HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

اخلاقیات

باطل تصورات کی نفی
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ کَانَ یُخْبِرُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ وَلَکِنَّہُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہَا فَصَلُّوا. (بخاری،رقم۱۰۴۲)، (مسلم، رقم ۲۱۲۱)
’’ابن عمر رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کرتے تھے: یہ سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی بنا پر نہیں گہناتے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، چنانچہ جب تم انھیں دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘
توضیح

عربوں کے ہاں سورج اور چاند کے گہنانے کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ یہ کسی بڑے آدمی کے پیدا ہونے یا اس کے مرنے پر گہناتے ہیں۔ آپ نے اس بے بنیاد خیال کی نفی کی اور فرمایا کہ ان کا گہنا جانا اللہ کی دو نشانیوں کا ظاہر ہونا ہے، چنانچہ جب تم یہ آیاتِ الہٰی دیکھو تو خدا کی طرف بڑھو، اُس کے لیے رکوع کرو اور اُسے سجدہ کرو۔

علم غیب کی نفی
عَنْ صَفِیَّۃَ عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَیْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃٌ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃ. (مسلم، رقم۵۸۲۱)
’’صفیہ (تابعیہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اپنی کسی چیز کا پتا پوچھنے عراف کے پاس جائے گا، اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی۔‘‘
عَنْ صَفِیَّۃَ عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُولُ لَمْ یُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃٌ أَرْبَعِینَ یَوْمًا. (أحمد، رقم ۱۶۲۰۲)
’’صفیہ (تابعیہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص (کسی چیز کا پتا پوچھنے کے لیے) عراف کے پاس جائے گا اور پھر جو وہ کہے اسے سچ سمجھے گا، تو اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی۔‘‘
توضیح

عراف ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو چوری کا پتا بتانے کا دعویٰ کرتے تھے۔ کوئی شخص اگر ان کے پاس اپنی گم شدہ چیز کا پتا پوچھنے جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اسی خیال اور اعتماد سے جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی نہ کسی درجے میں غیب کی بات جان سکتے ہیں۔ قرآن کا واضح بیان ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ چنانچہ یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص قرآن کی اس واضح بات کے خلاف عمل کرتے ہوئے عراف کے پاس جائے گا، اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

کہانت کی حقیقت
قَالَتْ عَاءِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا: سَأَلَ أُنَاسٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ الْکُہَّانِ فَقَالَ: إِنَّہُمْ لَیْسُوا بِشَیْءٍ، فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَإِنَّہُمْ یُحَدِّثُونَ بِالشَّیْءِ یَکُونُ حَقًّا قَالَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تِلْکَ الْکَلِمَۃُ مِنْ الْحَقِّ یَخْطَفُہَا الْجِنِّیُّ فَیُقَرْقِرُہَا فِی أُذُنِ وَلِیِّہِ کَقَرْقَرَۃِ الدَّجَاجَۃِ فَیَخْلِطُونَ فِیہِ أَکْثَرَ مِنْ مِاءَۃِ کَذْبَۃٍ. (بخاری، رقم ۷۵۶۱)
’’عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا:یہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول وہ (بعض اوقات) ایسی باتیں بیان کر دیتے ہیں جو سچ ہو جاتی ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بات سچی ہوتی ہے، جسے کسی جن نے (فرشتے سے) اچکا ہوتا ہے اور پھر وہ اُس بات کو مرغی کی طرح کٹ کٹ کر کے اپنے (کاہن) دوستوں کے کان میں ڈال دیتا ہے اور یہ لوگ پھر اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں۔‘‘
قَالَتْ عَاءِشَۃُ سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ الْکُہَّانِ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم:َ لَیْسُوا بِشَیْءٍ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَإِنَّہُمْ یُحَدِّثُونَ أَحْیَانًا الشَّیْءَ یَکُونُ حَقًّا قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ الْکَلِمَۃُ مِنْ الْجِنِّ یَخْطَفُہَا الْجِنِّیُّ فَیَقُرُّہَا فِی أُذُنِ وَلِیِّہِ قَرَّ الدَّجَاجَۃِ فَیَخْلِطُونَ فِیہَا أَکْثَرَ مِنْ مِاءَۃِ کَذْبَۃٍ. (مسلم، رقم ۵۸۱۷)
’’عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: یہ کاہن کچھ بھی نہیں ہوتے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بعض اوقات ایسی بات بیان کر دیتے ہیں جو سچی ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (دراصل) جنات کی (اڑائی ہوئی باتوں میں سے ایک) بات ہوتی ہے جسے کسی جن نے اڑایا ہوتا ہے اور پھر وہ اسے اپنے (کاہن) دوستوں کے کان میں مرغی کی طرح کٹ کٹ کرتے ہوئے ڈال دیتا ہے۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔‘‘
توضیح

