[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: میں نے بچپن میں اپنی والدہ کے بجائے اپنی چچی کا دودھ پیا تھا اور میری ماموں زاد نے بھی میری اسی چچی کا دودھ پیا تھا۔ دودھ پینے کی یہ مدت ہفتہ یا دس دن رہی ہو گی۔ مجھے ان کا دودھ پلانے کی وجہ بس ایک مجبوری ہی تھی ، ایسا نہیں تھا کہ میرے والدین کی یہ نیت تھی کہ وہ اُس خاتون کو میری رضاعی ماں بنائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میری اس دودھ شریک ماموں زاد سے شادی ہو سکتی ہے یا یہ میری رضاعی بہن بن چکی ہے اور میرے ساتھ اس کا نکاح حرام ہے؟جاوید اقبال
جواب:اس کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ آپ کی بیان کردہ صورت حال میں یہ لڑکی آپ کی رضاعی بہن ہے اور اُس کے ساتھ آپ کا نکاح حرام ہے۔رضاعت کے ثبوت و عدمِ ثبوت کے حوالے سے فقہا کے ہاں جو بحث پائی جاتی ہے۔وہ یہ ہے کہ کسی وقت ایک دو گھونٹ یا چند گھونٹ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔
جب کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ رضاعی ماں بنانے کی نیت کے بغیر ہفتہ یا دس دن دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔ اس کا واضح جواب یہی ہے کہ اس صورت میں رضاعت یقیناًثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ اس صورت میں نیت کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
سوال:پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں لونڈیوں سے بغیر نکاح کے تمتع جائز ہے؟شفقت اللہ
اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ کسی انسان کا لونڈی یا غلام ہونا بجائے خود ایک غیر قابلِ قبول چیز ہے۔ لیکن جب سوسائیٹی کی نفسیات اور اُس کا سارا سیٹ اپ ہی اس طرح کا بنا ہو کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا غلام بنا سکتا ہے، حتی کہ لونڈی اور غلام بھی یہ سمجھتے ہوں کہ اگر ہم کسی دوسرے انسان کو لونڈی غلام بنا لیتے ہیں تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہو گی، تو اس صورت حال کا نتیجہ خود بخود یہ نکلتا ہے کہ بعض وہ باتیں جو اس وقت ہمیں بڑی عجیب لگتی ہیں، وہ اُس ماحول میں عجیب محسوس نہیں ہو ں گی۔
اسلام یقیناًمعاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کا وجود ختم کرنا چاہتا تھا، لیکن اُس کے نزدیک اسے یکسر ختم کر دینا ممکن بھی نہ تھا اور یہ خلافِ حکمت بھی تھا ،کیونکہ اس سے معاشرے میں بعض شدید خرابیاں جنم لے سکتی تھیں۔
چنانچہ اُس نے یہ خدمت کی کہ مسلمانوں کے سامنے غلام کا انسان ہونا اجاگر کیا، اسے اچھے سلوک کا مستحق قرار دیا، اس کے ساتھ برے سلوک کو اللہ کے ہاں قابلِ مواخذہ جرم قرار دیا۔ مسلمانوں کے ہاں ان کی تعداد کم سے کم کرنے کے غیر محسوس راستے نکالے (گردن چھڑانے کو ایک بڑی نیکی قرار دیا) اور اس کے ساتھ دنیا میں آزاد اشخاص کو غلام بنانے کا جو عمل رائج تھا، اس عمل میں مسلمانوں کی شرکت کو بالکل ختم کر دیا اور انھیں دنیا میں موجود غلاموں کو انسان سمجھنے، ان سے حسن سلوک کرنے اور ان کی تعداد کم کرنے کی راہ پر ڈال دیا۔
اسلام نے لونڈی یا غلام رکھنے کو برائی قرار نہیں دیا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اُس معاشرے میں اسے جبر ہی کا نام دیا جاتا اور جبر اصلاح کا باعث نہیں ہوتا۔ لہذا، اسلام نے غلامی ۔۔۔ جس کا برا اور ناگورار ہونا ہر صالح فطرت شخص پر واضح تھا ۔۔۔ اُس کو ختم کرنے کے لیے اُسے ممنوع قرار نہیں دیا، بلکہ ترغیب کا طریقہ اپنایا۔ اس طریقے کار کا یہ نتیجہ نکلنا لازم تھا کہ کم از کم ایک عرصے تک صحابہ و تابعین کے ہاں بھی غلام اور لونڈیاں موجود رہتے ۔
