HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

کلمۂ ایمان کے بعد قتل

عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَرَأَیْتَ إِنْ لَقِیْتُ رَجُلًا مِّنَ الْکُفَّارِ فَقَاتَلَنِیْ فَضَرَبَ إِحْدٰی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فَقَطَعَہَا ثُمَّ لَاذَ مِنِّی بِشَجَرَۃٍ فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلّٰہِ، أَفَأَقْتُلُہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ بَعْدَ أَنْ قَالَہَا؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْہُ، قَالَ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّہُ قَدْ قَطَعَ یَدِیْ ثُمَّ قَالَ ذٰلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَہَا أَفَأَقْتُلُہُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَقْتُلْہُ فَإِنْ قَتَلْتَہُ فَإِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہُ وَإِنَّکَ بِمَنْزِلَتِہِ قَبْلَ أَنْ یَّقُوْلَ کَلِمَتَہُ الَّتِیْ قَالَ.
حضرت مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے سوال کیا کہ آپ کی کیا راے ہے کہ اگر میرا کفار میں سے کسی آدمی کے ساتھ سامنا ہو اور وہ میرے ساتھ قتال کرے اور پھر میرے ایک ہاتھ پر وار کرے اور اسے کاٹ ڈالے ۔ پھر مجھ سے بچنے کے لیے درخت کے پیچھے پناہ لے اور پھر کہے کہ میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کیا تو کیا میں اسے قتل کردوں جبکہ اس نے یہ کہا ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اسے قتل نہ کرو۔ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یارسول اللہ، اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا ہے پھر اس نے ہاتھ کاٹنے کے بعد یہ بات کہی ہے،تو کیا میں اسے قتل کردوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اسے قتل نہ کرو، کیونکہ تمھارے قتل کرنے سے پہلے وہ تمھاری ہی طرح ہے اور تم اس کی طرح ہو۔

وَأَمَّا مَعْمَرٌ فَفِیْ حَدِیْثِہِ: فَلَمَّا أَہْوَیْتُ لِأَقْتُلَہُ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ.

جہاں تک معمر کا تعلق ہے تو اس کی حدیث میں (میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کیاکے بجاے اس طرح)ہے:پھر جب میں اسے قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا تو اس نے لا الٰہ الاّ اللہ کہہ دیا

لغوی مباحث

أَسْلَمْتُ لِلّٰہِ: ویسے اس جملے کا مطلب ہے :میں اللہ کے آگے جھکا ۔ لیکن یہاں دروبست سے واضح ہے کہ دین قبول کرنا مراد ہے ۔ یہ جس قتال کی بات ہو رہی ہے، اس میں اہل کفر کے لیے جان کی امان کا ایک ہی رستہ تھا اور وہ یہ کہ وہ دین اسلام کو قبول کر لیں اور اللہ کی اطاعت کے دائرے میں آجائیں ۔ یہ جملہ اسی فیصلے کو ظاہر کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسی روایت کے بعض متون میں اس کی جگہ کلمہ طیبہ بھی روایت ہوا ہے ۔

معنی

اس روایت کا تعلق بظاہر قرائن سورۂ توبہ کے حکم قتال کے بعد کے زمانے سے ہے ۔مراد یہ ہے کہ جب یہ حکم دے دیا گیا کہ جو اہل عرب ایمان نہیں لائے ،انھیں قتل کر دو، الاّ یہ کہ وہ ایمان لے آئیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص عین قتال کے موقع پر ایمان لانے کا اعلان کرے تو کیا کرنا چاہیے؟ یہاں سوال میں ہاتھ کاٹنے اور درخت کے پیچھے چھپنے کی بات شامل کرکے سوال کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے کہ یہ اعلان ایمان محض جان بچانے کے لیے ہے ۔ شارحین یہ سوال زیر بحث لائے ہیں کہ اس سوال کے پیچھے کوئی حقیقی واقعہ ہے یا سوال میں واقعے کا بیان مثال کے طور پر ہے؟ ہمارے سامنے اس روایت کے جو متون ہیں ،ان سب میں سوال کا اسلوب ایک ہی ہے اور اس سے یہی نمایاں ہوتا ہے کہ واقعہ محض تمثیلی ہے ۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ اس طرح کے واقعات اس زمانے میں پیش آئے تھے ۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ سوال میں اس طرح کے واقعات ہی ملحوظ ہوں ۔