ان احادیث میں کہانت کی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جب کاہنوں کے پاس علم غیب نہیں ہوتا تو پھر ان کی بتائی ہوئی کوئی ایک آدھ خبر سچی کیسے ہو جاتی ہے۔

مشرکانہ عقائد و تصورات کی نفی
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَر.بخاری،رقم۵۷۵۷)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے اور نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے۔‘‘
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ حِینَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ، فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَکُونُ فِی الرَّمْلِ کَأَنَّہَا الظِّبَاءُ فَیَجِیءُ الْبَعِیرُ الْأَجْرَبُ فَیَدْخُلُ فِیہَا فَیُجْرِبُہَا کُلَّہَا قَالَ: فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ۔ ۔۔۔ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ.(مسلم، رقم ۵۷۸۸، ۵۷۸۹)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ چھوت ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے کوئی پرندہ نکلتا ہے، تو ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ان اونٹوں کا کیا معاملہ ہوتا ہے جو ریگستان میں ہوتے ہیں تو ایسے (صاف اور چکنے) ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن، پھر ایک خارشی اونٹ آتا اور ان میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ سب کو خارشی کر دیتا ہے۔آپ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔ ۔۔۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے۔‘‘

(۲۸) عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا غُولَ.(مسلم، رقم ۵۷۹۵)

’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ چھوت ہے، نہ بد فالی ہے اور نہ غول بیابانی ہی کوئی چیز ہے۔‘‘

توضیح

متعدی بیماریاں کیسے پھیلتی ہیں؟ اس سوال کا وہ علمی جواب جو آج ہمارے پاس موجود ہے، ظاہر ہے کہ وہ عربوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض توہمات کی بنا پر متعدی بیماری والے جانور کے بارے میں یہ عقیدہ پیدا ہو گیا کہ اس میں کوئی ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنا پر وہ دوسروں کو بیمار کرسکتا ہے، یعنی وہ جانور موثر بالذات ہو جاتا ہے۔

بدفالی کے حوالے سے ان کا تصور یہ تھا کہ بعض جانوروں کے افعال انسانوں کو نفع و نقصان دیتے اور ان کی قسمتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ان کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ انسانوں اور جانوروں کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے ایک سانپ نما کیڑا پیدا ہو جاتا ہے، جو انھیں مار دیتا ہے۔ وہ اس مرض کو بھی متعدی بیماریوں کی طرح مؤثر بالذات سمجھتے تھے۔

ان کا ایک باطل تصور یہ بھی تھا کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی روح کھوپڑی سے پرندہ بن کر نکلتی ہے اور ’مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ‘ کے الفاظ کے ساتھ چلاتی رہتی ہے، پھر جب اس کے قتل کا بدلہ لے لیا جائے تو پھر وہ پرندہ کہیں اڑ جاتا ہے۔ اسی طرح اہل عرب یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ بیابانوں میں ایسے جنات اور شیاطین ہوتے ہیں جو اپنی شکلیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ مسافروں کو دکھائی دیتے ہیں اور انھیں راستے سے بھٹکا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ وہ انھیں غولِ بیابانی کہتے تھے۔

درجِ بالا احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے ان سب باطل اور مشرکانہ عقائد و تصورات کی نفی فرمائی اور یہ بتایا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور (اللہ کے سوا )کوئی چیز بھی مؤثربالذات نہیں ہوتی۔

 __________________

B