا نام بھی نہیں لیا گیا، وہ بھی اُسی حکم کے تحت ہے جو قرآن میں جانوروں کی حرمت سے متعلق بیان ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ جس طرح ’مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ‘فسق، یعنی نافرمانی ہے، اُسی طرح یہ بھی فسق ہے۔ اِس کے وجوہ کیا ہیں؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ اللہ کے نام اور اُس کی تکبیر کے بغیر جو کام بھی کیا جاتا ہے وہ، جیسا کہ ہم آیت بسم اللہ کی تفسیر میں واضح کر چکے ہیں، برکت سے خالی ہوتا ہے۔ خدا کی ہر نعمت سے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، فائدہ اٹھاتے وقت ضروری ہے کہ اُس پر اُس کا نام لیا جائے تاکہ بندوں کی طرف سے اُس کے انعام و احسان کا اعتراف و اقرار ہو۔ اِس اعتراف و اقرار کے بغیر کوئی شخص کسی چیز پر تصرف کرتا ہے تو اُس کا یہ تصرف غاصبانہ ہے اور غصب سے کوئی حق قائم نہیں ہوتا، بلکہ یہ جسارت اور ڈھٹائی ہے جو خدا کے ہاں مستوجب سزا ہے۔
دوم یہ کہ احترام جان کا یہ تقاضا ہے کہ کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اُس پر خدا کا نام لیا جائے۔ جان کسی کی بھی ہو، ایک محترم شے ہے۔ اگر خدا نے ہم کو اجازت نہ دی ہوتی تو ہمارے لیے کسی جانور کی بھی جان لینا جائز نہ ہوتا۔ یہ حق ہم کو صرف خدا کے اذن سے حاصل ہوا ہے۔ اِس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ جس وقت ہم اُن میں سے کسی کی جان لیں، صرف خدا کے نام پر لیں۔ اگر اُن پر خدا کا نام نہ لیں یا خدا کے نام کے ساتھ کسی اور کا نام لے لیں یا کسی غیر اللہ کے نام پر اُن کو ذبح کر دیں تو یہ اُن کی جان کی بھی بے حرمتی ہے اور ساتھ ہی جان کے خالق کی بھی۔
سوم یہ کہ اِس سے شرک کا ایک بہت وسیع دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ ادیان کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے ، وہ جانتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی، اُن کی نذر اور اُن کے چڑھاوے کو ابتداے تاریخ سے عبادات میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اِس اہمیت کے سبب سے مشرکانہ مذاہب میں بھی اِس کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ جو قوم بھی کسی غیر اللہ کی عقیدت و نیاز مندی میں مبتلا ہوئی، اُس نے مختلف شکلوں سے اِس غیر اللہ کو راضی کرنے کے لیے جانوروں کی بھینٹ چڑھائی۔ قرآن میں شیطان کی جو دھمکی انسانوں کو گمراہ کرنے کے باب میں مذکور ہوئی ہے، اُس میں بھی، جیسا کہ ہم اُس کے مقام میں واضح کر چکے ہیں، اِس ذریعۂ ضلالت کا شیطان نے خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اسلام نے شرک کے اِن تمام راستوں کو بند کر دینے کے لیے جانوروں کی جانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام کا قفل لگا دیا، جس کو خدا کے نام کی کنجی کے سوا کسی اور کنجی سے کھولنا حرام قرار دے دیا گیا ۔ اگر اِس کنجی کے بغیر کسی اور کنجی سے اُس کو کھولنے یا اُس کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ کام بھی ناجائز اور جس جانور پر یہ ناجائز تصرف ہوا، وہ جانور بھی حرام۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۵۷)
