[نقطۂ نظر ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
جاوید صاحب ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے سمپوزیم میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔ مختلف مصروفیات کی بنا پر ان کا یہاں قیام تقریباََ ایک ہفتے(۱۶تا ۲۲ دسمبر) رہا۔ اس قیام کی روداد درج ذیل ہے۔
۶۱ دسمبر بروز جمعرات جاوید صاحب PIAکی فلائٹ نمبر PK-303 سے دوپہرایک بجے کراچی پہنچے۔ اس دفعہ جاوید صاحب کے قیام کے دوران میں مختلف تقاریر، انٹرویوز، ٹی وی ریکارڈنگ اور ملاقاتوں کی کافی مصروفیات رہیں۔جن کا آغاز ۲۱ دسمبر کی سہ پہر ڈاکٹر فرخ ابدالی اور ڈاکٹر احسن کے ساتھ ملاقات سے ہوا۔اس کے فوراََ بعد مہناز رحمن صاحبہ نے اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں جاوید صاحب سے انٹرویو کیا۔وہ ایک این جی او سے بحیثیت پروجیکٹ ایڈوائزر وابستہ ہیں۔ جاوید صاحب نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں ان کے سوالات کے جواب دیے۔
انٹرویو میں جاوید صاحب نے ایک اہم بات کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف روایتی اہل علم ہیں جو اسلام کی دستوری تعبیر اور سخت قوانین کے ذریعے سے معاشرے کی اصلاح کا کام ایک غیر فطری طریقے سے کررہے ہیں اور دوسری طرف ترقی پسند لوگ ہیں جو ان قوانین کی مخالفت میں اسلام کو اپنا ہدف اور دشمن سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس انھیں چاہیے کہ وہ دین کی اصل تعلیم اچھے اہل علم سے حاصل کریں اور پھر جو چیزیں اصولی طور پر غلط ہیں ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔انھیں اسلام اور اسلام کے نمائندوں میں فرق کرنا چاہیے۔ خاتون نے اس بات سے اتفاق کیا ۔انھوں نے اپنا پس منظر بیان کیا کہ وہ نوجوانی کے زمانہ سے ترقی پسند حلقوں سے منسلک ہوگئی تھیں مگر کمیونزم کے زوال کے بعد وہ تصوف کی طرف مائل تھیں۔
میرے لیے یہ صورتحال نئی نہیں تھی کیونکہ میرے علم میں بھی ایسی متعددکہانیاں تھیں۔خدا کے منکرین کمیونزم کی شکست کے بعد جب پلٹے تو ان کے سامنے ایک سخت گیر اور جامد خدا کا تصور آگیا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ تصویر ان غیر معقول فقہی احکام (مثلاََ قتل کے مقدمہ میں عورت کی گواہی کا قبول نہ کیا جانا وغیرہ)کے آئینے میں ظاہر ہوئی جو عصر حاضر کے ایک پڑھے لکھے آدمی کے لیے ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہیں۔ لہٰذااس ’فقہی ‘ خدا کے مقابلے میں تصوف کا وہ خدا ان کے نزدیک قابل ترجیح ٹھہرا جو انسان کے جذبۂ بندگی کی تسکین تو کرتا ہے مگر اس کی عملی زندگی میں شرعی احکام دے کر پابندیاں نہیں لگاتا ۔کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن اپنے منکرین کی غیر معقولیت کو ان کے کفر کا سبب قرار دیتا ہے اور آج اسلام کی ایسی تصویر سامنے ہے جس میں لوگ شرعی احکام کوغیر معقول سمجھ کر دوسرے تصورات کو اختیار کرتے ہیں۔ اس کا سبب جاوید صاحب کے الفاظ میں اس کے سوا کیا ہے کہ ایک عرصے سے قرآن اس امت کے علم و عمل کی اساس نہیں رہا۔
مہناز رحمن صاحبہ کے بعد ڈاکٹر عامر جعفری ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ان کا تعلق Centre of Biomedical Ethics and Cultureنامی ادارے سے تھا۔یہ ادارہ میڈیکل کے شعبے سے متعلق اخلاقی مسائل کے حل کے لیے کام کرتا ہے۔ان کے ادارے میں جاوید صاحب کا ایک لیکچر تھا ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عامر صاحب اپریل میں جاوید صاحب کو ایک تربیتی ورکشاپ میں مدعو کرنا چاہتے تھے جس کی تفصیلات پر اس نشست میں گفتگو ہوئی۔
