HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے‘‘۔]

(۳)


آخرکار حضرت علی کی بیعت ہوئی ،سب سے پہلے اشتر نخعی نے ان کا ہاتھ تھاما تاہم ،حضرت سعد نے ان کی بیعت نہ کی۔بیعت نہ کرنے والے دوسر ے صحابہ عبداﷲ بن عمر،صہیب رومی، زید بن ثابت،محمد بن مسلمہ ،سلمہ بن وقش اور اسامہ بن زید تھے۔حضرت سعد کے بھتیجے ہاشم بن عتبہ نے انھیں حصول خلافت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے صریح انکار پر وہ حضرت علی کی حمایت کرنے لگے۔

حضرت سعدبن ابی وقاص میں گوشہ نشینی کا رجحان تھا،فرماتے ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون کو عورتوں سے منقطع ہونے سے روک دیا تھا۔ اگر آپ نے انھیں اجازت دی ہوتی تو ہم بھی خصی ہو جاتے۔ خصی ہونااب مطلقاًحرام ہے۔ زمانۂ فتنہ میں جب مسلمانوں میں باہم جنگ وجدال ہوا،ان میںیہ رجحان عود کر آیا اور وہ ابوذر، سعید بن زید اور سلمہ بن اکوع کی طرح کنارہ کر گئے ۔حضرت سعد نے نماز کے لیے مسجد نبویؐ میں آنابھی چھوڑ دیا جہاں ادا کی ہوئی نمازایک ہزار نما زوں کا ثواب رکھتی ہے اور ذو الحلیفہ جانے والے راستے پر مدینہ سے ۸ میل دور حمراء الاسد میں واقع اپنے گھر سے چپک گئے ۔انھوں نے اہل خانہ سے کہا، لوگوں کے حالات انھیں نہ بتائے جائیں حتی کہ امت ایک امام پر جمع ہو جائے۔ اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ حضرت سعد نزاعی اور گروہی سیاست سے دور رہے۔ حضرت عثما ن کی شہادت کے بعد متحارب مسلمانوں کے درمیان ہونے والی دوسری جنگ ، جنگ صٍفٍین بھی کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی تو فریقین میں مصالحت کی کوششیں شروع ہوئیں۔حضرت علی کی جانب سے ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاویہ کی طرف سے عمرو بن عاص کو حکم بنایا گیا۔ رمضان ۳۷ھ میں ان دونوں کی ملاقات طے تھی۔ حضرت علی نے ابوموسیٰ اشعری اور عبداﷲ بن عباس کے ساتھ شریح بن ہانی کی قیادت میں ۴۰۰ سواروں کا ایک دستہ بھیجا۔حضرت معاویہ نے بھی عمرو بن عاص کے ساتھ ۴۰۰ سوار بھیجے۔یہ کوفہ و شام کے بیچ واقع مقام دومۃ الجندل پہنچے۔ صحابہ و تابعین میں سے عبداﷲ بن عمر،عبدالرحمان بن ابوبکر،عبداﷲ بن زبیر، مغیرہ بن شعبہ ، عبدالرحمان بن حارث ، عبدالرحمان بن عبد یغوث اور ابوجہم بن حذیفہ بھی وہاں موجود تھے۔یہ کوشش بھی بے ثمر ثابت ہوئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے ،اس موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص بھی آئے اور کم زور موقف اپنانے پر ابوموسیٰ کو ڈانٹا تاہم درست بات یہی ہے کہ وہ مدینہ سے باہر بنوسلیم کے چشمے پر اپنے اونٹوں کے باڑے میں تھے ۔ ان کے بیٹے عمرانھیں لینے پہنچے، حضرت سعد نے انھیں دیکھ کر کہا، میں آنے والے سوار کے شر سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ عمرنے اصرار کیا ، ابا جان! لوگ اقتدار کی جنگ میں مشغول ہیں اور آپ اپنے اونٹوں اور اپنی بھیڑ بکریوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دونوں اطراف کے ثالث اور قریش کے اہم افراد جمع ہیں۔ آپ بھی چلیں کیونکہ کہ اس وقت غیر متنازع صحابئ رسولؐ ہونے کی وجہ سے آپ خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔حضرت سعد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر کہا،خاموش ہو جا! اﷲ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار،بے نیاز ہو اوربچ بچا کر رہے۔یہی سوچ حضرت سعد پر غالب رہی ، انھوں نے مشورہ چاہنے والے حسین بن خارجہ کوبھی ایساسجھاؤ دیا: بکریوں کا ریوڑ لے کر اسے چرانے میں میں مشغول ہو جاؤحتی کہ معاملات واضح ہو جائیں۔ ان کے برعکس ان کا بیٹاعمر(ا بن سعد) امارت کا فریفتہ رہا حتیٰ کہ اس فوج کا کمانڈر بن گیا جس نے حضرت حسین کو شہید کیا۔