اسلام نے مرد و عورت کے درمیان جنسی تعلق صرف نکاح ہی کی صورت میں جائز قرار دیا ہے۔ نکاح کیا ہے؟ یہ مرد و عورت کے درمیان میاں بیوی کی حیثیت سے مستقل رفاقت کا وہ علانیہ معاہدہ ہے، جیسے وہ باہمی رضامندی سے وجود میں لاتے ہیں۔
یہ نکاح کسی شوہر کو اپنی بیوی پر وہ اختیار نہیں دیتا جو اختیارات دورِ غلامی میں سوسائیٹی نے آقا کو اُس کی لونڈی پر دے رکھے تھے۔ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کا آقا اور مالک نہیں ہوتا، لیکن جس کے پاس لونڈی ہوتی تھی وہ اُس کا آقا اور مالک ہوتا تھا اور اُس پر وہ بہت زیادہ اختیارات رکھتا تھا۔
زمانہ غلامی میں دنیا کے سبھی معاشروں میں آقا کو اپنی لونڈی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ یہ وہ صورتِ حال تھی، جس میں قرآنِ مجید نازل ہوا تھا۔
چنانچہ جب اُس نے بعض اہم حکمتوں کی بنا پر معاشرے میں لونڈی غلاموں کا وجود گوارا کر لیااور اُن کی بتدریج آزادی ہی کے عمل کو اختیار کیا تو اُس نے معاشرے سے غلامی کے عملاًختم ہو جانے تک کے عبوری دور میں لونڈی کے ساتھ اُس کے آقا کے تمتع کرنے کو جائز رکھا۔ ارشادِ باری ہے:
’’وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ، إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ، فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاء ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْعَادُونَ‘‘۔ (المؤمنون۲۳: ۵۔۷)
’’اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے، کیونکہ ان کے بارے میں اُس پر کوئی ملامت نہیں، البتہ جو لوگ اِن کے سوا کے خواہش مند ہوئے تو وہی ہیں جو حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیویوں کے لیے ازواج کا لفظ بولا ہے جس کا مطلب ہی وہ آزاد عورت ہے جسے نکاح کر کے اپنی بیوی بنایا گیا ہو اور لونڈیوں کے لیے ما ملکت یمینک کے الفاظ بولے ہیں، جن سے مراد ہی وہ عورتیں ہیں جن کے ساتھ انسان کا نکاح نہ ہوا ہوبلکہ وہ اُس کی ملکیت میں ہوں۔ قرآن مجید نے ان آیات میں اِن دونوں (بیویوں اور لونڈیوں) سے جنسی تعلق کی اجازت دی ہے۔ لونڈی سے جب بھی نکاح کیا جاتا تو اسے آزاد کر کے اُس سے نکاح کیا جاتا ہے، کیونکہ قرآن کے نزدیک لونڈی ہوتے ہوئے اُس سے تمتع کرنے کے لیے نکاح کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی لونڈیاں رکھی جا سکتی ہیں؟ اور کیا اُن سے جبراً مباشرت کی جا سکتی ہے؟
اب دور غلامی ختم ہو چکا ہے۔ آزاد افراد کو لونڈی اور غلام بنانے کے لیے نہ اسلام نے کوئی راستہ باقی رہنے دیا اور نہ دنیا ہی کے کسی قانون کے مطابق کسی آزاد کو غلام یا لونڈی بنانا ممکن ہے۔ چنانچہ آج کسی کو بطور لونڈی رکھنا نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں بلکہ ممنوع بھی ہے۔
جہاں تک لونڈیوں سے جبراًمباشرت کا تعلق ہے تو یہ ہماری اس سوسائیٹی کے ذہن سے اٹھا ہوا سوال ہے جس میں لونڈی رکھنا ہی ممنوع ہے۔ جب دنیا میں لونڈیاں موجود ہوتی تھیں تو جیسے اُن کا ذہن اپنے آقا کے حکم سے جبری محنت پر چار و ناچار adjustکر جاتا تھا، اسی طرح مباشرت وغیرہ کے معاملے میں بھی چار و ناچار adjust کر جاتا تھا۔
آپ کا تیسرا سوال یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں جنگ میں حاصل ہونے والی عورتیں اور مرد لونڈیاں اور غلام بنا لیے جاتے تھے اور پھر وہ فوجیوں میں بانٹ دیئے جاتے تھے۔ وہ فوجی غلاموں سے بیگار لیتے اور لونڈیوں سے وہ بے گار بھی لیتے اور ان سے جنسی تعلق بھی قائم کرتے تھے، سوال یہ ہے کہ اول تو فوجیوں میں لونڈی غلام تقسیم کرنے کا معیار کیا تھا؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے جنسی تعلق نکاح کے بعد قائم کیا جائے تو یہ بات قرینِ انصاف لگتی ہے، لیکن وہاں پر نکاح کے بغیر یہ سب جبراً کیوں کیا جاتا تھا؟
