HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

فکر اسلامی کا ارتقا اور مولانا امین احسن اصلاحی

[نقطۂ نظر ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی
اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


انیسویں اور بیسویں صدی کے اہل علم میں بھی چند لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اجتہادی فکر سے کام لیا ہے۔ان میں قرآنیات کے باب میں مولانا حمیدالدین فراہیؒ ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، مولاناؒ نے قرآنیات پر انتہائی ٹھوس اور جوہری کام کیاہے۔ انھیں کے ارشد تلامذہ میں مولاناامین احسن اصلاحی بھی تھے، جنھوں نے اپنے استاذ کی قرآنی فکرکا ایک وافر حصہ پایا تھا، اور جلالت علمی کے ساتھ اس فکر کی شرح و تفصیل کی۔فکر اسلامی کے میدان میں بر صغیر ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جس میں فکر اسلامی کی تطہیر اور احیاء کے سلسلہ میں مکتبہ فراہی کا حصہ بہت بنیادی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس مکتبہ فکر کے گل سرسبد اور سب سے بڑے شارح تھے، انھوں نے فکر اسلامی کی متوازن شرح و تعبیر کی ہے، چنانچہ بحیثیت ایک اسلامی مفکر بھی وہ ایک بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔مولانا عہد حاضر کے ایک نابغہ فکر تھے۔ان کا اصل میدان قرآنیات تھا،تاہم ایک لمبے عرصہ تک جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے وہ اس میدان پر پوری طرح توجہ نہیں دے سکے تھے ۔جماعت سے علیحدگی کے بعد انھوں نے اپنے اصل میدان کی طرف رخ کیا، اور تدبر قرآن، مبادی تدبر قرآن، تدبر حدیث، مبادی تدبر حدیث جیسے ممتاز علمی و فکری کارنامے یادگار چھوڑے، جن کا فکر اسلامی کی تجدید و ارتقاء میں ایک نمایاں حصہ ہے۔ان کی ہربات اور ہرتحقیق سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ،مسئلہ رجم اور اس ضمن میں بعض صحابہؓ وصحابیاتؓ کی شان میں ان کے قلم نے لغزش کی ہے۔ان کی اس طرح کی رایوں کاعلمی طور پرجائزہ لینا چاہیے اور اہل علم یہ کام کر بھی رہے ہیں۔

تدبر قرآن

مولانا اصلاحی کی یہ تفسیران کی چالیس سال کی کوششوں، غور و فکر اور تدبر کا نتیجہ ہے، جس میں اصل بنیاد صرف کتاب و سنت کو بنایاگیا ہے۔ جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ :

’’کتاب و سنت کے سوا میں کسی چیز کو حجت نہیں سمجھتا، اور غور و تدبر میرے نزدیک انسانی فضائل میں سب سے برتر اور سب سے اعلی فضیلت ہے ‘‘؂۱ ۔

فکر اسلامی کی بنیاد کتاب و سنت ہیں، اور یہی دونوں مولانا کے علمی جہاد و تحقیق اور غور و فکر کا اصل محور و مرکز ہیں۔اس لحاظ سے تدبر قرآن فکر اسلامی کے پورے سرمایہ میں ایک نہایت بنیادی اضافہ ہے، تدبر قرآ ن کو لکھنے کے لیے انھوں نے کس قدر محنت کی ہے، عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس کی تیاری میں کسی طرح خرچ کیا ہے اور کس قدر جان کاہی کا ثبوت دیا ہے اس کی تصویر ان کے بلیغ قلم نے یوں کھینچ دی ہے کہ :

’’میں نے قرآن حکیم کی ایک ایک سورہ پر ڈیرے ڈالے ہیں، ایک ایک آیت پر فکری مراقبہ کیا ہے ؂۲۔