’’آج ‘‘ٹیلیوژن کے راشد محمود کو جاوید حاحب سے ملاقات کے لیے آنا تھا مگران کے آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔اس لیے ڈاکٹر عامر کے جانے کے بعد جاوید صاحب سے مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی۔ خاص طور پر مہناز رحمن صاحبہ کے انٹرویو میں جو نکات سامنے آئے ان میں سے ایک بڑا اہم نکتہ اصلاح معاشرہ بذریعہ تعلیم تھا جس پر جاوید صاحب نے بہت زور دیا تھا۔ میں نے دوران گفتگومیں جاوید صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ مغربی تہذیب کی جس یلغار کا آغاز ہواہے اس سے بظاہر اب پناہ ملنا مشکل ہے۔ہماری اپنی تہذیبی روایات کی بنا پر لوگوں میں ایک جھجک پائی جاتی ہے مگر جو لوگ اس تہذیبی دائرے سے باہر نکل کر دوسرے ممالک میں آباد ہوتے ہیں وہ باآسانی اس مغربی ثقافت کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ مثلاََ جب ہم جاوید صاحب کو ائیر پورٹ لینے پہنچے تو متعدد پاکستانی خواتین مغربی لباس میں لاؤنج سے باہر آتی نظر آئیں۔ ان خواتین کی جھجک غیر ملکی ماحول نے ختم کی اور غیر ملکی میڈیا اب ہماری خواتین کی جھجک دور کررہا ہے۔ ہمارے ہاں مغربی لباس کے بارے میں جو جھجک اس نسل میں پائی جاتی ہے یقیناََ وہ ہماری موجودہ نسل کے بعد نہیں رہے گی اور مردوں کی طرح عورتوں میں مغربی لباس عام ہوجائے گا۔ دوران گفتگو جاوید صاحب نے فرمایا کہ میں آنے والی نسلوں میں نہ صرف اخلاقی انحطاط دیکھ رہا ہوں بلکہ انھیں کرمنل ہوتا بھی دیکھ رہا ہوں۔ انھوں نے اپنے صاحبزادے معاذکے تعلیمی ادارے کے پس منظر میں بتا یا کہ صنفی بے راہروی نوجوانوں کو جرائم تک لے جاتی ہے۔مثلاََ جب نوجوان دیکھتے ہیں کہ صنف مخالف میں مقبولیت کے لیے مال و زر کے مظاہر مثلاََ نئی گاڑی، اعلیٰ لباس، نت نئے موبائل وغیرہ بہت ضروری ہیں تو ان کے حصول کے لیے وہ جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں نت نئے جرائم وجود میں آرہے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان بھی سر انجام دیتے ہیں۔ مثلاََ بعض غیر ملکی امتحانات میں اصل طالبعلم کی جگہ کوئی قابل نوجوان ، کچھ پیسوں کے عوض، پرچہ حل کرتا ہے۔
راشد صاحب ابھی تک نہیں آئے تھے۔ جبکہ مجھے ایک مغربی ملک کے قونصلر جنرل کے اس ڈنر میں شرکت کرنی تھی جو انھوں نے سندھ اور بلوچستان کے علماء اور دانشوروں کے اعزاز میں دیا تھا۔ اس لیے میں اجازت لے کر جاوید صاحب سے رخصت ہوگیا۔
اگلے دن یعنی جمعہ ۷۱ دسمبر صبح نوبجے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں جاوید صاحب کا خطاب تھا۔تقریر کا موضوع Ethics, Religion and Abortion تھا۔جاوید صاحب وقت کے بیحد پابند ہیں اس لیے ٹریفک کے پیش نظر ہم جلدی روانہ ہوئے مگر صبح کے وقت کی بنا پر رش کم تھا اور ہم وقت سے کافی پہلے وہاں پہنچ گئے۔ راستہ میں میں نے جاوید صاحب کو رات کی تقریب کی روداد سنائی۔تقریب میں قونصلر جنرل نے خطاب کیا اور پاکستان کے لیے اپنے ملک کے تعاون اور امداد کی تفصیل بیان کی۔علماء کی طرف سے مفتی منیب الرحمن نے تقریرکی ۔ ان کی تقریر کافی پسند کی گئی۔اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم آپ کے ملک کو دنیا کی تنہا سپر پاور مانتے اور اس کی طاقت کوتسلیم کرتے ہیں۔ تاہم آپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا کے معاملات عدل پر چلائیں۔ ان کے بعد ایک اور عالم نے بھی تقریر کی جس کے بعد حاضرین کو کھانے کے لیے دوسرے کمرے میں لے جایا گیا ۔
تقریب کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ڈنر میں علما کواعلیٰ درجے کے جھینگے پیش کیے گئے۔میں تو خیر بچپن ہی سے طبعی کراہت کی بنا پر جھینگے نہیں کھاتا مگر میرے گھر والوں نے، جن کی یہ بڑی مرغوب غذا تھی، علماء کے اس فتویٰ کے بعد جھینگے کھانے چھوڑ دیے کہ حنفی مذہب میں جھینگے کھانا مکروہ تحریمی ہے۔میں نے جاوید صاحب کو بتایا کہ ڈنر پہ یہ ’مکروہ تحریمی‘ خوب رغبت سے کھایا گیا۔ کھانے کے دوران میں ڈاکٹر منظور نے ایک بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔دراصل امریکی پبلک افےئر آفیسر ریکس موسر نے اپنی تقریر میں علما کے تعلیمی اداروں کو مدد کی پیشکش کی تھی اور اس بات کا آغاز یہاں سے کیا تھا کہ میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی علوم میں جب گیا تو وہاں کے چےئرمین نے، جو اس نشست میں بھی موجود تھے، ایک فوٹو اسٹیٹ مشین کی ضرورت کااظہار کیا تھا۔ سفارت خانے نے یہ فوراََ مہیا کردی۔اس صورتحال پر ڈاکٹر منظور احمد کا تبصرہ تھا :
