HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

افطار کی دعائیں

(۱)


ذَہَبَ الظَّمَاُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰہ.
پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہو گئیں، اور ان شاء اللہ اجر لکھا گیا۔

یہ افطار کے موقع کی دعا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنے کا ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کے الفاظ استعمال کرنے کے بجاے اپنی کیفیت بیان کر کے شکر کا اظہار کیاہے۔ افطار کے وقت جب آدمی پانی پیتا ہے، اور وہ اس کی رگوں کو تر کرتا ہے تو اس وقت آدمی کو ایک فرحت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ آدمی اس احساس اور اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ہم افطار کی اس کیفیت کا اظہار بالعموم اپنے بہن بھائیوں کے سامنے کرتے ہیں جو اس وقت ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اظہار اللہ سے کیا ہے، جس سے اس میں شکر کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب ہم کسی کی طرف سے تحفہ ملنے پر یہ کہیں کہ اس نے تو میری فلاں فلاں ضرورت کو پورا کر دیا، اور میرے فلاں فلاں کام ہو گئے ہیں تو یہ اصل میں شکر ادا کرنے کا نہایت اعلیٰ طریقہ ہے۔

اپنی یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ’’اس کا ثواب لکھا گیا‘‘ کے الفاظ نکلے ہیں۔ ان الفاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھے جانے کی بات کے لیے درحقیقت روزے کا ثواب طلب کیا ہے۔ اس طرح ان الفاظ سے وہ نیت بھی بیان ہوگئی ہے جس کے لیے روزہ رکھا گیا تھا۔ جب نیت صالح ہو تو اللہ کی مشیت سے ثواب کا لکھا جانا یقینی ہے۔


(۲)

اللَّہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلَی رِزْقِکَ أفْطَرْتُ.
اے اللہ، میں نے تیرے لیے (یہ) روزہ رکھا، اور (اب) تیرے ہی رزق سے کھولا ہے۔

پہلی دعا صرف ان روزوں میں مانگی جا سکتی ہے، جن میں آدمی کو پیاس کی شدت سے سابقہ پیش آیا ہو۔ یہ دعا بھی پہلی دعا کا مضمون لیے ہوئے ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اس میں اسلوب بیانیہ ہے۔ یعنی اُس میں اپنی کیفیت بیان کر کے شکر ادا کیا تھا، جبکہ اِس میں سادہ الفاظ میں یہ بات کہہ دی ہے کہ میں نے تیرے رزق پر روزہ کھولا۔ یہ نعمتوں کو پا کر ان کا اقرار ہے۔

اس دعا میں شکر اور نیت بیان کرنے میں پہلی دعا کے الٹ ترتیب اختیار کی گئی ہے چنانچہ پہلے نیت بیان کی گئی ہے: میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور بعد میں یہ کہہ کر:میں نے تیرے دیے ہوئے رزق سے روزہ کھولا، اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کیا گیا ہے۔

اس تبدیلی کی وجہ سے یہ دعا ہر طرح کے موسم کے لیے موزوں ہو گئی ہے ۔


(۳)

أفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّأءِمُونَ وَ أکَلَ طَعَامَکُمُ الأَبْرَارُ وَ تَنَزَّلَتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَءِکَۃُ.
تمھارے پاس روزہ داروں نے روزہ کھولا، تمھارا کھانا خدا کے وفاداروں نے کھایا، سو تمھارے اوپر اللہ کے فرشتے (سکینت اور رحمت لے کر) اترے۔

اس دعا کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اپنے گھر یا کسی کے گھر اِس موقع پر پڑھتے، جب افطار کی کسی دعوت میں شرکت فرماتے۔ اس میں میزبان کے لیے برکت اور رحمت کی دعا ہے۔

اس دعا کے پہلے حصے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں اور روزہ داروں نے تمھارے گھر روزہ افطار کیا اور کھانا کھایا، اس مبارک عمل کے پسندیدہ اور باعثِ برکت ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی تم نے اللہ کے بندوں کا روزہ کھلوا کر اپنے لیے برکتوں کے نزول کا موقع فراہم کیا ہے۔

دوسرے حصہ میں آپ نے اس برکت کو بیان کیا ہے جو ایسی مجالس میں فرشتوں کے نزول کی صورت میں اترتی ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیث کے اشارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اللہ کی رحمت (مدد و عنایت) اور سکینت لے کر اترتے ہیں۔

