HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

یتیم کی پرورش کا صلہ

(۴۹)

عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَیْہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطَی.(بخاری،رقم ۶۰۰۵)
سھل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔

(۵۰)

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَافِلُ الْیَتِیمِ لَہُ أَوْ لِغَیْرِہِ أَنَا وَہُوَ کَہَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بِالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطَی.(مسلم، رقم ۷۴۶۹)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتہ دار ہو یا غیر، جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسے یہ دو انگلیاں۔ امام مالکؒ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔
توضیح

بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔چنانچہ آپ نے بتایا کہ جو شخص کسی یتیم کی ذمہ داری اٹھاتا اور اُس کی کفالت کرتا ہے وہ خدا کی نظر میں اتنا پسندیدہ عمل کرتا ہے کہ اسے جنت میں میراساتھ اس طرح میسر ہو گا جیسے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔

(۵۱)

پڑوسی کے حقوق
عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَاللَّہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللَّہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللَّہِ لَا یُؤْمِنُ قِیلَ وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ: الَّذِی لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ.(بخاری، رقم ۶۰۱۶)
ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خدا کی قسم ، وہ مومن نہ ہو گا؛ خدا کی قسم ،وہ مومن نہ ہو گا؛ خدا کی قسم ،وہ مومن نہ ہو گا۔ لوگوں نے پوچھا : کون یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے۔
توضیح

امن و امان ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ ہر پڑوسی پر اُس کے پڑوسی کا یہ حق باقی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور آخرت پر سچے دل سے ایمان رکھنے والا کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اُس کے اس بنیادی حق ہی سے محروم کر دے اور اپنی شرارتوں سے اُس کو ستائے۔

(۵۲)

عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا زَالَ یُوصِینِی جِبْرِیلُ بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ.(بخاری، رقم ۶۰۱۴)
عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اِس قدر تاکید کی کہ مجھے خیال ہوا، یہ تو عنقریب اِسے وراثت میں حق دار بنا دیں گے۔
توضیح

اللہ تعالیٰ نے قریبی رشتہ داروں کی طرح پڑوسی کو انسان کی میراث میں حصہ دار تو نہیں بنایا، لیکن یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ حسن سلوک کے پہلو سے پڑوسیوں کا حق انھی قریبی رشتہ داروں کی مثل ہے جنھیں انسان کی میراث میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔

میراث میں حصوں کی تقسیم کا اصول ’أیھم أقرب لکم نفعًا‘ (النساء۴: ۱۱)ہے، یعنی رشتہ داروں میں سے بلحاظ منفعت کون زیادہ قریب ہے، چنانچہ منفعت کے لحاظ سے زیادہ قریبی رشتہ دار زیادہ حصہ پاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوسیوں کی منفعت رشتہ داروں کی منفعت جیسی نہیں ہوتی، جبھی تو انھیں میراث میں حصہ نہیں دیا گیا۔ لیکن خدا کے نزدیک پڑوس کا رشتہ ایسا اہم ہے کہ اِس کی بنا پر باہم خیر خواہی کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ انھیں حسن سلوک کے حوالے سے قریبی رشتہ داروں جیسے حقوق دلا دیتی ہے۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑوسی کے حقوق کی اِس قدر تاکید کی کہ انھیں خیال ہوا، یہ انھیں کہیں وراثت ہی میں حق دار نہ بنا دیں۔

(۵۳)

پڑوسیوں کی خبر گیری
عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ إِنَّ خَلِیلِی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِی: إِذَا طَبَخْتَ مَرَقًا فَأَکْثِرْ مَاءَ ہُ ثُمَّ انْظُرْ أَہْلَ بَیْتٍ مِنْ جِیرَانِکَ فَأَصِبْہُمْ مِنْہَا بِمَعْرُوفٍ.(مسلم، رقم ۶۶۸۹)
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت کی کہ جب تم شوربا پکاؤ تو اُس میں پانی بڑھا دیا کرو اور اپنے ہم سایوں کو دیکھو اور پھر (ان میں سے جس کو اس کی ضرورت ہو) اسے اس میں سے کچھ دے دو۔
توضیح

