بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ، بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ، اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ{۵۱} فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ، یَقُوْلُوْنَ: نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ، فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ نٰدِمِیْنَ{۵۲} وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا: اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ، حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ{۵۳}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ، اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ، یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ، ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ{۵۴}
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا، الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَ{۵۵} وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ{۵۶}
ایمان والو، تم اِن یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو، ۱۲۸؎ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، ۱۲۹؎ اور (یاد رکھو کہ) تم میں سے اگر کوئی (اِس تنبیہ کے باوجود) اِنھیں اپنا دوست بناتا ہے تو اُس کا شمار پھر اِنھی میں ہے۔ اللہ اِس طرح کے ظالموں کو کبھی راہ نہیں دکھاتا۔ ۱۳۰؎ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے، وہ اِن سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔۱۳۱؎ سو بہت ممکن ہے۱۳۲؎ کہ اللہ تم کو فتح دے ۱۳۳؎ یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کر دے ۱۳۴؎ تو اِنھیں اُس چیز پر پچھتانا پڑے جو اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ (یقین رکھو کہ اِن کے ساتھ یہی ہو گا) اور ایمان والے (اُس موقع پر) کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟ (افسوس)، اِن کے سب اعمال ضائع ہوئے اور یہ نامراد ہو کر رہ گئے۔۱۳۵؎ ۵۱-۵۳
ایمان والو، (یہ رویہ دین سے پھر جانے کا رویہ ہے۔ چنانچہ یاد رکھو کہ) تم میں سے جو اپنے دین سے پھرے گا، (اللہ کو اُس کی کچھ پروا نہیں ہے)، اِس لیے کہ اللہ عنقریب ایسے لوگ اٹھا دے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، ۱۳۶؎ مسلمانوں کے لیے نرم اور اِن منکروں کے مقابل میں نہایت سخت ہوں گے، ۱۳۷؎ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور (اِس میں) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔ ۱۳۸؎ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ (اپنے قانون اور اپنی حکمت کے مطابق) جس کو چاہے گا، عطا فرمائے گا۔ ۱۳۹؎ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا ہے، وہ سب کچھ جانتا ہے۔۵۴
(یہ تمھارے دوست نہیں ہیں)۔ تمھارے دوست تو حقیقت میں اللہ اور اُس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو عجز و نیاز مندی اور فروتنی کے ساتھ نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ۱۴۰؎ اور جو اللہ اور اُس کے رسول اور سچے ایمان والوں کو اپنا دوست بنالیں، (وہی غالب ہوں گے)، ۱۴۱؎ اِس لیے کہ اللہ کی جماعت ہی ہے جو غالب رہنے والی ہے۔ ۱۴۲؎ ۵۵-۵۶
۱۲۸؎ آگے کی آیتوں سے واضح ہے کہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن اُنھی منافقین کی طرف ہے جو یہود کے زیراثر تھے اور جن کا ذکر اوپر آیت ۴۱ میں ’الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ‘ کے الفاظ میں ہوا ہے۔ اِنھیں موالات سے منع اِس لیے کیا گیا ہے کہ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اللہ کا فیصلہ اب اِن یہود و نصاریٰ کے بارے میں صادر ہونے والا تھا، جس سے پہلے ضروری تھا کہ منکرین، منافقین اور سچے اہل ایمان کو الگ الگ کر دیا جائے۔ اِس زمانے کے یہود و نصاریٰ سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