واقعہ یہ ہے کہ ان کے گہر بار قلم نے مکتبہ فراہی کی کما حقہ ترجمانی اور سلفیت حقہ کا عہد جدید میں علمی اظہار کیا ہے، ان کی تفسیری خصوصیات پر قلم اٹھانا تو ماہرین تفسیر کا کام ہے کہ ان کے امتیازات گوناگوں ہیں، لیکن ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے راقم کے نزدیک ان کی چند خصوصیات ایسی ہیں جو انھیں دوسرے ہم عصر مفسرین سے ممتاز کرتی ہیں۔

خصوصیت

ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی پوری تفسیر میں اجتہادی شان نمایاں ہے، عہد جدید میں لکھی گئی تفسیر وں میں سیدرشید رضاؒ کی المنار ابوالکلام آزاؒ د کی ترجمان القرآن اورعلامہ ازھر میرٹھیؒ کی مفتاح القرآن

اس معاملہ میں بعض اعتبار ا ت سے تدبر سے مشابہت رکھتی ہیں۔ ان تفسیروں کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ سب اجتھادی فکر کے داعی ہیں، جہاں تک صاحب تدبر کی بات ہے تواپنی طباعی، دقیقہ رسی اور عربیت کے شناور ہونے کے باعث ان کی سطر سطر انفرادیت لیے ہوئے ہے، انھوں نے اپنے استاذ مولانا فراہی کی فکر و بصیرت سے بھر پور استفادہ کیا ہے، اور تفسیر میں جابجا اس کا اعتراف بھی کیا ہے، تاہم وہ ان کے بھی مقلد محض نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات ان سے بھی اختلاف کرتے نظر آتے ہیں ؂۳۔

ان کی دوسری خصوصیت ان کا علمی اعتماداور جرأت اظہار ہے، ... وہ دوسرے مفسرین سے پوری صراحت کے ساتھ اختلاف کا اظہار کرتے ہیں، اور پوری قوت سے اپنی بات پیش کرتے اور دلائل دیتے ہیں، البتہٰ یہی انتہا درجہ کا اعتماد کہیں کہیں ادعائی رخ بھی اختیار کرلیتا ہے۔

تیسری اہم یہ ہے کہ وہ تفسیر میں جابجا نماز کی اہمیت ، دین میں اس کے مقام و مرتبہ نیز اس کے فلسفہ پر بڑ ے اہتمام سے روشنی ڈالتے ہیں، اور توازن و اعتدال کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اوروسائل ومقاصد کے ما بین فرق، اور اہمیت و تعلق کو نہایت خوبی واعتماد کے ساتھ بیان کرتے ہیں مثلا سورہ بقرہ آیت نمبر ۸۳ کے تحت (نماز و زکوۃ ٰکے سلسلہ میں ) لکھتے ہیں :

’’ اوپر اللہ ہی کی عبادت کرنے نیز اعزا و اقربا ء اور مساکین و یتامی کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی گئی ہے،اقامت صلاۃ اور ایتائے زکوٰۃ سے ان تمام نیکیوں کی شیرازہ بندی ہوتی ہے، اسی وجہ سے اجزاء کے ذکر کے ساتھ ان اصولی چیزوں کا بھی ذکر کردیا ہے جس سے آپ سے آپ یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اگر نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دیتے رہوگے تو تمہارے لیے اوپر بیان کی ہوئی نیکیوں کا انجام دینا بھی آسان رہے گا۔ اور نماز و زکوٰۃ کو ضائع کردو گے تو پھر سب کچھ ضائع کو بیٹھو گے ‘‘ (تدبر قرآن صفحہ ۲۶۵ جلد اول تاج کمپنی دہلی)

چوتھی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ دینی حقائق صبر و صلاۃاور زکوٰۃ، صوم و حج ،توحید اور بر و قسط وغیرہ کے باہمی ربط و تعلق کی وضاحت کرتے جاتے ہیں جس سے ان کی حقیقت معلوم ہونے کے ساتھ ہی دین اور اس کے اساسات و واجبات کا پورا سلسلہ بھی باہم مربوط ہوکر قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ مثلا صلاۃ و اقامت صلاۃ کی بحث صفحہ ۹۱ تا صفحہ ۹۳ جلد اول اور نماز زکوۃ اور صبر کے باہمی تعلق پر بحث ، صفحہ ۱۹۷ تا ۱۹۹ دیکھی جا سکتی ہے۔