آپ کے اس سوال کے دوسرے حصے کا جواب تو اوپر آ چکا ہے۔ جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ آپ اس کے تفصیلی جواب کے لیے استاذِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’قانونِ جہاد‘ میں سے اسیران جنگ والے حصے کا مطالعہ کریں۔ میں یہاں اس کا کچھ حصہ آپ کے مطالعے کے لیے پیش کر رہا ہوں۔
ارشاد باری ہے:
فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ، حَتّٰی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ، فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً ، حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا۔ (محمد ۴۷: ۴)
’’پھر جب اِن منکرین حق سے تمھاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے ، یہاں تک کہ جب ان کا خون اچھی طرح بہادو تو انھیں مضبوط باندھ لو ۔ اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑنا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا ہے ، اُس وقت تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے ۔‘‘
۔۔۔۔۔ (سورہ محمد کی اس آیت سے )’’واضح ہے کہ جنگ کے قیدیوں کو مسلمان چھوڑ بھی سکتے تھے، ان سے فدیہ بھی لے سکتے تھے اور جب تک وہ قید میں رہتے، قرآن مجید کی رو سے ،ملک یمین کی بنا پر ان سے کوئی فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے ، مگر انھیں قتل کرنے یا لونڈی غلام بنا کر رکھ لینے کی گنجایش اس حکم کے بعد ان کے لیے باقی نہیں رہی۔ ‘‘
۔۔۔۔۔ (دور نبوت میں مسلمانوں کے ہاں اسیران جنگ کا کیا معاملہ رہا ہے، اس کی) تفصیلات یہ ہیں:
۱۔ قیدی جب تک حکومت کی قید میں رہے ، ان کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا گیا ۔ بدر کے قیدیوں کے بارے میں معلوم ہے کہ انھیں صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ ’ استوصوا بالاساری خیراً‘ ، ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا )۔ ان میں سے ایک قیدی ابوعزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا ، وہ صبح و شام مجھے روٹی کھلاتے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے ۔ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال گرفتار ہوئے تو جب تک قید میں رہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا۔
۲۔ بدر کے زیادہ تر قیدی فدیہ لے کر چھوڑے گئے ۔ ان میں سے جو لوگ مالی معاوضہ دے سکتے تھے، ان سے فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لی گئیں اور جو مالی معاوضہ دینے کے قابل نہ تھے ، ان کی رہائی کے لیے یہ شرط عائد کر دی گئی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں ۔ ابو سفیان کا بیٹا عمرو ،سعد بن نعمان کے بدلے میں جنھیں ابوسفیان نے قید کر لیا تھا ، رہا ہوا ۔ غزوۂ بنی المصطلق کے قیدیوں میں سے سیدہ جویریہ کو بھی ان کے والد حارث بن ابی ضرار نے فدیہ دے کر آزاد کرایا ۔سیدنا ابوبکر صدیق ایک مہم پر بھیجے گئے ۔ وہاں انھوں نے قیدی پکڑے تو ان میں ایک نہایت خوب صورت عورت بھی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ بھیج کر اس کے بدلے میں کئی مسلمان قیدی رہا کرا لیے ۔ بنی عقیل کے ایک قیدی کو طائف بھیج کر قبیلۂ ثقیف سے مسلمانوں کے دو آدمی بھی اسی طرح رہا کرائے گئے ۔
