شہوات اور خواہشات نفس کے غلبہ سے انسان کے اندر خدا سے جو غفلت اور اس کے حدود سے جو بے پروائی پیدا ہوتی ہے، اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے کی عبادت مقرر کی ہے۔ اس عبادت کا نشان تمام قدیم مذاہب میں بھی ملتا ہے، بالخصوص تزکیۂ نفس کے جتنے طریقے بھی غلط یا صحیح، دنیا میں اب تک اختیار کیے گئے ہیں، ان سب میں اس عبادت کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مذاہب کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پچھلے ادیان میں اس عبادت کے آداب و شرائط، اسلام کی نسبت سے زیادہ سخت تھے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس وجہ سے اس نے ان پابندیوں کو نسبتاً نرم کر دیا ہے جو انسان کی عام طاقت کے تحمل سے زیادہ تھیں، جن کو صرف خاص لوگ ہی برداشت کر سکتے تھے۔
یہ عبادت نفس پر شاق ہونے کے اعتبار سے تمام عبادات میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس انسانی کی تربیت و اصلاح میں اس کا عمل بڑا مشکل ہے۔ یہ انسان کی نہایت سرکش اور منہ زور رجحانات پر کمند ڈالتی اور ان کو رام کرتی ہے، اس وجہ سے یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے مزاج میں سختی اور درشتی ہو۔
نفسِ انسانی کے جو پہلو سب سے زیادہ زور دار ہیں، ان میں شہوات، خواہشات اور جذبات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کی فطرت میں اشتعال، ہیجان اور جوش ہے۔ اس وجہ سے ارادہ کو ان پر قابو پانے کے لیے بڑی ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ یہ ریاضت اتنی سخت اور ہمت شکن ہے کہ قدیم مذہب کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تزکیۂ نفس کے بہت سے طالبین سرے سے اس چیز ہی سے مایوس ہو گئے کہ ان کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ان کو قابو میں لانے اور ان کی تربیت کرنے کے بجائے ان کے یک قلم ختم کر دینے کی تدبیر سونچیں اور اختیار کیں۔ لیکن اسلام ایک دینِ فطرت ہے اور یہ چیزیں بھی انسانی فطرت کے لازمی اجزا میں سے ہیں، جن کے بغیر انسان کے شخصی اور نوعی تقاضوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے اس نے ان کو ختم کر دینے کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ ان کو قابو میں کر کے ان کو صحیح راہ پر لگانے کا حکم دیا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کو قابو میں کرنا، ان کو ختم کر دینے کے مقابل میں کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ ایک منہ زور گھوڑے کو ختم کر دینا ہو تو اس کے لیے زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔ بندوق ایک گولی اس کوٹھنڈا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اگر اس کو رام کر کے سواری کے کام میں لانا ہے تو یہ مقصد ایک ماہر شہ سوار بڑی ریاضتوں، بڑی مشقوں اور بہت سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے بعد ہی حاصل کر سکتا ہے۔
روزے کی عبادت اسلام نے اس لیے مقرر فرمائی ہے کہ ایک طرف نفسِ انسانی کے یہ سرکش رجحانات ضعیف ہو کر اعتدال پر آئیں اور دوسری طرف انسان کی قوتِ ارادی کو دبانے اور ان کو حدودِ الٰہی کا پابند بنانے کے لیے طاقتور ہو جائے۔ اپنے اس دو طرفہ عمل کے سبب سے تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس عبادت کی بڑی اہمیت ہے اور اس کی برکات کی بھی کوئی حدو نہایت نہیں ہے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ پہلے اس کی چند برکات کا ذکر کریں گے، اس کے بعد اس کی آفات بیان کریں گے۔
روزے کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ اس سے انسان کی روحِ ملکوتی کو نفسانی خواہشات کے دباؤ سے بہت بڑی حد تک آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہماری روحِ ملکوتی کا حقیقی میلان ملاے اعلیٰ کی طرف ہے۔ وہ فطری طور پر خدا کے تقرب، ملائکہ سے تشبہ اور سفلیات سے تجرد کی طالب ہے اور مادی زندگی کے تقاضوں میں گرفتار رہنے کے بجاے اعلیٰ عقلی و اخلاقی مقاصد کے لیے پرواز کرنا چاہتی ہے، روح کے ان تقاضوں اور نفس کے ان مطالبات میں جو خواہشات و شہوات سے پیدا ہوتے ہیں، ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔ ان دونوں میں اکثر تصادم رہتا ہے اور اس تصادم میں جیت خواہشات و شہوات ہی کو ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روحِ ملکوتی کے مطالبے پورے کرنے سے انسان کو کوئی فوری لذت حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹے اس کے لیے انسان کو اپنی بہت سی فوری لذتوں اور راحتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