ان کا ایک نمایاں وصف ان کے وہ گہرے اشارات ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ نفس دین کوسمجھنے کی راہ کھلتی ہے بلکہ تفقہ فی الدین کا مذاق بھی پیدا ہوتا ہے اور دین کی روح اور اس کی حقیقت تک رسائی ہوتی ہے، کتاب و سنت کے بہت سے سر بستہ راز کھلتے اور بہت سے حقائق سے پردہ اٹھتا ہے مثال کے طور پر عبادت، رب اور دین کا اصل مفہوم کیا ہے (صفحہ ۵۵ تا ۵۷) اور اسلام کی بنیادی نیکیاں کیا ہیں (صفحہ ۱۰۴) نیز یہ کہ دین کی اصل جذبہ شکر ہے نہ کہ جذبہ خوف (صفحہ ۶۴ تا ۶۵ تدبر جلد اول)اس کے بہترین نمونے ہیں۔

تزکیہ نفس

تزکیہ نفس قرآن کے نقطہء نظر سے انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد ہے، ا س کے وسائل و ذرائع تلاوت آیات، تعلیم کتاب و حکمت ہیں۔اسی کی عملی جد وجہد کودعوت دین یا اقامت دین کی جدوجہدکہتے ہیں، جن کا انتہائی ہدف یہ ہوتا ہے کہ ایک با اختیارآزادمسلم معاشرہ وجود میں آجائے اور اس پر دین مکمل طور پر نافذ ہوجائے ۔ اسی طرح تزکیہ نفس انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے، لیکن تزکیہ کے تعلق سے معاشرہ میں مختلف، متضاد اور اکثر اوقات میں منحرف رجحانات رائج ہیں،

صوفیاء اور ان کے زیر اثر طبقات کے ہاں ارادت، افتراق شریعت و طریقت اورفنا فی الشیخ کے مختلف خیالات و نظریات کے مابین اس کی اصل حقیقت گم ہوگئی،بیسویں صدی کی بعض اسلامی تحریکات میں سیاسی مظاہر زیادہ اعتبار پاگئے، اور اس طرح دین کی ایک اہم حقیقت نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔

مولانااصلاحی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے تزکیہ نفس پر قلم اٹھایا، اور اس کی اساس خالصتاً کتاب و سنت کو بنایا، اور ثابت کیا کہ وہ صرف انفرادی زندگی کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کو بھی محیط ہے، نیز شریعت و طریقت جدانہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں، اور دونوں ہی مطلوب ہیں۔انھوں نے روایتی خانقاہیت کی غلطیوں کو واضح کیا، روحانیت و دین داری کے مروجہ تصورات پر کھلی تنقید کی، اور علم تزکیہ کی تدوین کے سلسلہ میں ایک بنیادی کام کردیا، جس پر مزید کام کرکے اس کی تکمیل کی جاسکتی ہے ۔ ؂۴

تاہم راقم سطور کاخیال ہے کہ فرد اور خداکے تعلق(تعلق باللہ)کی ضروری بحث مولانا سے نظرانداز ہوگئی ہے۔

ٰٰٰٰ دعوت دین اور اس کا طریقہ کار

دعوت دین کے سلسلہ میں بھی مختلف و متضاد رویے پائے جاتے رہے ہیں، ماضی کی تاریخ میں بھی اس تعلق سے کسی قدر غموض و ابہام پایا جاتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ حدیث، فقہ وسیرت کی کتابوں میں دعوت و تبلیغ دین کے عنوان پر الگ سے ابواب نہیں ملتے ، بلکہ غزوات وسرایا کے ذیل ہی میں اس کچھ بات آجاتی ہے جوبہت تشنہ ہوتی ہے اورجدید ذہن کو اپیل نہیں کرتی۔، اور اس سے یہ چیزبھی واضح نہیں ہوپاتی کہ دعوت میں قتال کا مرحلہ کب آتاہے، اتمام حجت کی شکل کیا بنتی، اہل کفرسے قتال کو عقلاً کس طرح Justifyکیا جاسکتا ہے۔اس کے بعد قدیم اسلامی لٹریچر میں ایک مکتبہ فکر فقہاء کاہے ، جس کی رو سے اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین اصل نسبت محاربہ کی ہے، چنانچہ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ کا جزئیہ ہے، قتال الکفار واجب وان لم یبدؤونا