۳۔ بعض قیدی بغیر کسی معاوضے کے رہا کیے گئے ۔ بدر کے قیدیوں میں سے ابو العاص ، مطلب بن حنطب ، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ ،اور بنو قریظہ کے قیدیوں میں سے زبیر بن باطا اسی طرح رہا ہوئے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے ۸۰ آدمیوں نے تنعیم کی طرف سے آ کر شب خون مارا ۔ یہ سب پکڑ لیے گئے اور حضور نے انھیں اسی طرح آزادی عطا فرمائی ۔ ۵۱ثمامہ بن اثال ، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ، وہ بھی اسی طرح رہا کیے گئے ۔
۴۔ بعض موقعوں پر قیدی لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے کہ ’ فاما منّا بعد واما فداء‘ کے اصول پر وہ ان سے یا ان کے متعلقین سے خود معاملہ کر لیں ۔ چنانچہ غزوۂ بنی المصطلق کے قیدی اسی طرح لوگوں کو دیے گئے ، لیکن سیدہ جویریہ کے آزاد ہو جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا تو تمام مسلمانوں نے اپنے اپنے حصے کے قیدی یہ کہہ کر بغیر کسی معاوضے کے چھوڑ دیے کہ اب یہ حضور کے رشتہ دار ہو چکے ہیں ۔ اس طرح سو خاندانوں کے آدمی رہا ہوئے ۔ سریۂ ہوازن کے قیدی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے لے کر اسی طرح رہا کرا دیے ۔ غزوۂ حنین کے موقع پر بھی یہی ہوا ۔ قبیلۂ ہوازن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے آیا تو قیدی تقسیم ہو چکے تھے ۔ انھوں نے درخواست کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا : یہ لوگ تائب ہو کر آئے ہیں ۔ میری رائے ہے کہ ان کے قیدی چھوڑ دیے جائیں ۔ تم میں سے جو بلامعاوضہ چھوڑنا چاہے ، وہ اس طرح چھوڑ دے اور جو معاوضہ لینا چاہے ، اسے حکومت کی طرف سے معاوضہ دیا جائے گا ۔ اس کے نتیجے میں چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضے کا مطالبہ کیا ، انھیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا ۔
۵۔ جو عورتیں اسی اصول پر لوگوں کو دی گئیں اور ان کے ماں باپ ،شوہر وغیرہ جنگوں میں مارے گئے تھے ، ان سے لوگوں نے بالعموم انھیں آزاد کر کے نکاح کر لیا ۔ خیبر کے قیدیوں میں سے سیدہ صفیہ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ ‘‘(قانونِ جہاد ،ص ۴۴، ۴۷)
تاریخ میں اگر ہم بعض واقعات اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو وہ ہمارے ذہن کو اس طرف منتقل کرتے ہیں کہ تحقیق کرکے اُن میں سے صحیح اور غلط کو الگ الگ کیا جائے، کیونکہ صحابہ کرام کی حد تک تو یہ بات طے ہے کہ وہ ’’من حیث المجموع‘‘ خلاف قرآن کوئی عمل کر ہی نہیں سکتے۔
آپ نے اپنے چوتھے سوال میں یزد گرد کی بیٹیوں کے حوالے سے جس تاریخی روایت کا ذکر کیا ہے، وہ بھی اس بات تقاضا کرتی ہے کہ تاریخی مواد کو اچھی طرح کھنگال کر اصل واقعہ دریافت کیا جائے۔ ہمارے ہاں تاریخی موضوعات پر ابھی کوئی کام شروع نہیں ہوا، لہذا، ہم اس سلسلے میں معذرت خواہ ہیں۔
آپ کا پانچواں سوال یہ ہے کہ متعہ سے کیا مراد ہے؟ کیا اسلام میں متعہ جائز ہے؟ کیا حضرت علی نے متعہ کیا تھا؟
اسلام کے نزدیک مرد و عورت کے درمیان نکاح کی لازمی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ نکاح زندگی بھر کے لیے کیا جائے۔
جب کہ متعہ سے مراد یہ ہے کہ انسان محدود وقت کے لیے کسی عورت سے نکاح کرے۔ مثلا وہ ایک دو سال کے لیے یا ایک دو ماہ کے لیے یا ایک دو دنوں کے لیے کسی عورت سے نکاح کر لے۔ اسے متعہ کہا جاتا تھا۔ اسلام میں یہ نکاح کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں متعہ حرام ہے۔
