بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّبِھَا، قُلْ: اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَاللّٰہِ، وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّھَآ اِذَا جَآئَ تْ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۱۰۹} وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَھُمْ وَاَبْصَارَھُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ، وَّنَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ{۱۱۰} وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃَ وَکَلَّمَھُمُ الْمَوْتٰی وَحَشَرْنَا عَلَیْھِمْ کُلَّ شَیْئٍ قُبُلاً مَّا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ، وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ{۱۱۱}
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا، وَلَوْشَآئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ{۱۱۲} وَلِتَصْغٰٓی اِلَیْہِ اَفْئِدَۃُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَلِیَرْضَوْہُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا ھُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ{۱۱۳}
اَفَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَّھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلاً، وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ{۱۱۴} وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا، لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ، وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ{۱۱۵} وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ، وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ{۱۱۶} اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِہٖ، وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ{۱۱۷}
یہ اللہ کی کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی ہمارے پاس آجائے تو ہم ضرور اُس پر ایمان لے آئیں گے۔۱۶۹؎ کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں۱۷۰؎، لیکن ، (مسلمانو)، تمھیں کیا پتا کہ وہ آ بھی جائیں تو یہ نہیں مانیں گے۔۱۷۱؎ ہم (اُس وقت بھی) اِن کے دلوں اور اِن کی نگاہوں کو اُسی طرح الٹ دیں گے، جس طرح یہ پہلی بار اِس (قرآن) پر ایمان نہیں لائے اور اِن کی سرکشی میں اِنھیں بھٹکتا ہوا چھوڑدیں گے۔۱۷۲؎ ہم اِن کی طرف فرشتے بھی اتاردیتے اور مردے بھی اِن سے باتیں کرنے لگتے اور (دنیا کی) سب چیزیں اِن کے سامنے گروہ در گروہ جمع کر دیتے، جب بھی یہ ماننے والے نہیں تھے، الاّ یہ کہ اللہ چاہے۔ مگر (حقیقت یہ ہے کہ) اِن میں سے اکثر جہالت میں مبتلا ہیں۔۱۷۳؎ ۱۰۹-۱۱۱
(یہ معاملہ صرف تمھارے ساتھ نہیں ہے۱۷۴؎)۔ہم نے انسانوں اورجنوں کے اشرار کو اِسی طرح ہر نبی کا دشمن بنایا۱۷۵؎۔وہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے پر فریب باتیں۱۷۶؎ القا کرتے رہتے ہیں۔ تیرا پروردگار چاہتا تو وہ کبھی ایسا نہ کر پاتے۔۱۷۷؎ سو اُنھیں اُن کی افتراپردازیوں میں پڑا رہنے دو۔ (اِس لیے دشمن بنایا کہ اِس سے حق پرستوں کی حق پرستی واضح ہو جائے) اور اِس لیے کہ منکرین قیامت کے دل اِسی طرف لگے رہیں، وہ اِس پر راضی رہیں اور جو کمائی اُنھیں کرنی ہے، کر لیں۔۱۷۸؎ ۱۱۲-۱۱۳
(تم مجھ سے جھگڑ رہے ہو۱۷۹؎) تو (بتائو کہ) میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، دراں حالیکہ وہی ہے جس نے تمھاری طرف یہ کتاب اتاری ہے جس میں (دین و شریعت کے متعلق) ہر چیز کی تفصیل ہے۔ اور جنھیں ہم نے (اِس سے پہلے) کتاب عطا فرمائی،۱۸۰؎ وہ جانتے ہیں کہ یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ اتاری گئی ہے،لہٰذا شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو جائو۱۸۱؎۔ تمھارے پروردگار کی بات (اِن لوگوں کے حق میں) سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہو گئی ہے۔ اُس کی باتیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا اور وہ سمیع و علیم ہے۱۸۲؎۔زمین والوں میں زیادہ ایسے ہیں کہ اُن کی بات مانو گے تو تمھیں خدا کے راستے سے بھٹکا کر چھوڑیں گے۔۱۸۳؎ یہ محض گمان پر چلتے اور اٹکل دوڑاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور جو سیدھی راہ پر ہیں، اُنھیں بھی وہ خوب جانتا ہے۱۸۴؎۔۱۱۴-۱۱۷