رحمت سے مراد میزبان کے رزق میں اضافہ اور برکت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب کسی کے گھر کھانے کی دعوت پر تشریف لے جاتے تو میزبان کے لیے دعا کرتے کہ اے اللہ، اس نے ہمیں کھلایا ہے، تو اسے کھلا۔ اس نے ہمیں پلایا ہے، تو اس کو پلا۔

سکینت سے مراد دعوت کے موقع پر میزبان کے دل کو اطمینان کی نعمت سے نوازتا ہے۔ یہ نعمت بالعموم نیکی کرنے پر حاصل ہوتی اور نیکی کرنے کے دوران میں مشکلات کے وقت ثابت قدمی کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ اس دعا کے دوسرے حصے میں آپ نے میزبان کے لیے اس رحمت و سکینت کے اترنے کی بشارت دی ہے، جو روزہ کھلوانے والے کو حاصل ہو گی۔


سحری کے وقت کی دعا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سحری کے حوالے سے کوئی دعا منقول نہیں ہے۔ اس لیے اس موقع پر اپنی طرف سے وضع کردہ دعائیں پڑھنے سے بہتر ہے کہ وہ دعا پڑھ لی جائے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھانے کے بعد مانگا کرتے تھے۔ ہم یہاں صرف ایک دعا نقل کریں گے۔ باقی دعائیں کھانا کھانے کے اذکار کے باب میں آئیں گی۔ دعا یہ ہے:۔

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَ وَسَقَانَا وَ جَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.
شکر اللہ کا ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا، پانی پلایا، اور ہمیں مسلمان بنایا۔

اس دعا میں ایسی کوئی بات نہیں جو محتاجِ وضاحت ہو۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام نعمتیں جو انسان کو ملی ہیں وہ انسان کے کسی استحقاق پر نہیں ملیں، یہ محض اللہ کی عنایت سے ملی ہیں۔ ان نعمتوں میں سب سے بڑھ کر ایمان و اسلام کی نعمت ہے۔ چنانچہ ان نعمتوں کا فطری تقاضا ہے کہ ان کے عطا ہونے پر شکر گزاری کا رویہ اختیار کیا جائے۔ لیکن آدمی کو نعمت پانے کا احساس اور شکر ادا کرنے کی توفیق عجز و نیاز کے بجائے کبھی کبھی فخر اور کبر و نخوت کی طرف لے جاتی ہے۔ آخری جملہ اگر آدمی سوچ سمجھ کر بولے تو یقیناًاس کے لیے کبر و ناز سے بچانے کا باعث بنے گا۔ اس لیے کہ ایمان و شکر کی توفیق بھی خدا کی عنایت ہے۔


نیا چاند دیکھنے کی دعا

اللّٰہُ اکْبَرُ. اَلَحَمْدُلِلّٰہِ. لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ. اللَّہُمَّ إنِّی أسْاَلُکَ خَیْرَ ہَذَا الشَّہْرِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدَرِ وَ مِنْ سُوءِ الْحَشْرِ.
اللہ بہت بڑا ہے۔ (اس چاند سے جسے بعض لوگ نحوست و برکت کا باعث سمجھتے ہیں۔ اس لیے) شکر کا حق دار بھی اللہ ہے۔ ساری قوت و قدرت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اے اللہ میں اس (نئے چڑھنے والے) مہینے میں تجھ سے خیر کا طالب ہوں۔ اور بری تقدیر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میں برے طریقے سے تیرے حضور جمع کیا جاؤں۔

اس دعا میں الفاظ تو مشکل نہیں البتہ، یہ بات وضاحت کی متقاضی ہے کہ ان کا چاند دیکھنے کے ساتھ منطقی ربط کیا ہے۔ ’اللّٰہ اکبر‘ سے اس دعا کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب چاند ستاروں کی گردش سے نیک و بد کا شکون لیتے تھے۔ چاند چونکہ مہینوں کی گنتی اور مواقیت کا ذریعہ ہے اور تقدیر اسی وقت کے پردوں میں لپٹی ہوئی آتی ہے۔ اس لیے چاند سے اس طرح کی آفتوں اور بد نصیبیوں کی نسبت کر دی جاتی تھی۔ بعض دنوں اور مہینوں کو منحوس قرار دے دیا جاتا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دیکھتے ہی اللہ کی بڑائی بیان کی ہے تاکہ چاند کے بارے میں اس غلط تصور کی تغلیط کر کے دعا مانگی جائے۔ یعنی دنیا میں رنج و محن اور خیر و برکت کے اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں ان میں چاند کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