۱۹۲؎ یعنی اُسی طرح کا غوغا برپا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں جو اِن لوگوں نے اپنی قراردادہ بعض حرمتوں کی حلت کا سن کر برپا کر رکھا ہے۔ چنانچہ اپنے ایجنٹوں کو بتا رہے ہیں کہ لو اب یہ نیا دین لے کر آنے والے تمھارے سب باپ دادوں کو حرام خور قرار دے رہے ہیں جو اللہ کا نام لیے بغیر جانوروں کو ذبح کرتے اور اُن کا گوشت کھاتے رہے ہیں۔
۱۹۳؎ یعنی ایک مرتبہ اِن کے توہمات سے سمجھوتا کر لوگے تو آہستہ آہستہ شرک کے دوسرے مظاہر بھی تمھارے علم و عقیدہ میں در آئیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بالآخر مشرک ہو کر رہ جاؤ گے۔
۱۹۴؎ یہ ایمان والوں کی تمثیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن پر کفر و جہالت کی موت طاری تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ایمان کی زندگی بخشی اور اُن کی رہنمائی کے لیے ایک ایسی کتاب اُنھیں عطا فرمائی جس کی روشنی میں اب وہ حق و باطل کو الگ الگ دیکھ سکتے، حق کے راستے پر چل سکتے اور دوسروں کو بھی یہی راہ دکھا سکتے ہیں۔
۱۹۵؎ اِس سے مراد ظنون و اوہام اور خواہشات و بدعات کی وہ تاریکیاں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
۱۹۶؎ یہ تمثیل اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کے لیے بیان کی گئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اُنھیں جو کچھ عطا ہوا ہے، اُسے وہ کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں، اُس کی قدر کریں اور اُس کا زندگی بخش پیغام دوسروں تک پہنچائیں اور اُن لوگوں کی خرافات پر کان نہ دھریں جو اپنے کرتوتوں کی بنا پر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔
۱۹۷؎ یعنی کفر و جہالت کی جس تاریکی کو اُنھوں نے اپنے لیے اختیار کیا ہے، خدا نے وہی تاریکی اُن کے لیے پسندیدہ بنا دی ہے۔
۱۹۸؎ اصل میں لفظ ’جَعَلْنَا‘ آیا ہے۔ یہ یہاں ’امھلنا‘کے مفہوم میں ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۱۹۹؎ مطلب یہ ہے کہ وہ یہ چالیں بظاہر حق کے خلاف، مگر حقیقت میں اپنے خلاف ہی چلتے تھے۔ اِس کے لیے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، اُن میں فعل ناقص عربیت کے قاعدے سے محذوف ہے۔
۲۰۰؎ یہ اُن چالوں کی ایک مثال ہے جن کا ذکر ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ٹھیک یہی بات، جیسا کہ قرآن میں تفصیل سے بیان ہوئی ، قریش کے اکابر کہتے تھے۔ اُن کو بھی وہی گھمنڈ تھا جو اُن کے پیشرو مستکبرین اور مکذبین انبیا کو تھا کہ اگر خدا کسی کو رسالت ہی دینے والا تھا تو کیا اِس تاج کے لیے اُس کو اِنھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا سر موزوں نظر آیا، آخر مکہ یا طائف کے کسی سردار پر اُس کی نظر کیوں نہ پڑی؟ ظاہر ہے کہ یہ بات جو وہ کہتے تھے تو محض چالبازی کے طور پر کہتے تھے، اِس سے مقصود اُن کا محض اپنی انانیت اور خودفریبی کے لیے ایک پردہ فراہم کرنا اور اپنے عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا تھا۔ سادہ لوح عوام دنیوی اسباب و وسائل کو بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ جن کو دنیا میں بڑا دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ خدا کے نزدیک بھی یہی بڑے ہوں گے۔ اِس ذہن کے لوگ آسانی سے اِس قسم کے چکموں میں آجاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے قرآن نے اِس بات کو مکر سے تعبیر کیا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۶۰)