اسی سے ملتی جلتی بات ابن القیمؒ نے زادالمعاد میں جہاد کی فہرست کے مراحل پر بحث کرتے ہوئے لکھی ہے، جس میں مشہور حدیث امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان الاالٰہ الااللہ سے استدلال کرتے ہوئے جہادھجوم کو اہل اسلام پر فرض قراردیاہے۔

متاخرین فقہاء کے ہاں روح دین اور حکمت شریعت پر توجہ کم، بے لچک قانونیت ، ظاہر پرستی اور فقہی موشگافیاں غالب ہیں۔یہ خوش آیند ہے کہ معاصر فقہاء اور اہل فکر اس سلسلہ میں اجتہاد کررہے ہیں۔حال ہی میں فقیہ العصرعلامہ یوسف القرضاوی نے جہاد و دعوت کے موضوع پر عصری اسلوب میں ایک نہایت جامع کتاب فقہ الجہاد لکھی ہے جو آج عالم عرب میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔(ملاحضہ ہو انٹرنیٹ پر قرضاوی کی سائٹ)

اس کے بالمقابل دوسرا نقطۂ نظر صوفیاء کا تھا، جن کے ہاں مخاطب کی رعایت، انسان دوستی و خدمت خلق کے فلسفہ کے باعث کفر واسلام کے مابین امتیاز بھی ختم سا ہوگیاتھا، بعض اوقات انھوں نے مقامی تصورات و رسوم کو بھی وسیلہ تبلیغ کے طورپراختیار کرلیا۔ بلاشبہ محقق صوفیا، ہمیشہ ان غالی خیالات کی تردید کرتے رہے، لیکن ان کے اکثر طبقات و سلاسل پر یہی رجحانا ت غالب رہے۔ جس میں وحدت الوجود کے فلسفہ نے توحید و شرک کے مابین سارے فاصلے ہی ختم کردئے۔دورجدید میں تصوف کے زیر اثر حلقوں میں ایک اور فلسفہ نمودار ہوا، جس کی ترجمانی برصغیر میں تبلیغی جماعت کا پیٹرن کرتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ مسلمان عوام پر اصلاح و تبلیغ کے اس فکر کے گہرے اثرات پڑے ہیں تاہم اس کا یہ پہلو بہت کھٹکتا ہے کہ اس میں نہی عن المنکر کے پہلو کو مکمل طور پر فراموش کرکے امر بالمعروف اور بشارت کے پہلو پر زور صرف کیا جاتا ہے، اور احادیث فضائل سے خاص طور پر مددلی جاتی ہے۔دوسری طرف اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی بعض علم بردار تحریکوں نے حکومت الٰہیہ کے قیام کو اپنا ہدف ٹھہراکردعوت کا آغاز کیا، اور اسی کے فریم میں رکھ کر انھوں نے دین کی مجموعی تعبیربھی کی۔ ۵ ؂

اسی افراط و تفریط کے مابین مولانا اصلاحی مرحوم نے دعوت دین اور اس کے طریقہ کار پرقلم اٹھایا،

اور قرآنی نقطہء نظر سے دعوت دین کا مکمل فلسفہ مرتب کردیا، مولانا کی یہ کتاب اس موضوع پر شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ دعوت اسلامی کے فلسفہ پر تحریکات اسلامیہ کے پورے لٹریچر میں اس جیسی کوئی کتاب موجود نہیں ہے ۔۶؂ عالم اسلام کی دوسری زبانوں میں بھی اس کے ترجمہ کی ضرورت ہے،اگرچہ آج اس کے بعض مباحث پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

