HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

Idiot Box

آج کل یہ بات عام طور پر کہی جارہی ہے کہ ٹیلیوژن کے آنے کے بعد کتاب اور قلم کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔اس کا سبب یہ بیان کیا جاتاہے کہ عصرِ حاضر میں الیکٹرونک میڈیا کے عام ہونے کے بعد مطالعے کا رواج بہت کم ہوگیا ہے۔یہ بات ہماری سوسائٹی کے اعتبار سے ٹھیک ہے مگر اہل مغرب کے ہاں آج بھی کتاب علم سیکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ان کے ہاں الیکٹرونک میڈیاخبر،کھیل اور تفریح (Infotainment)کے معاملے میں تو یقیناََ بہت زیادہ موثر ہوگیا ہے مگر علم کی دنیا میں آج بھی کتاب و قلم کی حکمرانی ہے۔ ان کے ہاں ٹیلیوژن کو Idiot Boxکہا جاتا ہے۔اس یقین کی بنا پر کہ بہت زیادہ ٹیلیوژن دیکھناانسان کی ذہنی سطح کو کم تر کردیتا ہے۔

Watching too much television causes stupidity.

یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔کیونکہ ٹیلیوژن دیکھنے کے عمل میں انسان اپنی عقل کو ،جو اس کا اصل شرف ہے، بہت کم استعمال کرتا ہے۔جبکہ مطالعہ کرنا ایک بھرپور ذہنی ورزش ہے جس میں انسان کی علمی و عقلی صلاحیتیں بے پناہ بڑھ جاتی ہیں۔

ٹیلیوژن دیکھنے والے شخص کے مقابلے میں کتاب پڑھنے والا شخص اپنے ذہن کا بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ جب وہ الفاظ پڑھتا ہے تو ان کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بات سمجھ میں نہ آئے تو دو تین دفعہ رک کر دیکھتا ہے۔اپنے تخیل کو استعمال کرکے وہ ان کو تصورات میں تبدیل کرتا ہے۔ان کا تجزیہ کرتا ہے۔الفاظ نئے ہوں تو ڈکشنری سے ان کے معنی دریافت کرتا ہے۔اس طرح نہ صرف اس کا علم بڑھتا ہے بلکہ اس کی تخیلاتی طاقت (Imagination Power)اس عمل سے مضبوط ہوتی ہے۔ اس کی تجزیہ (Analysis)کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔چیزوں کو سمجھنے اور اخذ کرنے کی استعداد میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

جبکہ مطالعہ نہ کرنے اور صرف ٹیلیوژن پر انحصار کرنے والا کبھی اس عمل سے نہیں گزرتا۔وہ اس Idiot Box پر ہر چیز اپنے سامنے مجسم دیکھتا ہے۔ہر پیغام اور ہر واقعہ آواز، تصویر ،رنگ اور روشنی کی مدد سے اس طرح اس کے سامنے برہنہ ہوکر آجاتی ہے کہ عقل کا استعمال کرنے کی ضرورت بہت کم ہوجاتی ہے۔آہستہ آہستہ اس کی ذہنی صلاحیت کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے ۔ اور آخرکار وہ اتنی کم زور ہوجاتی ہے کہ وہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی کھوبیٹھتا ہے۔ اس کی زندگی بس سنی سنائی باتوں میں گزرنے لگتی ہے۔

یہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے کی روایت جو پہلے ہی بہت کمزور تھی اب کم و بیش ختم ہوتی جارہی ہے۔لوگ اول تو اپنی معاشی اور معاشرتی مصروفیات ہی سے وقت نہیں نکال پاتے۔ اور جو وقت انھیں ملتا بھی ہے وہ ٹیلیوژن کے چینل بدلتے ہوئے گزرجاتا ہے۔ لوگ بڑے فخرسے بتاتے ہیں کہ ان کے پاس مطالعے کا وقت نہیں ہے یا پھر مطالعہ کرنا انھیں بہت مشکل لگتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص بڑے فخر سے بتائے کہ وہ ورز ش نہیں کرتا ۔ ایسے شخص کا جسم بے ڈول اور دل کمزور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مطالعہ نہ کرنے والے اورٹیلی وژن کے چینل بدلتے رہنے والے افراد ذہنی طور پر اسمارٹ نہیں رہتے ۔ذہنی طور پر پسماندہ ہوجاتے ہیں۔ذہنی پسماندگی کی اس سے بڑی نشانی کیا ہوسکتی ہے کہ لوگ خود اپنی جہالت کو فخریہ طور پر بیان کرنے لگیں۔