۲۰۱؎ یہ جواب اگرچہ لفظاً سخت نہیں ہے، لیکن معنی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو نہایت سخت ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ یہ منصب رسالت ایسی چیز نہیں ہے جس کا اہل ہر کس و ناکس بن جائے۔ یہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ یہ تاج وہ کس کے سر پر رکھے۔ یہ مخمل اور زربفت کی جھول نہیں ہے جو بسااوقات گدھوں پر بھی نظر آجاتی ہے، بلکہ یہ خلعت الٰہی اور تشریف آسمانی ہے جو اُنھی کو نصیب ہوتی ہے جن کا انتخاب اللہ تعالیٰ فرمائے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۶۰)
اِس سے مزید یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اِس منصب کے لیے منتخب بھی اُنھی کو فرماتا ہے جو استاذ امام کے الفاظ میں اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے لحاظ سے نوع انسانی کے گل سرسبد، نخل فطرت کے بہترین ثمر اور کمال انسانیت کا مظہر اتم ہوتے ہیں۔
۲۰۲؎ یعنی اپنے اِس قانون کے مطابق کہ ہدایت وہی پائیں گے جو ہدایت کے سچے طالب ہوں گے اور جو ہدایت سے گریز و فرار کے راستے تلاش کرنے میں زندگی بسر کر دیں گے، وہ لازماً گمراہ کر دیے جائیں گے۔
۲۰۳؎ مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک کی نجاست کے جو ردے اِنھوں نے اپنے دل و دماغ میں جما رکھے ہیں، وہی اِن کے لیے قبول حق میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ چنانچہ اپنے مالوفات اور بدعات کو چھوڑنا اور اسلام کی سیدھی صاف راہ کو اختیار کرنا اِنھیں ایک کٹھن چڑھائی معلوم ہوتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِنھیں توفیق ہدایت سے محروم کر دیا ہے۔ اُس کا قانون یہی ہے کہ اسلام کے لیے وہ اُنھی کا سینہ کھولتا ہے جو اِس طرح کی غلاظتوں سے اُسے پاک رکھتے اور حق کے سچے طالب بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف جو تعصبات کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں، اُن کا سینہ وہ اپنی ہدایت کے لیے تنگ کر دیتا ہے۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہ اُس کی سنت ہے اور وہ اپنی سنت میں کبھی تبدیلی نہیں کرتا۔
۲۰۴؎ اصل الفاظ ہیں:’ھٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْمًا‘۔اسم اشارہ میں چونکہ فعل کے معنی ہوتے ہیں، اِس وجہ سے ’مُسْتَقِیْمًا‘ یہاں ’صِرَاطُ رَبِّکَ‘ سے حال واقع ہوگیا ہے۔
۲۰۵؎ اوپر فرمایا تھا:’سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا‘۔ یہ جملہ اُس کے بالکل بالمقابل آیا ہے۔ یعنی مجرم جس انجام کو پہنچیں گے، اُس کے بالمقابل اللہ کے فرماں برداربندوں کا صلہ یہ ہے کہ اللہ اُن کا ساتھی ہو گا اور وہ ہمیشہ کے لیے سکھ اور چین کے گھر میں رہیں گے۔
۲۰۶؎ یعنی سب کو اکٹھا کرے گا، خواہ وہ انسانوں میں سے تھے یا جنوں کے اشرار و شیاطین میں سے جو انسانوں کو اپنی خرافات القا کرتے رہے، جیسا کہ اوپر آیت ۱۱۲ میں بیان ہوا ہے۔
۲۰۷؎ یہ ابلیس کے اُس قول کی طرف نہایت لطیف تلمیح ہے جس کا ذکر قرآن کے دوسرے مقامات میں ہوا ہے کہ آدم کی ذریت میں سے بہت تھوڑے میری تاخت سے محفوظ رہیں گے اور پروردگار، تو اِن میں سے اکثر کو اپنا شکرگزار نہ پائے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یعنی اللہ تعالیٰ ابلیس کے اِن فرزندان معنوی کو خطاب کرکے فرمائے گا کہ تم نے تو اپنے پیشوا ابلیس کا مشن بڑی کامیابی سے پورا کیا کہ ذریت آدم میں سے بہتوں کو اپنے فتراک ضلالت کا نخچیر بنا لیا اور بڑی سعادت مند نکلی یہ اولاد آدم کہ سادہ لوحی کے ساتھ تمھارے دام فریب میں پھنس گئی۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۶۳)