دین و سیاست کے مابین ربط و تعلق کی نشاندہی بھی ایک دشوار گزارعمل ہے، اس کی نزاکت کی وجہ سے اچھے اچھے اذہان کہیں سے کہیں نکل گئے ہیں، اسی سلسلہ میں تعبیر کی ایک انتہا تو وہ ہے جس میں دین کو قریب قریب اسٹیٹ کے معنی میں لیا گیا ہے، جس کے ترجمان مولانا مودودیؒ ہیں جو بیسویں صدی کے سب سے بڑے اسلامی متکلم اور عمرانی مفکر سمجھے جاتے ہیں، ۷؂ اس کے رد عمل میں ایک دوسری انتہاوہ ہے جواس وقت’’ علم جدید کے چیلنج‘‘جیسی فکری اور’’ تعبیر کی غلطی‘‘ جیسی ناقدانہ کتاب کے مصنف مولاناوحیدالدین خاں کے یہاں پائی جارہی ہے کہ اب ان کے یہاں دین کی اجتماعی تعلیمات کو ثانوی درجہ دینے کی کوشش نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔۸؂

اس سلسلہ میں مولانااصلاحیؒ کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اس پر خطر وادی کو بہت اعتدال کے ساتھ طے کیا ہے، ان کی تحریروں بالخصوص ’’دعوت دین اور اس کا طریقہ کار‘‘ نیز’’ اسلامی ریاست ‘‘اور’’ تفیہم دین‘‘ میں ان کا یہ وصف بہت نمایاں ہے، حتیٰ کہ جب وہ جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک تھے اس وقت بھی انھوں نظم جماعت کی پابندی کے باوجود اپنی فکری اصالت کو برقرار رکھا ، یہاں تک کہ اس وقت جماعت کے فکری اعتدال میں بھی ان کا بہت کچھ رول رہا، ۹؂

لیکن تقسیم ملک کے بعد جب جماعت اسلامی پاکستان نے یکایک چھلانگ لگاکر انتخابی سیاست میں اترنے کا فیصلہ کرلیا اور عملاً اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کرلی تواس وقت مولانا اس سے بد دل ہوگئے اور ان پر یہ بات منکشف ہوگئی کہ یہ فکر کسی نہ کسی موڑ پر توازن اور اصالت کھو بیٹھا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں دراصل مولانا اصلاحی ؒ ہی کی رائے کاخلاصہ کیاگیاہے، اس سلسلہ میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی اس مو ضوع پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے، البتہٰ مقالہ نگار کو مولانا اصلاحی کا نقطہء نظر راجح معلوم ہوتا ہے۔

عقاید و کلامیات کے موضوع پر ایک پورا مکتبہ موجود ہے، اس فن کے تعلق سے ابن خلدون لکھتے ہیں :

’’ علم کلام وہ علم ہے جس کے ذریعہ عقلی دلائل سے ایمانی عقائد پر حجت قائم کی جاتی ہے، اور اعتقادات میں اہل سنت و اسلاف کے مذہب سے روگردانی کرکے باطل نظریات رکھنے والوں کی تردید کی جاتی ہے، اور ان ایمانی عقاید کا مرکزی نقطہ توحید ہے، ۱۰؂