حضرت سعد سے پوچھا جاتا ، (علی وعائشہ کے مابین ) جنگ میں آپ کے شامل ہونے میں کیا رکاوٹ ہے؟توکہتے مجھے ایسی تلوار لا دو جو کافر و مومن میں تمیز کر سکے۔ان کے بھتیجے ہاشم بن عتبہ نے کہا،چچا!یہاں ایک لاکھ تلواریں(یعنی افراد) موجود ہیں جو آپ کو خلافت کا سب سے زیادہ حق دارسجھتی ہیں۔ حضرت سعد نے جواب دیا، مجھے لاکھوں کے بجائے ایک ہی تلوار درکار ہے جس سے میں کسی مومن پر وار کروں تو ایذا پہنچائے نہ کاٹ کرے اور جب کافر پر آزماؤں تو خوب چلے ۔ حضرت معاویہ نے ان سے شکوہ کیا،تم علی کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے تو انھوں نے جواب دیا، میں اس شخص سے کیسے قتال کر سکتا تھا جسے خطاب کرتے ہوئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ،’’کیا وسند نہیں کرتا کہ میرے لیے ایسا ہو جائے جیسے ہارونؑ موسیؑ کے لیے تھے۔ہاں اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔‘‘ معاویہ نے پوچھا ،تم نے یہ فرمان کس سے سنا ہے؟انھوں نے کہا ، فلاں فلاں سے اور ام المومنین ام سلمہ سے۔ معاویہ نے کہا، اگر میں نے یہ ارشاد سنا ہوتا تو علی سے ہر گزقتال نہ کرتا۔حضرت سعد نے مزید کہا، یہ علی ہی تھے جن کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر فرمایا تھا،کل میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جسے اﷲ اور اس کا رسول ؐ پسند کرتے ہیں۔ معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص،عبداﷲ بن عمر اور محمد بن مسلمہ کو خط بھیجے کہ خلیفۂ سوم عثمان کا خون بہا لینے میں ان کی مدد کریں۔انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ وہ حضرت عثمان کا ساتھ چھوڑ دینے کا کفارہ اسی طرح ادا کر سکیں گے۔ان تینوں نے انکار کر دیا۔

سیدنا علی کی شہادت کے بعد اقتدار معاویہ کو منتقل ہوا تو حضرت سعد ان سے ملنے آئے اور کہا،بادشاہ سلامت! السلام علیک۔معاویہ نے مسکرا کر کہا، ابواسحاق! کیا حرج تھا ،اگر آپ امیرالمومنین کہہ دیتے ؟حضرت سعد نے کہا ، آپ مسکرا کریہ بات کر رہے ہیں؟بخدا!میں ہر گز پسند نہ کروں گا کہ اس منصب کی ذمہ داری اٹھاؤں جس پر آپ فائز ہو گئے ہیں۔ حضرت سعد نے ماہ رمضان معاویہ کے ہاں گزارا۔اس دوران میں انہوں نے نماز قصر سے اداکی اور روزہ نہ رکھا۔ایک روایت کے مطابق انہوں نے معاویہ کی بیعت بھی کی۔

ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص،خالد بن ولید اورکچھ دوسر ے صحابہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر آئے ۔ام المومنین میمونہ نے کہیں سے آیا ہوا بھنا ہوا گوشت پیش کیا ۔ آپؐ نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ پکاریں،رسول اﷲ ؐکو بتا دو،یہ گوہ کا گوشت ہے ۔آپؐ نے ہاتھ کھینچ لیا تو صحابہ نے بھی کھاناچھوڑ دیا۔ خالد بن ولید نے پوچھا ،یا رسول اﷲ ! کیا یہ حرام ہے؟آپؐ نے فرمایا، کھاؤ ، یہ حلال ہے ۔(میں اس لیے نہیں کھاتاکیونکہ) یہ میری قوم(قریش)کی سرزمین(مکہ) میں نہیں ہوتی اور ہماری خوراک میں شامل نہیں۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام ابورافع حضرت سعد کے پڑوسی تھے ۔انھوں نے حضرت سعد سے کہا، میرے گھر کے دونوں کمرے خریدلو۔حضرت سعدنے کہا، میں ۴ ہزار درہم سے زیادہ نہیں دے سکتا،وہ بھی قسطوں میں دوں گا ۔ابورافع نے کہا، مجھے اس کے ۵سو دینار مل رہے ہیں۔اگر میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد،’’پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔‘‘نہ سنا ہوتاتو ۴ہزار دینار میں ہرگز نہ دیتا۔اسی روایت سے احناف نے حق شفعہ کا مسئلہ اخذ کیاہے۔حضرت سعد وتر ایک رکعت پڑھتے تھے۔عہد فاروقی میں جب حضرت سعد بن ابی وقاص کوفہ کے گورنر تھے،عبداﷲ بن عمران سے ملنے گئے۔انھوں نے موزوں پر مسح کرتے دیکھ کر اعتراض کیاتو حضرت سعد نے روایت بیان کی کہ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسح علی الخفینکیا ہےٍ ۔عبداﷲ نے اپنے والدعمر سے حضرت سعد کی اس روایت کی تصدیق چاہی تو انھوں نے کہا، جب سعدتم سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی روایت بیان کریں تو کسی اور سے ہر گز نہ پوچھنا۔اس درجہ ثقاہت رکھنے کے باوجود حضرت سعد حدیث بیان کرنے سے کتراتے تھے ، کہتے تھے،مجھے اندیشہ ہے ، ایک حدیث میں بیان کروں گا اور سو تم بنا لو گے۔سائب بن یزید کہتے ہیں ، میں طلحہ بن عبیداﷲ ،سعد،مقداداور عبدالرحمان بن عوف کی صحبت میں رہا اور کبھی انہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ ہاں طلحہ سے میں نے جنگ احد کے حالات سنے تھے۔

صحیح بخاری میں حضرت سعد سے مروی احادیث کی تعداد ۵ ہے جب کہ صحیح مسلم میں ۱۸ احادیث ان سے روایت کی گئی ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور خولہ بنت حکیم سے حدیث روایت کی ۔ان سے روایت کرنے والوں کے نام یہ ہیں،عائشہ ام المومنین،عبداﷲ بن عباس،عبداﷲ بن عمر،جابر بن سمرہ،احنف بن قیس،سعید بن مسیب،عروہ بن زبیر، شریح بن ہانی،ابو صالح ذکوان ،مجاہد،ابو عثمان نہدی،قیس بن ابو حازم، ابراہیم بن سعد،عامر بن سعد، عمربن سعد،محمد بن سعد،مصعب بن سعد، عائشہ بنت سعد، ابراہیم بن عبدالرحمان،ایمن حبشی ،بسر(بشر) بن سعید، حارث بن مالک ،حسین بن عبدالرحمان، راشد بن سعد،زیاد بن جبیر،ابو عیاش،سائب بن یزید، سلیمان بن ابو عبداﷲ،شریح بن عبید،عبداﷲ بن ثعلبہ،عبدالرحمان بن سائب،عبیداﷲ بن ابو نہیک، علقمہ بن قیس ، عمرو بن میمون،غنیم بن قیس،قاسم بن ربیعہ، ابو بکر بن خالد،مالک بن اوس، مجاہد بن جبیر اورموسی بن طلحہ۔