’عزتِ نفس ‘فروختند و چہ ارزاں فروختند
ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کی عمارت میں داخل ہوئے تو جاوید صاحب نے کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو یتیم ادارہ لگتا ہے۔ استقبالیہ پر ذمہ داران نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں اس ہال میں لے گئے جہاں خطاب تھا۔ تاہم صاف نظر آتا تھا کہ پروگرام کا وقت پر شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں اور ایسا ہی ہوا۔پروگرام شروع ہواتو جاوید صاحب نے دیے گئے ۰۳ منٹ کے مختصر وقت میں بہت جامع گفتگو کی جسے سامعین نے بیحد سراہا۔ بعد میں بھی یہاں کی ایک طالبہ سے میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ طلباو طالبات میں ایک عرصہ تک اس تقریر کا چرچا رہا۔
تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی احکام کی بنیاد چار چیزوں کی حرمت پر ہے۔ یعنی جان، مال، عزت و آبرو اور آزادی فکر۔ قرآن نے ان چاروں کو مقدس ٹھہرایا ہے۔ ان میں سے انسانی جان کی حرمت کے متعلق جاوید صاحب نے وضاحت کی کہ اسے کسی صور ت حلال نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن (المائدہ۵:۳۲) نے اس معاملے میں صرف دو استثنا بیان کیے ہیں۔ایک جب کسی شخص نے دوسرے شخص کی جان لی ہو اور دوسرے فساد فی الارض کے جرم میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔انسانی جان کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انسانی ضروریات کے پیش نظر حیوانی جان لینے کی اجازت دی ہے(الانعام ۶:۱۱۸)۔ اسی اذن کی بنیاد پر ہم مویشیوں کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔تاہم اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لے کر اس کا اذن حاصل کیا جائے تاکہ جان کا تقدس بہرحال ذہنوں میں باقی رہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ قرآن(السجدہ۳۲:۷۔۹) سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی تخلیق کا آغاز براہِ راست مٹی سے ہوا اور پھر طویل عرصے بعد اس کی نسل تولید و تناسل کے عمل سے بڑھنے لگی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل میں انسان کے حیوانی قالب کو خوب سے خوب تر بنایا اور اس کے بعد نفخ روح کا عمل کیا گیا اور پھر عقل و شعور کی صلاحیتیں دے کر وہ انسان سامنے آیا جس کی نسلیں آج کرہ ارض کی حکمران ہیں۔اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفخ روح سے پہلے انسان محض ایک حیوانی وجود تھا ۔اللہ تعالیٰ ٹھیک یہی عمل آج رحم مادر میں کرتے ہیں جس میں ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزر کر ایک بچہ اس دنیا میں آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی وضاحت میں بتایا کہ کم و بیش ۱۲۰دن یا چار ماہ بعد وہ وقت آتا ہے کہ جب بچہ میں روح پھونکی جاتی ہے ۔اس سے قبل وہ بچہ محض ایک حیوانی قالب ہوتا ہے اور اسے وہ تقدس حاصل نہیں ہوتا جو ایک انسانی جان کو حاصل ہے۔یعنی وہ تقدس جس کے بعد مذکورہ بالا دو صورتوں کے علاوہ کسی حال میں انسانی جان نہیں لی جاسکتی۔ اس طرح ہماری مذہبی تعلیمات ہمیں ٹھیک اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہیں کہ جس میں فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کونسا وقت ہے جس سے پہلے ڈاکٹر ،کسی بھی معقول بنیاد پر ،یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اسقاط حمل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی چار ماہ کی مدت کے اندر کسی معقول سبب سے مثلاََ ماں کی صحت کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس عرصے کے بعد انسانی جان وجود میں آجاتی ہے جسے ہر حال میں تقدس حاصل ہوجاتا ہے۔