۲۰۸؎ یعنی اُنھوں نے ہماری عبادت، نیاز مندی اور نذروں اور قربانیوں کے مزے لیے اور ہمارے ساحروں، کاہنوں اور سیانوں نے اپنے پیش نظر مقاصد کے لیے اُن کو طرح طرح سے استعمال کیا۔ چنانچہ جن و انس، دونوں ایک دوسرے سے حظ اٹھاتے رہے۔
۲۰۹؎ آگے کا جملہ بتا رہا ہے کہ شیاطین انس کی یہ بات بیچ ہی میں کاٹ دی جائے گی۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں بلاغت کلام کا ایک نکتہ قابل لحاظ ہے۔ شیاطین انس یہ بات بطور اعتراف جرم اور بقصد اظہار ندامت کہیں گے اور یہ تمہید باندھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرنا چاہیں گے، لیکن اسلوب کلام صاف شہادت دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی بات تمہید پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دے گا اور اُن کو معذرت اور درخواست معافی کا موقع دیے بغیر ہی اپنا فیصلہ سنا دے گا کہ ’النَّارُ مَثْوٰکُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا‘ بس اب تمھارا ٹھکانا یہی دوزخ ہے جس میں تمھیں ہمیشہ رہنا ہے، اب باتیں بنانے کی کوشش نہ کرو، عذر، معافی، توبہ اور اصلاح ، سب کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۶۳)
۲۱۰؎ یہ استثنا قابل توجہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِن مجرموں کے جہنم رسید ہو جانے کے بعد تمام معاملات صرف خدا کی مشیت پر منحصر ہوں گے اور اُس کی مشیت اُس کے علم و حکمت کے تحت ہے جس کا تقاضا ہوا تو وہ اُن کی سزا میں تخفیف بھی کر سکتا ہے اور اُنھیں خاک یا راکھ بنا کر ہمیشہ کے لیے اِسی جہنم کی مٹی میں دفن بھی کر سکتا ہے ۔ یہ سراسر اُس کی مشیت پر مبنی ہے۔ اِس کے سوا کسی کے لیے امید کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہے گا۔ استاذ امام کے الفاظ میں کسی کی سعی، کسی کی سفارش، کسی کا زور، کسی کی فریاد کچھ کارگر نہ ہو گی، اختیار اور ارادے کی ساری حدیں ختم ہو جائیں گی، توبہ اور اصلاح اور حسرت و ندامت کی مہلتیں گزر جائیں گی، واحد چیز جو کارفرما ہو گی، وہ خدا کی مشیت ہے اور اپنی مشیت کے بھیدوں کو وہی جانتا ہے۔ وہ ’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘ اور حکیم و علیم ہے۔
۲۱۱؎ یہ سوال قطع عذر کے لیے ہو گا۔ ضمناً یہ بات بھی اِس سے معلوم ہوئی کہ پیغمبر جس طرح انسانوں میں بھیجے گئے، اُسی طرح جنوں میں بھی اُن کے اندر سے بھیجے گئے۔اِس کے لیے اصل میں ’اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اِس باب میں بالکل صریح ہیں اور یہی بات اُس قاعدے کے مطابق بھی ہے جو نبیوں کی بعثت سے متعلق قرآن کے دوسرے مقامات میں بیان ہوا ہے کہ وہ جن کی طرف بھیجے جاتے ہیں، اُنھی کے اندر سے بھیجے جاتے ہیں۔