اس پورے ذخیرہ میں جو چیز سب سے زیادہ کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی چھاپ اصلاً منطقی ہے،اور وہ یونانی برھانیات پر قائم ہے اس میں قرآنی طرز استدلال کو اختیار نہیں کیاگیاہے، لہٰذا قدیم علم کلام اپنی تمام تر افادیت کے باوجود صرف چند فروعی مباحث اور مسئلہ صفات الٰہی کے بارے میں دو راز کا ر موشگافیوں تک محصور ہو کر رہ گیا ہے، وہ سائنٹیفک اور جدید عقلیات کا جواب نہیں دے سکتا، واقعہ یہ ہے کہ یہ علم کلام اصلا چند منحرف اسلامی فرقوں ، معتزلہ ،جہمیہ، قدریہ جبریہ اور روافض نیز شعوبی و زندیقی تحریکوں کے رد عمل کے طور پر ظہور میں آیاتھا ، لہٰذا الحادی فکر کے مقابلہ میں وہ کوئی ٹھوس علم کلام نہیں ہے۔مولانا اصلاحی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خالصۃً قرآنی استدلالات کے ذریعہ توحید و شرک کے فلسفوں پر روشنی ڈالی ہے اور اس طرح ایک قرآنی علم کلام کی بنا رکھی ، بلا شبہ وہ عہد جدید کے ایک قرآنی متکلم ہیں، تاہم اس سلسلہ میں اور مولانا وحیدالدین خاں کی شاہکار کتاب’’علم جدید کے چیلنج‘‘ کے اسلوب میں مزید کام کرنے اور اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ۱۱؂

حدیث کے ذخیرہ پر روایت و درایت دونو ں ہی لحاظ سے کام کرنے کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن غلطی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اسناد اور روایت کے لحاظ سے حدیث کی تحقیق مکمل ہوچکی ہے، اب صرف احادیث کی عملی تطبیق و توجیہ کی ضرورت ہے، حالانکہ دیگر کتب کی تو بات ہی کیا خود بخاری و مسلم میں کتنی ہی کمزور و سقیم روایتیں موجود ہیں، اور اہل تحقیق نے ان کی نشاندہی کی ہے، ۱۲؂ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول حدیث پر کام کرنے اور بحث و تحقیق کے نئے موازین کی ضرورت باقی ہے۔اس احساس کے تحت ہی مولانا نے مبادی تدبر حدیث کے عنوان سے بعض نئے قواعد و اصول قرآن وسنت اور فقہا ء متقدمین کے اشارات سے مستنبط کیے ہیں، اس سلسلہ میں ان کے بعض تفردات سے یقیناًاختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم یہ کام اپنی جگہ پر اہم اور اہل علم کی توجہ ا و رغور و فکر کا مستحق ہے۔

فکر اسلامی کا غلبہ اور اس کی نشو ونما جہاد(دعوت)و اجتہاد سے جڑا ہواہے ، کہ یہ دونوں اس کے ارتقاء کے نا گزیر عناصر ہیں۔دور زوال میں امت کے اندر اجتہادی فکر سب سے زیادہ متاثر ہوئی، اس کا جتنا فقدان ہوتا گیا اتنی ہی تیزی سے اسلامی زندگی کے ہر شعبہ میں تنزل و انحطاط کی ہمہ گیری بڑھ گئی کتاب و سنت سے براہ راست استفادہ معلوم ہوگیا، ارباب افتاء و قضاء نے بعد کے فقہاء پرکلی اعتماد کرکے فقہ اسلامی کو جمود آشنا کردیا، اور اس کا براہ راست رابطہ کتاب و سنت سے کاٹ دیا گیا۔کتاب وسنت عملًا مقاصد کے بجائے فقہ کے وسائل ہوکر رہ گئے ، اور زندگی کے ہر میدان میں امت عقلی جمود اور فکری تعطل کا شکار ہوکر رہ گئی۔جبکہ کتاب وسنت میں اجتہاد کی بڑی اہمیت بتائی گئی تھی یہی وہ سر چشمہ تھا جس سے امتی زندگی کے سوتے پھوٹتے تھے، اور اسی کے ذریعہ امت ایک مسرت آمیز نشاط سے ہم کنار ہوسکتی تھی۔حتیٰ کہ اس کے لیے شریعت نے غلطی کا ر سک بھی گوارا کیا تھا، اور غلط کرنے پر بھی مجتھد کے لیے ایک اجر کی بشارت دی تھی ، چنانچہ صاف طور پرکہاگیا تھا:اذا قضی الحاکم فاجتہدتم اصاب فلہ اجران، واذا قضی الحاکم فاجتہدثم اخطأ فلہ اجرواحد۱۳؂ لیکن اس واضح نص کے علیٰ الرغم دور زوال میں اجتہاد کا دروازہ بند کردیا گیا، اور تفسیر حدیث وفقہ ہر چیز میں متاخرین یا معتقدمین کی اندھی تقلید اور اقوال سلف کے نقل در نقل کرنے کا رواج پڑگیا، نتیجہ کتنی ہی غلط و موضوع روایات کا چلن عام ہوگیا، کتنی ہی آیات و احادیث کے صحیح مفہوم پر پردہ پڑ گیا، کتنی ہی نئی چیزیں دین میں داخل کرلی گئیں ، اور شخصیت مسلم مجموعی طور پر مضمل ہوکر رہ گئی، اس تاریک صورتحال میں مولانا اصلاحی ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کے سرمایہ علم و تحقیق سے غور فکر کے نئے آفاق کھلتے ہیں اور اجتہادی فکر پیدا ہوتی ہے، ان کاکام بجائے خود ایک بڑا اجتہادی عمل ہے، اس سلسلہ میں کم از کم برصغیر کی حد تک چند ہی نام ایسے ہوں گے جو اس معاملہ میں ان کے شریک و سہیم ہوں ،جو اختلاف طبائع ، تفاوت مراتب اور اختلاف فکر و اسلوب کے ساتھ اسی راہ کے رہبر ہیں، اور اسی مبارک قافلہ کے ارکان ہیں۔

