HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

ڈاکٹر مفتی سرفراز احمد نعیمی کی شہادت

جامعہ نعیمیہ کے مہتمم،ممتاز عالمِ دین ڈاکٹر مفتی سرفراز احمدنعیمی کا قتل،ایک ایسی دل گیر خبر تھی جس نے ہر صاحب دل کورنجیدہ کر دیا۔ان کا تعلق بریلوی مکتبِ فکر سے تھا لیکن ان کے غم کو مسلکی وابستگی سے ماورا ہو کر محسوس کیا گیا۔یہ ان کے اس طرزِ عمل کا نتیجہ ہے جسے انھوں نے فقہی و گروہی اختلافات میں با لعموم اختیار کیے رکھا۔اس معا ملے میں وہ صحیح معنوں میں اپنے والد مو لانا مفتی محمد حسین نعیمی مرحوم کے جا نشین تھے جن کی وسعتِ قلبی، اختلاف کے باب میں ،ہمارے اسلا ف کی روایت کا تسلسل تھی۔مفتی سرفراز نعیمی صاحب علما کی ہر اس مجلس کا حصہ رہے جوکسی قومی یا ملی مسئلے پر غیر فرقہ دارانہ بنیاد پر وجود میں آئی۔ان کی طبعی سادگی اور اخلاص کا بھی انھیں ہر دل عزیز بنا نے میں ایک کر دار تھا۔ان کی شہادت نے اس قومی المیے کو ایک بار پھر پو ری شدت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ دینی مسائل میں فہم کے اختلاف کے معا ملے میں تشدد ہمارے ہاں اس سطح تک سرایت کر چکا ہے کہ بعض گروہوں نے قتل جیسے جرم کو بھی اس باب میں روا رکھا ہے جس کی سزا قرآن مجید نے دائمی جہنم بیان کی ہے۔ بلا شبہ دین میں تحریف کی اس سے بد ترین صورت ممکن نہیں۔نصوص کے فہم اور ان سے استنباطِ احکام کے معاملے میں اختلاف ہماری تا ریخ کے صدرِ اول سے جا ری ہے اور اہلِ علم نے اسے کبھی ممنوع نہیں کہا۔یہ اختلاف کس نو عیت کا رہا ہے ،اس کا اندازہ حضرت ربیعہ بن عبدالر حمٰن مدنی کے ایک قول سے کیا جا سکتا ہے۔یہ مدینہ کے ایک جید عالم اور امام مالک کے شیوخ میں سے تھے۔انھیں عباسی خلیفہ عباس نے عراق میں اپنا مشیر بنا یا۔انھوں نے کچھ دن عراق میں گزارے اور وا پس مد ینہ آگئے۔اہلِ مدینہ نے ان سے پو چھا کہ ا نھوں نے اہلِ عراق کو کیسا پا یا تو ان کا کہنا تھا:” جو ہمارے ہاں حلال ہے وہ ان کے نزدیک حرام ہے اور جسے ہم حرام کہتے ہیں وہ اسے حلال سمجھتے ہیں”۔ان سے یہ قول بھی منسوب ہے:”معلوم ہو تا ہے ہمارے ہاں اور ان کے ہاں اور نبی مبعوث ہو ئے ہیں”۔(ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی،ادب الاختلاف فی الاسلام)۔اس سے اہل مدینہ اور اہلِ عراق کے ما بین فہمِ دین کے اختلاف کی شدت کو سمجھا جا سکتاہے۔ اس کے باوجوددامت دونوں گروہوں کا احترام کر تی اور ان کی عظمت کی معترف ہے۔ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ ہم اسلاف کی فقہی آراء کے مقلد تو بنے، لیکن اختلاف کے باب میں ان کے رویے کی تقلید نہ کر سکے۔ڈاکٹر سر فرا زنعیمی جیسے لو گوں کے ساتھ یہ سلو ک ہمیں متوجہ کر رہا کہ ہمارے اہلِ علم کو صرف اس مقصد کے لیے ایک اتحاد بنا نا چا ہیے کہ وہ ہر اس گروہ سے قطع تعلق کریں گے جو اس نو عیت کے اختلافات میں تشدد کا قائل ہے اور اسے معا شرتی سطح پر کبھی گوارا نہیں کریں گے۔ہم اپنا نقطہء نظر لوگوں کے سامنے رکھ دیں گے۔اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ کس راے کو قبول کر تے ہیں۔اُمّت کے اجتماعی ضمیر نے آراء کے رد و قبول میں پہلے کو ئی غلطی کی ہے نہ آیندہ کرے گی۔حکومت کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ وہ ہر عالمِ دین کو حفاظتی حصار فراہم کر سکے۔یہ اہتمام علما کو خود ہی کر نا ہوگا۔

یہ حادثہ ہمیں اس جانب بھی متوجہ کر رہا ہے کہ جب ہم نے (اسلاف کی راے کے بر خلاف) دورِ حاضر میں نجی جہاد کو جائز قرار دے دیا تو اس کے بعد ایسے گروہوں کا پیدا ہو نا نا گزیر ہے جو فہمِ دین کے اختلاف کو جہاد قرار دیں اور پھر” دشمنوں” کو تہ تیغ کر نا شروع کردیں۔اب ان کا دشمن وہی ہو گا جو ان سے اختلاف کر رہا ہے۔ جب ہم نے ان کا حقِِ جہاد قبول کر لیا تو ہدف کے تعین کے باب میں ان کے حق کی نفی کیسے کر سکتے ہیں ؟ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اس وقت علما کی توجہ کا سب سے زیا دہ مستحق ہے۔اس کو نظر انداز کر نے کا مطلب ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی جیسے افراد کے قتل کو روا رکھنا ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ مفتی صاحب کو اپنی مغفرت سے نوازے اور مسلمان معا شروں کو فساد سے محفوظ رکھے۔

 _______________

B