یہ صورتِ حال ظاہر ہے کہ روح کے فطر ی میلانات کے بالکل خلاف ہے۔ اگر یہی حالت عرصہ تک باقی رہ جائے اور روح کو اپنی پسند کے میدانوں میں جولانی کا کوئی موقع نہ ملے تو پھر نہ صرف یہ کہ اس کی قوتِ پرواز ختم ہو جاتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ وہ خود بھی ختم ہو جاتی ہے۔
روزہ اس صورتِ حال میں وقتاً فوقتاً تبدیلی کرتا رہتا ہے۔ یہ ان چیزوں پر بہت سی پابندیاں عائد کر دیتا ہے جو شہوات و خواہشات کو تقویت پہنچانے والی ہیں۔ اس سے آدمی کا کھانا پینا اور سونا سب کم ہو جاتا ہے۔ دوسری لذتوں اور دلچسپیوں پر بھی بعض پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔ ان چیزوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ نفس کے شہوانی میلانات کی جولانیاں بہت کم ہو جاتی ہیں اور روحِ ملکوتی کو اپنی پسند کے میدانوں میں جولانی کا موقع مل جاتا ہے۔
روزے کی یہی خصوصیت ہے کہ جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے ساتھ ایک خاص نسبت دی ہے اور روزہ دار کو خاص اپنے ہاتھ سے اس کے روزے کی جزا دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ یوں تو اسلام نے جتنی عبادتیں بھی مقرر فرمائی ہیں سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں لیکن روزے میں دنیا اور لذاتِ دنیا کوترک کر کے بندہ خدا سے قرب اور اس کے ملائکہ سے مناسبت اور تشبہ حاصل کرنے کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں جو مشقت اٹھاتا ہے وہ روزے کے سوا کسی دوسری عبادت میں اس قدر نمایاں نہیں ہے۔ فقر، درویشی، زہد، تجرد، ترکِ دنیا او ر تبتل الی اللہ کی جو شان اس عبادت میں ہے وہ اسی کا خاص حصہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہے کہ رہبانیت جس حد تک اسلام میں جائز رکھی گئی ہے اور جس درجہ تک اللہ تعالیٰ نے تربیت نفس کے لیے اس کو پسند فرمایا ہے، اسلام میں یہی عبادت اس کا مظہر ہے۔ اگر ایک بندہ روزے کی ساری مشقتیں اور پابندیاں فی الحقیقت اسی لیے جھیلتا ہے کہ اس کی روح اس عالمِ ناسوت کی دلدل سے آزاد ہو کر عالمِ لاہوت کی طرف پرواز کر سکے اور اسے خدا کا قرب حاصل ہو سکے توبلاشبہ اس کی یہ کوشش اس چیز کی مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کو اپنے ساتھ خاص نسبت دے اور اس کی جزا خاص اپنے ہاتھوں سے دے۔ ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو جس میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے مگر روزہ، یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ایک سپر ہے۔ جب کسی کا روزہ ہو تو اس چاہیے کہ نہ شہوت کی کوئی بات کرے اور نہ شور و شغب کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑے جھگڑے تو وہ اس سے کہے کہ بھائی میں روزے سے ہوں۔ اس خدا کی قسم جس کی مٹھی میں محمد (ﷺ)کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ۔ایک اس کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ روزہ کھولتا ہے اور دوسری اس وقت حاصل ہو گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں اسی سلسلہ کی کچھ اور باتیں ہیں جن سے حدیث کی اصل حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے ہم اس روایت کا ترجمہ بھی یہاں دیے دیتے ہیں:
“اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بندہ اپنا کھانا اور پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ نیکیوں کا بدلہ دس گنا سے (مسلم کے الفاظ ہیں کہ) نیکیاں دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک بڑھائی جائیں گی مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی خواہش میرے لیے قربان کرتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے، دوسری خوشی اس کو اپنے رب کی ملاقات کے وقت حاصل ہو گی اور اس کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘
ان دونوں روایتوں کو ملا کر غور کرنے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو اپنی طرف خاص نسبت کیوں دی ہے؟ اور یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ خاص اپنے ہاتھ سے اس کا بدلہ دینے کا مطلب کیا ہے؟
اس کو اپنے لیے خاص قرار دینے کی وجہ تو یہ ہے کہ بندہ محض اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنی ان خواہشوں اور اپنے نفس کے ان مطالبات کو ترک کرتا ہے جن کا اس کے نفس پر سب سے زیادہ غلبہ ہوتا ہے اور جن کے اندر اس کی تمام مادی خوشیاں اور تمام مادی لذتیں سمٹی ہوئی ہیں۔ ان لذتوں سے محض اللہ کی رضا کے لیے منہ موڑ لینا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ اس نے محبوبیت کا ایک خاص درجہ دیا اور فرمایا کہ بندہ روزہ خاص میرے لیے رکھتا ہے اور میری خوشی کے لیے اپنا کھانا پینا اور اپنی لذتوں کو چھوڑتا ہے۔
خاص اپنے ہاتھ سے بدلہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے بدلہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بندھے ہوئے قاعدے ہیں۔ حالات و خصوصیات کے لحاظ سے ہر نیکی کا دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک بدلہ ملے گا۔ مثلاً فرض کیجیے، ایک نیکی ساز گار حالات کے اندر کی گئی ہے اور دوسری نیکی مشکل حالات کے اندر کی گئی ہے یا ایک نیکی پوری احتیاط اور پوری نگہداشت کے ساتھ کی گئی ہے اور دوسری نسبتہً کم اہتمام اور کم نگہداشت کے ساتھ کی گئی ہے۔ اس طرح کے فرق و اختلاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر شخص کی نیکی کا جو اجر ہونا چاہیے وہ مذکورہ بالا اصول کے مطابق خدا کے رجسٹر میں درج ہو گا اور ہر حق دار اس اجر کو حاصل کر لے گا لیکن روزے کی جو عبادت ہے اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے اس فارمولے کے تحت نہیں رکھا ہے بلکہ اس کا فیصلہ کسی اور فارمولے کے مطابق ہو گا جس کا علم صرف اسی کو ہے۔ جب جزا دینے کا وقت آئے گا، تب وہی اس کو کھولے گا اور خاص اپنے ہاتھ سے ہر روزہ رکھنے والے کو صلہ دے گا۔ جس عبادت کی جزا کے لیے یہ کچھ اہتمام ہو گا کون اندازہ کر سکتا ہے کہ آسمان و زمین میں سب کا مالک اس کی کیا جزا دے گا۔
اس کی دوسری برکت یہ ہے کہ آدمی کے اندر فتنہ کے جو بڑے بڑے دروازے ہیں، روزہ ان کو بڑی حد تک بند کر دیتا ہے۔ آدمی کے اندر فتنے کے بڑے دروازے جیسا کہ ایک سے زیادہ حدیثوں میں تصریح ہے بطن اور فرج ہیں، انھی کے سبب سے آدمی نہ جانے خود کتنی ہلاکتوں میں مبتلا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی نہیں معلوم کتنی ہلاکتوں میں مبتلا کرتا ہے۔ یہی راستے ہیں، جن سے شیطان، انسان پر سب سے زیادہ حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان ان کی حفاظت کر سکے تو سمجھیے کہ اس نے اپنے آپ کو دووزخ کے عذاب سے بچا لیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے جو شخص ان دونوں چیزوں کی حفاظت کی ضمانت دے سکے، ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان چیزوں کے بارے میں مجھے ضمانت دے سکے جو اس کے دونوں کلّوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان میں ہیں، میں اس کے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں۔‘‘ (متفق علیہ)
روزہ ان کی حفاظت کا بہتر سے بہتر انتظام کرتا ہے۔ انسان کے لیے روزے میں صرف کھانا پینا ہی حرام نہیں ہو جاتا بلکہ لڑنا جھگڑنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور غیر ضروری باتوں میں حصہ لینا بھی روزے کے مقصد کے بالکل خلاف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روزے میں صرف شہوانی تقاضوں کا پورا کرنا ہی حرام نہیں ہو جاتا بلکہ وہ تمام چیزیں بھی روزے کے منشا کے خلاف ہیں جو اس کے شہوانی میلانات کو شہ دینے والی ہوں۔ روزہ خود بھی ان میلانات کو ضعیف کرتا ہے اور روزہ دار کو بھی ہدایت ہے کہ وہ حتی الامکان اپنے آپ کو ان تمام مواقع سے دور رکھے، جہاں سے اس کے ان رجحانات کو غذا بہم پہنچ جانے کا امکان ہو۔