نکاح کیا ہے؟ اسے بیان کرتے ہوئے استاذ محترم غامدی صاحب اپنی کتاب ’’میزان ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’علانیہ ایجاب و قبول کے ساتھ یہ مردو عورت کے درمیان مستقل رفاقت کا عہد ہے جو لوگوں کے سامنے اور کسی ذمہ دار شخصیت کی طرف سے اِس موقع پر تذکیر و نصیحت کے بعد پورے اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ باندھا جاتا ہے ۔ الہامی صحیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی آدم میں یہ طریقہ اُن کی پیدایش کے پہلے دن ہی سے جاری کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ قرآن نازل ہوا تو اِس کے لیے کوئی نیا حکم دینے کی ضرورت نہ تھی ۔ ایک قدیم سنت کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو اپنی امت میں اِسی طرح باقی رکھا ہے۔‘‘ (میزان ، باب قانونِ معاشرت، ص ۴۱۰)
نکاح کی حقیقت کو واضح کرتے اور متعہ کی حرمت بیان کرتے ہوئے ،مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔ لفظ نکاح شریعت اسلامی کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کا اطلاق ایک عورت اور مرد کے اس ازدواجی معاہدے پر ہوتا ہے جو زندگی بھر کے نباہ کے ارادے کے ساتھ زن و شو کی زندگی گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اگر یہ ارادہ کسی نکاح کے اندر نہیں پایا جاتا تو وہ فی الحقیقت نکاح ہی نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک سازش ہے جو ایک عورت اور ایک مرد نے باہم مل کر کر لی ہے ۔ ۔۔۔۔ نکاح کی اصل فطرت یہی ہے کہ وہ زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادے کے ساتھ عمل میں آئے ۔ اگر کوئی نکاح واضح طور پر محض ایک معین و مخصوص مدت تک ہی کے لیے ہو تو اس کو متعہ کہتے ہیں او رمتعہ اسلام میں قطعی حرام ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۳۷)
متعہ کے معاملے میں حضرت عمر کے حوالے سے جو بات کی جاتی ہے، وہ دراصل یہ ہے کہ آپ نے متعہ کے ممنوع ہونے کو حکومت کی سطح پر سختی سے نافذ کیا تھا۔
متعہ کے بارے میں جو احادیث ملتی ہیں، ان میں سے بعض میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متعہ کی اجازت دینا اور صحابہ کا اس پر عمل کرنا پایا جاتا ہے اور بعض احادیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ فلاں موقع پر آپ نے اسے ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا تھا۔
ہمارے نزدیک یہ ضروری ہے کہ جائز جنسی تعلق کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنتِ نکاح سے ٹکرانے والی احادیث کو اُس سنت اور قرآن مجید جو کہ دین میں میزان اور فرقان کی حیثیت رکھتا ہے ، اِن دونوں کی روشنی ہی میں حل کیا جائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعہ کرنے کی کوئی روایت ہمارے علم میں نہیں ہے۔
البتہ اہل تشیع جو کہ متعہ کے قائل ہیں ان کے ہاں اس طرح کی روایات ہو سکتی ہیں۔
سوال: اگر کسی شخص سے اُس کی بیوی کو جبراً طلاق دلوا دی جائے توکیا اس طرح سے طلاق ہو جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس جبری طلاق شدہ عورت کا نکاح کہیں اور کر دیا جائے تو کیا وہ نکاح شریعت کے مطابق جائز ہو گا؟۔ محمد اسلم
جواب :پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لہذا، اس طرح سے مجبوراً طلاق دینے والا شخص جونہی اپنی مجبوری سے نکلے تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے، اسے کسی رجوع وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں ہو گی دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جبری طلاق شدہ عورت کا نکاح کہیں کر دیا جاتا ہے تو اب صورتِ حال سادہ نہیں رہی، اب یہ ایک مقدمہ ہے، جسے عدالت کے ذریعے سے حل کیا جائے گا۔ عدالت ساری صورت حال کا تفصیلی جائزہ لے گی اور اپنا فیصلہ دے گی۔ چنانچہ وہ ایسا بھی کر سکتی ہے کہ پہلے شوہر کو اُس کی بیوی لوٹا دے اور ایسا بھی کر سکتی ہے کہ اس صورت میں وہ پہلے شوہر کی جبری طلاق کو نافذ کر دے اور عورت کے دوسرے نکاح کو قائم رکھے۔
_______________