بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ، بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ، وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ، وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ، اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ{۶۷}
قُلْ: یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ، وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا، فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ{۶۸} اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۶۹}
لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھِمْ رُسُلًا، کُلَّمَا جَآئَ ھُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُھُمْ فَرِیْقًا کَذَّبُوْا وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَ{۷۰} وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا، ثُمَّ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ، ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ، وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ{۷۱}
(اِن ۱۶۰؎ کی پروا نہ کرو) اے پیغمبر، (اور) جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (اِنھیں) پہنچا دو اور (یاد رکھو کہ) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اُس کا پیغام نہیں پہنچایا۔۱۶۱؎ اللہ اِن لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا۔ ۱۶۲؎ (تم مطمئن رہو)، اللہ (تمھارے مقابلے میں تمھارے) اِن منکروں کو ہرگز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔ ۱۶۳؎ ۶۷
(اِن ۱۶۴؎ سے) صاف کہہ دو: اے اہل کتاب، تمھاری کوئی بنیاد نہیں ہے، جب تک تم تورات و انجیل پر اور اُس چیز پر قائم نہ ہو جائو جو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتاری گئی ہے، ۱۶۵؎ لیکن ہو گا یہی کہ اِن میں سے بہتوں کی سرکشی اور اِن کے کفرکو وہ چیز بڑھا دے گی جو تم پر تمھارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔۱۶۶؎ اِس لیے اِن منکروں پر افسوس نہ کرو۔ (حقیقت یہ ہے کہ خدا کی نجات پر کسی کا اجارہ نہیں ہے، لہٰذا) جو مسلمان ہیں اور جو (اِن سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو صابی اور نصاریٰ ۱۶۷؎ کہلاتے ہیں، اِن میں سے جو لوگ بھی اللہ پر ایمان لائے ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے نہ (خدا کے حضور میں) کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔ ۱۶۸؎ ۶۸-۶۹
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے (شریعت کی پابندی کا) عہد لیا اور (اُس کی یاددہانی کے لیے) بہت سے پیغمبر اُن کی طرف بھیجے، (مگر ہوا یہ کہ) جب کبھی کوئی پیغمبر اُن کی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لے کر اُن کے پاس آیا تو کسی کو جھٹلاتے اور کسی کو قتل کرتے رہے ۱۶۹؎ اور یہی سمجھا کہ اِس پر کوئی پکڑ نہ ہوگی۔۱۷۰؎ چنانچہ اندھے اور بہرے بن گئے۔ پھر اللہ نے عنایت فرمائی اور اُن کی توبہ قبول کر لی۔ اِس کے بعد بھی اُن میں سے اکثر اندھے اور بہرے ہی بنتے چلے گئے۔ ۱۷۱؎ (اب بھی یہی صورت ہے) اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ ۱۷۲؎ ۷۰-۷۱