تقریر کے بعد ہم نے منتظمین ڈاکٹروں کے ہمراہ چائے پی۔ اس دوران میں تقریر سے متعلق گفتگو کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں جاوید صاحب نے وضاحت کی کہ قرآن میں بیان کردہ انسانی ارتقا اور ڈارون کے ارتقا میں فرق یہ ہے کہ ڈارون کے نزدیک انسان دیگر جانوروں کے ارتقا سے وجود میں آیا جبکہ قرآن کے مطابق ارتقا اسی نسل انسانی میں ہوا جو خصوصی طور پر تخلیق کی گئی تھی ۔گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ اسقاط حمل میں کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث ملک میں نہ صرف کثرت سے غیر قانونی اسقاط حمل ہورہے ہیں بلکہ غیر مستند پیشہ ور لوگ بہت سا پیسہ لے کر بھی ایسی خواتین کی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔پھر جو ڈاکٹر یہ کام کرتے ہیں وہ اسے مذہباََ گناہ خیال کرتے ہیں۔لیکن قرآن وحدیث کی بنیاد پر جو اصول جاوید صاحب نے پیش کیا اس پر ڈاکٹرصاحبان نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔
جاوید صاحب کی صحبت کا ہر لمحہ ہمارے لیے سیکھنے کے اعتبار سے بڑا قیمتی ہوتا ہے۔جو کچھ مسائل اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ہم ان کی آمد پر وہ ان سے دریافت کرلیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے استاد امام اصلاحی کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی محفل میں صدیوں کے عقدے میں نے لمحوں میں کھلتے دیکھے۔ سو یہی حال جاویدصاحب کی صحبت کا ہوتا ہے کہ ذہن میں موجود گرہیں اور سوالات لمحہ بھر میں حل ہوجاتے ہیں۔مجھے اس بات کا بخوبی احساس ہے اورمیں علم کے معاملے میں ہمیشہ اس قول کی پابندی کرتا ہوں کہ جیو اس طرح کہ گویا کل مرنا ہے اور سیکھو اس طرح کہ جیسے ہمیشہ جینا ہے۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی بہت سے سوالات میرے ذہن میں تھے۔
واپسی پر موقع غنیمت جان کر میں نے فساد فی الارض سے متعلق اپنا ایک سوال پیش کیا۔ جاوید صاحب نے کہا کہ شاطبی نے اس پرتفصیلی بحث کرکے بتایا ہے کہ فساد فی الارض اصلاََ جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچانے کا نام ہے۔اسی کو عام زبان میں بدامنی کہتے ہیں۔ انسانوں کی جان، مال اور آبرو کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے اس جرم پر موت کی سزا کا فیصلہ سنایا ہے۔(المائدہ۵:۳۲)
میرا دوسرا سوال مٹی سے انسان کی پیدائش کی نوعیت کے بارے میں تھا۔انھوں نے فرمایا کہ آج بھی زندگی کی نسبتاََ ابتدائی اشکال مٹی اور پانی کے امتزاج سے وجود میں آتی ہیں۔ایسا ہی انسان کی خصوصی تخلیق کے وقت کیا گیا ہوگا۔یہ جو لاکھوں سال پرانی انسان نما مخلوقات کے fossils دریافت ہوتے رہتے ہیں اگر یہ ٹھیک ہیں تو یہ انسان اور بندرکے بیچ کی کسی ارتقائی مخلوق کے باقیات نہیں بلکہ انسانی ارتقا کے ان مراحل کے نشان ہیں جب انسان میں روح نہیں پھونکی گئی تھی۔میرا ایک اور سوال حیوانی جان کی حرمت کے بارے میں تھا کہ اسے بہرحال ایک درجے کا تقدس تو حاصل ہے ، وہ کون کون سی بنیادیں ہیں جن پر حیوانات کی زندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ انسانی ضرورت جیسے گوشت اور کھال کے حصول کے لیے یا ایذا سے بچنے کے لیے جیسے سانپ ،بچھو، مچھر وغیرہ کو ہلاک کرنا۔میں نے پاؤ تلے آنے والے حشرات کا دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جان بوجھ کر ان کو ہلاک نہ کیا جائے اضطرار یا بے خبری کی حالت میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے۔
گھر پہنچ کر بھی میرے سوالات کا سلسلہ جاری رہا۔لباس سے متعلق میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ لباس سے متعلق جو صراحت قرآن نے کی ہے وہ شرمگاہ کو ڈھاپنا ہے۔اس معاملے میں کوئی کوتاہی کسی حال میں نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا خواتین کے معاملے میں قرآن حدودِ لباس کو نہیں بلکہ زیب وزینت کو زیربحث لاتا ہے۔قرآن جس چیز کی اصلاح کرنا چاہتا ہے وہ خواتین میں نمائشِ حسن کا جذبہ ہے۔خوبصورت نظر آنے کی کوشش میں خواتین بالعموم بہت اہتمام کرتی ہیں۔ قرآن انھیں زینت اختیار کرنے سے تو نہیں روکتا البتہ مرد وزن کے اختلاط کے موقع پر اس کے اظہار پر ہر طرح سے پابندی لگاتا ہے۔اس میں دو چیزوں کا استثنا البتہ دیا گیا ہے۔ ایک قریبی اعزہ کے لیے اظہار زینت کی اجازت اور دوسرے چہرے اور ہاتھ پر موجود زینتوں کے اظہار کا استثنا۔ خواتین پرجو چیز واضح کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ قرآن نے سہولت کے پیش نظر چھوٹ تو دی ہے مگر اس کی اصل اسپرٹ یہی ہے کہ مرد وزن کے اختلاط کے موقع پر وہ اظہار زینت سے منع کرتا ہے ۔