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہر حال میں اور ہر ممکن طریقے سے اپنے پڑوسیوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔

(۵۴)
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِہَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ.(بخاری، رقم ۶۰۱۷)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : مسلمان بیویو، تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کے لیے کسی تحفے کو حقیر نہ سمجھے ، اگر چہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو۔

(۵۵)

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَہَادَوْا فَإِنَّ الْہَدِیَّۃَ تُذْہِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِہَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاۃٍ.(ترمذی، رقم۲۱۳۰)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: باہم تحفے دیا کرو، کیونکہ تحفہ دل کے کینے اور غصے کو زائل کر دیتا ہے اور کوئی بی بی اپنی پڑوسن کے لیے کسی تحفے کو حقیر نہ سمجھے، اگرچہ وہ بکری کا ایک کُھر ہی کیوں نہ ہو۔
توضیح

پہلی بات یہ ہے کہ تحفہ خواہ قیمتی ہو یا حقیر بہرحال محبت کا اظہار ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ پڑوسی ہمارے ان متعلقین میں سے ہے جو ہمارے لیے انتہائی قابلِ تکریم ہوتے ہیں۔ آپ نے یہ واضح فرمایا کہ اگر کسی پڑوسی کے لیے اپنے پڑوسی کو دینے کے لیے کوئی چھوٹا سا تحفہ ہی کیوں نہ ہو، اسے وہ تحفہ حقیر جانتے ہوئے اپنے پڑوسی کو بھیجنے میں شرمانا اور ہچکچانا نہیں چاہیے۔

(۵۶)

پڑوسی اور مہمان کا اکرام
عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْعَدَوِیِّ قَالَ سَمِعَتْ أُذُنَایَ وَأَبْصَرَتْ عَیْنَایَ حِینَ تَکَلَّمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ جَاءِزَتَہُ قَالَ وَمَا جَاءِزَتُہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ: یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ وَالضِّیَافَۃُ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ فَمَا کَانَ وَرَاءَ ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ عَلَیْہِ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ.(بخاری، رقم ۶۰۱۹)
ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا اور آنکھوں نے دیکھا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا (خاطر داری کے) دستور کے مطابق اکرام کرے ، لوگوں نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول دستور کے موافق کب تک، آپ نے فرمایا (خاطر داری) ایک دن اور ایک رات تک اور میزبانی تین دن تک کی ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ صدقہ ہو گا، اورجو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

(۵۷)

عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْکَعْبِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ جَاءِزَتُہُ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ وَالضِّیَافَۃُ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ فَمَا بَعْدَ ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ وَلَا یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہُ حَتَّی یُحْرِجَہُ... (وَ) مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ.(بخاری، رقم ۶۱۳۵)
ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، اس کی خاطر داری بس ایک دن اور ایک رات کی ہے اور میزبانی تین دن تک ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ صدقہ ہو گا۔ مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اُسے تنگ کر ڈالے۔ جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

توضیح

اس حدیث میں یہ باتیں بتائی گئی ہیں:

۱۔ ہر صاحب ایمان پر لازم ہے کہ وہ پڑوسی کی عزت کرے اور مہمان کی عزت کرے اور دستور کے مطابق اُس کی خاطر داری کرے، کیونکہ قیامت کے دن اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

۲۔ دستور کے مطابق خاطر داری کی مدت ایک دن اور ایک رات ہے۔ البتہ مہمانی کی مدت تین دن رات تک ہے۔

۳۔ اگر کوئی مہمان تین دن سے زیادہ قیام کرتا ہے تو پھر اس پر جو کچھ خرچ کیا جائے گا، وہ صدقہ ہو گا۔

۴۔ کسی مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن قیام کرے کہ وہ اُس سے تنگ آ جائے۔

۵۔ ہر صاحب ایمان کو اپنے منہ سے اچھی بات ہی نکالنی چاہیے، ورنہ اسے خاموش رہنا چاہیے، کیونکہ اسے اپنے افعال و اعمال کے بارے میں خدا کو جواب دیناہے۔

_______________

B