سوال کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلان ایمان کے حالات خواہ کچھ بھی ہوں، اس کا لحاظ کیا جائے گا ۔ کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ کسی مسلمان کو خواہ اس کے ایمان کے بارے میں اس کا اندازہ کچھ بھی ہو کہ وہ اسے قتل کر دے ۔ کلمۂ ایمان کے بعد قتل قتل نا حق ہے، الاّ یہ کہ وہ شخص کسی ایسے جرم کا مرتکب ہو جس کے نتیجے میں مباح الدم ہو جائے ۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک اور ارشاد میں ’الا بالحق‘۱؂ کے الفاظ میں بیان کی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں معاملہ ظاہر پر رکھا گیا ہے ۔ کسی انسان کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ دل کی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکے ۔ جس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص دل سے ایمان نہ لائے۔اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انتہائی صورت حال کسی کے لیے انکشاف حقیقت کا سبب بن جائے اور وہ دل سے ایمان لے آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعوت برپا کی تھی ،وہ عین انسانی فطرت کا بیان تھی، اس لیے ہر عرب ضمیر کی کشمکش کے ساتھ کفر کی حالت میں تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ عربوں کی اکثریت کے لیے اس کشمکش سے نکل کر حق کو قبول کرنے کا سبب بن رہا تھا ۔ چنانچہ کسی کے لیے آخری رکاوٹ کب دور ہوتی ہے؟ اس کو خارج سے طے نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دوٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ کلمۂ ایمان کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا ۔

اس روایت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں ظاہر پر اعتبار ہے ۔ جس شخص نے ایمان کا اعلان کر دیا، وہ مسلمان ہی سمجھا جائے گا ۔اس طرح کے نازک موقعے پر بھی محض شبہے میں کسی کو کافر سمجھنے یا کافر قرار دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ قرآن مجید میں بھی یہی حکم دیا گیا ہے ۔ سورۂ نساء میں ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.(۴: ۹۴)
’’اے ایمان والو، جب تم خدا کی راہ میں نکلوتو معاملہ واضح کرلیا کرو ۔ وہ شخص جو تمھیں السلام علیکم کہے، اسے دنیا حاصل کرنے کی غرض سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، کیونکہ اللہ کے پاس بہت ساری غنیمتیں ہیں ۔ اس سے پہلے تم بھی انھی کی طرح تھے۔ پھر اللہ نے تم پر (اپنا) فضل کیا۔ تم پر واضح رہے کہ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح واقف ہے ۔‘‘

اس روایت کی اصل مشکل اس کا آخری حصہ ہے ۔ حضور نے مقتول اور سائل کو کس پہلو سے مشابہ قرار دیا ہے۔ شارحین نے اس سوال کے تین جواب دیے ہیں :

ایک یہ کہ اس کی جان بھی محفوظ اور مامون تھی جس طرح تمھاری جان محفوظ و مامون ہے ۔

دوسرا یہ کہ جس طرح تم پہلے غیر مسلم تھے اور بعد میں تمھیں ایمان کی توفیق ملی، اسی طرح وہ بھی غیر مسلم سے مسلمان ہوا تھا ۔

تیسرا یہ کہ وہ بھی تمھاری طرح ایمان چھپائے ہوئے تھا اور اس نے ایک موقع پر آکر ایمان ظاہر کیا تھا ۔اس معنی کی تائید ان روایتوں سے پیش کی گئی ہے جن میں حضرت مقداد کے اپنا ایمان ظاہر نہ کرنے کا ذکر ہوا ہے ۔

سب شارحین اس بات پر متفق ہیں کہ اس جملے سے کفر میں مشابہت مراد نہیں ہے اور اس طرح وہ اس روایت سے ارتکاب کبیرہ پر تکفیر کے معنی نکالنے کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن بعض شارحین نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ ناحق قتل کی وجہ سے انجام کی وعید میں برابری مراد ہے ۔اور کچھ نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ اس میں اس خون کے ہدر ہونے کا بیان ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس پر کوئی قصاص نہیں ہو گا۔

ہمارے نزدیک اس روایت میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو قرآن مجید کی محولہ بالا آیت میں بیان ہوئی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح تم کفر کی حالت سے نکلے ہو اور تمھیں ہدایت کی نعمت حاصل ہوئی ہے، اسی طرح کا معاملہ تمام اہل عرب کا ہے۔ جس طرح تم ایمان لانے کے باعث خدا کی گرفت سے مصؤن و مامون ہوئے ہو، اسی طرح ہر ایمان لانے والا کافر مامون ہو جائے گا۔جس طرح تمھارے ایمان لانے کی قدر شناسی کی گئی ہے، اسی طرح تم بھی ایمان لانے والوں کے ایمان کی قدر کرو ۔

متون

یہ روایت ان روایتوں میں سے ہے جن کا متن بہت پہلے ضبط تحریر میں آگیا تھا ۔ امام شافعی نے اپنی کتاب ’’الام‘‘ میں اسے روایت کیا ہے اور بعد کی کتابوں میں بہت معمولی فرق کے ساتھ انھی الفاظ اور اسی ترتیب بیان کے ساتھ روایت کتب حدیث میں مرقوم ہے ۔ جیسے ایک روایت میں ’الکفار‘ کی جگہ’ المشرکین‘ کا لفظ آیا ہے یا قتل کے لیے کسی میں باب مفاعلہ کا صیغہ ہے اور کسی میں باب افتعال کا ۔ چنانچہ اس روایت کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اس کے متون میں اختلاف نہیں ہے تو یہ بات بڑی حد تک درست ہے ۔