۵۰ ھ میں حضرت حسن کو زہر دیا گیا، حضرت حسین حجرۂ عائشہ میں ان کی تدفین کرنا چاہتے تھے ۔عائشہ نے اجازت بھی دے دی لیکن بنوامیہ نے شور مچایا، عثمان کو تو بقیع میں دفنایاگیا اور حسن کو آنحضرتؐ کے پہلو میں جگہ دے دی جائے۔فتنہ بڑھنے کا اندیشہ تھا اس لیے حضرت سعد ،ابوہریرہ، جابر اور عبداﷲ بن عمر نے مشورہ دیاکہ اس بات پر تلوارزنی اور خون ریزی نہ کی جائے۔ ارقم بن ابی ارقم کی نماز جنازہ حضرت سعد نے پڑھائی۔انھوں نے سعید بن زید کو غسل دیا۔

حضرت سعد کے بیٹے عامر سے رسول اکرمؐ کے اس قول کے بارے میں پوچھا گیا جوآپؐ نے حضرت سعد کے بارے میں فرمایا تھا، ’’تم زندہ رہے تو توقع ہے کہ کئی قومیں تم سے فائدہ اٹھائیں گی اور کچھ کوتم سے ضرر پہنچے گا‘‘ انھوں نے جواب دیا،حضرت سعد عراق کے گورنر بنائے گئے تو انھوں نے مرتدین کی ایک قوم کو قتل کیا ۔ یہ ان کا ضرر ہوا اور انھوں نے بے شمار لوگوں کو مسیلمہ کذاب کی پیروی سے رجوع کرنے کی دعوت دی ۔انھوں نے توبہ کی اور حضرت سعد کی نصیحت سے نفع اٹھایا۔ ابوامامہ باہلی بیان کرتے ہیں، ایک مجلس میں ہم رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ذکرآخرت سے ہم پر رقت طاری ہو گئی۔حضرت سعد بن ابی وقاص دھاڑیں مار کر رونے لگے اور روتے روتے کہا،کاش! میں مر گیا ہوتا۔آپؐ نے انھیں ڈانٹا اورکہا، سعد! تو میرے پاس بیٹھ کرموت کی تمنا کر رہا ہے ؟پھر فرمایا،اگر تو جنت کی مخلوق ہے تو تیری عمر جتنی لمبی ہو گی یا تیرے اعمال جتنے اچھے ہوں گے تمہارے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔

حضرت سعد خود بیان کرتے ہیں، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی،’’اے اﷲ!سعدکی دعا قبول کرنا جب تجھے پکارے۔‘‘دوسری روایت یوں ہے،اﷲ!’’ سعد کے تیرکو سیدھا نشانے پر لگنے والا بنا دے اوراس کی دعا قبول کر۔‘‘ اسے اپنے بندوں کا محبوب بنا دے۔ ایک بار آپؐ نے فرمایا،اﷲ بندے کی دعا قبول نہیں کرتاحتی کہ اس کی خوراک پاک صاف نہ ہو۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے کہا ، یا رسول اﷲ! دعا کیجیے کہ میرا کھانا پاک ہو جائے۔ آپؐ نے دعا فرمائی تو حضرت سعد خوش بو بوٹی سنبلہ سے بھی بچنے لگے جو ان کے کھیت میں ادھر ادھر سے آ جاتی اور اسے اس کے مالک پاس لوٹا کر آتے۔ ایک شخص نے حضرت علی کو گالیاں دیں تو حضرت سعد نے اسے روکا ،وہ منع نہ ہوا تو اسے بددعا دی۔ایک اور شخص علی ، طلحہ اور زبیر کو سب وشتم کر رہا تھا ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اسے منع کیا ۔وہ باز نہ آیا تو دو گانہ ادا کر کے دعا کی،اے اﷲ! اس نے ان بندوں کو گالیاں دی ہیں جو نیکیاں کر کے تیرے پاس آ چکے ہیں،اسے دوسروں کے لیے عبرت اور مثال بنا دے۔ عامر بن حضرت سعد روایت کرتے ہیں،ایک بختی اونٹنی بھاگتی ہوئی آئی اور اسے کچل دیا۔ایک دن ایک غلام حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس دوڑتا ہوا آیا،اس کی ایڑیاں خون سے تر تھیں۔حضرت سعد نے پوچھا ، تمہیں کس نے زخمی کیا ؟ اس نے بتایا، آپ کے بیٹے عمر نے۔ انھوں نے بددعا دی ،اﷲ!اسے مار ڈال اور اس کی خون ریزی کر۔حضرت سعد کی بددعا قبول ہوئی ،عمرکو حاکم کوفہ مختار نے مروا دیاکیونکہ وہ سیدنا حسین کے قاتلوں میں شامل تھا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے بیٹوں کو وہ دعائیہ کلمات سکھاتے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نماز کے بعد پڑھتے تھے،کہتے ،آپؐ نے ہمیں بھی ان کی تعلیم دی۔ اے اﷲ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، تیری پناہ میں آتا ہوں بزدلی سے ،پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے پست ترین عمرمیں ڈال دیاجائے ،میں پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنے یعنی فتنۂ دجال سے اورپناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ بیٹا اگر مال کی طلب ہو توبھی قناعت سے کام لینا اس لیے کہ قناعت سے محروم انسان کو مال بھی فائدہ نہیں دیتا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص ۵۵ ھ(یا۵۱ھ یا ۵۶ھ )میں مدینہ سے ۱۰ میل دور واقع وادئ عقیق میں فوت ہوئے۔ان کی عمر ۷۴ (یا ۸۳) برس ہوئی، عشرۂ مبشرہ، سابقون الاولون اور مہاجرین میں سے وہ سب سے آخر میں فوت ہوئے ۔مصعب بن سعد کہتے ہیں ، میرے والد فوت ہوئے تو ان کا سر میری گود میں تھا ۔ میں رونے لگا تو کہا،اﷲ مجھے ہر گز عذاب نہ دے گا۔ تم بھی خالص اﷲ کے لیے عمل کرو۔حضرت سعد نے وصیت کی ، انھیں اسی پھٹے پرانے جبے کا کفن دیا جائے جسے جنگ بدر میں پہن کر انھوں نے مشرکین کا مقابلہ کیا تھا۔ اسے انھوں نے اسی مقصد کے لیے چھپا رکھا تھا۔ انھوں نے مزید کہا، میرے لیے بغلی قبر( لحد) کھودنا اور اس پرکچی اینٹیں کھڑی کر دینا جیسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدفین کی گئی تھی۔حضرت سعد کی میت مدینہ لائی گئی ،گورنر مدینہ مروان نے نماز جنازہ پڑھائی۔ سیدہ عائشہ نے حکم دیا ،حضرت سعد بن ابی وقاص کے جنازہ کو مسجد نبویؐ میں سے گزار ا جائے تاکہ وہ ان کی نماز جنازہ ادا کر سکیں ۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو انھوں نے جواب دیا،لوگ کتنی جلد باتیں بھول جاتے ہیں ، کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضا (اور ان کے بھائی)کی نماز جنازہ مسجدمیں ادا نہ فرمائی تھی؟ چنانچہ میت ازواج مطہرات کے حجروں کے آگے رکھی گئی اور انھوں نے الگ نماز جنازہ ادا کی۔ حضرت سعد کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ حضرت سعد کی میراث کی کل مالیت اڑھائی لاکھ درہم تھی۔ اس کی زکوٰۃ کے ۵ ہزار درہم وہ مروان کو بھجوا چکے تھے۔ حضرت عمر نے عراق(کوفہ) کی امارت سے معزول کرتے ہوئے ان کا مال تقسیم کرا دیا تھا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص کا قد چھوٹا،جسم بھاری،کندھے چوڑے،انگلیاں موٹی اور ناک چپٹی تھی ۔ان کے جسم پر بہت بال تھے۔ سر اور ڈاڑھی کے بالوں پر خضاب لگاتے تھے۔اونی کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے۔تسبیح کرتے تو گنتی کنکریوں پر کرتے۔ حضرت سعد کی مختلف اوقات میں کل۱۰ ازواج رہیں جن سے ان کے ۱۴ بیٹے اور ۱۷ بیٹیاں ہوئیں۔ ازواج کے نام اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کی تفصیل یہ ہے۔(۱)شہاب بن عبداﷲ کی بیٹی سے جن کا نام معلوم نہیں، بڑے بیٹے اسحاق(اکبر)جن سے حضرت سعد کنیت کرتے تھے اور ام حکم(کبریٰ) نے جنم لیا۔(۲)ماویہ(بشری) بنت قیس سے پیدا ہونے والی اولاد : عمر، اسے مختار نے قتل کرا دیا۔محمد،انہیں حجاج نے مروا دیا۔ حفصہ،ام قاسم اور ام کلثوم ۔(۳)ام عامر بنت عمرو،ان سے عامر،اسحاق(اصغر)اسماعیل اور ام عمران پیدا ہوئے۔ (۴)بنو تغلب کی سلمیٰ سے عبداﷲ (اکبر) ہوئے۔(۵)خولہ بنت عمروسے مصعب کی پیدائش ہوئی۔(۶)ام ہلال بنت ربیع سے ہونے والی اولاد: عبداﷲ(اصغر)، عبدالرحمان بجیراور حمیدہ۔ (۷) ام حکیم بنت قارظ سے عمیر(اکبر)اور حمنہ پیدا ہوئے۔(۸)سلمی بنت خصفہ(حفص) سے عمیر (اصغر)، عمرو،عمران،ام عمرو،ام ایوب اور ام اسحاق کی ولادت ہوئی۔(۹) طیبہ بنت عامرسے صالح ہوئے۔(۱۰)ام حجیر سے پید ا ہونے والی اولاد: عثمان اور رملہ ۔زبدبنت حارث سے جو جنگ میں قید ہو کر آئیں، جنم لینے والی اولاد:ابراہیم،موسیٰ،ام حکم(صغریٰ)،ام عمرو،ہند،ام زبیر اور ا م موسیٰ۔ ان کے علاوہ جنگ سے ملنے والی باندیوں سے عمرہ اور عائشہ ہوئیں۔ حضرت سعد کہتے تھے ، جب میں نے جنگ بدر میں حصہ لیا ، میرے چہرے پر ایک بال تھا جسے میں چھو سکتا تھا ۔ اب اﷲ نے میری ڈاڑھی وافر کر دی ہے ۔ یعنی پہلے ایک ہی بیٹی تھی ، اب بہت سی اولاد ہو گئی ہے۔ مشہور شافعی فقیہ عمر بن ابراہیم حضرت سعد بن ابی وقاص کی نسل میں سے تھے۔ان کی تاریخ وفات ۴۳۴ھ ہے۔

مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)،الطبقات الکبری(ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح(بخاری، شرکۃ دار الارقم)، المسند الصحیح المختصر من السنن( مسلم، شرکۃ دار الارقم ،تاریخ الامم و الملوک (طبری)، معجم الصحابہ(بغوی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابہ فی معرفۃالصحابہ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایہ و النہایہ(ابن کثیر)، فتح الباری (ابن حجر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل )،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: K.V.Zetterstein)

________________

B