اجتماعی طور پر جس قوم کے افراد میں مطالعہ کی عادت ختم ہوجائے وہاں علم کی روایت کمزورہوجاتی ہے۔ علم کی مضبوط روایت کے بغیر دنیا کی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باجود دنیا میں بہت پیچھے ہے۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے ٹیلیوژن کے سامنے کتاب کوشکست ہورہی ہے۔یہ شکست زندگی کے ہر میدان میں ہماری شکست کا سبب بن سکتی ہے۔یہ نوشتہ دیوار Wrting of Wall ہے ۔ مگر کیا کیجیے اسے پڑھنے کے لیے بھی مطالعے کی عادت ہونی چاہیے جو بدقسمتی سے ہم میں نہیں۔

ایسے میں ہر باشعور شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے کوشش کرے۔آج اس سے بڑی کوئی قومی خدمت ممکن نہیں۔


بس یہی دل

پچھلے دنوں مجھے ایک تقریب میں شرکت کا اتفاق ہواجس کا انعقاد ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا۔یہ تقریب جس ہال میں منعقد کی گئی تھی اس کا ماحول بہت مسحور کن تھا۔وسیع ہال، بڑے بڑے خوبصورت فانوس، دبیز قالین، ٹھنڈی فضا، خوش رنگ پردے اور دیواریں اور ان سب کے ساتھ ایک پرتکلف عشائیہ ۔

میں اس محفل میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اس طرح کے ماحول میں ایسی محافل دنیا بھر میں عام ہوتی ہیں۔ مگر ان میں ہر کس و ناکس کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ایسی جگہوں پر داخلے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو صرف نامور، باصلاحیت ، صاحب حیثیت اور بااثر لوگ ہی دے سکتے ہیں۔معاشرے کے عام افراد کی پہنچ سے یہ سب کچھ ساری زندگی باہر ہی رہتا ہے۔

ایسے میں مجھے خیال آیا کہ مالک کائنات جب اپنی جنت بنائے گا تو یقیناََ وہ دنیا کی ان تمام نعمتوں سے زیادہ حسین ہوگی۔مگر اس جنت کی خوبیوں میں سے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے کوئی مال، کوئی نام، کوئی صلاحیت اور کوئی اثر و رسوخ نہیں چاہیے۔جنت کی حسین وادی ،اس کی پرلطف محفلوں، اس کی ابدی بادشاہی اور اس کی غیر فانی نعمتوں کے حصول کی قیمت کچھ نہیں۔ بس اک ٹوٹا ہوا دل رب کی عظمت کے احساس سے پاش پاش دل ۔ یہی جنت کی قیمت ہے۔

وہ دل جس میں اخلاص ہو۔رب کی سچی چاہت ہو۔اس کی اطاعت کا جذبہ ہو۔ اس کے نام پر مرمٹنے کی خواہش ہو۔اس کے عہد کی پاسداری ہو۔ اس سے وفا کا عزم ہو۔اس کی رحمت کی امید ہو۔اس کی پکڑ کا خوف ہو۔اس سے ملاقات کا شوق ہو۔اس کے رسول کی محبت ہو۔ اس کے دین کی حمیت ہو۔اس کی فردوس کی رغبت ہو۔بس یہی بس یہی دل چاہیے۔ لوگ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھینک دیتے ہیں۔ مگر خداٹوٹے ہوئے دل کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔ اتنا زیادہ کہ اس کے بدلے میں اپنی سب سے بڑی نعمت ۔ فردوس کی ابدی بادشاہی ۔ دینے کے لیے تیار ہے۔مگر کیا کیجیے کہ آج لوگوں کے پاس ساری دینداری ہے یہی ٹوٹا ہوا دل نہیں۔

 

بادشاہوں کا بادشاہ

حضرت سلیمان علیہ السلام ایک مشہور نبی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا بادشاہ بنایا تھا۔ جنوں، پرندوں اورہواؤں کو بھی ا ن کا تابع فرمان کردیا تھا۔وہ پرندوں یہاں تک کہ چینٹیوں کی باتیں بھی سمجھ لیتے تھے۔ان کے دربار میں ایسے باکمال لوگ موجود تھے جو ان کے حکم پر ہزار میل دور موجود ایک چیز کو لمحہ بھر میں ان کے دربار میں پہنچادیتے تھے۔مگر اس سب کے باجود وہ لمحہ بھر غافل نہ رہتے اور ہر لمحے رب کا شکر ادا کرتے رہتے۔