اللّٰہ اکبر‘ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الحمد اللّٰہ‘ کے الفاظ سے شکر ادا کیا ہے۔ شکر اگرچہ تنزیہ کا مفہوم اپنے اندر نہیں رکھتا مگر جب وہ ایسے موقع پر آئے جیسا یہاں ہے تو اس سے مراد تنزیہ بھی ہو جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ چونکہ چاند کا خیر و شر کے لانے میں کوئی حصہ نہیں ہے، اس لیے شکر بھی اس کا روا نہیں ہے۔ وہ بھی اللہ ہی کا ہونا چاہیے ۔اس لیے کہ وہی شکر کا سزا وار ہے۔ ہمارا خیر اور ہمارا شر، سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد آپ نے اسی بات کو مزید واضح کیا ہے کہ یہ چاند ستارے کچھ اختیار و قوت نہیں رکھتے۔ ساری قوت و قدرت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس چاند کے طلوع سے جو مہینا شروع ہو گا ،اس میں ہمارے ساتھ اچھا برا، جو کچھ ہو گا ،وہ رب العزت کی قدرت و قوت سے ہو گا۔ ’لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مہینے میں پیش آمدہ خطرات سے پناہ مانگی ہے کہ ’اللہم انی اسالک خیر ہذا الشہر و اعوذبک من شر القدر و من سوء الحشر‘ اے اللہ میں اس (نئے چڑھنے والے) مہینے میں تجھ سے خیر کا طالب ہوں۔ اور بری تقدیر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میں برے طریقے سے تیرے حضور میں جمع کیا جاؤں گا۔


تہجد کے وقت اٹھنے کی دعا

رمضان کے مہینے میں وہ لوگ بھی تہجد کا اہتمام کر لیتے ہیں جو عام دنوں میں اس سعادت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے اذکار کا تذکرہ بھی ہو جائے تاکہ اس مبارک مہینے میں لوگ زیادہ سے زیادہ اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کر سکیں۔

اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالَارْضِ، وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لٰاٰیٰتِ لِّاُولِی الاَلْبَابِ. الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ وَمَا لِلظّلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ. رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیاً یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَان اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْابْرَارِ. رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَ عَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِعْیَادَ.
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنّیِْ لآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتِلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ.
لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ. مَتَاأ قَلِیْئ ثُمَّ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِءْسَ الْمِہَادُ. لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ جَنّۂ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُا خٰلِدِیْنَ فِیْہَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْئ لِّلْاَبْرَارِ.
وَاِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَمَآ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓءِکَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
آسمانوں اور زمین کے بنائے جانے اور دن اور رات کے آنے اور جانے میں اہلِ عقل کے لیے (حق کو پانے کے لیے) نشانیاں ہیں، ان کے لیے جو اٹھتے، بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے خدا کو یاد کرتے، آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے ہیں، (جس کے نتیجے میں ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ) اے ہمارے پروردگار، تو نے یہ کارخانہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ تو اس سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے۔ سو تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا، اے ہمارے رب جسے تو نے دوزخ میں ڈال دیا، اسے تو نے بلاشبہ رسوا کر ڈالا۔ اور ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔ اے ہمارے رب ہم نے ایک پکارنے والے کو ایمان کی دعوت دیتے سنا کہ لوگو، اپنے رب پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو بخش دے۔ ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں موت اپنے وفادار بندوں کے ساتھ دے۔ اے ہمارے رب جس کا تو ہمارے ساتھ اپنے رسولوں کے ذریعے سے وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں ضرور عطا فرمانا۔ (اس سے محروم رکھ کر) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔
تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ سو جنھوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے اور ہماری راہ میں ستائے گئے، لڑے اور مارے گئے ہیں ،ان سے ان کے گناہوں کو دور کر دوں گا۔ اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ اللہ کے ہاں سے (ان کے عملوں کا) بدلہ ہو گا اور بہترین بدلہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔
اور ملک کے اندر کفار کی یہ سرگرمیاں تمھیں کسی مغالطے میں نہ ڈالیں۔ یہ چند دن کی متاعِ حیات ہے، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے، ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے پہلی میزبانی ہو گی۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس اس کے وفادار بندوں کے لیے ہے وہ کہیں بہتر ہے۔
اہلِ کتاب میں ایسے بھی ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو ان پر اتارا گیا۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے وہ اللہ کی آیتوں کا حقیر قیمت پر سودا نہیں کرتے۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ بے شک اللہ جلد احسان چکانے والا ہے۔
اے ایمان والو، صبر اور مصابرت سے کام لو۔ مقابلے کے لیے تیار رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب رہو۔