۱۶۰؎ یہ اُس پیغام کی تمہید ہے جو آگے نقل ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ پیغام آگے آیت ۶۸ سے لے کر آیت ۸۶ تک پھیلا ہوا ہے اور اِس میں نہایت واضح طور پر اِن دونوں گروہوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک تم تورات و انجیل اور اللہ کی اِس آخری کتاب، قرآن کو قائم نہ کرو، تمھاری کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ خدا کے ساتھ کسی کو کوئی نسبت کسی گروہ سے نسبت کی بنا پر حاصل نہیں ہوتی، بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنا پر حاصل ہوتی ہے اور اِس سے تم بالکل محروم ہو چکے ہو۔۔۔ یہ پیغام بڑا اہم تھا۔ یہودو نصاریٰ دونوں کی دینی حیثیت پر یہ آخری ضرب لگائی جا رہی تھی اور عین اُس وقت لگائی جا رہی تھی، جب کہ وہ پورا زور اِس بات کے لیے لگا رہے تھے کہ مسلمان اُن کی دینی حیثیت تسلیم کر لیں، اِس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر ’رسول‘ کے لفظ سے خطاب کر کے یہ پیغام آپ کے حوالے کیا گیا جس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسول خدا کا پیغامبر ہوتا ہے، اِس وجہ سے یہ اُس کا فرض منصبی ہے کہ خدا کی طرف سے جو کچھ اُس پر اتارا جائے، وہ بے کم و کاست اُس کے مخاطبوں تک پہنچا دے، قطع نظر اِس سے کہ اِس پیغام سے اُن کے اندر کیا ہلچل برپا ہوتی ہے اور وہ پیغام اور پیغامبر کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۶۲)
۱۶۱؎ یہ اُس بات کی تاکید مزید ہے جو پچھلے جملے میں بیان ہوئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے تمھیں رسول مقرر کیا ہے، اِس لیے اِن کے کسی ردعمل کے اندیشے سے اِس میں کوتاہی ہوئی تو یہ عین اُس فرض کے ادا کرنے میں کوتاہی ہو گی جس کے لیے یہ منصب تمھیں دیا گیا ہے۔ اِس میں خطاب بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر روے سخن، اگر غور کیجیے تو اُنھی یہودو نصاریٰ کی طرف ہے جن کے لیے یہ پیغام آپ کے سپرد کیا جا رہا ہے تاکہ اِس کی اہمیت ہر لحاظ سے اُن پر واضح ہو جائے۔
۱۶۲؎ یہ اُس حفاظت کا بیان ہے جو سنت الہٰی کے مطابق اللہ کے رسولوں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے لازماً حاصل ہوتی ہے۔
۱۶۳؎ اصل میں ’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ہدی یہدی‘ کا لفظ کسی کو اُس کی تدبیروں میں بامراد کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں یہ اِسی مفہوم میں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ تم خدا کے رسول ہو، اِس لیے اِن شیاطین کے ہر شر سے وہ تمھاری حفاظت کرے گا اور اِن کی کسی تدبیر کو تمھارے خلاف بامراد نہ ہونے دے گا۔
۱۶۴؎ یہاں سے وہ پیغام شروع ہو رہا ہے جو اتمام حجت کے اِس آخری مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ یہودو نصاریٰ تک پہنچا دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔
۱۶۵؎ اِس سے قرآن مجید مراد ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اُس وقت تک تمھاری کوئی بنیاد نہیں ہے، جب تک تم تورات و انجیل کے ساتھ خدا کی اُس کتاب کو بھی اپنا دستور حیات نہیں بناتے جو خدا نے اپنے پیغمبر کی وساطت سے تم پر نازل کر دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔قرآن مجید کے سوا کوئی اور چیز مراد لینے کی یہاں گنجایش نہیں ہے۔ آگے فوراً ہی اِس چیز کو ’مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ‘ کے الفاظ سے تعبیر کر کے بالکل واضح بھی کر دیا ہے کہ اِس سے مراد قرآن ہی ہے۔ یہاں قرآن کی تعبیر ’وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ‘ کے الفاظ سے کرنے میں اہل کتاب پر اتمام حجت کا ایک پہلو ہے۔ وہ یہ کہ تورات اور انجیل، دونوں میں اہل کتاب سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا تھا کہ تمھارے پاس اِن اِن صفات کا پیغمبر خدا کا آخری اور کامل صحیفہ لے کر آئے گا تو تم اُس پر ایمان لانا، اُس کی پیروی کرنا، اُس کی مدد کرنا اور اُس کی گواہی دینا۔ اِسی پہلو کی طرف یہاں اشارہ ہے اور اِس موقع پر جب کہ قرآن اُن تمام صفات کے مطابق، جو سابق صحیفوں میں اُس کی بیان ہوئیں، نازل ہو چکا تو تورات اور انجیل کا قائم کرنا یہی ہے کہ خدا کی اتاری ہوئی اِس چیز کو اہل کتاب قائم کریں۔ اِس کا قائم ہونا ہی تورات اور انجیل، سب کا قائم ہونا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ / ۵۶۴)