کسی بھی فکر کی کامیابی کی ضمانت اس میں ہے کہ وقت کے علمی معیار پر اسی کے علمی و فکری شارحین کا تسلسل برقرار رہے ، مکتبہ فراہی کا یہ امتیاز ہے کہ اس کی ترجمانی وقت کی جلیل القدر علمی شخصیات کرتی رہی ہیں جس میں سب سے بڑا حصہ خود مولانا اصلاحی کا ہے، اس کے ساتھ ہی ان کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ اپنے فکر کی ترجمانی و شرح کے لیے اپنے تلامذہ کی ایک ایسی ٹیم تیار کردی ، جو دور حاضرکے اعلیٰ علمی معیار پر اس فکر کی توضیح و ترجمانی کررہی ہے، مستقبل میں ایسے ہی افراد امت کی نشاۃ ثانیہ کے خواب کو تعبیر دے سکتے ہیں۔ ۱۴؂

مراجع و حواشی :

۱؂ ملاحظہ ہو صفحہ ۸ دیباچہ تدبر قرآن جلد اول طبع تاج کمپنی دہلی۔

۲؂ صفحہ ۴۱ مقدمہ تدبرقرآن جلد اول ۔

۳؂ مثلا سورہ نمل کے علاوہ، قرآن میں آیت بسم اللہ کی جگہ مسئلہ، کہ اس میں ایک مذہب فقہائے مدینہ ، بصرہ اور شام اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰ علیہ کا ہے، جس کی رو سے آیت بسم اللہ قرآن کی کسی سورہ کا جز نہیں اور نہ ہی مستقل آیت ہے، دوسری رائے مکہ و کوفہ فقہاء و قراء اور امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰ علیہ کی ہے، جو اسے ہر سورۃ کی ایک آیت قرار دیتے ہیں، مولانا فراہی مؤالذکر مذہب کی طرف مائل ہیں، جبکہ مولانا اصلاحی کا رجحان فقہائے مدینہ کی رائے ہے۔ملاحظہ ہو صفحہ ۴۹ تدبر قرآن جلد اول ، اسی طرح آیت کریمہ استعینو باالصبر والصلوٰۃکی تشریح میں مولانا نے اپنے استاذ سے تھوڑا سا مختلف نقطہ نظر اختیار کیاہے، ملاحظہ ہو صفحہ ۲۰۱ تدبر قرآن جلد اول نیز حاشیہ۔