یہ سورۂ آلِ عمران کی آخری دس آیات ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی صورت میں امتِ مسلمہ کو بعض تعلیمات دی ہیں۔ ایک لوگ وہ ہوتے ہیں جو ساری زندگی لاابالی پن سے بسر کر جاتے ہیں، جنھیں اس کی توفیق بھی حاصل نہیں ہوتی کہ اپنے اوپر آنے والے مصائب ہی پر متنبہ ہو جائیں اور خدا کی دنیا کی حقیقت کو سمجھ کر اس کے مطلوبہ رویے کو اختیار کریں۔ چنانچہ نہایت ایمان افروز کلمات سے اپنے اس عمل کا اظہار وہ خدا کے سامنے کرتے ہیں کہ: ’ربنا سمعنا منادیا ینادی للایمان‘ کے برعکس کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ ان پر مصائب آئیں یا نہ آئیں، وہ اس دنیا کی حقیقتوں پر غور کرتے رہتے اور اپنی زندگی کا لائحۂ عمل مرتب کرتے رہتے ہیں۔ انھیں قرآنِ مجید نے ’اولی الالباب‘ (عقل مند) کہا ہے۔

پھر ان عقل والوں کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ ان کے دل بیدار ہیں، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ،اس کائنات میں ہونے والے تصرفات پر غور کرنے سے وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ دنیا عبث و باطل نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کوئی عظیم مقصد اور اس کے بعد یقیناً جزا و سزا ہے۔ چنانچہ وہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ اس زندگی کے بعد جس جزا و سزا سے ہمیں دوچار ہونا ہے، اس میں اپنے عذاب سے ہمیں بچا۔ اس لیے کہ جسے تو نے اپنے عذاب میں مبتلا کیا تو وہ رسوا ہوا۔

اس غور و خوض کا لازمی نتیجہ ہے کہ آدمی اپنے ماحول میں اٹھنے والی ہر دعوت پر غور کرے اور اگر وہ حق ہو تو اسے مانے اور اگر وہ ناحق ہو تو اس کا انکار کرے۔ چنانچہ اسی غور و خوض کے بعد جس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ’ربنا ما خلقت ہذا باطلا‘ اس طرح انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو بھی اسی غور و خوض کے باوصف ضروری خیال کیا۔ چنانچہ وہ اس رسول پر ایمان لائے۔ اس لیے کہ وہ اسی رب پر ایمان کی دعوت دے رہا تھا جو کائنات پر غور سے دریافت ہوتی ہے: ’ان آمنو ربکم فامنا‘: ’اے ہمارے رب ہم نے ایک پکارنے والے کو ایمان کی دعوت دیتے سنا کہ لوگو، اپنے رب پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لائے۔‘‘

اس اعلان کے بعد وہ اپنے رب سے دعاگو ہوتے ہیں کہ: ’’اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو بخش دے۔ ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے۔ اور ہمیں موت اپنے وفادار بندوں کے ساتھ دے۔ اے ہمارے رب جو کچھ تو نے ہمارے ساتھ اپنے رسولوں کے ذریعے سے وعدہ فرمایا ہے ،وہ ہمیں ضرور عطا فرمانا۔ (اس سے محروم رکھ کر) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا۔ ہمیں یقین ہے کہ تو اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرے گا۔‘‘