آیت میں لفظ ’یقصون‘ بھی قابل توجہ ہے۔ اِس کے معروف معنی سرگذشتیں سنانے کے ہیں، لیکن یہاں یہ آیتیں سنانے کے لیے آیا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ہمارے نزدیک یہاں یہ لفظ اِس وجہ سے استعمال ہوا ہے کہ آیات سے یہاںمراد آیات انذار ہیں جن کا غالب حصہ مکذین ومنکرین کے انجام اور اُن کی سرگذشتوں کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں موقع و محل اِسی کا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن سے جو سوال فرمائے گا، اُس کا مطلب یہی ہو گا کہ کیا تمھیں میرے رسولوں نے جھٹلانے والوں کے انجام اور اِس دن کی آمد سے خبردار نہیں کیا تھا کہ تم نے اپنے آپ کو اِس ابدی ہلاکت میں ڈالا ؟‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۶۶)
۲۱۲؎ آگے جو بات فرمائی ہے، یہ جملہ اُس کی تمہید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہی وقت میں بے نیاز بھی ہے اور رحیم و کریم بھی۔ لوگوں کی ہدایت کا جو اہتمام اُس نے کیا ہے اور اپنے پیغمبر کے ذریعے سے ایمان و اسلام کی دعوت اُنھیں دی ہے تو اِس لیے نہیں دی کہ اِس کے بغیر اُس کا کوئی کام رکا ہوا ہے۔ کسی کے ماننے سے نہ اُس کا کچھ بنتا ہے اور نہ انکار کر دینے سے کچھ بگڑتا ہے۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز اور اپنی مخلوقات سے مستغنی ہے۔ اُس نے یہ اہتمام صرف اِس لیے کیا ہے کہ بے نیاز ہونے کے ساتھ وہ رحمت والا بھی ہے اور اُس کی اِس صفت کا تقاضا ہے کہ اتمام حجت کے بغیر کسی کو نہ پکڑے۔ چنانچہ وہ پوری مہلت دیتا، ہر لحاظ سے خبردار کرتا اور اُس کے بعد ہی لوگوں کی گرفت کا فیصلہ سناتا ہے۔
۲۱۳؎ مدعا یہ ہے کہ اپنی تاریخ سے سبق لو۔ خدا اگر تمھارے آبا کی نسل سے تمھیں پیدا کر سکتا ہے تو دوسروں کو تمھاری جگہ لے آنا بھی اُس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ صرف اُس کی رحمت ہے جو تمھیں باقی رکھے ہوئے ہے۔ وہ پکڑ بھی سکتا ہے اور تمھیں فنا کے گھاٹ بھی اتار سکتا ہے۔ اُسے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم نہ رہے تو اُس کی دنیا بے آباد ہو جائے گی۔ وہ اپنی دنیا کے لیے جو مخلوق چاہے گا اور جب چاہے گا، پیدا کر لے گا۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے آیت میں زبان کے ایک نکتے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔فرمایا کہ ’وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِ کُمْ مَّایَشَآئُ‘،حالاں کہ بظاہر ’من یشائ‘ ہونا تھا، اِس لیے کہ ’مَا‘کا غالب استعمال بے جان چیزوں ہی کے لیے ہے۔ میرے نزدیک ’مَنْ‘ کی جگہ ’مَا‘کا استعمال اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت کے اظہار اورقریش کے غرور پر ضرب لگانے کے لیے فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی قوت و سطوت پر کیا اترا رہے ہو، خدا کی قدرت تو وہ ہے کہ وہ تمھارے اِس صحرا کی جس چیز کو چاہے ، تمھاری جگہ لینے کے لیے اٹھا کھڑی کرے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے بھی ایک جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ تم اِس بات پر گھمنڈ نہ کرو کہ تم ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہو، میرا خداوند چاہے تو ریگستان کے ذروں سے ابراہیم کے لیے اولاد کھڑی کرے۔ بعینہٖ یہی زور قرآن کے اِس اسلوب میں مضمر ہے، بلکہ قرآن کا اسلوب اپنی تعمیم کے پہلو سے زیادہ زور دار ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۶۸)
۲۱۴؎ یعنی وہ عذاب بھی جو رسول کے مکذبین پر اِسی دنیا میں آتا ہے اور وہ یوم الحساب بھی جس کے بوجھ سے آسمان پھٹا پڑ رہا ہے اور جس کے لیے کسی وقت بھی صور پھونکا جا سکتا ہے۔
