HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

پہلے اپنا گریبان!

فصیل وطن پر تازہ لہو کے چھینٹے ہیں۔

یہاں پینے کو پانی نہیں ہے لیکن انسانی خون ارزاں ہے۔ سیاست، مذہب ، سماج، معاش ہر عنوان لہو رنگ ہے۔کراچی میں ہر روز انسانی خون بہتا ہے۔ اس کا عنوان سیاست ہے۔ فکر و نظر کا اختلاف عبادت گاہوں کو مقتل اور زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدل دیتاہے۔ اس کا عنوان مذہب ہے۔ غیرت کے نام پر یا جائداد کے لیے بہنوں اور بھائیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اس کا عنوان سماج ہے۔ پیٹ میں روٹی نہ ہو یا بچوں کی ناتمام خواہشیں پریشان کریں تو لاشیں کمروں میں لٹکتی ہوئی ملتی ہیں۔ اس کا عنوان معاش ہے۔ اس اظہار کا ایک ہی اسلوب باقی ہے خود مر جاؤ یا دوسروں کو مار دو جب معاشرہ یہاں کھڑا ہو اور اللہ کا حق اپنے ہاتھ میں لے لے تو پھر اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے لیے، اس طرز عمل سے رجوع، سب سے پہلے لازم ہے۔ افسوس کہ یہی بات یہی ہمارے مقدر میں نہیں ہے۔ شہباز بھٹی قتل ہوئے۔ اب ہم امریکا کی طرف دیکھیں گے، بھارت میں جھانکیں گے، عالمی سیاست میں اسباب تلاش کریں گے، ہر جگہ دیکھیں گے لیکن وہاں نہیں دیکھیں گے جو سب سے قریب ہے ہمارا اپنا گریبان۔

سیاست، مذہب اور سماج کا ہر قابل ذکر فرد اس قتل کی مذمت کر رہا ہے۔ یقیناًاخلاص کے ساتھ۔ میں دلوں میں نہیں جھانک سکتا اس لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں ان کی بات پر یقین کروں الّا یہ کہ شواہد دوسری بات کہہ رہے ہوں۔ میرے سامنے اس وقت ایسی کوئی شہادت نہیں کہ جو ان کے دعوے کو جھٹلا رہی ہے۔ بایں ہمہ یہ سوال مجھے ضرور پریشان کرتاہے یہ قاتل کون ہیں؟ جو بہنوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے پر مار دیتے ہیں، جو معاشی مسئلے کا حل خودکشی کو سمجھتے ہیں، جو اختلاف رائے کو ’’مجرم‘‘ کی سزا صرف اور صرف موت قرار دیتے ہیں، جو سیاست میں مخالفین کو قتل کرتے ہیں، یہ سب کہاں سے آتے ہیں؟ یقیناًامریکا بھیجتا ہے اور بلاشبہ بھارت بھی لیکن کیا یہ سب امریکی اور بھارتی ہیں؟ کیا ہر خودکشی کرنے والا امریکی ہے؟ کیا ہر بہن کا قاتل بھارتی ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہے اور یہی کام ہمیں سب سے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہر گریبان ہماری دسترس میں ہے، سوائے اپنے گریبان کے۔

میں اپنے آپ کو دہراتا ہوں کہ کوئی واقعہ منفرد نہیں ہوتا ۔ وہ ایک سلسلۂ واقعات کی کڑی ہوتا ہے۔ میرے نزدیک مولانا حسن جان، مفتی محمد سرفراز نعیمی، سلمان تاثیر، بلوچستان میں زندہ درگور ہونے والی بیٹیاں اور شہباز بھٹی، سب کو ایک ساتھ رکھ کر بات کو سمجھنا ہو گا۔ لاریب، انھیں قتل کرنے والے مختلف لوگ ہیں اور ان کے محرکات بھی مختلف ہیں لیکن، سب کے پس منظر میں ایک ہی سوچ (mindset) ہے۔ اس کو جاننا، سمجھنا اور پھر حسب نظر ثانی ہی، اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔

میں جب بادل ناخواستہ ، اپنے گریبان میں دیکھتا ہوں تو مجھ پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ ہم اس وقت ایک معاشرتی المیے کا شکار ہیں جس کا عنوان ہے ’’عدم برداشت‘‘۔ ہم اپنے اپنے دائرے میں مطلق اختیار چاہتے ہیں۔ ہم اپنی رائے کو دنیا کی واحد سچائی سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی تعبیر مذہب کو وحی قرار دیتے ہیں جس سے اختلاف کفر ہے۔ ہم یہ تمنا کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کے علاوہ میدان سیاست میں کوئی دوسری جماعت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم گھر میں ہیں تو خاندان کا ہر فرد ہماری مرضی سے اپنی شادی کا فیصلہ کرے۔ ہماری مرضی سے یہ طے ہو کہ بچے کو بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا ہے یا عالم۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم تشدد پر اتر آتے ہیں۔ ہم سیاست میں ہوں تو اپنے پرتشدد رویے کی سیاسی تعبیر کرتے ہیں۔ ہم اہل مذہب ہیں تو تشدد کے لیے مذہبی استدلال مرتب کر تے ہیں۔ ہمارے جرم کا تعلق سماج سے ہو تو ہم سماجی روایت کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح ہم سیاسی رویے، اپنی مذہبی تعبیر اور سماجی روایت کو پیمانہ مان کر آگے بڑھتے ہیں اور جرم کو سیاسی، مذہبی اور سماجی طور پر قابل قبول بنا لیتے ہیں۔ جب ہم ان پر ایمان لے آتے ہیں تو ایک غلط بات کو قبولیت عامہ کی سند مل جاتی ہے اور پھر اس قبولیت کو ہم اپنے جرم کے لیے بطور جواز پیش کرتے ہیں۔ ہم اپنی فلموں میں ایسے کرداروں کو ہیرو بنا کر سامنے لاتے ہیں جو قانون کو ہاتھ میں لیتا اور قتل کا مرتکب ہوتا ہے۔ جسے ہم آئیڈیل ماں کے روپ میں پیش کرتے ہیں، وہ بچے سے یہ کہتی ہے کہ اگر اس نے اپنے باپ کے قاتلوں کو نہ مارا تو وہ اسے اپنا دودھ نہیں بخشے گی اور جب وہ قتل کرتا ہے تو وہ اسے داد دیتے ہوئے کہتی ہے: ’’سر اٹھا کے چلو، ۳۰۲ کا مقدمہ ہے کوئی مذاق نہیں۔‘‘ جب سیاسی مزاج، مذہبی تعبیرات اور سماجی رویے قتل جیسے جرم کی سرپرستی کریں اور قاتلوں کو ہیرو بنائیں تو اس کے بعد وہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔

شہباز بھٹی کے قتل کا کوئی تعلق اقلیتوں کے معاملے سے نہیں ہے۔ یہ نتیجہ آپ اسی وقت نکالتے ہیں جب اسے ایک منفرد واقعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میں نے جن لوگوں کے نام گنوائے ہیں، ان میں سے کسی کا تعلق اقلیتوں سے نہیں ہے۔ یہ سیدھا سادہ عدم برداشت کا معاملہ ہے۔ ہم اس سماجی برائی کو بطور معاشرہ آخری درجے میں قبول کر چکے ہیں۔ آخری درجہ یہی ہے کہ قتل جیسے جرم کو قبولیت عامہ حاصل ہو جائے۔ سماج کو اس سطح تک پہنچانے میں ہم سب شریک ہیں اور سب سے زیادہ رائے ساز۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ہاتھوں سے اس زہر کو سمیٹیں جو ہم نے معاشرے میں پھیلایا ہے۔

o اہل سیاست اپنے حامیوں کو بتائیں کہ سیاسی اختلافات کے بعد دوسرے کا قتل روا نہیں ہو جاتا اور اگر کوئی کارکن اس میں ملوث ہو تو اس سے اعلان لاتعلقی کریں۔ وہ اپنے مخالفین پر تنقید کریں لیکن موقف جتنا بھی سخت ہو، لہجہ دھیما ہو۔ آخر ابوالکلام اور محمد علی جناح جیسے سیاست دانوں نے بھی اختلاف کیا۔ کیا انھوں نے اپنے حامیوں کو یہی سکھایا کہ دوسروں کی گردن مار دو؟

o علما لوگوں کو تلقین کریں کہ محراب و منبر سے جو دین بتایا جاتا ہے وہ ہمارے فہم کا نتیجہ ہے اور اس میں غلطی ہو سکتی ہے۔ انسانوں کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہماری رائے بھی بدل سکتی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کئی آرا سے رجوع کیا اور پھر کتاب لکھ کر لوگوں کو بتایا کہ فلاں فلاں مسئلے میں میرا نقطۂ نظر تبدیل ہو گیا ہے۔ میرے نزدیک ان کی پہلی رائے سددیانت دارانہ تھی اور دوسری بھی۔ ان کی دیانت کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی بات سے اعلانیہ رجوع کیا۔

o سول سوسائٹی سماج کو بتائے کہ انسانی جان کی حرمت کیا ہے اور اسے لینے کا اختیار اللہ تعالیٰ اور اسی کے حکم سے ریاست کے سوا کسی کو نہیں۔

یہ اسی وقت ہو گا جب ہم اپنے گریبان میں جھانکیں گے۔ ہم امریکا کی طرف دیکھیں گے تو ڈیوس جیسے کردار ملیں گے جو کسی جرم میں بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بھارتی ایجنٹ بھی ملیں گے جو دھماکے کروا رہے ہوں گے۔ لیکن یہ چند منفرد واقعات ہوں گے۔ ہمارا اصل مسئلہ داخلی ہے۔ بطور سماج ہماری اقدار بدل رہی ہیں۔ اگر آپ کو میری بات سے اختلاف ہے تو ایک لمحے کے لیے اپنے گریبان میں منہ ڈالیے اور یہ سوچیے کہ جن لوگوں سے آپ سیاسی، مذہبییا سماجی طور پر اختلاف رکھتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اگر انھیں مار دیا جائے تو آپ کے جذبات کیا ہوں گے؟ ان کے مارے جانے پر آپ کوئی دلیل تلاش کریں گے یا اس کی مذمت کریں گے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنا ہم سب کا کام ہے لیکن اس کے لیے شرط وہی ہے پہلے اپنا گریبان!

_________________

B