فتنہ کے دروازوں کے بند ہو جانے سے اس کے لیے ان کاموں کا کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے جو خدا کی رضا کے کام ہیں اور جن سے جنت حاصل ہوتی ہے اور ان کاموں کی راہیں بند ہو جاتی ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف کام ہیں اور جن کے سبب آدمی دوزخ میں پڑے گا۔ شیطان اس کے آگے بالکل بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کو ساری چوکڑی بھول جاتی ہے۔ وہ ڈھونڈتا ہے لیکن اس کو روزہ دار پر حملہ کرنے کے لیے کوئی راہ نہیں ملتی۔ یہی حقیقت ہے جو ایک حدیث شریف میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان کا مہینا آتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
روزے کی تیسری برکت یہ ہے کہ یہ آدمی کی قوتِ ارادی کی بہترین طریقہ پر تربیت کرتا ہے۔ شریعت کے حدود کی پابندی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کی قوتِ ارادی نہایت مضبوط ہو، بغیر مضبوط قوتِ ارادی کے یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص شہوات و جذبات اور خواہشات کے غیر معتدل ہیجانات کو دبا سکے اور جو شخص ان کے مفرط ہیجان کو دبا نہیں سکتا، اس کے لیے یہ محال ہے کہ وہ شریعت کے حدود کو قائم رکھ سکے ۔ایک ضعیف اورلجلجے ارادہ کا آدمی ہر قدم پر ٹھوکر کھا سکتا ہے۔ جب بھی کوئی چیز اس کے غصے کو اشتعال دلانے والی سامنے آ جائے گی وہ بڑی آسانی سے اس سے مغلوب ہو جائے گا۔ جب بھی کوئی طمع پیدا کرنے والی چیز اس کو اشارہ کر دے گی وہ اس کے پیچھے لگ جائے گا اور جہاں بھی کوئی چیز اس کو اکسانے والی نظر آ جائے گی وہیں وہ پھسل کر گر پڑے گا۔ اس طرح کی ضعیف قوتِ ارادی کا انسان دنیا میں عزم و ہمت کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ وہ شریعت کے حدود و قیود کی پابندی کر سکے۔ بالخصوص شریعت کا وہ حصہ جو انسان کو برائیوں سے روکتا ہے، مضبوط صبر کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس صبر کو مشق روزے سے حاصل ہوتی ہے اور پھر اسی صبر سے وہ تقویٰ پیدا ہوتا ہے جو روزے کا اصل مقصود ہے۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (۲: ۱۸۳)
’’اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگون پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی حاصل کرو۔‘‘
’’تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو‘‘ یعنی تاکہ صبر اور برداشت کی تربیت سے تمھاری قوتِ ارادی مضبوط ہو اور تمام ترغیبات و تحریکات اور تمام مشکلات و موانع کا مقابلہ کر کے تم شریعت کے حدود پر قائم رہ سکو۔
یہی قوت مومن کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہے جس سے وہ شیطان کے ہروار کو روک سکتا ہے جو وہ خواہشات، جذبات اور شہوات کی راہ سے اس پر کرتا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر اس حدیث میں جو اوپر گزر چکی ہے، روزے کو ایک ڈھال کہا گیا ہے اور روزہ دار کو یہ ڈھال استعمال کرنے کی تعلیم یوں دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے گالم گلوچ یا لڑائی جھگڑا شروع کر دے تو اس سے کہے کہ میں روزے سے ہوں۔
روزے سے انسان کے اندر جذبۂ ایثار کی بھی پرورش ہوتی ہے اور یہ جذبہ انسان کے ان اعلیٰ جذبات میں سے ایک ہے جن سے ہزاروں نیکیوں کے لیے اس کے اندر حرکت پیدا ہوتی ہے۔ انسا ن جب روزے میں بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنی دوسری خواہشوں کو بھی دبانے پر مجبور ہوتا ہے تو اس طرح اسے غریبوں، فاقہ کشوں، محتاجوں اور مظلوموں کے دکھ درد اور ان کے شب وروز کاا ندازہ کرنے کا بذات خود موقع ملتا ہے ۔وہ بھوک اور پیاس کا مزا چکھ کر بھوکوں اور پیاسوں سے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ ان کی ضرورتوں اور تکلیفوں کو سمجھنے لگتا ہے اور پھر قدرتی طور پر اس کے اندر جذبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر ان کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو کرے۔ روزے کا یہ اثر ہر شخص پر اس کی استعداد و صلاحیت کے اعتبار سے پڑتا ہے، کسی پر کم پڑتا ہے، کسی پر زیادہ۔ لیکن جس شخص کے روزے میں روزے کی خصوصیات موجود ہیں، ان پر روزے کا یہ اثرپڑتا ضرور ہے۔ جن کا جذبۂ ایثار کمزور ہوتا ہے، روزہ کچھ نہ کچھ ان کو بھی متحرک کر دیتا ہے اور جن کے اندر یہ جذبہ قوی ہوتا ہے، ان کے لیے تو روزوں کا مہینا اس جذبہ کو ابھرنے کے لیے گویا موسم بہار ہوتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تردستیاں اور فیض بخشیاں یوں تو ہمیشہ ہی جاری رہتی تھیں لیکن رمضان کا مہینا تو گویا آپ کے جود و کرم کا موسمِ بہار ہوتا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو عام حالات میں بھی سب سے زیادہ فیاض تھے، لیکن رمضان میں تو گویا آپ سراپا جود و کرم ہی بن جاتے۔‘‘ (متفق علیہ)
روزے کی حالت میں آدمی کی قرآنِ مجید کے ساتھ مناسبت بڑھنے کی دو وجوہ ہیں ؛ایک یہ کہ بہت سے دنیاوی مشاغل کا بوجھ روزہ دار کے اوپر سے اترا ہوا ہوتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نفس کے میلانات و رجحانات میں جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، روزے کے سبب سے بڑی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاموشی، خلوت، غیر ضروری مصروفیتوں سے علیحدگی اور ترک و انقطاع کی ایک مخصوص زندگی ،جو روزہ دار کو حاصل ہوتی ہے، قرآن کی تلاوت اور اس کے تدبر کے لیے کچھ خاص موزونیت رکھتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت اتاری جب آپ غارِ حرا میں معتکف تھے۔ نیز قرآن کے نزول کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کو منتخب فرمایا اور اس نعمت کی شکر گزاری کے لیے اس پورے مہینے میں روزے رکھنا امت پر فرض قرار دیا۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر شب میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرأتِ قرآنِ مجید کا مذاکرہ کرنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے اور جتنا قرآن مجید نازل ہوا ہوتا تھا اس کا مذاکرہ فرماتے تھے۔ رمضان کی راتوں میں تراویح میں قرآنِ مجید کے سننے اور سنانے کی جو اہمیت ہے وہ ہر شخص کو معلو م ہے۔ یہ ساری باتیں شہادت دیتی ہیں کہ قرآنِ مجید کو روزوں سے اور روزوں کو قرآنِ مجید سے گہری مناسبت ہے۔
روزے کی اصل غایت دل، دماغ اور روح ،سب کا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا ہے۔ اسی چیز کو قرآنِ مجید میں تبتل الی اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ مقام آدمی کو روزے سے حاصل ہوتا ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ اعتکاف کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اعتکاف اگر چہ ہر شخص کے لیے رمضان کے روزوں کی طرح ضروری چیز نہیں ہے بلکہ یہ اختیاری عبادت ہے۔ لیکن تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر رمضان کے آخری عشرہ میں جبکہ روح میں تجرد و انقطاع اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی ایک خاص کیفیت و حالت پیدا ہو جاتی ہے، آدمی اعتکاف میں بیٹھ جائے تو اس سے روزے کا جو اصل مقصود ہے، وہ کمال درجہ حاصل ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جو اہتمام فرماتے تھے، اس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس طرح فرماتی ہیں:۔
’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، اپنے اہل و عیال کو بھی شب بیداری کے لیے اٹھاتے اور کمر کس کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کھڑے ہو تے۔‘‘
روزے کی برکات میں سے یہ چند برکات ہم نے بیان کی ہیں لیکن یہ برکتیں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جب آدمی اپنے روزے کو ان تمام آفتوں سے محفوظ رکھ سکے جو روزے کو خراب کر دینے والی ہیں۔ یہ آفتیں چھوٹی اور بڑی بہت سی ہیں۔ ہم تزکیۂ نفس کے طالبوں کی واقفیت کے لیے یہاں چند بڑی آفتوں کا ذکر کریں گے اور ساتھ ہی ان کے وہ علاج بھی بتائیں گے جو قرآن اور حدیث میں بیان ہوئے ہیں تاکہ جو لوگ اپنے روزوں کی حفاظت کرنا چاہیں، ان سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