جاوید صاحب کی گفتگو سے میرا ذہن اس معاملے میں مزید واضح ہوا۔ اصل میں قرآن مرد وزن کو باہمی اختلاط کے موقع پرہر اس چیز سے روکتاہے جو ان میں صنفی جذبات پیدا کرسکتی ہے۔نبیوں کی تہذیب میں پلنے والی خواتین لباس کے بارے میں پہلے ہی محتاط ہوتی ہیں کہ عریانی کا کوئی عنصر پیدا نہ ہونے پائے۔جہاں کوتاہی بالعموم ہوجاتی ہے، اور عرب کی اس معاشرت میں بھی ہوجاتی تھی ،قرآن نے انھی پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔قرآنی احکام(النور۲۴:۳۰۔۳۱) کی اسپرٹ اگر ایک مسلمان مرد یا خاتون پر واضح ہے تو وہ مرد وزن کے اختلاط کے موقع پرایسا لباس یا وضع قطع اختیار نہیں کرسکتاجو صنفی جذبات ابھارے۔قرآن لباس کی تفصیل کو اس لیے زیر بحث نہیں لایاکہ اس کا تعین اصلاََتمدن کرتا ہے جو تہذیبی روایات، جغرافیہ، آب و ہوا، ذرائع پیداواروغیرہ سے متاثر ہوتا ہے۔قرآن ایک ابدی کتاب ہے جو ہر فرد، زمانہ، علاقے اور تہذیب کے لیے رہنمائی ہے۔اس حیثیت میں اس نے ایک کم از کم حد مقرر کی اور اپنے مقاصد کو کھول کر بیان کردیا۔کچھ ضابطہ کے احکام دے دیے۔ اس کے بعد انسان اپنے حالات اور سہولت کے اعتبار سے جو لباس چاہیں اختیار کرلیں۔یہی بات جاوید صاحب نے اس طرح کہی تھی کہ تمدن سہولت پسند ہوتا ہے۔جو قارئین مرد و زن کے اختلاط کے احکام کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں وہ جاوید صاحب کی میزان کے باب قانون معاشرت میں اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ نیز راقم نے بھی مغربی تہذیب کی یلغار کے پس منظرمیں لکھے گئے اپنے ایک کتابچے’’ تہذیبوں کا تصادم‘‘ میں ان چیزوں کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے لوگ وہاں تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔
میرا ایک سوال بیٹیوں کی وراثت کے بارے میں تھا کہ جس میں انھیں پورا ترکہ نہیں ملتا۔ جاوید صاحب نے کہا کہ ایسی صورت میں وراثت میں سے نصف یا ایک تہائی اس لیے چھوڑا گیا ہے کہ یہ قریبی مرد اعزہ کو ملے۔ کیونکہ کسی شخص کے بیٹے نہ ہوں اور صرف بیٹیاں ہوں تو ایسے والدین کی آخری عمر کی ذمہ داری لوٹ کر ان لوگوں پر آتی ہے۔باتوں باتوں میں مہنگی رہائش کا ذکر نکل آیا تو جاوید صاحب نے بتا یا کہ ان کے پاس ساری زندگی اپنا مکان نہیں رہا۔ اب ان کی بیگم نے اپنی بچت سے شہر سے بہت دور ایک پلاٹ لیا ۔اس پر جاوید صاحب نے ان سے ہنس کر کہا کہ آپ نے۲۰سال پیسے بچاکر ایک پلاٹ لیا۔ اب اتنے ہی سال اس کی تعمیر کے لیے پیسے جمع کرنے ہوں گے۔معاشرے میں ارتکاز دولت سے متعلق میرے ایک سوال پر وہ کہنے لگے کہ اس کا نتیجہ اس کے سوا اورکچھ نہ نکلے گا کہ معاشرہ کرمنل ہوجائے گا۔محروم طبقات جرائم کا ارتکاب کرکے معاشرے کا امن و سکون غارت کردیں گے۔
پچھلی دفعہ جاوید صاحب کی کراچی آمد کا ایک سوال تھا جو ابھی تک تشنہ تھا یعنی اسلام کا مفہوم کیا ہے۔ بہت سے لوگ اسے امن کے معنوں میں بیان کرتے ہیں۔جاوید صاحب یہ کہہ کر اس کی تردید کر چکے تھے کہ اسلام کے معنی سر تسلیم خم کرنے ، خود کو رب کے حوالے کرنے کے ہیں نہ کہ امن کے۔ مگر قرآن کے مطالعہ کے دوران قرآن کی وہ آیت سامنے آئی کہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃَََ(البقرہ ۲:۲۰۸) اس کی وضاحت میں اکثر علماء یہی بیان کرتے ہیں کہ السِّلْمِ سے مراد یہاں اسلام ہے۔ جبکہ سِلْم کا ایک مفہوم امن و صلح بھی بیان کیاجاتا ہے اس لیے یہ آیت اسلام کو امن کے مفہوم میں پیش کرنے کے لیے بے تکلف بیان کی جاتی ہے۔ جاوید صاحب کے کہنے پرامام اللغۃ زمخشری کی کشاف دیکھی تو اندازہ ہوا کہ سِلْمِ کے معنی اصلاً اطاعت کے ہیں۔ اس آیت میں یہی اس سے مراد ہے۔جن لوگوں نے یہاں سِلْمِ سے مراد اسلام لیا ہے غالباََ ان کے پیش نظر یہی ہوگا کہ اسلام کا مفہومٍ خود کو رب کے حوالے کرنا ہے اور اطاعت اس کا بنیادی عنصر ہے۔ اس لیے انھوں نے اطاعت کو اسلام کے معنی میں لے لیا۔ لفظ سِلْمِحرکات کی تبدیلی یعنی سَلَمَ اور سَلَْمِکے طور پر حرب کی ضد یعنی صلح وامن کے لیے قرآن میں بعض دوسری جگہ استعمال ہوا ہے لیکن یہاں سِلْمِ سے صلح و امن مراد لینے کی گنجائش نہ سیاق کلام میں ہے نہ لغت میں۔
شام کے وقت ڈاکٹر فرخ ابدالی صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ ان کے ساتھ طویل نشست میں متنوع موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اپنے کام کی نوعیت بیان کرتے ہوئے جاوید صاحب نے کہا کہ میں نے جو کام کیا ہے وہ تحقیق کے بعد ایک نقطۂ نظر پیش کرنے کا کام ہے۔اس تحقیقی کام کو موثر بنانے کے لیے دو مزید کام کرنے ضروری ہیں۔ ایک تقابلی مطالعے کا کام جس میں میرے نقطۂ نظر اور دیگر نقطۂ ہائے نظر کے دلائل ، ان میں اختلاف اور اتفاق کی بنیادیں پیش کی جائیں۔ جبکہ دوسرا کام وہ داعیانہ لٹریچر تیار کرنا ہے جو عام لوگوں کی سطح پر آکر اس تحقیقی کام کا ابلاغ کرے۔دوران گفتگو میں ایک مغربی ملک کی پاکستان میں دلچسپی کا ذکر نکل آیا تو جاوید صاحب نے کہا کہ اسے پاکستان کی تعمیر سے کوئی دلچسپی نہیں۔اس کی اصل دلچسپی اپنے مفادات سے ہے۔ وہ ایک سپر پاو ر ہے اور دنیا اس کی رعایا ہے۔ اس رعایا میں میں وہ مختلف اقدامات کرتا رہتا ہے۔ ایک زمانے میں اسے ہمارے معاشرے میں جہادی نقطۂ نظر کے فروغ سے بڑی دلچسپی تھی اور اب اس کی بیخ کنی کرنے سے بڑی دلچسپی ہے۔
اس مغربی ملک کا ذکر پچھلے روز ہونے والی علماء کی اس ملاقات سے شروع ہوا تھا جس میں میں بھی شریک تھا۔جاوید صاحب کا کہنا تھا کہ یہ اس کی طرف سے اپنی رعایا کے خیالات کو جاننے کی ایک کوشش تھی۔علماء کو مالی مدد کی پیشکش پر انھوں نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا ۔لاہور میں ایک مغربی سفارت کار جاوید صاحب سے ملنے آئے۔ ملاقات کے اختتام پر انھوں نے جاوید صاحب سے دریافت کیا کہ وہ ان کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ اس پر جاوید صاحب نے انھیں فاتح عالم سکندر اعظم کا ایک قصہ سنایا کہ سکندر ایک جگہ سے گزرا جہاں مشہور فلسفی دیو جانس کلبی بیٹھے دھوپ تاپ رہے تھے ۔ اس نے بڑی عقیدت کے ساتھ ان سے پوچھا کہ میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں انھوں نے جواب میں کہا کہ مہربانی کرکے دھوپ چھوڑ دیجیے۔واقعہ بیان کرکے جاوید صاحب نے سفارت کار سے کہا میں آپ کی پیشکش کے جواب میں یہی عرض کرتا ہوں کہ دھوپ چھوڑدیجیے۔ اس پر وہ بہت دیر تک ہنستا رہا۔گفتگو کا سلسلہ ابھی جاری تھا مگر میرے درسِ قرآن کا وقت ہوگیا تھا اس لیے میں اجازت لے کر رخصت ہوگیا۔
اگلا دن ہفتہ۸۱ دسمبر کا تھا ۔صبح سوا آٹھ بجے CBEC کے ڈاکٹر عامر جعفری کی دعوت پر Organ Transplantation کے موضوع پر ان کے ادارے میں جاوید صاحب کا خطاب تھا۔ان کا ادارہ عارضی طور پرSIUT یعنی Sindh Institute of Urology and Transprantation کی عمارت میں کام کررہا ہے۔یہ ادارہ ڈاکٹر ادیب رضوی کے زیر نگرانی کام کررہا ہے جہاں گردوں کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹر عامر جعفری نے استقبال کیا۔تقریرکا وقت ہوگیا تھا مگر ڈاکٹر ادیب رضوی بااصرار جاوید صاحب کو اپنے کمرے میں لے گئے اور اپنے ادارے کا تفصیلی تعارف کرایا۔انہوں نے بتایا کہ کسی مریض میں گردوں کی منتقلی ایک بہت مہنگا عمل ہے اور اس کے بعد بھی ساری زندگی مریض کی نگہداشت کرنی پڑتی ہے جس پر کافی خرچہ آتا ہے مگر ان کا ادارہ یہ سارے اخراجات خود برداشت کرتا ہے۔
