HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عقیل احمد

ماہِ مبارک

اسلامی شریعت میں جو عبادات لازم کی گئی ہیں ان میں نماز اور انفاق کے بعد روزے کی عبادت ہے ۔قرآن مجید کے مطابق یہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شروع ہوئی بلکہ یہ قدیم ترین عبادت ہے جو امتِ مسلمہ سے پہلی امتوں پر فرض رہی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۸۳)
’’اے ایمان والو، تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔‘‘

ہم خوش نصیب ہیں کہ ایک بار پھر رحمت، مغفرت اور ایک انتہائی بابرکت رات اپنے دامن میں لیے، ایک اور مہینا ہماری زندگی میں آیا ہے۔ خدا نے ہمیں اپنا تزکیہ کرنے کے لیے ایک اور موقع عنایت کیا ہے۔ خدا نے ہمیں بے حد و حساب اجر سے نوازنے کے لیے پکارا ہے۔

یہ وہ مہینا ہے جس میں شیطانی قوتیں مغلوب اور نیکی پرہیزگاری کی فضا غالب آ جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’لوگو تمہارے اوپر ایک ایسا عظمت و برکت والا مہینا سایہ فگن ہو رہا ہے جس کی ایک رات ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے اس میں اللہ نے دن میں روزہ تمہارے اوپر فرض کیا ہے اور اس کی راتوں کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں نفل عبادت کرے گا، اسے فرض عبادت کا ثواب ملے گا اور جو فرض عبادت کرے گا اسے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ لوگو ،یہ مہینا صبر کا ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔ یہ مہینا باہمی ہمدردی اور خیرخواہی کا متقاضی ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے۔اگر کوئی شخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کاذریعہ بن جائے گا اور اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کا روزہ رکھنے کا ہے بغیر اس کے اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔صحابہ اکرام نے عرض کیا: اگر کسی کی اتنی حیثیت نہ ہو کہ وہ کسی کا روزا افطار کرا سکے تو؟آپ نے فرمایا:ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے افطار کرا سکتے ہو۔‘‘

یہ وہ ماہ مبارک ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت، درمیانہ مغفرت اور آخری عشرہ جہنم سے مکمل آزادی بخشنے والا ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اِس ماہ مبارک کو ہم نے ذخیرہ اندوزی کرتے ، کم ناپ تول کرتے، غیبت کرتے اور لوگوں کا حق مارتے گزارنا ہے ، اسے لذتوں اور چٹخاروں کا مہینا بنانا ہے یا اللہ کی عبادت اور اپنی اصلاح کرتے ، غریبوں کی مدد کرتے اور ان کی غمگساری کرتے ہوئے گزارنا ہے۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کر کے غذا اور پانی کی لذت و راحت کی اہمیت جاننا، خدا کی نعمتوں کا احساس کرنا اور بھوکوں پیاسوں کے لیے اپنے اندر ہمدردی پیدا کرنا ہمارے پیشِ نظر نہیں، بلکہ افطار کے موقع پر متنوع قسم کے کھانے اور مشروبات سے لطف اندوز ہونا ملحوظ خاطر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خود ساختہ مادی تقاضوں کو کچھ گھنٹے دبائے رکھنے کے بعد انھیں پہلے سے بڑھ کر پورا کرنا ہمارا اصل ہدف ہے۔ گویا ہمارے لیے رمضان کا مہینا تزکیۂ نفس کرنے کے لیے نہیں بلکہ غیبت کرنے، اپنے خادموں اور ملازموں پر زیادتی کرنے، کم تول اور بد دیانتی کا مہینا ہے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس مہینے میں ہمیں نیکیاں کمانی ہیں یا کہ اپنی موجودہ نیکیوں کو بھی ختم کرنا ہے۔

 ________________

B