ایک فرق معنی کی بحث میں بیان ہو گیا ہے کہ ’أَسْلَمْتُ لِلّٰہِ‘ کے بجاے ’لا الٰہ الّا اللّٰہ‘ کہنے کا بھی ذکر ہے۔ اسی طرح بعض روایتوں میں یہ تصریح بھی نقل ہوئی ہے کہ اس آدمی کے ساتھ مڈبھیڑ میں کچھ دیر مقابلہ ہوا اور جب یہ اس پر غالب آگئے تو اس نے ایمان کا کلمہ کہا ۔ البتہ صاحب ’’المعجم الکبیر‘‘ نے ایک ایسی روایت بھی شامل کتاب کی ہے جس میں مکالمے کے جملے کافی تفصیلی ہیں :

إِنْ لَقِیْتُ رَجُلًا مِّنَ الْکُفَّارِ فَاخْتَلَفْتُ أَنَا وَہُوَ ضَرْبَتَیْنِ فَضَرَبَنِیْ فَأَبَانَ إِحْدٰی یَدَیَّ فَضَرَبْتُہُ ثُمَّ قَدَرْتُ عَلٰی قَتْلِہِ فَقَالَ حِیْنَ أَرَدْتُ أَنْ أَہْوِیَ إِلَیْہِ بِسِلَاحِیْ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَقْتُلُہُ أَمْ أَتْرُکُہُ؟ قَالَ: لا بَلِ اتْرُکْہُ فَقُلْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَإِنْ قَطَعَ إِحْدٰی یَدَیَّ؟ قَالَ: وَإِنْ فَعَلَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَإِنْ قَطَعَ إِحْدٰی یَدَیَّ؟ قَالَ: وَإِنْ فَعَلَ فَرَاجَعْتُہُ فَقَالَ: إِنْ قَتَلْتَہُ بَعْدَ أَنْ یَّقُوْلَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِہِ قَبْلَ أَنْ یَّقُوْلَہَا وَہُوَ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہُ.(رقم۵۹۰)
’’اگر میری کفار کے ایک آدمی سے مڈبھیڑ ہو۔ میرے اور اس کے مابین دو ایک واروں کا تبادلہ ہو ۔ پھر اس نے میرے ایک ہاتھ پر وار کیا اور میں نے اس پر وار کیا۔ پھر میں نے اس پر قابو پالیا کہ اسے قتل کرسکوں، جب میں اپنے ہتھیار کے ساتھ اسے قتل کرنے کے لیا بڑھا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔ کیا میں اسے قتل کروں یا چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اسے چھوڑ دو۔ میں نے پوچھا:یا رسول اللہ اگرچہ اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا ہو؟ آپ نے فرمایا:اگرچہ اس نے یہ کیا ہو۔ میں نے پھر پوچھا:یا رسول اللہ اگرچہ اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا ہو؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ اس نے یہ کیا ہو۔ میں نے پھر دہرایا تو آپ نے فرمایا:اگر تم نے اسے قتل کیا توتم اس کی جگہ پر ہو اس کے یہ کلمہ پڑھنے سے پہلے اور وہ تمھاری جگہ پر ہے تمھارے قتل کرنے سے پہلے۔‘‘

علاوہ ازیں بعض راویوں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کا تعارف بھی کرایا ہے کہ یہ بنو زہرہ کے حلیف تھے اور انھوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔

کتب حدیث میں اس واقعے کی طرح کے واقعات بعض دوسرے لوگوں نے بھی بیان کیے ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے کا ایک حقیقی اور عملی مسئلہ ہے جو اس روایت میں زیر بحث آیا ہے ۔

کتابیات

مسلم، رقم۹۵۔۹۷۔بخاری ، رقم۳۷۹۴۔ احمد، رقم ۲۳۸۶۸،۲۳۸۸۲۔ مسند الشافعی بحوالہ کتاب الام ومن کتاب جراح العمد۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۴۸۶،۲۸۹۴۳، ۳۳۱۰۷۔ ابی داؤد، رقم ۲۶۴۴۔ نسائی، رقم ۸۵۹۱۔ ابن حبان، رقم۱۶۴۔ المعجم الکبیر، رقم ۵۸۵۔۵۹۵۔ بیہقی، رقم ۱۵۶۲۴،۱۶۶۰۰۔ معرفۃ السنن والآثار، رقم ۴۷۹۰، ۵۰۲۵۔ المسند المستخرج علی الصحیحین، رقم۲۷۲۔۲۷۳۔

_______________

B