روزے کی عبادت جیسا کہ اوپر واضح ہو چکا ہے، اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں پر قابو پا سکے یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب آدمی اس مقصد کو روزوں میں ملحوظ رکھے اور ان رغبتوں کو حتی الامکان دبائے جن کے آگے اپنی روز مرہ زندگی میں وہ اکثر بے بس ہو جایا کرتا ہے اور یہ بے بسی اس کو بہت سی اخلاقی اور شرعی کمزوریوں میں مبتلا کر دیتی ہے ،لیکن بہت سے لوگ اس مقصد کو بالکل ملحوظ نہیں رکھتے، ان کے نزدیک روزے کا مہینا خاص کھانے پینے کا مہینا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس مہینے میں کھانے پینے پر جتنا بھی خرچ کیا جائے، خدا کے ہاں اس کا کوئی حساب نہیں ہو گا۔ اس خیال کے لوگ اگر خوش قسمتی سے کچھ خوش حال بھی ہوتے ہیں تو پھر فی الواقع ان کے لیے روزوں کا مہینا کام و دہن کی لذتوں سے متمتع ہونے کا موسمِ بہار ہی بن کے آتا ہے۔ وہ روزے کی پیدا کی ہوئی بھوک اور پیاس کو نفس کشی کے بجاے نفس پروری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ وہ صبح سے لے کر شام تک طرح طرح کے پکوانوں کے پروگرام بنانے اور ان کے تیار کرانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور افطار سے لے کر سحر تک اپنی زبان اور اپنے پیٹ کی تواضح میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔ میں ایک ایسے بزرگ سے واقف ہوں جو ایک دین دار آدمی تھے لیکن ان کا نظریہ یہ تھا کہ رمضان کا مہینا کھانے پینے کا خاص مہینا ہے چنانچہ اس نظریہ کے تحت وہ رمضان کے مہینے کے لیے کھانے پینے کی مختلف چیزوں کا اہتمام بہت پہلے سے شروع کر دیتے تاکہ رمضان میں ان کی تنوعات سے متمتع ہو سکیں۔
ہر شخص جانتا ہے کہ روزہ کھانے پینے کے شوق کو اکسا دیتا ہے، لیکن روزے کا مقصود اسی اکساہٹ کو دبانا ہے نہ کہ اس کی پرورش کرنا۔ اس وجہ سے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی قوت کار کو باقی رکھنے کے لیے کھائے پیے تو ضرور، لیکن ہرگز کھانے پینے کو اپنی زندگی کا موضوع نہ بنا لے۔ جو کچھ بغیر کسی خاص سرگرمی اور بغیر کسی خاص اہتمام کے میسر آ جائے، اس کو صبر و شکر کے ساتھ کھا لے۔ اگر کوئی چیز پسند کے خلاف سامنے آئے تو اس پر بھی گھر والوں پر غصے کا اظہار نہ کرے۔ اگر کسی کو خدا نے فراغت و خوش حالی دی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ خود اپنے کھانے پینے پر اسراف کرنے کے بجاے غریب اور مسکین روزہ داروں کی مدد اور ان کے کھلانے پلانے پر خرچ کرے۔ اس چیز سے اس کے روزے کی روحانیت اور برکت میں بڑا اضافہ ہو گا۔ رمضان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فیاضی کا جو حال ہوتا تھا، اس کے متعلق ایک حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ روزہ افطار کرانے کے ثواب سے متعلق ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’زید بن خالد جہنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر ہے اور اس سے روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔(ریاض الصالحین، بحوالہ ترمذی)
آدمی جب بھوکا پیاسا ہو تو قاعدہ ہے کہ اس کا غصہ بڑھ جاتا ہے۔ جہاں کوئی بات ذرا بھی اس کے مزاج کے خلاف ہوئی ،فوراً اس کو غصہ آ جاتا ہے۔ روزے کے مقاصد میں سے یہ چیز بھی ہے کہ جن کی طبیعتوں میں غصہ زیادہ ہو، وہ روزے کے ذریعہ سے اپنی طبیعتوں کی اصلاح کریں۔ لیکن یہ اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب آدمی روزے کو اپنی طبیعت کی اس خرابی کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ اگر وہ اس کو اپنی طبیعت کی اصلاح کا ذریعہ نہ بنائے تو اس بات کا بڑا اندیشہ ہے کہ روزہ اس پہلو سے اس کے لیے مفید ہونے کے بجاے الٹا مضر ہو جائے یعنی اس کی طبیعت کا اشتعال کچھ اور زیادہ ترقی کر جائے۔ جو شخص اس کو اپنی اصلاح کا ذریعہ بنانا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ جب اس کی طبیعت میں اشتعال پیدا ہو یا کوئی دوسرا اس کے اندر اشتعال کو پیدا کرنے کی کوشش کرے تو وہ فوراً اس بات کو یاد کرے کہ ’انا صائم‘ ،میں روزے سے ہوں اور یہ چیز روزے کے مقصد کے بالکل منافی ہے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کو غصے پر قابو پانے کی تربیت ملتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تربیت اس کے مزاج کو بالکل بدل دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اپنے غصے پر اس حد تک قابو حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کو وہ وہیں استعمال کرتا ہے جہاں وہ اس کو استعمال کرنا چاہتا ہے،لیکن بہت سے لوگ اسلام کے بتائے ہوئے اس اصول کے بالکل خلاف روزے کو سپر کے بجائے تلوار کے طور پر استعمال کرنے کے عادی بن جاتے ہیں یعنی روزہ ان کے لیے ضبطِ نفس کے بجائے اشتعالِ نفس کا بہانہ بن جایا کرتا ہے۔ وہ بیوی پر، بچوں پر، نوکروں پر، ماتحتوں پر، ذرا ذرا سی بات پر برس پڑتے ہیں، صلواتیں سناتے ہیں، گالیاں بکتے ہیں اور بعض حالات میں مارپیٹ سے بھی دریغ نہیں کرتے اور پھر اپنے آپ کو اس خیال کی تسلی دے لیتے ہیں کہ کیا کروں، روزے میں ایسا ہی ہو جایا کرتا ہے۔
جو لوگ اپنے نفس کو اس راہ پر ڈال دیتے ہیں، ان کے لیے روزہ اصلاحِ نفس کا ذریعہ بننے کے بجاے ان کے بگڑے ہوئے نفس کو بگاڑنے کا مزید سبب بن جایا کرتا ہے۔ جو روزہ بھی وہ رکھتے ہیں، وہ ان کے نفسِ مشتعل کے لیے چابک کا کام دیتا ہے جس سے ان کا نفس تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے۔ جو شخص روزے کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ روزے کو اپنے نفس کے لیے ایک لگام کے طور پر استعمال کرے اور ہر اشتعال دلانے والی بات کو اسی سپر سے روکے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ تجربہ گواہی دیتا ہے کہ اگر روزے کے احترام کا یہ احساس طبیعت پر غالب رہے تو آدمی بڑی سے بڑی ناگوار بات بھی برداشت کر جاتا ہے اور اس پر احساسِ کمتری طاری نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کی آزمایش کے جتنے مواقع اس کے سامنے آتے ہیں، وہ ہر موقع پر یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے شیطان پر ایک فتح حاصل کی ہے اور اس فتح کا احساس اس کے غصہ کو ایک راحت و اطمینان کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔
روزے کی ایک عام آفت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ ،جن کے ذہن کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی ہے، کھانے پینے اور زندگی کی بعض دوسری دلچسپیوں سے علیحدگی کو ایک محرومی سمجھتے ہیں اور اس محرومی کے سبب سے ان کے لیے دن کاٹنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ اس مشکل کا حل وہ یہ پیدا کرتے ہیں کہ بعض ایسی دلچسپیاں تلاش کر لیتے ہیں جو ان کے خیال میں روزے کے مقصد کے منافی نہیں ہوتیں، مثلاً یہ کہ تاش کھیلتے ہیں، ناول، ڈرامے اور افسانے پڑھتے ہیں، ریڈیو پر گانے سنتے ہیں، دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں اور بعض من چلے سینما کا ایک آدھ شو دیکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں خیال کرتے۔
ان سب سے زیادہ سہل الحصول بعض لوگ یہ پیدا کر لیتے ہیں کہ اگر ایک دو ساتھی میسر آ جائیں تو کسی کی غیبت میں لپٹ جاتے ہیں۔ روزے کی بھوک میں آدمی کا گوشت بڑا لذیذ معلوم ہوتا ہے اور تجربہ گواہی دیتا ہے کہ اگر روزہ رکھ کر کے آدمی کو یہ لذیذ مشغلہ مل جائے تو آدمی جھوٹ، غیبت، ہجو اور اس قسم کی دوسری آفتوں کا ،جن کو حدیث میں حصائد اللسان سے تعبیر کیا گیا ہے، ایک انبار لگا دیتا ہے۔ اسی مشغلہ میں صبح سے شام کر دیتا ہے۔ یہ چیزیں آدمی کے روزے کو بالکل برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔
ان کا ایک علاج تو یہ ہے کہ آدمی خاموشی کو روزے کے ضروری آداب میں سے سمجھے۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ پچھلے مذاہب میں چپ رہنا بھی روزے کے شرائط میں داخل تھا۔ چنانچہ قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام روزہ کی حالت میں صر ف اشارے سے بات کر تی تھیں۔ اسلام نے روزہ داروں پر یہ پابندی تو عائد نہیں کی ہے لیکن اس پابندی کے نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی روزے میں اپنی زبان کو چھوٹ دے دے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی ضروری اور مفید بات کرنے کا موقع پیش آ جائے تو کر لے ورنہ خاموش رہے۔ جو شخص ہر قسم کا اناپ شناپ اور جھوٹی سچی باتیں زبان سے نکالتا رہتا ہے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ پھر ا س کا محض کھانا پینا چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک بالکل بے نتیجہ کام ہے:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘(ریاض الصالحین بحوالہ بخاری)