۴؂ اسی سلسلہ میں مولانا کی کتاب تزکیہ نفس (دوجلد) علم تزکیہ کی نمایندہ کتاب ہے۔ نیز ملاحظہ ہو مقدمہ کتاب، نیز صفحہ ۵۶ جزء اول

۵؂ ہدایہ نیز فتح القدیرو عالمگیری، بحوالہ دارالاسلام اور دارالحرب عبدالعلیم اصلاحی صفحہ ۸۔۹ مکتبہ الاقصی۔

۶؂ دعوت کے موضوع پر اخوان المسلون اور دوسری تحریکات کے لٹریچر اور مولانا کی اس کتاب کا تقابل کیا جائے تواس کی اہمیت زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔

۷؂ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں (باب دین) خطبات اور اسلامی سیاست میں بھی یہ موقف دہرایاگیاہے۔

۸؂ اسی رجحان کے اولین نقوش الرسالہ کے بہت سے مضامین میں سامنے آئے، اس کے بعداس رجحان میں اضافہ ہوتا گیا اور اب تووہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔

۹؂ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جماعت کی فکری Terminologyمیں اقامت دین کی قرآنی اصطلاح کا اضافہ مولانا نے ہی کیا ہے، جسے حکومت الٰہیہ کی جگہ پر اختیار کرلیاگیا۔اگرچہ راقم کو اس اصطلاح کو قرآنی وشرعی اصطلاح ماننے میں تامل ہے۔

۱۰؂ ملاحظہ ہو ابن خلدون ۶۶۔ ۴۶۵۔

۱۱ اس کی نمایندہ کتابیں حقیقت توحید ، حقیقت شرک، حقیقت نقوی، حقیقت نماز اور فلسفہ کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میں ہیں۔

۱۲؂ اس سلسلہ کی اہم ترین کو ششیں علامہ شبیر احمد ازھر میرٹھی کی کتاب ’’صحیح بخاری کا ایک تحقیقی مطالعہ ‘‘ ہے۔ کتاب دو حصوں میں ہے اور پہلا حصہ طبع ہوچکا ہے جس میں مؤلف نے ان حدیثوں سے بحث کی ہے جو ان کی تحقیق میں بالکل غلط ہیں، مولانا میرٹھیؒ ہی کی ایک دوسری علمی و تحقیقی کاوش بخاری کی شرح تحفۃ القاری ہے۔جسکی تکمیل تو ہوچکی لیکن ہنوز طباعت اور نشر اشاعت کی نوبت نہیں آسکی، اور جس میں انھوں نے پورے ذخیرہ حدیث پر ایک گہری تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی ہے، نیز دیکھیں مولانا عمر احمد عثمانی کی کتاب فقہ القرآن اول ۔علامہ ازہر میرٹھی قرآنیات کے ساتھ ہی علوم حدیث پر زبردست نظر رکھتے ہیں اور اس طرح وہ خودایک مکمل مکتب فکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۱۳؂ بخاری کتاب الاعتصام عن عمرو بن العاص، و مسلم کتاب الاقضےۃ، حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حاکم فیصلہ کرنے میں اجتہادسے کام لے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تواس کو دوہرا اجر ملے گا، ایک اس کے اجتہاد کرنے کا، دوسرے درستگی تک پہنچ جانے کا۔لیکن اگر اجتہاد کرنے میں غلطی کرجائے تو اسے اکہرا اجر ملے گا، مطلب یہ ہے کہ اجتہاد ہر حال میں مطلوب ہے گرچہ کہ غلطی کا امکان ہو۔

۱۴؂ مولانا اصلاحی ؒ کے تلامذہ میں ڈاکٹر خالد مسعود اور جاوید احمد غامدی قابل ذکر ہیں، جو جدید تحقیقی و علمی معیارپر کام کررہے ہیں، ان کے علاوہ بھی پاکستان میں ان کے اور بھی فیض یا فتگان ہیں، ہندوستان میں آپ کے تلامذہ و مستفیدین ان کے علاوہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

* ڈائرکٹر فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگر نئی دہلی 110025

ای میل: ghitreef1yahoo.com

_________________

B