۱۶۹؎ یہ مطالبہ محض پروپیگنڈے کے لیے تھا۔ اِس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ وہ اگر ایمان نہیں لا رہے تو اِس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اُنھیں کوئی ایسی نشانی نہیں دکھائی جا رہی جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے باب میں فیصلہ کن ہو جائے۔ اُن کا یہ مطالبہ نہایت معقول ہے۔ اِسے پورا کر دیا جائے تو اُن کے ایمان لانے میں کوئی چیز مانع نہ ہو گی۔
۱۷۰؎ یعنی جس قسم کی نشانیوں اور معجزات کا مطالبہ تم کر رہے ہو، وہ خدا ہی کے پاس ہیں۔ چاہے تو دکھائے اور چاہے تو نہ دکھائے۔ اِس کا فیصلہ اپنے علم و حکمت کے مطابق وہی کرے گا۔ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ میرا اصلی فریضہ انذار و بشارت ہے۔ اِس سے آگے کوئی چیز میرے اختیار میں نہیں ہے۔
۱۷۱؎ یہ خطاب عام مسلمانوں سے ہے اور بتارہا ہے کہ بار بار کے مطالبات کو سن کر اُن کے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہو جاتی تھی کہ اللہ تعالیٰ آخر پہلے بھی تو پیغمبروں کو معجزے دیتے رہے ہیں، پھر اِن کے مطالبے پر کوئی معجزہ دکھا کیوں نہیں دیتے کہ ہمارے یہ بھائی راہ راست پر آجائیں۔ فرمایا ہے کہ اِنھیں کوئی معجزہ دکھا بھی دیا جائے تو نہیں مانیں گے، اِس لیے کہ اِن کے نہ ماننے کی وجہ وہ نہیں ہے جو یہ ظاہر کر رہے ہیں۔
۱۷۲؎ یہ اُن کے ایمان نہ لانے کا اصلی سبب بیان کر دیا ہے کہ محض سرکشی، طغیان، غرور نفس اور پندار سیادت ہے جو ایمان نہ لانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ نہ ہوتا تو پہلی بار ہی قرآن کی دعوت سن کر اُسے مان لیتے۔ اب اگر کوئی معجزہ دکھا بھی دیا جائے تو یہی چیز پھر حجاب بن جائے گی اور خدا کا قانون یہ ہے کہ جو غرور نفس کی بنا پر دل و نگاہ کا زاویہ غلط کر لیتے ہیں ، اُنھیں وہ اُسی طرف پھیر دیتا ہے، جدھر وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ سیدھے دیکھنے کے بجاے الٹے دیکھتے اور سیدھی راہ اختیار کرنے کے بجاے الٹی راہ چلتے ہیں، اُن کے دل اور اُن کی فکر بھی کج کر دی جاتی ہے۔ پھر وہ احول کی طرح ہر چیز کو بس اپنے مخصوص زاویے ہی سے دیکھتے ہیں۔ اِسی سنت اللہ کی طرف ’فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ‘ میں اشارہ فرمایا ہے۔ یہاں اِسی معروف سنت اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ کیسے باور کرتے ہو کہ اگر اِن کو اِن کی طلب کے مطابق کوئی معجزہ دکھادیا گیا تو یہ مومن بن جائیں گے۔ آخر وہ تمام نشانیاں جو آفاق و انفس میں موجود ہیں، جن کی طرف قرآن نے انگلی اٹھا اٹھا کر اشارہ کیا اور اُن کے مضمرات و دلائل واضح کیے، جب اُن میں سے کوئی چیز بھی اِن کے دلوں اور اِن کی نگاہوں کے زاویے کو درست کرنے میں کارگر نہ ہو سکی تو آخر کوئی نئی نشانی کس طرح اِن کی کایا کلپ کر دے گی؟ جو حجاب آج ہے، وہ کل کس طرح دور ہو جائے گا اور جو اندھا پن آج دیکھنے سے مانع ہے ، وہ اِس نشانی کے ظہور کے وقت کہاں چلا جائے گا؟جس طرح آج تک وہ ساری نشانیوں کو جھٹلارہے ہیں، اُسی طرح اِس نشانی کو بھی جھٹلادیں گے اور جو قلب ماہیت اِن کے دلوں اور اِن کی آنکھوں کی آج دیکھتے ہو، وہ قلب ماہیت اُس وقت بھی اپنا عمل کرے گی۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۱۴۱)
۱۷۳؎ مطلب یہ ہے کہ اللہ اُنھی کو ایمان و ہدایت کی توفیق عطا فرماتا ہے جو حق کے سچے طالب ہوں۔ یہ جس جہالت میں مبتلا ہیں اور علم و استدلال سے فیصلہ کرنے کے بجاے جس طرح کی شرطیں عائد کر رہے ہیں، اُن کے ساتھ کسی کو ہدایت کی توفیق ارزانی نہیں ہوتی۔
۱۷۴؎ یعنی مخالفانہ شورش اور مخاصمانہ اعتراضات و مطالبات کا معاملہ جو قریش کے لیڈر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے۔
