HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

نماز اور ایمان

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: اِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک آدمی اور کفر وشرک کے مابین ترک صلوٰۃ ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ.
حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہوئے سنا:آدمی اور کفروشرک کے درمیان ترک صلوٰۃ ہے۔
لغوی مباحث

ترک الصلاۃ‘ : ’ ترک الصلاۃ‘ مبتدا ہے اور خبر محذوف ہے اور ظرف خبر کے محل پر ہے۔ اس طرح کے اسلوب میں خبر بالعموم حذف کر دی جاتی ہے۔مراد یہ ہے کہ ’حائل‘ یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ محذوف ہے۔ ’بین‘ اور ’بین ‘کا اسلوب دو موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک اس موقع پر جب کوئی بات کسی دوسری بات پر منحصر ہو اور دوسرے جب کوئی چیز کسی دوسری چیز کے وقوع میں حائل ہو۔اس روایت میں یہ دوسرے معنی میں ہے۔

معنی

اس روایت کے معنی یہ ہیں کہ تارک نماز کافر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کفر سے کیا مراد ہے۔ کیا یہ کفر قانونی ہے یا اس کفر سے مراد حقیقی کفر ہے۔ اگر اسے قانونی معنی میں لیا جائے تو تارک نماز پر وہ قانون لاگو ہو گا جو کفر اختیار کرنے والے کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس پر ارتداد کی سزا نافذ ہو گی۔ اور اگر یہاں حقیقی کفر مراد ہے تو اس کا معاملہ اصلاً آخرت پر ہے۔ البتہ، کچھ فقہا اسے دنیا میں تعزیرا سزادینے کے قائل ہیں اور کچھ قائل نہیں ہیں۔

شارحین یہاں ایک اور فرق بھی کرتے ہیں۔ بعض لوگ نماز کی فرضیت کے قائل ہونے کے باوجود محض سستی اور غفلت کی وجہ سے تارک نماز بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ انھیں بھی، اگر یہ توبہ نہ کریں تو سزائے موت دی جا سکتی ہے، جبکہ ایک رائے یہ ہے کہ یہ فاسق وفاجر ہیں اور انھیں سزائے موت نہیں دینی چاہیے۔

یہ ساری بحث اس روایت کو بعض دوسری روایات اور سورۂ توبہ کی روشنی میں دیکھنے سے پیدا ہوئی ہے۔ سورۂ توبہ میں کفار عرب کو مار دینے کا حکم ہے۔ ان کفار کے لیے اس سزا سے بچنے کے لیے ان کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ اپنے عقائد واعمال سے توبہ کرکے ایمان قبول کریں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃدینے لگ جائیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعوی ایمان ریاست کی سطح پر قابل قبول نہیں ہے جس کے ساتھ نماز اور زکوٰۃ کا عمل نہ ہو۔ یہاں یہ ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ تینوں باتیں بیک وقت مطلوب ہیں یا ان میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہو تو کارروائی کی جائے گی۔ حضرت ابوبکر کے مانعین زکوٰۃ کے خلاف اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بات بھی مفقود ہو گی تو دعوائے ایمان قابل قبول نہیں ہو گا۔

اسی طرح ایک روایت میں حضور کا یہ ارشاد بیان ہوا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک لوگ ایمان نہ لے آئیں اور نماز اور زکوٰۃ نہ ادا کرنے لگیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد واضح طور پر سورۂ توبہ کے حکم کابیان ہے۔

قرآن مجید اور روایات سے یہ بات قطعی طور پر سامنے آتی ہے کہ انکار پر مبنی ترک نماز کفر ہے۔ زیر بحث روایت میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہ کفر حقیقی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص نماز کا منکر ہے ،وہ دنیا اور آخرت، دونوں کے اعتبار سے کافر ہے۔دنیا میں بھی اسے مسلمان تسلیم نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں بھی وہ مسلمانوں کے زمرے میں شامل نہیں ہو گا۔ باقی رہا دنیا میں اس کی سزا کا معاملہ تو یہ اس روایت میں زیر بحث نہیں ہے اس کی وضاحت ان شاء اللہ اپنے محل پر ہو جائے گی۔جہاں تک غفلت کے شکار مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کے لیے اس روایت میں شدید تنبیہ ہے، تارک نماز کافر ہے۔ یہ جرم اگر انکار کی وجہ سے ہو تو کفر ہر اعتبار سے واضح ہے اور اگر انکار تونہ ہو لیکن زندگی نماز سے خالی ہو تو یہ بھی حالت کفر ہی ہے۔ خطرہ ہے کہ یہ غفلت محض غفلت نہ رہے اور حقیقی انجام پر منتج ہو۔ مراد یہ ہے کہ دعوائے ایمان قابل تسلیم نہ رہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید واضح طور پر ایمان اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔

متون

اس روایت کا متن اسی ایک جملے پر مشتمل ہے۔ کسی روایت میں اس جملے کا پیش وعقب نقل نہیں ہوا۔ امام مسلم نے اس روایت کے دو متن نقل کیے ہیں۔ ایک میں ’بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلوۃ‘ کے الفاظ ہیں۔ دوسری کا آغاز ’إنَّ‘ کے لفظ سے ہوا ہے۔ بعض کتب حدیث میں ’الرجل‘ کی جگہ ’العبد‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ ترمذی میں یہی روایت ’بین الشرک‘ کے بغیر ہے۔ بعض روایات میں جملے کی نوعیت بالکل ہی بدل گئی ہے۔ مثلاً ایک روایت میں ہے: ’العہد الذی بیننا وبینہم الصلاۃ فمن ترکہا فقد کفر‘۔ کچھ راویوں نے اسے ’بین العبد وبین الکفر والایمان الصلاۃ فإن ترکہا فقد أشرک‘ کی صورت میں روایت کیا ہے۔

کتابیات

مسند ابن الجعد، رقم۲۶۳۴۔ مسند احمد بن حنبل، رقم۱۵۰۲۱، ۲۲۹۸۷، ۲۳۰۵۷۔ مسند عبد بن حمید، رقم۱۰۲۲، ۱۰۴۳۔ سنن دارمی، رقم۱۲۳۳۔ صحیح مسلم، رقم۸۲۔ سنن ابوداؤد، رقم۴۶۷۸۔ سنن ابن ماجہ، رقم۱۰۷۹، ۱۰۸۰۔ سنن ترمذی، رقم۲۶۱۸، ۲۶۱۹، ۲۶۲۰، ۲۶۲۱۔ سنن کبریٰ، رقم۳۳۰۔ سنن نسائی، رقم۴۶۳، ۴۶۴۔ مسند ابو یعلی، رقم۱۷۸۳، ۱۹۵۳، ۲۱۰۲، ۲۱۹۱، ۴۱۰۰۔ صحیح ابن حبان، رقم۱۴۵۳، ۱۴۶۳۔ معجم کبیر، رقم۸۹۳۹۔ معجم اوسط، رقم۷۶۸۳۔ معجم صغیر، رقم۳۷۴، ۷۹۹۔ مستدرک، رقم۱۱۔ مسند الشہاب، رقم۲۶۶، ۲۶۷۔ سنن بیہقی، رقم۶۲۸۷، ۶۲۸۸، ۶۲۸۹، ۶۲۹۰۔

 __________________

B