۲۱۵؎ آیت میں ایک مقابل حذف ہو گیا ہے، یعنی ’انی عامل علی مکانتی‘۔ لفظ ’مکانۃ‘ کے اصل معنی تو جگہ، منزلت اور مقام کے ہیں، لیکن طریقہ کا مفہوم چونکہ اِس کے لوازم میں سے ہے، اِس لیے موقع کلام کی رعایت سے اِس کے اندر آپ سے آپ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ صاف صاف اعلان براء ت اور نہایت واضح دھمکی ہے جو آگے کے جملوں سے بالکل نمایاں ہوجاتی ہے۔
۲۱۶؎ اصل میں لفظ ’عَاقِبَۃ‘ آیا ہے۔ اِس کے معروف معنی انجام کے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ انجام خیر و فلاح کے معنی میں بھی آجاتا ہے، اِس لیے کہ اصل انجام تو انجام فلاح و سعادت ہی ہوتا ہے۔
۲۱۷؎ یہ نہیں فرمایا کہ تم فلاح نہیں پاؤ گے یا ہم لازماً فلاح پائیں گے، بلکہ صرف یہ فرمایا ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ اِس اسلوب میں کیا بلاغت ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ اسلوب بیان حکمت و دعوت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت موثر ہے اور یہ اُس خشیت و توکل پر بھی دلیل ہے جو انبیا و صالحین کے اندر ہوتی ہے۔ جو چیز پردۂ غیب میں ہے، جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، جس کی راہ میں ابھی معلوم نہیں کتنی دشوار گزار گھاٹیاں پار کرنی اور کتنی پر خطر وادیاں قطع کرنی ہیں ، اُس کے باب میں جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ اِسی حد تک کہی جا سکتی ہے۔ اِس سے آگے بڑھ کر کوئی دعویٰ کرنا بندگی اور خشیت الٰہی کے خلاف ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۷۰)
۲۱۸؎ اِس کی صورت یہ تھی کہ بتوں کے نام کی بکری مر جائے یا چوری ہو جائے یا اُن کے نام کا غلہ چوہے کھا جائیں یا اور کوئی حادثہ ہو جائے تو اُس کی تلافی لازماً خدا کے حصے میں سے کر دی جائے گی، لیکن اگر اِس طرح کی کوئی آفت خدا کے نام پر نکالے ہوئے حصے پر آجائے تو اُس کی تلافی بتوں کے حصے میں سے نہیں ہو گی۔ گویا مرجح حق اُن کے نزدیک بتوں اور شریکوں ہی کا تھا اور کیوں نہ ہو، دنیا کے تمام مشرکین کی نقد ضروریات اُن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ خدا سے اگر کچھ ملتا بھی ہے تو اُنھی کی وساطت سے ملتا ہے، بلکہ خدا نہ بھی دینا چاہے تو وہ دلوا کر چھوڑتے ہیں۔
۲۱۹؎ یہ سنگین جرم بعض مزعومہ جن بھوتوں کو راضی کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ عرب جاہلیت میں اُن کے استھان بنے ہوئے تھے اور اُن کے پروہت، کاہن اور مجاور لوگوں کو اُن کی ناراضی کا خوف دلا کر اِس طرح کے جرائم اُن سے کراتے رہتے تھے۔
۲۲۰؎ یعنی اُس دین کو مشتبہ بنا دیں جو اُنھیں ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی وراثت میں ملا تھا۔
۲۲۱؎ لیکن اللہ نے نہیں چاہا، اِس لیے کہ اِس طرح کا جبر اُس اسکیم ہی کو باطل کر دیتا جو انسانوں کے امتحان کے لیے روبہ عمل ہے۔
۲۲۲؎ یعنی چونکہ حکیم و علیم ہے، اِس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ اُن لوگوں کو سزا نہ دے جو اُس کے نام پر اِس طرح کے جھوٹ گھڑتے ہیں۔
۲۲۳؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اُن کے یہ خرافات اگرچہ مبنی تو تھے اُن کے مشرکانہ اوہام پر، لیکن اُنھیں منسوب بہرحال اللہ کی طرف کیا جاتا تھا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