۱۲۹؎ یعنی اسلام اور مسلمانوں کو اپنے لیے ایک مشترک خطرہ سمجھتے ہیں اور اِن سے نمٹنے کے لیے اِن کے خلاف ملت واحدہ بن چکے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اب مسلمانوں کو بھی اِن کے خلاف ملت واحدہ بن کر اِن کے ساتھ دوستی اور اعتماد پر مبنی تمام تعلقات و مراسم ختم کر دینے چاہییں۔
۱۳۰؎ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان و اسلام کے اِن دشمنوں سے دوستی کر کے اپنی جان پر ظلم ڈھا رہے ہیں، وہ اُس منزل تک ہرگز نہ پہنچیں گے جو اللہ نے اپنے صاحب ایمان بندوں کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اِس طرح کے ظالموں کو وہ اِس کا راستہ کبھی نہیں دکھاتا۔
۱۳۱؎ اصل الفاظ ہیں: ’یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ ‘۔ لفظ ’قَالَ‘ جس طرح زبان سے کہنے کے لیے آتا ہے، اِسی طرح دل میں کوئی بات کہنے کے لیے بھی آتا ہے۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں یہ اِسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ آگے ’فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ نٰدِمِیْنَ‘ کے الفاظ میں قرآن نے اِسے کھول بھی دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اِن منافقین کے دل میں یہ ڈر سمایا ہوا ہے کہ اِس وقت مسلمانوں اور اُن کے مخالفین میں جو کشمکش برپا ہے، معلوم نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے، ہو سکتا ہے کہ بالآخر فتح مخالفین ہی کی ہو، ایسی صورت میں اگر ہم مسلمانوں ہی کے ہو کے رہ گئے تو سخت مصیبت میں پھنس جائیں گے، اِس لیے بہتر یہی ہے کہ دونوں سے راہ و رسم باقی رکھنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۵۴۴)
۱۳۲؎ اصل میں لفظ ’عَسٰی‘ استعمال ہوا ہے۔ اپنے عام مفہوم کے علاوہ یہ وعدے کی تعبیر کے لیے بھی ایک لطیف اسلوب ہے۔ یہاں، اگر غور کیجیے تو یہ اِسی دوسرے معنی میں ہے۔
۱۳۳؎ یعنی ایسی فتح جو حق و باطل کے معاملے میں فیصلہ کن ہو جائے۔
۱۳۴؎ یعنی کوئی ایسی بات جس سے اِن منافقین کے تمام راز کھل جائیں اور یہ کچھ کہنے کے قابل نہ رہیں۔
۱۳۵؎ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے انجام کی تصویر ہے کہ ایمان و اخلاص سے محرومی کے باعث اِن کے تمام اعمال بے نتیجہ ہو جائیں گے اور انجام کار ناکامی و نامرادی کے سوا کچھ بھی اِن کے ہاتھ نہ آئے گا۔
۱۳۶؎ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوئی کہ یہ منافقین نہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور نہ خدا اِن سے محبت کرتا ہے۔ اللہ و رسول اور مومنین مخلصین کو دوست بنانے کے بجاے اِنھوں نے ایمان و اسلام کے مخالفین سے دوستی کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ بھی اِن سے بے پروا اور اِن کے رویے سے سخت بے زار ہے۔
۱۳۷؎ یعنی مسلمانوں کے لیے نرم خو، متواضع اور سہل الانقیاد اور منکروں کے مقابل میں پتھر کی چٹان ہوں گے۔ وہ اپنے اغراض کے لیے اِن کو کبھی استعمال نہ کر سکیں گے۔ اِن منافقین کی طرح مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے ہوشیار اور منکروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہیں ہوں گے کہ اللہ و رسول کے دشمن اِن کو جس طرح چاہیں، نچاتے پھریں۔ اِس میں ’اَذِلَّۃ‘ اور ’اَعِزَّۃ‘، دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ استاذ امام نے اِن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔’اَذِلَّۃ‘، ’ذلیل‘ کی جمع ہے۔ عربی میں یہ لفظ ۔۔۔ اچھے اور برے، دونوں معنوں میں آتا ہے۔ جب یہ اچھے معنوں میں آتا ہے، جیسا کہ یہاں ہے تو اِس کے معنی نرم خو، نرم مزاج، فرماں بردار، متواضع اور سہل الانقیاد کے ہوتے ہیں۔ ’ذلول‘ کا لفظ بھی اِسی معنی میں آتا ہے۔ فرماں بردار اونٹنی کو ’ناقۂ ذلول‘ کہتے ہیں۔