۱۷۵؎ یہ اُس سنت ابتلا کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت اشراروشیاطین کو مہلت دی جاتی ہے کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، کر لیں۔ اِس کے لیے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، اُن میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اُسی اسلوب پر ہوئی ہے جو قرآن میں سنن الٰہیہ کے بیان کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اشرار و شیاطین کو یہ مہلت کیوں دی جاتی ہے؟ اِس کے وجوہ آگے بیان فرمائے ہیں۔
۱۷۶؎ اصل میں ’زُخْرُفَ الْقَوْلِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ صفت ہے جو اپنے موصوف کی طرف مضاف ہو گئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس سے مراد وہ مشرکانہ بدعات ہیں جو ہر دور کے شیاطین جن و انس نے باہمی گٹھ جوڑ سے ایجاد کیں، پھر اُن کے اوپر شریعت الٰہی کا لیبل لگا کر اُن کو رواج دیا اور جب انبیاو مصلحین نے اُن کی اصلاح کی دعوت دی تو اُن کی مخالفت میں بحث و جدال کا بازار گرم کیا۔ چنانچہ اِس موقع پر بھی یہی ہوا۔ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی دعوت دی اور اُن کے بتوں اور مشرکانہ عقائد کے تحت اُن کی حرام ٹھیرائی ہوئی چیزوں کی بے حقیقتی واضح فرمائی تو شرک کے یہ ائمہ آستینیں چڑھا چڑھا کے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس پر اِن کا زور چلا، اُس کو اپنے دام فریب میں پھنسانے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم کو ہمارے باپ دادا کے دین اور ابراہیم کی ملت سے ہٹا رہے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۴۳)
۱۷۷؎ یہ تسلی کا جملہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمھارا پروردگار اُن کی افتراپردازیوں کے آگے بے بس نہیں ہے۔ اِس کی آزادی اُس نے خود اُنھیں عطا فرمائی ہے۔ اِس سے مقصود امتحان ہے اور یہ دنیا اِسی امتحان کے لیے برپا کی گئی ہے، ورنہ اللہ چاہتا تو بالجبر سب اشرار وشیاطین کو اُن کی افتراپردازیوں سے روک دیتا۔
۱۷۸؎ یہ مہلت کے وجوہ ہیں۔ اشرار و شیاطین کو جو ڈھیل دی جاتی ہے، وہ اِسی لیے دی جاتی ہے کہ اُن کے اندر کا فساد پوری طرح سامنے آجائے اور وہ اپنے اوپر اللہ کی حجت تمام کر لیں۔ آیت میں اُن کے پیرووں کی صفت ’الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ‘ بتائی گئی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ شیاطین کی جس دعوت کا ذکر ہوا ہے، وہ اُنھی کو اپیل کرتی ہے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ نہیں رکھتے۔
۱۷۹؎ یعنی اِس معاملے میں جھگڑ رہے ہو کہ خدا کی خدائی تنہا اُسی کے ہاتھ میں ہے یا اُس میں کچھ دوسرے بھی شریک ہیں اور اُس نے کیا جائز رکھا اور کیا حرام ٹھیرایا ہے۔
۱۸۰؎ اِس سے صالحین اہل کتاب مراد ہیں۔ اُن کی شہادت کا ذکر قرآن کے بعض دوسرے مقامات میں بھی ہوا ہے۔
۱۸۱؎ یہ خطاب اگرچہ باعتبار الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ روے سخن اُنھی لوگوں کی طرف ہے جو سورہ کے مخاطبین ہیں۔
۱۸۲؎ یعنی وہ بات جو خدا نے اُسی وقت کہہ دی تھی، جب ابلیس نے دھمکی دی تھی کہ میں اولاد آدم کو شرک اور بت پرستی میں مبتلا کرکے چھوڑوں گا تو خدا نے فرمایا تھا کہ اگر ایسا ہے تو میں بھی تجھے اور تیری پیروی کرنے والوں کو دوزخ میں بھر کر رہوں گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ فیصلہ سچائی اور عدل، دونوں معیاروں پر پورا ہے۔ خدا نے جو بات فرمائی، وہ سچی بھی ہے اور مبنی بر عدل بھی۔ اِس لیے کہ خدا نے اُن پر اپنی حجت پوری کر دی ہے۔ اِس کے باوجود اگر یہ ہدایت الٰہی کی جگہ القاے شیطانی ہی کی پیروی پر بضد ہیں تو یہ اُسی انجام کے سزاوار ہیں جس کی خدا نے اِن کو خبر دی ہے۔ خدا کے فیصلے اُس کی مقررہ سنت کے تحت ہوتے ہیں، اُن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اللہ سمیع و علیم ہے، نہ اُس کی کوئی بات بے خبری پر مبنی ہوتی، نہ اُس میں کسی خطا یا نا انصافی کا امکان ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۴۶)
۱۸۳؎ اِس لیے کہ لوگوں کی اکثریت بالعموم غوغاے عام کی پیروی کرتی ہے، اُس کے فیصلے کسی دلیل و سند اور علم و حجت پر مبنی نہیں ہوتے۔
۱۸۴؎ مطلب یہ ہے کہ اللہ دونوں گروہوں سے واقف ہے۔ وہ اُن سے معاملہ بھی اپنے علم کے مطابق کرے گا۔ اُس کی بارگاہ میں لوگوں کے دعوے اُن کے کچھ کام نہ آئیں گے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