قرآن پاک کی سورہ نمل میںیہ ساری تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔اسی سورہ میں یہ واقعہ بھی بیان ہوا ہے کہ ان کے لشکر میں موجود پرندے ہد ہد نے ایک روز انھیں یہ اطلاع دی کہ یمن کی قوم سبا پر ایک عورت حکمران ہے جو بڑی شان و شوکت کی مالک ہے۔البتہ وہ اور اس کی قوم شرک کا شکار ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پرمعمور تھے کہ شرک کو ختم کردیں، انھیں جب یہ اطلاع ملی تو آپ نے ہد ہد کے ذریعے سے اسے ایک خط پہنچوایا کہ فرمانبرداری کے ساتھ فوراََ میری خدمت میں حاضر ہو۔جب ملکہ سبا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔وہ ایک طاقتور قوم کے سردار تھے اس لیے اپنی ملکہ کو جنگ کا مشورہ دیا۔اس پر ملکہ سبا نے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقت سے واقف اور بہت سمجھدار خاتون تھی، اپنا وہ تاریخی جملہ کہا جو انسان کی ہزاروں سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ ہے۔ قرآن نے اس کی بات کو اس طرح بیان کیا ہے۔

’’بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں (فتح کے بعد )داخل ہوتے ہیں تو وہاں فساد برپا کردیتے ہیں اور وہاں کے معززین کو ذلیل کرکے چھوڑتے ہیں۔‘‘(نمل ۲۷: ۳۴)

ملکہ سبا کا یہ جملہ بادشاہوں کے اس رویے کو بیان کرتا ہے جو ہمیشہ سے ان کا معمول رہا ہے۔ بادشاہ جب کسی ملک پر قبضہ کرلیتے ہیں تو ان کی طاقت کو یہ گوارہ نہیں ہوتا کہ کوئی ان کے خلاف اٹھنے کی جرأت کرے۔اس لیے جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں اور خاص طور پر وہاں کے عزت دار لوگ، جن کی طرف سے بغاوت کا اندیشہ سب سے بڑھ کر ہوتا ہے ، انھیں ذلیل اور بے وقعت بناکر رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس کائنات کے بادشاہ ہیں ۔وہ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔ان کی سنت بھی اس معاملے میں دوسرے بادشاہوں سے کچھ مختلف نہیں۔تاہم ،اللہ تعالیٰ کو کسی عام بستی کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ بادشاہ کی حیثیت سے اگر داخل ہوتے ہیں تو دل کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔پھر اس کے بعد وہ دل کی اس بستی میں وہی کچھ کرتے ہیں، جو دوسرے بادشاہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں کرتے ہیں۔

وہ اس بستی میں ہر اس تعمیر کو گرادیتے ہیں جس میں دنیا کی محبت آباد ہوتی ہے۔وہ ہر اس عمارت کو مسمار کردیتے ہیں جس میں غیر اللہ کا بسیرا ہوتا ہے۔وہ ان قلعوں اور چھاؤنیوں کو تاراج کردیتے ہیں جو نفس و شیطان کی پناہ گاہ ہوتی ہیں۔ وہ خواہشات کے اس محل سرا کو ویران کردیتے ہیں جس میں دنیا پرستی کا ڈیرا ہوتا ہے۔وہ دل کی دنیا کے ہر عزت دار کو اس طرح ذلیل و رسوا کرتے ہیں کہ وہ کبھی سرا ٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔مال و دولت، عزت و شہرت، جمال و کمال ، آسائش وزیبائش کے وہ بت جن کی پرستش ہر دل میں کی جاتی ہے ،اس بستی میں خدائے ذوالجلال کی دہشت سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔

اس کے بعد انسان چاہے سلیمان علیہ السلام کی طرح کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، دنیا میں ہر طرف سے گھرا، ہی کیوں نہ ہو، اس کا دل خدا کی جاگیر بن جاتا ہے ۔اس مفتوحہ دل میں ہر طرف خدا کی عظمت کا راج ہوتا ہے۔ اسی کی بڑائی کے نغمے گائے جاتے ہیں۔

یہی تاراج دل ٹوٹا ہوا دل ہے یہی وہ دل ہے جو آج نایاب ہوچکا ہے۔

 _________________

B