’اَعِزَّۃ‘، ’عزیز‘ کی جمع ہے۔ یہ لفظ بالکل ’ذلیل‘ کے مقابل لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کے معنی ہیں: سخت، مشکل، بھاری، ناقابل شکست، ناقابل عبور، عسیرالانقیاد۔ اگر کسی چیز کے متعلق کہیں کہ ’ہو عزیز علی‘ تو اِس کے معنی ہوں گے کہ وہ چیز مجھ پر بھاری اور مشکل ہے۔ اِس کو رام کرنا اور قابو میں کرنا میرے لیے دشوار ہے۔ یہی مفہوم ’شدید علیّ‘ کا بھی ہوتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۴۶)
۱۳۸؎ مطلب یہ ہے کہ محض راہ عشق کے مسافر ہونے کا ڈھنڈورا نہیں پیٹیں گے، بلکہ ہر اُس جدوجہد کا ہراول ہوں گے جو دین کی اقامت اور اُس کی دعوت کے فروغ کے لیے کی جائے گی۔ تمام نصیحتوں اور ملامتوں سے بے پروا ہو کر یہ جدوجہد کریں گے۔ منافقین جن مفادات اور خواہشات و رغبات کے اسیر ہیں، یہ اُن کو کوئی اہمیت نہ دیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس میدان میں اترنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے تمام دوسرے مفادات اور دوسری دل چسپیوں سے منہ موڑ کر اور دوسروں کی نصیحتوں اور ملامتوں سے کان بالکل بند کر کے اترے۔ جو شخص ہر گام پر پیچھے مڑ مڑ کے بھی دیکھے گا اور اپنے ناصحوں اور ملامت گروں کی نصیحتوں اور ملامتوں کو بھی اہمیت دے گا، وہ اگر ایک قدم آگے بڑھائے گا تو دو قدم پیچھے ہٹائے گا۔ عرب شعرا جب اولوالعزمی، بہادری اور فیاضی کا مضمون باندھتے ہیں تو اُس کی تمہید میں ملامت کرنے والیوں کی ملامت کا ذکر ضرور کرتے ہیں، اِس لیے کہ اِس راہ کی یہ سب سے پرانی اور ناگزیر آفت ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ آدمی کوئی عزم و جزم کا کام کرنے اُٹھے اور دہنے بائیں سے کچھ ناصح اور کچھ ملامت گر دامن گیر نہ ہو جائیں۔ یہ اِس راہ کی پہلی آزمایش ہوتی ہے۔ اگر کوئی آدمی دامن جھٹک کے آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو تو اکثر وہ اِس پہلے ہی مرحلے میں مار کھا جاتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۴۷)
۱۳۹؎ یہ پوری آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص ساتھیوں کے لیے تسلی ہے کہ کفر اور اہل کفر کی طرف اِن منافقین کے میلان سے غم زدہ نہ ہوں۔ یہ دین سے پھرے تو اُس کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ اللہ اِن کی جگہ اُن لوگوں کو ایمان و اسلام کی توفیق دے گا جو اُن کمزوریوں سے پاک ہوں گے جو اِن کے اندر موجود ہیں۔
۱۴۰؎ اِس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ ایمان کی عملی تعبیر ہے۔ اِسے ’الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ پر عطف کرنے کے بجاے بدل کا اسلوب اِسی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اِس کے ساتھ عجز و نیاز مندی اور فروتنی کے الفاظ نماز اور زکوٰۃ، دونوں کی اصل روح کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے بغیر جس طرح ایمان بے روح ہے، اِسی طرح عجز و فروتنی نہ ہو تو نماز اور زکوٰۃ بھی محض رسم بن کر رہ جاتے ہیں۔
۱۴۱؎ اوپر فرمایا تھا کہ جو لوگ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست بنائیں گے، اُن کے اعمال ضائع ہوں گے اور وہ نامراد ہو کر رہ جائیں گے۔ اب یہ اُس کے مقابل میں فرمایا ہے کہ رسول کے ساتھیوں کو لازماً غلبہ حاصل ہو گا اور اُن کے دشمن اِس سرزمین میں لازماً شکست کھائیں گے۔
۱۴۲؎ یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ رسول اور اُس کے ساتھی کیوں غالب ہوں گے؟ فرمایا ہے کہ وہ ’حزب اللہ‘، یعنی اللہ کی جماعت ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کی براہ راست رہنمائی میں کام کر رہی ہے اور اللہ کی جماعت کبھی مغلوب نہیں ہوتی۔ رسولوں کے باب میں یہ اُسی سنت الٰہی کا بیان ہے جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں لازماً غلبہ عطا فرماتے ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ رسول کی جماعت ہی ’حزب اللہ‘ ہوتی ہے۔ اُس کے بعد کی کسی جماعت کے لیے یہ تعبیر کسی طرح موزوں نہیں ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