عنْ جَرِیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ لِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: اسْتَنْصِتِ النَّاسَ. ثُمَّ قَالَ: لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ وسلم نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر کہا تھا: لوگوں کو چپ کراؤ۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: وَیْحَکُمْ أَوْ قَالَ: وَیْلَکُمْ، لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
’استنصت‘: فعل امر ہے: اور اس کا مطلب ہے لوگوں کو خاموش کراؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ لوگ ان کی بات توجہ سے سنیں۔ اس سے اس بات کی اہمیت واضح ہوتی ہے جو اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی۔ شارحین نے اس لفظ کے تحت یہ بحث کی ہے کہ اس سے علم کے حصول کے لیے غور سے سننے اورخاموشی اختیار کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ہم نے بات کا اصل محل واضح کر دیا ہے۔شارحین نے جو بات بیان کی ہے، وہ ایک ضمنی بات ہے اور موقع کلام سے اس کی مناسبت بھی ضمنی ہی ہے۔
’ویحکم أو ویلکم‘: اصل میں یہ دونوں بد دعا کے کلمات ہیں۔ شارحین نے ان کے محل استعمال پر بحث کی ہے۔ بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ ’ویل‘ کا لفظ اس شخص کے لیے آتا ہے جو ہلاکت میں پڑا ہوا ہو اور اس کا مستحق بھی ہو۔ جبکہ ’ویح‘ کا لفظ اس شخص کے لیے آتا ہے جو ہلاکت میں پڑا ہوا ہو، مگر اس کا مستحق نہ ہو۔ گویا ’ویل‘ ایک بددعا ہے اور ’ویح‘ کا لفظ ترس کھانے اور ہمدردی کے اظہار کا لفظ ہے۔ ان الفاظ کے مواقع استعمال کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ’ویل‘ کا لفظ ’ویح‘ کے مقابلے میں سخت ہے، لیکن دونوں ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہو جاتے ہیں اور بد دعا کے علاوہ محض سرزنش کے لیے بھی آجاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ’ویل‘ کا لفظ آیا ہے اور بالعموم شدید معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔
’یضرب‘: روایت میں ’یضرب ‘کی ’ب‘ پر پیش ہے۔ ایک راے یہ ہے کہ اس پر جزم پڑھی جانی چاہیے۔ اس راے کے مطابق ’یضرب‘ جواب شرط ہے جس کی شرط بربناے قرینہ حذف ہے۔ یہ ایک نحوی امکان ضرور ہے، لیکن مرفوع پڑھنے کی صورت میں عبارت ایک معروف اسلوب پر ہے اور واضح معنی دے رہی ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک اس پیچیدگی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ روایت حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کا ایک حصہ ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی تفرقے اور جنگ وجدال سے منع فرمایا ہے اور اس کی شناعت واضح کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ دین کو اختیار کرنے کے بعد مسلمان جب ایک ملت بن گئے تو قرآن مجید میں انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے پکڑ لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔ ہر ملت اس خطرے سے دوچار رہتی ہے کہ ان کے اندر اختلافات پیدا ہوں اور یہ اختلافات اس قدر شدت اختیار کر لیں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں۔ یہ اختلافات ایک دوسرے کی تکفیر کا باعث بنتے، جان کی حرمت جو خدا کی قائم کردہ حد ہے، اس سے تجاوز پر آمادہ کرتے، تہمت، غیبت، سازش، تعصب، حق تلفی اور باطل پرستی، غرض گناہوں کا ایک پورا خاندان ہے جس کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ سارے گناہ مل کر ایک مسلمان کو اس انجام تک پہنچا سکتے ہیں جو ایک کافر کا انجام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس خطرے کو دیکھ رہے تھے کہ مسلمان ایک جم غفیر ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بالکل آخری زمانے میں مسلمان ہوئی ہے۔ آیندہ مسلمانوں میں سیاسی اور مذہبی اختلافات پیدا ہوں گے تو ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے ایمان سے بے پروا ہو کر ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھا لیں۔ اکابر صحابہ جب تک موجود رہے، وہ اس تعلیم پر پوری طرح عامل رہے۔ ہر دور میں یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کا اسوہ ہی ہے جو امت میں اتحاد کو قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے، اختلاف خواہ مذہبی ہو خواہ سیاسی، کبھی اپنے دائرۂ عمل سے تجاوز نہیں کیا۔ جو جہاں اور جس پوزیشن میں تھا، اس نے اسی پوزیشن میں رہتے ہوئے اپنا کام کیا۔ اختلاف راے کیا، لیکن اسے کبھی جدال نہیں بننے دیا۔ سیاسی فیصلے کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لیے اور حکومت کی ذمہ داریاں حکمران ادا کرتے رہے۔ اسی طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم کی حکومت جب تک قائم رہی، انھوں نے راے کی آزادی اور احتساب کی جرأت پر کبھی کوئی قدغن عائد نہیں کی۔ آج ہمارا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہی چیز ہے جس نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر رکھا ہے۔
کفر کا لفظ، جیسا کہ ہم نے اس سے پچھلی روایات میں تفصیل سے بیان کیا ہے، معاملے کی شناعت اور ایمان کی نعمت اور اعمال صالحہ کے اجر کے بالکلیہ خاتمے کے خطرے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں اس قدر واضح ہے کہ اس لفظ کو نہ قانونی معنی میں لینے کی ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی تاویل وتوجیہ کی حاجت رہتی ہے۔ قرآن مجید میں کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے پر ابدی جہنم کی سزا بیان ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل ایک ایسا جرم ہے جو ایمان جیسی بڑی نیکی کو بھی کھا جاتا ہے۔ تفرقہ جب قتل وغارت کی صورت اختیار کر لے گا تو وہ قرآن کے اس فیصلے سے کس طرح مستثنیٰ ہو سکتا ہے۔
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ یہ روایت اصل میں خطبۂ حجۃ الوداع کا ایک جز ہے۔ یہ بات خود امام مسلم نے بھی ایک متن میں واضح کر دی ہے۔ امام مسلم نے اس روایت کے دو اختلاف نقل کیے ہیں۔ ایک خاموش کراؤکا جملہ اور دوسرا ’ویحکم‘ یا ’ویلکم‘ کا تنبیہی اسلوب۔ دوسری کتب حدیث میں بھی اس جملے کے حوالے سے یہی اختلاف مرقوم ہیں۔ باقی رہی خطبے میں اس جملے کی جگہ تو عام طور پر مفصل روایات میں اس جملے کو جان، مال اور آبرو کی حرمت کے بیان کے بعد رکھا گیا ہے۔ بعض مرویات میں اس جملے سے متصل آپ کا یہ سوال بھی نقل ہوا ہے کہ کیا میں نے پہنچا دیا؟ جس پر لوگوں نے کہا کہ ہاں، آپ نے پہنچا دیا۔ بعض مرویات میں اس جملے کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت بھی روایت ہوئی ہے کہ جو موجود ہے، وہ یہ باتیں ان تک پہنچائے جو موجود نہیں ہیں۔
بخاری، رقم ۱۲۱، ۱۶۵۲، ۴۱۴۱، ۴۱۴۲، ۵۸۱۴، ۶۴۷۴، ۶۴۷۵، ۶۶۶۶، ۶۶۶۷، ۶۶۶۹؛ مسلم، رقم۶۵۔ ۶۶؛ ابن حبان، رقم۱۸۷، ۵۹۴۰؛ مستدرک، رقم۵۹۸۲؛ ابوداؤد، رقم۴۶۸۶؛ ترمذی، رقم۲۱۹۳؛ نسائی، رقم۱۰۶، ۴۱۲۶، ۴۱۲۷، ۴۱۲۹، ۴۱۳۱؛ ابن ماجہ، رقم۳۹۴۲۔ ۳۹۴۳؛ سنن کبریٰ، رقم۳۵۹۰ ۔۳۵۹۶، ۵۸۸۲؛ سنن بیہقی، رقم ۹۳۹۶، ۹۳۹۷، ۱۱۲۷۴، ۱۵۶۲۶؛ سنن دارمی، رقم۱۹۲۱؛ مسند احمد بن حنبل، رقم۲۰۳۶، ۳۸۱۵، ۵۵۷۸، ۵۶۰۴، ۵۸۰۹، ۵۸۱۰، ۱۶۷۴۴، ۱۹۱۹۰، ۱۹۲۳۷، ۱۹۲۷۹، ۲۰۴۲۳، ۲۰۴۷۹، ۲۰۶۸۵، ۲۰۷۱۴؛ مسند حارث، رقم۳۸۶، ۷۷۶؛ مسند ابو یعلیٰ، رقم۵۳۲۶، ۵۵۸۶، ۵۵۹۲، ۵۴۴۲؛ مسند طیالسی، رقم ۶۶۴؛ مسند شامیین، رقم۵۴۶؛ المعجم الکبیر، رقم ۹۱۲، ۹۱۳، ۲۲۷۷، ۲۴۰۲، ۳۵۷۲، ۵۴۴۲، ۷۶۱۹، ۱۰۳۰۱، ۱۳۱۲۱، ۱۳۳۳۶، ۱۳۳۴۸، ۱۵۵۳۴؛المعجم الاوسط، رقم۴۲۷، ۷۷۷۶، ۸۴۷۰؛ الآحادوالمثانی، رقم۱۵۶۷؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۱۷۴، ۳۷۱۷۶، ۳۷۲۶۶؛ خلق افعال العباد، رقم۲۸۳، ۲۸۵۔
________________