اس کا دوسرا علاج یہ ہے کہ آدمی کا جو وقت گھر کے کام کاج اور معاش کی مصروفیتوں سے فاضل بچے اس کو مفید چیزوں کے مطالعہ میں صرف کرے۔ روزے کے دنوں کے لیے قرآن شریف، حدیث شریف، سیرت نبوی، سیرت صحابہ اور تزکیۂ نفس کی کتابوں کے مطالعے کا ایک باقاعدہ پروگرام بنا لے۔ خصوصیت کے ساتھ قرآنِ مجید کے تدبر پر پابندی کے ساتھ کچھ نہ کچھ وقت ضرور صرف کرے۔ قرآن مجید کو روزے کی عبادت کے ساتھ، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے، ایک خاص مناسبت ہے۔ اس مناسبت کے سبب سے روزہ دار پر قرآن کی خاص برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ہر روزہ دار کو ان برکتوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرآنِ مجید اور ماثور دعاؤں کے یاد کرنے کے لیے بھی آدمی کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکالے۔ اس طرح قرآنِ مجید اور مسنون دعاؤں کا آدمی کے پاس آہستہ آہستہ ایک ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے، جو آدمی کے جمع کیے ہوئے مال و اسباب کے ذخیروں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتاہے۔
ریا کا فتنہ جس طرح تمام عباتوں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اسی طرح روزے کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے۔ بہت سے لوگ روزے تو رکھتے ہیں، بالخصوص رمضان کے روزے،لیکن ہو سکتا ہے کہ ان میں بہت کچھ دخل اس احساس کو بھی ہو کہ روزے نہ رکھے تو پاس پڑوس کے روزہ داروں میں نکو بننا پڑے گا یا لوگوں میں جو دین داری کا بھرم ہے، وہ جاتا رہے گا یا اپنے گھر اور خاندان والے ہی برا مانیں گے۔ اس طرح کے مختلف احساسات ہیں ،جو رمضان کے روزوں میں شریک بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ خلوصِ نیت آلودہ اور مشتبہ ہو جایا کرتی ہے جو روزے کی حقیقی برکتوں کے ظہور کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ جس بندے کی نیت میں خدا کی خوش نودی کے سوا کوئی اور محرک شریک ہو جائے تو یہ روزہ، وہ روزہ نہیں ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ:
’’بندہ میرے لیے اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت چھوڑتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘
بلکہ یہ روزہ اسی غرض کے لیے جائے گا جس غرض کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس آفت کا اول علاج تو یہ ہے کہ آدمی اپنی نیت کو ہر دوسرے شائبہ سے حتی الامکان پاک کرنے کی کوشش کرے۔ ہر روز اسے سوچنا چاہیے کہ اپنے روزے کو تمام برکتوں سے محروم کر کے فاقہ کے درجہ میں ڈال دینا انتہائی نادانی ہے۔ آخر یہ مشقت اٹھانے کا حاصل کیا ہوا جب کہ یہ دنیا میں بھی موجبِ کلفت اور آخرت میں بھی موجبِ وبال بنے۔ اس طرح نفس کے سامنے بار بار روزہ کی قدر و قیمت واضح کرنی چاہیے تاکہ اس کی نگاہ دوسروں کی طرف سے ہٹ کر خدا کی طرف متوجہ ہو۔
اس کا دوسرا علاج یہ ہے کہ آدمی رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھے اور اس میں دو باتوں کا اہتمام کرے، ایک حتی الامکان اخفا کا، یعنی ان کا اشتہار دینے کی کوشش نہ کرے۔ دوسری اعتدال یا میانہ روی کا یعنی نفلی روزے اسی حد تک رکھے جس حد تک خواہشات و شہوات کو حالتِ اعتدال پر لانے کے لیے ان کی ضرورت ہو۔ اگر اس حد سے بڑھ جائے گا تو وہ چیز خود بھی ایک فتنہ ہے اور اسلام نے اس سے بھی بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے۔ روزے کی حیثیت ایک دوا کی ہو، دوا اگر ضرورت سے زیادہ استعمال کر لی جائے تو بسا اوقات یہ خود بھی ایک بیماری بن جاتی ہے۔
(تزکیۂ نفس، ص ۲۷۳۔ ۲۸۶)
_______________