۱۶۶؎ مطلب یہ ہے کہ اِنھیں اِس بات پر غصہ تو پہلے سے تھا کہ خدا کے آخری رسول کی بعثت بنی اسمٰعیل میں ہو گی، لیکن یہ چیز واقعہ بن گئی ہے تو اِن کے حسد کی آگ کو اِس نے اور بھڑکا دیا ہے۔ چنانچہ اعتراف حق کی سعادت حاصل کرنے کے بجاے اب یہ سرکشی اور کفر میں بھی اور بڑھیں گے، دراں حالیکہ یہ اگر قرآن پر قائم ہو جاتے تو صرف قرآن پر قائم نہ ہوتے، اِس کے ساتھ تورات و انجیل پر بھی قائم ہو جاتے، اِس لیے کہ وہ اِن کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر اُسی ہدایت کی طرف بلا رہا ہے جو اِن کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔
۱۶۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’الصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصٰرٰی‘۔ اِن میں ’الصّٰبِئُوْنَ‘ محل پر معطوف ہے، اِس لیے حالت رفع میں ہے۔
۱۶۸؎ یہ بشارت اِس شرط کے ساتھ ہے کہ اِن میں سے کسی نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو ایمان و عمل کو اکارت کر دے سکتا ہے۔ مثلاً، کسی بے گناہ کو قتل کرنا یا جانتے بوجھتے خدا کے کسی سچے پیغمبر کو ماننے سے انکار کر دینا۔ قرآن نے یہ بات یہاں بھی اُسی سیاق و سباق میں کہی ہے جس میں یہ سورۂ بقرہ میں آئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کو فلاح محض اِس بنیاد پر حاصل نہ ہوگی کہ وہ یہود و نصاریٰ میں سے ہے یا مسلمانوں کے کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا صابی ہے، بلکہ اِس بنیاد پر حاصل ہو گی کہ وہ اللہ کو اور قیامت کے دن کو فی الواقع مانتا ہے اور اُس نے نیک عمل کیے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگوں کو اِسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، اِس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ ہو گا۔ یہود کا یہ زعم محض زعم باطل ہے کہ وہ یہودی ہونے ہی کو نجات کی سند سمجھ رہے ہیں۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب و ملت کے پیرو، اِن میں سے کوئی بھی محض پیغمبروں کو ماننے والے کسی گروہ میں شامل ہو جانے سے جنت کا مستحق نہیں ہو جاتا، بلکہ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان اور عمل صالح ہی اُس کے لیے نجات کا باعث بنتا ہے۔
۱۶۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَ‘۔ اِن کے معطوف علیہ سے واضح ہے کہ ’یَّقْتُلُوْنَ‘ سے پہلے ایک فعل ناقص عربی قاعدے کے مطابق حذف ہو گیا ہے۔
۱۷۰؎ اصل میں لفظ ’فِتْنَۃٌ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی آزمایش اور ابتلا کے ہیں۔ ہم نے اِس کے معنی پکڑ کے لیے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آزمایش پکڑ کی صورت میں بھی ہوتی ہے اور یہاں اِسی کا موقع ہے۔
۱۷۱؎ یعنی پہلی مرتبہ اندھے اور بہرے بن جانے کے بعد جب اللہ نے پکڑا تو توبہ و اصلاح کر لی، مگر دوسری مرتبہ اِس کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ اِس میں غالباً بنی اسرائیل کی تاریخ کی اُن دو بڑی تباہیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں یہ شاہ اسور اور شاہ بابل نبوخذنضر کے ہاتھوں مبتلا ہوئے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں یہ واقعات تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
۱۷۲؎ یعنی دیکھ رہا ہے تو یقینا سزا بھی دے گا۔ اُس کی گرفت سے یہ کسی طرح بچ نہ سکیں گے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