کچھ گفتگو کے بعد ادارے کے وسیع آڈیٹوریم میں جہاں طب کے پیشے سے متعلق افراد کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جاوید صاحب کی تقریر شروع ہوئی۔ محدود وقت میں جاوید صاحب نے اپنی بات اس طرح بیان کی کہ عام طور پر علماء تین وجوہات کی بنا پر اعضاء کی پیوند کاری کے مخالف ہیں۔اول یہ کہ انسان کی جان اللہ کی امانت اور اسی کی ملکیت ہے جس میں کسی قسم کے تصرف کا اسے اختیار نہیں۔دوم اعضاء کی پیوند کاری انسانی لاشوں کے مثلہ کے برابر ہے۔ سوم اس عمل کی اجازت دی گئی تو ایک ایک کرکے مردہ جسم کے تمام اعضاء نکال لیے جائیں گے تو دفنانے کے لیے آخر میں کچھ نہ بچے گا۔ جاوید صاحب نے ایک ایک کرکے ان تمام دلائل کا تجزیہ کیا۔ پہلے کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں بیان کیاہے کہ اس نے مومنوں سے ان کی جان و مال کو خریدلیا ہے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جان ہی کا نہیں ان کے مال کا بھی اصل مالک ہے۔مگر انسان نہ صرف اس مال میں تصرف کرتا ہے بلکہ اگر اس تصرف سے اللہ کے بندوں کو نفع ہو تویہ بہترین عمل شمار کیا جاتا ہے۔ خود قرآن نے انسانوں کی بھلائی میں انفاق کا حکم دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب مال میں تصرف کی اجازت دی ہے تو جان میں کیوں نہیں۔اس لیے اگر ایک انسان اپنا ایک گردہ دے کر دوسرے انسان کی زندگی بچاسکتا ہے اور ڈاکٹر یہ رائے دیتے ہیں کہ اس عمل سے پہلے انسان کی زندگی کو بھی کوئی خطرہ نہیں تو اسے ایثار کا بہترین عمل خیال کرنا چاہیے نہ کہ حرمت کا فتویٰ دینا چاہیے۔دوسرے استدلال کے جواب میں جاوید صاحب نے فرمایا کہ مثلہ کا انحصار نیت پر ہے۔ہر شخص یہ جانتا ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم یا اعضاء کی پیوند کاری کے لیے مردہ جسم کے ساتھ جو کیا جاتا ہے اس میں کسی کے سان و گمان میں بھی مردہ کی بے حرمتی کی نیت نہیں ہوتی۔جبکہ مثلہ کرنے والے کی اصل نیت و ارادہ مردے کی بے حرمتی کرنا اور اپنے غضب کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں کو یکساں عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آخری استدلال کے بارے میں جاوید صاحب کا موقف تھا کہ مردے کو دفن کرنے کا حکم میت کے احترام میں دیا گیا ہے۔ بہت سے حالات، مثلاََ شہادت وغیرہ، میں مرنے والے کے جسم کا بیشتر حصہ تلف ہوجاتا ہے۔ چنانچہ بچے ہوئے اعضاء کی تدفین کردی جاتی ہے اور اس بات کو ہدف تنقید نہیں بنایا جاتا کہ شہادت کا یہ عمل غلط ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں دفنانے کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ لہٰذا جس اصول کی بنیاد پر شہید ہونے والے کے نامکمل جسم کی تدفین کی جاتی ہے اسی اصول کی بنیاد پر اعضاء کے عطیہ دے کر دوسروں کی جان بچانے والے کی تدفین بھی کی جائے گی۔
جاوید صاحب کے بیان کردہ ان دلائل کے علاوہ ایک اور دلیل بھی پیش کی جاتی ہے۔ یہ دلیل چونکہ بہت کمزور ہے غالباََ اس لیے جاوید صاحب نے اس کا تذکرہ نہیں کیا مگر بعض بڑے اہل علم کی طرف سے یہ بات پیش کی جاتی ہے اس لیے اس کا ذکر بھی ناموزوں نہیں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب بعض روایات کو بنیاد بناکر یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ مردہ کو ایذاء دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اسے زندگی میں اذیت دی جائے۔یہ استدلال درست نہیں۔ اس لیے کہ مرنے کے بعد جسمِ انسانی کو اگر اذیت پہنچتی ہے تو سب سے بڑھ کر یہ اذیت خود قدرت کی طرف سے دی جاتی ہے جب قبر میں اس کا جسم اور اعضاء انتہائی تکلیف دہ طریقے سے گل سڑ کر برباد ہوجاتے ہیں۔ انسان کا اصل وجود جسے قرآن پاک نفس اور عوام الناس روح کہتے ہیں،اس کی موت کے ساتھ ایک دوسرے عالم میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔ انسان کے ساتھ جو معاملہ بھی ہوتا ہے وہ اصل میں ا س کے نفس یا روح کے ساتھ ہورہا ہوتا ہے نہ کہ قبر میں موجود اس کے جسم کے ساتھ۔قیامت کے دن اس نفس کو ایک نیا قالب دے کر اٹھایا جائے گااور یقیناََ اُس وقت اس کا جسم اسے ملنے والی نعمت اور عذاب کا معیار بن جائے گا۔رہا احادیث کامعاملہ تو ان میں اصل تعلیم احترام میت سے متعلق ہے تاکہ لوگ اپنا مردہ بھائی کی نعش یا اس کی قبر کے متعلق بے پروا نہ ہوں۔