یہ اس ایمان سے پھوٹنے والی دعا ہے، جس ایمان کی منزل وہ غور و خوض اور دعوتِ رسول کے بعد طے کر آئے تھے اور انھوں نے ہجرت و جہاد میں ساری دنیا کو چھوڑ کر رسول کا ساتھ دیا۔ ایسے موقع پر کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں، یہ فوراً قبول ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی اللہ کی طرف سے بلاتاخیر دعا کی مقبولیت کی نوید سنائی جاتی ہے کہ :’’ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ سو جنھوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے اور ہماری راہ میں ستائے گئے، لڑے اور مارے گئے ہیں ،ان سے ان کے گناہوں کو دور کر دوں گا۔ اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ اللہ کے ہاں سے (ان کے عملوں کا) بدلہ ہو گا اور بہترین بدلہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘

آگے دعا کا حصہ نہایت اہم ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کی ملک کے اندر چلت پھرت اور شور و غوغا سے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ سب اللہ کے مہلت دینے کے اصول کا نتیجہ ہے۔ اور اس اصول کے مطابق یہ چلت پھرت متاعِ قلیل ہے۔ اس کے بعد انھیں دوزخ کا یقیناً سامنا کرنا ہو گا۔

اس حصے نے اس دعا کو داعیانِ حق کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تہجد کا حکم ہوا تو وہ اس لیے ہوا تھا کہ کفار کے پریشان کن غوغا کے بعد آپ کے اس نماز کے ذریعے سے اطمینانِ قلب حاصل ہو اور آپ حق پر ثابت قدم رہیں اور آپ کی دعوت کا پیغام، آپ اور آپ کے سننے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ محکم ہو۔ چنانچہ دعا کا یہ حصہ آپ کی اسی داعیانہ پریشانیوں میں حوصلہ افزائی اور تسلی کا باعث تھا، چونکہ یہ آیات تہجد کے مقصد سے مطابقت رکھتی تھیں اس لیے آپ نے ان کو اپنی اس وقت کی دعا کا حصہ بنا لیا تھا۔

اس کے بعد آپ کی مزید تسلی کے لیے اہلِ کتاب کے اصحابِ خشیت کے بارے میں بتایا کہ یہ دنیا کی خاطر آیاتِ الٰہی کا سودا نہیں کریں گے اس لیے یہ ایمان لائیں گے۔ اس میں داعیانِ حق کے لیے یہ تسلی ہے کہ ایمان لانے کے لیے جس جوہرِ خاص کی ضرورت ہے وہ اللہ کی خشیت ہے۔ اس لیے جن کے دل میں یہ متاعِ بے بہا موجود ہے، وہ ضرور ایمان لے آئیں گے۔ اس لیے تم ہٹ دھرموں کی ہٹ دھرمی سے بے نیاز ہو کر دعوتِ حق دیتے رہو۔ ان اہلِ خشیت کا اجر اللہ کے پاس محفوط ہے۔

آخر میں امتِ مسلمہ کے لیے تعلیم ہے کہ اس دنیا میں امت کی سطح پر کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے اندر صبر و استقامت پیدا کرو اور اجتماعی اور انفرادی معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ فلاح پاؤ۔

تہجد کے وقت، جو کہ داعیانِ حق کے لیے تسلی و تازگی ایمان کی نماز ہے، اس سے پہلے ان آیات کو پڑھنے سے مقصود ایک تو یہی تسلی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا اور دوسرے کچھ تعلیمات کی یاد دہانی ہے جن میں نمایاں ترین چیز یہ ہے کہ ایمان اہلِ بینش کے غور و خوض کا حاصل ہے، نہ کہ معجزوں اور کرامتوں کا نتیجہ۔

دوسری تعلیم یہ ہے کہ ایمان کے بعد جس چیز کا شعور سب سے پہلے آتا ہے وہ گناہ اور اس کی معافی کا شعور ہے۔ اس لیے ایمان، زبان پر یہ دعاے مغفرت جاری کرنے کا باعث بنتا ہے۔

تیسرے یہ کہ کفار کی خوش حالیاں اہلِ ایمان کے لیے پریشانیوں کا باعث نہ ہوں۔ یہ اللہ کا قانونِ امہال ہے۔

چوتھے یہ کہ امت کی کامیابی صبر، مصابرت اور تقویٰ کی صفات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

__________________

B