جاوید صاحب کی تقریر کے بعدسوالات ہوئے جس کے بعد تواضع کے لیے ڈاکٹر ادیب صاحب کے کمرے میں ہمیں لے جایا گیا۔ جبکہ حاضرین کے لیے اسی منزل پر واقع ٹیرس پر چائے وغیرہ کا اہتمام تھا۔ میں ڈاکٹر عامر جعفری کی تلاش میں وہاں گیا تو حاضرین کو تقریر سے متعلق گفتگو کرتے سنا۔ وہ سب اپنی انتہائی پسندیدگی کا اظہار کررہے تھے۔دراصل ہمارے اہل علم عقل عام کی بعض چیزوں کو خلافِ مذہب قرار دے تو دیتے ہیں مگر ان کے پاس قرآن سنت کی کوئی واضح نص ہوتی ہے نہ معقول دلائل۔سوالات کے دوران میں، اسی پس منظر کے تحت ،یہ بات پوچھی گئی تھی کہ ہمارے اہل علم کن بنیادوں پر ایسی آراء قائم کرلیتے ہیں۔ اس کے جواب میں جاوید صاحب نے کہا تھا کہ یہ دراصل قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ کے بجائے صدیوں میں بننے والے قانونی ذہن کا نتیجہ ہے۔یہ ذہن قرآن و سنت اور عقل عام کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا بلکہ ان فقہی اصولوں کو بنیاد بناتا ہے جو کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس ابدی ہدایت کی جگہ نہیں لے سکتے جو ہر دور میں قابل عمل ہے۔قانونی ذہن کیا ہوتا ہے اس کی وضاحت میں جاوید صاحب نے جسٹس کیانی کا وہ مشہور جملہ حاضرین کو سنایا تھا جو انصاف کی دہائی دینے والے ایک وکیل سے انھوں نے کہا تھاکہ ہم انصاف نہیں دیتے ،قانون دیتے ہیں۔
میں کمرے میں واپس پہنچا تو ڈاکٹر ادیب رضوی جاوید صاحب سے محو گفتگو تھے۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر عامر جعفری اور ڈاکٹر رفعت معظم بھی تشریف لے آئیں۔اس وقت یہ سوال زیر بحث تھاکہ کسی شخص کی موت کا اعلان کس وقت کیا جائے گا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی بتانے لگے کہ ایک وقت تھا کہ جب نبض کے رک جانے پر ڈاکٹر موت کا اعلان کردیتے تھے مگر اب برین ڈیتھ Brain Death موت کا معیار بن گئی ہے۔ یعنی اب یہ ممکن ہوچکا ہے کہ کسی مریض کے مختلف نظاموں مثلاََ دوران خون وغیرہ کو مشینوں کے ذریعے سے غیر معینہ مدت کے لیے برقرار رکھا جاسکے۔ لہٰذاڈاکٹر ان نظاموں کے بجائے ذہن کے کام کرنے کے عمل کو موت کا معیار بناتے ہیں۔ یعنی جب ذہن اور مرکزی اعصابی نظام اپنا کام کرنا چھوڑ دیں تو ڈاکٹر اسے موت سے تعبیر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی مریضوں کو انتظار کرانے کے سخت خلاف ہیں۔اسی لیے ان کا تمام اسٹاف جاوید صاحب کی تقریر سننے کے بعد اپنے ڈیوٹی پر چلا گیا تھا ۔ڈاکٹر صاحب کے مریض بھی ان کے منتظر تھے اس لیے وہ جاوید صاحب سے معذرت کرکے رخصت ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر رفعت معظم نے امریکہ میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی روداد سنائی جس میں ایک خاتون کے انتقال کے بعد ان کے شوہر اور والدین کے درمیان ایک ایسا تنازع پیدا ہوگیاجو صرف دور جدید میں ممکن ہے۔۔۔اور آنے والے دنوں میں شاید ہمیں بھی ایسی ہی صورتحال درپیش ہو۔ ہوا یوں کہ خاتون انتقال کے وقت چارمہینے کی حاملہ تھیں۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر مشینوں کے ذریعے سے ان کے جسم کے نظاموں کو چلا یا جائے تو چھ ماہ کا عرصہ پورا ہونے پر ایک صحت مند بچے کی ولادت آپریشن سے عین ممکن ہے۔شوہر اس مصنوعی زندگی کے حق میں جبکہ والدین اس کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ اس پر عدالت میں مقدمہ ہوگیا۔
جاویدصاحب کا نقطۂ نظر تھا کہ اس معاملے میں شوہر کا حق زیادہ ہے۔میں نے یہ رائے دی کہ مسئلہ والدین یا شوہر کا نہیں بلکہ اس بچہ کا ہے جو ماں کے پیٹ میں پل رہا ہے۔ اگر وہ چار ماہ کا ہوگیا ہے تو حدیث کے مطابق اس کا حیوانی وجود نفخ روح کے بعد ایک انسانی وجود میں بدل گیا ہے جسے ہر قیمت پر بچانے کی کوشش کی جانی چاہیے چاہے والدین پر یہ بات گراں گزرے۔ جاوید صاحب نے میری اس رائے کی تائید کی۔
(باقی)
________________